آبِ حیات

1,120 views
Skip to first unread message

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 1, 2013, 2:51:13 AM6/1/13
to Aijaz .Shaheen

میر عبدالحیی تاباںؔ

ان کے عہد میں میر عبدالحیی تاباں تخلص ایک شریف زادہ حُسن و کوبی میں اس قدر شہرہ آفاق تھا کہ خاص و عام اس کو یوسف ثانی کہتے تھے، گوری رنگت پر کالے کالے کپڑے بہت زیب دیتے تھے، اس لئے ہمیشہ سیاہ پوش رہتا تھا۔ اس کے حُسن کی یہاں تک شہرت پھیلی کہ بادشاہ کو بھی دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ معلوم ہوا کہ مکان حبش خاں کے پھاٹک میں ہے اور وہ بڑا دروازہ جو کوچہ مذکور سے بازار لاہوری دروازہ میں نکلتا ہے، اس کے کوٹھے پر نشست ہے۔ زمانہ کی تاثیر اور وقت کے خیالات کو دیکھنا چاہیے کہ بادشاہ  خود سوار ہو کر اس راہ سے نکلے، انھیں بھی خبر ہو گئی تھی، بنے سنورے اور بازار کی طرف موڈھا بچھا کر آ بیٹھے۔ بادشاہ جب اس مقام پر پہنچے تو اس لئے ٹھہرنے کا ایک بہانہ ہو وہاں آب حیات  (شاہانِ دہلی کے کاروبار کے لئے الفاظ خاص مستعمل تھے، مثلاً پانی کو آب حیات، کھانے کو خاصہ، سونے کو سکھ فرمانا، شہزادوں کا پانی آبِ خاصہ اور اسی طرح ہزاروں اصلاحی الفاظ تھے۔) مانگا، اور پانی پی کر دیکھتے ہوئے چلے گئے، الغرض تاباں خود صاحبِ دیوان تھے، شاہ حاتم اور میر محمد علی حشمت کے شاگرد تھے اور مرزا صاحب کے مُرید تھے، مرزا صاحب بھی چشمِ محبت اور نگاہِ شفقت سے دیکھتے تھے چنانچہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مرزا صاحب بیٹھے ہیں اور اُن کی صحبت میں کہ جہاں کبھی وعظ و ارشاد اور کبھی نظم و اشعار کا جلسہ رہتا تھا :- تاباںؔ بھی حاضر ہیں اور با ادب اپنے مرشد کی خدمت میں بیٹھے ہیں۔ حضرت اگرچہ محفل ارشاد کے آداب سے گرمجوشی ظاہر نہ کرتے تھے، مگر معلوم ہوتا تھا کہ دیکھتے ہیں اور مارے خوشی کے باغ باغ ہوئے جاتے ہیں، تاباںؔ بھی مزاج داں تھے، اشعار اور لطائف نمکین کہتے، حضرت سُن سُن کر خوش ہوتے، کوئی بات سب کے سامنے کہنی خلافِ ادب ہوتی تو جو اہلِ عقیدت میں ادب کا طریقہ ہے اسی طرح دست بستہ عرض کرتے کہ کچھ اور بھی عرض کیا چاہتا ہوں، حضرت مسکرا کر اجازت دیتے، وہ کان کے پاس منھ لے جاتے اور چند کلمے چپکے چپکے ایسے گستاخانہ کہتے کہ سوا اس پیارے عزیز کے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ جسے بزرگوں کی محبت نے گستاخ کیا ہو، پس حضرت مسکراتے اور فرماتے کہ درست ہے پھر وہ اسی قسم کی کچھ اور باتیں کہتے، پھر آپ فرماتے کہ یہ بالکل درست ہے۔ جب تاباں اپنی جگہ پر آ بیٹھتے تو حضرت خود کہتے کہ ایک بات کا تمھیں خیال نہیں رہا۔ تاباں پھر کان کے پاس منھ لے جاتے، اُس وقت سے بھی تیز تر کوئی لطیفہ آپ اپنے حق میں کہتے (ان باتوں پر اور خصوصاً اِن کے شعر پر تہذیب آنکھ دکھاتی مگر کیا کیجیے ایشیا کی شاعری کہتی ہے کہ یہ میری صفائی زبان اور طراری کا نمک ہے۔ پس یہ رُخ اگر خصوصیت زبان کو نہ ظاہر کرے تو اپنے فرض میں قاصر ہے یا بے خبر ہے۔) اور اپنے پیارے عزیز کی ہم زبانی کا لُطف حاصل کرتے۔نہایت افسوس ہے کہ وہ پھول اپنی بہار میں لہلہاتا گر پڑا (ہائے میری دلی تیری جو بات ہے جہاں سے نرالی ہے ) جب اس یوسف ثانی نے عین جوانی میں دلوں پر داغ دیا تو تمام شہر نے اس کا سوگ رکھا۔ میر  تقی میر نے بھی اپنی ایک غزل کے مقطع میں کہا ہے :

داغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میرؔ

ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا

مرزا صاحب کی تحصیل عالمانہ نہ تھی مگر علمِ حدیث کو باُصول پڑھا تھا۔ حنفی مذہب کے ساتھ نقشبندی طریقہ کے پابند تھے اور احکامِ شریعت کو صدق دل سے ادا کرتے تھے اور صناع و اطوار اور ادب آداب نہایت سنجیدہ اور برجستہ تھے کہ جو شخص ان کی صحبت میں بیٹھتا تھا ہوشیار ہو کر بیٹھتا تھا، لطافت مزاج اور سلامتی طبع کی نقلیں ایسی ہیں کہ آج سُن کر تعجب آتا ہے، خلافِ وضع اور بے اسلوب حالت کو دیکھ نہ سکتے تھے۔

نقل : ایک دن درزی ٹوپی سی کر لایا، اس کی تراش ٹیڑھی تھی۔ اس وقت دوسری ٹوپی موجود نہ تھی، اس لئے اسی کو پہنا مگر سر میں درد ہونے لگا۔

نقل : جس چارپائی میں کان ہو اس پر بیٹھا نہ جاتا تھا۔ گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوتے تھے، چنانچہ دلی دروازہ کے پاس ایک دن ہوادار میں سوار چلے جاتے تھے۔ راہ میں ایک بنیئے کی چارپائی کے کان پر نظر جا پڑی۔ وہیں ٹھہر گئے اور جب تک اس کا کان نہ نکلوایا آگے نہ بڑھے۔

نقل : ایک دن نواب صاحب کہ اِن کے خاندان کے مرید تھے ملاقات کو آئے اور خود صراحی لے کر پانی پیا، اتفاقاً آبخورا جو رکھا تو ٹیڑھا، مرزا کا مزاج اس قدر برہم ہوا کہ ہرگز ضبط نہ ہو سکا اور بگڑ کر کہا، عجب بے وقوف احمق تھا جس نے تمھیں نواب بنا دیا، آبخورا بھی صراحی پر رکھنا نہیں آتا۔

مولوی غلام یحییٰ فاضل جلیل، جنھوں نے میر زاہد پر حاشیہ لکھا ہے، کہ بہدایت غیبی مرزا ے مُرید ہونے کو دلی میں آئے، ان کی ڈاڑھی بہت بڑی اور گھن کی تھی، جمعہ کے دن جامع مسجد میں ملے اور ارادہ ظاہر کیا، مرزا نے ان کی صورت کو غور سے دیکھا اور کہا کہ اگر مجھ سے آپ بیعت کیا چاہتے ہیں تو پہلے ڈاڑھی ترشوا کر صورت بھلے آدمیوں کی بنائیے پھر تشریف لائیے۔ اللہُ جَمیلٌ و یُحِبُ الجَلٌ و یُحِبُ الجَمَال۔ بھلا یہ ریچھ کی صورت مجھ کو اچھی نہیں معلوم ہوتی تو خدا کو کب پسند آئے گی۔ ملا متشرع آدمی تھے، گھر میں بیٹھ رہے، تین دن تک برابر خواب میں دیکھا کہ بغیر مرزا کے تمھارا عقدہ دل نہ کھلے گا، آخر بیچارے نے ڈاڑھی حجام کے سپرد کی اور جیسا خشخاشی خط مرزا صاحب کا تھا ویسا ہی رکھ کر مریدوں میں داخل ہوئے۔

اسی لطافت مزاج اور نزاکت طبع کا نتیجہ ہے کہ زبان کی طرف توجہ کی اور اسے تراشا کہ جو شعر پہلے گزرے تھے، انھیں پیچھے ہی چھوڑ کر اپنے عہد کا طبقہ الگ کر دیا اور اہل زبان کو نیا نمونہ تراش کر دیا، جس سے پرانا رستہ ایہام گوئی کا زمین شعر سے مٹ گیا۔ ان کے کلام میں مضامین عاشقانہ عجب تڑپ دکھاتے ہیں اور یہ مقامِ تعجب نہیں، کیوں کہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے، اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیال ہیں، ان کے اصل حال (افسوس ہے اہل وطن کے خیالات پر جنھوں نے ایسی ایسی لطافت طبع کی باتیں دیکھ کر ازروئے اعتقاد آخر میں ایک طرہ اور بڑھایا یعنی قاتل ہم جوانے صبیح و ملیح بود کہ بدستش جان سپروند یا شاید ایسا ہی، عالم الغیب خدا ہے۔) زبان ان کی نہایت صاف و شستہ و شفاف ہے، اس وقت کے محاورہ کی کیفیت کچھ ان کے اشعار سے اور کچھ اُس گفتگو سے معلوم ہو گی جو ایک دفعہ بر وقتِ ملاقات ان سے اور سید انشاء سے ہوئی، چنانچہ اصل عبارت دریائے لطافت سے نقل کی جاتی ہے۔

 

Najeeb Ahmed Najeeb
Wellness Consultant
Hyderabad.AP

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 4, 2013, 10:35:38 AM6/4/13
to Aijaz .Shaheen

 

میر محمد تقی میرؔ

میر تخلص محمد تقی نام خلف میر عبد اللہ شرفائے اکبر آباد سے تھے۔ سراج الدین علی خاں آرزو، زبان فارسی کے معتبر مصنف اور مسلم الثبوت محقق ہندوستان میں تھے۔ گلزار ابراہیمی میں لکھا ہے کہ "میر صاحب کا ان سے دور کا رشتہ تھا اور تربیت کی نظر پائی تھی۔ عوام میں ان کے بھانجے مشہور ہیں۔ درحقیقت بیٹے میر عبد اللہ کے تھے۔ مگر ان کی پہلی بیوی سے تھے۔ وہ مر گئیں تو خان آرزو کی ہمشیرہ سے شادی کی تھی۔ اس لئے سوتیلے بھانجے ہوئے۔ میر صاحب کو ابتدا سے شعر کا شوق تھا، باپ کے مرنے کے بعد دلی میں آئے اور خان آرزو کے پاس انھوں نے اور ان کی شاعری نے پرورش پائی۔ مگر خان صاحب حنفی مذہب تھے اور میر صاحب شیعہ، اس پر نازک مزاجی غضب کی۔ غرض کسی مسئلہ پر بگڑ کر الگ ہو گئے۔ بد نظر زمانہ کا دستور ہے کہ جب کسی نیک نام کے دامن شہرت کو ہوا میں اڑتے دیکھتا ہے تو ایک داغ لگا دیتا ہے۔ چنانچہ تذکرہ شورش میں لکھا ہے کہ خطاب سیادت انھیں شاعری کی درگاہ سے عطا ہوا ہے۔ کہن سال بزرگوں سے یہ بھی سُنا ہے کہ جب انھوں نے میر تخلص کیا تو ان کے والد نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔ ایک دن خواہ مخواہ سید ہو جاؤ گے۔ اس وقت انھوں نے خیال نہ کیا۔ رفتہ رفتہ ہو ہی گئے۔ سوداؔ کا ایک قطعہ بھی سن رسیدہ لوگوں سے سُنا ہے۔ مگر کلیات میں نہیں۔ شاید اس میں بھی یہی اشارہ ہو :

بیٹھے تنور طبع کو جب گرم کر کے میرؔ

کچھ شیر مال سامنے کچھ نان کچھ پنیر

اخیر میں کہتے ہیں :

میری کے اب تو سارے مصالح ہیں مستور

بٹیا تو گندنا بنے اور آپ کو تھ میرؔ

پھر بھی اتنا کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ ان کی مسکینی و غربت اور صبر و قناعت تقوی و طہارت محضر بنا کر ادائے شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہیے۔ اور زمانہ کا کیا ہے۔ کس کس کو کیا نہیں کہتا۔ اگر وہ سید نہ ہوتے تو خود کیوں کہتے :

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

غرض ہر چند کہ تخلص ان کا میر تھا۔ مگر گنجفہ سخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدردانی نے ان کے کلام کو جوہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور ناک کو پھولوں کی مہک بنا کر اڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفہ کے طور پر شہر سے شہر کے جاتے تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ نحوست اور فلاکت قدیم سے ابن کمال کے سر پر سایہ کئے ہیں۔ ساتھ اس کے میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دُنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انھیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے نازک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارغ البالی سے محروم رکھا، اور وہ وضعداری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔ یہ الفاظ گستاخانہ جو زبان سے نکلے ہیں، راقم رُو سیاہ ان کی روح پاک سے عفو قصور چاہتا ہے، لیکن خدا گواہ ہے کہ جو کچھ لکھا گیا فقط اس لئے ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں گذارہ کرنا ہے وہ دیکھیں کہ ایک صاحب جوہر کا جوہر یہ باتیں کیوں کر خاک میں ملا دیتی ہیں، چنانچہ انہی کے حالات و مقالات اس بیان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ دلی میں شاہ عالم کا دربار اور امراء و شرفاء  کی محفلوں میں ادب ہر وقت ان کے لئے جگہ خالی کرتا تھا، اور ان کے جوہر کمال اور نیکی اطوار و اعمال کے سبب سے سب عظمت کرتے تھے۔ مگر خالی آدابوں سے خاندان تو نہیں پل سکتے، اور وہاں تو خود خزانہ سلطنت خالی پڑا تھا۔ اس لئے ۱۱۹۰؁ء میں دلی چھوڑنی پڑی۔

جب لکھنؤ چلے تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے تو دلی کو خدا حافظ کہا، تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی، یہ اس کی طرف سے منھ پھیر کر ہو بیٹھے، کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی، میر صاحب چیں بہ چیں ہو کر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے، بیشک گاڑی میں بیٹھے، مگر باتوں سے کیا تعلق؟ اس نے کہا، حضرت کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے۔ کہ خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔

لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے، اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرہ میں جا کر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا پاجامہ، ایک پورا تھان پستولئے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پڑی دار تہ کیا ہوا، اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کی عرض کے پائیچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ نئے انداز نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع۔ انھیں دیکھ کے سب ہنسنے لگے۔ میر صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانہ کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے۔ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہا ہے، میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ غزل طرحی میں داخل یا :

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلی جو ایک شہر تھا عالم انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے

سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی۔ کمال کے طالب تھے۔ صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔ رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ مقرر کر دیا۔

عظمت و اعزاز جو ہر کمال کے خادم ہیں۔ اگرچہ انھوں نے لکھنؤ میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا، مگر انھوں نے بد دماغی اور نازک مزاجی کو جو ان کے ذاتی مصاحب تھے اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ چنانچہ کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔

ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب! ہماری غزل لائے ؟ میر صاحب نے تیوری بدل کر کہا۔ جناب عالی! مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہیں نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی، آج غزل حاضر کر دے۔اس فرشتہ خصال نے کہا، خیر میر صاحب جب طبیعت حاضر ہو گی کہہ دیجیئے گا۔

ایک دن نواب نے بُلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میر صاحب کچھ فرمائیے۔ میر صاحب نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بہ چیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے، نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں پڑھیئے، آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے کہ پڑھوں کیا، آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں، متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب صاحب نے کہا جو شعر ہو گا، آپ متوجہ کر لے گا۔ میر صاحب کو یہ بات زیادہ ناگوار گزری، غزل جیب میں ڈال کر گھر کو چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے، نواب کی سواری سامنے سے آ گئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے کہ میر صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا، کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میر صاحب نے کہا، بازار میں باتیں کرنا آداب شرفاء نہیں۔ یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے اور فقر و فاقہ میں گذارتے رہے۔ آخر ۱۳۲۵ھ میں فوت ہوئے اور سو برس کی عمر پائی۔ ناسخؔ نے تاریخ کہی کہ :

واویلا مرشہ شاعراں

تصنیفات کی تفصیل یہ ہے کہ چھ دیوان غزلوں کے ہیں، چند صفحے ہیں جن میں فارسی کے عمدہ متفرق شعروں پر اردو مصرع لگا کر مثلثؔ اور مربعؔ کیا ہے اور یہ ایجاد ان کا ہے۔ رباعیاں، مستزاد، چند صفحے ۴ قصیدے منقبت میں اور ایک نواب آصف الدولہ کی تعریف میں، چند مخمس اور ترجیع بند مناقب میں، چند مخمس شکایت زمانہ میں جن سے بعض اشخاص کی ہجو مطلوب ہے۔ دو واسوخت، ایک ہفت بند ملا حسن کاشی کی طرف پر حضرت شاہِ ولایت کی شان میں ہے۔ بہت سی مثنویاں جنکی تفصیل عنقریب واضح ہوتی ہے۔ تذکرہ نکات الشعراء شاعران اردو کے حال کا کہ اب بہت کمیاب ہے۔ ایک رسالہ مسمیٰ فیض میر مصحفیؔ  اپنے تذکرہ فارسی میں لکھتے ہیں "دعوے ٰ شعر فارسی نہ دارد، مگر فارسیش ہم کم از ریختہ نیست مے گفت کہ سالے ریختہ موقوف کردہ بودم، در آں حال دو ہزار شعر گرفتہ تدوین کردم۔

معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب کو تاریخ گوئی کا شوق نہ تھا۔ علیٰ ہذالقیاس مرثیہ بھی دیوان میں نہیں۔ غزلوں کے دیوان اگرچہ رطب و یابس سے بھرے ہوئے ہیں، مگر جو ان میں انتخاب ہیں وہ فصاحت کے عالم میں انتخاب ہیں۔ اُردو زبان کے جوہری قدیم سے کہتے آئے ہیں کہ ستر (۷۰) اور دو بہتر (۷۲) نشتر باقی میر صاحب کا تبرک ہے، لیکن یہ بہتر (۷۲) کی رقم فرضی ہے۔ کیوں کہ جب کوئی تڑپتا ہوا شعر پڑھا جاتا ہے تو ہر سخن شناس سے مبالغہ تعریف میں یہی سُنا جاتا ہے کہ دیکھئے یہ انھیں بہتر نشتروں میں ہے۔ انھوں نے زبان اور خیالات میں جس قدر فصاحت اور صفائی پیدا کی ہے۔ اتنا ہی بلاغت کو کم کیا ہے، یہی سبب ہے کہ غزل اُصول غزلیت کے لحاظ سے سوداؔ سے بہتر ہے۔ ان کا صاف اور سلجھا ہوا کلام اپنی سادگی میں ایک انداز دکھاتا ہے اور فکر کو بجائے کاہش کے لذت بخشتا ہے۔ اسی واسطے خواص میں معزز اور عوام میں ہر دل عزیز ہے۔ ھقیقت میں یہ انداز میر سوز سے لیا۔ مگر اُن کے ہاں فقط باتیں ہی باتیں تھیں۔ انھوں نے اس میں مضمون داخل کیا، اور گھریلو زبان کو متانت کا رنگ دے کر محفل کے قابل کیا۔

چونکہ مطالب کی دقت مضامین کی بلند پردازی، الفاظ کی شان و شکوہ بندش کی چُستی، لازمہ قصائد کا ہے، وہ طبیعت کی شگفتگی اور جوش و خروش کا ثمر ہوتا ہے۔ اسی واسطے میر صاحب کے قصیدے کم ہیں۔ اور اسی قدر درجہ میں میں بھی کم ہیں۔ انھوں نے طالبِ سخن پر روشن کر دیا ہے کہ قصیدہ اور غزل کے دو میدانوں میں دن اور رات کا فرق ہے۔ اور اسی منزل میں آ کر سوداؔ اور میرؔ کے کلام کا حال کھُلتا ہے۔

امراء کی تعریف میں قصیدہ نہ کہنے کا یہ بھی سبب تھا کہ توکل اور قناعت انھیں بندہ کی خوشامد کی اجازت نہ دیتے تھے یا خود پسندی اور خود بینی جو انہیں اپنے میں آپ غرق کئے دیتی تھی، وہ زبان سے کسی کی تعریف نکلنے نہ دیتی تھی، چنانچہ کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں :

مجھ کو دماغِ وصف گل و یاسمن نہیں

میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں

کل جا کے ہم نے میرؔ کے در پر سُنا جواب

مُدت ہوئی کہ یاں وہ غریب الوطن نہیں

چند مخمس شکایت زمانہ میں بطور آشوب کے کہے ہیں، اور ان میں بعض اشخاص کے نام بھی لئے ہیں۔ مگر ایسے کمزور کہے ہیں کہ گویا کچھ نہیں ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ قسامِ ازل نے ان کے دسترخوان سے مدح اور قدح کے دو پیالے اٹھا کر سودا کے ہاں دھر دیئے ہیں۔

واسوخت دو ہیں اور کچھ شک نہیں کہ لاجواب ہیں۔ اہل تحقیق نے فغانی یا وحشی کو فارسی میں اور اردو میں انھیں واسوخت کا موجد تسلیم کیا ہے۔ سینکڑوں شاعروں نے واسوخت کہے لیکن خاص خاص محاوروں سے قطع نظر کریں تو آج تک اس کوچہ میں میر صاحب کے خیالات و انداز بیان کا جواب نہیں۔

مناقب میں جو مخمس اور ترجیع بند وغیرہ کہے ہیں، حقیقت میں حُسنِ اعتقاد کا حق ادا کر دیا ہے، وہ ان کے صدق دل کی گواہی دیتے ہیں۔

مثنویاں مختلف بحروں میں ہیں، اصول مثنوی کے ہیں، وہ میر صاحب کا قدرتی انداز واقع ہوا ہے۔ اس لئے بعض بعض لطف سے خالی نہیں۔ ان میں شعلہ عشق اور دریائے عشق نے اپنی کوبی کا انعام شہرت کے خزانہ سے پایا۔ مگر افسوس یہ کہ میر حسن مرحوم کی مثنوی سے دونوں پیچھے رہیں۔

جوشِ عشق میں لطافت و نزاکت کا جوش ہے۔ مگر مشہور نہ ہوئی۔ اعجاز عشق و خواب و خیال مختصر ہیں۔ اور اس رتبہ پر نہیں پہنچیں۔ معاملات عشق ان سے بڑی ہے، مگر رتبہ میں گھٹی ہوئی ہے۔

مثنوی شکار نامہ نواب آصف الدولہ کے شکار کا اور اس سفر کا مفصل حال لکھا ہے۔ اس میں جو متفرق غزلیں جا بجا لگائی ہیں وہ عجیب لطف دیتی ہیں۔

ساقی نامہ بہاریہ لکھا ہے۔ مگر اصلی درجہ لطافت و فصاحت پر ہے۔

اس کے علاوہ بہت سی مختصر مختصر مثنویاں ہیں۔ ایک مثنوی اپنے مرغے کے مرثیہ میں لکھی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میرا پیارا مرغا تھا، بڑا اصیل تھا، بہت خوب تھا۔ اس پر بلی نے حملہ کیا، مرغے نے بڑی دلاوری سے مقابلہ کیا اور اخیر کو مارا گیا۔ مثنوی تو جیسی ہے ویسی ہے، مگر ایک شعر اس کے وقت آخر کا نہیں بھولتا۔

جھکا بسوئے قدم سر خروس بیجاں کا

زمین پہ تاج گِرا ہُد ہُد سلیماں کا

ایک مثنوی میں کہتے ہیں کہ میری ایک بلّی بھی، بڑی وفادار تھی۔ بڑی قانع تھی، اس کے بچے نہ جیتے تھے، ایک دفعہ ۵ بچے ہوئے۔ پانچوں جئے، تین بچے لوگ لے گئے۔ دو رہے، وہ دونوں مادہ تھے، ایک کا نام  مونی رکھا، دوسرے کا نام مانی، مونی میرے ایک دوست کو پسند آئی، وہ لے گئے۔ مانی کے مزاج میں مسکینی اور غربت بہت تھی، اس لئے فقیر کی رفاقت نہ چھوڑی۔ اس کے بیان اور اور حالات کو بہت طور دیا ہے۔

ایک کتّا اور ایک بِلّا پالا تھا۔ اس کی ایک مثنوی لکھی ہے۔

ایک امیر کے ساتھ سفر میں میرٹھ تک گئے تھے۔ اس میں برسات کی تکلیف اور رستہ کی مصیبت بہت بیان کی ہے۔ اس سے یہ بھی قیاس کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہم وطن ہمیشہ سے سفر کو کیسی آفت سمجھتے ہیں۔

ایک بکری پالی۔ اس کے چار تھن تھے۔ بچہ ہوا تو دودھ ایک ہی تھن میں اُترا۔ وہ بھی اتنا تھا کہ بچہ کی پوری نہ پڑتی تھی۔ بازار کا دودھ پلا پلا کر پالا، پھر بچہ کی سر زوری اور سر شوری کی شکایت ہے۔

ایک مثنوی آصف الدولہ مرحوم کی آرائش کتخدائی میں کہی ہے۔ ایک مختصر مثنوی جھوٹ کی طرف سے خطاب کر کے لکھی ہے اور اس کی بحر مثنوی کے معمولی بحروں سے علیٰحدہ ہے۔

مثنوی اژدر نامہ کہ اس کا حال آگے آتا ہے، یا اجگر نامہ۔

ایک مثنوی مختصر برسات کی شکایت میں لکھی ہے، گھر کا گرنا اور مینھ برستے میں گھر والوں کا نکلنا عجب طور سے بیان کیا ہے۔ اگر خیال کرو تو شاعر کی شورش طبع کے لیے یہ بھی موقع خوب تھا۔ مگر طبیعت مکان سے بھی پہلے گری ہوئی تھی۔ وہ یہاں بھی نہیں اُبھری، سودا ہوتے طوفان اٹھاتے۔

مثنوی تنبیہ الخیال اس میں فن شعر کی عزت و توقیر کو بہت سا طول دیکر کہا ہے۔ اس فن شریف کو شرفا اختیار کرتے تھے۔ اب پواج اور ارذال بھی شاعر ہو گئے۔ اس میں ایک بزاز لونڈے کو بہت خراب کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور چھوٹی مثنویاں کہ چنداں ذکر کے قابل نہیں۔

نکات الشعراء شاعر کے لئے بہت مفید ہے۔  اس میں شعرائے اردو کی بہت سی باتیں اس زمانہ کے لوگوں کے دیکھنے کے قابل ہیں مگر وہاں بھی اپنا انداز قائم ہے۔ دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ یہ اردو کا پہلا تذکرہ ہے (یہ بھی میر صاحب کا دعویٰ ہے ورنہ اس سے پہلے تذکرے مرتب ہو چکے ہیں )۔ اس میں ایک ہزار شاعروں کا حال لکھوں گا۔ مگر ان کو نہ لوں گا، جن کے کلام سے دماغ پریشان ہو۔ ان ہزار میں ایک بے چارہ بھی طعنوں اور ملامتوں سے نہیں بچا۔ ولی کہ بنی نوع شعراء کا آدم ہے۔  اس کے حق میں فرماتے ہیں۔

وے شاعر بست از شیطان مشہور تر میر خاں کمترین  (کمترین تخلص میر خاں نام تھا۔ تخلص میں یہ نکتہ رکھا تھا کہ قوم کے افغان تھے۔ ترین فرقہ کا نام تھا، کمترین تخلص کیا تھا۔ بہت سن رسیدہ تھے۔ شاہ آبرو اور ناجی کے دیکھنے والوں میں تھے، مگر چوتھے طبقہ کے شاعروں میں موجود ہوتے تھے، پرانے سپاہی تھے، کچھ بہت علم بھی نہ تھا، طبقہ اول کے رنگ میں ایہام کے شعر کہتے تھے۔ خوش مزاج بھی تھے اور غصیل بھی تھے اور وقت پر جو سوجھ جاتی تھی اس میں چوکتے نہ تھے، صاف کہہ بیٹھتے تھے۔ کوئی ان کی زبان سے بچا نہیں مگر وہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ علماء شرفاء سب ہنستے تھے اور ہنس ہنس کر برداشت کرتے تھے۔ وضع بھی دنیا سے نرالی رکھتے تھے۔ ایک بڑی سی گھیر دار پگڑی سر پر باندھتے تھے، لمبا سا دوپٹہ بل دیکر کمر پر لپیٹتے تھے، ایک بلّم ہاتھ میں رکھتے تھے۔ ان دنوں ہر جمعہ کو سعد اللہ خاں کے چوک پر گدری لگتی تھی، وہاں جا کر کھڑے ہوتے تھے۔ لڑکے اور شوقین مزاج خاطر خواہ دام دیتے تھے اور ایک ایک پرچہ خوشی خوشی لے جاتے تھے۔) اسی زمانہ میں ایک قدیمی شاعر دلّی کے تھے۔ انھیں اس فقرہ پر بڑا غصہ آیا۔ ایک نظم ہیں اول بہت کچھ کہا۔ آخر میں آ کر کہتے ہیں :

مصرعہ : ولی پر جو سخن لائے اسے شیطان کہتے ہیں

یہ تھی مختصر کیفیت میر صاحب کی تصنیفات کی۔ میر صاحب کی زبان شستہ کلام صاف بیان ایسا پاکیزہ جیسے باتیں کرتے ہیں۔ دل کے خیالات کو جو کہ سب کی طبیعتوں کے مطابق ہیں۔ محاورے کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کر دیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔ اسی واسطے ان میں بہ نسبت اور شعرا کے اصلیت کچھ زیادہ قائم رہتی ہے۔ بلکہ اکثر جگہ یہی معلوم ہوتا ہے، گویا نیچر کی تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دلوں پر بھی اثر زیادہ کرتی ہیں۔ وہ گویا اردو کے سعدی ہیں، ہمارے عاشق مزاج شعرا کی رنگینیاں اور خیالات کی بلند پردازیاں، ان کے مبالغوں کے جوش و خروش سب مو معلوم ہیں، مگر اسے قسمت کا لکھا سمجھو کہ ان میں سے بھی میر صاحب کو شگفتگی یا بہار عیش و نشاط یا کامیابی وصال کا لطف کبھی نصیب نہ ہوا۔ وہی مصیبت اور قسمت کا غم جو ساتھ لائے تھے، اس کا دُکھڑا سناتے چلے گئے۔ جو آج تک دلوں میں اثر اور سینوں میں درد پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے مضامین اور شعراء کے لئے خیالی تھے، ان کے حالی تھے، عاشقانہ خیال بھی ناکامی زار حالی، حسرت، مایوسی، ہجر کے لباس میں خرچ ہوئے۔ ان کا کلام صاف کہے دیتا ہے کہ جس دل سے نکل کر آیا ہوں، وہ غم و درد کا پتلا نہیں حسرت و اندوہ کا جنازہ تھا۔ ہمیشہ وہی خیالات بسے رہتے تھے۔ بس جو دل پر گذرتے تھے، وہی زبان سے کہہ دیتے تھے کہ سننے والوں کے لئے نشتر کا کام کر جاتے تھے۔

ان کی غزلیں ہر بحر میں کہیں شربت اور کہیں شیر و شکر ہیں، مگر چھوٹی چھوٹی بحروں میں فقط آب حیات بہاتے ہیں۔ جو لفظ منہ سے نکلتا ہے، تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔مگر یہ بھی بزرگوں سے معلوم ہوا کہ مشاعرہ یا فرمائش کی غزلیں ایسی نہ ہوتی تھیں جیسی کہ اپنی طبع داد طرح میں ہوتی تھیں۔ میر صاحب نے اکثر فارسی کی ترکیبوں کو ان کے ترجموں کو اردو کی بنیاد میں ڈول کر ریختہ کیا، دیکھو صفحہ  اور اکثر کو جوں کا توں رکھا۔ بہت ان میں سے پسند عام کے دربار میں رجسٹری ہوئیں اور بعض نامنظور معاصرین نے کہیں برتا، مگر بہت کم، چنانچہ فرماتے ہیں :

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبُور تھا

پیدا ہر ایک نالہ سے شورِ نشور تھا

یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھاؤ کی

ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان میں

کیا کہئے حسن عشق کے آپ ہی طرف ہوا

دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا

دل کہ یک قطرہ خون نہیں ہے بیش

ایک عالم کے سَر بَلا لایا

ہر دم طرف ہے دل سے مزاج کرخت کا

ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت (*) کا

(*) فارسی کا محاورہ ہے تو گوئی جگرم پارہ سنگ سخت است

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا

اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم

گو چمن میں غنچہ پژمردہ تجھ سے کھل گیا

خواہے پیالہ خواہ سبو کر ہمیں کلال

ہم اپنی خاک پر تجھے مختار کر چلے

یادِ ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا

ہر گلی کوچہ مجھے کوچہ رسوائی تھا

اے تو کہ یہاں سے عاقبت کار جائے گا

یہ قافلہ رہے گا نہ زنہار جائے گا

اس کے علاوہ فارسی کے بعض محاوروں اور اس کی خاص خاص رسموں کا اشارہ بھی کر جاتے تھے کہ انھیں بھی پھر کسی نے پسند نہیں کیا۔ چنانچہ دیوانہ کو پھُول کی چھڑیاں مارنے کا ٹوٹکا انھوں نے بھی کیا ہے اور داغِ جنوں بھی دیا ہے  (دیکھو صفحہ)۔

جاتی ہے نظر حُسن پہ گہ چشم پریدن

یاں ہم نے پر کاہ بھی بیکار نہ دیکھا

بعض جگہ قادر الکلامی کے تصرف کر کے اپنے زور زبان کا جوہر دکھایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

ہر چند ناتواں ہوں پر آ گیا جو دل میں

دیں گے ملازمیں سے تیرا فلک قلابا (*)

(*) اصل قلابہ ہے۔

داغ ہے تاباں علیہ الرحمۃ کا چھاتی پہ میر

ہو نجات اس کی بچارا ہم سے بھی تھا آشنا

(بیچارہ کا مخفف ہے اور ہم سے آشنا تھا۔ بعینہ ترجمہ کا محاورہ ہے کہ بابا ہم آشنا بود، اردو میں ہمارا کہتے ہیں )

ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے

ہمارے عندیہ میں تو ہے وہ پلیت و خبیث

ردیف تاءسثناۃ فوقانی کی غزل میں یہ شعر واقع ہوا ہے۔ ایسے تصرفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ انھیں اس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورہ کو اصلیت پر مقدم سمجھتے تھے۔

اے خوشا حال اس کا جس کو وہ

حال عمداً تباہ کرتے تھے

ہے تہ دل بتوں کو کیا معلوم

نکلے پردہ سے کیا، خدا معلوم

میں بے قرار خاک میں کب تک ملا کروں

کچھ ملنے یا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر

رہوں جا کے مر حضرت یار میں

یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا

کھُلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کی میرؔ

سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا

آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دُعا یار

آوے گی بہت ہم سے فقیروں کی صدا یاد

سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سُو

وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد

جُز و مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر

اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا

ابر اٹھا تھا کعبہ سے اور جھوم پڑا میخانہ پر

بادہ کشوں کا جھرمٹ ہے گا شیشہ اور پیمانہ پر

کسی شخص نے کہا کہ حضرت، اصل محاورہ فارسی کا ہے، اہل زبان نے ابر قبلہ کہا ہے۔ ابر کعبہ نہیں کہا، میر صاحب نے کہا کہ ہاں قبلہ کا لفظ بھی آ سکتا ہے مگر کعبہ سے ذرا مصرعہ کی ترکیب گرم ہو جاتی ہے۔ اور یہ سچ فرمایا جنھیں زبان کا مزا ہے، وہی اس لطف کو سمجھتے ہیں۔ خیال کے لفظ میں جو تصرف میر صاحب نے فرمایا ہے، عنقریب واضح ہو گا۔ اکثر الفاظ ہیں جو کہ مؤنث ہیں۔ میر صاحب نے انھیں مذکر باندھا ہے۔

ملائے خاک میں کس کس طرح کے عالم یاں

نِکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

کل جس کی جان کنی پہ سارا جہان ٹوٹا

آج اُس مریض غم کی ہچکی میں جان ٹوٹا

احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے

افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا

بعض جگہ مذکرّ کو مؤنث بھی کہہ جاتے ہیں۔

کیا ظلم ہے اس خوبی عالم کی گلی میں

جب ہم گئے دو چار نئی دیکھیں مزاریں

مثنوی شعلہ عشق میں کہتے ہیں۔

خلق یک جا ہوئی کنارے پر

حشر برپا ہوئی کنارے پر

(ان کے علاوہ دیکھو صفحہ)

میر صاحب میانہ قد، لاغر اندام، گندمی رنگ تھے، ہر کام متانت اور آہستگی کے ساتھ، بات بہت کم، وہ بھی آہستہ آواز میں، نرمی اور ملائمت، ضعیفی نے ان سب صفتوں کو اور بھی قوی کیا تھا، کیونکہ سو برس کی عمر آخر ایک اثر رکھتی ہے۔ مرزا قتیلؔ مشاعرے سے آ کر کسی دوست کو خط تحریر کرتے ہیں۔ اس میں جلسہ کے حالات بھی لکھتے ہیں۔ "حنجرہ میر صاحب با وصف خوش گوئی بدستور بودہ، تمام جسم مبارک ایشان رعشہ داشت، آواز ہم کس نمے شنید، مگر من  و خدا کہ غزلہا خوب گفتہ بودند" عادات و اطوار نہایت سنجیدہ اور متین اور صلاحیت اور پرہیز گاری نے اسے عظمت دی تھی۔ ساتھ اس کے قناعت اور غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اطاعت تو درکنار نوکری کے نام کی برداشت نہ رکھتے تھے۔ لیکن زمانہ جس کی  حکومت سے کوئی سر نہیں اکسا سکتا، اس کا قانون اس کے بالکل برخلاف ہے۔ نتیجہ یہ کہ فاقے کرتے تھے۔ دکھ بھرتے تھے اور اپنی بد دماغی کے سائے میں دنیا  اور اہل دُنیا سے بیزار گھر میں بیٹھے رہتے تھے۔ ان شکایتوں کے جو لوگوں میں چرچے تھے۔ وہ خود بھی اس سے واقف تھے، چنانچہ ایک مخمس شہر آشوب کے مقطع میں کہتے ہیں۔

حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ

دل سوزش دردنی سے جلتا ہے جوں چراغ

سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ

ہے نام مجلسوں میں میرا میرؔ بے دماغ

از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار

باوجود اس کے اپنے سرمایہ فصاحت کو دولت لازوال سمجھ کر امیر غریب کسی کی پرواہ  نہ کرتے تھے۔ بلکہ فقر کو دین کی نعمت تصور کرتے تھے اور اسی عالم میں معرفت الٰہی پر دل لگاتے تھے۔ چنانچہ ان کی اس ثابت قدمی کا وصف کسی زبان سے نہیں ادا ہو سکتا کہ اپنی بے نیازی اور بے پروائی کے ساتھ دنیائے فانی کی مصیبتیں جھیلیں، اور جو اپنی آن بان تھی اُسے لئے دنیا سے چلے گئے۔ اور

(*) دیکھو رقعات قتیل میں رقعہ نمبر ۹۳

جس گردن کو خدا نے بلند کیا تھا سیدھا خدا کے ہاں لے گئے۔ چند روز عیش کے لالچ سے یا مفلسی کے دکھ سے اسے دنیا کے نا اہلوں کے سامنے ہرگز نہ جھکایا۔ ان کا کلام کہے دیتا ہے کہ دل کی کلی  اور تیوری کی گرہ کبھی کھلی نہیں، باوجود اس کے اپنے ملک خیال کے ایک بلند نظر بادشاہ تھے اور جتنی دنیا کی سختی زیادہ ہوتی اسی قدر بلند نظری دماغ زیادہ بلند ہوتا تھا، سب تذکرے نالاں ہیں کہ اگر یہ غرور اور بے دماغی فقط امراء کے ساتھ ہوتی تو معیوب نہ تھی، افسوس یہ ہے کہ اوروں کے کمال بھی انھیں دکھائی نہ دیتے تھے۔ اور یہ امر ایسے شخص کے دامن پر نہایت بدنما دھبہ ہے، جو کمال کے ساتھ صلاحیت اور نیکو کاری کا خلعت پہنے ہو۔ بزرگوں کی تحریری روایتیں اور تقریری حکایتیں ثابت کرتی ہیں کہ خواجہ حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کی غزل پڑھی جائے تو وہ سر ہلانا گناہ سمجھتے تھے۔ کسی اور کی کیا حقیقت ہے۔ جو اشخاص اس زمانہ میں قدردانی کے خزانچی تھے، ان کے خیالات عالی اور حوصلے بڑے تھے۔ اس لئے یہ بے دماغیاں ان کے جوہر کمال پر زیور معلوم ہوتی تھیں۔ خوش نصیب تھے کہ آج کا زمانہ نہ دیکھا۔ میر قمر الدین مِنت (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ) دلی میں ایک شاعر گذرے ہیں، کہ علوم رسمی کی قابلیت سے عمائد دربار شاہی میں تھے، وہ میر صاحب کے زمانہ میں مبتدی تھے، شعر کا شوق بہت تھا۔ اصلاح کے لئے اردو کی غزل لے گئے۔ میر صاحب نے وطن پوچھا۔ انھوں نے سونی پت علاقہ پانی پت بتلایا۔ آپ نے فرمایا کہ سید صاحب اردوئے معلیٰ خاص دلّی کی زبان ہے۔ آپ اس میں تکلیف نہ کیجیے۔ اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے۔

سعادت یار خاں رنگینؔ نواب طہاسپ بیگ خاں قلعدار شاہی کے بیٹے تھے۔ ۱۴، ۱۵ برس کی عمر تھی۔ بڑی شان و شوکت سے گئے اور غزل اصلاح کے لئے پیش کی۔ سن کر کہا کہ صاحبزادے ! آپ خود امیر ہیں اور امیر زادے ہیں، نیزہ بازی، تیر اندازی کی کسرت کیجیے، شہسواری کی مشق فرمائیے۔ شاعری دل خراشی و جگر سوزی کا کام ہے۔ آپ اس کے درپے نہ ہوں۔ جب انھوں نے بہت اصرار کیا تو فرمایا کہ آپ کی طبیعت اس فن کے مناسب نہیں۔ یہ آپ کو نہیں آنے کا۔ خواہ مخواہ میری اور اپنی اوقات ضائع کرنی کیا ضرور ہے۔ یہی معاملہ شیخ ناسخ کے ساتھ گذرا۔ (میر نظام الدین ممنون ان کے بیٹے بڑے صاحب کمال اور نامور شاعر تھے، دیکھو صفحہ)۔

دلی میں میر صاحب نے ایک مثنوی کہی۔ اپنے تئیں اژدہا قرار دیا اور شعرائے عصر میں سے کسی کو چوہا، کسی کو سانپ، کسی کو بچھو، کسی کو کنکھجورا وغیرہ وغیرہ ٹھہرایا۔ ساتھ اس کے ایک حکایت لکھی کہ دامن کوہ میں ایک خونخوار اژدہا رہتا تھا۔ جنگل کے حشرات الارض جمع ہو کر اس سے لڑنے گئے۔ جب سامنا ہوا تو اژدھے نے ایک ایسا دم بھرا کہ سب فنا ہو گئے۔ اس قصیدے کا نام اجگر نامہ قرار دیا اور مشاعرہ میں لا کر پڑھا۔ محمد امان نثار (سعادت اللہ معمار کے بیٹے اور میاں استاد معمار کی اولاد میں تھے جنھوں نے دہلی کی جامع مسجد بنائی تھی۔ نثارؔ کے بزرگ اور وہ خود عمارت میں کمال رکھتے تھے۔ نثارؔ شعر بھی خوب کہتے تھے۔ چنانچہ زمین سخن میں ریختہ کا دیوان ضخیم یادگار چھوڑا ہے۔ دلّی آباد تھی، تو امرائے شہر کے مکانات اپنے کمال سے مضبوط کرتے تھے اور عزت سے گزران کرتے تھے۔ دلّی تباہ ہوئی تو یہ بھی لکھنؤ چلے گئے۔ وہاں بھی فن آبائی سے عزت پائی اور ہمیشہ امراء روساء کی مصاحبت میں زندگی بسر کی۔ شاہ حاتم کے نامی شاگردوں میں تھے۔ میاں رنگین نے بھی مجالس رنگین میں ان کا ذکر کیا ہے۔ صاحب دیوان ہیں۔ مگر اب دیوان کمیاب ہے۔ میر صاحب اور ان کی اکثر چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔) شاہ حاتم کے شاگردوں میں ایک مشاق موزوں طبع تھے۔ انھوں نے وہیں ایک گوشہ میں بیٹھ کر چند شعر کا قطعہ لکھا اور اسی وقت سر مشاعرہ پڑھا۔ چونکہ میر صاحب کی یہ بات کسی کو پسند نہ آئی تھی، اس لئے اس قطعہ پر خوب قہقہے اڑے اور بڑی واہ واہ ہوئی اور میر صاحب پر جو گذرتی تھی سو گزری، چنانچہ مقطع قطعہ مذکور کا یہ ہے۔

حیدر کرار نے وہ زور بخشا ہے نثارؔ

ایک دم میں دو کروں اژدر کے کلے چیر کر

لکھنؤ میں کسی نے پوچھا کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہے ؟ کہا ایک تو سوداؔ دوسرا یہ خاکسار ہے اور تامل کر کے کہا، آدھے خواجہ میر دردؔ۔ کوئی شخص بولا کہ حضرت اور میر سوزؔ صاحب؟ چیں بچیں ہو کر کہا کہ میر سوزؔ صاحب بھی شاعر ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ آخر استاد نواب آصف الدولہ کے ہیں۔ کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی، مگر شرفاء میں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سُنے۔ میر صاحب کے سامنے مجال کس کی تھی جو کہے کہ ان بچارے نے میر تخلص کیا تھا وہ آپ نے چھین لیا۔ ناچار اب انھوں نے ایسا تخلص اختیار کیا کہ نہ آپ کو پسند آئے نہ آپ اسے چھینیں۔ دیکھو صفحہ ۔

لکھنؤ کے چند عمائد و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں۔ اور اشعار سنیں۔ دروازہ پر آ کر آواز دی۔لونڈی یا ماما نکلی، حال پوچھ کر اندر گئی۔ ایک بوریا لا کر ڈیوڑھی میں بچھایا، انھیں بٹھایا اور ایک پرانا سا حقہ تازہ کر کے سامنے رکھ گئی۔ میر صاحب اندر سے تشریف لائے۔ مزاج پُرسی وغیرہ کے بعد انھوں نے فرمائش اشعار کی، میر صاحب نے اَوّل کچھ ٹالا، پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے۔ اگرچہ ناگوار ہوا مگر بنظر آداب و اخلاق انھوں نے اپنی نارسائی طبع کا اقرار کیا۔ اور پھر درخواست کی۔ انھوں نے پھر انکار کیا، آخر ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا، حضرت انوری و خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں، آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے، میر صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے۔  مگر ان کی شرحیں مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں۔ اور میرے کلام کے لئے فقط محاورہ اہل اردو ہے، یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اور اس سے آپ محروم، یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا :

عشق بُرے ہی خیال پڑا ہے چین گیا آرام گیا

دِل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا

اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ی کو ظاہر کرو پھر کہیں گے کہ ی تقطیع میں گرتی ہے۔ مگر یہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔

جب نواب آصف الدولہ مر گئے، سعادت خاں کا دور ہوا تو یہ دربار جانا چھوڑ چکے تھے۔ وہاں کسی نے طلب نہ کیا۔ ایک دن نواب کی سواری جاتی تھی۔ یہ تحسین کی مسجد پر سر راہ بیٹھے تھے۔ سواری سامنے آئی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے، میر صاحب اسی طرح بیٹھے  رہے، سید انشاء خواص میں تھے۔ نواب نے پوچھا کہ انشاء یہ کون شخص ہے ؟ جس کی تمکنت نے اُسے اٹھنے بھی نہ دیا۔ عرض کی جناب عالی یہ وہی گدائے متکبر جس کا ذکر حضور میں اکثر آیا ہے۔ گزارے کا وہ حال اور مزاج کا یہ عالم، آج بھی فاقہ ہی سے ہو گا۔ سعادت علی خاں نے آ کر خلعت بحالی اور ایک ہزار روپیہ دعوت کا بھجوایا۔ جب چوبدار لے کر گیا، میر صاحب نے واپس کر دیا اور کہا کہ مسجد میں بھجوائیے۔ یہ گنہگار اتنا محتاج نہیں۔ سعادت علی خاں جواب سن کر متعجب ہوئے۔ مصاحبوں نے پھر سمجھایا۔ غرض نواب کے حکم سے سید انشاء خلعت لے کر گئے اور اپنے طرز پر سمجھایا کہ نہ اپنے حال پر بلکہ عیال پر رحم کیجیے۔ اور بادشاہ وقت کا ہدیہ ہے اسے قبول فرمائیے۔ میر صاحب نے کہا کہ صاحب! وہ اپنے ملک کے بادشاہ ہیں، میں اپنے ملک کا بادشاہ ہوں، کوئی ناواقف اس طرح پیش آتا، تو مجھے شکایت نہ تھی۔ وہ مجھ سے واقف، میرے حال سے واقف، اس پر اتنے دنوں کے بعد ایک دس روپے کے خدمت گار کے ہاتھ خلعت بھیجا۔ مجھے اپنا فقر و فاقہ قبول ہے، مگر یہ ذلت نہیں اٹھائی جاتی۔ سید انشاء کی لسانی اور لفاظی کے سامنے کس کی پیش جا سکتی۔ میر صاحب نے قبول فرمایا، اور دربار میں بھی کبھی کبھی جانے لگے۔ نواب سعادت علی خاں مرحوم ان کی ایسی خاطر کرتے تھے کہ اپنے سامنے بیٹھنے کی اجازت دیتے تھے اور اپنا پیچوان پینے کو عنایت فرماتے تھے۔

میر صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا کہ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھی کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں، کئی برس گذر گئے۔ اسی طرح بند پڑی رہیں۔ کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔ ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا کہ ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے۔ میر صاحب بولے، کیا ادھر باغ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے۔ اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپکے ہو رہے۔

کیا محویت ہے ! کئی برس گذر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے۔ آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔

استاد مرحوم ایک دیرینہ سال شخص کی زبانی بیان کرتے تھے کہ ایک دن میر صاحب کے پاس گئے۔ نکلتے جاڑے تھے۔ بہار کی آمد تھی۔ دیکھا کہ ٹہل رہے ہیں۔ چہرہ پر افسردگی کا عالم ہے۔ اور وہ رہ رہ کر یہ مصرع پڑہتے تھے۔

ع : اب کی بھی دن بہار کے یوں ہی گذر گئے

یہ سلام کر کے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد اٹھے اور سلام کر کے چلے آئے۔ میر صاحب کو خبر بھی نہ ہوئی۔ خدا جانے دوسرے مصرع کے فکر میں تھے، یا اس مصرعہ کی کیفیت میں تھے۔

گورنر جنرل اور اکثر صاحبان عالیشان جب لکھنؤ میں جاتے تو اپنی قدردانی سے یا اس سبب سے کہ ان کے میر منشی اپنے علو حوصلہ سے ایک صاحب کمال کی تقریب واجب سمجھتے تھے۔ میر صاحب کو ملاقات کے لئے بلاتے مگر یہ پہلوتہی کرتے اور کہتے کہ مجھ سے جو کوئی ملتا ہے تو یا مجھ فقیر کے خاندان کے خیال سے یا میرے کلام کے سبب سے ملتا ہے۔ صاحب کو خاندان سے غرض نہیں۔ میرا کلام سمجھتے نہیں۔ البتہ انعام دیں گے۔ ایسی ملاقات سے ذلّت کے سوا کیا حاصل!

محلہ کے بازار میں عطار کی دکان تھی، آپ بھی کبھی اس کی دوکان پر جا بیٹھتے تھے۔ اس کا نوجوان لڑکا بہت بناؤ سنگار کرتا رہتا تھا، میر صاحب کو بُرا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر فرماتے ہیں۔

کیفیتیں عطار کی لونڈے میں بہت ہیں

اس نسخہ کی کوئی نہ رہی ہم کو دوا یاد

کسی وقت طبیعت شگفتہ ہو گئی تو فرماتے ہیں۔

میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جسکے سبب

اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

اِسی عہد میں بقا اللہ خاں بقا (دیکھو بقا کا حال صفحہ میں ) نے دو شعر کہے۔

ان آنکھوں کا نتِ گریہ دستور ہے

دوآبہ جہاں میں یہ مشہور ہے

سیلاب سے آنکھوں کے رہتے ہیں خرابے میں

ٹکڑے جو میرے دل کے بستے ہیں دوآبے میں

میر صاحب نے خدا جانے سن کر کہا یا توارد ہوا۔

دے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں

سُوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دوآبہ

اس پر بقا نے بگڑ کر یہ قطعہ کہا۔

میر نے گر ترا مضمون دوآبے کا لیا

اے بقا تو بھی دعا دے جو دعا دینی ہو

یا خدا میر کی آنکھوں کو دوآبہ کر دے

اور بینی کا یہ عالم ہو کہ تربینی ہو

لیکن میر صاحب نے اسی کوچہ میں ایک مضمون اور نکالا ہے۔ وہ سب سے الگ ہے۔

میں راہِ عشق میں تو آگے ہی دو دِلا تھا

پُر پیچ پیش آیا قسمت سے یہ دو راہا

بقا نے اور مضامین بھی میر صاحب کے باب میں صرف کئے ہیں۔

ان میں سے ایک قطعہ ہے۔

میر صاحب پھر اس سے کیا بہتر

اس میں ہووے جو نام شاعر کا

لے کے دیوان پکارتے پھرئیے

ہر گلی کوچہ کام شاعر کا

توبہ زاہد کی توبہ تلی ہے

چلے بیٹھے تو شیخ چلی ہے

پگڑی اپنی سنبھالئے گا میرؔ

اور بستی نہیں یہ دِلی ہے

کسی استاد کا شعر فارسی ہے۔

بہ گرد تر تم امشب ہجوم بلبل بود

مگر چراغ مزارم ز روغنِ گل بود

میر صاحب کے شعر میں بھی اس رنگ کا مضمون ہے مگر خوب بندھا ہے۔

ہمائے روغن دیا کرے ہے عشق

خونِ بلبل چراغ میں گل کے

شیخ سعدیؔ کا شعر ہے۔

دوستاں منع کندم کر چرا دل بتو دادم

باید اوّل بہ تو گفتن کہ چنیں خوب چرائی

(سعدی)

چاہنے کا ہم پہ یہ خوباں جو دھرتے ہیں گناہ

اُن سے بھی پوچھو کوئی تم اتنے کیوں پیارے ہوئے

(میر)

دست خواہم زد بدامانِ سکندر روزِ حشر

شوخِ لیلیٰ زا دہ ام را رشکر مجنوں کردہ است

(ناصر علی)

دیکھ آئینہ کو یار ہوا محو ناز کا

خانہ خراب ہو جیو آئینہ ساز کا

(میر)

زندگی بر گردنم افتاد بیدل چارہ نیست

شاد با ید زیستن ناشاد باید زیستن

(بیدل)

گوشہ گیری اپنے بس میں ہی نہ ہے آوارگی

کیا کریں اے میر صاحب بندگی بیچارگی

(میر)

محمد امان نثارؔ میر صاحب کے شعروں پر ہمیشہ شعر کہا کرتے تھے (دیکھو صفحہ)۔ ان کا شعر ہے۔

بھووں (*) تئیں تم جس دن سج نکلے تھے ایک چیرا

اس دن ہی تمھیں دیکھے ماتھا مرا ٹھنکا تھا

(میر)

*  یعنی جس دن تم بھوؤں تک جھکا ہوا بانکا چیرا باندھ کر نکلے تھے، اُسی دن ہم سمجھ گئے کہ اب دلوں کی خیر نہیں۔

اکثر اشعار میں میر اور مرزا کے مضمون لڑ گئے ہیں۔ اس رتبہ کے شاعروں کو کون کہہ سکتا ہے کہ سرقہ کیا، دوسرے ایک عہد تھا، ایک شہر تھا، اسی وقت غل مچتا۔ دیکھو صفحہ ، ان دونوں بزرگوں کے کلام میں چشمکیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ مرزا فرماتے ہیں۔

نہ پڑھیو یہ غزل سودا تو ہر گز میر کے آگے

وہ ان طرزوں سے کیا واقف وہ یہ انداز کیا جانے

سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ

ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

میر صاحب فرماتے ہیں۔

طرف ہونا مرا مشکل ہے میرؔ اس شعر کے فن میں

یونہی سودا کبھی ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے

مرزا رفیع سودا، خواجہ میر دردؔ، مرزا جانجاناں مظہرؔ قائم، یقین وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔ اور مصحفیؔ، جرأتؔ، اور میر انشاء اللہ خاں نے آخر عہد میں ظٖہور کیا۔

میر صاحب کے بیٹے لکھنؤ میں ملے تھے۔ باپ کے برابر نہ تھے۔ مگر بدنصیبی میں فرزندِ خلف تھے۔ ایک پیر مرد بے پروا مستغنی المزاج تھے۔ میر عسکریؔ نام میر کلو مشہور تھے۔ عرشؔ تخلص تھا۔ خود شاعر صاحب دیوان تھے اور چند شاگرد بھی تھے۔ ایک شعر ان کی غزل کا لکھنؤ میں زبان زد خاص و عام ہے :

آسیا کہتی ہے ہر صبح بآواز بلند

رزق سے بھرتا ہے رزاق دہن پتھر کا

یہ مضمون باقی ہے۔۔۔۔۔


2013/6/1 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 



--

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 6, 2013, 10:13:48 AM6/6/13
to Aijaz .Shaheen

 

مرزا محمد رفیع سوداؔ

 

سودا تخلص مرزا محمد رفیع نام، شہر دہلی کو اُن کے کمال سے فخر ہے، باپ مرزا محمد شفیع میرزایانِ کابل سے تھے، بزرگوں کا پیشہ سپاہ گری تھی، مرزا شفیع بطریقِ تجارت واردِ ہندوستان ہوئے۔ ہند کی خاکِ دامنگیر نے ایسے قدم پکڑے کہ یہیں رہے۔ بعض کا قول ہے کہ باپ کی سوداگری سوداؔ کے لئے وجہِ تخلص ہوئی لیکن بات یہ ہے کہ ایشیا کے شاعر ہر ملک میں عشق کا دم بھرتے ہیں اور سوداؔ اور دیوانگی عشق کے ہمزاد ہیں۔ اس لئے وہ بھی اِن لوگوں کے لئے باعثِ فخر ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے سوداؔ تخلص کیا اور سوداگری کی بدولت ایہام کی صنعت حصہ میں آئی۔

سوداؔ ۱۱۲۵ء میں پیدا ہوئے، دہلی میں پرورش اور تربیت پائی، کابلی دروازہ کے علاقہ میں ان کا گھر تھا، ایک بڑے پھاٹک میں نشست رہتی تھی، شیخ ابراہیم ذوقؔ علیہ الرحمۃ اکثر ادھر ٹہلتے ہوئے جا نکلتے تھے۔ میں ہمرکاب ہوتا تھا۔ مرزا کے وقت کے حالات اور مقامات کے ذکر کر کے قدرتِ خدا کو یاد کیا کرتے تھے۔

سوداؔ بموجب رسم زمانہ کے اول سلیمان قلی خاں داور کے پھر شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے۔ شاہ موصوف نے بھی اپنے دیوان کے دیباچہ میں جو شاگردوں کی فہرست لکھی ہے اُس میں مرزا کا نام اس طرح لکھا ہے۔ جس سے فخر کی خوشبو آتی ہے۔ خوشا نصیب اِس اُستاد کے جس کی گود میں ایسا شاگرد پَل کر بڑا ہوا، خان آرزو کے شاگرد نہ تھے مگر ان کی صحبت سے بہت فائدے حاصل کئے۔ چنانچہ پہلے فارسی شعر کہا کرتے تھے۔ خان آرزو نے کہا کہ مرزا فارسی اب تمھاری زبان مادری نہیں، اس میں ایسے نہیں ہو سکتے کہ تمھارا اہل زبان کے مقابل میں قابلِ تعریف ہو۔ طبع موزوں ہے۔ شعر سے نہایت مناسبت رکھتی ہے، تم اُردو کہا کرو تو یکتائے زمانے ہو گے۔ مرزا بھی سمجھ گئے اور دیرینہ سال اُستاد کی نصیحت پر عمل کیا۔ غرض طبیعت کی مناسبت اور مشق کی کثرت سے دلی جیسے شہر میں ان کی اُستادی نے خاص و عام سے اقرار لیا کہ ان کے سامنے ہی ان کی غزلیں گھر گھر اور کوچہ و بازار میں خاص و عام کی زبانوں پر جاری تھیں۔

(مرزا محمد زمان عرف سلیمان قلی خاں  کے دادا اصفہان سے آئے تھے، یہ دلی میں پیدا ہوئے۔ نواب موسوی خاں کے ساتھ اعزاز سے زندگی بسر کرتے تھے۔ تین سو روپیہ مہینہ پاتے تھے اور شعر کہہ کہہ کر دل خوش کرتے۔ دیکھو مصحفی کا شعرائے فارسی کا تذکرہ۔)

جب کلام کا شہرہ عالمگیر ہوا تو شاہ عالم بادشاہ اپنا کلام اصلاح کے لئے دینے لگے اور فرمائشیں کرنے لگے، ایک دن کسی غزل کے لیے تقاضا کیا۔ اُنھوں نے عذر بیان کیا، حضور نے فرمایا، بھئی مرزا کَے غزلیں روز کہہ لیتے ہو؟ مرزا نے کہا، پیر و مرشد جب طبیعت لگ جاتی ہے دو چار شعر کہہ لیتا ہوں۔ حضور نے فرمایا بھئی ہم تو پائخانہ میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر عرض کی حضور، ویسی بُو بھی آتی ہے۔ یہ کہہ کر چلے آئے۔ بادشاہ نے پھر کئی دفعہ بلا بھیجا اور کہا کہ ہماری غزلیں بناؤ۔ ہم تمھیں ملک الشعراء کر دیں گے، یہ نہ گئے اور کہا کہ حضور کی ملک الشعرائی سے کیا ہوتا ہے۔ کرے گا تو میرا کلام ملک الشعراء کرے گا اور پھر ایک بڑا مخمس شہرِ آشوب لکھا :

کہا میں آج یہ سودا سے کیوں ہے ڈانواں ڈول

بے درد ظاہر بین کہتے ہیں کہ بادشاہ اور دربارِ بادشاہ  کی ہجو کی ہے۔ غور دیکھو تو ملک کی دل سوزی میں اپنے وطن کا مرثیہ کہا ہے۔

مرزا دل شکستہ ہو کر گھر میں بیٹھ رہے۔ قدردان موجود تھے۔ کچھ پرواہ نہ ہوئی۔ اِن میں اکثر روسا اور امراء خصوصاً مہربان خاں اور بسنت خاں ہیں جن کی تعریف میں قصیدہ کہا ہے۔

کل حرص نام شخصے سودا پہ مہربان ہو

بولا نصیب تیرے سب دولت جہاں ہو

حرص کی زبانی دنیا کی دولت اور نعمتوں کا ذکر کر کے خود کہتے ہیں کہ

اے حرص جو کچھ کہا ہے تو نے یہ تجھ کو سب مبارک

میں اور میرے سر پر میرا بسنت خاں ہو

اِن لوگوں کی بدولت ایسی فارغ البالی سے گزرتی تھی کہ ان کے کلام کا شہرہ جب نواب شجاع الدولہ نے لکھنؤ میں سُنا تو کمالِ اشتیاق سے برادرِ من مشفق مہربان من لکھ کر خط مع سفر خرچ بھیجا اور طلب کیا، انھیں دلی کا چھوڑنا گوارہ نہ ہوا۔ جواب میں فقط اس رباعی پر حُسنِ معذرت کو ختم کیا :

سودا پے دنیا تو بہر سو کب تک؟

آوارہ ازیں کوچہ بآں کو کب تک؟

حاصل یہی اس سے نہ کہ دنیا ہووے

بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر تو کب تک؟

کئی برس کے بعد وہ قدردان مر گئے، زمانے بدل گئے، سودا بہت گھبرائے۔ اس عہد میں ایسے تباہ زدوں کے لئے دہ ٹھکانے تھے، لکھنؤ یا حیدر آباد۔ لکھنؤ پاس تھا اور فیض و سخاوت کی گنگا بہہ رہی تھی، اس لئے جو دلی سے نکلتا تھا اِدھر ہی رُخ کرتا تھا اور اتنا کچھ پاتا تھا کہ پھر دوسری طرف خیال نہ جاتا تھا۔ اس وقت حاکم بلکہ وہاں کے محکوم بھی جویائے کمال تھے۔ نُقطے کو کتاب کے مولوں خریدتے تھے۔

غرض ۶۰ یا ۶۶ برس کی عمر میں دلی سے نکل کر چند روز فرخ آباد میں نواب بنگش کے پاس رہے۔ اُن کی تعریف میں بھی کئی قصیدے موجود ہیں۔ وہاں سے ۱۱۸۵ھ میں لکھنؤ پہنچے۔ نواب شجاع الدولہ کی ملازمت حاصل کی، وہ بہت اعزاز سے ملے اور ان کے آنے پر کمال خورسندی ظاہر کی۔ لیکن یا تو بے تکلفی سے یا طنز سے اتنا کہا کہ مرزا وہ رُباعی تمھاری اب تک میرے دل پر نقش ہے، اور اسی کو مکرر پڑھا۔ اُنھیں اپنے حال پر بڑا رنج ہوا اور بپاسِ وضعداری پھر دربار نہ گئے، یہاں تک کہ شجاع الدولہ مر گئے ا ور آصف الدولہ مسند نشین ہوئے۔

لکھنؤ میں مرزا فاخر مکیںؔ  زبانِ فارسی کے مشہور شاعر تھے، ان سے اور مرزا رفیع سے بگڑی اور جھگڑے نے ایسا طول کھینچا کہ نواب آصف الدولہ کے دربار تک نوبت پہنچی (عنقریب اس کا حال بہ تفصیل بیان کیا جائے گا) انجام یہ ہوا کہ علاوہ انعام و اکرام کے چھ ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ ہو گیا اور نواب نہایت شفقت کی نظر فرمانے لگے۔ اکثر حرم سرا میں خاصہ پر بیٹھے ہوتے اور مرزا کی اطلاع ہوتی، فوراً باہر نکل آتے، شعر سُن کر خوش ہوتے اور اُنھیں انعام سے خوش کرتے تھے۔

جب تک مرزا زندہ رہے نواب مغفرت مآب اور اہلِ لکھنؤ کی قدردانی سے ہر طرح فارغ البال رہے۔ تقریباً ستر برس کی عمر میں ۱۱۹۵ھ میں وہیں دُنیا سے (فخر الدین نے تاریخ کہی : "بولے منصف دُور کر پائے عناد – شاعرانِ ہند کا سرور گیا" ۱۱۹۵ھ مصحفی نے کہا کہ "دوا لجاوآں سخنِ دلفریب او۔ ۱۱۹۵ھ، میر قمر الدین منت نے کہا "بگفت گوہر معنی یتیم شد ہی ۱۱۹۵ھ)انتقال کیا، شاہ حاتم زندہ تھے، سُن کر بہت روئے اور کہا کہ افسوس ہمارا پہلوانِ سخن مر گیا۔

حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ اواخر عمر میں مرزا نے دلی چھوڑی۔ تذکرہ دل کشا میں ہے کہ ۶۶ برس کی عمر میں مر گئے۔ تعجب ہے کہ مجموعہ سخن جو لکھنؤ میں لکھا گیا ہے اس میں ہے کہ مرزا عالمِ شباب میں وارد لکھنؤ ہوئے۔ غرض چونکہ شجاع الدولہ ۱۱۸۸ھ میں فوت ہوئے تو مرزا نے کم و بیش ۷۰ برس کی عمر پائی۔

ان کے بعد کمال بھی خاندان سے نیست و نابود ہو گیا۔ راقم آثم ۱۸۵۸ء میں لکھنؤ گیا۔ بڑی تلاش کے ایک شخص ملے کہ ان کے نواسے کہلاتے تھے، بیچارے پڑھے لکھے بھی نہ تھے اور نہایت آشفتہ حال تھے۔ سچ ہے :

میراث پدر خواہی علمِ پدر آموز

بندہ عشق شدی ترکِ نسب کن جامی

کاندریں راہ فلاں ابنِ فلاں چیزے نیست

ان کا کلیات ہر جگہ مل سکتا ہے اور قدر و منزلت کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حکیم سید اصلح الدین خاں نے ترتیب دیا تھا اور اس پر دیباچہ بھی لکھا تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے پُرانے محاوروں سے قطعِ نظر کر کے دیکھیں تو سرتاپا نظم اور افشائے اُردو کا دستور العمل ہے، اول قصائد اُردو بزرگانِ دین کی مدح میں اور اہل و دل کی تعریف میں اسی طرح چند قصائد فارسی ۲۴ مثنویاں ہیں۔ بہت سی حکایتیں اور لطائف منظوم ہیں۔ ایک مختصر دیوان فارسی کا تمام و کمال دیوان ریختہ جس میں بہت سی لاجواب غزلیں اور مطلع، رباعیاں، مستزاد، قطعات، تاریخیں، پہلیاں، واسوخت، ترجیع بند، مخمس سب کچھ کہا ہے اور ہر قسم کی نظم میں ہجوئیں ہیں، جو ان کے مخالفوں کے دل و جگر کو کبھی خون اور کبھی کباب کرتی ہیں۔ ایک تذکرہ شعرائے اُردو کا ہے اور وہ نایاب ہے۔

غزلیں اُردو میں پہلے سے بھی لوگ کہہ رہے تھے۔ مگر دوسرے طبقہ تک اگر شعراء نے کچھ مدح میں کہا ہے تو ایسا ہے کہ اُسے قصیدہ نہیں کہہ سکتے، پس اول قصائد کا کہنا اور پھر دھوم دھام سے اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاغت پر پہنچانا اِن کا فخر ہے، وہ اس میدان میں فارسی کے نامی شہسواروں کے ساتھ عناں در عناں ہی نہیں گئے، بلکہ اکثر میدانوں میں آگے نکل گئے، ان کے کلام کا زور شور انوریؔ اور خاقانیؔ کو دباتا ہے اور نزاکتِ مضمون میں عرجی و ظہوری کو شرماتا ہے۔

مثنویاں ۲۴ ہیں اور اکثر حکایتیں اور لطائف وغیرہ ہیں۔ وہ سب نظم اور فصاحتِ کلام کے اعتبار سے اِن کا جوہر طبعی ظاہر کرتی ہیں۔ مگر عاشقانہ مثنویاں ان کے مرتبہ کے لائق نہیں۔ میر حسن مرحوم تو کیا، میر صاحب کے شعلہ عشق اور دریائے عشق کو بھی نہیں پہنچیں۔ فارسی کے مختصر دیوان میں سب ردیفیں پوری ہیں، زورِ طبع اور اُصولِ شاعرانہ سب قائم ہیں، صائب کا انداز ہے مگر تجربہ کار جانتے ہیں کہ ایک زبان کی مشق اور مزاولت دوسری زبان کے اعلیٰ درجہ کمال پر پہنچنے میں سنگ راہ ہوتی ہیں، چنانچہ شیخ مصحفی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے "آخر آخر خیال شعر فارسی ہم پیدا گرد۔ مگر از فہم و عقلش ایں امر بعید بود کہ کرد، غرض غزلہائے فارسی خود نیز کہ در لکھنؤ گفتہ بقید ردیف ترتیب دادہ داخل دیوانِ ریختہ نمودہ و ایں ایجادِ اوست۔" دیوانِ ریختہ (وقت کی زبان سے قطع نظر کر کے ) باعتبار جوہر کلام کے سرتاپا مرصع ہے، بہت سی غزلیں دلچسپ اور دلپسند بحروں میں ہیں کہ اس وقت تک اُردو میں نہیں آئی تھیں۔ زمینیں سنگلاخ ہیں اور ردیف قافیتے بہت مشکل ہیں۔ جس پہلو سے اُنھیں جما دیا ہے ایسے جمے ہیں کہ دوسرے پہلو سے کوئی ہٹائے تو تمھیں معلوم ہو۔

گرمی کلام کے ساتھ ظرافت جو اُن کی زبان سے ٹپکتی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ بڑھاپے تک شوخیِ طفلانہ ان کے مزاج میں اُمنگ دکھاتی تھی۔ مگر ہجوؤں کا مجموعہ جو کلیات میں ہے، اس کا ورق ورق ہنسنے والوں کے لئے زعفرانِ زار کشمیر کی کیاریاں ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت کی شگفتگی اور زندہ دلی کسی طرح کے فکر و تردد کو پاس نہ آنے دیتی تھی۔ گرمی اور مزاج کی تیزی بجلی کا حکم رکھتی تھی اور اس شدت کے ساتھ کہ نہ کوئی انعام اسے بجھا سکتا تھا نہ کوئی خطرہ اسے دبا سکتا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ ذرا سی ناراضی میں بے اختیار ہو جاتے تھے، کچھ اور بس نہ چلتا تھا، جھٹ ایک ہجو کا طومار تیار کر دیتے تھے۔

غنچہ نام اِن کا ایک غلام تھا، ہر وقت خدمت میں حاضر رہتا تھا اور ساتھ قلمدان لئے پھرتا تھا،  جب کسی پر بگڑتے تو فوراً پکارتے "ارے غنچہ لا تو قلمدان، ذرا میں اس کی خبر تو لوں، یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔" پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منھ کھول کر وہ بے نقط سُناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے۔

عربی اور فارسی دو ذخیرہ وار اُردو کے ہیں، ان کے خزانے میں ہجوؤں کے تھیلے بھرے ہیں، مگر اس وقت تک اُردو کے شاعر صرف ایک دو شعروں میں دل کا غبار نکال لیتے تھے۔ یہ طرزِ خاص کہ جس سے ہجو ایک موٹا ٹہنا اس باغِ شاعری کا ہو گئی، انہی کی خوبیاں ہیں، عالم، جاہل، فقیر، امیر، نیک، بد، کسی کی ڈاڑھی ان کے ہاتھ سے نہیں بچی۔ اس طرح پیچھے پڑتے تھے کہ انسان جان سے بیزار ہو جاتا تھا مگر میر ضاحک (میر ضاحک کا حال صفحہ ۔۔  فدوی ۱۸۹ مکین ۲۵۵ شاہ ہدایت سے جو لطیفہ ہوا، دیکھو صفحہ) وغیرہ اہلِ کمال نے بھی چھوڑا نہیں، ان کا کہا انھیں کے دامن میں ڈالا ہے، البتہ حُسنِ قبول اور شہرتِ عام ایک نعمت ہے کہ وہ کسی کے اختیار میں نہیں انھیں خدا نے دی، وہ محروم رہے۔ مرزا نے جو کچھ کہا بچے بچے کی زبان پر ہے۔ انھوں نے جو کہا وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ انھیں میں سے ایک شعر ہے کہ فدوی (فدوی اصل میں ہندو تھے، مکند رام نام تھا، مسلمان ہو گئے تھے۔ پنجاب وطن تھا، علم کم مگر طبیعت مناسب تھی، شعر اُردو کہتے تھے، صابر علی شاہ کے شاگرد تھے اور فقیرانہ وضع سے زندگی بسر کرتے تھے۔ مشاعرہ میں جاتے تو کبھی بیٹھتے کبھی کھڑے ہی کھڑے غزل پڑھتے اور چلے جاتے تھے۔ جب انھوں نے احمد شاہ کی تعریف میں قصیدہ کہا تو بادشاہ نے ہزار روپیہ نقد اور گھوڑا اور تلوار انعام دی۔ ان کا بھی دماغ بلند ہوا، اور دعوے ٰ ملک الشعراء کا کرنے لگے۔ کچھ مرزا پر اعتراض کئے اِس پر مرزا نے اُلو اور بنیے کی ہجو کہی۔ انجام کو طرفین کی ہجوئیں حد سے گزر گئیں۔ فدوی نواب ضابطہ خاں کے ہاں نوکر بھی ہو گئے تھے اور اخیر کو انھیں بھی لکھنؤ جانا پڑا۔ ان کا دیوان نہایت دلچسپ ہے اور ہر غزل کا خاتمہ پیغمبر صاحب کی نعت یا کسی اور امام کی مدح پر کرتے ہیں۔ زلیخا کا ترجمہ بھی نواب صاحب موصوف کی فرمائش سے نظم کیا ہے۔ گلزارِ ابراہیمی میں لکھا ہے کہ ایک بر خود غلط آدمی تھا، مرزا کے مقابلہ کے لئے فرخ آباد میں آیا اور ذلت اٹھا کر گیا۔)اور فوقی ایک فرضی شخص کا نام ڈال دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

فدوی، مکین، بقا (بقا تخلص، بقاء اللہ خاں نام، اکبر آباد وطن تھا، دہلی میں پیدا ہوئے تھے، لکھنؤ میں جا رہے۔ حافظ لطف اللہ خوشنویس کے بیٹے تھے اور مرزا اور میر صاحب کے معاصر تھے۔ شاہ حاتم سے ریختہ کی اصلاح لی تھی اور فارسی میں مرزا فاخر کے شاگرد تھے۔ طبیعت فنِ شعر کے لئے نہایت مناسب تھی۔ اردو زبان صاف، ایک مطلع ان کا اہل سخن کے جلسوں میں ضرب المثل چلا آتا ہے، لاجواب ہے۔ دیکھو صفحہ۔۔، میرؔ اور سودا دونوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں :

میر و مرزا کی شعر خوانی نے

بسکہ عالم میں دھوم ڈالی تھی

کھول دیوان دونوں صاحب کے

اے بقاؔ ہم نے جب زیارت کی

کچھ نہ پایا سوائے اس کے سخن

ایک تو تو کہے ہے اک ہی ہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کی طبع موزوں سے مرزا صاحب کی شان میں واقع ہوا ہے۔

کچھ کٹ گئی ہے پیتی کچھ کٹ گیا ہے ڈورا

دُم داب سامنے سے وہ اُڑ چلا لٹورا

بھڑوا ہے، مسخرا ہے سودا اسے ہوا ہے

مرزا نے جو راجہ نرپت سنگھ کے ہاتھی کی ہجو میں مثنوی کہی ہے۔ اس کے جواب میں بھی کسی نہ مثنوی لکھی ہے اور خوب لکھی ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں :

تم اپنے فیلِ معنی کو نکالو

مرے ہاتھی سے دو ٹکر لڑا لو

سید انشاء نے لکھا ہے کہ دو ٹکریں چاہیے۔ یہ سید صاحب کی سینہ زوری ہے۔

ہجوؤں میں ایک ساقی نامہ ہے جس میں فوتی شاعری کی ہجو ہے۔ اصل میں قیام الدین (یہ صاحبِ کمال چاند پور کے رہنے والے تھے مگر فنِ شعر میں کامل تھے۔ اِن کا دیوان ہر گز میرؔ و مرزاؔ کے دیوان نے نیچے نہیں رکھ سکتے، مگر کیا کیجیے کہ قبولِ عام اور کچھ شے ہے شہرت نہ پائی۔ یہ اول شاہ ہدایت کے شاگرد ہوئے۔ اِن سے ایسی بگڑی کہ ہجو کہی، تعجب یہ ہے کہ شاہ موصوف باوجویکہ حد سے زیادہ خاکساری طبیعت میں رکھتے تھے مگر اُنھوں نے بھی ایک قطعہ ان کے حق میں کہا۔ پھر خواجہ میر دردؔ کے شاگرد ہوئے، ان کے حق میں بھی کہہ سُن کر الگ ہوئے، پھر مرزا کی خدمت میں آئے اور اُن سے پھر ملے۔ مرزا تو مرزا تھے اُنھوں نے سیدھا کیا۔)قائمؔ کی ہجو میں تھا، وہ بزرگ باوجود شاگردی کے مرزا سے منحرف ہو گئے تھے۔ جب یہ ساقی نامہ لکھا گیا تو گھبرائے اور آ کر خطا معاف کروائی۔ مرزا نے اُن کا نام نکال دیا۔

مرثیے اور سلام بھی بہت کہے ہیں، اس زمانہ میں مسدس کی رسم کم تھی۔ اکثر مرثیے چو مصرع ہیں مگر مرثیہ گوئی کی آج کی ترقی دیکھ کر اِن کا ذکر کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ شاید انہی مرثیوں کو دیکھ کر اگلے وقتوں میں مثل مشہور ہوئی تھی کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویا مرثیہ خوان۔ حق یہ ہے کہ مرثیہ کا شاعر گویا ایک مصیبت زدہ ہوتا ہے کہ اپنا دُکھڑا روتا ہے، جب کسی کا کوئی مر جاتا ہے تو غم و اندوہ کے عالم میں جو بے چارہ کی زبان سے نکلتا ہے سو کہتا ہے اس پر کون بے درد ہے جو اعتراض کرے۔ وہاں صحت و غلطی اور صنائع و بدائع کو کیا ڈھونڈھنا۔ یہ لوگ فقط اعتقاد مذہبی کو مد نظر رکھ کر مرثیے و سلام کہتے تھے، اس لئے قواعدِ شعری کی احتیاط کم کرتے تھے اور کوئی اس پر گرفت بھی نہ کرتا، پھر بھی مرزا کی تیغ زباں جب اپنی اصالت دکھاتی ہے تو دلوں میں چھُریاں ہی مار جاتی ہے۔ ایک مطلع ہے :

یارو سنو تو خالق اکبر کے واسطے

انصاف سے جو اب دو حیدر کے واسطے

وہ بوسہ گہ بنی تھی پیمبر کے واسطے

یا ظالموں کے برش خنجر کے واسطے

باوجود عیوب مذکورہ بالا کے جہاں کوئی حالت اور روئداد دکھاتے ہیں، پتھر کا دل ہو تو پانی ہوتا ہے اور وہ ضرور آج کل کے مرثیہ گویوں کو دیکھنی چاہیے کیونکہ یہ لوگ اپنے زورِ کمال میں آ کر اس کوچہ سے نکل گئے ہیں (لطف یہ ہے کہ اس زمانہ کے لوگ سودا کے مرثیوں کو کہتے تھے کہ ان میں مرثیت نہیں، شاعری ہے اور سوداؔ خود بھی ان کی بے انصافی سے نالاں ہیں۔)

واسوخت، مخمس، ترجیح بند، مستزاد، قطعہ، رباعیاں، پہیلیاں وغیرہ اپنی اپنی طرز میں لاجواب ہے۔ خصوصاً تاریخیں بے کم و کاست ایسی برمحل و برجستہ واقع ہوئی ہیں کہ ان کے عدم شہرت کا تعجب ہے۔ غض جو کچھ کہا ہے اسے اعلیٰ درجہ کمال پر پہنچایا ہے، مرزا کی زبان کا حال نظم میں تو سب کو معلوم ہے کہ کبھی دودھ سے کبھی شربت، مبر نثر میں بڑی مشکل ہوتی ہے۔ فقط مصری کی ڈلیاں چبانی پڑتی ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ نثر اُردو ہے مگر مرزا بیدل کی نثر فارسی معلوم ہوتی ہے۔ کتابِ مذکور اس وقت موجود نہیں لیکن ایک دیباچہ میں اُنھوں نے تھوڑی سی نثر بھی لکھی ہے۔ اس سے افسانہ مذکور کا انداز معلوم ہو سکتا ہے۔ دیکھو صفحہ ۔

کل اہلِ سخن کا اتفاق ہے کہ مرزا اس فن میں استاد مسلم الثبوت تھے۔ وہ ایسی طبیعت لے کر آئے تھے جو شعر اور فنِ انشاء ہی کے واسطے پیدا ہوئی تھی۔ میرؔ صاحب نے بھی اُنھیں پورا شاعر مانا ہے۔ ان کا کلام کہتا ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھلا رہتا تھا، اس پر سب رنگوں میں ہم رنگ اور ہر رنگ میں اپنی ترنگ، جب دیکھو طبیعت شورش سے بھری اور جوش و خروش سے لبریز، نظم کی ہر فرع میں طبع آزمائی کی ہے اور رُکے نہیں۔ چند صفتیں خاص ہیں، جن سے کلام اُن کا جملہ شعراء سے ممتاز معلوم ہوتا ہے۔ اول یہ کہ زبان پر حاکمانہ قدرت رکھتے ہیں۔ کلام زورِ مضمون کی نزاکت سے ایسا دست و گریبان ہے، جیسے آگ کے شعلہ میں گرمی اور روشنی، بندش کی چُستی اور ترکیب کی درستی سے لفظوں کو اس در و بست کے ساتھ پہلو بہ پہلو جڑتے ہیں، گویا ولایتی طپنچہ کی چانپیں چڑھی ہوئی ہیں اور یہ خاص اُن کا حصہ ہے۔ چنانچہ جب اُن کے شعر میں سے کچھ بھول جائیں تو جب تک وہی لفظ وہاں نہ رکھے جائیں شعر مزا ہی نہیں دیتا، خیالات نازک اور مضامین تازہ باندھتے ہیں مگر اس باریک نقاشی پر اُن کی فصاحت آئینہ کا کام دیتی ہے تشبیہ اور استعارے  ان کے ہاں ہیں مگر اسی قدر کہ جتنا کھانے میں نمک یا گلاب کے پھول پر رنگ، رنگینی کے پردہ میں مطلب اسلی کو گم نہیں ہونے دیتے۔

اِن کی طبیعت ایک ڈھنگ کی پابند نہ تھی۔ نئے نئے خیال اور چٹختے قافیئے جس پہلو سے جمتے دیکھتے تھے جما دیتے تھے، اور وہی ان کا پہلو ہوتا تھا کہ خواہ مخواہ سننے والوں کو بھلے معلوم ہوتے تھے۔ یا ان کی خوبی تھی کہ جو بات اس سے نکلتی تھی اس کا انداز نیا معلوم ہوتا تھا، زبان کے ہمعصر استاد خود اقرار کرتے تھے کہ جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں وہ اس شخص کے پیش پا اُفتادہ ہیں۔

جن اشخاص نے زبان اُردو کو پاک صاف کیا ہے مرزا کا اُن میں پہلا نمبر ہے۔ اُنھوں نے فارسی محاوروں کو بھاشا میں کھپا کر ایسا ایک کیا ہے، جیسے علم کیمیا کا ماہر ایک مادہ کو دوسرے مادہ میں جذب کر دیتا ہے اور تیسرا مادہ پیدا کر دیتا ہے کہ کسی تیزاب سے اُس کا جوڑ کھل نہیں سکتا۔ انھوں نے ہندی زبان کو فارسی محاوروں اور استعاروں سے نہایت زور بخشا، اکثر ان میں سے رواج پا گئے، اکثر آگے نہ چلے۔

انھیں کا زورِ طبع تھا، جس کی نزاکت سے دو زبانیں ترتیب پا کر تیسری زبان پیدا ہو گئی، اور اُسے ایسی قبولیت عام حاصل ہوئی کہ آیندہ کے لئے وہی ہندوستان کی زبان ٹھہری، جس نے حکام کے درباروں اور علوم کے خزانوں پر قبضہ کیا۔ اسی کی بدولت ہماری زبان فصاحت اور انشاء پردازی کا تمغہ لے کے شائستہ زبانوں کے دربار میں عزت کی کُرسی پائے گی۔ اہل ہند کو ہمیشہ ان کی عظمت کے سامنے ادب اور ممنونی کا سر جھکانا چاہیے۔ ایسی طبیعتیں کہاں پیدا ہوتی ہیں کہ پسند عام کی نبض شناس ہوں، اور وہی باتیں نکالیں، جن پر قبول عام رجوع کر کے سالہا سال کے لئے رواج کا قبالہ لکھ دے۔

ہر زبان کے اہلِ کمال کی عادت ہے کہ غیر زبان کے بعض الفاظ میں اپنے محاورہ کا کچھ نہ کچھ تصرف کر لیتے ہیں، اس میں کسی موقع پر قادر الکلامی کا زور دکھانا ہوتا ہے، کسی موقع پر محاورہ عام کی پابندی ہوتی ہے، بے خبر کہہ دیتا ہے کہ غلطی کی، مرزا نے بھی کہیں کہیں ایسے تصرف کئے ہیں،  چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں :

جیسے کہتا ہے کوئی ہو ترا صفًا صفًا

ایک غزل میں کہتے ہیں :

لب و لہجہ ترا سا ہے گا کب خوبانِ عالم میں

غلط الزام ہے جگ میں کہ سب مصری کی ڈلیاں ہیں

کل تو مست اس کیفیت سے تھا کہ آتے دیر سے

نظر بھر جو مدرسہ دیکھا سو وہ میخانہ تھا

ساق سیمیں کو ترے دیکھ کے گوری گوری

شمع مجلس میں ہوئی جاتی ہے تھوڑی تھوڑی

اپنے کعبہ کی بزرگی شیخ جو چاہے سو کر

از روئے تاریخ تو بیش از صنم خانہ نہیں

فارسی محاورہ کو دیکھنا چاہیے کہ کس خوبصورتی سے بول گئے ہیں :

ہے مجھے فیضِ سخن اِس کی ہی مداحی کا

ذات پر جس کی میرہن کنہ عزوجل

بہت ہر ایک سے ٹکرا کے چلے تھے، کالا

ہو گیا دیکھ کے وہ زلفِ سیہ فام سفید

خیال ان انکھڑیوں کا چھوڑ مت مرنے کے بعد از بھی

دلا آیا جو تو اس میکدہ میں جام لیتا جا

 (اس غزل کا مطلع دیکھو صفحہ)

سوداؔ کہتا ہے نہ خوباں سے مِل اتنا

تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے والا

عاشق بھی نامراد ہیں پر اس قدر لپ پ،

دل کو گنوا بیٹھ رہے صبر کر کے ہم

یہاں ردیف میں تصرف کیا ہے کہ ے حذف ہو گئی ہے۔ اسی طرح عاجز میں ع، حکیم کی ہجو میں کہتے ہیں :

لکھ دیا مجنوں کو شیر شتر

کہہ دیا مستسقی سے جا فصد کر

ایک کہانی میں لکھتے ہیں :

قضا کار وہ دائیِ نامدار

ہوئی دردِ قولنج سے بے قرار

مرزا اکثر ہندی کے مضمون اور الفاظ نہایت خفیف طور پر تضمین کر زبان ہند کی اصلیت کا حق ادا کرتے تھے، اس لطف میں یہ اور سید انشاء شامل ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں :

ترکش الینڈ سینہ عالم کا چھان مارا

مژگاں نے تیرے پیارے ارجن کا بان مارا

محبت کے کروں بھیج بل کی تعریف کیا یارو

ستم پربت ہو تو اس کو اُٹھا لیتا ہے جوں رائی

نہیں ہے گھر کوئی ایسا جہاں اس کو نہ دیکھا ہو

کنھیا سے نہیں کچھ کم صنم میرا وہ ہرجائی

ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے

یہ نین ہیں کہ جن سے یہ جنگل ہرے ہوئے

بوندی کے جمدھروں سے بھڑتے ہیں ہم وگر

لڑکے مجھ آنسوؤں کے غضب منکرے ہوئے

اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک

لختِ جگر کی لاش کو آگے دھرے ہوئے

(ہندوستان کا قدیم دستور ہے کہ جب سپہ سالار لڑائی میں مارا جاتا تھا تو اس کی لاش کو آگے لے کر تمام فوج کے ساتھ دھاوا کر دیتے تھے۔ سر مہند پر جب دُرانی سے فوج شاہی کی لڑائی ہوئی اور نواب قمر الدین خاں مارے گئے تو میر منوان کے بیٹے نے یہی کیا اور فتحیاب ہوا۔)

مرزا خود الفاظ تراشتے تھے اور اس خوب صورتی سے تراشتے تھے کہ مقبول خاص و عام ہوتے تھے۔ آصف الدولہ مرحوم کی تعریف میں ایک قصیدہ کہا ہے۔ چند شعر اس کے لکھتا ہوں، مضامین ہندی کے ساتھ الفاظ کی خوبصورت تراش کا لطف دیکھو :

تیرے سایہ تلے ہے تو وہ مہنت

پشہ کر جائے دیو دود سے لڑ نت

نام سُن، پیل کوہ پیکر کے

بہہ چلیں جوئے شیر ہو کر ونت

سحر صولت کے سامنے تیرے

سامری بھول جائے اپنی پڑھنت

تیری ہیبت سے یہ فلک کے تلے

کانپتی ہے، زمیں کے بیچ گڑنت

تکلے کی طرح بَل نکل جاوے

تیرے آگے جو وہ کڑے اکڑنت

دیکھ میداں میں اس کو روزِ نبرد

منھ پہ راون کے پھول جائے بسنت

تگتگِ پا اگر سُنے تیرے

داب کر دُم کھِسک چلے ہنونت

آوے بالفرض سامنے تیرے

روز بیجا کے سوریا ساونت

تن کا اِن کے زرہ میں ہو یوں حال

مرغ کی مام میں ہو جو پھڑکنت

اسی طرح باقی اشعار ہیں، مُرغ کی پھڑکنت، جل کر بھسمنت،تیر کی کمان کی سرکنت، زمین میں کھدنت، گھوڑے کی کڑکنت اور ڈپنت، جَودَنت (مقابل) دبکنت (ڈر کر دبکنا) رویاہ شیر کو سمجھتی ہے کیا پشمنت، نچنت (بے فکر) روپیوں کی بکھرنت، تاروں کی چھٹکنت، لپٹنت (لپٹنا)، پڑھنت (پڑھنا) کھٹنت (کھٹنا) عام شعرائے ہند و ایران کی طرح سب تصنیفات ایک کلیات میں ہیں، اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ کون سا کلام کس وقت کا ہے، اور طبیعت نے وقت بوقت کس طرف میل کیا ہے، خصوصاً یہ کہ زبان میں کب کب کیا کیا اصلاح کی ہے یہ اتفاقی موقع میرؔ صاحب کو ہاتھ آیا کہ چھ دیوان الگ الگ لکھ گئے۔ متقدمین اور متاخرین کے کلاموں کے مقابلے کروانے والے کہتے ہیں کہ ان کے دفتر تصنیفات میں ردی بھی ہے اور وہ بہت ہے۔ چنانچہ جس طرح میرؔ صاحب کے کلام میں بہتر (۷۲) نشتر بتاتے ہیں، ان کے زبردست کلام میں سے بہتر (۷۲) خنجر تیار کرتے ہیں۔ اس رائے میں مجھے بھی شامل ہونا پڑتا ہے کہ بے شک جو کلام آج کی طرف کے موافق ہے وہ ایسے مرتبہ عالی پر ہے جہاں ہمارے تعریف کی پرواز نہیں پہنچ سکتی اور دل کی پوچھو تو جن اشعار کو پُرانے محاوروں کے جرم میں ردی کرتے ہیں، آج کے ہزار محاورے اُن پر قربان، سُن لیجیے :

گر کیجیے انصاف تو کی روز وفا میں

خط آتے ہی سب ٹل گئے اب آپ ہیں یا میں

تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے اِن کی

لیکن ٹک ادھر دیکھیو اے یار بھلا میں

کیفیتِ چشم اُس کی مجھے یاد ہے سوداؔ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجیو کہ چلا میں

اُستاد مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب سودا کے سامنے کوئی یہ شعر پڑھ دیتا تھا یا اپنی ہی زبان پر آ جاتا تو وجد کیا کرتے تھے اور مزے لیتے تھے، اسی انداز کا ایک شعر نظیری کا یاد آ گیا، اگرچہ فارسی ہے مگر جی نہیں چاہتا کہ دوستوں کو لطف سے محروم رکھوں :

بوئے یارِ من ازیں سُست وفامی آید

گلم از دست بگیرید کہ از کارشدم

بہارِ سخن کے گل چینو! وہ ایک زمانہ تھا کہ ہندی بھاشا کی زمین میں جہاں دوہروں کا سبزہ خودرَو اُگا ہوا تھا وہاں نظم فارسی کی تخم ریزی ہوئی تھی، اسی وقت فارسی

(۱) مصحفیؔ کے آٹھ دیوانوں سے بھی یہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

(۲) دیکھو صفحہ

بحروں میں شعر کہنا اور ادھر کے محاورات کو ادھر لینا اور فارسی مضامین کو ہندی لباس پہنانا ہی بڑا کمال تھا، اس صاحبِ ایجاد نے اپنے زورِ طبع اور قوتِ زبان سے صنعتوں اور فارسی کی ترکیبوں اور اچھوتے مضمونوں کو اس میں ترتیب دیا۔ اور وہ خوبی پیدا کی کہ ایہام اور تجنیس وغیرہ صنائع لفظی جو ہندی دوہروں کی بنیاد تھی، اُسے لوگ بھول گئے، ایسے زمانے کے کلام میں رطب و یابس ہو تو تعجب کیا، ہم اس الزام کا بُرا نہیں مانتے۔

اس وقت زمینِ سخن میں ایک ہی آفت تو نہ تھی، اِدھر تو مشکلات مذکورہ، ادھر پُرانے لفظوں کا ایک جنگل، جس کا کاٹنا کٹھن، پس کچھ اشخاص آئے کہ چند کیاریاں تراش کر تخم ریزی کر گئے۔ ان کے بعد والوں نے جنگل کو کاٹا، درختوں کو چھانٹا، چمن بندی کو پھیلایا، جو ان کے پیچھے آئے، اُنھوں نے روش، خیاباں، دار بست گلکاری نہال گلبن سے باغ سجایا، غرض عہد بعہد اصلاحیں ہوتی رہیں اور آیندہ ہوتی رہیں گی۔ جس زبان کو آج ہم تکمیلِ جاودانی کا ہار پہنائے خوش بیٹھے ہیں، کیا یہ ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟ کبھی نہیں، ہم کس منھ سے اپنی زبان کا فخر کر سکتے ہیں، کیا دورِ گذشتہ کا سماں بھول گئے، ذرا پھر کر دیکھو تو ان بزرگانِ متقدمین کا مجمع نظر آئے گا کہ محمد شاہی دربار کی کھڑکی دار پگڑیاں باندھے ہیں، پچاس پچاس گز گھیر کے جامے پہنے بیٹھے ہیں، وہاں اپنے کلام لے کر آؤ، جس زبان کو تم نئی تراش اور ایجاد و اختراع کا خلعت پہناتے ہو کیا وہ اُسے تسلیم کریں گے ؟ نہیں ہرگز نہیں، ہماری وضع کو سفلہ اور گفتگو کو چھچھورا سمجھ کر منھ پھیر لیں گے، پھر ذرا سامنے دُوربین لگاؤ، دیکھو اُن تعلیم یافتہ لوگوں کو لین ڈوری آ چکی ہے جو آئے گا ہم پر ہنستا چلا جائے گا۔

یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے

مرزا قتیل چار شربت میں فرماتے ہیں، مرزا محمد رفیع سوداؔ در ریختہ پایہ مُلا ظہوری دارد و غیر ازئیکہ زبانِ ہر دو باہر تخالف دارد فرقے نتواں کرد" مرزا قتیل مرحوم صاحب کمال شخص تھے، مجھ بے کمال نے اِن کی تصنیفات سے بہت فائدے حاصل کئے ہیں، مگر ظہوری کی کیا غزلیں کیا قصائد دونوں استعاروں اور تشبیہوں کے پھندوں سے الجھا ہوا ریشم ہیں، سوداؔ کی مشابہت ہے تو انوریؔ سے ہے کہ محاورہ اور زبان کا حاکم اور قصیدہ اور ہجو جا بادشاہ ہے۔

یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ تصوف جو ایشیا کی شاعری کی مرغوب نعمت ہے، اس میں مرزا پھیکے ہیں۔ وہ حصہ خواجہ میر دردؔ کا ہے۔

کہتے ہیں کہ مرزا قصیدہ کے بادشاہ ہیں، مگر غزل میں میر  تقی کے برابر سوز و گداز نہیں، یہ بات کچھ اصلیت رکھتی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے بھی اس بات کے چرچے تھے چنانچہ خود کہتے ہیں :

لوگ کہتے ہیں کہ سوداؔ کا قصیدہ ہے خوب

اُن کی خدمت میں لئے میں یہ غزل جاؤنگا

یعنی دیکھو تو سہی غزل کچھ کم ہے۔

قدرت اللہ خاں قاسمؔ بھی اپنے تذکرہ میں فرماتے ہیں "زعم بعضے آنکہ سرآمدِ شعرائے فصاحت آقا مرزا محمد رفیع سودا اور غزل گوئی بوئے رسیدہ اماحق آفست کہ :

ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است

مرزا دریائیست بیکراں، و میر نہرست

عظیم الشان، درمعلوماتِ قواعد میر رابرتری ست و در قوتِ شاعری مرزا رابرمیرؔ سروری، اصل حقیقت یہ ہے کہ قصیدہ، غزل، مثنوی وغیرہ اقسامِ شعر میں ہر کوچہ کی راہ جدا جدا ہے، جس طرح قصیدہ کے لئے شکوہِ الفاظ اور بلندی مضامین، چستی ترکیب وغیرہ لوازمات ہیں، اسی طرح غزل کے لئے عاشق و معشوق کے خیالات عشقیہ صاف صاف نرم نرم، گویا وہی دونوں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ اس کے ادائے مضامین کے الفاظ بھی اور ہیں اور اس کی بحریں بھی خاص ہیں۔ میر صاحب کی طبیعت قدرتی درد خیز اور دل حسرت انگیز تھا کہ غزل کی جان ہے۔ اس لئے ان کی غزلیں ہی ہیں اور خاص خاص بحور و قوافی میں ہیں۔ مرزا کہ طبیعت ہمہ رنگ اور ہمہ گیر، ذہن براق اور زبان مشاق رکھتے تھے، تو سنِ فکر اِن کا منھ زور گھوڑے کی طرح جس طرف جاتا تھا رُک نہ سکتا تھا، کوئی بحر اور کوئی قافیہ ان کے ہاتھ آئے تغزلی کی خصوصیت نہیں رہتی تھی۔ جس برجستہ مضمون میں بندھ جائے باندھ لیتے تھے، بے شک اِن کی غزلوں کے بھی اکثر شعر چستی اور درستی میں قصیدہ کا رنگ دکھاتے ہیں۔

ایک دن لکھنؤ میں میرؔ اور مرزا کے کلام پر دو شخصوں نے تکرار میں طول کھینچا۔ دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ انھیں کے پاس گئے اور عرض کی کہ اپ فرمائیں۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں صاحب کمال ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام آہ ہے اور مرزا صاحب کا کلام واہ ہے۔ مثال میں میر صاحب کا شعر پڑھا :

سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

پھر مرزا کا شعر پڑھا :

سودا کے جو بالیں پہ ہوا شورِ قیامت

خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے

لطیفہ در لطیفہ – ان  میں سے ایک شخص جو مرزا کے طرفدار تھے وہ مرزا کے پاس بھی آئے اور سارا ماجرا بیان کیا، مرزا بھی میر صاحب کے شعر سُن کر مُسکرائے اور کہا شعر تو میرؔ کا ہے مگر داد خواہی ان کی دوا کی معلوم ہوتی ہے۔

رسالہ عبرہ الغافلین طبعِ شاعر کے لئے سیڑھی کا کام دیتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا فقط طبعی شاعر نہ تھے بلکہ اس فن کے اصول و فروغ میں ماہر تھے۔ اِس کی فارسی عبارت بھی زباں دانی کے ساتھ ان کی شگفتگی اور شوخیِ طبع کا نمونہ ہے، اس کی تالیف ایک افسانہ ہے اور قابل سننے کے ہے، اس زمانہ میں اشرف علی نامی ایک شریف خاندانی شخص تھے۔ اُنھوں نے فارسی کے تذکروں اور اُستادوں کے دیوانوں میں سے ۱۵ برس کی محنت میں ایک انتخاب مرتب کیا اور تصحیح کے لئے مرزا فاخر مکیںؔ کے پاس لے گئے کہ ان دونوں فارسی کے شاعروں میں نامور وہی تھے۔ انھوں نے کچھ انکار، کچھ اقرار، بہت سے تکرار کے بعد انتخاب مذکور کو رکھا اور دیکھنا شروع کیا۔ مگر جا بجا اُستادوں کے اشعار کو کہیں بے معنی سمجھ کر کاٹ ڈالا، کہیں تیغِ اصلاح سے زخمی کر دیا۔ اشرف علی خاں کو جب یہ حال معلوم ہوا تو گئے اور بہت سے قیل و قال کے بعد انتخابِ مذکور لے آئے، کتاب اصلاحوں سے چھلنی ہو گئی تھی۔ اس لئے بہت رنج ہوا۔ اسی عالم میں مرزا کے پاس لا کر سارا حال بیان کیا اور انصاف طلب ہوئے۔ ساتھ اس کے یہ بھی کہ آپ اسے درست کر دیجیے۔

انھوں نے کہا کہ مجھے فارسی زبان کی مشق نہیں، اُردو میں جو چند لفظ جوڑ لیتا ہوں، خدا جانے دلوں میں کیونکر قبولیت کا خلعت پا لیا ہے۔ مرزا فاخر مکیں فارسی داں اور فارسی کے صاحبِ کمال ہیں۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہو گا سمجھ کر کیا ہو گا۔ آپ کو اصلاح منظور ہے تو شیخ علی حزیںؔ مرحوم کے شاگرد شیخ آیت اللہ ثناؔ، میر شمس الدین فقیر کے شاگرد مرزا بھچو ذرہؔ تخلص موجود ہیں، حکیم بو علی خاں ہاتف بنگالہ میں، نظام الدین صانعؔ بلگرامی فرخ آباد میں، شاہ نور العین واقفؔ شاہجہاں آباد میں ہیں۔ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں۔

جب مرزا نے اِن نامور فارسی دانوں کے نام لئے تو اشرف علی خاں نے کہا کہ ان لوگوں کو تو مرزا فاخر خاطر میں بھی نہیں لاتے، غرضیکہ ان کے اصرار سے مرزا نے انتخاب مذکور کو رکھ لیا، دیکھا تو معلوم ہوا کہ جو جو با کمال سلف سے آج تک مسلم الثبوت چلے آتے ہیں اُن کے اشعار تمام زخمی تڑپتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر مرزا کو بھی رنج ہوا۔ بموجب صورتِ حال کے رسالہ عبرت الغافلین لکھا اور مرزا فاخر کی غلط فہمیوں کو اصول انشاء پردازی کے بموجب کماحقہ ظاہر کیا۔ ساتھ ان کے دیوان پر نظر ڈال کر اس کی غلط فہمیاں بھی بیان کیں اور جہاں ہو سکا اصلاح مناسب دی۔

مرزا فاخر کو بھی خبر ہوئی، بہت گھبرائے اور چاہا کہ زبانی پیاموں سے ان داغوں کو دھوئیں، چنانچہ بقاء اللہ خاں بقاؔ کو گفتگو کے لئے بھیجا، وہ مرزا فاخر کے شاگرد تھے، بڑے مشاق اور باخبر شاعر تھے، مرزا اور ان سے خوب خوب گفتگوئیں رہیں، اور مرزا فاخر کے بعض اشعار جن کے اعتراضوں کی خبر اُڑتے اُڑتے اِن تک بھی پہنچ گئی تھی، ان پر رد و قدح بھی ہوئی، چنانچہ ایک شعر ان کا تھا :

گرفتہ بود دریں بزم چوں قدح دلِ من

شگفتہ روئی صہبا شگفتہ کرد مرا

مرزا کو اعتراض تھا کہ قدح کو گرفتہ دل کہنا بیجا ہے، اہلِ انشاء نے ہمیشہ قدح کو کھلے پھولوں سے تشبیہ دی ہے یا ہنسی سے کہ اُسے بھی شگفتگی لازم ہے۔ بقاؔ نے جواب میں شاگردی کا پسینہ بہت بہایا اور اخیر کو باذل کا ایک شعر بھی سند میں لائے :

چہ نشاط بادہ بخشد بمنِ خراب بے تو

یہ دلِ گرفتہ ماند قدحِ شراب بے تو

مرزا رفیع سُن کر بہت ہنسے اور کہا کہ اپنے استاد سے کہنا کہ استادوں کے شعروں کو دیکھا کرو تو سمجھا بھی کرو، یہ شعر تو میرے اعتراض کی تائید کرتا ہے، یعنی باوجودیکہ پیالہ ہنسی اور شگفتگی میں ضرب المثل ہے اور پیالہ شراب سامانِ نشاط ہے مگر وہ بھی دلِ افسردہ کا حکم رکھتا ہے۔

عرض جب یہ تدبیر پیش نہ گئی تو مرزا فاخر نے اور راہ لی، شاگرد لکھنؤ میں بہت تھے، خصوصاً شیخ زادے کہ ایک زمانہ میں وہی ملکِ اودھ کے حاکم بنے ہوئے تھے اور سینہ زوری اور سرشوری کے بخار ابھی تک دماغوں سے گئے نہ تھے۔ ایک دن سودا تو بے خبر گھر میں بیٹھے تھے وہ بلوہ کر کے چڑھ آئے۔ مرزا کے پیٹ پر چھُری رکھ دی اور کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ سب واپس لو اور ہمارے استاد کے سامنے چل کر فیصلہ کرو، مرزا کو مضامین کے گل پھول اور باتوں کے طوطے مینا تو بہت بنانے آتے تھے، مگر یہ مضمون ہی نیا تھا، سب باتیں بھول گئے۔ بچارے نے جُز دان غلام کو دیا، خود میانے میں بیٹھے اور ان کے ساتھ ہوئے۔ گروہ لشکر شیطان تھا۔ یہ بیچ میں تھے، چوک میں پہنچے تو اُنھوں نے چاہا کہ یہاں انھیں بے عزت کیجیے، کچھ تکرار کر کے پھر جھگڑنے لگے، مگر جسے خدا عزت دے، اُسے کون بے عزت کر سکتا ہے، اتفاقاً سعادت علی خاں کی سواری آ نکلی، مجمع دیکھ کر ٹھہر گئے اور حال دریافت کر کے سوداؔ کو اپنے ساتھ ہاتھی پر بٹھا کر لے گئے۔ آصف الدولہ حرم سرا میں دستر خوان پر تھے۔ سعادت علی خاں اندر گئے اور کہا بھائی صاحب بڑا غضب ہے آپ کی حکومت میں ! اور شہر میں یہ قیامت۔ آصف الدولہ نے کہا کیوں بھئی خیر باشد، انھوں نے کہا کہ مرزا رفیع، جس کو باوا جان نے برادر من، مشفق مہربان کہہ کر خط لکھا، آرزوئیں کر کے بلایا اور وہ نہ آیا، آج وہ یہاں موجود ہے اور اس حالت میں ہے کہ اگر اس وقت میں نہ پہونچتا تو شہر کے بدمعاشوں نے اِس بیچارے کو بے حرمت کر ڈالا تھا اور پھر سارا ماجرا بیان کیا۔

آصف الدولہ فرشتہ خصال گھبرا کر بولے کہ بھئی مرزا فاخر نے ایسا کیا تو مرزا کر کیا گویا ہم کو بے عزت کیا۔ باوا جان نے انھیں بھائی لکھا تو وہ ہمارے چچا ہوئے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ اس میں کیا شبہ ہے ! اُسی وقت باہر نکل آئے۔ سارا حال سُنا، بہت غصہ ہوئے اور حکم دیا کہ شیخ زادوں کا محلہ کا محلہ اکھڑوا کر پھینک دو اور شہر سے نکلوا دو۔ مرزا فاخر کو جس حال میں ہو اسی حال سے حاضر کرو۔ سوداؔ کی نیک نیتی دیکھنی چاہیے، ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جناب عالی! ہم لوگوں کی لڑائی کاغذ قلم کے میدان میں آپ ہی فیصل ہو جاتی ہے، حضور اس میں مداخلت نہ فرمائیں، غلام کی بدنامی ہے۔ جتنی مدد حضور کے اقبال سے پہنچی ہے وہی کافی ہے۔ غرض مرزا رفیع باعزاز و اکرام وہاں سے رخصت ہوئے، نواب نے احتیاطاً سپاہی ساتھ کر دیئے۔

حریفوں کو جب یہ راز کھلا تو امرائے دربار کے پاس دوڑے، صلاح ٹھہری کہ معاملہ روپیہ یا جاگیر کا نہیں، تم سب مرزا فاخر کو ساتھ لے کر مرزا رفیع کے پاس چلے جاؤ اور خطا معاف کروا لو۔ دوسرے دن آصف الدولہ نے سر دربار مرزا فاخر کو بھی بلایا اور کہا تمھاری طرف سے بہت نازیبا حرکت ہوئی۔ اگر شعر کے مردِ میدان ہو تو اب روبرو سوداؔ کے ہجو کہو۔ مرزا فاخر نے کہا "ایں ازمانمے آید"، آصف الدولہ نے بگڑ کر کہا درست، ایں از شمانمے آید، ایں مے آید کہ شیاطین خود را برسرِ میرزائے بے چارہ فرستاوند از خانہ ببارش کشیدند و مے خواستند آبرویش بخاک ریزند، پھر سوداؔ کی طرف اشارہ کیا، یہاں کیا دیر تھی، فی البدیہہ رباعی پڑھی :

تو فخرِ خراسانی وفا ساقط ازد

گوہر بدہاں داری وفا ساقط ازد

روزان و شباں زحق تعالیٰ خواہم

مرکب و بدت، خدا و با ساقط ازد

یہ جھگڑا تو رفع دفع ہوا مگر دُور دُور سے ہجوؤں میں چوٹیں چلتی رہیں۔ لطف یہ ہے کہ مرزا فاخر کی کہی ہوئی ہجوئیں کوئی جانتا بھی نہیں۔ سودا نے جو کچھ اُن کے حق میں کہا وہ ہزاروں کی زبان پر ہے۔



2013/6/4 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>
نجیب احمد نجیب

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 9, 2013, 1:59:58 AM6/9/13
to Aijaz .Shaheen

مرزا فاخر مکینؔ

 

اصل میں کشمیری تھے۔ اول قنوت حسین خاں کشمیری سے اصلاح لیتے تھے۔ پھر عظیمائے کشمیری کے شاگرد ہوئے۔ ان کے کمال میں کلام کی جگہ نہیں، صحت الفاظ اور تحقیق لغت میں بڑی کوشش کی۔ دیوان نے رواج نہیں پایا، مگر اصل اشعار متفرق بیاضوں میں ہیں۔ یا وہ مشہور ہیں کہ انھوں نے سودا کے حق میں کہے۔ سوداؔ نے تضمین کر کے انہی پر اُلٹ دیئے۔ کچھ اشعار سوداؔ نے عبرۃ الغافلین میں اعتراضوں کی ذیل میں لکھے۔ بہرحال معلوم

ہوتا ہے کہ کیفیت سے خالی نہ تھے۔ زمانہ نے بھی پورا حق اِن کی قدردانی کا ادا کیا۔ سینکڑوں شاگرد غریب اور تونگر لکھنؤ اور اطراف میں ہو گئے۔ پیشہ توکل تھا اور بے دماغی سے اُسے رونق دیتے تھے۔

نقل۔ مولوی غلام ضامن صاحب رتبے کے فاضل تھے، ایک دن غزل لے کر گئے کہ مجھے شاگرد کیجیے اور اصلاح فرمائیے۔ مرزا فاخر نے ٹال دیا۔ مولوی صاحب نے پھر کہا، انھوں نے پھر انکار کیا اور کج خلقی کرنے لگے جو عجز و انکسار کے حق تھے، سب مولوی صاحب نے ادا کئے۔ ایک نہ قبول ہوا۔ ناچار یہ شعر پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

مرزا یکن مانشود چوں بکینِ ما

کین است جزوِ اعظم مرزا مکینِ ما

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابتداء سوداؔ کی طرف سے کم ہوتی تھی۔ ہاں کوئی چھیڑ دیتا تھا، تو پھر یہ بھی حد سے پرے پہنچا دیتے تھے۔ چنانچہ میر ضاحک مرحوم کے حال سے معلوم ہو گا۔ (دیکھو صفحہ)۔

آصف الدولہ ایک دفعہ شکار کو گئے۔ خبر آئی کہ نواب نے بھیلوں کے جنگل میں شیر مارا۔ باوجویکہ ہمیشہ انعام و اکرام کے انباروں سے زیر بار تھے مگر فوراً کہا :

یارو یہ ابنِ نجم پیدا ہوا دوبارہ

شیرِ خدا کو جس نے بھیلوں کے بن میں مارا

نواب کو بھی خبر ہوئی، جب پھر کر آئے تو خود شکایت دوستانہ کے طور پر کہا کہ مرزا تم نے ہم کو شیرِ خدا کا قاتل بنایا؟ ہنس کر کہا کہ جناب عالی! شیر تو اللہ ہی کا تھا نہ حضور کا نہ فدوی کا۔

لطیفہ : آصف الدولہ مرحوم کی انا کی لڑکی خورد سال تھی، نواب فرشتہ سیرت کی طبیعت میں ایک تو عموماً تحمل اور بے پروائی تھی، دوسرے اس کی ماں کا دودھ پیا تھا، ناز برداری نے اِس کی شوخی کو شرارت کر دیا۔ ایک دن دوپہر کا وقت تھا، نواب سوئے تھے، ایسا غل مچایا کہ بد خواب ہو کر جاگ اُٹھے، بہت جھنجھلائے اور خفا ہوتے ہوئے باہر نکل آئے، سب ڈر گئے کہ آج نواب کو غصہ آیا ہے خدا خیر کرے، باہر آ کر حکم دیا کہ مرزا کو بلاؤ، مرزا اسی وقت حاضر ہوئے، فرمایا کہ بھئی مرزا! اس لڑکی نے مجھے بڑا حیران کیا ہے، تم اس کی ہجو کہہ دو، یہاں تو ہر وقت مصالحہ تیار تھا، اسی وقت قلمدان لے کر بیٹھ گئے اور مثنوی تیار کر دی کہ ایک شعر اس کا لکھتا ہوں :

لڑکی وہ لڑکیوں میں جو کھیلے

نہ کہ لونڈوں میں جا کے ڈنڑ پیلے

بعض بزرگوں نے یہ بھی سُنا ہے کہ دلی میں نالہ پر ایک دکان میں بھٹیاری رہتی تھی، وہ آپ بھی لڑاکا تھی، مگر لڑکی بھی اس سے سوا چنچل ہوئی، آتے جاتے جب دیکھتے لڑتے ہی دیکھتے، ایک دن کچھ خیال آ گیا، اس پر یہ ہجو کہی تھی۔

لطیفہ : شیخ قائم علی ساکن اٹاوہ ایک طباع شاعر تھے، کمال اشتیاق سے مقبول نبی خاں انعام اللہ خاں یقین کے بیٹھے کے ساتھ بہ اِرادہ شاگردی ان کے پاس آئے اور اپنے اشعار سُنائے، آپ نے پوچھا تخلص کیا ہے، کہا اُمیدوار، مسکرائے اور فرمایا :

ہے فیض سے کسی کے شجر اِن کے بار دار

اس واسطے کیا ہے تخلص امیدوار

(جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو عورتوں کے محاورہ میں کہتے ہیں کہ امیدواری ہے یا اللہ کی درگاہ سے امید ہے۔)

بے چارے شرمندہ ہو کر چلے گئے۔ قائمؔ تخلص اختیار کیا اور کسی اور کے شاگرد ہوئے۔ اِن کی طبیعت میں شوخیاں تھیں، وہ حقیقت میں اتنی نہ تھیں جتنا انھیں لوگوں نے خطرناک بنا رکھا تھا، بے شک جو ان سے لڑتا تھا اُسے خوب خراب کرتے تھے مگر اخلاق و انصاف سے خالی نہ تھے۔

نقل : راسخؔ عظیم آبادی کا دیوان میں نے دیکھا ہے، بہت سنجیدہ کلام ہے، پُرانے مشاق تھے اور سب ادھر کے لوگ انھیں استاد مانتے تھے، مرزا کے پاس شاگرد ہونے کو آئے، مرزا نے کہا کوئی شعر سنائیے، انھوں نے پڑھا :

ہوئے ہیں ہم ضعیف اب دیدنی رونا ہمارا ہے

پلک پر اپنی آنسوصبحِ پیری کا ستارا ہے

مرزا نے اُٹھ کر گلے لگا لیا۔ ایسا ہی معاملہ جرأت سے ہوا تھا۔ (دیکھو صفحہ)۔

لطیفہ : ایک دن میاں ہدایت (ایک مرد متین دیرینہ سال اس زمانہ کے شعرائے معتبر میں سے تھے، خواجہ میر دردؔ کے شاگرد تھے ) ملاقات کو آئے، بعد رسوم معمولی کے آپ نے پوچھا کہ فرمائیے میاں صاحب آج کل کیا شغل رہتا ہے، انھوں نے کہا افکارِ دنیا سے فرصت نہیں دیتے، طبیعت  کو ایک مرض یاوہ گوئی کا لگا ہوا ہے، گاہے بگاہے غزل کا اتفاق ہو جاتا ہے، مرزا ہنس کر بولے کہ غزل کا کیا کہنا، کوئی ہجو کہا کیجیے، بیچارے نے حیران ہو کر کہا ہجو کس کی کہوں ؟ آپ نے کہا، ہجو کو کیا چاہیے، تم میری ہجو کہو، میں تمھاری ہجو کہوں۔

لطیفہ : ایک ولایتی نے کہ زمرہ اہل سیف میں معزز ملازم تھا، عجب تماشا کیا،یعنی سودا نے اس کی ہجو کہی اور ایک محفل میں اس کے سامنے ہی پڑھنی شروع کر دی۔ ولایتی بیٹھا سنا کیا۔ جب ہجو ختم ہوئی۔ اٹھ کر سامنے آ بیٹھا، اور ان کی کمر پکڑ کر مسلسل و متواتر گالیوں کا جھاڑ باندھ دیا۔ انھیں بھی ایسا اتفاق آج تک نہ ہوا تھا۔ حیران ہو کر کہا کہ خیر باشد؟ جناب آغا اقسام ایں مقالات شایان شان شما نیست۔ ولایتی نے پیش قبض کمر سے کھینچ کر ان کے پیٹ پر رکھ دی اور کہا نظم خودت گفتی حالا ایں نثر را گوش کن، ہر چہ تو گفتی نظم بود، نظم آزمانمے آید، مابہ نثر ادا کردیم۔

لطیفہ : سید انشاء کا عالم نوجوانی تھا۔ مشاعرہ میں غزل پڑھی :

جھڑکی سہی ادا سہی چین جبیں سہی

سب کچھ سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی

جب یہ شعر پڑھا :

گر نازنیں کہے سے بُرا مانتے ہو تم

میری طرف تو دیکھئے میں نازنیں سہی

سوداؔ کا عالم پیری تھا، مشاعرہ میں موجود تھے، مسکرا کر بولے "دریں چہ شک"۔

نقل : ایک دن سودا مشاعرہ میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کہ ۱۲، ۱۳ برس کی عمر تھی، اس نے غزل پڑھی، مطلع تھا :

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینہ کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

گرمی کلام پر سوداؔ بھی چونک پڑے۔ پوچھا یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا حضرت یہ صاحبزادہ ہے۔ سودا نے بھی بہت تعریف کی۔ بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ میاں لڑکے جوان تو ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت انہی دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا۔

جبکہ فخر شعرائے ایران شیخ علی حزیں وارد ہندوستان ہوئے پوچھا کہ شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحب کمال ہے ؟ لوگوں نے سودا کا نام لیا، اور سوداؔ خود ملاقات کو گئے۔ شیخ کی عالی دماغی اور نازک مزاجی شہرہ آفاق ہے۔ نام نشاں پوچھ کر کہا کہ کچھ اپنا کلام سناؤ۔ سودا نے کہا :

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

شیخ نے کہا کہ تڑپے چہ معنی دارد۔ سوداؔ نے کہا کہ اہل ہند طپیدن را تڑپنا مے گوئید۔ شیخ نے پھر شعر پڑھوایا اور زانوں پر ہاتھ مار کر کہا کہ مرزا  رفیع قیامت کر دی۔ یک مرغ قبلہ نما باقی بود آ نراہم نگذاشتی، یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بغلگیر ہو کر پاس بٹھایا مگر بعض اشخاص کی روایت ہے کہ شیخ نے کہا :

"در پوچ گویانِ ہند بد نیستی"

لطیفہ : خان آرزو کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا۔ سوداؔ ان دنوں نوجوان تھے۔ مطلع پڑھا :

آلودہ قطراتِ عرق دیکھ جبیں کو

اختر پڑے جھانکیں ہیں فلک پر سے زمیں کو

یا تو لاعلمی یا ان کی آتشِ بیانی کے ڈر سے کوئی نہ بولا۔ مگر خان آرزو (دیکھو صفحہ) جن کی دایہ قابلیت کے دودھ سے مظہر، سوداؔ، میرؔ، دردؔ وغیرہ نوجوانوں نے پرورش پائی ہے، انھوں نے فوراً یہ شعر پڑھا کہ قدسی کے مطلع پر اشارہ ہے :

شعر سوداؔ۔ حدیث قدسی ہے

چاہیے لکھ رکھیں فلک پہ ملک

آلودہ قطراتِ عرق دیدہ جبیں را

اختر ز فلک مے نگرد روئے زمین را

سوداؔ بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے۔ خاں صاحب کے گلے سے لپٹ گئے اور اس شکریہ کے ساتھ خوشی ظاہر کی گویا حقیقتاً خاں صاحب نے ان کے کلام کو مثل حدیث قدسی تسلیم کیا ہے۔ ان کا ایک اور شعر ایسا ہی ہے :

بہار بے سپرِ جام دیار مے گذرد

نسیم تیرسی، سینہ کے پار گذرے ہے

فارسی میں کوئی استاد کہتا ہے :

بہار بے سپرِ جام دیار مے گذرد

نسیم ہمچو خدنگ از کتار مے گذرو

مگر اہل کا قول ہے کہ ایسی صورت خاص کو سرقہ نہیں ترجمہ سمجھنا چاہیے، کیونکہ شعر کو شعر ہی میں ترجمہ کرنا بھی ایک دشوار صنعت ہے۔ قطع نظر اس کے اسی مطلع کے بعد اور اشعار کو دیکھو کیا موتی پروئے ہیں۔ اور کلیات ایک دریا ہے کہ اقسام جواہر سے بھرا ہوا ے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس رتبہ کا شاعر ایک مطلع کا محتاج تھا۔ اس لیے چرا لیا ہے۔ ابو الفضل نے ایک مراسلے میں لکھا ہے :

ولدالز ناست حاسد منم آنکہ طالع من

دلدالز ناکش آمد چو ستارہ یمانی

یہ شعر قصائد نظامی میں موجود ہے۔ اور اسی مضمون کو عربی میں متنبی کہتا ہے :

و تنکِرُ موتھم وَ اَنَا سھُل

طَلَعتُ لموتِ اَولا ولزناءِ

خود سودا سے زبان بزبان روایت پہنچی ہے کہ غزل فارسی کی ان کی ہجو میں مولوی ندرت کشمیری نے کہی اور مرزا نے اسے مخمس کر کے اسی پر الٹ دیا۔ اسی کے مطلع پر خان آرزو نے مصرع لگا دیئے تھے۔ باقی تمام مخمس مرزا کا ہے :

شعر ناموزوں سے تو بہتر ہے کہنا ریختہ

کب کہا میں قتل کر مضموں کسی کا ریختہ

بے حیائی ہے یہ کہنا سن کے میرا ریختہ

خون معنی تا رفیع بادہ پیما ریختہ

آبروئے ریختہ از جوش سوداؔ ریختہ

نقل : معتبر لوگوں سے سنا ہے کسی شخص نے سودا سے پوچھا۔ بلبل مذکر ہے یا مؤنث، مسکرا کر بولے کہ نوع انسان میں ایک ہو تو مرد سے عورت ہو جاتی ہے۔ لفظ کو دیکھو (اب تو ڈبل تانیث ہو گئی۔ اب بھی نہ مؤنث ہو گی۔) دو موجود ہیں، لیکن تعجب ہے کہ انھوں نے ایک جگہ مذکر بھی باندھا ہے۔ چنانچہ غزل ہے اثر لگا کہنے چشم تر لگا کہنے، تار نظر لگا کہنے، اس میں کہتے ہیں کہ :

سُنے ہے مُرغِ چمن کا تو نالہ اے صیاد

بہار آنے کی بلبل خبر لگا کہنے

اکثر اہلِ لکھنؤ اب مذکر باندھتے ہیں۔ چنانچہ سرورؔ کا شعر (دیکھو صفحہ) ہے :

کرے گا تو مرے نالوں کی ہمسری بلبل

شعور اتنا تو کر جا کے جانور پیدا

آتشؔ - مصرعہ : سیر چمن کو چلے بُلبل پکارتے ہیں

رندؔ - مصرعہ : جانور کا جو ہوا شوق تو پالے بلبل

مگر حق یہ ہے کہ اس وقت تک تذکیر و تانیث لفظوں کی مقرر نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے الفاظ ہیں کہ مرزا اور میر صاحب نے انھیں مذکرباندھا ہے۔ بعد ان کے سید انشاء، جرأتؔ، مصفحیؔ سے لے کر آج تک سب مؤنث باندھتے چلے آتے ہیں۔ چنانچہ میر صاحب کی طرح میرزائے موصوف بھی فرماتے ہیں :

جانؔ :

کہا طبیب نے احوال دیکھ کر میرا

کہ سخت جان ہے سودا کا آہ کیا کیجیئے

دیدؔ :

بتاں کا دید میں کرتا ہوں شیخ جسدن سے

حلال تب سے ہے مے موبمو مرے دل پر

میرؔ :

کریں شمار بہم دل کے یاد داغوں کا

تو آ کہ سیر کریں آج دل کے باغوں کا

میرؔ :

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا

موسیٰ نہیں جو سیر کروں کوہ طور کا

بسکہ پونچھوں ہوں میں اپنی چشم خوں آلود کو

جامہ کا ہر ایک تختہ سیر ہے گلزار کا

جب مرزا رفیع لڑکے تھے، اس وقت میر جعفر زٹل کا بڑھاپا تھا۔ اگلے وقتوں کے لوگ رنگین جریبیں جن پر نقاشی کا کام ہوتا تھا، اکثر ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔ ایک دن شام کے وقت میر موصوف ایک سبز جریب ٹیکتے ٹہلنے کو باہر نکلے۔ مرزا بغل میں کتابوں کا جزدان لئے سامنے سے آتے تھے۔ اس زمانہ میں ادب کی بڑی پابندی تھی۔ بزرگوں کو سلام کرنا اور ان کی زبان سے دعا لینے کو بڑی نعمت سمجھتے تھے۔ مرزا نے جھک کر سلام کیا۔ انھوں نے خوش ہو کر دعا دی۔ چونکہ بچپن ہی میں مرزا کی موزونی طبع کا چرچا تھا، میر صاحب کچھ باتیں کرنے لگے، مرزا ساتھ ہو لئے۔ انھوں نے نوخیز طبیعت کے بڑھانے کے لئے کہا کہ مرزا بھلا ایک مصرع پر مصرع تو لگاؤ :

لالہ در سینہ داغ چوں دارد؟

مرزا نے سوچ کر کہا :

عمر کو تا است غم فزوں دارد

میر صاحب نے فرمایا، واہ بھئی دل خون ہوتا ہے، جگر خون ہوتا ہے، بھلا سینہ کیا خون ہو گا، سینہ پر از خوں ہوتا ہے۔

مرزا نے پھر ذرا فکر کیا اور کہا :

چہ کند سوزشِ دروں دارد

میر صاحب نے کہا کہ ہاں مصرع تو ٹھیک ہے لیکن ذرا طبیعت پر زور دیکر کہو، مرزا دق ہو گئے تھے، جھٹ کہہ دیا :

یک عصا سبز زیرِ۔۔۔۔۔۔۔۔ دارد

میر جعفر مرحوم ہنس پڑے اور جریب اٹھا کر کہا۔ کیوں ! یہ ہم سے بھی۔ دیکھ کہوں گا تیرے باپ سے۔ بازی بازی بریش بابا ہم بازی، مرزا لڑکے تو تھے ہی بھاگ گئے۔

چند اشعار جن سے میرؔ اور مرزا کے کلام میں امتیاز ہوتا ہے لکھے جاتے ہیں۔ ان شعروں میں دونوں استادوں کی طبیعت برابر لڑی ہے، مگر دونوں کے انداز پر خیال کرو۔

ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا

دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

(میر)

قسم جو کھائیے تو طالع زلیخا کی

عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا

(میر)

چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا

صبا نے تیغ کا موجِ رواں سے کام لیا

(سودا)

کمال بندگی عشق ہے خداوندی

کہ ایک زن نے مہ مصر سا غلام لیا

(سودا)

گِلا میں جس سے کروں تیری بیوفائی کا

جہاں میں نام نہ لے پھر وہ آشنائی کا

(میر)

گلا لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا

لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

(سودا)

دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفتِ دیں کو

خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا

(سودا)

چمن میں گل نے جو کل دعوئے جمال کیا

جمالِ یار نے منھ اس کا خوب لال کیا

(میر)

برابری کا تری گل نے جب خیال کیا

صبا نے مار طمانچہ منھ اس کا لال کیا

(سودا)

دل پہنچا ہلاکت کو بہت کھینچ کسا لا

لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ

ایک محروم چلے میر ہمیں دُنیا سے

ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ

(میر)

سوداؔ جہاں میں آ کے کوئی کچھ نہ لے گیا

جاتا ہوں ایک میں دلِ پر آرزو لئے

(سوداؔ)

رات ساری تو کٹی سنتے پریشاں گوئی

میرؔ جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو

(میرؔ)

سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات

اب آئی سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی

(سودا)

ہوتی نہیں ہے صبح نہ آتی ہے مجھ کو نیند

جس کو پکارتا ہوں وہ کہتا ہے مر کہیں

(سودا)

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لئے

حُسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا

ہوا ہے جب کفر ثابت ہے وہ تمنوائے مسلمانی

نہ ٹوٹے شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی

مت رنج کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد

دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ

یہ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

نہ بھُول اے آرسی گر یار کو تجھ سے محبت ہے

نہیں ہے اعتبار اس کا یہ منھ دیکھے کی الفت ہے

بگولے سے جسے آسیب اور صرصر سے زحمت ہے

ہماری خاک یوں برباد ہوائے ابر رحمت ہے

چند مقالے اسی طرح کے جرأتؔ کے حال میں بھی ہیں (دیکھو صفحہ)۔

غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں

جلوہ گر یاد مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں

دل کے پرزوں کو بغل بیچ لئے پھرتا ہوں

کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

مہر ہر ذرہ میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے

تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں

جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر

کوئی تو بولو میاں منھ میں زباں ہے کہ نہیں

پاس ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل

ورنہ یاں کون سا انداز فغاں ہے کہ نہیں

آگے شمشیر تمھاری کے بھلا یہ گردن

مُو سے باریک تر اے خوش کمراں ہے کہ نہیں

پوچھا سودا سے میں اک روز کہ اے آوارہ

تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں

یک بیک ہو کے بر آشفتہ لگا وہ کہنے

کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں

دیکھا میں قصر فریدوں کے اوپر اک شخص

حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں

سینہ میں ہوا نالہ و پہلو میں دل آتش

دھڑکے ہے پڑا دل کہ نہ ہو مشتعل آتش

اشک آتش و خوں آتش و ہر لختِ دل آتش

آتش پہ برستی ہے پڑی متسل آتش

یک لحظہ طرف ہو کے مرے دیدہ دل سے

نادم تو سمندر ہے سدا منفعل آتش

یاقوت نہیں ہے وہ ترے لعل سے اے شوخ

جا ڈوب موئی آگ میں ہو کر خجل آتش

داغ آج سے رکھتا نہیں ان سنگدلوں کا

مُدت سے ہوئی ہے مری چھاتی پہ سل آتش

دل عشق کے شعلہ سے جو بھڑکا تو رہا کیا

اے جان نکل جا کہ لگی متصل آتش

اے قطرہ مے لے اڑی سوداؔ کو جگہ سے

بارود کے تودے کو ہے بس ایک تل آتش

------------------------------------------------------------

دیں شیخ و برہمن نے کیا یار فراموش

یہ سبحہ فراموش وہ زنار فراموش

دیکھا جو حرم کو تو نہیں دیر کی وسعت

اس گھر کی فضا کر گیا معمار فراموش

بھولے نہ کبھی دل سے مرا مصرع جانکاہ

نالہ نہ کرے مرغ گرفتار فراموش

دل سے نہ گئی آہ ہوس سیر چمن کی

اور ہم نے کیا رخنہ دیوار فراموش

یا نالہ ہی کر منع تو، یا گر یہ کو ناصح

دو چیز نہ عاشق سے ہو یکبار فراموش

بھُولا پھروں ہوں آپ کو ایک عمر سے لیکن

تجھ کو نہ کیا دل سے میں زنہار فراموش

دل درد سے کس طرح مرا خالی ہو سوداؔ

وہ ناشنوا حرف میں گفتار فراموش

------------------------------------------------------------

جو گذری مجھے پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا

بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم نرا گریباں گیر

مرے لہو کو تو دہن سے دھو ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سر زخم دل تلک یارو

کوئی سِیو کوئی مرہم کرو ہوا سو ہوا

کہے ہے سُن کے میری سرگذشت وہ بے رحم

یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ درگذر گنہ سے مرے

نہ ہو گا پھر کبھو اے تند خو ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے احوال دل پہ اے آنکھو

نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو ہوا سو ہوا

دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سوداؔ

پھر آگے دیکھئے جو ہو، سو ہو، ہوا سو ہوا

------------------------------------------------------------

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

کیونکر نہ چاک چاک گریبانِ دل کروں

دیکھوں جو تیری زلف کو میں دست شانے میں

زینت دلیل مفلسی ہے ٹک کماں کو دیکھ

نقش و نگار چھٹ نہیں کچھ اس کے خانے میں

اے مرغِ دل سمجھ کے تو چشم طمع کو کھول

تو نے سنا ہے دام جسے، ہے وہ دانے میں

چلے میں کھینچ کھینچ کیا قد کو جوں کماں

تیر مراد پر نہ بٹھایا نشانے میں

پایا ہر ایک بات میں اپنے میں یوں تجھے

معنی کو جس طرح سخن عاشقانے میں

دستِ گرہ کشا کو نہ تزئین کرے فلک

مہندی بندھی نہ دیکھی میں انگشت شانے میں

ہم سا تجھے تو ایک ہمیں تجھ سے ہیں کئی

جا دیکھ لے تو آپ کو آئینہ خانے میں

سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر

اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں

------------------------------------------------------------

افعی کو یہ طاقت ہے کہ اس سے بسر آوے

وہ زلف سیہ اپنی اگر لہر پر آوے

اصداف میں اس مہر کی پہچان اگر آوے

ہر ذرہ میں کچھ اور ہی جھمکا نظر آوے

مجھ چشم سے اب اشک نہیں آنے کا ناصح

آوے بھی غمِ دل سے تو لخت جگر آوے

پھرتا ہوں ترے واسطے میں دربدر اے یار

تجھ سے نہ ہوا یہ کہ کبھی میرے گھر آوے

گویا دل عاشق بھی ہے اک فیل سیہ مست

رُکتا نہیں روکے سے کسے کے جدھر آوے

کہہ کہہ کے دُکھ اپنا میں کیا مغز کو خالی

اتنا نہ ہوا سُن کے تری چشم بھر آوے

شیشہ نہ کہے راز مرے دل کا تو اے جام

سرگوشی سے اس کی نہ تری چشم بھر آوے

کیا ہو جو قفس تک مرے اب صحنِ چمن سے

وہ برگ لئے گل کے نسیم سحر آوے

سب کام نکلتے ہیں فلک تجھ سے و لیکن

میرے دل ناشاد کی امید بر آوے

جب پھونکتے ناقوس صنم خانہ دل شیخ

کعبہ کا ترے وجد میں دیوار و در آوے

نامے کا جواب آنا تو معلوم ہے اے کاش

قاصد کے بد و نیک کی مجھ تک خبر آوے

میں بھی ہوں ضعیف اس قدر اے مور کہ وہ آپ

گذرے مرے سر سے جو تیرے تا کمر آوے

سب سے کہے دیتا ہوں یہ کہہ دیں کہ پھر انا

بالیں پہ مرے شور قیام اگر آوے

دیتا ہے کوئی مرغ دل اس شوخ کو سوداؔ

کیا قہر کیا تو نے غضب تیرے پر آوے

اب لے تو گیا ہے پر اسے دیکھیو ناداں

پل میں نہ اڑاتا وہ اگر بال و پر آوے

خوبوں میں دلدہی کی روش کم بہت ہے یاں

خواہان جاں جو چاہو تو عالم بہت ہے یاں

غافل نہ رہ تو اہل تواضع کے حال سے

تیغ و کماں کی طرح خم و چم بہت ہے یاں

چشم ہوس اٹھا لے تماشے سے جوں حباب

نادیدنی کا دید بس اک دم بہت ہے یاں

خونِ جگر بآدم دلو زینہ ہے لگاؤ

صورت معاش خلق کی برہم بہت ہے یاں

آنکھوں میں دوں اس آئینہ رو کو جگہ ولے

ٹپکا کرے ہے بسکہ یہ گھر نم بہت ہے یاں

کہتا ہے حال ماضی و مستقبل ایک ایک

جامِ جہاں نما تو نہیں، جم بہت ہے یاں

دیکھا جو باغ دہر تو مانند صبح و گل

کم فرصتی ملاپ کی باہم بہت ہے یاں

آیا ہوں تازہ دیں بحرم شیخُنا مجھے

پوجن نماز سے بھی مقدم بہت ہے یاں

سودا کر اس سے دل کی تسلی کے واسطے

گوشہ سے چشم کے نگہ کم بہت ہے یاں

ابراہیم علی خاں تذکرہ گلزار ابراہیمی میں لکھتے ہیں کہ مرزا غلام حیدر مجذوبؔ مرزا رفیع کے بیٹے ہیں اور اب کہ ۱۱۹۶ھ میں لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ درستی فہم اور آشنا پرستی کے اوصاف سے موصوف ہیں۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ ایک مغل بچہ خوش اخلاق جوان ہے۔ مرزا سودا کا متنبیٰ ہے، سپاہ گری کے عالم میں زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے مربی کی شاگردی کا دم بھرتا ہے۔

عداوت سے تمہاری کچھ اگر ہووے تو میں جانوں

بھلا تم زہر دے دیکھو اثر ہووے تو میں جانوں

نہ اندیشہ کرو پیارے کہ شب ہے وصل کی تھوڑی

تم اپنی زلف کو کھولو سحر ہووے تو میں جانوں

ہمارے تم سے جو عہد وفا ہوں ان کو تم جانو

مرے پیماں میں کچھ نوعِ دگر ہووے تو میں جانوں

ذرا تم مارِ کاکل کو مرے لب سے لگا دیکھو

ہزاروں سانپ کاٹیں پھر اثر ہووے تو میں جانوں

خوباں سے جو دل ملا کرے گا

ڈرتا ہوں یہی کہ کیا کرے گا

آوے بھی مسیحا مرے بالیں پہ تو کیا ہو

بیمار یہ ایسا تو نہیں جو کو شفا ہو

جور و جفا پہ یار کی دل مت نگاہ کر

اپنی طرف سے ہووے جہاں تک نباہ کر

خاک و خوں میں صورتیں کیا کیا نہ ملیاں دیکھیاں

اے فلک باتیں تری کوئی نہ بھلیاں دیکھیاں

آہ میں اپنی اثر ڈھونڈے ہے اے مجذوبؔ تو

بید مجنوں کی نہ شاخیں ہم نے پھلیاں دیکھیاں

بس اب تیرے تاثیر اے آہ دیکھی

نہ آیا وہ کافر بہت راہ دیکھی

خاموش جو اتنا ہوں مجھے گنگ نہ سمجھو

اک عرض تمنا ہے کہ آ لب پہ آڑی ہے

چاہوں مدد کسے سے نہ اغیار کے لئے

میں بھی تو یار! کم نہیں دو چار کے لئے

طوبے ٰ تلے میں بیٹھ کے روؤں گا بار بار

جنت میں تیرے سایہ دیوار کے لئے

ہے درد سر ہی بلبل آزاد کی صفیر

موزوں ہے نالہ مرغِ گرفتار کے لئے

میر  تقی مرحوم کی زبان سے ان کے باب میں کچھ الفاظ نکلے تھے۔ اس پر فرماتے ہیں :

اے میر سمجھیو مت مجذوب کو اوروں سا

ہے وہ خلفِ سودا اور اہل ہنر بھی ہے

اشک آنکھ میں ہو عشق سے تا دل میں غم رہے

یہ گھر ہے وہ خراب کہ آتش میں نم رہے

نکلے اگر قفس سے تو خاموش ہم صفیر

صیاد نے سنایا ترانہ تو ہم رہے 


2013/6/6 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 15, 2013, 1:08:41 PM6/15/13
to Aijaz .Shaheen

سید محمد میر سوزؔ

 

سوز تخلص، سید محمد میر نام، وہی شخص ہیں جنھیں میر  تقی (دیکھو صفحہ ، میر صاحب ملک سخن کے بادشاہ تھے۔ جن لفظوں میں چاہا کہہ دیا۔ مگر بات ٹھی ہے، دیوان دیکھ لو، وہی باتیں ہیں، باقی خیر و عافیت۔) نے پاؤ شاعر مانا ہے۔ پُرانی دلی میں قراول پورہ ایک محلہ تھا، وہاں رہتے تھے۔ مگر اصلی وطن بزرگوں کا بخارا تھا۔ باپ ان کے سید ضیاء الدین بہت بزرگ شخص تھے۔ تیر اندازی میں صاحب کمال مشہور تھے اور حضرت قطب عالم گجرأتی کی اولاد میں تھے۔ سوز مرحوم پہلے میرؔ تخلص کرتے تھے۔ جب میر تقی میر کے تخلص سے عالمگیر ہوئے تو انھوں نے سوز اختیار کیا۔ چنانچہ ایک شعر میں دونوں تخلصوں کا اشارہ کرتے ہیں۔

کہتے تھے پہلے میر میر تب نہ ہوئے ہزار حیف

اب جو کہے ہیں سوز سوز یعنی سدا جلا کرو

جو کچھ حال ان کا بزرگوں سے سُنا یا تذکروں میں دیکھا۔ اس کی تصدیق ان کا کلام کرتا ہے یعنی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبع موزوں کے آئینہ کو جس طرح فصاحت نے صفائی سے جلا کی تھی اسی طرح ظرافت اور خوش طبعی نے اس میں جوہر پیدا کیا تھا۔ ساتھ اس کے جس قدر نیکی و نیک ذاتی نے عزت دی تھی اس سے زیادہ وسعتِ اخلاق اور شیریں کلامی نے ہردلعزیز کیا تھا اور خاکساری کے سب جوہروں کو زیادہ تر چمکا دیا تھا۔ آزادگی کے ساتھ وضعداری بھی ضرور تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ باوجود مفلسی کے ہمیشہ مسندِ عزت پر صاحب تمکین اور امراء اور روساء کے پہلو نشین رہے اور اسی میں معیشت کا گذارہ تھا۔

شاہ عالم کے زمانہ میں جب اہل دہلی کی تباہی حد سے گذر گئی تو ۱۱۹۱ھ میں لباس فقیری اختیار کیا اور لکھنؤ چلے گئے۔ مگر وہاں سے ۱۲۱۲ھ میں ناکام مرشد آباد گئے۔ یہاں بھی نصیب نے یاوری نہ کی۔ پھر لکھنؤ میں آئے۔ اب قسمت رجوع ہوئی۔ اور نواب آصف الدولہ ان کے شاگرد ہوئے۔ چند روز آرام سے گذرے تھے کہ خود دُنیا سے گذر گئے۔ نواب کی غزلوں کو انہیں کا انداز ہے۔

صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی لکھتے ہیں۔ اب کہ ۱۱۹۶ھ میں میر موصوف لکھنؤ میں ہیں۔ اب تک ان سید والا تبار سے راقم آثم کی ملاقات نہیں ہوئی مگر اسی برس میں کچھ اپنے شعر اور چند فقرے نثر کے اس خاکسار کو بھیجے ہیں۔ میر سوز شخصے ست کہ ہیچکس را از حلاوتے جز سکوت و اکراہ حاصل نہ شود ایں نیز قدرت کمال الٰہی ست کہ ہریکے بلکہ خار و خسے نیست کہ بکار چند بیاید س۔ اگر منکرے سوال کند کہ ناکارہ محض بیفتا داست۔ ج۔۔۔ اینست کہ نامش سوختنی ست (دو تذکروں میں اس عبارت کو مطابق کیا۔ کوئی نسخہ مطلب خیز نہ نکلا۔ اس لئے جو کچھ ملا، سیدؔ موصوف کا تبرک سمجھ کر غنیمت جانا۔)خط شفیعا اور نستعلیق خوب لکھتے تھے۔ ممالک ایران و خراساں وغیرہ میں قاعدہ ہے کہ جب شرفاء ضروریات سے فارغ ہوتے ہیں تو ہم لوگوں کی طرح خالی نہیں بیٹھتے۔ مشق خط کیا کرتے ہیں، اسی واسطے علی العموم اکثر خوش نویس  ہوتے ہیں۔ پہلے یہاں بھی دستور تھا۔ اب خوشنویسی تو بالائے طاق بد نویسی پر بھی حرف آتا ہے۔

میر موصوف سواری میں شہسوار اور فنون سپہ گری میں ماہر خصوصاً تیر اندازی میں قد انداز تھے۔ ورزش کرتے تھے اور طاقت خدا داد بھی اس قدر تھی کہ ہر ایک شخص ان کی کمان کو چڑھا نہ سکتا تھا۔ غرض ۱۲۱۳ھ میں شہر لکھنو میں ۷۰ برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کے بیٹے شاعر تھے اور باپ کے تخلص کی رعایت سے داغؔ تخلص کرتے تھے۔ جوانی میں اپنے مرنے کا داغ دیا۔ اور اس سے زیادہ افسوس یہ کہ کوئی غزل ان کی دستیاب نہ ہوئی۔

خود حسین بھے اور حسینوں کے دیکھنے والے تھے۔ آخر غمِ فراق میں جان دی۔ میر سوزؔ مرحوم کی زبان عجیب میٹھی زبان ہے اور حقیقت میں غزل کی جان ہے۔ چنانچہ غزلیں خود ہی کہے دیتی ہیں۔ ان کی انشاء پردازی کا حُسن، تکلف اور صناع مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔ اس خوش نمائی کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہری بھری ٹہنی پر کٹورا سا دھرا ہے اور سر سبز پتیوں میں اپنا اصلی جوبن دکھا رہا ہے۔ جن اہل نظر کو خدا نے نظر باز آنکھیں دی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک حُسنِ خدا داد کے سامنے ہزاروں بناوٹ کے بناؤ سنگار کر کے قربان ہوا کرتے ہیں، البتہ غزل میں دو تین شعر کے بعد ایک آدھ پرانا لفظ ضرور کھٹک جاتا ہے۔ خیر اس سے قطع نظر کرنی چاہیے۔

مصرعہ : فکر معقول بفرماگلِ بے خارکجاست

غزل – لغت میں عورتوں سے باتیں چیتیں ہیں، اور اصطلاح میں یہ ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے ہجر یا وصل کے خیالات کو وسعت دے کر اس کے بیان سے دل کے ارمان یا غم کا بخار نکالے اور زبان بھی وہ ہو کہ گویا دونوں آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ بس وہ کلام ان کا ہے۔ معشوق کو بجائے جانا کے فقط جان یا میاں یا میاں جان کہہ کر خطاب کرنا ان کا خاص محاورہ ہے۔

مجالس رنگین کی بعض مجلسوں سے اور ہمارے عہد سے پہلے کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلام صفائی محاورہ اور لطف زبان کے باب میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔ ان کے شعر ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی چاہنے والا اپنے چاہیتے عزیز سے باتیں کر رہا ہے۔ وہ اپنی محبت کی باتوں کو اس طرح باندھتے تھے کہ شعر کی موزونیت کے لئے لفظوں کا آگے پیچھے کرنا بھی گوارا نہ سمجھتے تھے۔ میر  تقی کہیں کہیں اُن کے قریب قریب آ جاتے ہیں۔ پھر بھی بہت فرق ہے، وہ بھی محاورہ خوب باندھتے تھے۔ مگر فارسی کو بہت نباہتے تھے۔ اور مضامین بلند لاتے تھے۔ سوداؔ بہت دور ہیں کیونکہ مضامین کو تشبیہ و استعارے کے رنگ میں غوطے دے کر محاورہ میں ترکیب دیتے تھے اور اپنے زور شاعری سے لفظوں کو پس و پیش کر کے اس بندوبست کے ساتھ جڑتے تھے کہ لطف اس کا دیکھے ہی سے معلوم ہوتا ہے۔

میر سوزؔ جیسے سیدھے سیدھے مضمون باندھتے تھے ویسے ہی آسان آسان طرحیں بھی لیتے تھے بلکہ اکثر ردیف چھوڑ کر قافیہ ہی پر اکتفا کرتے تھے۔ ان کے شعر کا قوام فقط محاورہ کی چاشنی پر ہے۔ اضافت تشبیہ، استعارہ فارسی ترکیبیں ان کے کلام میں بہت کم ہیں۔ ان لحاظوں سے انھیں گویا اردو غزل کا شیخ سعدی کہنا چاہیے۔ اگر اس انداز پر زبان رہتی یعنی فارسی کے رنگین خیال اس میں داخل نہ ہوتے اور قوت بیانی کا مادہ اس میں زیادہ ہوتا تو آج ہمیں اس قدر دشواری نہ ہوتی۔ اب دوہری مشکلیں ہیں۔ اول یہ کہ رنگین استعارات اور مبالغہ کے خیالات گویا مثل تکیہ کلام کے زبانوں پر چڑھ گئے ہیں، یہ عادت چھڑانی چاہیے۔ پھر اس میں نئے انداز اور سادہ خیالات کو داخل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ سالہا سال سے کہتے کہتے اور سنتے سنتے کہنے والوں کی زبان اور سننے والوں کے کان اس کے انداز سے ایسے آشنا ہو گئے ہیں کہ نہ سادگی میں لطف زبان کا حق ادا ہو سکتا ہے اور نہ سننے والوں کو مزا دیتا ہے۔

زیادہ تر سوداؔ اور کچھ میرؔ نے اس طریقہ کو بدل کر استعاروں کو ہندی محاوروں کے ساتھ ملا کر ریختہ متین بنایا۔ اگر میرؔ و سودا اور ان کی زبان میں فرق بیان کرنا ہو تو یہ کہہ دو کہ بہ نسبت عہد سودا کے دیوان میں اردو کا نوجوان چند سال چھوٹا ہے، اور یہ امر بہ اعتبار مضمون اور کیا بلحاظ محاورہ قدیم ہر امر میں خیال کر لو، چنانچہ کو، کہ علامت مفعول ہے لہو اور کبھو کا قافیہ بھی باندھ جاتے تھے۔ انھوں نے سوائے غزل کے اور کچھ نہیں کہا اور اس وقت تک اُردو کی شاعری کی اتنی ہی بساط تھی۔ ۱۲ سطر کے صفحہ سے ۳۰۰ صفحہ کا کل دیوان ہے۔ اس میں سے ۳۸۸ صفحہ غزلیات، ۱۲ صفحہ مثنوی، رباعی مخمس، باقی والسلام۔ آغاز مثنوی کا یہ شعر ہے :

دعوے ٰ بڑا ہے سوزؔ کو اپنے کلام کا

جو غور کیجیے تو ہے کوڑی کے کام کا

نقل – ایک دن سوداؔ کے ہاں میر سوزؔ تشریف لائے۔ ان دنوں میں شیخ علی حزیںؔ کی غزل کا چرچا تھا۔ جس کا مطلع یہ ہے :

مے گرفتیم بجا ناں سرِ راہے گاہے

اوہم از لطف نہاں داشت نگاہے گاہے

میر سوزؔ مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا :

نہیں نکسے ہے مرے دل کی اپاہے گاہے

اے فلک بہرِ خدا رخصت آہے گاہے

مرزا سُن کر بولے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں، یا تو جب یہ لفظ سُنا تھا یا آج سُنا۔ میر سوزؔ بچارے ہنس کر چُپکے ہو رہے پھر مرزا نے خود اسی وقت مطلع کہہ کر پڑھا :

نہیں جوں گل ہوسِ ابر سیا ہے گاہے

کاہ ہوں خشک میں اے برق نگاہے گاہے

میاں جرأت کی ان دنوں میں ابتدا تھی، خود جرأتؔ نہ کر سکے۔ ایک اور شخص نے کہا کہ حضرت! یہ بھی عرض کیا چاہتے ہیں۔ مرزا نے کہا، کیوں بھئی کیا؟ جرأتؔ نے پڑھا :

سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے

صحبت غیر میں گاہے سرِ راہے گاہے

سب نے تعریف کی اور مرزائے موصوف نے بھی تحسین و آفریں کے ساتھ پسند کیا۔ اسی پر ایک اور مطلع یاد آیا ہے۔ چاہے ظفرؔ کا کہو چاہے ذوقؔ کا سمجھو :

اس طرف بھی تمھیں لازم ہے نگاہے نگاہے

دم بدم لحظہ بہ لحظہ نہیں گاہے گاہے

نقل – کسی شخص نے اُس سے آ کر کہا کہ حضرت ایک شخص آپ کے تخلص پر آج ہنستے تھے۔ اور کہتے تھے کہ سوز گوز کیا تخلص رکھا ہے۔ ہمیں پسند نہیں۔ انھوں نے کہنے والے کا نام پوچھا۔ اس نے بعد بہت سے انکار اور اصرار کے بتایا۔ معلوم ہوا کہ شخص موصوف بھی مشاعرہ میں ہمیشہ آتے ہیں۔ میر سوزؔ مرحوم نے کہا، خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب کے صحبت کے مشاعرہ میں تم مجھ سے برسر جلسہ یہی سوال کرنا۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بآواز بلند پوچھا، حضرت آپ کا تخلص کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ صاحب قبلہ فقیر نے تخلص تو میر کیا تھا۔ مگر میر  تقی صاحب نے پسند فرمایا۔ فقیر نے خیال کیا کہ ان کے کمال کے سامنے میرا نام نہ روشن ہو سکے گا۔ ناچار سوزؔ تخلص کیا، (شخص مذکور کی طرف اشارہ کر کے کہا)، سنتا ہوں یہ صاحب گوز کرتے ہیں۔ مشاعرہ میں عجیب قہقہہ اڑا۔ لکھنؤ میں ہزاروں آدمی مشاعرہ میں جمع ہوتے تھے، سب کے کان تک آواز نہ گئی تھی، کئی کئی دفعہ کہلوا کر سُنا۔ ادھر شخص موصوف اُدھر میر  تقی صاحب، دونوں چپ بیٹھے سُنا کئے۔

انھوں نے علاوہ شاعری کے شعر خوانی کا ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ جس سے کلام کا لطف دوچند ہو جاتا تھا، شعر کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود مضمون کی صورت بن جاتے تھے۔ اور لوگ بھی نقل اتارتے تھے۔ مگر وہ بات کہاں، آواز درد ناک تھی۔ شعر نہایت نرمی اور سوز و گداز سے پڑھتے تھے، اور اس میں اعضاء سے بھی مدد لیتے تھے۔ مثلاً شمع کا مضمون باندھتے تو پڑھتے وقت ایک ہاتھ سے شمع اور دوسرے کی اوٹ سے وہیں فانوس تیار کر کے بتاتے۔ بے دماغی یا ناراضی کا مضمون ہوتا تو خود بھی تیوری چڑھا کر وہیں بگڑ جاتے اور تم بھی خیال کر کے دیکھ لو، ان کے اشعار اپنے پڑھنے کے لئے ضرور حرکات و انداز کے طالب ہیں۔ چنانچہ یہ قطعہ بھی ایک خاص موقعہ پر ہوا تھا، اور عجیب انداز سے پڑھا گیا :

گئے گھر سے جو ہم اپنے سویرے

سلام اللہ خاں صاب کے ڈیرے

وہاں دیکھے کئے طفلِ پری رو

ارے رے رے ارے رے رے ارے رے

چوتھا مصرع پڑھتے پڑھتے وہیں زمین پر گر پڑے۔ گویا پریزادوں کو دیکھتے ہی دل بے قابو ہو گیا اور ایسے ہی نڈھال ہوئے کہ ارے رے رے کہتے کہتے غش کھا کر بے ہوش ہو گئے۔

ایک غزل میں قطعہ اس انداز سے سنایا تھا کہ سارے مشاعرہ کے لوگ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے :

او مارِ سیاہ زلف سچ کہہ

بتلا دے دل جہاں چھُپا ہو

کنڈلی تلے دیکھیو نہ ہووے

کاٹا  نہ ہفی؟ ترا بُرا ہو

پہلے مصرع پر ڈرتے ڈرتے، بچ کر جھکے، گویا کنڈلی تلے دیکھنے کو جھکے ہیں، اور جس وقت کہا، کاٹا نہ ہفی۔ بس دفعتہً ہاتھ کو چھاتی تلے مسوس کر، ایسے بے اختیار لوٹ گئے کہ لوگ گھبرا کر سنبھالنے کو کھڑے ہو گئے۔ (صحیح افعی ہے۔ محاورہ  میں ہفی کہتے ہیں )۔

نوازش ان کے شاگرد کا نام ہم لڑکپن میں سُنا کرتے تھے اور کچھ کہتے تھے تو وہی اس انداز میں کہتے تھے۔ مرزا رجب علی سرور صاحب فسانہ عجائب ان کے شاگرد تھے۔

مطلع سرِ دیوان

سرِ دیوان پر اپنے جو بسم اللہ میں لکھتا

بجائے مدِ بسم اللہ مدِ آہ میں لکھتا

محو کو تیرے نہیں ہے کچھ خیال خوب و زشت

ایک ہے اس کو ہوائے دوزخ و باغ بہشت

حاجیو! طوفِ دل مستاں کرو تو کچھ ملے

ورنہ کعبہ میں دھرا کیا ہے بغیر از سنگ و خشت

ناصحا گر یار ہے ہم سے خفا تو تجھ کو کیا

چین پیشانی ہی ہے اس کی ہماری سرنوشت

سوزؔ نے دامن جو ہیں پکڑا تو وہیں چھین کر

کہنے لاگا، ان دنوں کچھ زور چل نکلا ہے ہشت

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بھل رہے عشق تیری شوکت و شان

بھائی میرے تو اڑ گئے اوسان

ایک ڈر تھا کہ جی بچے نہ بچے

دوسرے غم نے کھائی میری جان

بس غم یار ایک دن دو دن

اس سے زیادہ نہ ہو جیو مہمان

نہ کہ بیٹھے ہو پاؤں پھیلا کر

اپنے گھر جاؤ خانہ آبادان

عارضی حُسن پر نہ ہو مغرور

میرے پیارے یہ گو ہے یہ میداں

پھرے ہے زلف و خال زیر زلف

چار دن تو بھی کھیل لے چوگاں

اور تو اور کہہ کے دو (۲) باتیں

سوز کہلایا صاحب دیوان

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مرا جان جاتا ہے یارو بچا لو

کلیجہ میں کانٹا گڑا ہے نکالو

نہ بھائی، مجھے زندگانی نہ بھائی

مجھے مار ڈالو، مجھے مار ڈالو

خدا کے لئے میرے وے ہم نشینو

وہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلا لو

اگر وہ خفا ہو کے کچھ گالیاں دے

تو دم کھا رہو کچھ نہ بولو نہ چالو

نہ آوے اگر وہ امھارے کہے سے

تو منت کرو دھیرے دھیرے منا لو

کہو ایک بندہ تمھارا مرے ہے

اسے جان کندن سے چل کر بچا لو

جلوں کی بُری آہ ہوتی ہے پیارے

تم اس سوز کی اپنے حق میں دعا لو

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

ہواؤں کو میں کہتا کہتا دِوانا

پر اس بے خبر نے کہا کچھ نہ مانا

کوئی دم تو بیٹھے رہو پاس میرے

میاں میں بھی چلتا ہوں ٹک رہ کے جانا

مجھے تو تمھاری خوشی چاہیئے ہے

تمھیں گو ہو منظور میرا کڑھانا

گیا ایک دن اس کے کوچے میں ناگاہ

لگا کہنے چل بھاگ رے پھر نہ آنا

کہاں ڈھونڈوں ہے ہے کدھر جاؤں یا رب

کہیں جاں کا پاتا نہیں ہوں ٹھکانا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کہوں کس سے حکایت آشنا کی

سنو صاحب یہ باتیں ہیں خدا کی

دُعا دی تو لگا کہنے کہ در ہو

سُنی میں نے دُعا تیری دعا کی

کہا میں نے کہ کچھ خاطر میں ہو گا

تمھارے ساتھ جو میں نے وفا کی

گریباں میں ذرا منھ ڈال دیکھیو

کہ تم نے اس وفا پر ہم سے کیا کی

تو کہتا ہے کہ بس بس چونچ کر بند

وفا لایا ہے، دت تیری وفا کی

عدم سے زندگی لائی تھی بہلا

کہ دنیا جائے ہے اچھی فضا کی

جنازہ دیکھتے ہی سُن ہوا دل

کہ ہے ظالم! دغا کی رے دغا کی

تجھے اے سوزؔ کیا مشکل بنی ہے

جو ڈھونڈھے ہے سفارش اغنیا کی

کوئی مشکل نہیں رہتی ہے مشکل

محبت ہے اگر مشکل کُشا کی

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دل کے ہاتھوں بہت خراب ہوا

جل گیا مل گیا کباب ہوا

اشک آنکھوں سے پل نہیں تھمتا

کیا بلا دل ہے دل میں آب ہوا

جن کو نت دیکھتے تھے اب ان کو

دیکھنا بھی خیال و خواب ہوا

یار اغیار ہو گیا ہیہات

کیا زمانے کا انقلاب ہوا

سارا دیوانِ زندگی دیکھا

ایک مصرعہ نہ انتخاب ہوا

سوزؔ بے ہوش گیا جب سے

تیری صحبت سے باریاب ہوا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

عاشق ہوا، اسیر ہوا مبتلا ہوا

کیا جانئے کہ دیکھتے ہی دل کو کیا ہوا

سر مشق ظلم تو نے کیا مجھ کو واہ واہ

تقصیر یہ ہوئی کہ ترا آشنا ہوا

دل تھا بساط میں سو کوئی اس کو لے گیا

اب کیا کروں گا اے میرے اللہ کیا  ہوا

پاتا نہیں سراغ کروں کس طرف تلاش

دیوانہ دل کدھر کو گیا آہ کیا ہوا

سنتے ہی سوز کی خبر مرگ خوش ہوا

کہنے لگا کہ پنڈ تو چھوٹا بھلا ہوا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

آج اس راہ سے دل رُبا گذرا

جی پہ کیا جانیے کہ کیا گذرا

آہ ظالم نے کچھ نہ مانی بات

میں تو اپنا  سا جی چلا گذرا

اب تو آیا ز بس خدا کو مان

پچھلا شکوہ تھا سو گیا گذرا

رات کو نیند ہے نہ دن کو چین

ایسے جینے سے اے خدا گذرا

سوزؔ کے قتل پر کمر مت باندھ

ایسا جانا ہے کیا گیا گذرا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یار گر صاحبِ وفا ہوتا

کیوں میاں جان! کیا مزا ہوتا

ضبط سے میرے تھم رہا ہے سر شک

ورنہ اب تک تو بہہ گیا ہوتا

جان کے کیا کروں بیان احسان

یہ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا

روٹھنا تب تجھے مناسب تھا

جو تجھے میں نے کچھ کہا ہوتا

ہاں میاں ! جانتا تو میری قدر

جو کہیں تیرا دل لگا ہوتا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بلبل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا

اپنے ہی من میں پھولے گی گلزار دیکھنا

نازک ہے دل نہ ٹھیس لگانا اسے کہیں

غم سے بھرا ہے اے مرے غمخوار دیکھنا

شکوہ عبث ہے یار کے جوروں کا ہر گھڑی

غیروں کے ساتھ شوق سے دیدار دیکھنا

سوداؔ کی بات بھول گئی سُوز تجھ کو حیف

جو کچھ خدا دکھا دے سو لاچار دیکھنا

کچھ کہا تو قاصد آتا ہے وہ ماہ

اَلحَمدُ للہ اَلحَمدُ للہ

جھوٹے کے منہ میں آگے کہوں کیا

استغفر اللہ استغفر اللہ

یار آتا ہے ترے یار کی ایسی تیسی

آزماتا ہے ترے پیار کی ایسی تیسی

نجیب احمد نجیب

919701218340


2013/6/9 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 18, 2013, 2:45:35 PM6/18/13
to Aijaz .Shaheen

میر صاحب کی غزلیں

 

برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بُت اگر آوے

اللہ کی قدرت کا تماشہ نظر آوے

اے ناقہ لیلیٰ دو قدم راہ غلط کر

مجنوں ز خود رفتہ کبھو راہ پر آوے

ٹک بعد مرے میرے طرفداروں کنے تو

بھیجو کوئی ظالم کہ تسلی تو کر آوے

کیا ظرف ہے گردون تنک حوصلہ کا جو

آشوبِ فغاں کے مرے عہدے سے بر آوے

ممکن نہیں آرام دے بیتابی جگر کی

جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے

مت ممتحن باغ ہوائے غیرتِ گلزار

گل کیا کہ جسے آگے ترے بات کر آوے

کھلنے میں ترے منھ کی کلی پھاڑے گریباں

ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گلبرگ تر آوے

ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوق خبر میں

اے جانِ بلب آمدہ رہ تا خبر آوے

کہتے ہیں ترے کوچہ سے میر آنے کہے ہے

جب جانئے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے

ہے جی میں غزل در غزل اے طبع یہ کہیے

شاید کہ نظیری کے بھی عہدے سے بر آوے

جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے

اِس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم

یہ تو ہو کوئی گورِ غریباں میں در آوے

مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ

دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے

کیا جانیں وہ مرغان گرفتار چمن کو

جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے

تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ

کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے

ہر سو تسلیم رکھے صید حرم میں

وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر (*) آوے

*  امیر خسرو کا شعر ہے :

ہمہ آہواں صحرا سر خود نہادہ برکف

بامیدایں کہ روزے بہ شکار خواہی آمد

دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت

اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے

واعظ نہیں کیفیتِ مے خانہ سے آگاہ

یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے

صناع ہیں سب خوا رازانجملہ ہوں میں بھی

ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے

اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سرِ راہ پہ زنہار

کہیو جو کبھو میرؔ بلاکش ادھر آوے

مت دشتِ محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو

ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر

شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

آرزو اس بلند و بالا کی

کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

دیدنی ہے شکستگی دل کی

کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

ہے تصنع کہ لعل ہیں وہ لب

یعنی اک بات سی بنائی ہے

دل سے نزدیک اور اتنا دُور

کسے اس کو کچھ آسنائی ہے

بے ستون کیا ہے کوہ کن کیسا

عشق کی زور آزمائی ہے

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے

دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم

واں وہی ناز خود نمائی ہے

ایسا ہوتا ہے زندہ جاوید

رفتہ یار تھا جب آئی ہے

مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ

کیا دوانے نے موت پائی ہے

کعبے میں جاں بلب تھے ہم دوری بتاں سے

آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے یاں سے

تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم

جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے

جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں

رکھتی ہے چھیڑ میری خاشاک آشیاں سے

کیا خوبی اس کے منہ کی اے غنچے نقل کرئیے

تُو تُو نہ بول ظالم بو آتی ہے وہاں سے

آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو

حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے

سبزانِ باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے

دلچسپ کاہے کو ہیں اس بیوفا جواں سے

کی شِست و شو بدن کی جس دن بہت سی آنے

دھوئے ہیں ہاتھ میں نے اس دن سے اپنی جاں سے

خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب

ہر اک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے

اتنی بھی بد مزاجی ہر لحظہ میرؔ تم کو

الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اے نوکیلے یہ تھی کہاں کی ادا

کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا

جادو کرتے ہیں اک نگاہ کے بیچ

ہائے رے چشم دلبراں کی ادا

بات کہنے میں گالیاں دے ہے

سنتے ہو میرے بد زباں کی ادا

دل چلے جائے ہیں خرام کے ساتھ

دیکھی چلنے میں ان بتاں کی ادا

خاک میں مل کے میر ہم سمجھے

بے ادائی تھی آسماں کی ادا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

میر سوزؔ مرحوم نے بھی یہ مضمون خوب باندھا ہے۔

دعوی کیا تھا گل نے اس رخ سے رنگ و بو کا

ماریں صبا نے دھو لیں شبنم نے منہ پہ تھوکا

سخن مشتاق ہے عالم ہمارا

بہت عالم کرے گا غم ہمارا

پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے

رہے گا دیر تک ماتم ہمارا

نہیں ہے مرجعِ آدم اگر خاک

کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا

زمین و آسماں زیر و زبر ہیں

نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا

کسو کے بال و پر ہم دیکھتے میرؔ

ہوا ہے کام دل برہم ہمارا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جان (*) اپنا جو ہم نے مارا تھا

کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا

* اس زمانے میں اکثر استاد جان کو مذکر باندھتے تھے۔

کون لیتا تھا نام مجنوں کا

جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا

کوہ و فرہاد سے کہیں آگے

سر مرا اور سنگ خارا تھا

ہم تو تھے محو دوستی اُس کے

گو کہ دشمن جہاں ہمارا تھا

لطف سے پوچھتا تھا ہر کوئی

جب تلک لطف کچھ ہمارا تھا

آستاں کی کسو کے خاک ہوا

آسماں کا بھی کیا ستارا تھا

پاؤں چھاتی پہ میرے رکھ چلنا

یاں کبھی اس کا یوں گذرا تھا

موسم گل میں ہم نہ چھوٹے حیف

گشت تھا دید تھا نظارا تھا

اس کے ابرو جو ٹک جھکے اِیدھر

قتل کا تیغ سے اشارا تھا

عشق بازی میں کیا موئے ہیں میرؔ

آگے ہی جی انھوں نے مارا تھا

آیا ہے ابر جب کا قبلہ سے تیرا تیرا

مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت سی خیرا

خجلت سے ان لبوں کی پانی ہو یہ چلے ہیں

قند و نبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا

مجنوں نے حوسلے سے دیوانگی نہیں کی

جاگہ سے اپنی جانا اپنا نہیں وطیرا

اس راہزن سے مل کر دل کیونکہ کھو نہ بیٹھیں

انداز و ناز اُچکے غمزہ اٹھائی گیرا

کیا کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی کی

شعروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرا

آئینہ کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو

حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا

نیت پہ سب بنا ہے یا مسجد اک پڑی تھی

پیر مغاں موا سو اس کا بنا خطیرا

ہمراہ خوں تلک ہو ٹک پاؤں کے چھوئے سے

ایسا گناہ مجھ سے وہ کیا ہوا کبیرا

غیرت سے میر صاحب سب جذب ہو گئے تھے

نکلا نہ بوند لوہو سینہ جو ان کا چیرا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مت صبح و شام تو پئے ایذائے میر ہو

ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو

ہو کوئی بادشاہ، کوئی یاں وزیر ہو

اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو

جنت کی منٹ ان کے دماغوں سے کب اٹھے

خاک راہ اس کی جن کے کفن کا عبیر ہو

کیا (*) لو آب و تاب سے ہو بیٹھیں کار عشق

سُوکھے جگر کا خوں تو رواں جوئے شیر ہو

* یہ اور کئی شعر مندرجہ ان کے دیوانوں میں دیکھے اس طرح لکھے تھے اس لیے حرف بحرف لکھے گئے۔

چھاتی قفس میں داغ سے ہو کیوں نہ رشک باغ

جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو

یاں برگ گل اڑاتے ہیں پرکالہ جگر

جا عندلیب تو نہ مری ہم صفیر ہو

اس کے خیال خط میں کسے یاں دماغ حرف

کرتی ہے بے مزہ جو قلم کی ضریر ہو

زنہار اپنی آنکھ میں آتا نہیں وہ صید

پھوٹا دو سار جس کے جگر کا نہ تیر ہو

ہوتے ہیں میکدے کے جواں شیخ جی بُرے

پھر درگذر یہ کرتے نہیں گو کہ پیر ہو

کس طرح آہ خاکِ مذلت سے میں اُٹھوں

افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو

حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں

ایسا سلوک کر کہ تدارک پذیر ہو

دم بھر نہ ٹھہرے دل میں نہ آنکھوں میں ایک پل

اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو

ایسا ہی اس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو

جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو

تسکین دل کے واسطے ہر کم بغل کے پاس

انصاف کرئیے کب تئیں مخلص حقیر ہو

اک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو

تم بھی تو میر صاحب قبلہ فقیر ہو

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آج

رات گزرے گی کس خرابی سے

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

برقع اٹھتے ہی چاند سے نکلا

داغ ہوں اس کی بے حجابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ

ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

دل عجب شہر تھا خیالوں کا

لوٹا مارا ہے حسن والوں کا

جی کو جنجال دل کو ہے الجھاؤ

یار کے حلقہ حلقہ بالوں کا

موئے دلبر سے مشک بو ہے نسیم

حال خوش اس کے خستہ حالوں کا

نہ کہا کچھ نہ آ پھر نہ ملا (اس مصرعے میں کچھ گڑبڑ لگتی ہے )

کیا جواب ان مرے سوالوں کا

دم نہ لے اس کی زلفوں کا مارا

میرؔ کاٹا جئے نہ کالوں کا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

ہے غزل میرؔ یہ شفائی کی

ہم نے بھی طبع آزمائی کی

اُس کے ایفائے عہد تک نہ جئے

عمر نے ہم سے بے وفائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی

شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

اسی تقریب اس گلی میں رہے

منتیں ہیں شکستہ پائی کی

دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر

آہ نے آہ نارسائی کی

کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس (*)

ہم نے دیدار کی گدائی کی

*************************************

* آتش نے بھی خوب کہا ہے :

آنکھیں نہیں ہیں چہرہ پہ تیرے فقیر کے

دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لئے

****************************************

زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ

کس بھروسے پہ آشنائی کی

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

ہو گئی شہر شہر رسوائی

اے مری موت تو بھلی آئی

یک بیاباں برنگ صورت جرس

مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی

نہ کھنچے تجھ سے ایک جا نقاش

اس کی تصویر وہ ہے ہرجائی

سر رکھوں اس کے پاؤں پر لیکن

دستِ قدرت یہ میں کہاں پائی

میرؔ جب سے گیا ہے دل تب سے

میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی

اہلی شیرازی کے شعر پر مصرع لگا کر مثلث کا ایجاد اپنی زبان میں دکھاتے ہیں :

کل تک تو فریبندہ ملاقات تھی پہلی

امروز یقیں شد کہ نداری سراہلی

بیچارہ ز لطفِ تو بدل داشت گما ہا

کیا کہوں میں عاشق و معشوق کا راز و نیاز

ناقہ را میرا ند لیلیٰ سوئے خلوت گاہ ناز

سارباں درد رہ حدی میخواند و مجنوں میگریست

ایک مثلث سید انشاء کا یاد آ گیا۔ کیا خوب مصرع لگایا ہے۔

اگرچہ سینکڑوں اس جا پہ تھے کھڑے زن و مرد

نشد قتیل ولیکن کہ یک کس از سر درد

سرے بہ نعش من خستہ جاں بجنبباند

مربع پانچویں دیوان سے

جوائے قاصد وہ پوچھے میرؔ بھی ایدھر کو چلتا تھا

تو کہیو جب چلا تھا میں تب اس کا دم نکلتا تھا

سماں افسوس بیتابی سے تھا کل قتل میں میرے

تڑپتا تھا ادھر میں یار اودھر ہاتھ ملتا تھا

مربع فارسی پر

سکندر ہے نہ دارا ہے نہ کسرا ہے نہ قیصر ہے

یہ بیت المال ملک بیوفا بے وارثا گھر ہے

نہ در جانم، ہوا باقی نہ اندر دل ہوس ماندہ

بیا ساقی کہ ایں ویرانہ از بسیار کس ماندہ

 

خاتمہ

 

رات آخر ہو گئی مگر جلسہ جما ہوا ہے اور وہ سماں بندھ رہا ہے کہ دل سے صدا آتی ہے :

یا الہٰی تا قیامت برنیاید آفتاب

اس مشاعرہ کے شعراء کا کچھ شمار نہیں، خدا جانے یہ کتنے ہیں، اور آسماں پر تارے کتنے ہیں۔ سننے والے ایسے مشتاق کہ شمع پر شمع پانی ہوتی ہے، مگر ان کے شوق کا شعلہ دھیما نہیں ہوتا۔ یہی آواز چلی آتی ہے :

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

آزاد بھولتے ہو؟ دلوں کی نبض کس نے پائی ہے ؟ جانتے نہیں کہ دفعتہً اکتا جاتے ہیں۔ پھر ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ بس اب باقی داستان فردا شب۔ اے لو صبح ہو گئی، طول کلام ملتوی کرو۔

عزیزو مست سخن ہوو یا کہ سوتے ہو

اُٹھو اُٹھو کہ بس اب سر پہ آفتاب آیا   



2013/6/15 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM.
 
 

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 20, 2013, 1:40:28 PM6/20/13
to Aijaz .Shaheen

شیخ قلندر بخش جرأتؔ

 

جرأت تخلص، شیخ قلندر بخش مشہور، اصلی نام یحییٰ امان تھا۔ اکبر آبادی مشہور ہیں۔ مگر باپ ان کے حافظ امان خاص دلی کے رہنے والے تھے۔ ہر تذکرہ میں لکھا ہے کہ ان کے خاندان کا سلسلہ (رائے امان کا کوچہ دلی کے چاندنی چوک میں ان ہی کے نام سے مشہور ہوا۔) رائے امان شاہی سے ملتا ہے اور امان کا لفظ اکبری زمانہ سے ان کے ناموں کا خلعت چلا آتا ہے۔  حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ ان کے بزرگ دربار شاہی میں دربانی کی خدمت رکھتے تھے۔

لطیفہ : بزرگوں کا قول سچ ہے کہ اگر کسی کے والدین اور بزرگوں کی لیاقت اور حیثیت دریافت کرنی ہو تو اس کے نام کو دیکھ لو، یعنی جیسی لیاقت ہو گی ویسا ہی نام رکھیں گے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ رائے امان محمد شاہی عہد میں دربان تھے۔ اگرچہ اس زمانہ کے دربان بھی آج کل بڑے بڑے عہدہ داروں سے بہتر ہوتے تھے۔ مگر زیادہ تر وجہ شہرت یہ ہوئی کہ جس وقت نادر شاہ نے قتل عام کا حکم دیا تو بعض اشخاص نے ننگ و ناموس کا پاس کر کے جان کا خیال نہ کیا اور اپنے اپنے گھر کا بندوبست رکھا۔ نادر شاہ کے سپاہی جب وہاں پہنچے تو تلوار کا جواب تلوار سے دیا۔ اس میں طرفین کی جانیں ضائع ہوئیں۔ امن کے بعد جب نادری مقتولوں کی اور ان کے اسباب قتل کی تحقیقات ہوئی تو وہ لوگ پکڑ کے آئے، ان میں رائے امان بھی تھا۔ چنانچہ شال پٹکوں سے ان کے گلے گھونٹے اور مار ڈالا۔ (دیکھو نادر نامہ عبد الکریم)۔

جرأت میاں جعفر علی حسرتؔ (حسرت بھی  نامی شاعر تھے، مگر اصلی پیشہ عطاری تھا۔ دیوان موجود ہے پھیکے شربت کا مزہ آتا ہے۔ مرزا رفیع نے انھیں کی شان میں غزل کہی ہے جس کا مطلع یہ ہے :

بہدا نہ کا آندھی سے اڑا ڈھیر ہوا پر

ہر مرغ اُسے کھا کے ہوا سیر ہوا پر

اسی طرح ہجو کی آندھی میں ساری دوکان کا خاکہ اڑا دیا ہے۔ دیکھو صفحہ) کے شاگرد تھے۔ علاوہ فنِ شاعری کے نجوم میں ماہر تھے اور موسیقی کا بھی شوق رکھتے تھے۔ چنانچہ ستار خوب بجاتے تھے۔ اوّل نواب محبت خاں خلف حافظ رحمت خاں نواب بریلی کی سرکار میں نوکر ہوئے۔

میر انشاء اللہ خاں کی اور ان کی صحبتیں بہت گرم رہتی تھیں، چنانچہ حسب حال یہ شعر کہا تھا :

بسکہ گلچیں تھے سدا عشق کے ہم بستاں کے

ہوئے نوکر بھی تو نواب محبت خاں کے

۱۲۱۵ھ میں لکھنؤ پہنچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں ملازم ہوئے۔ ایک دفعہ تنخواہ میں دیر ہوئی، حین طلب میں ایک غزل کا مطلع لکھا :

جرأت اب بند ہے تنخواہ تو کہتے ہیں یہ ہم

کہ خدا دیوے نہ جب تک تو سلیماں کب دے

فارسی کی ضرب المثل ہے "تا خدا نہ دہد سلیماں کے دہد" میاں جرأت کے حال میں بلکہ ساری کتاب میں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عین جوانی میں آنکھوں سے معذور ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ حادثہ چیچک سے ہوا۔ استاد مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا کہ بھئی زمانہ کی دو آنکھیں ہیں۔ نیکی کی آنکھ نے ان کے کمال کو بڑی قدر دانی سے دیکھا۔ بدی کی آنکھ نہ دیکھ سکی۔ اور ایک بدنما داغ ان کے دامن پر دکھایا۔ مشہور کرتے ہیں کہ پہلے وہ اصلی اندھے نہ تھے۔ بعض ضرورتوں سے کہ شوخی عمر کا مقتضیٰ ہے، خود اندھے بنے۔ رفتہ رفتہ اندھے ہی ہو گئے۔

بزرگوں کا قول ہے کہ شرافت و نجابت غریبی پر عاشق ہے۔ دولت اور نجابت آپس میں سوکن ہے، یہ حق ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ شرافت کے اصول و آئیں غریبوں ہی سے خوب نبھتے ہیں۔ امارت آئی قیامت آئی دولت آئی شامت آئی۔ میاں جرأت کی خوش مزاجی، لطیفہ گوئی، مسخرا پن حد سے زیادہ گزرا ہوا تھا۔اور ہندوستان کے امیروں کو نہ اس سے ضروری اور ہندوستان کے امیروں کو نہ اس سے ضروری کوئی کام نہ اس سے زیادہ کوئی نعمت ہے۔ کہتے ہیں، مرزا قتل، سید انشاء کا اور ان کا یہ حال تھا کہ گھر میں رہنے نہ پاتے تھے۔ آج ایک امیر کے ہاں گئے، دوسرے دن دوسرے امیر آئے سوار کیا اور ساتھ لے گئے۔ چار پانچ دن وہاں رہے کوئی اور نواب آئے، وہاں سے وہ لے گئے۔ جہاں جائیں آرام و آسائش سے زیادہ عیش کے سامان موجود۔ رات دن قہقہے اور چہچہے ایک  بیگم صاحب نے گھر میں ان کے چٹکلے اور نقلیں سنیں۔ بہت خوش ہوئیں اور نواب صاحب سے کہا کہ ہم بھی باتیں سنیں گے۔ گھر میں لا کر کھانا کھلاؤ، پردے یا چلمنیں چھٹ گئیں، اندر وہ بیٹھیں، باہر یہ بیٹھے۔ چند روز کے بعد خاص خاص بیبیوں کا برائے نام پردہ رہا۔ باقی گھر والے سامنے پھرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یگانگی کی یہ نوبت ہوئی کہ آپ بھی باتیں کرنے لگیں۔ گھر میں کوئی دادا، نانا، کوئی ماموں، چچا کہتا، شیخ صاحب کی آنکھیں دکھنے آئیں، چند روز ضعفِ بصر کا بہانہ کر کے ظاہر کیا کہ آنکھیں معذور ہو گئیں۔ مطلب یہ تھا کہ اہل حُسن کے دیدار سے آنکھیں سکھ پائیں، چنانچہ بے تکلف گھروں میں جانے لگے۔ اب پردہ کی ضرورت کیا؟ یہ بھی قاعدہ ہے کہ میاں بیوی جس مہمان کی بہت خاطر کرتے ہیں، نوکر اس سے جلنے لگتے ہیں۔ ایک دن دوپہر کو سو کر اٹھے، شیخ صاحب نے لونڈی سے کہا کہ بڑے آفتابے میں پانی بھر لا۔ لونڈی نہ بولی۔ انھوں نے پھر پکارا، اس نے کہا کہ بیوی جائے ضرور میں لے گئی ہیں۔ ان کے منہ سے نکل گیا کہ غیبانی دوانی ہوئی ہے سامنے تو رکھا ہے۔ دیتی کیوں نہیں۔ بیوی دوسرے دالان میں تھیں۔ لونڈی گئی اور کہا کہ اوئی بیوی یہ موا کہتا ہے کہ وہ بندہ اندھا ہے۔ یہ تو خاصا اچھا ہے۔ ابھی میرے ساتھ یہ واردات گزری۔ اس وقت یہ راز کھلا۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ آخر آنکھوں کو رو بیٹھے۔

مزن فال بد کا درد حالِ بد

مبادا کسے کو زند فال بد

اگرچہ علوم تحصیلی میں ناتمام تھے۔ بلکہ عربی زبان سے ناواقف تھے لیکن اس کوچہ کے رستوں سے خوب واقف تھے اور طبع موزوں طوطی و بلبل کیطرح ساتھ لائے تھے۔ آخر عمر تک  لکھنؤ میں رہے اور وہیں ۱۲۲۵ھ میں فوت ہوئے۔ شیخ ناسخ نے تاریخ کہی :

جب میاں جرأت کا باغِ دہر سے

گلشنِ فردوس کو جانا ہوا

مصرع تاریخ ناسخ نے کہا

ہائے ہندوستان کا شاعر موا

کلام ہر جگہ زبان پر ہے۔ دیوان تلاش سے مل جاتا ہے۔ اس میں ہر طرح کی غزلیں ہیں، رباعیاں، چند مخمس، واسوخت، چند ہجوئیں اور تاریخیں ہیں۔ دیوان میں رطب و یابس بہت نہیں ہے، معلوم ہوتا ہے کہ جو استادوں کے طریقے پائے ہیں، انھیں سلیقہ سے کام میں لائے ہیں۔ اس پر کثرتِ مشق نے صفائی کا رنگ دیا ہے کہ سب کوتاہیوں کا پردہ ہو گیا۔ اور انھیں خود صاحب طرز مشہور کر دیا۔ ان کی نکتہ یابی اور سخن فہمی کی بڑی دلیل یہ ہے کہ قصیدہ وغیرہ اقسام شعر پر ہاتھ نہ ڈالا۔ بلکہ زبان فارسی کی طرف خیال بھی نہیں کیا، مناسب طبع دیکھ کر غزل کو اختیار کیا۔ اور امراء اور ارباب نشاط کی صحبت نے اسے اور بھی چمکایا۔ انھوں نے بالکل میرؔ کے طریقے کو لیا۔ مگر اس کی فصاحت و سادگی پر ایک شوخی اور بانکپن کا انداز ایسا بڑھایا جس سے پسند عام نے شہرت دوام کا فرمان دیا۔ عوام میں کمال کی دھوم مچ گئی۔ اور خواص حیران رہ گئے۔ ان کی طرز انھیں کا ایجاد ہے اور آج تک انھیں کے لئے خاص ہے۔ جیسی اس وقت مقبول خلائق تھی آج تک ویسی ہی چلی آتی ہے۔ خصوصیت اس میں یہ ہے کہ فصاحت اور محاورہ کی جان ہے۔ فقط حسن و عشق کے معاملات ہیں اور عاشق و معشوق کے خیالات گویا اس میں شراب ناب کا شروع پید کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت غزل کے لئے عین مناسب واقع ہوئی تھی۔ حریف، ظریف، کوش طبع، عاشق مزاج تھے۔ البتہ استعداد علمی اور کاوش فکری شاعری کا جز اعظم ہے، ان کی طبیعت بجائے محنت پسند ہونے کے عشرت پسند تھی، تعجب یہ ہے کہ زمانے نے شکر خورے کو شکر دے کر تمام عمر قدردان اور ناز بردار امیروں میں بسر کر دی۔ جہاں رات دن اس کے سوا اور چرچا ہی نہ تھا۔ اگر ان کی طبیعت میں یہ باتیں نہ ہوتیں اور وہ استعداد علمی سے طبیعت میں زور اور فکر میں قوتِ غور پیدا کرتے تو اتنا ضرور ہے کہ اصنافِ سخن پر قادر ہو جاتے۔ مگر پھر یہ لطف اور شوخیاں کہاں بلبل میں شوریدہ مزاجی نہ ہوتی، تو یہ چہچہے کب ہوتے۔ یہ بات ہے کہ طبیعت میں تیزی اور طراری تھی۔ مگر نزلے کا زور اور طرف جا کر گِرا تھا۔ یہی سبب ہے کہ کلام میں بلند پردازی، لفظوں میں شان و شکوہ، اور معنوں میں دِقَت نہیں۔ جس نے قصیدہ تک نہ پہونچنے دیا اور غزل کے کوچہ میں لا ڈالا۔ اس عالم میں جو جو باتیں ان پر اور ان کے دل پر گذرتی تھیں سو کہہ دیتے تھے۔ مگر ایسی کہتے تھے کہ اب تک دل پھڑک اٹھتے ہیں۔ مشاعرے میں غزل پڑھتے، جلسے کے جلسے لوٹ جاتے تھے۔ سید انشاء باہمہ فضل و کمال رنگا رنگ کے بہروپ بدل کر مشاعرہ میں دھوم دھام کرتے تھے، وہ شخص فقط اپنی سیدھی سادی غزل میں وہ بات حاصل کر لیتا تھا۔

مرزا محمد تقی خاں ترقی کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا اور تمام امرائے نامی و شعرائے گرامی جمع ہوتے تھے۔ میر  تقی مرحوم بھی آتے تھے۔ ایک دفعہ جرأت نے غزل پڑھی اور غزل وہ ہوئی کہ تعریفوں کے غل سے شعر تک سنائی نہ دیئے۔ میاں جرأت یا تو اس جوش سرور میں جو کہ اس حالت میں انسان کو سرشار کر دیتا ہے، یا شوخی مزاج سے میر صاحب کے چھیڑنے کے ارادہ سے ایک شاگرد کا ہاتھ پکڑ کر ان کے پاس آ بیٹھے۔ اور کہا کہ حضرت اگرچہ آپ کے سامنے غزل پڑھنی بے ادبی اور بے حیائی ہے۔ مگر خیر اس بیہودہ گو نے جو یاوہ گوئی کی آپ نے نے سماعت فرمائی؟ میر صاحب تیوری چڑھا کر چپکے ہو رہے۔ جرأت نے پھر کہا میر صاحب کچھ ہوں ہاں کر کے پھر ٹال گئے۔ جب انھوں نے بہ تکرار کہا تو میر صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ یہ ہیں (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم)۔ کیفیت اس کی یہ ہے کہ تم شعر تو کہنا نہیں جانتے ہو اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو۔" میر صاحب  مرحوم شاعروں کے ابو الآبا تھے، کیسے ہی الفاظ میں فرمائیں مگر جوہری کامل تھے۔ جواہر کو خوب پرکھا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ عاشق و معشوق کے راز و نیاز اور حُسن کے معاملوں کو جس شوخی اور چونچلے سے انھوں نے برتا ہے وہ انھیں کا حصہ تھا۔ آج تک دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔

میرؔ اور سوداؔ کی غزلوں پر اکثر غزلیں لکھی ہیں۔ ان کے کلام  ملوک الکلام تھے مگر یہ اپنی شوخی سے جو لطف پید کر جاتے ہیں، تڑپا جاتے ہیں۔

برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بت اگر آئے

اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے

(میر)

اس دل کو تفِ آہ سے کب شعلہ بر آئے

بجلی کو دم سرد سے جس کے حذر آئے

(سودا)

ہر گز نہ مرادِ دل معشوق بر آئے

یا رب نہ شبِ وصل کے پیچھے سحر آئے

(مصحفی)

اس پردہ نشیں سے کوئی کس طرح بر آئے

جو خواب میں بھی آئے تو منھ ڈھانک کر آئے

(جرأت)

ناقص کا صفا کیش سے مطلب نہ بر آئے

جو کور ہو عینک سے اُسے کیا نظر آئے

(ذوق)

فردوس میں ذکر اس لبِ شیریں کا گر آئے

پانی دہن چشمہ کوثر میں بھر آئے

(بعالم جوانی)

اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے

پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے

(میر)

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے

یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

(سودا)

ہے کس کا جگر جس پہ یہ بیداد کرو گے

لو ہم تمھیں دل دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

(جرأت)

مدعی مجھ کو کھڑے صاف بُرا کہتے ہیں

چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں

(میر)

تو نے سودا کے تئیں قتل کیا کہتے ہیں

یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیا کہتے ہیں

(سودا)

آئینہ رُخ کو ترے اہل صفا کہتے ہیں

اسپہ دل اٹکے ہے میرا اسے کیا کہتے ہیں

(جرأت)

سوداؔ کا ایک مطلع مشہور (میرے شفیق قدیم حافظ ویران فرماتے ہیں۔) ہے۔ استاد مرحوم اس پر جرأت کا مطلع پڑھا کرتے تھے۔ ایک مصرع یاد ہے دوسرا بھُول گیا، اب سارا دیوان چھان مارا نہیں ملتا، معلوم ہوتا ہے کہ زبان بزبان یہاں تک آ پہونچا وہاں دیوان میں نہ درج ہوا، ناسخؔ اور آتش کے اکثر اشعار کا یہی حال ہے۔ معتبر اشخاص کی زبانی سن چکا ہوں جو کہ خود ان کے مشاعروں میں شامل ہوتے تھے مگر اب دیوانوں میں وہ اشعار نہیں ملتے۔ استاد مرحوم کے صدہا شعروں کا حال راقم آثم جانتا ہے کہ خود یاد ہیں یا ایک دو زبانوں پر ہیں۔ کار ساز کریم ان کے مجموعہ کو بھی تکمیل کو پہنچائے۔ سودا کا مطلع ہے :

کہہ دیکھ تو رستم سے سر تیغ تلے دھر دے

پیار سے یہ ہمیں سے ہو ہرکارے و ہزمردے

(سودا)

پہلا مصرع یاد نہیں دوسرا حاضر ہے

ہر شہرے و ہر رسمے، ہرکارے و ہر مردے

(جرأت)

ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا

دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

(میر)

چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا

صبا نے تیغ کا موج رواں سے کام لیا

(سودا)

پاس جا بیٹھا جو میں کل اک ترے ہمنام کے

رہ گیا بس نام سنتے ہی کلیجہ تھام کے

(جرأت)

چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا

جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا

(میر)

برابری کا تری گل نے جب خیال کیا

صبا نے مار تھپیڑے منھ اس کا لال کیا

(سوداؔ)

جو تیغ یار نے کوں ریزی کا خیال کیا

تو عاشقوں نے بھی  منھ اس کا خوب لال کیا

(جرأت)

طائر شہرت نے ابھی پر پرواز نہ نکالے تھے جو مرزا رفیع اور میر سوزؔ جلسہ میں ایک لطیفہ ہوا، دیکھو صفحہ ، سچ ہے شاعر اپنی شاعری  ماں کے پیٹ سے لے کر نکلتا ہے۔ ان کے کلام میں بعض نکتے ایسے بھی ہیں کہ جن پر خاص لوگوں کی نظریں اٹکتی ہیں۔ مثلاً :

ہو کے آزردہ جو وہ ہم سے پرے پھرتے ہیں

ہاتھ ہم اپنے کلیجے پہ دھرے پھرتے ہیں

مصرع گرم ہے۔ لیکن پرے پرے پھرتے ہیں۔ کہتے تو محاورہ پورا ہو جاتا۔

کبھی وہ چاند کا ٹکڑا ادھر بھی آ نکلے

ذرا تو دیکھ منجّم مرے ستاروں کے دن

دکھا دے شکل کہ دیوار و در سے سر اپنا

کہاں تلک کوئی تیرے قرار پر مارے

ہجوم داغ نے یہ کی ہے تن پہ گلکاری

کہ پہنے ہوں تن عریاں لباس پھلکاری

ظہور اللہ خاں نواؔ سے کسی معاملے میں بگاڑ ہو گیا تھا۔ انھوں نے ان کی ہجو میں ایک ترجیع بند کہا اور حقیقت میں بہت خوب کہا۔ جس کا شعر ترجیع یہ ہے :

ظہور حشر نہ ہو کیوں کہ کلچڑی گنجی

حضور بلبل بستاں کرے نوا سنجی

خان (ظہور اللہ خاں نوا ۱۲۴۰ھ میں مر گئے۔) موصوف نے بھی بہت کہا کہا۔ اس نے شہرت نہیں پائی۔ چنانچہ ان کے ترجیع بند کا فی الحال یہی ایک شعر یاد ہے۔

رات کو کہنے لگا جو رو کے منھ پر ہاتھ پھیر

قدرتِ حق سے لگی ہے ہاتھ اندھے کے بٹیر

کریلا – (عہد محمد شاہی اور اسی پس و پیش کا زمانہ خوشحالی کے لحاظ سے بہشتی زمانہ تھا۔ دربار سے جو امیر کس طرف جاتا تھا وہ ضروری چیزیں اور کاروبار کے آدمی دلّی سے اپنے ساتھ لے جاتا تھا تاکہ ہر کام ہر رسم ہر بات اور کارخانہ کا محاورہ وہ ہو جو دارالخلافہ کا ہے۔ نواب سراج الدولہ مرشد آباد کے صوبیدار ہر کر گئے تو علاوہ منصب داروں اور ملازموں کے کئی بھانڈ اور دو تین گوئیے، دو تین رنڈیاں اور دو بھگتنے، دو تین نانبائی، ایک دو کنجڑے اور بھڑبھونجے تک بھی ساتھ لے گئے اور وہ ایسا وقت تھا کہ دلّی کا بھڑبھونجا بھی دس (۱۰) بارہ روپے مہینے بغیر دلّی سے نہ نکلتا تھا۔ یہ شعر شاہ مبارک آبرو کا ہے۔)  ایک پراتم بھانڈ دلّی کا رہنے والا، نواب شجاع الدولہ کے ساتھ گیا تھا۔ اور اپنے فن میں صاحب کمال تھا۔ ایک دن کسی محفل میں اس کا طائفہ حاضر تھا۔ شیخ جرأت بھی وہاں موجود تھے۔ اس نے نقل کی۔ ایک ہاتھ میں لکڑی لے کر دوسرا ہاتھ اندھوں کی طرح بڑھایا۔ ٹٹول کر پھرنے لگا اور کہنے لگا کہ حضور شاعر بھی اندھا شعر بھی اندھا :

صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے

کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے

شیخ صاحب بہت خفا ہوئے۔ مگر یہ بھی سید انشاء اور مرزا قتیلؔ کے جتھے کے جزو اعظم تھے۔ گھر آ کر انھوں نے اس کی ہجو کہہ دی اور خاک اڑائی۔ اُسے سن کر کریلا بہت کڑوایا۔ چنانچہ دوسرے جلسہ میں پھر اندھے کی نقل کی۔ اسی طرح لاٹھی لے کر پھرنے لگا۔ ان کی ایک غزل ہے :

امشب تری زلفوں کی حکایات ہے واللہ

کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ

ہر رات کے لفظ پر لکڑی کا سہارا بدلتا تھا۔ کیا رات ہے، کیا رات ہے،  کیا رات ہے واللہ، اس غزل کے ہر شعر کا دوسرا مصرع ایک ہی ڈھنگ پر ہے۔ چنانچہ ساری غزل کو اسی طرح محفل میں پڑھتا پھرا۔ شیخ صاحب اور بھی غصہ ہوئے اور پھر آ کر ایک ہجو کہی۔ ترجیع بند تھا :

اگلا جھولے بگلا جھولے ساون اس کریلا پھُولے

اس کو بھی خبر ہوئی، بہت بھنایا۔ پھر کسی محفل میں ایک زچّہ کا سوانگ بَھرا اور ظاہر کیا کہ اس کے پیٹ میں بھُتنا گھس گیا ہے۔ خود مُلّا بن کر بیٹھا اور جس طرح جنّات اور سیانوں میں لڑائی ہوتی ہے۔ اسی طرح جھگڑتے جھگڑتے بولا کہ ارے نامراد کیوں غریب ماں کی جان کا لاگو ہوا ہے۔ جرأت ہے تو باہر نکال آ کہ ابھی جلا کر خاک کروں، آخر اب کی دفعہ انھوں نے ایسی خبر لی کہ کریلا خدمت میں حاضر ہوا، خطا معاف کروائی اور کہا کہ میں اگر آسمان کے تارے توڑ لاؤں گا تو بھی اس کا چرچا وہیں تک رہے گا، جہاں تک دائرہ محفل ہے۔ آپ کا کلام منھ سے نکلتے ہیں عالم میں مشہور ہو جائے گا۔ اور پتھر کی لکیر ہو گا کہ قیامت تک نہ مٹے گا۔ بس اب میری خطا معاف فرمائیے۔

اگرچہ روایت کہن سال لوگوں سے سنی ہے، مگر کئی نسخے کلیات کے نظر سے گذرے جو ہجو اس میں ہے وہ ایسی نہیں ہے، جس پر ایک بھانڈ اس قدر گھبرا جائے کہ آ کر خطا معاف کروائے۔

لطیفہ : ایک دن میر انشاء اللہ خاں جرأت کی ملاقات کو آئے، دیکھا تو سر جھکائے بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کس فکر میں بیٹھے ہو؟ جرأت نے کہا کہ ایک مصرع خیال میں آیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ مطلع ہو جائے۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ہے ؟ جرأت نے کہا کہ خوب مصرع ہے مگر جب تک دوسرا مصرع نہ ہو گا، تب تک نہ سناؤں گا، نہیں تو تم مصرع لگا کر اسے بھی چھین لو گے۔ سید انشاء نے بہت اصرار کیا، آخر جرأتؔ نے پڑھ دیا :

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سُوجھی

سید انشاء نے فوراً کہا :

اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سُوجھی

جرأتؔ ہنس پڑے اور اپنی لکڑی اٹھا کر مارنے دوڑے۔ دیر تک سید انشاء آگے آگے بھاگتے پھرے اور یہ پیچھے پیچھے ٹٹولتے پھرے۔ اللہ اکبر! کیا شگفتہ مزاج لوگ تھے۔ کیا خوش دلی اور فارغ البالی کے زمانے تھے۔

سیّد انشاء نے ان کے نام کا معمہ کہا تھا، سرمونڈی  نگوڑی گجرأتن۔ لطیفہ اس میں یہ تھا کہ گجرأتن ان کی ماں کا نام تھا۔

نواب محبت خاں کے مختار نے ایک دفعہ جاڑے میں معمولی پوشاک دینے میں کچھ دیر کی۔ جرأتؔ نے رباعی کہہ کر کھڑے کھڑے خلعت حاصل کیا۔

مختاری پہ آپ نہ کیجیے گا گھمنڈ

کہتے ہیں جسے نوکری ہے بیخ ارنڈ

سرمائی دلائیے ہماری ورنہ

تم کھاؤ گے گالیاں جو ہم کھائیں گے ٹھنڈ

 

غزل

لگ جا گلے سے بات اب اے نازنیں نہیں

ہے ہے خدا کے واسطے مت کر نہیں نہیں

کیا رک کے وہ کہے ہے جو ٹک اس سے لگ چلوں

بس بس پرے ہو شوق یہ اپنے تئیں نہیں

پہلو میں کیا کہیں جگر و دل کا کیا ہے رنگ

کس روز اشکِ خونی سے تر آستیں نہیں

فرصت جو پا کے کہنے کبھو درد دل سو ہائے

وہ بدگماں کہے ہے کہ ہم کو یقیں نہیں

آتش سی پھُنک رہی ہے مرے تن بدن میں آہ

جب سے کہ روبرو وہ رُخ آتشیں نہیں

اُس بن جہان کچھ نظر آتا ہے اور ہی

گویا وہ آسمان نہیں، وہ زمیں نہیں

کیا جانے کیا وہ اس میں ہے لوٹے ہے جس پہ دل

یوں اور کیا جہاں میں کوئی حسیں نہیں

سنتا ہے کون کس سے کہوں درد بے کسی

ہمدم نہیں ہے کوئی مرا ہم نشیں نہیں

ہر چند یہ لطف شب ماہ سیر باغ

اندھیر پر یہی ہے کہ وہ مہ جبیں نہیں

آنکھوں کی راہ نکلے ہے کیا حسرتوں سے جی

وہ روبرو جو اپنے دمِ واپسیں نہیں

طوفانِ گریہ کیا کہیں کس وقت ہم نشیں

موج سر شک، تا فلک ہفتمیں نہیں

حیرت ہے مجھ کو کیونکہ وہ جرأت ہے چین سے

جس بن قرار جی کو ہمارے کہیں نہیں

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

امشب کسی کاکل کی حکایات  ہے واللہ

کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ

دل چھین لیا اس نے کہا دستِ حنائی

کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ

عالم ہے جوانی کا جو اُبھرا ہوا سینہ

کیا گات ہے، کیا گات ہے، کیا گات ہے واللہ

دشنام کا پایا جو مزہ اس کے لبوں سے

صلٰوت ہے، صلٰوت ہے، صلٰوت ہے واللہ

جرأت کی غزل جس نے سُنی اس نے کہا واہ

کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

طرح مشاعرہ کی مستزاد ہے، مصحفی اور سید انشاء نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر ایک کے حال میں دیکھ کر مقابلہ کرو، انھوں نے سراپا باندھا ہے۔

جادو ہے نگہ، چھب  ہے غضب، قہر ہے مکھڑا        اور قد ہے قیامت

غارت گر دیں وہ بت کافر ہے سراپا اللہ کی قدرت

اٹھکیلی  ہے رفتار میں، گفتار کی کیا بات       ہر بات جگت ہے

اور رنگِ رخ یار ہے گویا کہ بَھبھُوکا پھر تس پہ ملاحت

ہیں بال یہ بکھرے ہوئے مکھڑے دھواں دھار      جوں دود بہ شعلہ

حُسنِ بُتِ کافر ہے خدائی کا جھمکڑا   ٹک دیکھیو صورت

ابرو فنِ خونریزی میں اس کے ہیں غضب طاق       شمشیر برہنہ

آنکھوں کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں سے نہ دیکھا افسوں نے اشارت

کان ایسے کہ کانوں سے سُنے ویسے نہ اب تک نے آنکھوں سے دیکھے

بالے کے تصور میں مجھے گھیرے ہے گویا    اک حلقہ حیرت

بینی یہ خوش اسلوب کہ نتھنوں کی پھڑک دیکھ تڑپے ہے دو عالم

ہے اس کو لب یار کے بوسہ کی تمنا   ارمان ہے حسرت

دانتوں کی صفا کیا کہوں موتی کی لڑی ہے       لب لعل کے ٹکڑے

مِسّی ہے بلا تس پہ رکھے پان کا بیڑا   سو شوخی کی رنگت

دل خون کرے وہ دستِ حنا بستہ پھر اس میں سمرن کی پھبن ہائے

ہے وضع تو سادی سی پہ کیا کیا نہیں پیدا               شوخی و شرارت

اس اُبھرے ہوئے گات کی کیا بات جسے دیکھ سب ہاتھ ملے ہیں

اور ہائے رے ہر بات میں گردن کا وہ ڈورا   ہے دامِ محبت

گلشن میں پھرے ٹک تو وہیں آتشِ گل کی    گرمی سے عرق آئے

ہر گام پہ چلنے میں کمر کھائے ہے لچکا  اللہ رے نزاکت

ہیں قہر سریں گول وہ اور ہائے کہوں کیا              رانوں کی گدازی

فرق اس میں نہیں فرق سے لے تا بہ کفِ پا   ہے طرفہ لطافت

ہے عشوہ و انداز و ادا ناز و کرشمہ    اور گرمی و شوخی

ہر عضو پہ آنکھ اٹکے وہ کافر ہے سراپا ایک موہنی مورت

بھُولے سے جو ہم نام لیں تو رک کے کہے یوں اس نام کو کم لو

پھر اس میں جو رک جائیے تو جھٹ سے یہ کہنا بس دیکھ لی چاہت

جرأت یہ غزل گرچہ کہی ایسی ہے تو نے       ہے خوب سراپا

پر کہہ کے وہ اشعار کر اب اس کو دو غزلہ     ہو جس سے کہ وحشت

جز بے کسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا               ہے اپنی وہ تربت

افسوس کرے کون بجز دستِ تمنا   ہوں کشتہ حیرت

جو میں نے کہا اس سے دکھا مجھ کو رُخ اپنا     بس دے نہ اذّیت

تو کیا کہوں کس شکل سے جھنجھلا کے وہ بولا    تو دیکھے گا صورت

یہ راہ تکی اس کی کہ بس چھا گئی اک بار               آنکھوں میں سپیدی

پیمان گسل آیا نہ وہ دے وعدہ فردا   تا صبح قیامت

سودائے محبت جو نہیں ہے تجھے اے دل              تو پھر مجھے بتلا

کیوں چاک کئے اپنے گریباں کو ہے پھرتا     آنکھوں پہ ہے وحشت

سو بار زباں گرچہ مری کٹ گئی جوں شمع     اور پھر ہوئی پیدا

پر محفل قاتل میں مرے منھ سے نہ نکلا              یک حرف شکایت

اب گھر میں بلانے سے اگر آتی ہیں سو سوچ   بدنام سمجھ کر

آواز ہی تو در پہ مجھے آ کے سُنا جا      از راہ مروّت

آلودہ ہوا خون سے دلا دامن قاتل  ٍبسمل ہو جو تڑپا

افسوس صد افسوس کہ یہ تو نے کیا کیا؟       اے ننگِ محبت

جو ولولہ شوق سے ہو مضطر وہ بیتاب نکلا ہی پڑے دل

کیا قہر ہے، کیا ظلم ہے محبوب گر اس کا       ہو صاحب عصمت

کیا خاک رہیں چین سے بےچینی کے مارے   بس ہے یہ پریکھا

ہم ہو گئے جس کے وہ ہوا ہائے نہ اپنا کیا کیجیئے قسمت

چپ ان دنوں رہتا ہے جو وہ صورتِ تصویر   کچھ اور ہے خفقان

لگ جائے پھر اس سے مرے کیوں دل کو نہ دھڑکن   ہے موجب حیرت

دل دے کے عجب ہم تو مصیبت میں پھنسے ہیں         اک پردہ نشین کو

نے جانے کا گھر اس کے ہے مقدور ہمارا             نے رہنے کی طاقت

یا مجھ کو بلاتا تھا وہ یا آئے تھا مجھ پاس  صحبت کی تھی گرمی

اب اس کو خدا جانے دیا کس نے یہ بھڑکا     جو ایسی ہے نفرت

لے نام مرا کوئی تو دے سینکڑوں دشنام              گِن گِن کے وہ قاتل

بے رحمی و بے دردی سے پروا ہو نہ اصلا      سُن مرگ کی حالت

آنا مرا سُن در پہ کہیں گھر سے چلا جائے        دیکھوں تو نہ دیکھے

اور کوئی سفارش جو کرے میری تو کیا کیا      کھینچے وہ ندامت

گر خواب میں دیکھے مجھے تو چونک اٹھے اور   پھر موندے نہ آنکھیں

آواز جو میری سی سُنے تو وہیں گھبرا   کھانے لگے دہشت

افسوس کہ گردوں نے عجب رنگ دکھایا    نقشہ ہی وہ بدلا

لے جان مری! خانہ تن سے تو نِکل جا               ہو جائے فراغت

کس منھ سے کروں عشوہ گری اس کی بیاں میں        اللہ رے ادائیں

مل بیٹھے ہیں ہم اور وہ قسمت سے جو یا جا      طرفہ ہوئی صحبت

بیتاب ہو لگ چلنے کا جو میں کیا عزم   دے بیٹھے وہ گالی

کچھ اور کیا قصد تو ناز سے بولا               بل بے تری جرأتؔ

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

 

اجل گر اپنی خیال جمال یار میں آئے

تو پھر بجائے فرشتہ پری مزار میں آئے

بھلا پھر اس کے اٹھانے میں کیوں نہ دیر لگے

کسی کی موت کسی کے جو انتظار میں آئے

بیک کرشمہ جو بے اختیار کر ڈالے

وہ عشوہ ساز کسی کے کب اختیار میں آئے

پس از فنا جو ترے دل جلے کی خاک اڑے

تو مضطرب سا دھواں اک نظر اغیار میں آئے

خراب کیونکہ نہ ہو شہر دل کی آبادی

ہمیشہ لوٹنے والے ہی اس دیار میں آئے

فغاں پھر اس کی ہو لبریز یاس کیونکہ نہ آہ

بہ زیر دام جو مرغِ چمن بہار میں آئے

بلائیں لے لے جو ہونے لگوں نثار تو بس

کہے ہے ہنس کے وہ ایسے جی اب  پیار میں آئے

نہ پوچھ مجھ سے وہ عالم کہ صبح نیند سے اُٹھ

جب انکھڑیوں کو وہ ملتے ہوئے خمار میں آئے

نہ کیونکہ حد سے فزوں تر ہو رتبہ گریا

کہ اب تو حضرتِ دل چشم اشکبار میں آئے

ٹلیں نہ واں سے اگر ہم کو گالیاں لاکھوں

وہ دینے غیرتِ گل ایک کیا ہزار میں آئے

مگر نہ کہیے کہ مضطر ہو تو نہ کیونکہ بھلا

وہ دوڑ دوڑ تمھارے نہ رہگزار میں آئے

اٹھے جہان سے جرأت اٹھا کے درد فراق

الہٰی موت بھی آئے تو وصل یار میں آئے

(کس دھوم دھام کی غزل تھی مگر "آئے " کہیں واحد ہے کہیں جمع ہو گیا ہے۔)

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا

چنپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا

بات ہی اول تو وہ کرتا نہیں مجھ سے کبھی

اور جو بولے بھی ہے کچھ منھ سے تو شرمایا ہوا

جا کے پھر آؤں نہ جاؤں اس گلی میں دوڑ دوڑ

پر کروں کیا میں نہیں پھرتا ہے دل آیا ہوا

بے سبب جو مجھ سے ہے وہ شعلہ خو سر گرم جنگ

میں تو ہوں حیراں کہ یہ کس کا ہے بھڑکایا ہوا

وہ کرے عزم سفر تو کیجیئے دنیا سے کوچ

ہے ارادہ دل میں مُدّت سے یہ ٹھہرایا ہوا

نوکِ مژگاں پر دل پژمردہ ہے یوں سرنگوں

شاخ پر جھک آئے ہے جوں پھول مرجھایا ہوا

جاؤں جاؤں کیا لگایا ہے اجی بیٹھے رہو

ہوں میں اپنی زیست سے آگے ہی اکتایا ہوا

تیری دُوری سے یہ حالت ہو گئی اپنی کہ آہ

عنقریب مرگ ہر ایک اپنا ہمسایا ہوا

کیا کہیں اب عشق کیا کیا ہم سے کرتا ہے سلوک

دل پہ بیتابی کا اک پُتلا ہے بٹھلایا ہوا

ہے قلق سے دل کی یہ حالت مری اب تو کہ میں

چار سو پھرتا ہوں اپنے گھر میں گھبرایا ہوا

حکم بارِ مجلس اب جرأت کو بھی ہو جائے جی

یہ بچارا کب سے دروازہ پہ ہے آیا ہوا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نہ جواب لے کے قاصد جو پھرا شتاب اُلٹا

میں زمیں پہ ہاتھ مارا بصد اضطراب اُلٹا

دمِ وصل اس نے رخ سے جو نہ ٹک نقاب اُلٹا

ہمیں لگ گیا دم اُس دم بصد اضطراب اُلٹا

ترے دَور میں ہو میکش کوئی کیا فلک کہ تیری

وہ ہے شکل جوں دھرا ہو قدح شراب اُلٹا

یہ وفا کی میں نے تس پر مجھے کہتے بے وفا ہو

مری بندگی ہے صاحب یہ ملا خطاب اُلٹا

مرے بخت ہیں وہ روکش کہ وہ دے جو وعدہ شب

تو پہنچ کے تا بہ مغرب پھرے آفتاب اُلٹا

کسی نسخہ میں پڑھے تھا وہ مقام دل نوازی

مجھے آتے جو ہی دیکھا ورقِ کتاب اُلٹا

وہ بہا کے کاسہ سر میرے خوں مین شکل  کشی

کہے ہے کہ دیکھو نِکلا یہ موا حباب اُلٹا

مرے دل نے داغ کھایا جو یہ بوئے سوختہ سے

یہ جلا بس ایک پہلو نہ کیا کباب اُلٹا

غزل اور پڑھ تو جرأتؔ کہ گیا جو یاں سے گھر کو

تو کلام سُنتے تیرا میں پھرا شتاب اُلٹا

میں تڑپ کے سنگِ تربت بصد اضطراب اُلٹا

مری قبر پر وہ آ کر جو پھرا شتاب اُلٹا

مرے سو سوال سن کر وہ رہا خموش بیٹھا

نہیں یہ بھی کہنے کی جا کہ ملا جواب اُلٹا

جو رکھے ہے بخت واژوں وہ ٹنی سے مل ہو مفلس

کہ رہے یہ آب دریا قدح حباب اُلٹا

شب وصل یہ قلق تھا پہ وہ سو گیا تو منھ سے

نہ ذرہ بھی میں (*) دوپٹہ زرہِ حجاب اُلٹا

(* دیکھو یہاں بھی علامتِ فاعلیت ہے محذوف ہے اور یہ پرانا جوہر ہے۔)

ہمیں ہے خیال اس کا کہ جو آیا خواب میں وہ

تو زباں پہ اس کی ڈر سے نہ وہ ہم نے خواب اُلٹا

اسی در تک آؤں گا میں کہ نہیں ہے دل کہے میں

پچھے پھیرتے عبث ہو زرہِ عتاب اُلٹا

طلب اس سے کل جو مے کی تو بھرا ہوا زمن پر

مجھے شوخ نے دکھا کر قدحِ شراب اُلٹا

جو کنار مقصد اپنی لگے بہہ کے ناؤ گاہے

تو ہوا تھپڑ مارے لگے بہنے آب اُلٹا

کسی تذکرہ میں پڑھنے مرے شعر جو لگا وہ

تو ہوا نے ودں ہی جرأتؔ ورق کتاب اُلٹا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اس ڈھب سے کیا کیجیئے ملاقات کہیں اور

دن کو تو ملو ہم سے رہو رات کہیں اور

کیا بات کوئی اس بُتِ عیّار کی سمجھے

بولے ہے جو ہم سے تو اشارات کہیں اور

اس ابر میں پاؤں میں کہاں دختر رز کو

رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور

جس رنگ مری چشم سے برے ہے پڑا خوں

اس رنگ کی دیکھی نہیں برسات کہیں اور

گھر اُس کو بلا نذر کیا دل تو وہ جرأتؔ

بولا کہ یہ بس کیجئے مدارات کہیں اور

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جب یہ سنتے ہیں کہ ہمسایہ میں آپ آئے ہوئے

کیا در و بام پہ ہم پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے

آپ سے میں تو نہ جاؤں پر کروں کیا کہ وہیں

دل بیتاب لئے جائے ہے دوڑائے ہوئے

گھر میں بے یار ہے شکل اپنی یہ دل کے ہمراہ

دہ گنہگار ہوں جوں قید میں بٹھلائے ہوئے

آئے جب دست بقبضہ ہو تو پھر دیر ہے کیا

سر تسلیم کو ہم بیٹھے ہیں نہڑائے ہوئے

آج بھی اس کے جو آنے کہ نہ ٹھہری تو بس آہ

ہم وہ کر بیٹھیں گے جو دل میں ہیں ٹھہرائے ہوئے

پیرہن چاک ترے در پہ جو کل کرتا تھا

آج لوگ اس کو لئے جاتے ہیں کفنائے ہوئے

مُردنی بھر گئی منھ پر مرے جن کی خاطر

رنگ و رو کیا وہ پڑے پھرتے ہیں چمکائے ہوئے

ابر تصویر کی مانند ہم اس محفل میں

رد نہیں سکتے پہ آنکھوں میں ہیں اشک آئے ہوئے

لوگ گر ہم سے یہ کہتے ہیں کہ چلتے ہو جی واں

اپنے بیگانے سب اس بزم میں ہیں آئے ہوئے

دل میں تب سوچ کے اس بات کو رو دیتے ہیں

کیا کہیں اُن سے کہ ہیں ہم تو نکلوائے ہوئے

کر کے موزوں انھیں جرأتؔ غزل اک اور بھی پڑھ

دل میں جو تازہ مضامین ہوں ٹھہرائے ہوئے

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خوف کچھ کھاتے ہی بیدار ہم اے وائے ہوئے

شب کو تم خواب میں پھر آئے تو گھبرائے ہوئے

بے خودی پر نہ ہماری متحیر ہو کوئی

آئیں کیا آپ میں جی ہم ہیں کہیں آئے ہوئے

رنگ اور اس میں نظر آئے ہے کچھ حضرتِ دل

اشک سُرخ آنکھوں میں پھرتے ہو چمکائے ہوئے

رشک کی جا ہے غرض شہر خموشاں بھی کہ واں

سوتے کیا چین سے ہم پاؤں کو پھیلائے ہوئے

دیکھو شوخی کہ کوچے میں دِل عاشق کو

کیسی اٹکھیلی سے جاتا ہے وہ ٹھکرائے ہوئے

جوشِ وحشت سے گریبان کو کر چاک ہم آہ

سُرخ آنکھیں کئے کیا بیٹھے ہیں جھنجھلائے ہوئے

جام دیتے نہیں مجھ کو جو دمِ بادہ کشی

یہ تو فرماؤ کہ تم کس کے ہو بہکائے ہوئے

حسرت اے ہم نفساں سیر چمن مفت گئی

نخل بستاں سے قفس ہیں کئی لٹکائے ہوئے

دور چھوڑا ہمیں گلشن سے یہ رونے کی ہے جا

کہ سزاوارِ اسیری بھی نہ ہم ہائے ہوئے

دم رخصت کہے جرأتؔ کوئی اس کافر سے

اک مسلمان کو کیوں جاتے ہو تڑپائے ہوئے 


2013/6/19 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 21, 2013, 2:48:00 PM6/21/13
to Aijaz .Shaheen

شمس ولی اللہ

یہ نظم اُردو کی نسل کا آدم جب ملکِ عدم سے چلا تو اس کے سر پر اولیت کا تاج رکھا گیا، جس میں وقت کے محاورہ  نے اپنے جواہرات خرچ کئے اور مضامین کی رائج الوقت دستکاری سے مینا کاری کی، جب کشورِ وجود میں پہنچا تو ایوانِ مشاعرہ کے صدر میں اس کا تخت سجایا گیا، شہرتِ عام نے جو اِس کے بقائے نام کا ایوان بنایا ہے اس کی بلندی اور مضبوطی کو ذرا دیکھو، اور جو کتبے لکھے ہیں اُنھیں پڑھو، دنیا تین سو برس دور نکل آئی ہے مگر وہ آج تک سامنے نظر آتے ہیں اور صاف پڑھے جاتے ہیں، اُس زمانہ تک اُردو میں متفرق شعر ہوتے تھے، ولی اللہ کی برکت نے اُسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری نظمِ فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں، تمام بحریں فارسی کی اُردو میں لائے، شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا۔ ردیف دار دیوان بنایا، ساتھ اس کے رُباعی، قطعہ، مخمس اور مثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انھیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چاسر شاعر  (چاسر 1348 ء میں پیدا ہوا اور 1402 ء میں مر گیا۔ اُس وقت یہاں تغلقیہ خاندان کا دَور ہو گا۔) کو اور فارسی میں رودکی (رودکی فارسی  کا پہلا شاعر ہے، تیسرے اور چوتھی صدی ہجری کے درمیان تھا اور سلاطین سامانیہ کے دربار میں قدردانہ کے بے انتہا انعام حاصل کرتا تھا۔) کو اور عربی میں مہلل کو، وہ کسی کے شاگرد نہ تھے، اور یہ ثبوت ہے فصیح عرب کے قول کا کہ الشعرا ء قلاہ سید الرحمٰن اسی کو رانائے فرنگ کہتا ہے کہ شاعر اپنی شاعری ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے، ایسے وقت میں کہ ہماری زبان زور بیان میں ایک طفل نوری کی تھی جو انگلی کے سہارے سے بڑھی۔ اُردو زبان اس وقت سوائے ہندی دہروں اور بھاشا کے مضامین کے اور کسی قابل نہ تھی، انھوں نے اس میں فارسی ترکیبیں اور فارسی مضامین کو بھی داخل کیا۔ (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم، مگر تعجب ہے کہ میر تقی نے اپنے تذکرہ میں اورنگ آباد لکھا ہے۔) ولی احمد آباد گجرأت کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہہ الدین کے مشہور خاندان میں سے تھے، ان کی علمی تحصیل کا حال ہماری لاعلمی کے اندھیرے میں ہے، کیونکہ اس عہد کی خاندانی تعلیم اور بزرگوں  کی صحبتوں میں ایک تاثیر تھی کہ تھوڑی نوشت و خواند کی لیاقت بھی استعداد کا پردہ نہ کھُلنے دیتی تھی، چنانچہ اُن کے اشعار سے معلوم ہو گا کہ وہ قواعد عروض کی طرح زبانِ عربی سے ناواقف تھے، پھر بھی کلام کہتا ہے کہ فارسیت کی استعداد درست تھی، ان کی انشا پردازی اور شاعری کی دلیل اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ ایک زبان کا دوسری زبان سے ایسا جوڑ لگایا ہے کہ آج تک زمانے نے کئی پلٹے کھائے ہیں مگر پیوندنین جنبش نہیں آتی۔ علم میں درجہ فضیلت نہ رکھتے تھے مگر کہتے ہیں :

ایک دل نہیں آرزو سے خالی

ہر جا ہے محال اگر سنا رہے

یہ سیر کتاب کا شوق اور علماء کی صحبت کی برکت ہے۔ ولی کی طبیعت میں بعد پردازی بھی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اگرچہ سودا کی طرح کسی سے دست و گریباں نہیں ہوئے مگر اپنے ہمعصروں پر چوٹیں کی ہیں، چنانچہ ناصر علی سرہندی کے معاملہ سے ظاہر ہے۔

اگرچہ ایشیا کے شاعروں کا پہلا عنصر مضمون عاشقانہ ہے مگر جس شوخی سے اخلاق کی شوخی ظاہر ہو اس کا ثبوت ان کے کلام سے نہیں ہوتا، بلکہ برخلاف اس کے صلاحیت اور متانت اُن کا جوہر طبعی تھا۔ اُن کے پاس سیاحی اور تجربہ کو توشہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس عہد میں تھوڑا سفر بھی بڑی سیاحی کی قیمت رکھتا تھا، اس میں یہ اپنے  وطن سے ابو المعالی کے ساتھ دلی میں آئے۔ یہاں شاہ سعد اللہ گلشن (شیخ سعد اللہ گلشن اچھے شاعروں میں تھے اور مرزا بیدل کے معاصر تھے۔ دو شعر فارسی کے ان سے بھی :

گشتم شہید تیغ تغافل کشید نت

جانم زدست بُرد غزالانہ دیدنت

بدقت می تواں فہمید معنی ہائے نازِ اُو

کو شرحِ حکمت العین است مژگانِ درازِ او)

کے مرید ہوئے۔ شاید اُن سے شعر میں اصلاح لی ہو مگر دیوان  (دیکھو تذکرۂ فائق۔ کہ خاص شعرائے دکن کے حال میں ہے اور وہیں تصنیف ہوا ہے۔) کی ترتیب فارسی کے طور پر یقیناً ان کے اشارہ سے کی۔ ان کا دیوان اس عہد کے مشاعروں کی بولتی تصویر ہے کیوں کہ اگر آج دریافت کرنا چاہیں کہ اس وقت کے امراء و شرفاء کی کیا زبان تھی؟ تو اس کیفیت کو وہ دیوان ولی کے اور کوئی نہیں بتا سکتا۔ انھی کے دیوان سے ہم اس وقت اور آج کی زبان کے فرق کو بخوبی نکال سکتے ہیں۔

سوں اور سین بجائے سے

کوں بہ داد معُرف بجائے کو

ہمن کوں بجائے ہم کو

جگ منے بجائے دنیا میں

برمنے بجائے بر میں فارسی کا ترجمہ ہے۔

پیراہنے در بر تجھ لب کی صفتہ بجائے تیرے لب کی صفتہ

تمن یعنی طرح یا مثل

جگ یعنی جہاں، دُنیا

بچن یعنی کلام

نِت یعنی ہمیشہ

مُکھ یعنی منھ

تسبی یعنی تسبیح

سہی یعنی صحیح

بگانہ یعنی بیگانہ

مَرض یعنی مَروض

بھیتر بجائے اندر

مجھ کو بجائے میرا

موہن، ترنجن، پی، پیتم بجائے معشوق

ہنجھواں بجائے آنسو کی جمع

بھواں پلکاں بجائے بھویں، پلکیں

نین بجائے آنکھ

دہن بجائے دَہن

مِرا بجائے میرا

ہوہ بجائے یہ

بعض قافیے مثلاً :

گھوڑا، موڑا، گورا

دھڑ، سر

گھوڑی، گوری

اکثر غزلیں بے ردیف ہیں۔

چونکہ نظم فارسی کی روح اسی وقت اُردو کے قالب میں آئی تھی، اسی واسطے ہندی لفظوں کے ساتھ فارسی کی ترکیبیں اور دَر اور بَر بلکہ بعض جگہ افعالِ فارسی بھی دیکھنے میں کھٹکتے ہیں، وہ خود دکنی تھے، اس لئے اُن کے کلام میں بعض بعض الفاظ دکنی بھی ہوتے ہیں۔

آج اس وقت کی زبان کو سُن کر ہمارے اکثر ہمعصر ہنستے ہیں، لیکن یہ ہنسی کا موقع نہیں، حوادث گاہ عالم میں ایسا ہی ہوا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا، آج تم اُن کی زبان پر ہنستے ہو، کل ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ تمہاری زبان پر ہنسیں گے۔ اس انجمن غفلت کے ممبر اگر تھوڑی دیر کے لئے عقل دُوربین کو صدرِ انجمن کر لیں تو یہ اس تدبیر کے سوچنے کا موقع ہے کہ آج ہم کیونکر اپنے کلام کو ایسا کریں جس سے ہماری زبان کچھ مدت تک زیادہ مطبوع خلائق رہے۔ اگرچہ سامنے ہمارے اندھیرا ہے لیکن پیچھے پھر کر دیکھنا چاہیے اور خیال کرنا چاہیے کہ زبان نے جو ترقی کی ہے تو کن اصول پر اور کس جانب میں قدم رکھتی گئی ہے۔ آؤ ہم بھی آج کے کاروبار اور اُس کے آیندہ حالات کو خیال کریں اور اسی انداز پر قدم ڈالیں، شاید ہمارے کلام کی عمر میں کچھ برس زیادہ ہو جائیں۔

شاعرِ قدرت کے دیوان میں ایک سے ایک مضمون نیا ہے، مگر لطیفہ یہ بھی کچھ کم نہیں کہ شاعری کا چراغ تو دکن میں روشن ہو اور ستارے اُس ک دلی کے اُفق سے طلوع ہوا کریں، اس عہد کی حالت اور بھاشا زبان کو خیال کرتا ہوں تو سوچتا رہ جاتا ہوں کہ یہ صاحبِ کمال زبانِ اُردو اور انشائے ہندی میں کیوں کر ایک نئی صنعت کا نمونہ دے گیا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے واسطے ایک نئی سڑک کی داغ بیل ڈالتا گیا۔ کیا اُس معلوم تھا کہ اس طرح یہ سڑک ہموار ہو گی، اس پر دکانیں تعمیر ہوں گی، لالٹینوں کی روشنی ہو گی، اہلِ سلیقہ دوکاندار جواہر فروشی کریں گے۔

اُردوئے معلیٰ اس کا خطاب ہو گا، افسوس یہ ہے کہ ہماری زبان کے مؤرخ اور ہمارے شعراء کے تذکرہ نویسوں نے اس کے دلی اور خدا رسیدہ ثابت کرنے میں تو بڑی عرق ریزی، لیکن ایسے حال نہ لکھے جس سے اُس کے ذاتی خصائل و حالات مثلاً دنیا داری یا گوشہ گیری، اقامت یا سیاحی، راہِ علم و عمل کی نشیب و فراز منزلیں یا اُس کی صحبتوں کی مزہ مزہ کی کیفیتیں معلوم ہوں بلکہ برخلاف اس کے سنہ ولادت اور سالِ فوت تک بھی نہ بتایا۔ اتنا ثابت ہے کہ اِن کی ابتدائے عہد شاید عالمگیر کا آخر زمانہ ہو گا اور وہ مع اپنے دیوان کے زمانہ محمد شاہی میں دلی پہنچے۔


2013/6/20 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 23, 2013, 5:35:48 AM6/23/13
to Aijaz .Shaheen

 

شاہ مبارک آبرو

 

آبرو تخلص، مشہور شاہِ مبارک اصلی نام نجم الدین تھا، شاہ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں تھے، باوجودیکہ بڈھے شاعر اور پُرانے مشاق تھے مگر خانِ آرزو کو اپنا کلام دکھا لیتے تھے، دیکھو اس زمانہ کے لوگ کیسے منصف اور طالبِ کمال تھے۔ یہ اپنے زمانہ میں مسلم الثبوت شاعر زبانِ ریختہ کے اور صاحبِ ایجاد نظم اُردو کے شمار ہوتے تھے، وہ ایسا زمانہ تھا کہ اخلاص کو وسواس، اور دھڑ کو سر کا، قافیہ باندھ دیتے تھے اور عیب نہ سمجھتے تھے، ردیف کی کچھ ضرورت نہ تھی، البتہ کلام کی بنیاد ایہام اور ذو معنین لفظوں پر ہوتی تھی، اور محاورہ کو ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ وہ ایک آنکھ سے معذور تھے، اِن کی اور مرزا جان جانان مظہر کی خوب خوب چشمکیں ہوتی تھیں، بلکہ ان میں آنکھ کا بھی اشارہ ہو جاتا تھا، چنانچہ مرزا صاحب نے کہا :

آبرو کی آنکھ میں اک گانٹھ ہے

آبرو سب شاعرو ں کی۔۔۔۔۔ ہے

شاہ آبرو نے کہا ہے :

کیا کروں حق کے کئے کو، کور میری چشم ہے

آبرو جگ میں رہے تو جانِ جاناں پشم ہے

شاہ کمال بخاری اس زمانہ میں ایک بزرگ شخص تھے۔ اُن کے بیٹے پیر مکھن تھے۔ اور پاکباز تخلص کرتے تھے، شاہ مبارک کو اُن سے محبت تھی، چنانچہ اکثر شعروں میں اِن کا نام یا کچھ اشارہ ضرور کرتے تھے، دیکھا کیا مزے کا سجع کہا ہے :

عالم ہمہ دوغ است و محمد مکھن

اِن کی علمی استعداد کا حال معلوم نہیں، کلام سے ایسا تراوش ہوتا ہے کہ صرف و نحو عربی کی جانتے تھے اور مسائل علمی سے بے خبر نہ تھے۔

اِن کے شعر جب تک پیر مکھن پاکباز کے کلام سے چپڑے نہ جائیں تب تک مزہ نہ دیں گے، اس لئے پہلے ایک شعر اِن کا ہی لکھتا ہوں، اس زمانہ کے خیالات پر خیال کرو :

مجھے رنج و الم گھیرے ہے نت میرے میاں صاحب

خبر لیتے نہیں کیسے ہو تم؟ میرے میاں صاحب

آیا ہے صبح نیند سے اُٹھ رسمسا ہوا

جامہ گلے میں رات کا پھولوں میں بسا ہوا

کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد

سونا وہ ہے کہ ہووے کسوٹی کسا ہوا

انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں

جو خال اپنے حد سے بڑھا سو مسا ہوا

قامت کا سبھ جگت منیں بالا ہوا ہے نام

قد اس قدر بلند تمھارا رسا ہوا

دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا بہونک سیں

رسّی سیں اژدہا کا ڈرے جوں ڈسا ہوا

اے آبرو اول تو سمجھ پیچ عشق کا

پھر زلف سے نِکل نہ سکے دل پھنسا ہوا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

پلنگ کوں چھوڑ خالی گروسیں اٹھ گئے سجن میتا

چتر کاری لگے کھانے ہمن کو گھر ہوا چیتا

لگائی بینوا کی طرح سیں جب وہ چھڑی تم نے

تج اوروں کو لیا ہے ہاتھ اپنے ایک تو میتا

جُدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہیے

کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھڑی گزری سو جگ بیتا

لگا دل یار سیں تب اس کو کیا کام آبرو ہم سیں

کہ زخمی عشق کا پھر مانگ کر پانی نہیں پیتا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نین سیں نین جب ملائے گیا

دل کے اندر مرے سمائے گیا

نگہِ گرم سیں مرے دل میں

خوش نین آگ سی لگائے گیا

تیرے چلنے کی سن خبر عاشق

یہی کہتا ہوا کہ ہائے گیا

سہو کر بولتا تھا مجھ سیتی

بوجھ کر بات کو چھپائے گیا

آبرو ہجر نہ بیچ مرتا تھا

مُکھ دکھا کر اُسے جلائے گیا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یہ رسم ظالمی کی، دستور ہے کہاں کا

دل چھین کر ہمارا دشمن ہوا ہے جاں کا

ہر یک نگہ میں ہم سے کرنے لگے ہو نوکیں

کچھ یوں تری آنکھوں نے پکڑا ہے طور بانکا

تجھ راہ میں ہوا ہے اب تو رقیب کتا

بُو پائے کر ہمارے آ باندھتا ہے ناں کا

خندوں کے طور گویا دیوارِ قہقہا ہے

پھر  کر پھرے نہ لڑکا جو اس طرف کو جھانکا

رستم دَہَل کے دل میں ڈالے انجھو سو پانی

دیکھے اگر بھواں کی تلوار کا جھماکا

فاسق کے دل پہ ڈالی جب نفسِ بد نے بَرکی

رجواڑے کی گلی کا تب جا غبار پھانکا

سب عاشقوں میں ہم کوں مژدہ ہے آبرو کا

ہے قصد گر تمہارے دل بیچ امتحاں کا

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مت قہر سینی ہاتھ میں لے دل ہمارے کوں

جلتا ہے کیوں پکڑتا ہے ظالم انگارے کوں

ٹک باغ میں شتاب چلو اے بہارِ حُسن

گل چشم ہو رہا ہے تمہارے نظارے کوں

مرتا ہوں ٹک رہی ہے رمق آدرس دکھا

جا کر کہو ہمارے طرف سے پیارے کوں

میں آ پڑا ہوں عشق کے ظالم بھنور کے بیچ

تختہ اوپر چلا دتے ہیں جی کے آئے کوں

اپنا جمال آبرو کوں ٹک دکھاؤ آج

مدت سے آرزو ہے درس کی بچائے کوں

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

رستم اس مرد کی کھاتا ہے قسم زوروں کی

تاب لاوے جو عشق کے جھک جھوروں کی

قدردان حُسن کے کہتے ہیں اُسے دل مُردہ

سانورے چھوڑ کے جو چاہ کرے گوروں کی

گانٹھ کاٹی ہے مرے دل کی تری انکھیاں نے

دو پلک نئیں یہ کترنی ہے مگر چوروں کی

لبِ شیریں پہ سریجن کے نہیں خطِ سیاہ

ڈار چھوٹی ہے مٹھائی پہ شکر خوروں کی

چَلکیں سورج منیں جو خط شعاع کے شعلے

دیکھ آنکھوں منیں یہ لال جھک ڈوروں کی

قادری جبکہ سجی برمیں سجن بونٹہ وار

عقل چکر میں گئی دیکھ کے چھب موروں کی

آبرو کوں نہیں کم ظرف کی صحبت کا داغ

کس کو برداشت ہے ہر وقت کے نکتوروں کی

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

افسوس ہے کہ مجکوں وہ یار بھول جاوے

وہ شوق، وہ محبت، وہ پیار بھول جاوے

رستم تیرے آنکھوں کے ہوئے اگر مقابل

انکھیوں کو دیکھ تیری تلوار بھول جاوے

عارض کے آئینہ پر تمنا کے سبز خط ہے

طوطی اگر جو دیکھے گلزار بھول جاوے

کیا شیخ و کیا برہمن جب عاشقی میں آویں

تسبی کرے فراموش نہ نار بھول جاوے

یوں آبرو بنا دے دل میں ہزار باتاں

جب تیرے آگے آوے گفتار بھول جاوے

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

پانی پت (۱) آج چھوڑ جو گنور تم چلے

تو راہ بیچ جائیو جاناں سنبھال کے

کنجی اُس کی زبانِ شیریں ہے

دل مرا قفل ہے بتاشے (۲) کا

(۱) پانی پت، گنور سنبھالکہ قصبوں کے نام ہیں۔ سنبھالکے کی پُرانی سرائے اب بھی قائم ہے۔ اگلے وقتوں میں یہاں قافلہ لٹتا تھا اور رہزنی اس کی مشہور تھی اور اب بھی استحکام اور وسعت میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔

(۲) چھوٹا سا قفل، مقدار میں بتاشے کے برابر اس سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ بتاشے کا قفل کہلاتا تھا۔

تم نے بجاؤ نے کو جب ہاتھ بیچ نَے لی

مجنوں ہو گئے سب یہ اس طرح کے نَے لی

سجا ہے نرگسی بوٹے کا جامہ

کرے کیونکر نہ مجھ سے چشم پوشی

آبرو کے قتل کو حاضر ہوئے کس کر کمر

خون کرنے کو چلے عاشق کو تہمت باندھ کر

وہ بھواں سے لگے ہیں جس کے نین

وہ کہاتا ہے حاجی الحرمین

عزت ہے جوہری کی، جو قیمتی ہو جوہر

ہے آبرو ہمن کو، جگ میں سخن ہمارا

جہاں اس خو کی گرمی تھی نہ تھی واں آگ کو عزت

مقابل اس کے ہو جاتی تو آتش لکڑیاں کھاتی

اسی انداز میں حافظ عبد الرحمن خاں احسان نے ایک شعر کہا ہے، اور کیا خوب کہا ہے :

دختِ رز سے کہا میخانے میں  شب رندوں نے

آج تو خوب ہی ختکے تری سوکن کو لگے

یعنی بھنگڑ خانے میں بھنگڑوں نے خوب سبزیاں بھونٹیں اور طرے اُڑائے۔ تم بھی یاروں پر نظرِ عنایت کرو۔

مبارک نام تیرے آبرو کا کیوں نہ ہو جگ میں

اثر ہے یو ترے دیدار کی ٖفرخندہ حالی کا

نالہ ہمارے دل کا، غم کو گواہ بس ہے

اپنے تئیں شہادت انگشت آہ بس ہے

تمھارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے

کہاں ہے، کسطرح کی ہے، کدھر ہے ؟

تخلص آبرو برجا ہے میرا

ہمیشہ اشکِ غم سے چشم تر ہے

اس ناتواں کی حالت واں جا کہے ہے اڑ کر

میرا یہ رنگِ رُو ہے گویا مکھی کبوتر

میاں خفا ہیں فقیروں کے حال پر

آتا ہے اُن کو جوش جمالی کمال (۱) پر

(۱) جلالی اور جمالی دو قسم کے اسمائے الٰہی ہیں اور شیخ کمال بخاری ان کے دادا کا نام ہے۔

پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے

وے عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے

خدمتگار خاں بادشاہی خواجہ سرا تھا اور سرکار شاہی میں بڑا صاحبِ اختیار تھا۔ اکثر بادشاہی نوکر اس کی سخت گیری اور بد مزاجی سے دق رہتے تھے، اُنھیں بھی اس سے کام پڑتا تھا، کبھی آسانی سے مطلب نکل آتا تھا کبھی دشواری سے، چنانچہ ایک موقعہ پر یہ شعر کہا :

یاروں خدمتگار خاں خو جوں کے بیچ

ہے تو مستثنیٰ و لیکن منقطع


2013/6/22 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>

نجیب احمد نجیب

Najeeb Ahmed

unread,
Jun 28, 2013, 9:10:39 PM6/28/13
to Aijaz .Shaheen

شیخ شرف الدین مضمون

 

مضمون تخلص، شیخ شرف الدین نام، شیخ فرید الدین شکر گنج کی اولاد میں تھے۔ جاجمئو علاقہ اکبر آباد وطن اصلی تھا۔ دلی میں آ رہے تھے۔ اصل پیشہ سپاہ گری تھا۔ تباہی سلطنت سے ہتھیار کھول کر مضمون باندھنے پر قناعت کی اور زینت المساجد میں ایسے بیٹھے کہ مر کر اُٹھے، اس عالم میں بھی ایک خوش مزاج، با اخلاق، یار باش آدمی تھے، دورِ اول کے استادوں میں شمار ہوتے تھے اور انہی کا انداز تھا کیونکہ رواج یہی تھا اور خاص و عام اسی کو پسند کرتے تھے۔

اس زمانہ کے لوگ کسی قدر منصف اور بے تکلف تھے، باوجودیکہ مضمون سن رسیدہ تھے، اور خان آرزو سے عمر میں بڑے تھے، مگر انھیں غزل دکھاتے اور اصلاح لیتے تھے، نزلہ سے دانت ٹوٹ گئے تھے، اس لئے خان موصوف اُنھیں شاعرِ بیدانہ کہتے تھے۔

مرزا رفیع نے بھی اِن کا عہد پایا تھا، چنانچہ جب انتقال ہوا تو مرزا نے غزل کہی جس کا مطلع و مقطع بھی لکھتا ہوں۔

لئے مے اُٹھ گیا ساقی، مرا بھی پر ہو پیمانہ

الہٰی کس طرح دیکھوں میں اِن آنکھوں سے میخانہ

بنائیں اُٹھ گئیں یارو غزل کے خوب کہنے کی

گیا مضمون دنیا سے رہا سودا سو مستانہ

اور اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس صاحبِ کمال نے زمانہ کے دل میں کیا اثر پیدا کیا تھا۔

ہائے ولی خدا تجھے بہشت نصیب کرے، کیسے کیسے لوگ تیری خاک سے اُٹھے اور خاک میں مل گئے، استاد مرحوم نے ایک دن فرمایا کہ شیخ مضمون کے زمانہ میں کوئی امیر باہر سے محل میں آئے اور پلنگ پر لیٹ گئے، ایک بڑھیا ماما نئی نوکر ہوئی تھی وہ حقہ بھر کر لائی اور سامنے رکھا، نواب صاحب کی زبان پر اُس وقت مضمون کا یہ شعر تھا :

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا

صبر ایوب کیا، گریہ یعقوب کیا

ماما سُن کر بولی، الٰہی تیری امان، اس گھر میں تو آپ ہی پیغمبری وقت پڑ رہا ہے، بیچارے نوکروں پر کیا گزرے گی۔ چلو بابا یہاں سے۔ (دلی میں غریب مفلس فقیر کسی سے سوال کیا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے عیالدار ہیں مفلس ہیں، ہم پہ پیغمبری وقت پڑا ہے۔ لللہ کچھ دو اور اصل اس کی یہ تھی کہ جس پر سخت مصیبت پڑتی ہے وہ زیادہ خدا کا پیارا ہوتا ہے اور چونکہ پیغمبر سب سے زیادہ خدا کے پیارے ہیں اس لئے ان پر زیادہ مصیبتیں پڑتی ہیں۔ جو مصیبتیں پیغمبروں پر پڑی ہیں وہ دوسرے پر نہیں پڑیں۔ رفتہ رفتہ پیغمبری وقت اور پیغمبری مصیبت کے معنی سخت مصیبت کے ہو گئے۔ دیکھو ایسی ایسی باتیں اس زمانہ میں کس قدر عام تھیں کہ بڑھیا اور مامائیں اُن سے نکتے اور لطیفے پیدا کرتی تھیں۔ اب اللہ اللہ ہے۔)

تعجب یہ ہے کہ اس مضمون کو مخلص کاشی نے بھی باندھا ہے :

در فراقِ توچہا اے بُتِ خبوب کنم

صبر ایوب کنم گریہ یعقوب کنم

کرے ہے دار کو کامل بھی سرتاج

ہوا منصور سے نکتہ یہ حل آج

(حل اور علاج میں صنعت تجنیس مرکب رکھی ہے۔)

خط آ گیا ہے اس کے، مری ہے سفید ریش

کرتا ہے اب تلک بھی وہ ملنے میں شام صبح

کریں کیوں نہ شکر لبوں کو مرید

کہ دادا ہمارا ہے بابا فرید

(شادی کی ریت رسموں میں بابا فرید کا پڑا، عورتوں کی شرع کا ایک واجب مسئلہ ہے، مزا یہ ہے کہ اس میں شکر ہی ہو اور مٹھائی جائز نہیں۔)

ہنسی تیری پیارے پھلجڑی ہے

یہی غنچہ کے دل میں گلجھڑی ہے

میکدہ میں گر سراپا فعلِ نامعقول ہے

مدرسہ دیکھا تو واں بھی فاعل و مفعول ہے

تیرِ مژگاں برستے ہیں مجھ پر

آبِ پیکاں کا اس طرف ہے نڈھال


2013/6/23 Najeeb Ahmed <najee...@gmail.com>
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages