جگر مرادآبادی کی توبہ

1,498 views
Skip to first unread message

Khalid Umri

unread,
Oct 20, 2015, 1:17:49 AM10/20/15
to bazme...@googlegroups.com

جگر مرادآبادی کی توبہ….کاشف ضیائی

بیسویں صدی کے نصف اول میں مقبول ہونے والے ایک بڑے شاعر حضرت جگر مراد آبادی ہیں۔ آپ کو رئیس المتغزلین اور شہنشاہِ غزل بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مشہور شعر ہے

طولِ غم، حیات سے نہ گھبرا اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو

جگر صاحب اپنی خوش فکری اور خوش بیانی کے باعث بہت سوں پر بازی لے گئے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ دستِ قدرت نے شہرت و ناموری کا تاج جگر صاحب کے سر پر سجایا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ آپ کی شاعری خوش آہنگ تھی، شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت بھر میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ راقم انہی کی شراب نوشی سے متعلق کچھ چشم کشا انکشافات پیش کر رہا ہے۔

جگر کا پیدائشی نام ’’علی سکندر‘‘ تھا۔ مرادآباد میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم پائی۔ ابتدائی تعلیم تو حاصل کر لی لیکن لااُبالی طبیعت کی وجہ سے اور کچھ گھریلو حالات کی خرابی کے باعث میٹرک نہ کر سکے۔ البتہ اپنے ذاتی شوق اور دستور کے موافق گھر میں ہی فارسی پڑھ لی۔
جگرمرادآبادی نے ابتدائے شباب سے ہی شاعری اور شراب نوشی شروع کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جگرصاحب برصغیر پاک و ہند میں اپنی انہی دوباتوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ شاعر ایسے تھے کہ ان کا کلام عشق و محبت کا سچا آئینہ دار شمار ہوتا اور شراب نوش ایسے کہ لوگ مشاعرے کے بعد اُٹھا کر گھر لاتے۔بلانوشی کے سبب وہ ہوش میں نہ ہوتے۔ انہی کا ایک شعر ہے ؎
پینے کو تو بے حساب پی لی
اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا

جگرصاحب کے ذاتی کردار میں ایک ہی خامی تھی کہ وہ بلانوش تھے، ورنہ طبیعت میں غیرت و حیا کی کمی نہ تھی۔ محفل میں ہمیشہ نظریں نیچی کرکے بیٹھتے۔ شریکِ محفل مستورات کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوتے۔ صاف دل اور صاف باطن تھے۔ سخاوت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مہمان کے آنے سے خوش اور جہاں تک ہو سکتا، اُس کا اکرام کرتے۔
اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی رہی کہ جگر کی خوبصورت غزلیں اُن کی کثرتِ مے نوشی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جگر نے شراب نوشی سے توبہ کے بعد جو غزلیں کہیں، وہ اُن غزلوں سے کہیں زیادہ فائق ہیں جو پہلے کہی گئیں۔ توبہ کے بعد کہی گئی غزلوں میں خاص قسم کا سوزوگداز اور کیف و مستی پائی جاتی ہے۔ جگر صاحب نے خود ایک مرتبہ کہا تھا ’’میں شراب نوشی کے بعد کئی کئی گھنٹے روتا ہوں اور شعر میں نے کہے ہیں شراب نے نہیں۔‘‘

اُردُوزبان کے مشہور ادیب اور مفکر رشید احمد صدیقی مرحوم بیان کرتے ہیں کہ حالتِ خمار میں بھی جگر کے منہ سے کوئی ناشائستہ بات اور قابلِ گرفت جملہ نہ نکلتا۔ وہ شراب کے نشے میں بڑے رکھ رکھائو کے قائل تھے۔ جب نشہ زیادہ گہرا ہوجاتا تو چپ چاپ ایک طرف ہوجاتے اور کسی سے کلام نہ کرتے۔ ایسے حال میں کوئی دین یاعلمہٰ دین کے خلاف کوئی بات کرتا تو حال سے بے حال ہوجاتے اور بدمستی کا پورا زور اُس پر صرف کرتے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جگرصاحب میں حُبِ دین کا جذبہ بہت غالب تھا۔ ان کی دین دوستی کی شہادت علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی دی ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ کا تذکرہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

