UET Lahore's outstanding performance

1 view
Skip to first unread message

Arif Shafi

unread,
Dec 12, 2025, 11:23:52 AMDec 12
to UETians
Really it proud for every alumni!



پاکستان کے نظامِ تعلیم پر اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی زبوں حالی، کمزور گورننس، سیاسی و سفارشی تقرریاں اور وسائل کی کمی ہمیشہ سے بحث کا موضوع رہی ہیں۔ ایسے میں جب حکومتی پالیسی ساز اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان بار بار یہ دعویٰ دہراتے نظر آتے ہیں کہ قومی ادارے اب چل نہیں سکتے اور ان کا بند ہونا ہی مسئلے کا واحد حل ہے، وہاں شاہد منیر جیسے وڑنری ماہرینِ تعلیم اپنے حصے کی روشنی جلائے رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف جھنگ سے لے کر یونورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی تک جس ادارے میں بھی گئے، وہاں کے حالات بدلے اور ماحول سنوارا۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ان کا ایک سال اسی استقامت اور وڑن کا ثبوت ہے، جو نہ صرف کسی معجزے سے کم نہیں بلکہ یہ امید بھی دلاتا ہے کہ اس نظام میں ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اپنے فرائض کو عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں سب سے بڑی کامیابی تعلیمی ترقی اور داخلوں میں غیر معمولی اضافہ تھا۔ طلبہ کی تعداد 12,500 سے بڑھ کر 20,000 تک جا پہنچی اور صرف ایک سال میں 9,920 نئے داخلے ہوئے جبکہ اس سے پہلے سالانہ اوسط محض 2,715 تھی۔ اس کے ساتھ ہی 31 نئے بی ایس اور 6 ایم ایس پروگرام شروع کیے گئے، اور سبھی پروگرام متعلقہ قومی و بین الاقوامی اداروں سے منظور شدہ ہیں۔ یوں UET نے اپنے تعلیمی دائرہ کار کو جدید تقاضوں کے مطابق وسعت دی۔ اساتذہ اور طلبہ کا تناسب بہتر رکھا گیا اور گورننس کے تمام قانونی فورمز باقاعدگی سے فعال رہے، جن میں فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی، سنڈیکیٹ، سلیکشن بورڈ اور اکیڈمک کونسل شامل ہیں۔ فیکلٹی اور ملازمین کی ترقی اور اپ گریڈیشنز کا سلسلہ بھی تیزی سے آگے بڑھایا گیا، اور ادارے میں موجود سالہا سال کے تعطل کو ختم کیا گیا۔عالمی سطح پر UET لاہور کی پہچان میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔
 Ranking Sustainability QS میں 420 پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور یونیورسٹی کا نمبر 603 تک پہنچا۔ QS World Ranking 2025میں UET نے انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کی کیٹگری میں 205واں نمبر حاصل کیا، جبکہ پہلی بار دس مضامین Ranking QS Subjectمیں شامل ہوئے۔ واشنگٹن معاہدے کے تحت Outcome-Based Education میں UET کو بینچ مارک یونیورسٹی کا درجہ ملنا اس بات کی علامت ہے کہ ادارہ بین الاقوامی سطح کے تعلیمی معیار تک پہنچ چکا ہے۔ HEC کی جانب سے UET کو Responsible University قرار دیا جانا بھی اسی اعتماد کا اظہار ہے۔
بین الاقوامی سطح پر سب سے بڑی پیش رفت Erasmus+CBHE پروگرام کے تحت آٹھ لاکھ یورو کی گرانٹ کا حصول ہے، جس کے ذریعے BRIDGE منصوبہ شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت سات پاکستانی اور دو یورپی جامعات کے اشتراک سے لاکھوں افراد کی تربیت، Industry5.0 اورInnovation Center Digital کا قیام، جدید کورسز کی تیاری اور انڈسٹری سے جڑے تربیتی پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو آنے والے برسوں میں پاکستان کی انجینئرنگ تعلیم کے ڈھانچے کو نئے رجحانات سے ہم آہنگ کریں گے۔
طلبہ کی سرگرمیوں اور معاونت میں بھی ایک زبردست حرکت نظر آئی۔ 41 سوسائٹیوں نے سال بھر میں 406 ایونٹس منعقد کیے، جبکہ ریسرچ انیشیئٹیو سکیم اور ایڈجنکٹ فیکلٹی پالیسی نے تدریسی و تحقیقی ماحول کو مضبوط کیا۔ تمام یونیورسٹی بسوں کی فٹنس بحال کی گئی اور PinTech Expo میں UET کے طلبہ نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ اسی طرح AI سمر انٹرن شپ پروگرام کے ذریعے 135 سے زائد امیدواروں میں سے 60 طلبہ کو جدید ترین ٹیکنالوجیز کی عملی تربیت فراہم کی گئی۔
مالی بحران پر قابو پانا شاید اس سال کی سب سے خاموش مگر سب سے اہم کامیابی تھی۔ بغیر فیس بڑھائے آمدن میں اضافہ کیا گیا، کمرشل ٹیسٹنگ، انڈسٹری ٹریننگ اور اثاثوں کی بہتر کرایہ داری کے ذریعے ادارے نے اپنے مالی ڈھانچے کو مستحکم کیا۔ پینتیس فیصد تنخواہوں میں اضافہ، پنشن اور دیگر فنڈز کی مضبوطی، زیر التوا ٹیکسوں کی ادائیگی اور بڑے مالیاتی خسارے میں کمی نے برسوں پرانے مسائل کا خاتمہ کیا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے ایک ارب روپے کے نرم قرضے نے بھی اس استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔ترقیاتی منصوبوں میں مین کیمپس اور سب کیمپسز کی درجنوں عمارتوں کی مرمت، اپ گریڈیشن، نئے ہاسٹلز کے لیے اربوں روپے کی گرانٹ اور جدید لیبارٹریز کے قیام شامل ہیں۔ علی مردان ہال، ہاسٹلز، مساجد، المنی ہاؤس، واٹر سسٹمز، کلاس رومز اور کمپیوٹنگ بلاک تک، بے شمار منصوبے ایک ہی سال میں مکمل ہوئے۔ نارووال اور فیصل آباد کیمپس میں بھی اہم منصوبوں کی تکمیل نے ان کیمپسز کی افادیت بہتر بنائی۔الومنائی نے بھی غیر معمولی تعاون کیا، جس کے تحت فلٹریشن پلانٹس، اے سیز، کمپیوٹرز، اٹینڈنس سسٹمز اور مختلف بلڈنگز کی تزئین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے کی معاونت فراہم کی گئی۔ اسکالرشپ فنڈز میں بھی نمایاں اضافہ ہوا اور 1,586 طلبہ کو وظائف ملے۔
جدت و اختراع کے شعبے میں UET نے نئے روبوٹس، اینٹی اسموگ گن، پیٹنٹس اور ریسرچ سینٹرز کے قیام کے ذریعے اپنی سمت واضح کی۔ PPL اور SUPARCO کی جانب سے فنڈنگ حاصل کرنا اس اعتماد کا ثبوت ہے جو ملکی ادارے UET کی تحقیق پر کر رہے ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں ایک سال میں حاصل کرنا کسی وی سی کے لیے معمول کی بات نہیں۔ یہ اس یقین کا نتیجہ ہے کہ اگر وڑن، دیانت اور مسلسل محنت موجود ہو تو سرکاری ادارے نہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ ترقی کے نئے معیارات بھی قائم کر سکتے ہیں۔ شاہد منیر کا یہ سفر صرف UET کی کہانی نہیں، بلکہ اس سوچ کی فتح ہے جو کہتی ہے کہ پاکستان کا تعلیمی مستقبل ابھی خراب نہیں ہوا، اور یہ ملک اپنے مخلص لوگوں کی وجہ سے آج بھی امید کی روشنی رکھتا ہے۔

Regards,
Arif Shafi
Yanbu, KSA
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages