بہار اسمبلی انتخابات: ووٹوں کو منتشر کرنے کی قدیم سیاست!( آخری قسط)
" بہار میں ذاتی تشدد اور سیاست کا المیہ"
نور محمد خان ۔ممبئی
بہار میں سیاسی سماجی معاشی تعلیمی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ آزادی کے بعد بہار میں جہاں ایک طرف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس تھی وہیں کانگریس کی پالیسیوں کے خلاف مختلف سياسی پارٹیوں کا وجود عمل میں آیا، ملک کی آزادی سے قبل ہو يا بعد میں منافرت کی سیاست نے عوام کو بہت کچھ سکھا اور بتا دیا، بہار میں ہندو اور مُسلم کی سیاست سے الگ ایک ذات پات، امیری غریبی کی بنیاد پر زمیندرانہ نظام تھا بے زمین اور زمینداروں کے درمیان قتل و غارتگری بھی پیش آیا ۔ ریاست بہار میں وزیر اعلٰی کی فہرست بھی معنی رکھتی ہے اور ان کا تعلق بھی کسی نہ کسی ذات برادری سے ہے ۔جیسا کہ پہلے قسط کے مضمون میں 1952 سے لیکر 2020 تک کانگریس سے لیکر مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی نتائج کے بارے میں ذکر کیا گیا تھا تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو سکے اب دوسری قسط میں دلیت ، پچھڑی اونچی اور نیچی ذات پات کی بنیاد پر تشدد نے ایک تاریخ رقم کی ہے جس میں اونچی اور نیچی ذاتوں کے درمیان زمیندرانہ نظام تنازعہ کا باعث بنا ہوا تھا اعلیٰ ذات کے زمینداروں کے پاس زمینیں تھیں دوسری طرف نچلی ذاتیں، جو زیادہ تر غریب تھیں زمینداری کے خاتمے کیلئے کوشاں تھی ۔ بہار میں کمیونسٹ بغاوت نے اونچی اور نچلی ذاتوں کے درمیان رسہ کشی شروع کر دی۔ مارکسسٹوں اور زمینداروں کے درمیان تنازعہ ذات پات کی بنیاد پر تقسیم نہیں تھا، کیونکہ کچھ درمیانی کسان ذاتیں بھی زمیندار تھیں۔
1960 کی دہائی میں بہار کے بھوجپور خطے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) لبریشن کے بینر تلے جگدیش مہتو کی قیادت میں کمیونسٹ بغاوت دیکھی گئی، جب کہ 1990 کی دہائی میں ذات پات کی شیطانی جنگیں بھی منظر عام پر آئیں۔
دلت اور درمیانی کسان ذاتوں کے غریب کسان باغی بن گئے تھے، جو جمود کے حامیوں کے خلاف اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے، یعنی اونچی ذاتوں کے ساتھ ساتھ متوسط کسان ذاتوں کے متمول طبقات جیسے یادو، کرمی اور کوئری شامل تھے ۔ پہلا عوامی لیڈر جگدیش مہتو کا تعلق کوئری برادری سے تھا اور پیشے سے ٹیچر تھے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر سے متاثر تھے انہوں نے آرا قصبے سے ہریجانستان دلت بھومی کے نام سے ایک اخبار بھی شروع کیا تھا ۔ مذہبی جذبات بھی تلخ تنازعات کا باعث بنی بھاگلپور کا تشدد اس کی ایک مثال ہے۔
1970 میں بھوجپور بغاوت: بھوجپور بہار کا ایک تاریخی خطہ ہے، جو اُجینیا راجپوتوں کے ساتھ اپنی وابستگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ خطہ زمینداری نظام کی بدترین شکل کے لیے بھی جانا جاتا ہے،بھوجپور بغاوت ایک مقبول تحریک تھی جس کی قیادت نئے تعلیم یافتہ پسماندہ ذات کے نوجوانوں نے کی تھی، جن میں جگدیش مہتو، رامیشور آہیر، رام نریش رام، اور مہاراج مہتو شامل تھے۔ کمیونسٹوں کی طرف سے متحرک نوجوانوں نے زمیندار طبقے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔
مصنف سنتوش سنگھ کے مطابق، 1971 سے 1976 کے درمیان بڑی تعداد میں بھومی ہاروں اور دیگر اونچی ذات کے زمینداروں کو مارا گیا۔ مہتو کی موت کے بعد، تحریک ختم ہوگئی، جس سے خطے میں ایک طویل عرصے تک امن قائم ہوا۔
27 مئی 1977 کو ایک واقعہ پیش آیا تھا جب کرمی ذاتی کے زمینداروں نے 11 لوگوں کو باندھ کر گولی مار کر قتل کر دیا تھا جن کا تعلق نچلی اور پچھڑی ذاتوں سے تھا تمام متوفیوں کو ایک ہی چیتا میں جلا دیا گیا معاملہ جب عدالت میں پیش کیا گیا جہاں گواہوں کے بیانات پر دو ملزمین کو موت کی سزا سنائی گئی اور 11 لوگوں کو عمر قید کی سزا دی گئی ۔ ذاتی تشدّد کی وجہ کرمی ذات کے زمیندار اور بے زمین پاسوان برادری کے کسانوں کے درمیان اونچ نیچ اور پچھڑی ذات کی بنیاد پر قتل عام تھا اس لیے ان کے راستے بھی الگ ہوگئے تھے ۔
پارس بیگھہ اور دوہیا، جو پٹنہ سے چند کلومیٹر جنوب میں واقع ہیں، 1950 میں زمینداری نظام کے خاتمے کے بعد سے تناؤ کا شکار تھے۔ سابقہ ٹیکری راج سے زیادہ سے زیادہ زمین چھیننے کی دوڑ نے یادووں اور بھومی ہاروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔
یہاں کے یادووں نے ایک طویل اور تلخ جدوجہد میں دلتوں کی حمایت کی، جس کا اختتام 1979 میں پارس بیگھہ میں بھومی ہاروں کے حملے میں ہوا، جس میں ایک یادو سمیت 11 لوگ مارے گئے۔بھومی ہاروں نے یادووں کی قیادت میں دلت نکسلائٹس کی کارروائی کا بدلہ لینے کے لیے حملہ کیا، جنہوں نے چند دن پہلے ایک بدنام زمانہ بھومی ہار زمیندار کا سر قلم کر دیا تھا۔
پارس بیگھہ کے قتل کے دو دن بعد، یادو بھومی ہار کے مجرموں کی تلاش میں ڈوہیا گاؤں پر اترے جو پارس بیگھہ واقعہ کے فوراً بعد بھومی ہار گاؤں سے منتشر ہو گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق دوہیا واقعہ سے قبل متوسط طبقے کے کل 2000 لوگ جمع ہوئے تھے۔ وہ پارس بیگھہ کے واقعے کا بدلہ لینا چاہتے تھے، جہاں بھومی ہار مجرم تھے۔ اس کے بعد ہجوم ڈوہیا گاؤں میں داخل ہوا جہاں بہت سے بھومی ہار خاندان رہتے تھے۔انہوں نے کئی بھومی ہار خاندانوں میں لوٹ مار کے بعد خواتین کے ساتھ بدسلوکی چھیڑ چھاڑ اور اجتماعی عصمت دری کی ـ
پپرا ضلع جہان آباد کا ایک گاؤں ہے۔ یہاں کے زمیندار کرمی ہیں، جو ایک پسماندہ ذات سے تعلق رکھتے ہیں ماضی میں زمین کے مالک مسلم زمیندار تھے، جنہوں نے تقسیم کے وقت اپنے دلت کرمیوں کی مدد سے گاؤں چھوڑ دیا،بہت سے کرمیوں کی خواہشات کے خلاف، جنہوں نے مسلمانوں کے گھر جلانے کا منصوبہ بنایا۔ بعد میں زمینداروں نے اپنی زمین کرمی خریداروں کو بیچ دی، جو دلت مزدوروں سے پرانے زمینداروں جیسی عزت کی توقع کرنے لگے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دلت نکسل تحریک کے ہمدرد بن گئے۔ 1978-79 میں خشک سالی کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوئے جس نے ان کی حالت انتہائی خراب کر دی۔ دسمبر 1979 میں نکسلیوں نے ایک کرمی زمیندار کو قتل کر دیا، جوابی کارروائی میں 25 فروری 1980 کو بھاری ہتھیاروں سے لیس افراد نے پپرا گاؤں میں دلتوں کے گھروں پر حملہ کیا۔ بہار کے مونگیر ضلع میں دریائے گنگا کے جنوبی کنارے پر ایک خونریز تصادم میں یادووں نے دھنوک ذات کے چار لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ اسی سال جوابی کارروائی میں دھنوکوں نے پپڑیا گاؤں سے یادووں کے چودہ بچوں کو اغوا کیا اور چارہ لینے کے لیے دریا کے پار لے گئے۔ تین کے علاوہ باقی تمام بچوں کو قتل کرکے لاشوں کے ٹکڑے کر دیے گئے تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔
1985 میں، بہار کے مونگیر ضلع میں راجپوتوں اور یادووں کے درمیان حملوں اور جوابی کارروائیوں کے دوران تین قتل عام ہوئے۔ یادو اور راجپوت زمین کے تنازع میں ملوث تھے۔ راجپوت متنازعہ زمین پر کاشتکاری کے لیے بھنڈ نامی قبائلی برادری کو لائے تھے۔یادو گھوڑے اور پیدل گاؤں میں داخل ہوئے اور نو لوگوں کو مار ڈالا۔ انہوں نے راجپوت کے چار سو گھروں کو بھی لوٹ لیا۔ اس حملے میں ایک نومولود بچی بھی ماری گئی۔
1986 میں گاؤں چھوٹکی چھیچانی میں ایک الگ واقعے میں راجپوت حملہ آوروں نے سات یادووں کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے بعد گاؤں کے یادووں نے اگلے سال بدلے میں 11 راجپوتوں کو قتل کر دیا۔1987 بہار کے اورنگ آباد ضلع کے بگورا گاؤں میں یادو اور راجپوت برادریوں کے درمیان سینکڑوں ایکڑ اراضی کا تنازعہ ایک قتل عام کا باعث بنا جس میں یادو اکثریتی ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر نے 50 سے زیادہ راجپوتوں کو ہلاک کر دیا۔
اس قتل عام کے نتیجے میں 40 راجپوت خاندانوں کو گاؤں سے بے دخل کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ بندیشوری دوبے نے متاثرہ خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کی شکل میں راحت کا اعلان کیا۔ بعد ازاں کچھ مجرموں کو عدالت نے سزائے موت سنائی۔
بگوارا قتل عام کو لکشمن پور باٹھ کے ساتھ بہار کی تاریخ میں ذات پات پر مبنی سب سے بڑے قتل عام میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔بہار کے اورنگ آباد ضلع کے جڑواں دیہات میں پیش آنے والے اس خاص واقعے میں مصنفین اشوک کمار اور ایس کے گھوش کا ذکر ہے کہ مجرموں کی طرف سے راجپوت خواتین کی عصمت دری کے بعد مردوں اور عورتوں کا قتل عام ہوا۔
1988 میں جہان آباد ضلع سے متصل ایک کیلو میٹر کی دوری پر واقع نونہی گڑھ اور نگواں گاؤں میں نامعلوم افراد نے دلیت سماج کے 19 افراد کا قتل کر دیا تھا دونوں گاؤں کے اطراف میں یادو ذات کے زمیندار رہتے تھے اس واقعہ کے بعد یادوں نے بیان دیا کہ مذکورہ فائرنگ کی آوازیں ہم لوگوں نے نہیں سنی ہے اور اس کی اطلاع بھی گاؤں کے دليت پڑوسیوں نے دی ہے
اس وقت کے وزیر اعلیٰ بھاگوت جھا نے ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا جن کو سرکار نے بندوق کا لائنسنس فراہم کیا تھا کیوں کہ وہ ان لوگوں کمزور لوگوں کو بچانے میں ناکام ہوۓ تھے
بہار کے بھوجپور ضلع میں 1989 میں دنوار بیھٹہ کا قتل عام بھی تاریخ میں درج ہے کیوں کہ یہاں بھی اعلیٰ ذات کے راجپوت زمینداروں دلتوں کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کو جبراً ووٹ دلوانے کیلئے پولنگ بوتھوں پر قبضہ کر لیتے تھے اس ظلم و زبر کے خلاف دلتوں نے من بنایا کہ اب ہم اپنے امیدواروں کو ووٹ دینگے اسی بات کو لےکر 1989 میں 23 دلتوں کو قتل کر دیا گیا ۔ بہار کے کوسی علاقے میں 1990،91 کے درمیان آنند موہن سنگھ اور پپو یادو گروہ متحریک تھا جن کا مقصد اپنے برادریوں کی حفاظت کرنا تھا ۔1991 میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آنند موہن نے منڈل کمیشن کی سفارشات کے خلاف اور لالو پرساد یادو حکومت پر تنقید کی اور مظاہرہ کیا اس کے بعد یادو گروہ کے لوگ راجپوتوں کی فصلیں لوٹ کر لے گئے جس کی وجہ سے راجپوتوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔
بہار میں واقع بارا قتل عام میں 37 افراد ہلاک ہوئے تھے یہ واقعہ1992 میں بھومی ہار برادری کے 37 افراد کو مائووادی سینٹر نے قتل کر دیا تھا اور یہ قتل بھی ذات کی بنیاد پر مبنی تھا اس قتل عام کے ایک کلیدی ملزم رام چندر یادو کو 2023 میں ایک ٹرائل کورٹ میں مورودالزم ٹھہرایا گیا تھا ۔
1993میں بہار میں واقع بھوجپور ضلع کے اچری گاؤں میں انڈین پیپلز فرنٹ کے حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے اور کئی زخمی ہوئے جن کا تعلق راجپوتوں سے تھا مذکورہ معاملے میں پیپلز فرنٹ کے رکن بھگوان سنگھ کشواہا تھے 30 سال بعد 2023 میں کچھ ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے کشواہا کو بری کر دیا گیا ۔جبکہ راجیندر شاہ ، بدھو شاہ ، پولس مهتو ،غوری مهتو، بہادر رام، ستیہ ناراین رام ، دلار چند یادو ،بھدوسا رام ،اور بالیشور رام کو 302 کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
1996میں بہار کے بھوجپور ضلع میں واقع ناڑھیی قتل عام کا معاملہ پیش آیا تھا زمینداروں اور پچھڑی ذاتوں کے درمیان ذاتی تشدد کی وجہ سے 9 بھومی ہاروں كا قتل ہوا تھا۔اسی سال بھوجپور بتھانی ٹولہ گاؤں میں بھومی ہار ،راجپوت اور رنویر سینا کے لوگوں نے 21 دلتوں کا قتل کر دیا تھا جس میں مرد عورت اور معصوم بچے بھی شامل تھے آرا کی ایک عدالت نے 3 ملزمان کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی لیکن پٹنہ ہائی کورٹ نے ناکافی ثبوت کی بنیاد پر تینوں ملزم کو بری کر دیا گیا ۔
1997 میں لکشمن پور باتھے قتل عام نے انسانیت کو شرمسار کردینے والاواقعہ تھا جہاں لکشمن پور میں رنویر سینا نے56 دلتوں کا قتل کردیا جس میں مرد عورت سبھی شامل تھے ۔قتل عام کے بعد درج مقدمہ سے سیاسی جماعتوں کا مضمر شمولیت کا امکان نظر آیا اور بتایا گیا کہ گاؤں والوں کی حفاظت کے لئے تعینات پولیس اہلکاروں نے سینا کی مدد کی تھی واقعہ کے بعد ہیومن رائٹس واچ کی ٹیم نے دورہ بھی کیا تھا اور متاثرین کا بیان بھی درج کیا تھا جس میں ایک 32 سالہ خاتون سورج منی دیوی نے بیان دیا تھا کہ سبھی متوفی لوگوں کے سینے میں گولی ماری گئی تھی اور ایک پندرہ سالہ بچی جو دو تیں دن بعد اپنے سسرال جانے والی تھی اس کے پستان کو کاٹ دیا اور سینے میں گولی مارکر ہلاک کردیا ایسی کل پانچ لڑکیاں تھیں ۔
1998میں ارول ضلع میں واقع رام پور چورم گاؤں میں ایک شخص کی تدفین کے بعد لوٹ رہے 9 لوگوں کا قتل کر دیا گیا تھا جن کا تعلق بھومی ہار ذاتی سے تھا اس معاملے میں نچلی عدالت نے متاثرین کے حق میں فیصلہ سنایا تھا جس کو پٹنہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر 14 ملزمان میں راما دھار یادو ، رام پرویش رام ،امیش شاہ ، بھگوان شاہ ،اور راجکمار موچی کو بری کر دیا۔
1999میں بہار کے جہان آباد ضلع میں واقع اُسری بازار میں بائیں بازو کے انتہا پسند اور رنویر سینا کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں انتہا پسندوں نے بھومي ہار ذاتی کے 7 لوگوں کا قتل کر دیا تھا۔وہیں جہان آباد کے بھیم پورا گاوں میں انتہا پسندوں نے بھومی ہار ذاتی کے 4 لوگوں کا قتل کر دیا تھا اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر شوشیل مودی نے راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر لالو پرساد یادو پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا تھا جس کے بعد قتل عام کو انجام دیا گیا تھا ۔
1999میں سینری گاوں میں نکسلی تنظیم نے 34 بھومی ہار ذاتوں کا قتل کر دیا تھا اس نکسلائی یونٹ میں یادو اور پاسوانوں کا غلبہ تھا ملزمان میں بچّے سنگھ ،بدهن یادو ، بٹائی یادو ، ستیندر داس ،للن پاسی ،دوارکا پاسوان ، کریبن پاسوان ، گودائی پاسوان ،اوما پاسوان ،اور گوپال پاسوان شامل تھے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا ۔1999میں شنکر بيگھا گاوں میں رنویر سینا نے مرد عورت سمیت 23 دلتوں کا قتل کر دیا تھا جہان آباد کی ایک عدالت نے زیادہ تر ملزمان کو بری کر دیا تھا ۔
2000 میں بہار کے نوادہ اور شیخ پورا علاقہ میں زمینداروں اور کرمی کوئری ذاتوں کے درمیان طویل عرصے سے ایک دوسرے کے حریف تھے جن میں اکھلیش سنگھ گروہ دوسرا اشوک مھتو گروہ تھا یہ دونوں گروہ اپنی اپنی ذات برادری کی قیادت کر رہے تھے ۔ ان دونوں گروہوں کی خانہ جنگی میں قریب دو سو لوگوں کی جان گئی ۔اس واقعہ میں اکھلیش سنگھ کی بیوی کے قریب 12 رشتے داروں کا اشوک مہتو گروہ کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا ۔ اسی واقعہ کے بعد لکھی سرائے میں 11 مزدوروں کا قتل ہوا ۔لکھی سرائے میں جناردن سنگھ اور ہرے رام یادو جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے اور ان کا تعلق ریت مافیا سے تھا یادو برادران نے اکھلیش سنگھ کے 11 مزدوروں کا قتل کر دیا تھا اور اتر پردیش فرار ہو گیا تھا 2014 میں اسپیشل ٹاسک فورس نے گرفتار کیا تھا ۔
بہار کے کھگڑیا ضلع میں اکتوبر 2009 میں چار بچوں سمیت 16 لوگوں کو جھونپڑیوں میں سے باہر نکال کر ہاتھ پیر باندھ کر گولیوں سے بھون دیا گیا ۔مارے گئے 16 لوگوں میں 14 کرمی اور 2 کشواہا ذات سے تعلق رکھتے تھے ۔اس قتل عام میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کوئری،کرمی اور مسہر ذاتی کے درمیان ندی کی زمین کو لیکر تنازعہ تھا اور یہ بھی بتاتا گیا تھا کہ بچوں کے بیانات کے مطابق قاتلوں کا تعلق دلت برادری اور مسہر برادری سے تھا ۔2013 میں روہتاس ضلع کے بدی گاؤں میں روی داس مندر کے قیام معاملے میں راجپوتوں اور (روی داس) چمار
برادری میں تشدّد برپا ہوا تھا روی داس برادری کے لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ راجپوتوں کی بھیڑ نے گاؤں پر حملہ بول دیا تھا جس میں ایک افرادکی موت ہوگئی تھی اور 54 افراد زخمی ہوئے تھے ۔مدھوبنی قتل عام 2021 میں پیش آیا ہولی کے تیوہار کے موقع پر مدھوبنی کے محمد پور گاؤں میں ذاتی رنجش کے معاملے میں ایک خاندان کے 5 لوگوں کا قتل کر دیا گیا اس قتل میں پروین جھا بھولا سنگھ چندن جھا کملیش سنگھ اور مکیش سافی کو گرفتار کیا گیا تھا ۔
2022میں بہار میں واقع اورنگ آباد ضلع میں سجیت مہتو کا قتل کر دیا گیا متوفی ضلع پریشد کی سابق رکن سمن دیوی کے شوہر تھے اس قتل کی وجہ بھی کشواہا (کوئری) برادری اور راجپوت ذات کے مابین کشاکش تھا ۔سمن دیوی نے راجپوت قبیلے سے تعلق رکھنے والے آکاش سنگھ پر قتل کا الزام لگایا اس کے بعد دونوں فریق کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی گئی ۔
بہار میں واقع چھپرا کے مبارکپور میں فروری 2023 میں ہائی پروفائل ماب لینچنگ کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا جو ذاتی واد پر مبنی تھا یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب راجپوت قبیلہ کے تین افراد وجئے یادو کے پولٹری فارم میں جاکر گولی چلائی جوابی کاروائی میں یادوں نے بے رحمی سے پٹا جس کی وجہ سے امیتیش سنگھ کی موت ہو گئی اور 2 افراد بری طرح زخمی ہو گئے علاج کے دوران ان کی بھی موت ہوگئی تھی ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں کانگریس کی حکومت سے لےکر تاحال نتیش کمار کی حکومت تک ایسی کون سی خامیاں تھیں جس کی وجہ سے دلت برادری اور اونچی ذاتوں کے درمیان تشدّد جاری رہا اور حکومت ذاتی تشدد کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی؟
قابل غور ہے کہ بہار کی سیاست ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر سیاسی جماعتوں نے جہاں تشدد برپا کرنے والے گروہوں پر کرم عنایت فرمائی ہے تو دوسری طرف متاثرین کے زخموں پر عدل و انصاف کا مرہم لگا کر ووٹ بینک کو محفوظ کرنے میں مشغول رہے در اصل سیاسی جماعتیں بالخصوص ذاتی تشدد ، فرقہ وارانہ فسادات ، اشتعال انگیزی جیسے جرائم پر قابو پانے میں کبھی فکرمند نہیں تھی جس طرح سے آج بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ ہے بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ذریعے دلتوں ، پچھڑی ذاتوں اور مسلمانوں کے خلاف منافرت کا رویہ اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے ملک و ریاست کی عوام سیاست کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ، اگر متاثر عوام سیاست کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا چاہتی بھی ہے تو کہیں نہ کہیں سیاسی ماہرین وہی فارمولہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ تحریر لکھنے کی ضرورت آن پڑی ! بہار کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ 1952 سے لیکر 2020 کے درمیان چھوٹی بڑی ذاتوں اور سیاسی جماعتوں کے درجنوں امیدوار وزیر اعلی کے عہدے پر فائز رہے جس میں صرف ایک مسلم امیدوار جو کانگریس پارٹی کے ایم ایل سی تھے نے 2 جولائی 1973 سے لےکر 11 اپریل 1975 تک یعنی ایک سال 283 دن تک وزیر اعلی کی ذمہ داری سنبھالی لیکن عوام کو عدل و انصاف اور حقوق کی حصولیابی میں ناکام رہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کا وجود عمل میں آیا اور عوام اپنے حقوق کی حصولیابی کے لئے اپنے ووٹوں کو منتشر کرتے رہے تاکہ انہیں انصاف مل سکے!