محترم خادم علی ہاشمی صاحب اردو کے سلسلے میں بہت عمدہ وپختہ بات کہنے کے عادی ہیں، متعدد بار بزمِ قلم پر ان کی علمی سنجیدہ اور مدلل رائے سامنے آتی رہتی ہے.
ایسا لگتا ہے کہ یہ ہفتہ بن چاہے ہی جگر مرحوم کا ہوگیا ہے، رشید احمد صدیقی جیسا پائے کا ادیب اور ناقد بھی، اگر ان سے متاثر نظر آتا ہے تو پھر ان کی تحسین وستائش کی مزید ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
ایک بات تو معروف ہے کہ انسان اپنے دوستوں کی رفاقت وصحبت سے بھی پہچانا جاتا ہے، سرور صاحب! آپ نے اپنے والد مرحوم کا ذکر خیر چاندپوری کے لاحقے کے ساتھ فرمایا تو سوال یہ ہے کہ ایک چاندپور تو ضلع بجنور میں مشہور جگہ ہے جہاں پر کئی قدآور شخصیات ہوئی ہیں یا یہ کوئی اور چاند پور ہے، قدرے وضاحت فرمائیں، نیز جب آپ کے والد مرحوم کے تعلقات جگر مرحوم سے تھے اور عربی کے مقولے کے مطابق منطقی تسلسل بھی ہے کہ "الولدُ سرّ ابيه" یا بزبان علّامہ اقبال: "باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو" کے بموجب بجا طور پر آپ سے ہی درخواست ہے کہ آپ والد مرحوم کے گوشۂ حیات پر بھی روشنی ڈالیں۔
در حقیقت اب وقت آگیا ہے کہ ان بزرگ شعراء پر متعدد زاویوں سے تحقیق ہو.
والسلام
سید احمد
21-10-2015ش
On Tue, Oct 20, 2015 at 6:35 PM, 'Sarwar Raz' via بزمِ قلم