قیامِ پاکستان سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جگرصاحب نے اپنے ایک دوست کے اصرار پر کاردار فلم کمپنی سے فلمی گانے لکھنے کا معاہدہ کرلیا۔ معاہدہ یہ تھا کہ جگرصاحب دس غزلیں دیں گے اور فی غزل ایک ہزار روپیہ معاوضہ مل جائے گا۔ 10 ہزار روپے اُس زمانہ میں خاصی بڑی رقم تھی۔ فلم کمپنی کے ذمے دار نے بات پکی کرنے کی غرض سے انھیں 5 ہزار روپیہ پیشگی دے دیا۔ جگرصاحب نے رقم وصول کر لی اور گھر آگئے۔

لیکن اُسی رات انھوں نے ایک خواب دیکھا کہ غلاظت کا ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جس پر ایک شیر بیٹھا ہے۔ پہاڑ کے دامن میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ وہ شیر وقفے وقفے سے اپنے دونوں پنجوں سے غلاظت اچھال رہا ہے۔ لوگ اُس غلاظت سے اپنا دامن بھر رہے ہیں۔ شیر کا جسم اور لوگوں کے کپڑے سب غلاظت سے آلودہ ہیں۔
اسی اثنا میں جگر کی آنکھ کھل گئی۔ سانس ابتر تھی اور ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ صبح ہوئی تو جگرصاحب نے روپیہ فلم کمپنی کو واپس کردیا اور آیندہ فلمی گانے لکھنے سے توبہ کرلی۔

جگر کو عموماً بھارت کا سب سے بڑا شراب نوش شاعر کہا جاتا ہے۔ سستی اور گھٹیا قسم کی شراب انھوں نے اس کثرت سے پی کہ اس کی نظیر ادبیات کی تاریخ میں نہ ملے گی۔ پھر رفتہ رفتہ ان کا دل توبہ کی طرف مائل ہوا۔ طبیعت شراب سے بے زار رہنے لگی اور دل میں یہ بات آئی کہ کسی اللہ والے کے ہاتھ پر شراب خانہ خراب سے توبہ کی جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی سے مشورہ کیا۔ خواجہ عزیز الحسن مراد آبادی جگر کے گہرے دوست تھے۔ مشاعروں میں بھی جگر کے ساتھ شریک ہوتے۔ بڑے باکمال اور قادرالکلام شاعر تھے۔ عشقِ حقیقی کے قائل تھے اور مجاز کے پردے میں حقیقت بیان کرتے۔ خواجہ صاحب کا تخلص ’’مجذوب‘‘ تھا۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’کشکولِ مجذوب‘‘ کے نام سے طبع ہو چکا۔

یہ خواجہ صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔ ان سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ مولانا تھانوی کو اپنا یہ شعر سنایا۔

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

مولانا نے اس پر خوب داد دی اور انعام سے نوازا۔ انہی خواجہ صاحب نے جگر کو بھی مولانا تھانوی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ جگرصاحب خود تو مولاناکی خانقاہ (تھانہ بھون) حاضر نہ ہوئے۔ ایک سفید کاغذ پر اپنا یہ فارسی شعر لکھ بھیجا۔
بہ سرِ تو ساقی مستِ من آید سرورِ بے طلبی خوشم
اگرم شراب نمی دھدبہ خمارِتشنہ لبی خوشم

(’’اے میرے مدہوش ساقی! تیرے دل میں یہ بات ہے کہ میں تجھ سے کچھ نہ مانگوں۔ ٹھیک ہے اگر تو مجھے شراب نہیں دیتا تو میں اِسی تشنہ لبی کے خمار میں ہی خوش ہوں۔‘‘)
چنانچہ یہ خط مولانا کی خدمت میں پہنچایا گیا۔ مولانااشرف علی تھانوی کے لیے فارسی اجنبی نہیں تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا نے بچپن میں قرآنِ پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد ذاتی شوق سے فارسی پڑھی۔ اس دوران عربی تعلیم شروع ہونے سے پہلے کچھ عرصہ فارغ گزارا۔ فرصت کے اِن دنوں میں مولانا نے ایک فارسی مثنوی ’’زیروبم‘‘ کے عنوان سے تخلیق کی۔ یہ مولانا کا بچپن تھا۔ اُس زمانہ میں فارسی کا معیار بھی بہت اونچا ہوا کرتا تھا۔ (یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے جبکہ مولانا کا انتقال ۱۹۴۳ء میں ہوا۔) مولانا تھانوی خود بھی اشعار کا نہایت عمدہ اور نفیس ذوق رکھتے تھے۔ مثالیں اُن کے ملفوظات میں بکثرت بکھری پڑی ہیں۔ مولانا کے خلفاء و مریدین میں سے بھی اکثر صاحبِ دیوان ہوئے ہیں۔

چنانچہ انھوں نے جگر کے خط کو پڑھا تو ان کی مراد سمجھ گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کاغذ کے دوسری جانب مندرجہ ذیل شعر لکھ کر جگر کو واپس بھجوا دیا۔
نہ بہ نثرِ نا تو بے بدل، نہ بہ نظم شاعر خوش غزل
بہ غلامی شہہ عزوجل و بہ عاشقی نبیؐ خوشم

(’’اے جگر تیرا تو یہ حال ہے لیکن میرا یہ حال ہے کہ نہ میرا کسی عظیم ادیب کی تحریر میں دل لگتا ہے اور نہ ہی مجھے کسی بڑے شاعر کی شاعری خوش کرتی ہے۔ بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی غلامی میں ہی خوش رہتا ہوں۔‘‘)
قدرت کو جب کسی ہدایت کا انتظام کرنا منظور ہو تو اس کے لیے وہ اسباب بھی خود مہیا کرتی ہے۔ یہ خط جب جگرصاحب کے پاس پہنچا تو اُن کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ دیر تک روتے رہے۔
اگلے ہفتے وہ خواجہ صاحب کی معیت میں مولانا کی خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ مولانا صاحب شاید پہلے ہی سے منتظر تھے۔ توبہ ہوئی اور بیعت بھی۔ اس کے بعد جگر نے مولانا سے چار دعائوں کی درخواست کی۔ ایک یہ کہ وہ شراب چھوڑ دیں۔ دوسرے ڈاڑھی رکھ لیں، تیسرے حج نصیب ہوجائے اور چوتھے یہ کہ ان کی مغفرت ہوجائے۔ مولانا نے جگر کے لیے یہ 4 دعائیں کیں اور حاضرینِ محفل نے آمین کہی۔ بعدازاں مولانا تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جگر نے محفل میں نہایت سوزوگداز سے اپنی یہ غزل سنائی۔

کسی صورت نمودِسوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی
چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مِٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضور شمعِ پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی سرتاپا محبت ہی محبت ہیں
مگر اِن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی

مولانا اشرف علی تھانوی جیسے عالمِ دین اور شیخ وقت کی مانگی ہوئی پہلی تین دعائوں کی قبولیت تو خدائے پاک نے جگر کو ان کی زندگی میں ہی دکھا دی۔ انہوں نے بیعت کے بعد شراب بالکل چھوڑ دی۔ چونکہ کثرتِ مے نوشی کی عادت تھی لہٰذا اسے بالکل ترک کرنے سے وہ بیمار ہوگئے اور قلب میں درد رہنے لگا۔ جگر و معدہ میں سوزش ہوگئی جس کی وجہ چہرے اور گردن کی جلد پھٹنے لگی۔

اس موقع پر ماہر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھا۔ اُس نے مشورہ دیا کہ تھوڑی مقدار میں اگر شراب جسم کو ملتی رہے تو جسمانی اعضا اپنا کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں گے ورنہ زندگی کا چراغ گُل ہونے کا اندیشہ ہے۔ جگر نے اُن سے پوچھا کہ اگر شراب پیتا رہوں تو کتنا عرصہ جی سکوں گا؟
ڈاکٹر بولے ’’چند سال مزید اور بس۔‘‘
جگر نے کہا ’’میں چند سال خدا کے غضب کے ساتھ زندہ رہوں… اس سے بہتر ہے کہ ابھی تھوڑی سی تکلیف اُٹھا کر خدا کی رحمت کے سائے میں مرجائوں۔‘‘
لیکن بھلا ہوا اخلاص کا کہ خدائے پاک نے جگر کے الفاظ کی لاج رکھ لی اور دیسی علاج سے صحت عطا فرما دی۔ اس دوران لاہور کے مشہور معالج حکیم حافظ جلیل احمد مرحوم سے بھی علاج ہوتا رہا۔

دوسری دعا یہ تھی کہ ڈاڑھی رکھ لیں۔ یہ بھی پوری ہوئی۔ انھوں نے بیعت کے بعد حلیہ سنت کے مطابق کرلیا اور لباس بھی۔ اس دوران نماز کی بھی عادت ڈال لی۔ تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھے رہنے کو بھی اپنا شعار بنا لیا۔ غالباً اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ تانگے میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ تانگے والا باربار نہایت ترنم سے یہ شعر پڑھ رہا تھا:
چلو دیکھ کر آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوگیا

تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک مولوی صاحب رو رہے تھے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہی جگرمرادآبادی ہیں۔
تیسری دعا حج کے متعلق تھی، یہ بھی قبول ہوئی۔ ۱۹۵۳ء میں جگر کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوگئی۔ حج کے ایام میں ایک اتفاقی حادثے کے سبب جگر کو مدینہ منورہ میں زیادہ دنوں تک قیام کا موقع بھی مل گیا۔ حج کے بعد جگر صاحب اکثر بے تکلف احباب میں فرمایا کرتے تھے۔ ’’میں نے 4 دعائیں کروائی تھیں۔ تین تو میری زندگی میں ہی پوری ہوگئیں اور چوتھی دعا (کہ خدا میری مغفرت کرد ے) بھی اِن شاء اﷲ قبول ہوگی۔‘‘ جگرصاحب کا اصل میدان غزل تھا۔ اسی میدان کے شاہ سوار تھے لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جگر نے کچھ نعتیں بھی کہیں۔ شراب نوشی کے بعد جگر نے جو پہلی نعت کہی، اس کا مطلع یہ ہے

اِک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہؐ
ہاں اِک نظرِ رحمت سلطانِ مدینہؐ


Firoz Hashmi

unread,
Oct 20, 2015, 1:27:40 AM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو

مذکورہ مضمون عمدہ ہونے کے باوجود غلطیوں کی وجہ سے پڑھنے میں مزہ خراب ہو جاتا ہے۔ کاپی پیسٹ کرنے والے اصحاب اسے پڑھ کے تصحیح کر لیا کریں۔ تاکہ نئے پڑھنے والوں کے لیے آسانی ہو۔
فیروزہاشمی




--
Mohammad Firoz Alam 
Font Designer & software developer
Resi.  Shanti Vihar, Mangal Bazar, 
          Chipiyana Khurd Urf Tigri, 
          Gautam Budh Nagar (UP) 201307 INDIA
Mobile: 91-98117 42537
Google Talk : firoz...@gmail.com

Khadim Ali Hashmi

unread,
Oct 20, 2015, 2:01:11 AM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
جناب کاشف ضیائی صاحب
سلام مسنون۔ آپ نے بہت عمدگی کے ساتھ رئیس المتغزلین کی زندگی کے ایک ورق کو الٹاہے۔ جگر مرحوم جناب اصغر گونڈوی کے شاگرد اور مرید تھے۔ اگر ان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی جاتی تو آپ کا یہ مضمون مکمل ہوجاتا۔
والسلام 
خیراندیش
خادم علی ہاشمی



Syed Ahmed

unread,
Oct 20, 2015, 2:44:47 AM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
محترم خادم ہاشمی صاحب سلام مسنون
جگر مرادآبادی مرحوم کا ادھر چند دونوں سے کافی چرچا ہو رہا ہے، ویسے تو ان ایام میں نہ ان کی پیدائش ہوئی اور نہ ہی وفات، مگر خوب ان کا ذکر خیر ہو رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کسی کی خوبی یا اچھائی کو، صرف اس کے یوم پیدائش یا یوم وفات تک محدود کرنا بھی، کوئی ضروری امر نہیں، بہر حال آپ نے جس نقطہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ بھی کافی اہم ہے، اس سے جگر صاحب کے اور ان کے استاد اصغر گونڈوی مرحوم کے احوال وکوائف کا تذکرہ ہو جائے گا۔ مجھے دو شاعروں کا انداز بڑا موہنا لگتا ہے ایک جگر مرحوم کا، دوسرے مظفر وارثی مرحوم کا، کہ ان دونوں کی غزلیں اور نعتیں احقر کئی کئی بابر وفور شوق سے سنتا ہے، اور جب جب سنتا ہوں ہر بار دوبارہ سننے کی خواہش مسلسل بنی رہتی ہے، کاشف ضیاء صاحب کا مضمون نوشتہ بھی بہت ہی عمدہ ہے، جسے پڑھ کر ایسا لگا کہ ہم اسی ماحول میں حلول کر گئے ہیں، کاشف صاحب کا حق مبارکبادی ثابت ہے اس لیے انھیں بھی ہمارے احساسات ستائش موصول ہوں۔
والسلام
سید احمد
20-10-2015ش

Syed Ahmed

unread,
Oct 20, 2015, 2:53:03 AM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
محترم خالد صاحب سلام مسنون
بہت شکریہ اس خوبصورت مضمون کے ارسال کرنے پر
والسلام
سید احمد
20-10-2015ش



Khadim Ali Hashmi

unread,
Oct 20, 2015, 7:27:26 AM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
محترم سیداحمد صاحب
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ۔ آپ نے بجا فرمایا۔ کاشف ضیائی صاحب نے واقعی جگر صاحب کے بارے میں انتہائی عمدگی سے لکھا ہے، جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جگر مرحوم ایک آفاقی شاعر ہیں۔ ان کا کلام اور نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ میں نے انہیں کراچی اور حیدرآباد میں مشاعروں میں سنا۔ وہ ایک مرتبہ تشریف لائے تو حیدرآباد میں قابل اجمیری کی عیادت کے لیے ان کی رہائش گاہ بھی گئے۔وہ ایک مجلس ساز شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
خادم علی ہاشمی

Amin Tirmizi

unread,
Oct 20, 2015, 8:20:14 AM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
طولِ غمِ حیات سے گھبرا "نہ" اے جگر۔  شاید کتابت میں غلطی ہوئی ہے جس سے شعر بے وزن ہوگیا ہے اسے دیکھ لیجئے۔ یا ممکن ہے کہ میں غلط ہوں یہ محض میرا اندازہ ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے ۔ معذرت۔

Sarwar Raz

unread,
Oct 20, 2015, 11:38:34 AM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
مکرمی خادم صاحب: سلام مسنون
حضرت جگر مرادآبادی پر آپ کا انشائیہ بہت پسند آیا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کی کتاب گنج ہائے گراں مایہ میں جگر مرادآبادی پر ایک نہایت خوبصورت مضمون ہے۔ اس سے جگر صاحب کی دلسوزی اور رقت قلب پر بڑی اچھی روشنی پڑتی ہے۔ جگر صاحب شرابی ضرور رہے لیکن جب توبہ کی تو ہمیشہ کے لئے ہی کر لی۔ والد مرحوم راز چاندپوری صاحب سے جگر صاحب کے مراسم تھے۔ والد مرحوم ان کی شاعری اور شخصیت دونوں سے بہت متاثر تھے۔
اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔

سرور عالم راز

Khadim Ali Hashmi

unread,
Oct 20, 2015, 9:02:44 PM10/20/15
to BAZMe...@googlegroups.com
مکرمی سرورعالم راز صاحب
سلام مسنون۔ گنجہائے گرانمایہ کی نشان دہی کے لیے شکرگزار ہوں۔ میں نے اسے ایک عرصہ ہوا پڑھا تھا۔ اس کے علاوہ بھی جگر صاحب پر وقتاً فوقتاً بہت کچھ شائع ہوتا رہا ہے۔ وہ ایک زمانے میں اردو شاعری کے حوالے سے اردو ادب پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ نہ صرف غزل کے شہنشاہ تھے بلکہ بہت عمدہ انسان بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔ آمین۔
خادم علی ہاشمی

Syed Ahmed

unread,
Oct 21, 2015, 2:31:22 AM10/21/15
to BAZMe...@googlegroups.com
محترم سرور راز صاحب سلام وتحیۂ مسنونہ

محترم خادم علی ہاشمی صاحب اردو کے سلسلے میں بہت عمدہ وپختہ بات کہنے کے عادی ہیں، متعدد بار بزمِ قلم پر ان کی علمی سنجیدہ اور مدلل رائے سامنے آتی رہتی ہے.
ایسا لگتا ہے کہ یہ ہفتہ بن چاہے ہی جگر مرحوم کا ہوگیا ہے، رشید احمد صدیقی جیسا پائے کا ادیب اور ناقد بھی، اگر ان سے متاثر نظر آتا ہے تو پھر ان کی تحسین  وستائش کی مزید ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
ایک بات تو معروف ہے کہ انسان اپنے دوستوں کی رفاقت وصحبت سے بھی پہچانا جاتا ہے، سرور صاحب! آپ نے اپنے والد مرحوم کا ذکر خیر چاندپوری کے لاحقے کے ساتھ فرمایا تو سوال یہ ہے کہ ایک چاندپور تو ضلع بجنور میں مشہور جگہ ہے جہاں پر کئی قدآور شخصیات ہوئی ہیں یا یہ کوئی اور چاند پور ہے، قدرے وضاحت فرمائیں، نیز جب آپ کے والد مرحوم کے تعلقات جگر مرحوم سے تھے اور عربی کے مقولے کے مطابق منطقی تسلسل بھی ہے کہ "الولدُ سرّ ابيه" یا بزبان علّامہ اقبال: "باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو" کے بموجب بجا طور پر آپ سے ہی درخواست ہے کہ آپ والد مرحوم کے گوشۂ حیات پر بھی روشنی ڈالیں۔
در حقیقت اب وقت آگیا ہے کہ ان بزرگ شعراء پر متعدد زاویوں  سے تحقیق ہو.
والسلام
سید احمد
21-10-2015ش





On Tue, Oct 20, 2015 at 6:35 PM, 'Sarwar Raz' via بزمِ قلم

Arshad Mansoor

unread,
Oct 22, 2015, 12:02:53 AM10/22/15
to BAZMe...@googlegroups.com, nrin...@googlegroups.com, Arshad Mansoor
Inline image 1

Akram Khan

unread,
Oct 22, 2015, 1:05:33 PM10/22/15
to BAZMe...@googlegroups.com
Bhai Khalid sb , aapki ain nawaazish hai Jigar sb per behtareen mazmoon...A J Khan , Pune .

Sent from my iPad

Firoz Hashmi

unread,
Oct 23, 2015, 3:05:14 AM10/23/15
to BAZMe...@googlegroups.com
طولِ غم حیات سے گھبرا    نہ   اے   جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو

کئی روز سے جگر مرادآبادی مرحوم کے بارے میں  یہ مضمون کاپی پیسٹ کے ساتھ چل رہا ہے۔ لوگ اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔
لیکن املا یا جملہ کیوں درست نہیں کرنا چاہتے؟
یہاں سے اخبار والے اٹھائیں گے اور چھاپ دیں گے۔ یا چھاپ چکے ہوں گے۔
جو نئے اردو والے اشعار  کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ پا رہے ہیں وہ ویسے ہی یاد کر لیں یا اور انہی غلط اشعار کے ساتھ بحث و مباحثہ کریں گے۔ نتیجہ اردو زوال کی طرف۔
فیروزہاشمی

Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages