دسویں رجب 1439 ہجری ولادت امام محمد تقی الجوّادؑ

2 views
Skip to first unread message

Syed-Rizwan Rizvi

unread,
Mar 29, 2018, 8:19:52 AM3/29/18
to ziaraa...@googlegroups.com
Ziaraat.Com Newsletter
پڑھنے میں دشواری؟ ویب ماسٹر کو مطلع کریں? webm...@ziaraat.com
Ziaraat.Com زیارات
مسلمانوں کے مقدّس مقامات - اور مزید بہت کچھ
مرکزی صفحہ | لَوک اِن | رہنمائی | کیلنڈر | فاتحہ | تاثراتی کتاب

زیارات


مندرجات


مخصوص

دسویں رجب 1439 ہجری
ولادت امام محمد تقی الجوّادؑ


السلامُ علیکم

اس خوشی کے موقع پر ہم رسول اللہؐ، امامِ زمانہؑ، اہلبیتؑ اور تمام مومنین و مومنات کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ مومنیں و مومنات کو اس دن زیارتِ جامعہ پڑھنے کی بھی ھدایت کی گئی ہے۔

امام محمد تقیؑ کی ولادت اور آپ کے والدین


آپ امام علی رضاؑ کے اکلوتے فرزند تھے۔رسول اللہ نے فرمایا تھا: نویں امامؑ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آب پاک اور صالح ہوں گے۔

امام موسیٰ کاظمؑ نے اپنے ایک چاہنے والے سے فرمایا کہ میری بہو بہت ہی صالح خاتون ہوں گی اور اُن کو میرا سلام کہنا۔ امام محمد تقیؑ کی والدہ اُسی قبیلے سے تھیں جس سے رسولِ اکرمؐ کی زوجہ جناب ماریہ قبطیہ تھیں۔

امام محمد تقیؑ کی ولادت کے وقت آپ کے والد امام علی رضاؑ کی عمرِ مبارک 45 برس کی تھی۔ اُس سے قبل امام علی رضاؑ کو بے اولادی کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ جب امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی تو امام رضاؑ کے ایک بھائی نے برہمی کا اظہار کیا کیونکہ اُن کو جائداد سے محرومی کا افسوس تھا۔ اِس برہمی اور جلن نے اتنا زور پکڑا کہ یہ مشہور کرنے کی سازش کی گئی کہ امام علی رضاؑ اس بچے کے والد نہیں ہیں۔ بالآخر اِس سازش کا خاتمہ اُس وقت ہوا جب ایک مایرِ انصاب نے یہ تصدیق کر دی کہ امام رضاؑ ہی اِس بچے کے والد ہیں۔

 

امامؑ کا بچپن

نویں امامؑ ابھی صرف پانچ برس کے تھے جب آپ کے والد کو مامون رشید نے بغداد بلا بھیجا کہ آپؑ اُس کے جانشین بن جائیں۔ جب امام رضاؑ بغداد روانہ ہوئے تو امامؑ محمد تقیؑ نے اپنے سر پر خاک ڈالنا شروع کی۔ پوچھا گیا کیوں تو فرمایا کہ یتیم ایسا ہی کرتے ہیں۔ امام رضاؑ کو مامون کے قبیح کردار کا علم تھا اور آپ کو یہ بھی پتا تھا کہ آپ کو واپس مدینہ آنا نصیب یہ ہو گا۔لہٰذا روانگی سے قبل آپ نے اپنے فرزند کو اپنا جانشین مقرر کر دیا اور اُنکو تمام علمِ لدنّی سے آگاہ فرما دیا۔

دورِ امامت

امام علی رضاؑ کو 17 صفر 203 ہجری میں زہرِ دغا دیا گیا اور اُسی روز سے امام محمد تقی الجوادؑ نے امامت کے فرائض سنبھال لئے۔ اُس وقت آپ کی عمرِ مبارک صرف آٹھ برس تھی۔ اسی عمر میں آپ کے علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف آپ نے اپنے دور کے مشہور علماء کے ساتھ فقہ، حدیث، تفسیر و دیگر علوم میں مباحثے کئے بلکہ اُن سے ستائش و آفرین بھی حاصل کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کم عمری میں ہی مشہور ہو گیا کہ آپ علمِ لدنّی کے حامل ہیں اور آپ کا علم حاصل کیا ہو نہیں بلکہ خدا کی طرف سے عطا کیا ہو ہے۔

امام محمد تقی الجوادؑ سب سے کم عمر میں منصبِ امامت پر فائض ہوئے۔ آپ کی کل عمرِ مارک 25 برس تھی جو تمام اماموں میں سب سے کم ہے۔ آپ کی امامت کا عرصہ 17 برس کا ہے۔ آپ کو معتصم عباسی نے 220 ہجری میں شہید کروا دیا۔ امامؑ نے اپنے علم و فضل کا اظہار کئی مرتبہ دربار میں بھی فرمایا اور ایک مرتبہ ایک تین روزہ نشست میں تیس ہزار سوالات کے جوابات دئے۔

علمِ امامؑ کا ایک نمونہ

ایک مرتبہ مامون کے دربار کے ایک مشہور عالم یحییٰ بن اکثم کو امامؑ سے مباحثے کے لئے تیار کیا گیا۔ سازش یہ تھی کہ امامؑ کو مشکل سوالات کر کے اُن کے جوابات سے عاجز کیا جائے اور لوگوں کو باور کروایا جائے کہ امامؑ کے پاس کوئی علمِ لدنّی نہیں ہے۔ امامؑ کو اِس مباحثے کے لئے دربار میں بلایا گیا۔

یحییٰ نے فقہہ کے مشکل ترین مسائل میں سے سوال منتخب کر کے امامؑ سے پوچھا: جو شخص حالتِ احرام میں شکار کرے تو اُس کا کیا کفّارہ ہے؟ امام محمد تقیؑ نے جواب میں فرمایا کہ "پہلے اپنے سوال کو مکمل کرو کیونکہ اِس میں 11 مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں

.شکار حرم کی حدود کے اندر کیا گیا تھا یا باہر؟
۔ شکاری اِس سے متعلق شریعت کے احکام سے واقف تھا یا جاہل؟
۔ شکار عمداَ کیا گیا یا سہواَ؟
۔ شکاری آزاد تھا یا غلام؟
۔ شکاری بالغ تھا یا نابالغَ؟
۔ شکاری نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اِس پہلے بھی کر چکا تھا؟
۔ شکار پرندہ تھا یا جانور؟
۔ شکار بڑا تھا یا چھوٹا؟
۔ شکاری اِس پر پشیمان تھا یا اِس کے درست ہونے پر مُصِر تھا؟
۔ شکار دِن میں کِیا گیا تھا یا رات میں؟
۔ احرام حج کا تھا یا عمرہ کا؟

تیرے سوال میں کونسی صورت ہے کیونکہ ہر صورت میں شریعت کے احکام مختلف ہیں۔

یحییٰ ابن اکثم اس مسئلہ کی اتنی فروع واقسام سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اور آثار ناتوانی اس کے چہرہ سے نمایاں ہونے لگے، زبان میں لکنت پیدا ہوگئی اور اس طریقے سے پیدا ہوئی کہ حاضرین مجلس بھی آنحضرتؑ کے مدَّ مقابل اس کی ناتوانی کو سمجھ گئے۔ مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر گذار ہوں کہ جو میں نے سوچا تھا وہی واقع ہوا، پھر اپنے خاندان کے افراد پر نگاہ ڈالی اور کہا: جس کو تم نہیں جانتے تھے کیا اس سے واقف ہوگئے.... اور اس کے بعد جب سب لوگ پراکندہ ہوگئے اور خلیفہ کے حوالیوں کے علاوہ کوئی جلسہ میں باقی نہ رہ گیا تو مامون نے امام جوادؑ کی طرف رخ کیا اور عرض کیا: میں آپ پر قربان جائوں کیا خوب ہے کہ اگر حالت احرام میں شکار کی ان فروع واقسام کے احکام کو آپ ہی بیان فرمادیںتاکہ ہم بھی اس سے استفادہ کریں۔

امامؑ نے فرمایا:
۔ اگر شکار حالتِ احرام میں حرم کی حدود کے باہر کیا گیا تھا اور بڑا پرندہ تھا تو کفّارہ ایک بکری ہے۔
۔ اگر یہی شکار حرم کی حدود کے اندر کیا گیا تھا تو کفّارہ دو بکریاں ہیں۔
۔ اگر شکار حالتِ احرام میں حرم کی حدود کے باہر کیا گیا تھا اور چھوٹا پرندہ تھا تو کفّارہ ایک بھیڑ ہے جس کی مدّتِ رضاعت مکمل ہو چکی ہو۔
۔ اگر یہی شکار حرم کی حدود کے اندر کیا گیا تھا تو کفّارہ اُس پرندے کی قیمت اور ایک بھیڑ ہے۔
۔ اگر شکار چارپایہ تھا اور گور خر (گدھے کے مانند جانور) تھا تو کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ تھا تو ایک اونٹ ہے اور اگر ہرن تھا تو ایک بکری ہے۔
۔ اگر یہی شکار حرم کی حدود کے اندر کیا گیا تھا تو کفارہ دوگنا ہے۔
۔ اگر احرام عمرہ کا تھا تو کفّارہ کو خانہ کعبہ لا کر ذبح کیا جائے گا اور اگر حج کا تھا تو قربانی منیٰ میں کی جائے گی۔
۔ شکاری شریعت کے احکام سے واقف ہو یا جہل اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دونوں صورتوں میں کفّارہ ایک جیسا ہی ہے۔
۔ اگر شکار عمداَ کیا گیا تھا تو گناہ بھی سرزد ہوا ہے اور اگر سہواَ ہو گیا تھا تو کوئی گناہ نہیں۔
۔ اگر شکاری آزاد تھا تو کفّارہ شکاری پر ہی ہے اور اگر غلام تھا تو کفّارہ اُس کے آقا پر ہے۔
۔ کفّارہ بالغ پر واجب ہو گا لیکن نابالغ پر واجب نہیں ہو گا۔
۔ اگر شکاری اپنے فعل پر پشیمان ہے تو اُس پر روزِ قیامت کوئی سزا نہیں اور اگر مُصِر ہے تو سزا کا حقدار ہو گا۔

امامؑ کے اقوالِ حکیمانہ

جو شخص لوگوں سے صلح جوئی کو ترک کرتا ہے آفات اُس کو گھیر لیتی ہیں

جو شخص ظلم و بربریت کرے، جو اُس کی مدد کرے اور جو اُس پر راضی ہو وہ تمام اِس ظلم میں شریک ہیں

دین عزت ہے، علم خزانہ ہے اورخاموشی نورہے

دعاکے ذریعہ سے ہر بلا ٹل جاتی ہے

جوخداکے بھروسے پرلوگوں سے بے نیازہوجائے گا، لوگ اس کے محتاج ہوں گے

انسان کی تمام خوبیوں کامرکززبان ہے

انسان کے کمالات کا دار و مدار عقل کے کمال پرہے

جلد بازی کرکے کسی امرکوشہرت نہ دو، جب تک تکمیل نہ ہوجائے



التماسِ دُعا
سید رضون رضا رضوی
 ویب ماسٹر، http://www.ziaraat.com

 

ہمارے فیس بُک گروپ میں شامل ہو جائیں: https://www.facebook.com/groups/ZiaraatDotCom/
ہمارے فیس بُک صفحے کو پسند فرمائیں : https://www.facebook.com/ZiaraatDotCom/

یہ مراسلہ ویب سائٹ زیارات ڈوٹ کوم کے 20,918 ممبران
اور فیس بُک کے 64,811 ممبران کو اِرسال کیا جاتا ہے

کو عطیہ دیجئے Ziaraat.Com

آپ کا عطیہ معصومینؑ کے پیغام کو بہت سے افراد تک پہنچانے میں مددگار ہو گا۔

اگر اوپر دیا گیا لنک کام نہ کرے تو نیچے دئے گئے لنک پر جائیں
https://www.paypal.com/cgi-bin/webscr?cmd=_s-xclick&hosted_button_id=XM826597CGP5Q

Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages