ایک محفل کی تین طلاق

677 views
Skip to first unread message

Humayun Rasheed

unread,
Jul 23, 2014, 3:08:44 PM7/23/14
to bazmeqalam
السلام علیکم،
اہلیان بزم، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ تین طلاق کے مسئلے میں ناچیز پہلے بھی تفصیل بیان کر چکا ہے۔ وہی موضوع ڈھونڈ کر پیش کر رھا ہوں دوبارہ دیکھ لیں۔
یاد رکھیں کہ تین طلاقیں خواہ ایک ہی محفل میں ہوں واقع ہو جاتی ہیں۔ اب یہ عورت اس مرد پر حرام ہے، اس حرام کو حلال کا فتوی دینے والے بھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور مرد تو حرام میں مبتلا ہو ہی گیا۔ جہاں تک حلالہ کی بات ہے تو حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کہی ہے۔ اس بات کو ایسے سمجھیں کہ کہ ایک آدمی کے تین مکان ہوں اور وہ غصے میں کسی دوسرے کے نام لگا دے۔ پھر اول تو وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ میرے پاس اختیار تو تین مکانوں کا تھا لیکن ایک محفل میں ایک ہی لگ سکتا ہے، معلوم نہیں طلاق مے معاملے میں یہ منطق کہاں چلی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر بعد میں رشوت دے کر یعنی حلالے کی طرح حرام کام کر کے مکان اپنے ہی نام رہنے دے یا یہ کہ کاغذ پھاڑ کے ثبوت غائب کر دے تو یہی کہا جائے گا کہ حرام کام کیا۔ پس حلالہ کرنے والے حرام کام کرتے ہیں لیکن اس سے ایک محفل کی تین طاقوں کے بعد حرام کو حلال نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالٰی سب کو عقل اور سمجھ دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم حصوصا خلفاء اربعہ رضی اللہ عنھم کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مع السلام،
ہمایوں رشید۔
---------- Forwarded message ----------
From: مهتا ب قدر <mahta...@gmail.com>
Date: 2013-05-11 19:51 GMT+03:00
Subject: Re: {23224} جدہ میں سیمینار - طلاق آسان اور خلع مشکل کیوں؟ اسکا حل ک یا ہے؟
To: "bazme...@googlegroups.com" <BAZMe...@googlegroups.com>


وعلیکم السلام و رحمہ جزاک اللہ خیر جناب ہمایوں صاحب آپ نے حوالوں کے ساتھ بات واضح فرمادی ، جیسا کہ  پہلے عرض کر چکا ہوں یہ میرا مسئلہ نہیں علما کا میدان ہے آپ نے تفصیلات درج فرماکر علما سے مزید تحقیق کو آسان فرمادیا۔ ویسے ایک بات عمومی طور پر اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ بھائی تم گولیاں تو تین چلاو اوت گنو ایک کیا کرشمہ ہے ایک گولی کے بجائے تین داغ دیں اور کہتے ہو کہ ایک ہی لگی ۔ جزاک اللہ خیر

  مہتاب قدر
Mahtab Qadr
 
  میں جہاں بھی رہوں سفر میں ہوں  
  میرا  اصلی   وطن   مدینہ    ہے


2013/5/11 Humayun Rasheed <rana.humay...@gmail.com>
السلام علیکم
مخلص صاحب نے ٹھیک فرمایا کہ اِس میں دو مکتبہ فکر ہیں۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایک ہی مجلس کی تین طلاق سے تین واقع ہو جاتی ہیں اور اہل تشیع کے ھاں ایک ہی ہوتی ہے۔ علماء نے اِس فرق کی تصریح کی ہے‘ یہاں ایک حوالہ پیش ہے۔ مشہور عالم اور فقیہ شمس الأئمة محمد بن أحمد السرخسي (وفات ٤٩٠ ھ) نے اپنی کتاب المبسوط میں اِس کی تصریح کی ہے؛
وهذه المسألة مختلف فيها بيننا وبين الشيعة على فصلين ( أحدهما ) ۔۔۔ ( والثاني ) أنه إذا طلقها ثلاثا جملة يقع ثلاثا عندنا والزيدية من الشيعة يقولون تقع واحدة والإمامية يقولون لا يقع شيء ويزعمون أنه قول علي كرم الله وجهه۔  باب الرد على من قال إذا طلق لغير السنة لا يقع۔
اور اِس مسئلے (یعنی طلاق دینے کے طریقے) میں ہمارے اور شیعہ کے درمیان اختلاف ہے (پہلا اختلاف) ۔۔۔ (دوسرا) یہ کہ اگر ایک ہی لفظ یا جملے میں تین طلاقیں دے دِیں تو ہمارے ھاں تو تین ہی ہوئیں‘ اور زیدی شیعہ کے ھاں ایک ہی ہوئی اور اِمامیہ (اِثنا عَشَری) کے ھاں طلاق ہی نہیں ہوئی (شائد اِس لئے کہ گناہ کا کام کیا اور گناہ پر کوئی شرعی حکم مرتب نہیں ہوتا واللہ اعلم) اور گمان کرتے ہیں کہ یہ علی کرم اللہ وجہہ کا کہنا ہے۔

میرا مقصد کسی مسلکی بحث کو شروع کرنا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی بات یہاں کرنی ہی نہیں چاہئے‘ لیکن جب کسی نے بات کر دی تو اِسے واضح کرنا ضروری ہے کیونکہ التباس ہو رھا ہے۔ اُمید ہے کہ حضرات آئندہ ایسی بات نہیں کریں گے جس میں تفصیل ہو۔ یہ فورم فقہی بحث کیلئے نہیں بنا‘ اِس لئے اہل سنت والجماعت کے مختلف ادوار میں دئیے گئے فتاوی میں سے چند پیش خدمت ہیں تاکہ کسی کو شک اور شبہ نہ رہے‘ باقی تفصیل کسی عالم کے پاس جا کر پوچھی جا سکتی ہے۔ میں بار بار اہل سنت والجماعت کا نام اِس لئے لے رھا ہوں کہ حرام حال کا مسئلہ ہے کسی کو دھوکہ نہ ہو کہ کس بارے میں بات کر رھا ہوں۔

امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ أبو بكر عبد الرزاق الصنعاني‘ ولادت ١٢٦ ھ‘ نے اپنی مصنف میں باب باندھا ہے “باب المطلق ثلاثا“ اور صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین (جو کہ سنت اور حلال حرام کو ہم سے زیادہ جاننے والے تھے) کے فتاوی ذکر کئے۔
عن معمر عن الأعمش عن إبراهيم عن علقمة قال جاء رجل إلى ابن مسعود فقال إني طلقت امرأتي تسعة وتسعين وإني سألت فقيل لي قد بانت مني فقال ابن مسعود لقد أحبوا أن يفرقوا بينك وبينها قال فما تقول رحمك الله فظن أنه سيرخص له فقال  ثلاث تبينها منك وسائرها عدوان۔ عن معمر عن الزهري عن سالم عن ابن عمر قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصى ربه۔ عن معمر قال أخبرني ابن طاوس عن أبيه قال كان ابن عباس إذا سئل عن رجل يطلق امرأته ثلاثا قال لو اتقيت الله جعل لك مخرجا، ولا يزيده على ذلك۔ عن معمر عن أيوب عن مجاهد قال سئل ابن عباس عن رجل طلق امرأته عدد النجوم قال إنما يكفيه من ذلك رأس الجوزاء۔ عن ابن جريج قال أخبرني عبد الحميد بن رافع عن عطاء بعد وفاته أن رجلا قال لابن عباس رجل طلق امرأته مئة فقال ابن عباس يأخذ من ذلك ثلاثا ويدع سبعا وتسعين۔ عن ابن جريج قال قال مجاهد عن ابن عباس قال قال له رجل يا أبا عباس طلقت امرأتي ثلاثا فقال ابن عباس يا أبا عباس يطلق أحدكم فيستحمق، ثم يقول يا أبا عباس عصيت ربك وفارقت امرأتك۔ عن الثوري عن عمرو بن مرة عن سعيد بن جبير قال جاء ابن عباس رجل فقال طلقت امرأتي ألفا، فقال ابن عباس ثلاث تحرمها عليك وبقيتها عليك وزرا اتخذت آيات الله هزوا۔
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے اپنی بیوی کو ننانوے طلاقیں دے دی ہیں‘ میں نے (لوگوں سے) پوچھا تو کہتے ہیں کہ وہ علیحدہ ہو گئی‘ ابن مسعود نے کہا کہ لوگ یہ بات پسند کرتے ہیں کہ تُم میں اور اُس میں علیحدگی ہو جائے‘ (اُس آدمی نے) کہا آپ پر اللہ رحم کرے آپ کیا کہتے ہیں؟ پس اُس نے گمان کیا کہ شائد ابن مسعود کوئی آسانی کا راستہ نکالیں گے (مثلا یہی کہ ایک مجلس میں دی گئی ساری ایک ہیں) پس کہا (ابن مسعود نے) تین سے وہ علیحدہ ہو گئی باقی تو تم نے دشمنی کی ہے (اللہ کے حکم سے کہ تمہیں تین سے زیادہ کا اختیار ہی نہیں تھا اور فائدہ بھی نہیں تھا)۔ ابن عمر رضی اللہ کے بیٹے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو طلاق ہو گئی لیکن اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی (کیونکہ ایک دینی چاہئے تھی)۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میرے والد نے بتایا کہ جب ابن عباس سے پوچھا جاتا کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو کہتے اگر تقوی اختیار کرتا تو اللہ رستہ بھی دکھا دیتا (کیونکہ ایک طلاق کے بعد رجوع ہو سکتا ہے تین کے بعد نہیں‘ بس خود رستہ بند کیا)‘ اور اِس سے زائد کچھ نہ کہتے۔ مجاھد کہتے ہیں کہ ابن عباس سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا کہ اُس نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاقیں دے دیں‘ تو ابن عباس نے جواب دیا اُسے تو جوزا کا سر ہی کافی تھا (یعنی ستاروں کے ایک خاص جھرمٹ کے سرے پر موجود تین ستارے)۔ عطاء کہتے ہیں کہ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں‘ تو کہنے لگے تین تو اِس کی ہیں باقی ستانوے کو چھوڑ دے۔ مجاھد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے ابو عباس میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں‘ پس کہا ابن عباس نے (خود کلامی کرتے ہوئے) اے ابو عباس ایک آدمی طلاق کی حماقت کرتا ہے پھر کہتا ہے اے ابو عباس‘ (پھر آدمی کی طرف جواب دیا) تُو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے علیحدہ ہو گئی۔ سعید بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ابن عباس کے پاس آیا اور کہا میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دی ہیں‘ کہا ابن عباس نے کہ وہ تو تین سے ہی تجھ پر حرام ہو گئی باقی تُم پر بھار ہیں (کیونکہ) تو نے اللہ کی بات کا مذاق اُڑایا (یعنی زیادہ سے زیادہ تو تین تھیں تم نے ہزار کیوں دِیں)۔

پس معلوم ہوا کہ لوگ ایک ہی بار طلاق دے کر آتے اور فتوی لیتے تو اُنہیں یہی کہا جاتا کہ تین سے کام ہو گیا۔ اگر ایک محفل کی شرط ہوتی تو ضرور کہتے کہ بھئی پریشان کیوں ہو ایک ہی محفل میں دی ہے تو ایک ہی ہوئی رجوع کر لو۔

أبو الوليد محمد بن أحمد بن رشد المالکی‘ ولادت ٥٢٠ ھ‘ کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ خلافت کے قاضی القضاة تھے اہل سنت والجماعت کے تمام مسالک پر اپنے دور کے سب سے بڑے عالم تھے‘ اور آج بھی اگر تقابل مذاھب پر بات ہوتی ہے تو اِن کی بات کو مانا جاتا ہے۔ اپنی کتاب “بداية المجتهد“ جو کہ صرف اِس لئے لکھی کہ فقہاء کے اختلافات کو ذکر کریں‘ صاف لکھتے ہیں؛
جمهور فقهاء الأمصار على أن الطلاق بلفظ الثلاث حكمه حكم الطلقة الثالثة۔ الباب الأول في معرفة الطلاق البائن والرجعي۔
تمام شہروں کے فقہاء کا کہنا ہے کہ ایک لفظ میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔

موفق الدين ابن قدامة المقدسي الحنبلي‘ ولادت ٥٤١ ھ‘ جو کہ فقہ حنبلی میں سند مانے جاتے ہیں۔ اپنی کتاب “المغني “ جو کہ انہوں نے فقہاء کے مسالک بیان کرنے اور تقابل کیلئے لکھی‘ میں فرماتے ہیں؛
وإن طلق ثلاثا بكلمة واحدة  وقع الثلاث وحرمت عليه حتى تنكح زوجا غيره ولا فرق بين قبل الدخول وبعده روي ذلك عن ابن عباس وأبي هريرة وابن عمر وعبد الله بن عمرو وابن مسعود وأنس وهو قول أكثر أهل العلم من التابعين والأئمة بعدهم۔ فصل طلق ثلاثا بكلمة واحدة۔
اگر ایک ہی کلمہ سے تین طلاقیں دے دیں تو تین واقع ہو گئیں اور عورت اِس پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کر لے (اور وہ شوہر بھی فوت ہو جائے یا طلاق دے دے) اور فرق نہیں ہے کہ طلاق رخصتی سے پہلے دی یا بعد۔ یہی روایت کیا گیا ہے ابن عباس‘ ابو ھریرہ‘ ابن عمر‘ ابن عمرو‘ ابن مسعود اور انس رضی اللہ عنھم سے‘ اور یہی کہنا ہے اکثر تابعین اور آئمہ کا۔

علي بن سليمان المرداوي الدمشقي الحنبلي‘ ولادت ٨١٧ ھ‘ اپنی کتاب “الإنصاف“ میں جو کہ فقہاء کے اختلافات لکھنے کیلئے تحریر کی گئی فرماتے ہیں؛
وإن طلقها ثلاثا مجموعة قبل رجعة واحدة طلقت ثلاثا وإن لم ينوها على الصحيح من المذهب نص عليه مرارا وعليه الأصحاب بل الأئمة الأربعة وأصحابهم في الجملة۔ باب سنة الطلاق وبدعته۔
اور اگر تین طلاقیں دے دیں اکٹھی پہلی سے رجوع کئے بغیر تو تین ہی ہو گئیں اگرچہ نیت نہ کی ہو‘ یہی ہمارے مسلک (حنبلی) کا صحیح ترین قول ہے‘ اور اِس پر دلیل کئی بار گزر چکی‘ اور اِسی پر قائم ہیں اصحاب بلکہ چاروں آئمہ بالجملہ۔

جلال الدين السيوطي الشافعی‘ ولادت ٩١١ ھ‘ جو کہ کسی تعارف کے محتاج نہیں “الحاوي للفتاوي“ میں ایک مسئلے میں فرماتے ہیں؛
مسألة: رجل طلق امرأته واحدة ثم خرج من عندها فلقيه شخص فقال ما فعلت بزوجتك؟ قال طلقتها سبعين فهل يقع عليه الثلاث؟ الجواب: نعم يقع عليه الثلاث مؤاخذة بإقراره۔ كتاب الصداق - باب الطلاق - مسائل متفرقة۔
مسئلہ؛ آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی پھر گھر سے نکلا اور رستے میں ایک آدمی ملا‘ پوچھا اپنی بیوی سے کیا کیا؟ اس نے کہا ستر طلاقیں دے دیں‘ پس کیا تین طلاقیں ہو گئیں؟ جواب؛ جی ھاں اُس پر تین ہو گئیں اُس کے اپنے اقرار کی وجہ سے۔ 

زين الدين أبو السَّعادات منصور بن يونس البهوتي المصری‘ ولادت ١٠٠٠ ھ‘ زیادہ پرانے نہیں ہیں‘ اپنی کتاب “كشاف القناع“ میں فرماتے ہیں؛
( وإن طلقها ) أي طلق رجل زوجته ( ثلاثا بكلمة ) حرمت نصا ووقعت ويروى ذلك عن عمر وعلي وابن مسعود وابن عباس وابن عمر۔ باب سنة الطلاق وبدعته۔
(اور اگر اُسے طلاق دی) یعنی آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی (تین ایک ہی کلمے سے) تو عورت حرام ہو گئی واضح دلیل کی وجہ سے‘ اور یہی مروی ہے عمر‘ علی‘ ابن مسعود‘ ابن عباس اور ابن عمر سے۔


اوپر مذکور حوالے جان بوجھ کر مختلف مکتبہ ھائے فکر سے لئے گئے حنفی‘ حنبلی‘ مالکی اور شافعی تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ کسی ایک مسلک کا کہنا ہے۔
اور اجماع کسے کہیں گے جبکہ باہمی سیکڑوں اختلافات کے باوجود تمام لوگ اِس مسئلے میں ایک ہی بات کر رہے ہیں۔

جہاں تک لفظی استدلال کی بات ہے تو بڑی عجیب بات کی موصوف نے کہ تین کو ایک مان لیا جائے‘ گویا ایک محفل میں دئیے گئے تین روپے ایک ہو گئے‘ ایک محل میں مارے گئے تین جوتے ایک ہو گئے‘ سبحان اللہ۔

جہاں تک قرآن اور حدیث سے استدلال کا تعلق ہے کہ اہل سنت والجماعت اور شیعہ میں اختلاف کیوں‘ یا بعض اوقات اہل سنت والجماعت کے ہی کسی عالم نے جمہور امت کے خلاف غلطی سے فتوی دیا‘ تو اس کیلئے کسی عالم کے پاس جا کر تفصیل سے بات کرنی چاہئے۔ یہ جگہ اِس کام کیلئے موزوں نہیں ہے‘ بس اِتنا جان لیں کہ اگر آپ کا تعلق اہل سنت والجماعت سے ہے تو ایک ہی مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہوں گی‘ بیوی آپ پر حرام ہو گئی‘ حلالہ کرنا حرام ہے‘ پہلے ہوش میں رہنا تھا۔
باقی مسالک کے لوگ اپنے اعتماد کے دانشوروں سے پوچھ کر عمل کریں۔

مع السلام
ہمایوں رشید۔


2013/5/11 Syed Raheem <syedrah...@gmail.com>

بات اختلاف کی بھی ہے اور استدلال کی بھی اور یہ مسئلہ یعنی تین طلاق کا ایک شمار کرنا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ چند برسوں پہلے وجود میں آیا بلکہ یہ سلسلہ صحابہ کے دور تک دراز ہیں اور فریقین کی اپنے اپنے دلائل ہیں مندرجہ ذیل لنک دیکھئے سعودی عرب کی اسلامی تحقیقی ادارے نے اس پر کافی مدلل بحث کی ہے اور فریقین کے استدلال اور جواب استدلال کا احاطہ کیا ہے  ملاحظہ ہو مجلۃ البحوث الاسلامیۃ العدد الثالث (یہ بحث عربی میں ہے اور اس کا کچھ حصہ دار العلوم دیوبند سے اردو میں نشر ہوا ہے

http://www.alifta.net/Fatawa/FatawaChapters.aspx?View=Tree&NodeID=498&PageNo=1&BookID=2

 

 

سید رحیم عمری

 


From: BAZMe...@googlegroups.com [mailto:BAZMe...@googlegroups.com] On Behalf Of aapka Mukhlis
Sent: 10 May 2013 21:33
To: BAZMe...@googlegroups.com
Subject: Re: {23186}
جدہ میں سیمینار - طلاق آسان اور خلع مشکل کیوں؟ اسکا حل کیا ہے؟

 

عورتوں کے مزاج کی وجہ سے خلع کا طریقہ مشکل رکھا گیا ہے

کیونکہ عورتیں بہت جذباتی ہوتی ہیں

بہت جلد بے انتہا غصے میں آجاتی ہیں

اسی وجہ سے جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی کہ

اگر شوہر ہمیشہ اس کی خواہشات پوری کرتا رہے

لیکن اگر ایک بار نہ کرے تو عورت یہ کہتی ہے کہ میں نے تجھ سے کبھی خوشی نہیں پائی

اگر خلع بھی اس طرح آسان ہوتی تو نصف سے زیادہ شادیاں ٹوٹ چکی ہوتیں

رہی طلاق کی بات

تو وہ بھی اتنی آسان نہیں ہے

لیکن اس میں فقہی اختلاف پایا جاتا ہے

ایک مکتب فکرایک ہی مجلس میں تین بار طلاق کہ دینے کو تین حتمی طلاق مانتا ہے

ا  یک مکتب فکر کے مطابق شرعی طور پر بھی اور زبان کے اصولوں کے مطابق بھی اور منطقی طور پر یہ ایک ہی طلاق نافذ ہوتی ہے

چاہے ایک مجلس میں کتنی بار بھی کہا جائے

کہ تین بار کہنے کے باوجود بھی عملی طور پر تو ایک ہی بار چھوڑا ہے۔

 


From: Tanwir Phool <tan...@gmail.com>
To: BAZMe...@googlegroups.com
Sent: Friday, May 10, 2013 12:46 AM
Subject: Re: {23160}
جدہ میں سیمینار - طلاق آسان اور خلع مشکل کیوں؟ اسکا حل کیا ہے؟

 

Humayun Sb

YahaaN naam nihaad aa'lim ki baat ho rahi hai

jo foran talaaq naafiz honay kaa fatwaa de deta

hai , phir paisay le kar Halaalaa karta hai.Keya

aap aiesoN ko durust samajhtay haiN?Wassalam.

 

2013/5/9 Humayun Rasheed <rana.humay...@gmail.com>

پهول ضاحب، بات یہ ہے کہ جب فورمز پہ مسئلہ بیان کرنے کی بجائے علماء اور فقہاء کو برا بهلا کہا جائے گا تو تو یہی نتیجه نکلے گا کہ نہ طلاق کی شناعت معلوم ہو گی نہ حلالے کی حرمت. اور یہ اللہ کا عذاب ہے کہ لوگ برے کاموں میں پڑ جائیں اور سمجهانے والوں کو بهی برا بهلا کہتے رہیں.مع السلام. ہمایوں.

Sent from Gmail on Galaxy Note 10.1

On May 9, 2013 11:03 PM, "Tanwir Phool" <tan...@gmail.com> wrote:

محترم  علیم فلکی صاحب

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

یہ ہمارے فقہا کا کرشمہ ہے کہ طلاق کا عمل آسان

نظر آتا ہے  ورنہ سورہ طلاق اور سورہ بقرہ میں

تفصیل موجود ہے شرط یہ ہے کہ ہم اندھی تقلید سے

گریز کریں طلاق کو آسان بنانے کے بعد اس کا حل

نکالنے کے لئے حلالہ کا جو طریقہ اپنایا جاتا ہے

وہ ناجائز ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے

 

2013/5/9 Jawed Akhtar <jawe...@gmail.com>

محترمی ! تسلیم 

آپنے بھت اچھا موصوع اٹھا یا ھے ۔ مبارکباد

 

جاوید اختر

دھلی

 

2013/5/9 aleem khan <aleem...@yahoo.com>

السلام علیکم

 مسلمان معاشرے میں آج طلاق جتنی آسان ہوگئی ہے خلع اتنی ہی مشکل ہوگئی ہے ۔ اگرچہ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق دیئے ہیں لیکن اسلامی قانون کی پدر شاہی تعبیر نے  آج عورت کو بغاوت پر مجبور کردیا ہے۔ صحیح اسلامی تعلیمات، مسلم پرسنل لا اور ہندوستانی دستور کی روشنی میں ایک اہم گفتگو میں شرکت کی درخواست ہے۔ 

 

 

 

Seminar Organized by SocioReforms Society, on

 

   Why Talaq easy and Khula impossible

    in Muslim Society? What is the solution?

 

Speakers: Advocate Osman Shaheed

Prosecutor General AP High Court and 

Aleem Khan Falaki

 

Friday, 10th May, 2pm Imdtly after Friday prayer

             At: Shadaab Hall, Azizia, Jeddah

 

Ladies are most welcome as the issues to be discussed are mostly concerned with the the women. Ladies are requested to avoid bringing the children below 10 years. 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "
بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "
بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "
بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "
بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "
بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

--
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM?hl=ur.
 
 

Zubair H Shaikh

unread,
Jul 23, 2014, 4:48:30 PM7/23/14
to BAZMe...@googlegroups.com
وعلیکم السلام و رحمتہ الله و برکاتہ، 
اس بحث میں تمام محترمین نے اخلاص کا مظاہرہ کیا ہے، الله تعالی جزائے خیر دے-  اس خاکسار کے علم و مطالعہ میں ایک عرصہ یہ موضوع رہا کیونکہ ایک جان پہچان کے صاحب اور انکے اہل و عیال اس مسئلہ میں یوں الجھے کہ کبھی نکل نہ سکے، اور یہی نہیں کہ دونوں میاں بیوی کی دنیا اور آخرت داؤ پر لگ گئی بلکہ اولاد اور عزیز و اقارب بھی تکلیف کے دور سے گزرتے رہے،  پھر دین سے اور بھی دور ہوتے چلے گئے......مسئلہ اس لئے بھی پیچیدہ ہوگیا تھا کہ شوہر و بیوی دو مختلف مسلک اور مکتب فکر کے ماننے والے تھے، خاوند سنی اور زوجہ کا تعلق اہل تشیع سے تھا-  دور جدید میں جسطرح معاشرہ تغیر اور ترقی پذیر ہورہا ہے اور جس رفتار اور تعداد کے ساتھ امت کی ایک اچھی خاصی تعداد مختلف ممالک میں اس قسم کے ازدواجی بندھن میں بندھ رہی ہے، انہیں میں یہ میاں اور بیوی بھی شمار ہوتے تھے..... ایسے طبقہ میں زیادہ تر تعلیمیافتہ حضرات ہوتے ہیں جو دین کو جمعہ اور عیدین تک محدود رکھتے ہیں اور صرف طلاق کی صورت میں انہیں دین اور علمائے دین اور مفتیان کرام یاد آتے ہیں.. لیکن دین چونکہ ایسے کسی بھی حضرات کو دین سے عاق نہیں کرتا اس لئے مسئلہ کا حل تو دین کے حوالے سے ہی انہیں ملنا چاہیے، خاصکر جبکہ انہیں یہ حل ملکی قوانین اور نظام سے ملنے کے امکانات نہیں ہوتے، یا وہ خود ایسی کو ئی توقع نہیں کرتے، یا ان میں انکا مفاد نظر نہیں آتا..... خیر جو بھی ہو، اس تیز رفتار اور تغیر پذیر معاشرے کو اگر مستقبل کے وسیع پس منظر میں دیکھیں تو ایسے معاملات کا اوسط بہت زیادہ ہونے کے امکانات نظرآتے ہیں جہاں نکاح مسلکی اتحاد کا با عث نظر آئیگا اور طلاق مسلکی تصادم کا باعث بن جائیگی......اور چونکہ بنیادی ایمان اور امت کا اجمالی اعتقاد و اتحاد اس کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس حل کو تلاش کرنے پر ضروری بحث و مباحثہ ہوں اور چو طرفہ علمائے کرام اور مفتیان کرام تک یہ مسائل پہنچنے، پھر چاہے جس کسی بھی ذرائع سے پہنچے.....ورنہ ایسے مسئلوں میں الجھے ہوئے حضرات کو نکاح اور شادی کی مسرتوں میں اور تہذیب جدیدہ کی آنکھیں خیرہ کر دینے والی روشنیوں میں تین کیا ایک  طلاق کا بھی گمان نہیں ہوتا .. یہی کثیر تعداد اس مسئلہ کا مناسب حل نہ ملنے پر مستقبل قریب میں دین و امت کو مختلف فتنوں میں مبتلا کرنے کا با عث بھی بنے گی -امت مسلمہ کی بے حد قلیل تعداد چونکہ تقوی کے معیار پر پوری اترتی ہے اور اول تو ان میں ایسے مسئلے در پیش ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں لیکن اگر مسئلہ در پیش ہو بھی جاتا ہے تو ان کے لئے دین کا ہر ایک حل قابل قبول ہوتا ہے، لیکن اول الذکر حضرات کی کثیر تعداد کے لئے بہر حال حل تو درکار ہے.... اس خاکسار طالب علم نے اسی وجہ سے پچھلی بحث میں، جو "ثنا خوان مشرق ....." عنوان کے تحت کی گئی تھی، اپنی حقیر تجویز پیش کی تھی، جو ہو سکتا ہے بحث کے مرکزی نقطہ نظر سے ہٹ کر کی گئی ہو لیکن اس تجویز سے کچھ اور یا بہتر حل سامنے نظر آ سکتے ہیں - واللہ ھو عالم بالصواب... باقی علمائے دین بہتر سمجھ سکتے ہیں.. 

خاکسار 
زبیر     









Sabir Rahbar

unread,
Jul 24, 2014, 5:53:37 AM7/24/14
to BAZMe...@googlegroups.com
 طلاق لغت میں چھوڑ دینے اور جدائی اختیار کرنے کو کہتے ہیں اصطلاح شرع میں مرد کا عورت کو مخصوص الفاظ کے ذریعہ قید نکاح سے رہا کر دینا ہے۔
طلاق دینے کا حق شوہر کو حاصل ہے، وہ اپنے حق میں با اختیار ہے کہ معقول اسباب کی بنا پر اپنا اختیار استعمال کرے اور اپنی منکوحہ سے دست بردار ہو جائے، لیکن اسلام طلاق کو ناپسند فرماتا ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَى اللهِ الطَّلَاقُ.(۱)
اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث میں رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مَا اَحَلَّ اللهُ شَيْئًا اَبْغَضَ اِلَيْهِ مِنَ الطَّلَاقِ.‘‘(۲)
اللہ نے جو چیزیں حلال کی ہیں ان میں سب سے نا پسندیدہ اس کے نزدیک طلاق ہے۔
ایک اور ارشادِ نبوی ہے:
’’تَزَوَّجُوْ وَلَا تُطَلِّقُوْا فَاِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الذَّوَّاقِيْنَ وَالذَّوَّاقَات.‘‘ (۳)
شادیاں کرو اور طلاق نہ دو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ مزہ چکھنے والوں اور مزہ چکھنے والیوں کو محبوب نہیں رکھتا۔
اگر نکاح اور طلاق کا مقصد صرف اتنا ہے کہ خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل ہو تو اسلام ہرگز ایسے نکاح کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، پھر میاں بیوی کے درمیان علاحدگی طلاق کے ذریعہ ہو یا خلع کے ذریعہ دونوں صورتیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور مبغوض ہیں۔
رسولِ کائنات ﷺ نے عورتوں کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا:
’’ايما امراة سئلت زوجھا طلاقا في غير ما باس فحرام عليھا رائحة الجنة.‘‘(۴)
جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
اس ارشادِ رسول کی روشنی میں پتا چلا کہ بغیر کسی وجہ شرعی کے طلاق دینا اور عورت کا طلاق طلب کرنا اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اسلام نے مرد کو طلاق دینے کی آزادی دی ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ طلاق کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار نہ ہو۔ اس سلسلے میں قرآن مجید نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر بیوی پسند نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کے ساتھ نباہ کی کوشش کی جائے۔ ربِ کریم کا ارشاد ہے:
’’وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْئًا وَّ يَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا.(۵)
اور ان سے اچھا برتاؤ کرو، پھر اگر وہ تمھیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمھیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(کنز الایمان)
مذکورہ آیت سے یہ سبق ملا کہ اگر بیوی بد خلق ہو یا قبول صورت نہ ہو تو طلاق دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، ممکن ہے کہ خالقِ کائنات اسی بیوی سے لائق اور نیک اولاد بخشے جو دنیا اور عقبیٰ کی بھلائی کا سبب بنے۔
شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کی اصلاح کے لیے کوئی معتدل راہ اختیار کرے اور اس کے ساتھ محبت و الفت سے پیش آئے، اصلاح کی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی موثر صورت نظر نہ آئے تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے، لیکن ایک ہی ساتھ تینوں طلاق نہ دے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے والے پر رسول اللہ ﷺ غضب ناک ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے:
’’ عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لُبَيْدٍ قَالَ اُخبِر رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّم. عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَاته ثلث تَطليقَاتٍ جَمِيْعًا فَقَامَ غَضَبَانَ ثُمَّ قَالَ اَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَاَنَا بَيْنَ اَظْهُرِكُمْ حَتّٰى قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ اَلَا اَقْتُلُه.‘‘(۶)
محمود ابن لبید سے مروی ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں، تو آپ غضب ناک ہو کر کھڑے ہو گئے، پھر ارشاد فرمایا کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے، جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، یہاں تک کہ ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا، یا رسول اللہ کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا شریعت کے خلاف ہے اور شریعت کی اس خلاف ورزی کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کے ساتھ بسا اوقات بہت ساری دنیاوی دشواریوں اور رسوائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے قانون پر عمل کریں تو اللہ و رسول کی گرفت اور دنیاوی رسوائیوں سے بچ سکتے ہیں۔
طلاق کی قسمیں:
 اب ہم ذیل کی سطروں میں طلاق کے تعلق سے کچھ بنیادی اور ضروری تفصیلات پیش کرتے ہیں:
طلاق جس طرح بھی دی جائے واقع ہو جائے گی، مگر اسلامی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ یہ تفریق اور جدائی بھی بہتر طریقے سے ہو۔ طلاق دینے کی بعض صورتیں پسندیدہ اور بعض ناپسندیدہ ہیں۔ اس لحاظ سے فقہاے اسلام نے طلاق کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں - طلاق اَحسن، طلاقِ حسن، طلاقِ بدعی۔
طلاق اَحسن:
 جن ایام میں عورت ماہ واری سے پاک ہو اور اس سے مقاربت (ہم بستری) بھی نہ کی گئی ہو، ان ایام میں صرف ایک طلاق دی جائے۔ اس میں دورانِ عدت مرد کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد عورت بائنہ ہو جاتی ہے۔ یعنی اپنے شوہر سے مکمل طور پر علاحدہ ہو جاتی ہے، اب وہ جس سے چاہے نکاح کرے اور اگر اسی شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو فریقین کی رضا مندی سے دوبارہ بغیر حلالہ کے نکاح ہو سکتا ہے۔
طلاقِ حسن:
 جن ایام میں عورت پاک ہو اور مقاربت بھی نہ کی ہو، ان ایام میں ایک طلاق دی جائے، اور ایک ماہواری گزر جائے تو بغیر مقاربت کے دوسری طلاق دی جائے، اور دوسری ماہواری گزر جائے تو بغیر مقاربت کیے تیسری طلاق دی جائے، اس کے بعد جب تیسری ماہ واری گزر جائے گی تو عورت مغلظہ ہو جائے گی، اور اب حلالہ کے بغیر اس سے دوبارہ عقد نہیں ہو سکتا۔
طلاق بدعی:
 اس کی تین صورتیں ہیں (۱) ایک مجلس میں تین طلاق یک بارگی دی جائے خواہ ایک کلمہ سے مثلاً تم کو تین طلاقیں دیں۔ یا چند کلمات سے مثلاً کہے تم کو طلاق دی، تم کو طلاق دی، تم کو طلاق دی۔ (۲) عورت کی ماہ واری کے ایام میں اس کو ایک طلاق دی جائے، اس طلاق سے رجوع کرنا واجب ہے۔ (۳) جن ایام میں عورت سے مقاربت کی ہو ان ایام میں عورت کو ایک طلاق دی جائے، طلاق بدعی کسی بھی صورت میں ہو اس کا دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔
صریح اور کنایہ:
 جن الفاظ سے طلاق واقع ہوتی ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ صریح اور کنایہ۔
صریح:
 وہ الفاظ ہیں جس سے طلاق مراد ہونا ظاہر ہو ، چاہے وہ کسی زبان کے الفاظ ہوں اور اس لفظ کو سنتے ہی ذہن فوراً طلاق کی طرف جائے۔ عرف میں اس کا اور کوئی معنیٰ نہ سمجھا جائے، مثلاً شوہر نے بیوی سے کہا: میں نے تجھے طلاق دی، تجھے طلاق دی، تو مطلقہ ہے، تو طالق ہے، میں تجھے طلاق دیتا ہوں، اے مطلقہ، میں نے تجھے چھوڑا۔ وغیرہ۔
اگر طلاق کے الفاظ بگاڑ کر کہے، جیسے طلاق، تلاغ، طلاک، تلاک، تلاکھ، تلّاکھ، تلاخ، تلّاخ، تلاق، طلاق، بلکہ توتلے کی زبان سے تلات، یہ سب صریح کے الفاظ ہیں۔ ان سب الفاظ کا حکم یہ ہے کہ طلاق واقع ہو جائے گی، اگرچہ کچھ نیت نہ کی ہو۔ یہ الفاظ ہنسی مذاق میں کہے، یا سنجیدگی سے غصے اور نشے کی حالت میں کہے یا عام حالت میں۔ ان الفاظ سے ایک یا دو مرتبہ طلاق دی تو طلاق رجعی ہوگی، یعنی مرد عدت کے اندر بیوی کو بغیر نکاح لوٹا سکتا ہے۔ اس عمل کو شریعت کی اصطلاح میں ”رجعت“ کہتے ہیں، اور عدت گزر جانے کے بعد رجعت نہیں کر سکتا۔ ہاں باہمی رضا مندی سے دوبارہ بغیر حلالہ نکاح ہوسکتا ہے۔ اگر تین دفعہ دے دی تو بیوی طلاق دینے والے پر مکمل طور پر حرام ہو جائے گی۔ اس صورت میں بغیر حلالہ اس کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
کنایہ: 
ایسے الفاظ جو طلاق ہی کے لیے خاص نہ ہوں، بلکہ طلاق کے علاوہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہوں، مثلاً اظہارِ غضب ، نفرت، بیزاری اور ڈانٹ پھٹکار کے لیے، جیسے، جا، نکل، چل، روانہ ہو، اٹھ، کھڑی ہو، پردہ کر، دوپٹہ اوڑھ، نقاب ڈال، ہٹ، سرک، جگہ چھوڑ، گھر خالی کر، دور ہو، چل دور، وغیرہ۔
ان الفاظ سے اس شرط پر طلاق پڑے گی جب کہ شوہر نے طلاق کی نیت کی ہو۔ یا قرینے اور حالات بتائیں کہ یہاں طلاق ہی مراد ہوگی۔ مثلاً شوہر طلاق کی دھمکی دے رہا تھا، یا عورت طلاق طلب کر رہی تھی، اسی دوران شوہر نے یہ الفاظ ادا کیے ، تو ایسی صورت میں طلاق پڑ جائے گی، چاہے اس نے طلاق کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ اور واضح رہے کہ کنایہ کے الفاظ سے جو طلاق واقع ہوتی ہے وہ بائن ہوتی ہے، ایک ہو یا دو، اس میں شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ 
صریح اور کنایہ کے الفاظ سے جو طلاق واقع ہوتی ہے، ان کی حکم اور نتیجہ کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں، رجعی، بائن، مغلظہ۔
طلاق رجعی:
 جس سے عورت فی الحال نکاح سے نہیں نکلتی، عدت کے اندر اگر شوہر رجعت کر لے تو وہ بدستور اس کی زوجہ رہے گی، ہاں عدت گزر جائے اور رجعت نہ کرے تو اس وقت نکاح سے نکل جائے گی، پھر بھی باہمی رضا مندی سے دونوں آپس میں نکاح کر سکتے ہیں۔
طلاق بائن:
 جس سے عورت فوراً نکاح سے نکل جاتی ہے، ہاں آپسی رضا مندی سے عدت کے اندر یا بعدِ عدت دونوں آپس میں نکاح کر سکتے ہیں۔
طلاق مغلظہ:
 جس سے عورت فوراً نکاح سے نکل جاتی ہے، اس صورت میں دونوں کا آپس میں نکاح کبھی نہیں ہو سکتا جب تک کہ حلالہ نہ ہو۔ طلاق مغلظہ تین طلاقوں سے ہوتی ہے، تینوں ایک ساتھ دی ہو یا برسوں کے فاصلے سے۔
عدت: 
شوہر سے جدائی کے بعد عورتوں کے لیے شریعت نے کچھ مخصوص ایام متعین کیے ہیں کہ ان ایام میں عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے، اسی کا نام عدت ہے۔ عدت کا مقصد یہ ہے کہ شوہر کی جدائی سے بیوی غم و افسوس کرے، اور اس بات سے اطمینان بھی حاصل کر لے کہ اب سابقہ شوہر سے رحم میں مادۂ تولید نہیں ہے۔ یہ مخصوص ایام (عدت) گزارنے کے بعد جب عورت دوسری  شادی کرے گی تو بچہ کی نسبت اختلاط کا شبہہ نہیں ہوگا کہ یہ بچہ کس کا ہے، سابقہ شوہر کا یا موجودشوہر کا۔
عدت کی مدت:
 مطلقہ مدخولہ (جو شوہر سے صحبت کر چکی ہو، جسے ماہواری آتی ہو) کہ عدت تین حیض ہے۔ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ مطلقہ آئسہ (پچاس یا اس سے زائد عمر والی عورت کہ جسے حیض آنا بند ہو جاتا ہے) کی عدت تین ماہ، اور غیر مدخولہ (جس نے ابھی شوہر سے صحبت نہ کی ہو) کی عدت کچھ نہیں۔(۷)  موت کی عدت غیر حاملہ کے لیے چار مہینے دس دن ہے۔(۸)  اور حاملہ کے لیے وضع حمل ہے۔ بچہ کے اعضا ظاہر ہو چکے ہوں اور اسقاط ہو گیا تو عدت ختم نہ ہوئی۔
’’شرط انقضاع هذه العدة أن يكون ما وضعت قد استبان خلقه فإن لم يستبن خلقه راسا بان اسقط علقة أو مضغة لم تنقض العدة.‘‘ (۹)
طلاق دینــــــے کا اسلامی طریقہ:
طلاق دینا یوں تو بہت مذموم فعل ہے۔لیکن اگر طلاق دینا ضروری ہو کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو حیضوں کے درمیان پاکی کے ایام میں ایک طلاق رجعی دے بشرطے کہ ان ایام میں بیوی سے مقاربت نہ کی ہو۔ اس شکل میں اگر شوہر بیوی کو دوبارہ نکاح میں لانا چاہے تو رجعت کر لے ، یعنی عدت کے اندر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے نکاح میں واپس لے لیا، یا تم سے رجعت کی یا میں نے تجھ کو روک لیا، یا یہ کہے کہ میں نے اپنی زوجہ سے رجعت کی، یہ سب رجعت کے الفاظ ہیں۔
شوہر نے عدت کے اندر رجعت نہیں کی اور عدت کے ایام گزر گئے تو اس صورت میں بغیر حلالہ کے نکاح ہو سکتا ہے۔
دوسری طلاق دینے کے لیے دوسرے طہر (پا کی کے ایام) کا انتظار کرے اور اس میں بھی صرف ایک ہی طلاق دے، بشرطے کہ اس میں بھی مجامعت نہ کی ہو۔ ان ایام میں دونوں کو خوب اچھی طرح سوچنے سمجھنے کا موقع مل جائے گا ، اور اگر بات بنتی ہوئی دکھائی دے تو عدت کے اندر رجعت اور بعد عدت بغیر حلالہ نکاح بھی ہو سکتا ہے اور دونوں بدستور میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ اس مہلت میں بھی اگر رویہ میں تبدیلی نہیں آئی اور فیصلہ چھوڑنے ہی کا رہا تو تیسرے طہر میں طلاق دے کر بیوی سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جائے۔ اور احسن طریقہ یہ ہے کہ تیسری طلاق نہ دے بلکہ دو ہی پر اکتفا کرے اور عدت گزر جانے دے ۔ اب دونوں علاحدہ ہو جائیں گے اور ہر ایک جس سے چاہے نکاح کر سکتا ہے ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کبھی یہ زوجین پھر نکاح کرنا چاہیں تو بغیر حلالہ کے نکاح کر سکتے ہیں، اور تیسری دفعہ ہونے کے بعد بغیر حلالہ کے ان دونوں کو اکٹھاہونا حرام ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ.(۱۰)
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی میعاد (مدت) آلگے (پوری ہو جائے) تو اس وقت تک یا بھلائی کے ساتھ روک لو یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دو۔(کنز الایمان)
ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ.(۱۱)
یہ طلاق (رجعی) دو بار تک ہے، پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے، یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔(کنز الایمان)
اور فرماتا ہے:
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ١ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَاۤ اَنْ يَّتَرَاجَعَاۤ .(۱۲)
پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے، پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں۔ (کنز الایمان)
قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ ناخوشگوار حالات میں طلاق کے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو تو طلاق دی جائے ، وہ بھی یکبارگی تینوں نہیں بلکہ تین مرتبہ میں، جیسا کہ ذکر ہوا۔ لیکن آج ہمارے اس معاشرے میں جو طلاق دینے کی رفتار ہے وہ ایک جدا گانہ نوعیت کی حامل ہے۔ کھانے میں نمک کم ہو گیا یا زیادہ ہو گیا، نادانستہ طور پر شوہر کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو گئی، حکم کی بجا آوری میں کچھ دیر ہو گئی ، غرض کہ چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر تیور بدل جاتے ہیں، اور غصہ کا اظہار طلاق کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ ایک اور دو طلاق پر صبر نہیں ہوتا تو تین یا اس سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں، اس کے بعد افسوس کرتے ہیں اور مفتیانِ کرام کے پاس جا کر طرح طرح کے حیلے بہانے سے فتویٰ لینا چاہتے ہیں کہ میں نے ایسے ایسے کہا تھا، اگر گنجائش ہو تو بتائی جائے، ایسے ہی طلاق دینے والوں پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہے۔
رجعت کا بہترین طریقہ:
 رجعت کا طریقہ یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجعت کرے اور رجعت پر دو عادل شخصوں کو گواہ کرے اور عورت کو بھی اس کی خبر کر دے تاکہ عدت کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کر لے، اور اگر کر لیا تو تفریق کر دی جائے، چاہے دخول (ہم بستری) بھی کر چکا ہو۔ اس لیے کہ یہ نکاح نہ ہوا، اور اگر قول (لفظ) سے رجعت کی مگر گواہ نہ کیا، یا گواہ بھی کیا مگر عورت کو خبر نہ دی تو مکروہ خلافِ سنت ہے، مگر رجعت ہو جائے گی۔ اور اگر فعل سے رجعت کی (جیسے اس سے وطی کی ،شہوت کے ساتھ بوسہ لیا، یا اس کی شرم گاہ کی طرف نظر کی) تو رجعت ہو گئی، مگر مکروہ ہے۔ چاہیے کہ پھر گواہوں کے سامنے رجعت کے الفاظ کہے۔ (جوہرہ، بہار شریعت، قانون شریعت)
یک بارگی تین طلاق دینے کے نقصانات:
 اسلام نے شوہرکو طلاق دینے کا اختیار دیا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیںکہ شریعت کے بتائے ہوئے قانون کے خلاف اپنا اختیار استعمال کر کے اللہ اور اس کے رسول کے عتاب کو دعوت دی جائے۔احادیث کریمہ میں نبی کریمﷺنے یکبارگی تین طلاق دینے والوں پر ناراضگی اور غصہ کا اظہار کیا ہے، گزشتہ صفحہ میں ایک حدیث حضرت محمود بن لبید کی روایت سے گزری کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو یک بارگی تین طلاقیں دیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ غصہ سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ کتاب اللہ سے کھیل کیا جا رہا ہے، جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔
امام عبد الرزاق روایت کرتے ہیں:
’’عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْن عُمَرَ قَالَ مَنْ طَلَّقَ امْرَأتَهُ ثَلٰثًا طُلِّقَتْ وَعَصٰى رَبَّهُ.‘‘(۱۳)
حضرت سالم حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، وہ واقع ہو گئیں اور طلاق دینے والے نے یکبارگی تین طلاق دے کر اپنے رب کی نافرمانی کی۔
امام ابو بکر بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں:
’’عَنْ وَاقع ابْنِ سُبْحَانَ قَالَ سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأتَهُ ثَلاثًا فِيْ مَجلِسٍ قَالَ اَثِمَ بِرَبِّهِ وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِ امْرَأتُه.‘‘(۱۴)
واقع بن سبحان سے مروی کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، تو انھوں نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں:
’’عَنْ اَنَسٍ قَالَ كَانَ عُمَرَ اِذَا اُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ امْرَأتُهُ ثَلَاثًا فِيْ مَجْلِسٍ اَوْ جَعَهُ ضَرَبًا وَفَرَّقَ بَيْنَھَا.‘‘(۱۵)
حضرت انس سے مروی انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا آدمی پیش کیا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہوں تو آپ اسے تکلیف دہ مار مارتے اور زوجین میں تفریق کر دیتے۔
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا گناہ اور شرعی مصلحتوں کے خلاف ہے، شریعتِ اسلامی کا منشا تو یہ ہے کہ زوجین ایک مرتبہ رشتۂ ازدواج میں جڑنے کے بعد تا حیات بحسن و خوبی نباہ کریں، اور یہ رشتہ توڑنے کی کوشش نہ کریں۔ ہاں اگر نباہ کے سارے راستے بند ہو چکے ہوں، اور ایک دوسرے کی زندگی اجیرن ہو تو ایسے موقع پر شریعت اسلامیہ جدائی کی اجازت دیتی ہے تاکہ دونوں اپنا اپنا مستقبل بنائیں۔ ایسے موقع پر شوہر طلاق دے، لیکن گنجائش باقی رکھے تاکہ آئندہ کے لیے راہ ہموار رہے، کیوں کہ بسا اوقات آدمی تین طلاقیں یک بارگی دے دیتا ہے، بعد میں پشیمان ہوتا ہے۔
بیک وقت تین طلاق دینے کے سلسلہ میں جو حدیثیں پیش کی گئیں ان سے یہ سبق ملا کی یکبارگی تینوں طلاق واقع کرنے والا بارگاہِ خدا و رسول کا مجرم ہے، ایسے شخص پر خدا اور رسول کی لعنت ہوتی ہے، اور وہ شخص نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے، اور دنیا کے اندر ایسے شخص کو سب سے زیادہ رسوائی کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب جدائی کے بعد پھر دونوں کی محبت عود کر آتی ہے اور دوبارہ بغیر حلالہ نکاح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسلامی قانون یہ ہے کہ جب شوہر طلاق مغلظہ دے چکا ہو تو اس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح نہ کر لے اور وہ اس سے لطف اندوز ہونے کے بعد طلاق نہ دے دے۔
ربِ کریم ارشاد فرماتا ہے:
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ١ؕ (۱۶)
پھر اگر تیسری بار اسے طلاق دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی، جب کہ دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔(کنز الایمان)
یہ ایک ایسی شرط ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے گا تو پہلے خوب سمجھ لے گا اور اس وقت تک طلاق نہیں دے گا جب تک کہ یہ فیصلہ نہ کر لے کہ اب اس عورت کے ساتھ ازدواجی رشتہ باقی نہیں رکھنا ہے، دنیا میں اس سے بڑی رسوائی اور شرمندگی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مطلقہ بیوی عدت گزار کر دوسرے سے نکاح کرے، اور اس شوہر سے قربت بھی کرے، پھر وہ طلاق دے دے تب دوبارہ عدت گزار کر شوہر اول اسے اپنے نکاح میں لائے، اس کو کہتے ہیں تھوک کر چاٹنا۔ اگر عقل سے کام لیا جائے اور قانون شریعت کے مطابق اپنے نکاح و طلاق کے معاملات انجام دیے جائیں تو اس طرح کے رسوا کن دن دیکھنے کو نہ ملیں۔
مسئلہ حلالہ:
 حلالہ کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت مدخولہ (یعنی شوہر سے صحبت کر چکی ہے) تو طلاق کی عدت پوری ہونے کے بعد کسی اور سے نکاح صحیح کرے اور شوہر ثانی اس عورت سے وطی بھی کر لے،اب اس شوہر ثانی کے طلاق یا موت کے بعد عدت پوری ہونے پر شوہر اول سے نکاح ہو سکتا ہے، اور اگر عورت مدخولہ نہیں ہے تو پہلے شوہر کے طلاق دینے کے بعد فوراً دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے کہ اس کے لیے عدت نہیں۔(۱۷)
بعض لوگ طلاقِ مغلظہ دینے کے بعد پھر اسی عورت کو نکاح میں لانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ مطلقہ کا نکاح کسی سے کرا دیتے ہیں، ندامت اور رسوائی سے بچنے کے لیے ہم بستری سے پہلے شوہر ثانی کو کسی چیز کا لالچ دے کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ خلوت اگرچہ ہو، لیکن خلوت صحیحہ (ہم بستری) نہ ہو، ایسا کرنے والوں کو نبی کریم ﷺ کا ارشاد سامنے رکھنا چاہیے:
’’عَنْ عَائِشَةَ اَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ اِمْرَاَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النُبي صلى الله عليه وسلم اتحِلُ لِلْاَوَّلِ قَالَ لَا حَتّٰى يَذُوْقَ عُسَيْلَتَھَا كَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ.‘‘(۱۸)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس عورت نے دوسرے سے شادی کر لی، پھر اس نے بھی طلاق دے دی، تو نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو سکتی ہے؟ حضور نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ دوسرا شوہر پہلے شوہرکی طرح اس سے لطف اندوز نہ ہو لے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ محض دوسرے شوہر سے نکاح کر لینا کافی نہیں بلکہ دونوں کا ایک دوسرے سے بہ ذریعہ صحبت لطف اندوز ہونا ضروری ہے، صحبت نہ پائے جانے کی صورت میں پہلے شوہر سے نکاح بھی درست نہ ہوگا، بلکہ ایسا کرنا صریح حرام کاری ہے۔
اور جو شخص اپنی مطلقہ کو صرف اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر دوسرے سے نکاح کراتا ہے، اور دوسرا صرف حلالہ کی نیت سے نکاح کرتا ہے تو ایسے افراد پر رسول کریم ﷺنے لعنت فرمائی ہے:
’’عَنْ عَبْد اللهِ بِنْ مَسْعُوْدِ قَالَ لَعَنَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَلْمُحَلِّل وَالْمُحَلَّلَ لَهُ.‘‘(۱۹)
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
پہلا شوہر اس لیے لعنت کا مستحق ہے کہ وہ اس فعلِ قبیح کا سبب بنا، اور دوسرا اس لیے کہ اس نے نکاح جدائی کے لیے کیا، جب کہ نکاح کا مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی موافقت کے ساتھ     تا حیات رشتۂ ازدواج میں منسلک رہیں۔
اگر کسی نے بہ ارادۂ حلالہ نکاح صحیح کیا تو نکاح توہو جائے گا، لیکن دونوں شوہر بے حیا اور بد تمیز گردانے جائیں گے، اسی لیے ان پر لعنت کی گئی ہے، حدیث میں ایسے شخص کو”تَيْسٌ مُّسْتَعَارٌ“ (کرائے کا سانڈ) کہا گیا ہے۔
اسلام میں حلالہ کی مشروعیت اس لیے نہیں ہے کہ اس کی آڑ میں افعال قبیحہ کو فروغ دیا جائے ،بلکہ یہ شکل تو اس لیے ہے کہ جب آدمی حلالہ کا تصور کرے تو طلاقِ مغلظہ جیسی مذموم حرکت سے باز رہے۔ ہاں اگر کسی نے طلاق شدہ عورت سے مستقلاً رکھنے ہی کے لیے نکاح کیا، لیکن کسی وجہ سے نباہ نہ ہو سکا اور اس نے بھی طلاق دے دی تو اب وہ عورت شوہرِ اول کے لیے حلال ہو جائے گی۔ اور اس صورت میں کسی پر لعنت بھی نہ ہوگی۔ یہ شوہر اول کے لیے حلال ہونے کی ایک شرعی صورت ہے۔
حالتِ حیض میں طلاق کی ممانعت:
  حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے، لیکن اگر کسی نے ان ایام میں طلاق دے دی تو واقع ہو جائے گی، اور طلاق دینے والا گنہ گار ہوگا، اس لیے کہ اس نے فعل حرام کا ارتکاب کیا، ان ایام میں طلاق دینے کی ممانعت اس لیے آئی ہے کہ عموماً ان دنوں عورتیں چڑچڑی اور بد مزاج ہوجاتی ہیں، اچھی بات بھی انھیں بری معلوم ہوتی ہے، ان ایام میں اگر عورت کی طرف سے کوئی نازیبا حرکت صادر ہو جائے تو اس پر شوہر کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اس کی مجبوری ہے، اور دونوں کا جسمانی تعلق بھی اِن دنوں باقی نہیں رہتا۔ جب کہ ان ایام کے علاوہ باقی دنوں میں دونوں شیر و شکر بن کر رہتے ہیں، انھیں وجوہ کی بنا پر نبی کریم ﷺ نے ایام حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے۔
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا تذکرہ رسول اللہﷺ سے کیا، آپ نے سن کر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا:
’’مُرْهُ فَلْيُرَاجعْهَا حَتّٰى تَحِيْضَ حَيْضَةً مُسْتَقْبِلَةً سِوَىٰ حَيْضَتِھَا الَّتِيْ طَلَّقَهَا فَاِنْ بَدَاَ لَهُ اَنْ يُّطَلِّقَھَا فَلْيُطَلِّقۡہَا طَاھِرًا مِّنْ حَيْضَتِهَا قَبْلَ اَنْ يَمُسَّھَا قَالَ فَذَالِكَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا اَمَرَ اللهُ.‘‘ (۲۰)
ابن عمر کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے یہاں تک کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے علاوہ ایک اور حیض گزر جائے اس کے بعد طلاق دینا چاہے تو دے دے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس حیض سے پاک ہو گئی ہو، اور اس سے مجامعت بھی نہ ہوئی ہو کہ یہ اللہ کے حکم کے مطابق طلاق کا وقت ہے۔
خلع:
 بیوی شوہر کو کچھ مال و اسباب دے کر یا مرد کے ذمہ جو کچھ باقی ہے اسے معاف کر کے بدلے میں طلاق حاصل کر لے، اسے شریعت میں خلع کہا جاتا ہے، جس طرح شوہر کو طلاق کا حق دیا گیا اسی طرح عورت کے لیے بھی خلع کی گنجائش رکھی گئی۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْـًٔا اِلَّاۤ اَنْ يَّخَافَاۤ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ. (۲۱)
تمھیں حلال نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو، مگر جب دونوں کو اندیشہ ہوکہ اللہ کی حدیں قائم نہ رکھیں گے، پھر اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھیں گے، تو ان پر کچھ گناہ نہیں، اس میں کہ بدلہ دے کر عورت چھٹی لے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کریں تو وہ لوگ ظالم ہیں۔
یہ آیت جمیلہ بنت عبد اللہ کے باب میں نازل ہوئی۔ یہ جمیلہ ثابت بن قیس ابن شماس کے نکاح میں تھیں۔ اور شوہر سے کمالِ نفرت رکھتی تھیں۔ رسولِ خدا ﷺ کے حضور میں اپنے شوہر کی شکایت لائیں، اور کسی طرح ان کے پاس رہنے پر راضی نہ ہوئیں۔ تب ثابت نے کہاکہ میں نے ان کو ایک باغ دیا ہے، اگر یہ میرے پاس رہنا گوارہ نہیں کرتیں، اور مجھ سے علاحدگی چاہتی ہیں تو وہ باغ مجھے واپس کریں، میں ان کو آزاد کر دوں، جمیلہ نے اس کو منظور کیا، ثابت نے باغ لے لیا اور طلاق دے دی۔
مسئلہ: خلع طلاق بائن ہوتا ہے۔ مسئلہ:خلع میں لفظ خلع کا ذکر ضروری ہے۔ مسئلہ:اگر جدائی کی طلب گار عورت ہو تو خلع میں مقدارِ مہر سے زائد لینا مکروہ ہے، اور اگر عورت کی طرف سے نشوز (نفرت و نافرمانی) نہ ہو، مرد ہی علاحدگی چاہے تو مرد کو طلاق کے عوض مال لینا مطلقاً مکروہ ہے۔(خزائن العرفان)
طلاق کی طرح خلع بھی شریعت میں ناپسندیدہ چیز ہے، حدیث شریف میں ہے،جو عورت بلا وجہ خلع کا مطالبہ کرے اس پر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام انسان کی لعنت ہے۔
جہاں تک ممکن ہو خواتین اسلام خلع سے پرہیز کریں، اور اس بات پر نظر رکھیں کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی جوڑے میں کوئی بھلائی رکھی ہو۔
مفقود (گم شدہ):
 جس گم شدہ مرد کی موت و زندگی کا حال نہ معلوم ہو وہ مفقود الخبر ہے۔ مفقود کی بیوی کے لیے مذہب حنفی میں یہ حکم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی عمر نوّے (۹۰) سال ہونے تک انتظار کرے (جو اس زمانے میں بہت دشوار ہے، لہٰذا بہ وجہِ ضرورتِ شدیدہ) مفقود کی عورت کو حضرت سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب پر عمل کی رخصت ہے۔ ان کے مذہب پر عورت ضلع کے سب سے بڑے سنی صحیح العقیدہ عالم کے حضور فسخِ نکاح کا دعویٰ کرے۔ وہ عالم اس کا دعویٰ سن کر چار سال کی مدت مقرر کرے، اگر مفقود کی عورت نے کسی عالم کے پاس اپنا دعویٰ پیش نہ کیا اور بطور خود چار سال انتظار کرتی رہی تو یہ عدت حساب میں شمار نہ ہوگا، بلکہ دعویٰ کے بعد چار سال کی مدت درکار ہے۔ اس مدت میں اس کے شوہر کی موت و زندگی کا حال معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ جب یہ مدت گزر جائے اور اس کے شوہر کی موت و زندگی کے سلسلے میں کچھ معلوم نہ ہو سکے تو وہ عورت اسی عالم کے حضور استغاثہ پیش کرے، اس وقت وہ عالم اس کے شوہر پر موت کا حکم کرے گا، پھر عورت عدتِ وفات (چار مہینے دس دن) گزار کر چاہے تو کسی سنی صحیح العقیدہ سے نکاح کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے اس کا نکاح کسی سے ہرگز ہرگز جائز نہیں۔ اور جہاں سلطانِ اسلام و قاضیِ شرع نہ ہوں وہاں ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم ہی اس کا قائم مقام ہے نہ کہ گاؤں کے جہلا کی پنچایت۔(۲۲)
کورٹ کی طلاق:
شوہر نے طلاق نہیں دی بلکہ بیوی یا اس کے میکے والوں نے موجودہ ہندوستانی کورٹ اور کچہری سے طلاق نامہ حاصل کیا تو ایسی طلاق ہرگز قابلِ قبول نہ ہوگی کہ طلاق دینے کا اختیار شوہر کو حاصل ہے نہ کہ کورٹ کے حکام کو۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
بِيَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ.(۲۳)
شوہر کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔
کورٹ کی طلاق سے عورت کو دوسرا نکاح کرنا حرام ، سخت حرام ہے۔ جب تک کہ شوہر خود طلاق نہ دے۔
تین طلاق تین ہے نہ کہ ایک: 
غیر مقلدین جو خود کو اہلِ حدیث کہتے ہیںاور چاروں اماموں (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم) میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے۔ طلاق کے سلسلہ میں ان کے نزدیک یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی نے یک بارگی تین طلاق دی تو تین نہیں بلکہ ایک ہی پڑے گی، یعنی شوہر طلاق شدہ بیوی سے عدت کے اندر رجعت کر کے اسے بدستور اپنی بیوی بنا سکتا ہے، اور عدت کے ایام گزرنے کے بعد بغیر حلالہ اسی سے نکاح بھی کر سکتا ہے۔ جب کہ صحابہ و تابعین اور ائمہ کرام کےنزدیک یہ مسلم ہے کہ یکبارگی دی ہوئی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہے اور بیوی فوراً نکاح سے نکل جاتی ہے، بغیر حلالہ کے اب دوبارہ اس کی بیوی نہیں بن سکتی، قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہے۔
عوامِ اہلِ سنت سے گزارش ہے کہ اپنے مسائل علماے اہلِ سنت کی بارگاہ میں لے جائیں اور ان سے صحیح مسائل معلوم کریں اور پھر عمل کریں، گزشتہ اوراق میں اس سلسلہ کی کچھ حدیثیں گزر چکیں۔ مزید معلومات کے لیے چند سطور پیش خدمت ہیں۔
حضرت نافع رضی للہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حائضہ (شوہر جس سے صحبت کر چکا ہو) کی طلاق کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس کو وہی بتایا جو رسول اللہﷺنے ان سے فرمایا تھا، وہ یہ ہے:
حدیث: اگر تونے اپنی عورت کو ایک طلاق یا دو طلاق یک بارگی دی ہے تو بے شک رسول اللہ ﷺنے اس طلاق کے بارے میں مجھے رجعت کا حکم فرمایا ہے۔ اور اگر تونے یکبارگی تین طلاقیں دی ہیں تو تیری عورت تجھ پر حرام ہو گئی، جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے، اور یقیناً تونے یکبارگی تین طلاق دے کر اپنے رب کی نافرمانی کی۔ اس میں جو طلاق کے بارے میں اس نے تمھیں حکم دیا۔(۲۴)
نواسۂ رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 
حدیث: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے ہر طہر (پاکی کے ایام) میں یا ایک ایک کر کے، یا ہر مہینے کے شروع میں ایک ایک، یا یک بارگی تینوں دے دے تو اس کی بیوی اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے۔(۲۵)
علامہ احمد بن محمد الصاوی علیہ الرحمہ تفسیر صاوی میں آیت: ”فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ “ کے تحت لکھتے ہیں:
اور آیت کا یہ معنیٰ ہے کہ اگر تین طلاقیں ثابت ہو جائیں چاہے ایک دفعہ میں دی ہوں یا چند دفع میں تو اس کے لیے عورت حلال نہیں رہے گی۔ اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا ، تجھے تین طلاقیں تو تین ہی واقع ہوں گی، اس مسئلہ پر سب کا اتفاق ہے۔ اور یہ قول کرنا کہ یکبارگی دی ہوئی تین طلاق ایک ہی واقع ہوتی ہے۔ یہ ابن تیمیہ حنبلی کے علاوہ اور کسی کا قول نہیں، اور ابن تیمیہ کے اس قول کا اس کے مذہب حنبلی کے ائمہ نے خود رد کیا ہے۔ یہاں تک کہ علماے کرام نے فرمایا کہ ابن تیمیہ گم راہ اور گم راہ گر ہے۔ (۲۶)
شیخ الاسلام علامہ بدر الدین عینی شارح بخاری فرماتے ہیں:
جمہور علما، تابعین اور ان کے بعد والے مثلاً امام اوزاعی، امام نخعی، امام ثوری، امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب امام مالک اور ان کے اصحاب، امام شافعی اور ان کے اصحاب، امام احمد اور ان کے اصحاب، امام ابو ثور، امام عبید اور دوسرے بیش تر علما کا یہی مذہب ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو یک بارگی تین طلاق دے ،تینوں واقع ہوں گی، اور وہ گنہ گار ہوگا جو اس کی مخالفت کرتا ہے، وہ براے نام ہے اور اہل سنت کا مخالف۔(۲۷)
طلاق کے بعد شوہر کی ذمہ داریاں:
 جس طرح حالتِ نکاح میں بیوی کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام شوہر کے ذمہ ہوتا ہے اسی طرح بعد طلاق زمانۂ عدت میں بھی مطلقہ (طلاق شدہ) کے سارے اخراجات طلاق دینے والے کے ذمہ ہوں گے وہ اپنے روز مرہ کے اخراجات کے مطابق مناسب طریقے سے اپنی مطلقہ کے اخراجات پورے کرے، قرآن کریم کا ارشاد ہے:
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ (۲۸)
اور طلاق والیوں کے لیے مناسب طور پر نان و نفقہ ہے۔
مطلقہ عدت کے ایام اسی شوہر ہی کے گھر میں گزارے کہ یہی شریعت کا حکم ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ۠ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ١ؕ(۲۹)
طلاق والیوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اور ان پر تنگی کے ارادہ سے انھیں ضرر نہ پہنچاؤ۔
تین طلاق دینے کے بعد مطلقہ کا طلاق دینے والے سے پردہ ضروری ہے، لہٰذا پردے کا پورا اہتمام کیا جائے۔ اس کے گھر میں اگر پردے کا معقول انتظام نہ ہو سکے یا اس سے کوئی خطرہ محسوس ہو تو مطلقہ کسی دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے، مثلاً اپنے میکے چلی جائے کہ اس سے زیادہ محفوظ جگہ کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔
اگر اس شوہر سے عورت کے چھوٹے بچے ہوں (لڑکے سات سال تک اور لڑکیاں بالغ ہونے تک) تو وہ اپنی ماں کے پاس پرورش پانے کے حق دار ہیں، اور ان کے اخراجات باپ  پر لازم ہوں گے۔ ان بچوں کی ماں صرف بچوں کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کرتی تو جب تک بچے اس کی پرورش میں رہیں گے ان کے اخراجات باپ کے ذمہ ہوں گے۔ ہاں وہ عورت شادی کر لے تو بچوں کی پرورش کا حق ختم ہو جائے گا۔
مآخذ و مراجع:
(۱) سنن أبو داؤد، ج:۱، ص:۲۹۶، رشیدیہ، دھلی.
(۲) سنن أبي داؤد، ص:۲۹۶
(۳) جامع صغير مع فيض القدير ثالث، ص:۲۴۲، حديث ۳۲۸۸، للحافظ جلال لدين السيوطي.
(۴) سنن ابن ماجه ، باب كراھية الخلع للمرأة، ص:۱۴۸
(۵) قرآن مجيد، پاره:۴، سورة النسآء، ركوع ۱۴، آيت:۱۹
(۶) رواه النسائي، مشكوٰة المصابيح، باب الخلع والطلاق، ص:۲۸۴
(۷)    البقرة:۲۲۸، الطلاق:۴
(۸)    البقرة، آيت:۲۳۴
(۹) فتاویٰ عالمگيري، مصري، جلد اول، ص:۴۷۳
(۱۰) ........................  (۱۱ - ۱۲)   پارہ:۲، البقرة، ع:۱۳
(۱۳) مصنف عبد الرزاق، ج:۶، ص:۳۹۵
(۱۴) مصنف ابن ابی شیبہ ،ج:۵، ص:۱۰، ۱۱
(۱۵) مصنف ابن ابی شیبہ ،ج:۵، ص:۱۰، ۱۱
(۱۶) پارہ:۲، البقرة، ع:۱۳
(۱۷) بھار شريعت، ج:۸، ص:۷۰، از صدر الشريعه علامه محمد امجد علي اعظمي قدس سره.
(۱۸) بخاري شريف، ج:۲، كتاب الطلاق، ص:۷۹، ر؂ضا اکيڈمي، بمبئي.
(۱۹) دارمي، ابن ماجه ، بحواله مشكوٰة المصابيح، باب المطلقه ثلاثا، ص:۲۸۴.
(۲۰) صحیح مسلم شریف، اول کتاب الطلاق رضا اکیڈمی،
(۲۱)    پارہ:۲، البقرة، ع:۱۳
(۲۲) فتاوىٰ فيض الرسول، ج:۲، ص:۲۸۶، ملخصاً از فقيه ملت مفتي جلاالدين احمد امجدي.
(۲۳) البقرة: ۲۳۷
(۲۴) صحيح بخاري، ج:۲، ص:۷۹۲ و صحيح مسلم، ج:۱، ص:۴۷۶، رضا اكيڈمي، بمبئي.
(۲۵) دار قطنی، ج:۴، ص:۳۱
(۲۶) حاشیة الصاوي على الجلالين، ج:۱، ص:۱
(۲۷) عمدۃ القاری شرح بخاری، ج:۲، ص:۲۳۳
(۲۸) البقرة: ۲۴۱ (۲۹)   الطلاق: ۶
٭٭٭٭٭


Mukarram Niyaz

unread,
Jul 24, 2014, 8:52:14 AM7/24/14
to bazmeqalam
مجھے ذاتی طور پر ہمایوں صاحب کے ان جملوں پر اعتراض ہے :
یاد رکھیں کہ تین طلاقیں خواہ ایک ہی محفل میں ہوں واقع ہو جاتی ہیں۔ اب یہ عورت اس مرد پر حرام ہے، اس حرام کو حلال کا فتوی دینے والے بھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور مرد تو حرام میں مبتلا ہو ہی گیا۔

ہم تو سمجھتے ہیں کہ ایسے متنازعہ جملے کہنے سے جہاں تک ممکن ہو احتراز کرنا چاہیے۔ 
خاص طور پر انفارمیشن تکنالوجی کے اس علمی دور میں اس طرح کے فتویٰ (ہماری حیدرآبادی زبان میں : ایک مار دو ٹکڑے) ۔۔۔ عوام میں الجھن اور دین سے مزید دوری کا سبب ہی بنتے ہیں۔
جس طرح عبادات کے بہت سے معاملات میں علماء کا اختلاف ہے اسی طرح یہ معاملہ بھی ہے۔ لہذا اس طرح کے معاملات میں کوئی حتمی فیصلہ (یوں کہ جیسے وحی نازل ہوئی ہو۔۔۔) دینے سے ممکنہ گریز بہتر عمل ہے۔

ہمارے عہد کے نامور و معتبر علماء نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ تنگ نظری اور مسلکی عصبیت سے کام لینے کے بجائے اس مسئلہ کو لوگوں کے سامنے اس طور سے پیش کرنا چاہیے کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اور دلائل دونوں طرف موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص تین یکجائی طلاقوں کو ایک قرار دینے والے مسلک کو اختیار کرتا ہے تو اس کی پوری گنجائش اسلام کے اندر موجود ہے اور اس سے کوئی گمراہی ہرگز لازم نہیں آتی۔
اقتباس بشکریہ :

اس ضمن کی مزید کتب :








--
Syed Mukarram Niyaz
www.taemeer.com|https://www.facebook.com/taemeer|http://twitter.com/taemeer|https://plus.google.com/+MukarramNiyaz|http://www.youtube.com/user/taemeer|http://www.pinterest.com/taemeer/
www.taemeernews.com : the very 1st daily Urdu News searchable web portal on the net
www.urdukidzcartoon.com : the very 1st Urdu cartoon/comics project on the net

Sabir Rahbar

unread,
Jul 24, 2014, 10:01:00 AM7/24/14
to BAZMe...@googlegroups.com
ڈاکٹر سید شجاعت علی قادری




طلاق ثلاثہ کے احکام ومسائل
 
ہمارے معاشرے میں اب طلاق کارواج کچھ بڑھتا ہی چلاجارہا ہے، جہاں ذراغصّہ آیافوراً طلاق دے دی، پھر ایک دودی جائیں تب بھی معاملہ ہاتھ میں رہتا ہےمگر جانتے ہیںکہ بالکل تعلق اُسی وقت ختم ہوگا جب تین طلاق دی جا ئے ، اس لیے تین دیتے ہیں۔ پھر فوراً ہی ندامت ہوتی ہے، اب علماء کی طرف ر جو ع کرنے سے قبل بڈھے بڑھیوں سے مسئلہ دریافت ہوتا ہے، کوئی کچھ کہتا ہےاورکوئی کچھ۔بہر حال پھر کسی نہ کسی طرح علماءتک پہنچتے ہیںاورکو شش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح بیوی ان کے پاس حسب سابق رہے۔ علماء سے کہتے ہیں کہ کچھ گنجائش نکالئے، مگر یہ معلوم نہیں کہ تمام دنیا کے علماء مل کر بھی شریعت کے احکام میں سے کسی حکم کا نقطہ بھی اِدھر سے اُدھر نہیں کرسکتے، کبھی یہ کہتے ہیں کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرلیا جائے تو کیسا ہے؟ بڑاافسوس ہے،آج اپنی ضرورت کے تحت اپنے امام کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوگئے توکل خدانخواستہ اپنی غرض سے مذہب تبدیل کرنے پر بھی رضا مندی ظاہر کردیں گے، پھر چاروں اماموں میں سے کوئی بھی نہیں کہتا کہ تین طلاقوں کے بعد بھی بیوی حسب سابق  بیوی رہ سکتی ہے ، کبھی غیر مقلد وں کی مسجد سے فتویٰ لے آتے ہیں، غرض چاہتے ہیں مذہب کا نام لے کر یا فتویٰ کا سہارا لے کر حرام کو حلال کرلیں، یہ نہیں سوچتے کہ یہ ساری زندگی کا معاملہ ہے، یہ اولاد کا معاملہ ہے اورپھر تمام نسب کا معاملہ ہے ۔جب دولفظوں سے ایک اجنبی عورت آپ کی بیوی بن گئی توتین لفظوں سے اگر زوجیت سے خارج ہوجائے تواس میں حیرت کی کیا بات ہے۔
مسلمان بھائیو!نماز،روزہ اوردوسری عبادات میں ہماری کوتاہیاں ظاہر ہیں، خدا راکم ازکم ایسے گناہوں سے ضروربچئے جن میں خدانخوستہ اگر آپ مبتلا ہوگئے توتمام زندگی بلکہ اس کے بعد بھی آپ گناہوں کے سمندرمیں غرق رہیں گے۔ اپنے غصہ کو شرعی حدود میں رکھئے اورتین طلاق دینے سے بچیئے۔ اس مختصر مضمون میں بتایا گیا ہے کہ تین طلاق بیک وقت بھی واقع ہوجائیں گی۔ یہی فیصلہ قرآن، حدیث، صحابہ اوراُمت کے اتفاق سے ثابت ہے، اس کے خلاف سب غلط ہے۔ بحث میں مخالفین کے صرف اُن دلائل کا رد کیا گیا ہے جن پر انہیں بہت گھمنڈ ہے اورجوعام طور پر وہ استعمال کرتے ہیں، ظاہر ہے اس موضوع پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے اورہمارے بزرگوں نے بہت کچھ کہا ہے ۔ بالخصوص مبسوط، فتح القدیر، بدائع الصنائع ،فتاویٰ اعلیٰ حضرت الشاہ احمد رضا خاں بر یلو ی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کا فیصلہ ہی کردیا ہے۔
تین طلاق کا مسئلہ:آج کل عموماً مرد کو جب غصّہ آتا ہے، وہ اپنی بیوی سے اس قسم کے الفاظ کہہ دیتا ہے۔ جا میں نے تجھ کو تین طلاق دیا، بلکہ کبھی کبھی تو تین سے زائد طلاق بھی دیدی جاتی ہے ، یہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ لوگ تین طلاق اسی لیے دیتے ہیں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ بیوی سے اس سے کم میں پیچھا نہیں چھوٹ سکتا ہے۔ بعد میں جو کچھ ہوتا ہے وہ صرف بہانہ سازی، دروغ گوئی اورحرام شدہ چیز کو حلال کر نے کی سعی لاحاصل ہوتا ہے۔
اگر کسی مولوی سے غلط بیانی کرکے حلال لکھوابھی لیا ہے، تو حقیقت پھر بھی اپنی جگہ برقرار رہے گی، تمام زندگی حرا م کاری ہوگی اور اولاددراولاد اس گناہ کے ناپاک اثرات چلتے رہیں گے۔
تین طلاق کے بعد عورت حرام ہوجاتی ہے:قرآن کریم میں ہے ’’اَلْطَّلاَ قُ مَرَّتٰنِ فَاِمسَاکٌ بِمَعْرُوْف اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانِ‘ (سورہ البقرہ۲۲۹) 
طلاق دو مرتبہ ہے پھر یا تواچھے طریقہ سے روک لینا ہے یا اچھائی کے ساتھ (بیوی) چھوڑ دینا ہے۔
تفسیر کبیر اوردوسری تفاسیر میں ہے کہ یہ آیت اس موقعہ پر نازل ہوئی جب اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک عورت نے شکایت کی کہ میرا شوہر مجھ کو طلاق دیتا رہتا ہے اورپھر رجوع کرلیتا ہے ۔آپ نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ( اما م محمد فخرالدین رازی تفسیر کبیر صفحہ۲۴۷:جلد:۲)
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ طلاق جس کے بعد رجوع کا حق باقی رہتا ہے دومرتبہ ہے (گویا جو مقصود ہے وہ حق ہے رجوع کا بیان ہے نہ یہ کہ طلاق علٰیحدہ علیٰحدہ دینا لازم ہے۔) دوطلاق کے بعد اب دوہی صورتیں ہیں ، یا تورجوع کرلیا جائے اوراگر یہ سلسلہ مزید چلنا ممکن نہ ہوتو پھر تیسری طلاق بھی دے دی جائے۔
چنانچہ مشہور مفسر ابوبکر الجصاص اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ’’قد ذکرت فی معناہ وجوہ احدھا انہ بیان للطلاق الذی تثبت معہ الرجعۃ والثانی انہ بیان لطلاق السنۃ‘‘( احکام القرآن جلد :۱)
یعنی اس آیت کے معانی میں مختلف وجوہ ذکرکی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اُس طلاق کا ذکر ہے جس میں رجعت کاحق باقی رہتا ہے ا و ر دو سرے یہ کہ یہ طلاق سنت کا طریقہ ہے۔
ابوبکر جصاص نے اورتاویلات بھی لکھی ہیں، لیکن اہل علم سے مخفی نہیں کہ مفسّرین قوی اورضعیف، اپنوں اور غیروں سبھی کے اقوال نقل کرتے ہیں ۔ اصل قدروقیمت ائمہ مذہب کے اقوال ہی کی ہے۔ لہٰذا کسی مفسر کی مفسرانہ بحث سے خواہ مخواہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
ہم حنفی بھی یہی کہتے ہیں کہ طلاق متفرق طور پر دی جانی چاہیئے، یہی سنت طریقہ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ کہاں سے ہواکہ اگرکوئی مسنون طریقہ اختیار نہ کرے تووہ فعل جوایک عاقل وبالغ سے صادر ہورہا ہے اوربالکل صریح ہے، واقع ہی نہ ہو؟ ہاں سنت طریقہ ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔ ہماری شریعت میں لاتعداد احکام ایسے ہیں جن کے اداکرنے کے لیے مسنون طریقے بتائے گئے ہیں، مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص ان کاموں کو مسنون طریقہ پرادا نہ کرے تب بھی وہ ادا ہوجائیں گے اگر چہ ترک سنت کا گناہ رہے گا۔
عام طور پر مفسرین نے جوکچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہی ہے کہ طلاق متفرق طورپر دینا چاہیے، نہ یہ کہ تین طلاقوں کے دینے کی ممانعت کی گئی ہے، تواس قدر میں ہم بھی متفق ہیں۔
اگرکوئی شخص اپنی بیوی کوایک دم دوطلاقیں دے توکیا واقع ہو جائے گی یا نہیں؟ اگرنہیں تو دلائل سے ثابت کیجئے، اوراگر دوطلاقیں یکدم واقع ہوسکتی ہے توتین کیوں واقع نہیں ہوسکتی ہیں:’’وَلِلْمُطَلِّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْر و ف ‘‘ (سورہ البقرہ آیت ۲۴۱)
اور طلاق دی گئی عورتوں کے لیے رواج کے مطابق سامان ہے’’وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوھُنَّ ‘‘(سورہ البقرہ آیت ۲۳۷)
اوراگر تم ان کو صحبت سے پہلے طلاق دے دو۔
’’ یآ ایھا الّذین اٰمنوا اِذا نکحتم المؤمنات ثم طلّقتموھنّ‘‘اے ایمان والو! جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو طلاق دو۔ 
ان آیات میں اوران ہی جیسی آیات میں طلاق اوراس کے احکام کا ذکر ہے مگر یہ کہیں نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ طلاق علیٰحدہ علیٰحدہ دی گئیں ہوں یا یکدم، جب دونوں امور کا مذکور نہیں تواس کو قواعد کے مطابق عام ہی رہنا چاہئے۔
احادیث شریفہ:احادیث صحیحہ سے بھی یہی ثابت ہے کہ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں ، خواہ یک دم دی جائیں یا کہ علیٰحدہ علیٰحدہ۔
 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دیدی تھی، پھر آپ نے یہ سوچا کہ دوحیضوں میں دوطلاق مزید دے دیں، جب رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی توفرمایااے ابن عمر!اللہ تعالیٰ نے تم کو یہ حکم تو نہیں دیا ہے، تم نے خلاف سنّت کیا، سنّت طریقہ یہ ہے کہ تم ہرطہر میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دو۔ چنانچہ آپ نے مجھے رجوع کا حکم دیا (کیونکہ ایک ہی طلاق دی تھی) اورفرمایا کہ جب پاک ہوجائے تو تم اس کو طلاق دے دینا ، یا روک رکھنا، اُنہوں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اگرمیں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا میرے لیے پھرحلال ہوجاتی؟ آپ نے فرمایا نہیں اوریہ گناہ کی بات ہوتی۔
    (قاضی محمدثناء اللہ تفسیر مظہری صفحہ: ۳۵۱جلد:۱)
سند حدیث:اس حدیث کو دار قطنی اورابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا ہے، بیہقی نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کی سند میں عطاء خراسانی نے کچھ زیادات کی ہیں جن میں اُن کا کوئی متابع نہیں اور چونکہ وہ ضعیف ہیںاس لیے ان کی زیادات غیر متابعہ مقبول نہ ہوں گی مگر خدا بھلا کر ے علامہ ابن ہمام کا کہ انہوں نے متابعت ثابت کردی اورفرمایا کہ رزیق نے اس روایت کی متابعت کی ہے اور طبرانی نے بھی اسے روایت کیا ہے ۔ ( فتح القدیر)
طلاق دے دی تھی مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر بھی رجوع کرادیا تھا۔ یہ عجب اہل حدیث ہیں کہ صحیح حدیثوں کو مانتے ہی نہیں اِن سے زیادہ اچھے اہل حدیث تو وہ ہوئے جو اپنے اوپر اہلحدیث کا لیبل نہیں لگاتے ہیں، اوروہ حدیثوں کو تسلیم کرتے ہیں۔
مُسلم شریف کے شارح جلیل القدر محدث اسی حدیث کی بابت فرماتے ہیں ’’اماحدیث ابن عمر نالروایات الصحیحۃ التی ذکرھا مسلم وغیرہ انّہ طلقہا واحدۃ‘‘(ابوزکریا نواوی شرح مسلم صفحہ:۴۷۸جلد: ۱)
ابن عمر کے واقعہ میں صحیح روایات جن کو امام مسلم وغیرہ نے ذکرکیا ہے ، یہ ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہی طلاق دی تھی۔
امام بخاری نے تو بخاری شریف میں مستقل ایک باب قائم کیا ہے جس کا نام ہے۔’’ من اجاز الطلاق الثلث‘‘یعنی اس باب میں ان لوگو ں کے لیے دلائل ہیں جو تین طلاق کو واقع قرار دیتے ہیں۔ حیرت ہے کہ اہلحدیث صاحبان اس سلسلے میں امام بخاری تک کو اچھا نہیں سمجھتے حالانکہ وہ اورموقعوں پر ان کا ذکر بڑے زور شور سے کرتے ہیں۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ : فطلّقہا ثلاثا، یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور یہ واقعہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی موجودگی کا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہاں میاں بیوی میں جدائی کرا د ی گئی۔(بخاری و مسلم صفحہ:  ۴۸۹جلد :۱)
 ظاہر ہے اگر تین طلاق واقع نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فر ماتےکہ یہ واقع نہ ہوئیں اورکبھی بھی آپ ایک لغوکام کے ہوتے ہوئے خا مو ش نہ رہتے۔
سندحدیث:اس حدیث کی صحت میں کسی کو کلام نہیں اس حدیث کو بخاری شریف صفحہ:91 جزدوم اورمسلم کے علاوہ نسائی اورابوداؤد وغیرہ نے بھی بیان کیا ہے۔
 صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے’’انّ رجلا طلّق امراتہ ثلٰثاً فتزوّجتْ فطلّق فسئل النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اتُحلِ للاَوّل قال لا حتیّٰ یذوق عسیلتہا کما ذاق الاوّل‘‘
(بخاری شریف صفحہ: ۷۹۱جلد :۲)
ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اس نے دوسرے شخص سے شادی کرلی اُس نے بھی طلاق دے دی پھر آپ سے دریافت کیا گیاکہ کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں،تا وقتیکہ پہلے شوہر کی طرح دوسرا بھی اس سے صحبت نہ کرے۔
اس حدیث سے ثابت ہواکہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے تواب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے بلا حلالہ شرعیہ حلال نہیں ہوتی۔ یہ فتویٰ خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ کا ہے۔ اس میں یہ نہیں لکھا کہ اُنہوں نے تین طلاق علیٰحدہ علیٰحدہ دی تھیں اورخود نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی یہ تفصیل معلوم نہیں کی۔ اگر یہ ضروری ہوتا تو حضور ضرور اُن سے یہ تفصیل معلوم کرتے کہ الگ الگ طلاق دی یا ایک بار۔
’’طلق رجل امرأتہ ثلاثا قبل ان یدخل بہا ثم بدالہ یندحہا فجاء یستفتی قال فذہبت معہ فسال ابا ھریرۃ وابن عباس فقال لا ینکحہا حتی تنکح زوجا غیرہ فقال انما کان الطلاق ایاھا واحدۃ قال ابن عباس أرسلت من یدک ماکان لک من فضل‘‘( موطا امام محمد صفحہ :۲۵۹)
ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیا صحبت کرنے سے پہلے پھر اس نے چاہا کہ اس سے نکاح لوٹا لے توفتوی لینا چاہا۔ کہتے ہیں کہ میں استفتاء لے کر گیا اورابوہریرہ سے پوچھا توانہوں نے فرمایا تم اس سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے، تواس شخص نے کہا یہ توایک ہی طلاق ہوا، توابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے پاس تمہارے لیے جو بھلائی کی بات تھی تمہیں بتایا۔
مخالفین کا استدلال اوراس کا جواب :وہ حضرات جن کے نزدیک بیک وقت تین طلاق دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے، عام طور پر مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
 ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی نشست میں تین طلاق دے دی، پھران کو اس کا شدید صدمہ ہوا، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت کیا، تم نے کیسے طلاق دی تھی؟ وہ بولے میں نے ان کو تین طلاق دی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ایک ہی نشست میں؟ وہ بولے، جی ہاں! آپ نے فرمایا بے شک یہ ایک ہی ہے،اگرتم چاہو تو رجوع کرلو، چنانچہ آپ نے رجوع کرلیا ۔(مسند اما م احمد)
جواب : اس حدیث کے بارے میں صحاح ستّہ میں سے ایک کتاب کے مصنف جلیل القدر محدث ابوادؤد فرماتے ہیں’’حدیث نافع بن عجیر وعبداللّٰہ بن علی بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہٖ ان رکانۃ طلق امرأتہ فردھا الیہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اصح لان ولدالرجل واہلہ اعلم بہ ان رکانہ طلق امرأتہ البتۃ فجعلہا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واحد ۃ ‘‘ (ابوداؤد صفحہ: ۴۱۹)
نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی روایت اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی تورسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے رجوع کرادیا زیادہ صحیح ہے۔( یعنی ابن عباس کی حدیث کی بہ نسبت) کیونکہ انسان کی اولاد اورگھر والے ہی ایسے معاملات کی زیادہ خبر رکھتے ہیں۔بے شک رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی تھی، اس کو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک طلاق قراردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت امام ابوداؤد کا استدلال بالکل عقل کے عین مطابق ہے۔ طلاق ایک گھریلو واقعہ ہوتی ہے،ظاہر ہے کہ ابن عباس کی بہ نسبت خود رکانہ کے بیٹے و پوتے اس معاملہ پرزیادہ صحیح روشنی ڈال سکتے تھے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے ’’ صاحب البیت ادریٰ بما فیہ‘‘  یعنی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ چنانچہ انہو ں نے بیان کردیا کہ یہ طلاق البتہ تھی۔ لفظ البتہ کنایات میں سے ہے، اس سے ایک طلاق کا ارادہ کرنا درست ہے ۔ رہی ابن عباس کی روایت تو وہ انہوں نے اپنی فہم کے مطابق البتہ کو بمعنی ثلاث کے لیتے ہوئے روایت کردی ہوگی۔ چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن حجر نے اس توجیہ کو معقول قراردیا ہے ۔(علامہ ابن حجر، فتح الباری)
علاوہ ازیں ابن عباس والی روایت میں ایک راوی محمد بن اسحاق ہیں جو حدیث میں ضعیف ہیں، اور پھرسب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا فتویٰ خود اپنی روایت کے خلاف موجود ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لڑکے کے پاس تھا، اسی اثنا میں ایک شخص آیا اوراس نے کہا میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہے ۔ابن عباس قدرے خاموش ہوئے تومیں سمجھا کہ اب یہ اس کو رجوع کا حکم دیں گے(کیونکہ ان کی روایت سے یہی ثابت ہوتا  ہے۔) پھر وہ بولے تم لوگ احمقانہ باتیں کرتے ہو۔(یعنی بیک وقت تین طلاق دیتے ہو۔) پھر کہتے ہو اے ابن عباس! اے ابن عباس!
ابوداؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حمید اعرج نے مجاہد سے ، شعبہ نے عمروبن مرہ عن سعید بن جبیر، ایوب نے اورابن جریح نے عکرمہ بن خالد عن سعید بن جبیر، اور ابن جریح نے عمروبن دینار سے ان سب نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے تین طلاقوں کو واقع مانا۔ یعنی یہ کہ تین طلاق تین ہی ہوںگی۔ (ابوداؤد شریف صفحہ : ۲۱۸،جلد: ۱)
جب ایک شخص خود ہی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ صادر کررہا ہے توکیا یہ اس امر کا کُھلا ہواثبوت نہیں کہ یا تواس نے روایت سے رجوع کرلیا، کیوں کہ روایت اس کی اپنی فہم سے تھی یااس نے اس کی کوئی تاویل کی۔ بہر حال جو خود ابن عباس کا فتوی بھی ہے کہ بیک وقت دی جانے والی تین طلاق نافذ ہے تواب جھگڑا کیا رہ گیا؟ اسی روایت میں ’’طلق امرأتہ ثلاثا‘‘کا لفظ موجود ہے جو متفقہ طورپر بیک وقت تین طلاقوں کے لیے مستعمل ہیں۔اس سے پتہ چلا کہ دوسرے مقامات پران الفاظ کو علیٰحدہ علیٰحدہ تین طلاقوں پرمحمول کرنا تکلف ہے۔
دوسری حدیث غیر مقلدین یہ پیش کرتےہیں’’عن ابن عباس قال کان الطلاق علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافہ عمر طلاق الثلاث واحدۃً فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃً فلومضـیناہ علیہم فامضاہ علیہم‘‘  
  (مسلم شریف صفحہ: ۷۸جلد:۱؍ا  بوداؤدشریف صفحہ: ۲۱۸)
ابن عباس سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورابوبکر کے عہدمیں اورحضرت عمر کے زمانہ خلافت میں دوسال تک تین طلاق ایک تھی توعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بے شک لوگوں نے اس کام میں جلدی کی جس میں ان کے لیے مہلت تھی، کاش ہم اس کو ان پرنافذ کردیں پھر آپ نے اس کو ان پرنافذ کردیا۔
یہی حدیث طاؤس اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ابو الصہبا نے ابن عباس سے دریافت کیا ’’اتعلم انماکانت الثلاث تجعل واحدۃ علے عہدہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وابی بکر وثلاثا من امارۃ عمر فقال ابن عباس نعم‘‘
(مسلم شریف صفحہ: ۴۷۸جلد:۱) 
( ترجمہ)کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورابوبکر کے عہد میں اورحضرت عمر کے زمانۂ خلافت کے تین سال تک تین طلاقوں کو ایک ہی کردیا جاتا تھا توابن عباس نے فرمایا، ہاں’’ان ہی‘‘ ابوالصہباء نے ابن عباس سے کہا’’ھات من ھناتک الم یکن صلی اللّٰہ علیہ وسلم وابی بکر واحدۃ فقال قدکان ذالک فلما کان فی عہد عمر تتابع الناس فی الطلاق فاجازہ علیہم‘‘      (مسلم شریف صفحہ: ۴۷۸جلد:۱)
لائیے! اپنی عجیب باتوں سے کیا تین طلاق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورابوبکر کے عہد میں ایک نہ تھی، وہ بولے بیشک ایسا ہی تھا،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں لوگ پے درپے طلاق دینے لگے توآپ نے اس کو ان پر نافذ کردیا۔
یہ ہے وہ روایت جس سے غیر مقلدین استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورابوبکر کے عہد میں تین طلاق ایک ہی سمجھی جاتی تھی۔ لہٰذا اب بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔
جواب:یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ یہ مسئلہ معمولی نوعیت کا نہیں حلال وحرام کا مسئلہ ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس کی شان یہ ہے کہ حق عمر کی زبان پرجاری ہوتا تھا،جو آپ کے دل میں آتا، وہ وحی بن کرنازل ہوتا، جن کی پیروی کا خود سرکارِدوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کی سنت کو بدل دیں؟ اورحلال کو حرام قرار دے دیں ؟ اورپھر صرف حضرت عمر ہی  کا معاملہ نہیں، حضرت عثمان، حضرت علی، عشرہ مبشرہ، اورخود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اورتمام صحابہ رضی اللہ عنہم ،حضرت عمر کے اتنے اہم فیصلے پر متفق ہوگئے، برائے نام اختلاف نہیں کیا، اورنہ کسی نے یہ کہا کہ اے عمر !تم کوسنّت رسول اورسنت ابوبکر بدلنے کا کیا حق ہے؟ حالانکہ اس زمانہ میں خلیفہ کی ذات تنقید سے بالاتر نہیں تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے کرتے کا واقعہ مشہو رہے۔ کئی مسائل میں اپنے دوسرے صحابہ کے اقوال کی طرف رجوع کرلیا تھا، کیا یہ سب کچھ اس امر کی واضح دلیل نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سنت رسول اللہ اورسنت ابوبکر کے مطابق ہی تھا، کیوں کہ وہ حضرات منشاء رسول کو بہ نسبت ہماری زائد سمجھتے تھے، اورہماری بہ نسبت عمل پر بھی زائد حریص تھے، اب ہمارے سامنے دوراستے ہیں۔ ایک طرف توتما م صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اوراتفاق (جو یقینا منشاء رسول کے خلاف نہیں ہوسکتا ہے) اوردوسری طرف غیر مقلدین کے چندمولوی صاحبان کا دعوائے حدیث دانی ہے۔ اب مسلمان خودفیصلہ کرلیں انہیں کس کی بات ماننا ہے؟
آئیے اب ذرامحدثین نے اس روایت کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:
 امام نووی ابن عباس کی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں’’ھٰذہ الروایۃ لابی داؤد ضعیفۃ رواہ ایوب السنحتیانی عن قوم مجہولین عن طاؤس عن ابن عباسٍ فلا یحتج بہا‘‘
ابوداؤد کی یہ روایت ضعیف ہے۔ اسے ایوب سختیانی نے مجہول لوگوں سے، طاؤس سے، ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں۔
اس حدیث میں ابن عباس تین طلاق کا حکم نہیں بیان کررہے ہیں، بلکہ محض ایک واقعہ کا ذکر کررہے ہیں کہ لوگ پہلے زمانہ میں آج کل کی طرح تین طلاق نہیں دیتے تھے بلکہ ایک ہی دیا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ اس سلسلے میں بہت واضح ہیں۔’’ انما الثلاث تجعل واحدۃ‘‘ یعنی تین طلاق جو آج کل دی جارہی ہے (کیو ں کہ الف لام عہد کا ہے) ان کی بجائے ایک ہی دی جاتی تھی۔ قرآن کریم میں بہت مقامات پرجعل اس معنی میں مستعمل ہوا ہے جیسے ‘’’اجعل الالہۃ اِلٰہًا وّاحدۃ‘‘ کیااس نے کئی معبودوں کوایک کردیا ہے؟ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ مثلاً سوپچاس معبودوں کو چھوڑ کر ایک ہی معبود برحق کا اعتقاد کیا ہے۔لہٰـذا لوگوں کا یہ کہنا کہ جب حضور کے زمانہ میں تین طلاق دی ہی نہیں جاتی تھی توایک کس چیز کو کہا جاتا تھا، درست نہیں۔
علامہ نووی فرماتے ہیں ، اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ابتداء میں جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ’’ انت طالق،انت طالق،انت طالق‘‘ کہتا اورا س کی مُراد اس سے نہ تو تاکید کی ہوتی اورنہ استیناف، بلکہ مطلق کہہ دیتا‘‘ توایک ہی طلاق کے واقع ہونے کا حکم دیا جاتا تھا، کیوں کہ وہ حضرات اس سے عام طورپر استیناف مراد نہیں لیتے تھے بلکہ تاکید کا ارادہ کرتے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس لفظ کا استعمال بہت ہوگیا اورلوگ عام طور پر اس سے استیناف کا ارادہ کرنے لگے تو اس کو غالب پرمحمول کرتے ہوئے تین طلاقوں کا حکم کیا جانے لگااوردوسرے جوابات بھی ہیں، جو مبسوط کتب میں درج ہیں۔
چاروں اماموں کا فیصلہ:بعض لوگ سوچتے ہیںکہ کسی دوسرے امام کے مسلک پرایسے وقت عمل کرلینا چاہیے، مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت ان چار اماموں کی مقلدہے، ابوحنیفہ، مالک، شافع، احمد بن حنبل، اوران چاروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تین طلاقوں کے بعدعورت حرام ہوجاتی ہے۔(شرح امام نووی علی مسلم شریف صفحہ:۴۷۸)
یکدم تین طلاق دینا بُری بات ہے:یک دم تین طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی مگریہ گناہ کی بات ہے اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس  پرسخت ناراـضگی کا اظہار فرمایا ہے۔
محمود بن لبید سے روایت ہے کہ’’أخبررسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال ایلعب بکتاب اللّٰہ وانا بین اظہر کم حتی قام رجل وقال یا رسول اللّٰہ الا اقتلہ‘‘
(ترجمہ)حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبری دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک دم دیدیں، آپ سن کر ناراضگی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا میرے ہوتے ہوئے اللہ کی کتاب سے مذاق کیا جاتا ہے؟ یہاں تک کہ ایک صحابی اٹھ کھڑے ہوئے اورعرض کی یا رسول اللہ ! کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟
ضروری گذارش:بعض دوستوں کا خیال ہے کہ عورتوں کے مصائب اور ان کی تکالیف دیکھتے ہوئے اس مسئلے میں کچھ لچک اورگنجائش پیداکرنی چاہیے۔ میں خود شدت سے اس امر کا قائل ہوں کہ فروع میں جہاں تک ممکن ہو اہل حضرات اجتہاد فرمائیں اورمسلمانوں کے لیے راہیں تلاش کریں، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہوتے ہیں،اگرکوئی مسئلہ نیا ہوتو اس پرکچھ بحث وتمحیص ہوسکتی ہے اور آسا ن سے آسان راہ تلاش کی جاسکتی ہے لیکن جس مسئلہ کا فیصلہ ہوچکا ہو،صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین فیصلہ دے چکے ہوں اورامت مسلمہ کی بڑی اکثریت اس فیصلہ کو تسلیم کرچکی ہوتو اب اس میں مزید کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟
رہے وہ مصائب جو طلاق کے بعدطرفین کے لیے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ضروری ہےکہ لوگوںکو اس مصیبت میں پڑنے سے پہلے ہی مطلع کردیا جائے ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب دنیاوی قوانین جو خود انسانوں نے بنائے ہیں،ان کے مطابق سخت سے سخت سزائیں موجود ہیں اورنافذ ہیں ان پرکچھ اعتراض نہیں ہوتا، واللہ اوراس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جس قا نو ن سے مجرمین کو تکلیف پہنچتی ہے، اس پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے، اگریہی رجحان رہا تواسلام کی بنیادی تعلیمات کا تحفظ بھی ناممکن ہوجائے گا۔
انتباہ :قارئین پرواضح ہوکہ ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے سے تینوں طلاق واقع ہونے کے سلسلے میں علماء دیوبند بھی متفق ہیں۔ ان سے بھی فتویٰ حاصل کرکے شامل اشاعت کردیا گیا ہے، ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
سوالات:(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کے کہ زید اپنی بیوی کوایک ہی وقت میں اگر تین طلاق دے توکیا حکم ہے آیا طلاق ہوگی یا نہیں؟
(۲) نیز بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں تین طلاق ایک ہی ہوگی۔
برائے کرم مسئلہ کا جواب مدلل تحریر فرما کر ممنون فرمائیں۔
سائل : سیّد شاہ تراب الحق قادری ،اپریل 1981ء 
الجواب باسمہٖ تعالی:۔ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت ایک کلمہ میں تین طلاق دے توتینوں طلاق واقع ہوتی ہیں اوراگر تین طلاق بیک وقت تین کلمات میں دیں توپھر تینوں واقع ہوں گی اگر بیوی مدخو ل بہا ہو، اسی پرسلف صالحین کا اجماع ہے حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری جلدنمبر۹؍ میں اس پراجماع نقل کیا ہے اوریہی مذہب عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے جس کو حافظ نے فتح الباری میں نقل فرمایا ہے۔
قرآن کریم سے بھی یہی مفہوم ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دوطلاقوں کے ذکر کرنے کے بعد فرمایا’’فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلَُ لَّہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہ‘‘فاء تعقیب مع الوصل کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ تیسری طلاق اگردو طلاقوں کے بعد متصل ہوتو تینوں طلاق واقع ہوکر بغیر حلالہ کے کوئی صورت تحلیل کی نہیں ہے۔ قرآن سے یہی مسئلہ واضح طورپر معلوم ہوتا ہے اوراسی پرامام نووی نے شرح مسلم جلد۲؍پرائمہ اربعہ اورسلف وخلف کا اجماع نقل کیا ہے صفحہ:۴۰۸؍ بخاری شریف کی حدیث ہے’’عن عائشۃ ان رجلا طلق امرأتہ ثلاثا فتزوجت فطلق نسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل الاول قال لا حتی یذوق علیتہا کما زاتہا الاول‘‘( بخاری شریف صفحہ:۷۹۱جلد: ۲)
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ۔اس کے متعلق آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا پہلے خاوند کے لیے حلال ہوسکتی ہے؟ آنحضور نے فرمایا کہ نہیں جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے لطف اندوز نہ ہو، جیسا پہلا خاوند لطف اندوز ہواتھا۔
اسی قسم کی ایک اورروایت بھی حضرت عائشہ سے موجود ہے۔ سنن کبریٰ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے توجب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے پہلے کے لیے حلال نہیں ہے۔ یہی مذہب عبداللہ بن عباس کا ہے جس کو سنن کبریٰ صفحہ:۵۴ جلد:۸ میں نقل کیا ہے ۔مسند اما م احمد میں انس بن مالک سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ دریافت کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی پھر اسی عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کیا اوراس نے اس کو طلاق قبل الدخول دی ،تو کیا یہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں،جب تک شوہر ثانی شوہراوّل کی طرح مباشرت نہ کر ے ۔ (تفسیر ابن کبیر)
سنن بیہقی میں سویدبن غفلہ سے مروی ہے کہ عائشہ خثمیہ حضرت حسن بن علی کی زوجیت میں تھیں، جب حضرت علی شہید ہوئے توخثمیہ نے حضرت حسن کوخلافت کی مبارکباددیحضرت حسن کو یہ بات ناگوار گذری کہ آپ کو حضرت علی کی شہادت سے خوشی ہوئی۔
فرمانے لگے’’ اذھبی فانت طلالق ثلاثا‘‘حضرت حسن نے اس کا بقیہ مہراوردس ہزار درہم بھیج دیئے، عائشہ خثمیہ کو صدمہ ہوا، حضرت حسن نے فرمایا کہ اگرمیں اپنے جدامجد کا یہ قول نہ سنتا تورجوع کرتا۔ وہ قول یہ ہے کہ جوشخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے حیض کے وقت یا اورکسی طرح تووہ اس کے لیے حلال نہیں، یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور بھی بہت سے روایات ہیں جن کے نقل کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔
دوسرے مسئلہ میں بعض مدعیان حدیث نے دوسرا مسلک اختیار کیا ہے اوروہ یہ کہ تین طلاق بیک وقت ایک ہوتی ہے جن کا استدلال اس حدیث سے ہے جوابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کے راوی حضرت طاؤس ہیں، وہ یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  اورحضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے ابتدائی دوسال میں تین طلاق ایک ہوتی تھی ۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ لوگوں نے اپنے معاملہ میں جلد بازی سے کام لیا ، حالانکہ ان کو سمجھنے کا وقت حاصل تھا۔ ہم کیوں تینوں کو ان پر نافذ نہ کریں چنانچہ حضرت عمر نے تینوں نافذ کیں ۔ (مسلم شریف)
اس روایت کے بہت سے معقول جوابات دیئے گئے ہیں جن میں سب سے آسان جواب یہ ہے کہ یہ غیر مدخول بہا کے بارے میں ہے جس کو’’انت طالق، انت طالق، انت طالق‘‘ کہا جائے تو اس صورت میں ایک طلاق واقع ہوتی ہے، پھر جب لوگوں نے مدخول بہا کو بھی کہنا شروع کیا توحضرت عمر نے فرمایا کہ تینوں نافذ ہوں گی۔ نیزقاضی شوکانی نے امام احمدبن حنبل سے نقل کیا ہے کہ طاؤس کی روایت اپنے دوسرے ساتھیوں کے خلاف ہے، کیوں کہ وہ اس کے خلاف نقل کرتے ہیں۔ (نیل الاوطار) یایہ روایت منسوخ ہے۔ جیسا کہ ابوداؤد کی روایت سے معلوم ہوتاہے یا پہلے زمانے کے لوگ تثلیث تاکید کے لیے کرتے تھے۔ مجھے بعدمیں تاسیس کرتے ہوئے بھی تاکیدظاہر کی توحضرت عمر نے ظاہر پرعمل کرتے ہوئے تاکید کوکالعدم بنایا ۔ حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر یہ گمان کرنا کہ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورابوبکر کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ کیا، نہایت بعید اورحضرت عمر کی شان اتباع سے کوسوں دُور ہے۔
فقط واللہ السلام
کتبہ رضاء الحق عفا اللہ عنہ 
جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نمبر5
3جمادی الثانیہ 1401ھ 
الجواب دوم 
(تلخیص فتو یٰ دارالعلوم کراچی)
قرآنی آیات و احادیث رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، اجماع صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اورجمہورامت کا اس پر اتفاق اوراجماع چلا آرہا ہے کہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے توتینوں واقع ہوجائیں گی، چاہے ایک ہی لفظ میںدے۔ (ہر حالت میں تین طلاق واقع ہوں گی) البتہ عورت اگر مدخولہ بہا ہوتوالگ الگ کہنے کی صورت میں صرف پہلی طلاق واقع ہوگی، اوراس سے وہ بائن ہوجائے گی اورباقی دولغو ہوجائیں گی۔
اس مسئلہ میں چند غیر مقلدین کے علاوہ جن میں حافظ ابن تیمیہ اورحافظ ابن قیم اوران کے متبعین شامل ہیں۔ جمہور کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی اور مخالفت کیونکر کرتے ، جب کہ خود آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارکہ میں تین طلاق کو تین ہی قرار دیا گیا اورآپ کے بعد صحابۂ کرام کا اس پر اجماع رہا ہے۔جو حضرات ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کوایک طلاق ہونے کے قائل ہیں، ان کے پاس ایک بھی صحیح مرفوع روایت موجود نہیں ہے جو ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے ایک طلاق ہونے پر دلالت کرنے والی ہو، اس کے برخلاف ذخیرۂ احادیث میں عہدِ رسالت کے متعدد واقعات موجو دہیں جن سے ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے ہی طلاق واقع ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جمہورِ امت کے ساتھ منسلک رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب               
احقر عبدالشکور کشمیری             
دارالافتاء دارالعلوم کراچی  13؍6؍1401ھ
الجواب صحیح: احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ، دار الافتاء دارالعلوم کراچی 
٭٭٭



طلاق ثلاثہ کا اسلامی تصور
مفتی محمد نظام الدین رضوی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’اَلْطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمسَاکٌ بِمَعْرُوْفِِاَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَا نِ ‘‘ 
(سورہ البقرہ۲۲۹)
طلاق دو بارتک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ۔
اس کے بعد آیت ۲۳۰؍میں فرمایا گیا’فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلَُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہ
پھر اگر شوہر نے اسے (تیسری) طلاق دے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرے شوہر کے پاس رہے۔
ان آیات میں تینوں طلاقوں کا حکم بیان کیا گیا ہے :
٭ایک اور دو طلاق تک شوہر کو رجعت کا اختیار ہے، چاہے تو عورت کو واپس کر لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔
٭تیسری طلاق کے بعد رجعت کا اختیار نہ رہے گا اور عورت بغیر حلالہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی۔
حکم تینوں طلاق کا بیان کر دیا گیا، لیکن کسی بھی طلاق کے ساتھ یہ شرط نہیں ذکر کی گئی کہ وہ الگ مجلس میں ہو، بلکہ ان احکام کو مطلق ،بلاشرط و قید رکھا اور قاعدہ یہ ہے کہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے۔لہذا قرآن حکیم میں ہر طلاق کا جو حکم بیا ن کیا گیا ہے وہ بہر حال جاری ہوگا، خواہ شوہر نے ایک ہی مجلس میں دوسری یا تیسری طلاق دی ہویا الگ الگ مجلس میں۔ ہاں اگر قرآن پاک میں یہ ہوتا:’’فان طلقہا فی مجلس اٰخر‘‘( اگر تیسری طلاق الگ مجلس میں دے دی) تو مجلس کی شرط قابل اعتناء ہوتی لیکن قرآن حکیم میں ایسا کہیں بھی نہیںاس لیے یہ شرط قرآن پر زیادتی ہے ۔ 
علاوہ ازیں عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ ’’فائ‘‘ تعقیب مع الفور کے لیے ہے یعنی جس چیز پر فاء داخل ہوتی ہے وہ چیز فاء کے ماقبل کے بعد فوراً ہوتی ہے، جیسے کسی نے کہا’’جاء نی زید فعمرو‘‘ آیا زید پھر عمرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر و زید کے بعد فوراً آیا اور اگر آنے میں کچھ دیر ہو تو عرب فاء کے جگہ ’’ثم‘’ لا تے ہیں ۔ قرآن حکیم میں تیسری طلاق کا ذکر ’’ثم ‘‘ کے لفظ سے نہیں، بلکہ فاء کے لفظ سے ہے ،تو اس کا صریح مطلب یہ ہوا کہ دو طلاق کے بعد اگر اسی مجلس میں فوراً بلا تاخیر تیسری طلاق دے دی تو یہ طلاق بھی نافذ ہو جائے گی کہ ’’فوراً‘‘ کا لفظ اسی وقت صادق آئے گا جب کہ مجلس ایک ہو، اصول فقہ کی مشہور کتاب ’’منار‘‘ اور‘‘ نور الانوار‘‘ میں ہے:
’’والفاء للوصل والتعقیب، ای لکون المعطوف موصولا بالمعطوف علیہ متعقبا لہ بلا مہلۃ فیتراخی المعطوف عن المعطوف علیہ بزمان، و ان قل ذلک الزمان بحیث لا یدرک اذ لو لم یکن الزمان فاصلاًاصلا کان مقارنا تستعمل فیہ کلمۃ مع‘‘(صفحہ:۱۲۳)
حرف فاء تعقیب مع الوصل کے لیے ہے یعنی یہ بتانے کے لیے ہے کہ معطوف، معطوف علیہ کے بعد ہے اور ساتھ ہی بلا مہلت اس سے متصل بھی ہے، تو معطوف کا زمانہ معطوف علیہ کے بعد ہوگا، اگر چہ وہ زمانہ اتنا کم ہو کہ اس کا احساس نہ ہو سکے، کیوں کہ اگر زمانہ بالکل ہی فاصل نہ ہو تو مقارن ہوگا اور مقا ر نت بتانے کے لیے ’’مع‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
غیر مقلدوں کے نزدیک بھی حرف فا ء کا یہی مفہوم ہے۔چنانچہ ان کے امام مجتہد ملا نذیرحسین دہلوی نے اپنی کتاب’’ معیار الحق‘‘ کے آخر میں جمع بین الصلاتین کی بحث میں یہ لکھا ہے:’’فاء ترتیب بے مہلت کے لیے ہے۔‘‘
یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ کتاب و سنت کا نام لےکر جو فتنہ قرب قیا مت میں اٹھایا جانے والا تھااس کا سد باب اس نے اپنے نظم بیان کے ذریعہ تنزیل کے وقت ہی فرمادیا۔
 صحاح ستہ کی مشہور کتاب ’’سنن ابن ماجہ شریف‘‘ میں ایک باب ہے’’باب من طلق ثلاثا فی مجلس واحد‘‘ ایک مجلس میں تین طلاق کا بیان۔
پھر اس کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے:حضرت عامر شعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فاطمہ بنت قیس سے کہا کہ آپ مجھے اپنی طلا ق کا واقعہ بتائیں، تو انہوں نے کہا:’’طلقنی زوجی ثلاثا، وہو خارج الی الیمن فاجاز ذلک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم‘‘
(ترجمہ)میرے شوہر نے یمن کے لیے( گھر سے) نکلتے وقت مجھے تین طلاق دے دیں، تو اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تینوں طلاق نافذ فرما دیں۔                         (سنن ابن ماجہ صفحہ:۱۴۷)
’’یمن کو نکلتے وقت تین طلاق دینے‘‘ کے لفظ سے عیاں ہو رہا ہے کہ فا طمہ بنت قیس کے شوہر نے ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی، اس کی تائید اسی حدیث کی دوسری روایت سے ہوتی ہے، جسے حدیث کی مستند کتاب ’’دار قطنی‘‘ میںان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے’’ان حفص بن المغیرہ طلق امرا تہ فاطمۃ بنت قیس علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلث تطلیقات فی کلمۃ واحدۃ فابانہا منہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔‘‘
حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زما نے میں ایک ہی جملہ میںتین طلاق دے دی، تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ سلم نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ (دار قطنی صفحہ۴۳۰، جلد:۲)
حدیث پاک کی دونوں روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں اور ایک ہی جملہ میں دی گئی تین طلاقوں کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نافذ کر دیا، یہی وجہ ہے کہ محدث ابن ماجہ نے اس حدیث کو ’’ایک مجلس میں تین طلاق‘’ کے عنوان کے تحت نقل کیا ہے۔
مشہورصحابیٔ رسول حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں، میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا’’بانت بثلث فی معصیۃ اللّٰہ تعالٰی و بقی تسع مائۃ و سبع و تسعون عدوانا وظلما‘‘
(ترجمہ)تین طلاقوں سے عورت نکاح سے نکل گئی، مگر شوہر اللہ کا نافر ما ن و معصیت کار ہوا ،اور بقیہ نو سو ستانوے (۹۹۷) طلاق ظلم و سرکشی ہے۔
 (  صنف عبد الرزاق، صفحہ:۳۹۳، جلد:۶؍ دارقطنی، صفحہ:۴۳۳، جلد:۲)
ظاہر ہے کہ یہ ہزار طلا ق ہزار مجلسوں میں نہیں دی گئیں،بلکہ غصہ کی وجہ سے ایک ہی مجلس میںسب طلاق دی گئیں، خواہ ایک کلمہ میں، یا لگاتار کئی کلموں میں۔سب جانتے ہیں کہ جب شوہروں کو طلاق کا جوش آتا ہے تو وہ ایک ساتھ بہت سی طلاق دے بیٹھتے ہیں۔
 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میںطلاق دے دی تو اس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غضب ناک ہو گئے اور انہیں رجعت کا حکم دیا، تو انہوں نے پوچھا  یارسو ل اللّٰہ !ارایت لو طلقتہا ثلاثا؟ قال اذا قد عصیت ربک،و بانت منک امراتک‘‘
یا رسول اللہ !اگر میں نے اسے تین طلاق دے دی ہوتی تب کیا حکم ہوتا؟ آپ نے فرمایا تم خدا کے نافرمان ہوتے اور تمہاری بیوی تمہارے نکاح سے نکل جاتی ۔
اس حدیث پاک سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا گناہ ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غضب ناک ہوئے تھے، یوں ہی تین طلاق ایک ساتھ دینا بھی گناہ و معصیت ہے۔
دوسری بات یہ کہ حیض کی حالت میں بھی اگر کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو تینوں طلاق پڑ جائیں گی اورعورت نکاح سے نکل جائے گی کیوں کہ حضرت ابن عمر نے جو سوال پوچھا تھا اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک طلاق پر تو رجعت کا حکم ہے لیکن اگر میں نے ایک کے بجائے تین طلاق دے دی ہوتی تب کیا حکم ہوتا؟ کیا اس صورت میں بھی رجعت کا اختیار رہتا؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا سوال ایک ساتھ تین طلاق کے بارے میں تھا اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ عورت حائضہ ہو۔
غورفرمائیے، یہاں دو طرح سے خدائے پاک کی نافرمانی کا ارتکاب ہو رہا ہے:
(1) ایک تو حیض کی حالت میں طلاق دینے کا۔
(2) دوسر ے ایک ساتھ تین طلاق دینے کا۔
پھر بھی رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں یہ حکم سنا دیا کہ طلاق پڑ جائے گی۔ عورت نکاح سے نکل جائے گی، تو اگر کوئی ایک ہی نافرمانی کا ارتکاب کرے کہ طہر کی حالت میں ایک ساتھ تین طلاق دے دے تو اس صور ت میں بدرجۂ اولیٰ تینوں طلاق پڑ جائیں گی۔
نافع  بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو ’’طلاق بتہّ‘‘ دے دی پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو واقعہ کی خبر دی اور عرض کیا کہ خدا کی قسم میں نے صرف ایک طلاق کی نیت کی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا: خدا کی قسم تو نے صرف ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی؟تو رکانہ نے عرض کیا کہ خدا کی قسم میں نے صرف ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں لوٹا دی۔ (سنن ابی داؤد، صفحہ:۳۰۰، جلد :1؍ابن ماجہ صفحہ:۱۴۰)
یہ روایت ہے حضرت رکانہ کے ایک پوتے حضرت نافع بن عجیر کی اور انہیں کے دوسرے پوتے عبد اللہ بن علی نے بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا ہے۔ البتہ ان کی روایت میں سرکار کے جواب کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں’’ہو علی مااردت ‘‘ طلاق وہی پڑی جس کی تو نے نیت کی۔(ایضا)
’’بتّہ ‘‘ کا لفظ مصدر ہے اور مصدر فرد حقیقی کا بھی احتمال رکھتا ہے اور فرد حکمی کا بھی۔ طلاق کا فرد حقیقی ایک ہے اور فرد حکمی تین، تو طلاق بتّہ کے لفظ میں ’’ایک‘‘ اور ’’تین‘‘ دونوں ہی افراد کا احتمال ہے۔اب کسی بھی ایک احتمال کی تعیین ہو گی’’ بیانِ نیت‘‘ سے۔ اسی لیے حضرت رکانہ نے خود ہی اپنی نیت بتادی کہ میں نے ایک طلاق مرادلی ہے، مگر ایک طلاق مراد لینے میں چوں کہ تہمت کا شبہ ہے کہ بیوی کو بچانے کے لیے احتمال کا فائدہ اٹھایا، اس لیے انہوں نے قسم بھی کھالی کہ شبۂ تہمت کی صورت میں بیانِ نیت کا اعتبار قسم کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور اس کی مزید توثیق کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے دوبارہ قسم لی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر حضرت رکانہ نے’’طلاق بتّہ‘‘ سے تین طلاق مراد لی ہوتی تو ان کی بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوتی۔ اگر تین طلاق کے پڑنے کا احتمال نہ ہوتا تو حضرت رکانہ، نہ تو قسم کھاتے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قسم لیتے، ایسی صورت میں قسم لینا اور قسم کھانا دونوں لغو ہوتا، لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قسم لی اور حضرت رکانہ نے قسم کھائی تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر ان کی نیت تین طلاق کی ہوتی تو گو کہ وہ لفظ انہوں نے ایک مجلس میں اور ایک ہی دفعہ میں کہا تھا ،تاہم سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فیصلہ یہی ہوتا: ’’ہوعلی ما اردت‘‘طلاق وہی پڑی جس کی تو نے نیت کی،یعنی تین طلاق۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا، ایک شخص ان کے پاس آیا اور عرض کی کہ ’’انہ طلق امراتہ ثلاثا‘‘اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہیتو حضرت ابن عباس خاموش رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ یہ اسے رجعت کا حکم دیں گے، کچھ دیر بعد فرمایا : تم میں ایک آدمی حماقت کر بیٹھتا ہے، پھر کہتا ہے: اے ابن عباس، اے ابن عباس! حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے:’’و من یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجا‘‘جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (گنجائش کی) راہ نکال دیتا ہے۔اور تم تو اللہ سے ڈرے نہیں، تو میں تمہارے لیے کوئی گنجائش کی راہ نہیں پاتا’’عصیت ربک و بانت منک امراتک‘‘تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تیرے نکاح سے نکل گئی۔(سنن ابی داؤد شریف، صفحہ ۲۹۹،جلد:۱)
حضرت مجاہد کے علاوہ حضرت سعید بن جبیر، حضرت عطائ، حضرت مالک بن حارث، حضرت عمرو بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی حضرت ابن عباس کا یہی فتویٰ بیان کیا ہے۔ چنانچہ ابو داؤد شریف میں ہے’’روی ہذا الحدیث حمید الاعرج وغیرہ عن مجاہد و عن سعید بن جبیر و عن عطاء و عن مالک بن الحارث و عن عمرو بن دینار عن ابن عباس، کلہم قالوا فی الطلاق الثلاث انہ اجازہا، قال: وبانت منک‘‘
اس حدیث کو حمید اعرج وغیرہ نے مجاہد، سعید بن جبیر، عطا، مالک ابن حارث اور عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے کہ یہ سب حضرات بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے سائل کی تینوں طلاقوںکو نافذ کر دیا اور فرمایا کہ تیری عور ت نکاح سے نکل گئی۔ 
(اودائود شریف ص:۲۹۹ جلد:۱)
 اسی نوع کے ایک دوسرے واقعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہی فتویٰ صادر کیا۔ چنانچہ حدیث کی مستند کتاب مؤطا امام مالک میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے کہا’’انی طلقت امراتی مائۃ تطلیقۃ فماذا تری علیّ؟‘‘میں نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے ڈالی ہیں، تو آپ مجھے کیا فرماتے ہیں؟
اس کے جواب میں حضرت ابن عباس نے فرمایا’’طلقت منک بثلاث، و سبع و تسعون اتخذت بہا اٰیات اللّٰہ ہزوا، رواہ فی المؤطا‘‘تیری عورت پر تین طلاق پڑ گئیں اور ستانوے طلاق دے کر تو نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ ٹھٹھا کیا ہے۔            
( مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ مؤطا امام مالک ،صفحہ:۲۸۴)
 ان ابن عباس و أبا ہریرۃ و عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص سئلوا عن البکر یطلقہا زوجہا ثلاثا؟ فکلہم قالوا: لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ۔‘‘
حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے سوال کیا گیا کہ دوشیزہ کو اس کا شوہر تین طلاق دے دے تو اس کا حکم کیا ہے؟ تو ان سب حضرات نے فرمایا کہ وہ عورت اپنے شوہر کے لیے حلال نہ رہی، تا وقتیکہ حلالہ نہ ہو جائے۔ 
( طحاوی  شریف، صفحہ:۳۳، جلد:۲؍ مصنف عبد الرزاق ،صفحہ: ۳۳۳ جلد:۶)
’’دوشیزہ‘‘ سے مراد وہ عورت ہے جس کے ساتھ اس کے شوہر نے ابھی جماع نہ کیا ہو نہ خلوت واقع ہوئی ہواسے فقہاء کی اصطلاح میں ’’غیر مدخولہ‘‘ کہتے ہیں۔غیر مدخولہ کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ اگر اس کا شوہر الگ الگ نشستوں میں اسے تین طلاق دے تو اس پر صرف ایک ہی طلاق پڑے گی، کیوں کہ اس عورت کا رشتۂ نکاح شوہر سے خوب مضبوط نہیں ہوتا، اس لیے ایک ہی طلاق سے وہ نکاح سے نکل جاتی ہے اور بقیہ طلاق لغو ہوتی ہیں، بلکہ اگر ایک ہی مجلس میں شوہر اسے طلاق دے لیکن تین بار میں دے تو بھی بالاتفاق ایک ہی طلاق پڑے گی۔ وجہ وہی ہے جو بیان ہوئی ، غیر مدخولہ پر تین طلاق پڑنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ:
٭ شوہر اسے ایک ہی مجلس میں طلاق دے ۔
٭ایک ہی مرتبہ اور ایک ہی کلمہ میں تین طلاق دے، مثلاً یہ کہے کہ میں نے تم کو تین طلاق دیا۔
اس لیے غیر مدخولہ کے بارے میں حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا درج بالا فتویٰ اس امر کا قطعی و یقینی ثبوت ہے کہ ایک مجلس اور ایک کلمہ میں دی ہوئی تینوں طلاق تین واقع ہوتی ہیں۔
اس حدیث کی دوسری روایت مؤطا امام مالک میں ہے، اس وجہ سے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہو کر ثابت ہو جاتا ہے، اب دوسری روایت بھی ملاحظہ کیجیے:
محمد بن ایاس بن بکیر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ دخول سے پہلے اسے تین طلاق دے دی، پھر ان کا خیال اس عورت سے نکاح کا ہوا تو وہ فتویٰ پوچھنے آئے، میں بھی ان کے ساتھ گیا، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابو ہریرسے اس کے بارے میں دریافت کیا،تو دونوں حضرات نے فرمایا’’لانری أن تنکحہا حتیٰ تنکح زوجا غیرہ، قال: فانما کان طلاقی ایاہا واحدۃ؟ فقال ابن عباس: انک ارسلت من یدک ما کان لک من فضل۔‘‘
اس عورت کے ساتھ تیرا نکاح حلال نہیں تاآنکہ وہ دوسرے شخص کے پاس رہے، (یعنی حلالہ کرائے) اس شخص نے کہا کہ میں نے تو اسے صرف ایک دفعہ طلاق دی ہے؟ تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تیرے لیے جو مزید (دو دفعہ طلاق دینے کا) اختیار تھا تو نے اسے بھی اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔  (فتح القدیر صفحہ: ۴۶۹؍ ۴۷۰، جلد:۳)
یعنی ایک ہی دفعہ میں جب تو نے تینوں طلاق دے دی تو تجھے اب مزیدطلاق دینے کا اختیار نہ رہا کہ شوہر تین ہی طلاق کا مالک ہوتا ہے۔
اس حدیث پاک سے بہت کھل کر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک مجلس اور ایک کلمہ میں دی ہوئی تین طلاق تین پڑتی ہیں۔
 حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی’’انی طلقت امراتی تسعا و تسعین فقال لہ ابن مسعود، ثلاث تبینہا و سائر ہن عدوان‘‘میں نے اپنی بیوی کو ننانوے (۹۹)طلاق دی ہیں تو حضرت ابن مسعود نے فرمایا: تین طلاقوں سے وہ نکاح سے نکل گئی اور بقیہ طلاق تیری سرکشی ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق، ص:۳۹۵)
 حبیب بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت علی بن ابو طالب کی خدمت میں آیا اور عرض کی’’انی طلقت امرأتی ألفا ،فقال لہ علی :بانت منک بثلاث و اقسم سائرہن علی نسائک‘‘ 
میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار(۱۰۰۰) طلاق دے دی ہے تو حضرت علی نے فرمایا: تین طلاق سے تو تیری عورت تجھ سے جدا ہو گئی اور بقیہ طلاقیں اپنی دوسری بیویوں میں تقسیم کردو۔                  (مصنف عبد الرزاق، نقلہ فی فتح القدیر)
ایک شخص نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیا’’انی طلقت امرأتی ثمانی تطلیقات فقال ما قیل لک؟ فقال : قیل لی: ’’بانت منک‘’ قال صدقوا، ہو مثل ما یقولون۔‘‘ 
میں نے اپنی بیوی کو آٹھ(8) طلاق دے دی ہے تو حضرت ابن مسعود نے پوچھا، تمہیں اس کا حکم کیا بتا یا گیا؟، سائل نے کہا مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تیری عورت تجھ سے جدا ہو گئی، تو حضرت ابن مسعود نے فرمایا صحابہ نے سچ بتایا، حکم وہی ہے جو وہ بتا رہے ہیں۔(مؤطا امام مالک)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق سے ظاہر یہی ہے کہ اس حکم پر صحابۂ کرام کا اجماع تھا۔
یہ اور اس طرح کے بہت سے آثار صحابہ نقل کرنے کے بعد امام ابن ہمام کمال الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہونے پر صحابۂ کرام کا اجماع ظاہر ہے، کیوں کہ جس وقت خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تینوں طلاق نافذ فرمائی تھی، کہیں منقول نہیں کہ اس وقت کسی بھی صحابیٔ رسول نے آپ کی مخالفت ہو۔
علاوہ ازیں نقلِ اجماع میں صرف اس نقل کا اعتبار ہے جو مجتہدین سے منقول ہو ،اور ایک لاکھ صحابۂ کرام میں فقہا کی تعداد بیس سے زیادہ نہیں۔جیسے خلفاء، عبادلہ زید بن ثابت ،معاذ بن جبل، انس، ابو ہریرہ، اور چند صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، باقی صحابہ انہیں کی طرف رجوع کرکے مسائل دریافت کرلیا کرتے تھے اورہم نے اکثر مجتہدینِ صحابہ سے یہ صریح نقل پیش کردی کہ مجلس واحد کی تین طلاق تین ہی ہوتی ہے اوراس باب میں ان کا کوئی مخالف ظاہر نہ ہوا، توحق کے بعدکیا رہا ، سوائے گمراہی کے، اسی وجہ سے ہمارا مذہب یہ ہے کہ اگر کسی حاکم نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے کا فیصلہ کیا تو وہ نافذ نہ ہوگا، کیوں کہ اس میں اجتہاد جائزنہیں‘‘۔(فتح القدیر، صفحہ:۴۷۰،جلد:۳)
حجۃ الاسلام امام جصاص رازی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کتاب وسنت وآثارِ صحابہ سے استدلال کے بعد فرماتے ہیں’’فالکتاب والسنۃ وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیۃ‘‘ 
حاصل کلام یہ کہ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اوراجماع صحابہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاق لازماً ایک ساتھ واقع ہوتی ہیں اگرچہ یہ گناہ ہے۔ 
(احکام القرآن صفحہ:۳۸۸، جلد:۱)
طحاوی شریف میں ہے’’لمّا کان فِعل أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم  جمیعا فعلاً یجب بہ الحجۃ کان کذلک ایضا، اجماعہم علی القول إجماعاً یجب بہ الحجۃ‘‘ 
جب تمام اصحاب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فعل واجب الحجت ہے تویوں ہی قول عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پران کا اجماع بھی واجب الحجت ہوگا۔
(صفحہ:۴۱۹؍۴۲۰،جلد:۲ )
طحطاوی علی الدر المختار میں ہے’’من أنکر وقوع الثلاث فقد خالف الإجماع ولو حکم حاکم بان الثلٰث تقع واحدۃ لم ینفذ حکمہ لأنہ لا یسوغ فیہ الإجتہاد‘‘
جس نے ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہونے کا انکار کیا، اس نے اجماع کی مخالفت کی، لہٰذا اگرکوئی حاکم تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے کا فیصلہ صادر کردے تو اس کا فیصلہ نافذ نہ ہوگا کیوں کہ اجماعی مسئلے میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اجماع کی مخالفت جائز نہیں، اس کی دلیل قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ ہے ’’ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیِّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتّبِعْ غَیْرَسَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ ماَتَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیْراً۔‘‘( سورہ نسائ: آیت: ۱۱۵)
اورجورسول کا خلاف کرے بعداس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اورمسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اوراسے دوزخ میں داخل کریں گے اورکیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔ 
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے ، اس کی مخالفت جائز نہیں ۔ 
(مدارک شریف) 
اوراس سے یہ بھی ثابت ہواکہ مسلمانوں کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے۔
ازالہ شبہ:کتاب وسنت اوراجماع صحابہ کے برخلاف دو روایتوں سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین نہ ہوں گی،بلکہ ان سے صرف ایک طلاق واقع ہوگی،وہ روایتیں یہ ہیں:
 ابن جریح کہتے ہیں کہ مجھے ابورافع کے لڑکوں میں سے بعض نے خبر دیا کہ عکرمہ نے بتایا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا’’طلّق أبورکانۃأمّ رکانۃ…ثم قال: راجع امرأتک أمّ رکانۃ، قال: إنّی طلقتہاثلاثا یا رسول اللّٰہ!قال قد علمت راجعہا‘‘ 
ابو رکانہ نے ام رکانہ کوطلاق دے دی،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا’’اپنی بیوی ام رکانہ کولوٹا لو‘‘ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! میں نے تواسے تین طلاق دے دی ہے، آپ نے فرمایا’’ مجھے معلوم ہے، تم اسے (نکاح کرکے) لو ٹا لو ‘ ‘ 
(سنن ابی داؤد،صفحہ:۲۹۸،جلد:۱)
 حضرت طاؤس روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوسال تک تین طلاق ایک مانی جاتی تھی توحضرت عمر بن خطاب نے فرمایا’’جس بات میں لوگوں کے لیے ڈھیل تھی اس میں انہوں نے جلد بازی کردی،ہم اسے ان پر نافذ کردیں گے پھرآپ نے ان پر اسے نافذ فرمادیا۔
 (مسلم شریف صفحہ:۴۷۷،۴۷۸، جلد:۱)
ان حدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں تین طلاق کو تین قرار دیاگیا۔ اس سے پہلے تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا،لیکن اس استدلال کی حیثیت ایک شبۂ ضعیف سے زیادہ نہیں اس کی قدرے تشریح یہ ہے:
(1) حدیث اول ضعیف ومنکر ہے، اس کے راوی مجہول لوگ ہیں’’أما الروایۃ التی رواھا المخالفون أنّ رکانۃ طلّق ثلاثاً فجعلہا واحدۃ فروایۃ ضعیفۃ عن قوم مجہولین‘‘ 
یہ روایت کہ رکانہ نے تین طلاق دی تھی اوررسول اللہ نے اسے ایک طلاق قرار دیا، ضعیف روایت ہے جس کے راوی مجہول لوگ ہیں۔(شرح صحیح مسلم ص:۴۷۸، جلد:۱) 
امام ابوزکریا نووی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ انکشاف فرمایا۔
(2) طلاق کا معاملہ عموماً گھرمیں پیش آتا ہے۔ اس لیے گھر والوں کو واقعہ کا صحیح علم ہوتا ہے اورگھر کے لوگوں کی روایت یہ ہے کہ رکانہ نے ’’طلاقِ بتّہ‘‘ دی تھی اور خود رکانہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں قسم کھا کریہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی نیت ایک طلاق کی تھی لیکن اس کے برخلاف تین طلاق کی روایت گھر والوں کے علاوہ دوسروں کی ہے تومعاملہ طلاق میں گھر والوں کی روایت کے خلاف دوسروں کی روایت مقبول نہ ہوگی۔ چنانچہ محدث جلیل الشان حضرت امام ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نافع بن عجیر اورعبداللہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی’’طلاقِ بتّہ‘‘ والی روایتوں کو نقل کرکے فرماتے ہیں:’’قال أبو داؤد: وھٰذا أصحّ من حدیث ابن جریح أنّ رکانۃ طلّق امرأتہ ثلاثاً لأنہم أھل بیتہٖ وہم أعلم بہ وحدیث ابن جریح رواہ عن بعض بنی أبی رافع‘‘   (سنن ابی داؤد شریف، صفحہ:۳۰۰؍۳۰۱ جلد:۱)
ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث ابن جریح کی اس روایت سے رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی صحیح ہے، اس لیے کہ ’’طلاق بتہ‘‘ کے راوی رکانہ کے گھروالے ہیں اورگھر والوں کو واقعہ کا صحیح علم زیادہ ہوتا ہے اورابن جریح کی روایت توابورافع کے بعض لڑکوں نے کی ہے۔(جورکانہ کے اہل خاندان سے نہیں)۔
 محدث ابوداؤد ایک اورمقا م پرابن جریج والی روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:ابوداؤد نے کہا کہ نافع بن عجیر اورعبداللہ بن علی کی یہ روایت کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی اورنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں رکانہ کو لوٹا دیا تھا صحیح ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ رکانہ کی اولاد ہیں اوراہل وعیال کواس بات کا خوب علم تھا کہ رکانہ نے اپنی بیوی کوصرف طلاق بتہ دی ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  نے (رکانہ سے قسم لے کر) اسے ایک طلاق قراردیا۔(سنن ابی داؤد،ص: ۲۹۹ ، جلد : ۱ )
امام ابوزکریا نووی شرح صحیح مسلم شریف میں یہ لکھنے کے بعدکہ تین طلاق والی روایت کے راوی مجہول لوگ ہیں اوروہ روایت ضعیف ہے، صراحت فرماتے ہیں کہ’’وإنّما الصحیح منہا ما قدّمناہ أنّہ طلّقہا البتۃ‘‘
صحیح روایت توصرف وہ روایت ہے جو ہم پہلے نقل کرآئے کہ رکانہ نے’’طلاق بتّہ‘‘دی تھی۔   (صفحہ:۴۷۸،جلد:۱)
ایک اورمحدث امام ابن حجر شافعی فرماتے ہیں’’إنّ أباداؤد رجّح أنّ رکانۃ إنما طلّق امرأتہ البتۃ کما أخر جہ ھومن طریق اہل بیتِ رکانۃ وھو تعلیل قويّ لجواز أن یکون بعض رواتہٖ حمل ’’البتۃ‘‘ علی الثلاث، فقال، طلّقہا ثلاثا فبہٰذہ النکتۃ یقف الإ ستدلال بحدیث ابن عباس۔‘‘
محدث ابوداؤد نے اس روایت کو ترجیح دیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کومحض’’ طلاقِ بتّہ‘‘ دی تھی، کیو ںکہ اس حدیث کے راوی رکانہ کے اہل وعیال ہیں اوریہ مضبوط دلیل ہے اورابن جریج والی روایت میں یہ ممکن ہے کہ بعض راویوں نے لفظ’’ البتۃ‘‘ کوتین طلاق پرمحمول کرکے یہ روایت کردیا ہو کہ انہوں نے تین طلاق د ی تھی تواس نکتہ کی وجہ سے ابن عباس کی اس روایت سے استدلال ساقط الاعتبار ہوگا۔
(فتح الباری صفحہ: ۳۶۳،جلد:۹)
مطلب یہ ہے کہ لفظ’’البتۃ ‘‘ایک طلاق کا بھی احتمال رکھتا ہے اورتین طلاق کا بھی جیسا کہ گزرا توکسی راوی نے اس لفظ کے دوسرے احتمال کوسامنے رکھتے ہوئے’’ البتۃ‘‘ کی جگہ’’ ثلاثاً‘‘ ’’تین‘‘ روایت کردیا، حالانکہ رکانہ نے لفظ ’’ثلثاً‘‘ سے طلاق نہ دی تھی ، بلکہ لفظ’’البتۃ‘‘ سے دی تھی۔
 (3) حضرت ابن عباس رـضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے مجہول راویوں نے جوحدیث روایت کی ہے کہ رکانہ نے تین طلاق دی اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسے ایک قرار دیا، یہ حدیث اس لیے بھی ناقابل عمل اورساقط الاستدلال ہے کہ حضرت ابن عباس کے فتاویٰ اس کے برخلاف ہیں جن میں سے چار فتاویٰ ہم نے گذشتہ صفحات میں نقل کیے ہیں۔صحابۂ کرام میں سے کسی بھی صحابی سے یہ ناممکن ہے کہ وہ رسول اللہ کی حدیث روایت کریں پھر اس کے بعداس کے خلاف فتویٰ صادر کریں۔اسی لیے علما فرماتے ہیں کہ اگرکوئی صحابی حدیثِ رسول کی روایت کے بعداس کے خلاف عمل کرے، یافتویٰ دے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث یا توبعد میں منسوخ ہوگئی یاکسی کی گڑھی ہوئی ہے، اس لیے قابل عمل نہیں۔ چنانچہ’’ نوالانوار‘‘ میں ہے’’والمروی عنہ اذا عمل بخلافہٖ بعدالروایۃ مما ھو خلاف یقین سقط العمل بہٖ لأنہاِمّا خالفہ للوقوف علیٰ نسخہٖ أو موضوعتہٖ فقد سقط الاحتجاج بہ‘‘ (نورالانوراصفحہ:۱۹۴/۱۹۵)
حدیث کا راوی روایت کے بعد جب اس کے خلاف عمل کرے اوریہ عمل حدیث کے خلاف ہونا یقینی ہوتواس حدیث سے عمل ساقط ہوجائے گا، اس لیے کہ راوی نے اس حدیث کے منسوخ ہونے پر آگاہ ہوکر اس کی مخالفت کی ہے یا وہ حدیث گڑھی ہوئی ہے۔ لہٰذا اس سے استدلال ساقط ہوجائے گا۔غرض کہ تین طلاق کوایک قرار دینے والی حدیث تین تین طرح سے ناقابل عمل اورناقابلِ استدلال ہے : 
(1): اس لیے کہ یہ حدیث ضعیف ومنکر ہے، اس کے راوی مجہول افراد ہیں۔
(2): اس لیے کہ یہ حدیث حضرت رکانہ کے اہل وعیال کی روایت کے خلاف ہے۔
(3): اس لیے کہ راوی حدیث حضرت ابن عباس کا فتویٰ اس کے خلاف ہے۔
دوسری حدیث جسے حضرت طاؤس نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورمیں اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں تین طلاق ایک مانی جاتی تھی، یہ بھی دووجہ سے ناقابل استدلال ہے:
(1) یہ حدیث مطلق ہے،جس کے عموم میں مدخولہ کو تین طلاق دے یا غیر مدخولہ کو، ایک ساتھ ایک کلمہ میں تین طلاق دے یا کئی دفعہ میں اورکئی کلموں میں،ایک مجلس میں تین طلاق دے یا الگ الگ کئی مجلسوں میں، بہرحال تین طلاق ایک ہی طلاق مانی جاتی تھی، حالانکہ یہ بلاشبہ قطعاً یقینا اجماع امت کے خلاف ہے اورامت کا اجماع گمرہی پرنہیں ہوسکتا، اس لیے یہ حدیث اپنے عموم واطلاق کے لحاظ سے ناقابل حجت ہے۔
(2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتاویٰ اس حدیث کے بھی خلاف ہیں، لہٰذا اس حیثیت سے بھی ہے حدیث اپنے عموم کے ساتھ قابل حجت نہ رہی۔
ان دونوں وجوہ کے پیش نظر اس حدیث سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ  ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی ہوئی ہے، کیوں کہ اس حدیث کے عموم میں جیسے ایک مجلس داخل ہے، ویسے ہی تین مجلسیں بھی توداخل ہیں، ساتھ ہی تین طہر بھی توشامل ہیں،توپھر یہ بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ تین مجلس میں اورتین طہر میں اورتین کلمات میں دی گئی تین طلاق بھی ایک ہی طلاق ہوگی، حالا نکہ اس کا قائل کوئی بھی نہیں، تومعلوم ہواکہ یہ حدیث مؤو ل ہے، اسی لیے علمائے امت نے اس کی کئی تاویلیں فر ما ئیں ان میں سے ایک تاویل یہ ہے کہ یہ حدیث خاص غیرمدخولہ کے متعلق ہے۔ عہدرسالت اورعہد صدیقی میں اورخلافت فاروقی کے ابتدائی دوسالوں تک غیر مد خو لہ کوجب کوئی طلاق دیتا تو الگ الگ ایک ایک طلاق دیتا،اس لیے بعد کی دوطلاق لغوہوجاتی اوراعتبار صرف پہلی والی طلاق کا ہوتا، لیکن بعدمیں حضرت عمر فاروق رـضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں لوگ ایک ساتھ اسے تین طلاق دینے لگے۔ اس لیے اب تینوں طلاقوں کا اعتبار ضروری تھا، یہی پوری امت مسلمہ کا موقف بھی ہے۔اس تاویل کی تائید ابوداؤد شریف کی اس حدیث سے ہوتی ہے:
حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ ابوالصہباء نام کے ایک شخص حضرت ابن عباس سے اکثر سوال پوچھتے رہتے تھے، انہوں نے عرض کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ شوہر اپنی غیر مدخولہ بیوی کوتین طلاق دے دیتا تواسے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورابوبکر صدیق کے زمانے میں اورعمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دورمیں ایک طلاق قراردیا جاتا تھا؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کیو ںنہیں، شوہر جب اپنی بیوی کے ساتھ دخول (خلوت یا جماع) سے پہلے تین طلاق دے دیتا توعہد رسالت وعہد صدیقی میں اورعمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی عہدمیں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا پھر جب حضرت عمر نے یہ مشاہدہ کیا کہ لوگ ایک ساتھ تین طلاق دینے لگے ہیں توآپ نے فرمایا کہ تینوں طلاق ان پرفافذ کردو۔
(صفحہ:۲۹۹،جلد:۱)
مسلم شریف کی حدیث جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے اس کے الفاظ’’قد استجعلوا فی أمرٍ کانت لہم أناۃ‘‘ کا بھی مفاد یہی ہے کہ الگ الگ تین طلاق میں ڈھیل تھی، لیکن انہوں نے جلدبازی کرکے ایک ساتھ تینوں طلاق دینا شروع کردیا۔
اس حدیث پاک سے بہت کھل کریہ ثابت ہواکہ حضرت ابن عباس کی دوسری روایت جس سے تین طلاق کے ایک ہونے کا شبہ پیداہورہا تھا اس کا تعلق خاص اس صورت سے ہے جب کہ شوہر نے اپنی غیر مدخولہ کوتین بار تین طلاق دی ہواوراس باب میں ہمارا مذہب یہی ہے کہ غیر مدخولہ کواس طرح طلاق دی جائے تو صرف ایک طلاق پڑے گی،ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوگیا کہ خلافت فاروقی میں لوگوں کی عادت تبدیل ہوچکی تھی اوروہ تین بار میں طلاق دینے کے بجائے ایک ساتھ ہی دفعۃً تین طلاق دینے لگے تھے، اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے صحابۂ کرام کی موجودگی میں تین طلاق قراردیا ، کیوں کہ اب صورت مسئلہ بدل چکی تھی اوریہی ہمارا مذہب ہے۔ چونکہ حضرت عمر کا یہ فیصلہ شریعت اسلامیہ کے عین مطابق تھا، اس لیے صحابہ کرام نے بلاانکار نکیراسے تسلیم فرمایا جوان کے اجماع کی دلیل ہے۔
الحاصل کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اوراجماع امت سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگر کوئی مسلمان اپنی مدخولہ بیوی کوایک مجلس میں تین طلاق دے دے خواہ ایک دفعہ میںیا کئی دفعہ میں توبہر حال اس پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اوراگر اپنی غیر مدخولہ بیوی کوایک مجلس میں ایک ساتھ تین طلاق دے توبھی تینو ں طلاق پڑجائیں گی، ہاں اگرغیرمدخولہ کوایک مجلس میں یا متعدد مجالس میں، کئی مرتبہ میں، یا کئی کلمات میں الگ الگ تین طلاق دے تو صرف پہلی طلاق پڑے گی اوربعدکی دوطلاق لغو ہو ں گی ۔ 
یہی مذہب تمام حنفیوں،مالکیوں،شافعیوںاورحنبلیوں کا ہے اوریہی مذہب صحابۂ کرام کا ہے اور یہی احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے خلاف اگرکوئی حاکم مسلم یا غیر مسلم فیصلہ دے گا تو وہ نافذ نہ ہوگا بلکہ کالعدم وباطل ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم
٭٭٭








طلاق ثلاثہ اورمختلف افکارو نظریات
مولانا غلام رسول سعیدی
تلخیص:محمدصابررہبر مصباحی
بیک وقت تین طلاقوں کاحکم:امام ابوحنیفہ اورامام مالک کے نزدیک بیک وقت تین طلاق دینا بدعت اور گناہ ہے ۔ اما م شافعی کے نزدیک بیک وقت تین طلاق دینا ہرچند کہ مستحب کے خلاف ہے تاہم گناہ نہیں ہے اور اس مسئلہ میں دو قول ہیں: ایک قول میں امام شافعی کے موافق ہیں اوردوسرے قول میں امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہیں۔
 علامہ ابن قدامہ حنبلی، امام احمد کے دونوں قولوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:بیک وقت تین طلاقوں کے دینے میں امام احمد سے مختلف روایات ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ یہ حرا م نہیں ہے اوریہی امام شافعی کا مذہب ہے۔ حضرت حسن بن علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف اورشعبی کا بھی یہی نظریہ ہے ۔کیوںکہ حضرت عویمر عجلانی نے جب اپنی بیوی سے لعان کیا توکہا، یا رسول اللہ! اب اگر میں نے ا س کو اپنے پاس رکھا تومیرا اسے تہمت لگانا جھوٹ ہوگا،اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے اس کو تین طلاق دے دی۔ (بخاری ومسلم)
 اوراس سلسلے میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انکار منقول نہیں ہے، نیزبخاری اورمسلم میں ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت رفاعہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا، یا رسول اللہ! رفاعہ نے مجھے طلاق البتّہ(مغلّظہ) دے دی اورحضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے خاوند نے پیغام کے ذریعہ ان کو تین طلاقیں بھیجیں، اورعقلی دلیل یہ ہے کہ جب طلاق متفرق طورپر دینا جائز ہے توایک ساتھ تین طلاق دینا بھی جائز ہے۔
 امام احمد سے دوسری روایت ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینا بدعت اورحرام ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، اورحضرت ابن عمر کا یہی نظریہ ہے۔امام مالک اورامام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت علی نے فرمایا جو شخص سنت کے مطابق طلاق دے گا وہ نادم نہیں ہوگااورایک روایت میں فرمایا،ایک عورت کو طلاق دے کر تین حیض تک چھوڑے رکھو، اس مدت میں جب چاہو، رجوع کرسکتے ہو۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب ایسے شخص کو لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوں تووہ اس کو خوب پیٹتے تھے۔ مالک بن حویرث بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آکر کہنے لگا۔’’ میرے چچا نے اپنی بیوی کو(بیک وقت) تین طلاق دے دی ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اورشیطان کی اطاعت کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی مخرج نہیں رکھا۔(یعنی اب وہ رجوع نہیں کرسکتا)(المغنی جلد:۷صفحہ:۲۸۱،۲۸۰، بیروت 1405ھ )
سیّدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں"بیک وقت تین طلاق دے کر عورت کو بذر کرکود ینا نصوص صریحہ کی بناء پرمعصیت ہے۔علماء امت کے درمیان اس مسئلہ میں جوکچھ اختلاف ہے وہ صرف اس امرمیں ہے کہ ایسی تین طلاق ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہیں یا تین طلاق مغلظہ کے حکم میں،لیکن ا س کے بدعت اورمعصیت ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں"
حالانکہ امام شافعی کا اس میں اختلاف ہے ۔وہ بیک وقت تین طلاقوں کو بدعت اورگناہ نہیں، مباح کہتے ہیں اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے ۔(حقوق زوجین، ص:۱۵۰) 
سیدابوالاعلیٰ نے مذاہب فقہاء کی تحقیق کیے بغیر یہ لکھ دیا ہے۔
 جمہورعلماء اہلسنت وجماعت کا موقف:جمہور علماء اہل سنت کے نزدیک بیک وقت دی گئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ علامہ یحیٰ ابن شرف نووی شافعی (متوفی 676ھ)لکھتے ہیں: امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ اورقدیم وجدیدجمہور علماء کے نزدیک یہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں- (شرح مسلم ج:1ص:478، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی،)
علامہ ابومحمدعبداللہ ابن قدامہ حنبلی (متوفی 620ھ)لکھتے ہیں: جس شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دیں وہ واقع ہوجائیں گی ،خواہ دخول سے پہلے دی ہوں یا دخول کے بعد۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابن مسعود اورحضرت انس کا یہی نظریہ ہے( رضی اللہ عنہم) اوربعدکے تابعین اورائمہ کا بھی یہی موقف ہے۔   (المغنی جلد:۷صفحہ:۲۸۲، مطبوعہ دارالفکر بیروت،۱۴۰۵ھ)
 جمہور فقہاء کا یہی موقف ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقوں سے تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔    (بدانۃ المجتہد جلد:۲صفحہ:۴۶ ،مطبوعہ دارالفکربیروت)
علامہ علاؤالدین الحصکفی الحنفی (متوفی۱۰۸۸)لکھتے ہیں: باربار لفظ طلاق کا تکرار کرنے سے تمام طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اوراگر طلاق دینے والا تاکید کی نیت کرے تواس کا دیا نۃً اعتبار ہوگا۔
 (درمختارعلی ھامش ردالمختارجلد :۲صفحہ:۶۳۲مطبوعہ استنبول ۱۳۲۷ھ) 
 شیخ ابن تیمیہ اوران کے موافقین کا موقف:شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : اگرکسی شخص نے ایک طہر میں ایک لفظ یا متعدد الفاظ کے ساتھ تین طلاق دی، مثلاً کہا کہ تم کوتین طلاق ، یا تم کو طلاق ہے، تم کو طلاق ہے، تم کوطلاق ہے، یا کہا تم کو تین طلاق ، یا دس طلاق، یا سوطلاق، یا ہزارطلاق، اس قسم کی عبارات میں متقدمین اورمتاخرین علماء کے تین نظریات ہیں اورایک چوتھا قول بھی ہے جو محض من گھڑت اوربدعت ہے۔ پہلا قول یہ ہے کہ یہ طلاق مباح اورلازم ہے۔ یہ امام شافعی کا قول ہے۔امام احمد کا بھی ایک یہی قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ طلاق حرام ہے یہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ کا قول ہے اورامام احمدکابھی ایک یہی قول ہے ۔یہ قول متقدمین میں بکثرت صحابہ اورتابعین سے منقول ہے اورتیسرا قول یہ ہے کہ یہ طلاق حرام ہے لیکن اس سے صرف ایک طلاق لازم آتی ہے۔  یہ قول صحابہ میں سے حضرت زہر بن عوام ،حضرت عبدالرحمن بن عوف سے منقول ہے ۔حضرت علی اورحضرت ابن مسعود سے بھی مروی ہے اورحضرت ابن عباس کے دوقول ہیں۔ تابعین اور بعدکے لوگوں میں سے طاؤس، خلاص بن عمرو، محمد بن اسحاق سے منقول ہے۔ داؤد اوران کے اکثر اصحاب کا یہی قول ہے، ابوجعفر محمدبن علی بن الحسین اوران کے بیٹے جعفر بن محمد کا بھی یہی قول ہے ۔ اسی وجہ سے شیعہ حضرات کا بھی یہی مسلک ہے ۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک اورامام احمدبن حنبل کے بعض اصحاب کا بھی یہی قول ہے ۔چوتھا قول بعض معتزلہ اوربعض شیعہ کا ہے۔ وہ یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے سے کوئی طلاق نہیں پڑتی۔ سلف صالحین میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں تھا اورتیسرا قول ہی وہ ہے جس پر کتاب وسنت سے دلائل موجود ہیں۔  (مجموع الفتاویٰ جلد:۳۳،صفحہ:۷۰۹،مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز آل سعود )
شیخ ابن قیم لکھتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں چار مذاہب ہیں :
 پہلا مذہب یہ ہے کہ یہ تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ یہ قول ائمۂ اربعہ، جمہور تابعین اوربکثرت صحابہ کا ہے۔ (رضی اللہ عنہم)
 دوسرا مذہب یہ ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ مردود ہیں کیوں کہ یہ بدعتِ محرمہ ہے اوربدعت اس حدیث کی وجہ سے مردود ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس شخص نے ایسا عمل کیاجو ہمارے دین میں نہیں ہے وہ مردود ہے ‘‘اس مذہب کو ابومحمد بن حزم نے بیان کیا ہے اورلکھا ہے کہ امام احمد نے فرمایا یہ باطل ہے اوررافضیوں کا قول ہے۔
 تیسرا مذہب یہ ہے کہ اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے، یہ مذہب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے ثابت ہے۔ جیسا کہ امام ابوداؤد نے ذکر کیا ہے۔امام احمد نے کہا یہ ابن اسحاق کا مذہب ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ جوشخص سنت کی مخالفت کرے اس کو سنت کی طرف لوٹانا چاہیے۔(تابعین میں سے) طاؤس اورعکرمہ کا بھی یہی قول ہے اورشیخ ابن تیمیہ کا بھی یہی نظریہ ہے۔
 چوتھا مذہب یہ ہے کہ مدخول بہا اورغیرمدخول بہا میں فرق ہے۔ مدخول بہا کو تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہے اورغیر مدخول بہا کو ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ یہ قول حضرت ابن عباس کے تلامذہ کا ہے اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
 (زادالمعاد جلد:۴صفحہ:۵۴مطبوعہ مطبع مصطفی البابی مصر۱۳۶۹ھ)
علماء شیعہ کا موقف:جیسا کہ شیخ ابن تیمیہ نے لکھا ہے بعض شیعہ کا موقف یہ ہے کہ اگربیک وقت تین طلاقیں دی جائیں توکوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔( الشرائع الاسلام جلد:۲صفحہ:۵۷)
اورجمہورشیعہ کا مذہب یہ ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقوں میں سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے ۔ شیخ ابوجعفرمحمدبن یعقوب بن اسحاق کلینی(متوفی 1328ھ) روایت کرتے ہیں’’عن زرارۃ،عن احدھما علیہما السلام قال: سالتہ عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد( اواکثر)وھی طاہر قال: ھی واحدۃ ۔‘‘    (الفروع من الکافی جلد:۶صفحہ:۷۰،۷۱؍ یران ۱۳۶۲ھ)
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ایک علیہ السلام سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک مجلس یا متعدد مجالس میں تین طلاق دی درآں حالانکہ وہ عورت حیض سے پاک تھی۔ انہوں نے کہا یہ ایک طلاق ہوگی۔ 
دوسری روایت ہے’’عن عمر وبن البراء قال: قلت لابی عبداللّٰہ علیہ السلام ان اصحابنا یقولوں: ان الرجل اذاطلق امرأۃ مرۃ اومائۃ مرۃ فانما ھی واحدۃ وقدکان یبلغنا عنک وعن اٰبائک علیہم السلام انہم کانوا یقولون اذاطلق مرۃ اومائۃ مرۃ فانّما ھی واحدۃ فقال کما بلغکم‘‘
( ایضاً)
عمر وبن براء کہتے ہیں کہ میںنے ابوعبداللہ علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے اصحاب یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص جب اپنی بیوی کو ایک طلاق دے یا سو طلاق دے تووہ صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے اورہمیں آپ سے آپ کے آباء علیہم السلام سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ جب کوئی شخص ایک بار طلاق دے یا سوبار طلاق دے تووہ ایک طلاق واقع ہوتی ہے۔ ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہا مسئلہ اسی طرح ہے جس طرح تمہیں پہنچا ہے۔
جمہورعلماء کے قرآن مجید سے دلائل: اللہ تعالی نے طلاق دینے کا یہ قاعدہ بیا ن فرمایا ہے کہ دوطلاقوں کے بعدبھی خاوند کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے توان طلاقوں سے رجوع کرلے اورچاہے تو رجوع نہ کرے لیکن’’فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلَُ لَّہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہ      (سورہ بقرہ : ۲۳۰)
پس اگراس نے اس کو ایک اورطلاق دے دی تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے، تاوقتیکہ وہ کسی اورشخص سے نکاح کرے۔
اس آیت سے پہلے ’’اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ‘‘ کا ذکر ہے یعنی طلاق رجعی دومرتبہ دی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد ’’فَاِنْ طَلَّقَہَا‘‘الآیۃ فرمایا،اس کے شروع میں حرف فاء سے جو تاکید بلا مہلت کے لیے آتا ہے اوراب قواعد عربیہ کے اعتبار سے معنی یہ ہوگا کہ دو رجعی طلاق دینے کے بعدخاوند نے اگر فوراً تیسری طلاق دے دی تو اب وہ عورت اس مرد کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ شرعی قاعدہ کے مطابق کسی اورمرد کے ساتھ نکاح نہ کرے ۔اس آیت میں اگر حرف’’ ثم ‘‘یااس قسم کا کوئی اورحرف ہوتا جو مہلت اورتاخیر پردلالت کرتا توعلی التعین یہ کہا جاتا کہ ایک طہر میں ایک طلاق اوردوسرے طہر میں دوسری طلاق اورتیسرے طہر میں تیسری طلاق دی جائے گی، لیکن قرآن مجید میں ثم کی بجائے فاء کا ذکرکیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند نے دوطلاق دینے کے بعد فوراً تیسری طلاق دے دی تواس کی بیوی اس کے لیے حلال نہیں رہے گی۔
قرآن مجید نے ’’اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ‘‘ فرمایا ہے یعنی دومرتبہ طلاق دی جائے اور دومرتبہ طلاق دینا اس سے عام ہے کہ ایک مجلس میں دومرتبہ طلاق دی جائے یا دوطہروں میں دومرتبہ طلاق دی جائے اوراس کے بعد فوراً تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ اس سے واضح ہوگیا کہ کسی شخص نے ایک مجلس میں تین بار طلاق دی اور بیوی سے کہہ دیا میں نے تم کو طلاق دی، میںنے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی، تویہ تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی اوراس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ غیر مقلدوں کے مشہور مستند اوران کے بہت بڑے عالم شیخ ابومحمد علی بن سعید بن حزم اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’فھذا یقع علی الثلاث مجموعۃ ومفرقۃ ولایجوز ان یخص بھذہ الاٰیۃ بعض ذالک دون بعض بغیرنص‘‘ (المحلی جلد:۱۰صفحہ:۱۷،مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیر یہ)
 یہ آیت بیک وقت دی گئی تین طلاقوں اورالگ الگ دی گئی طلاقوں پر صادق آتا ہے اوراس آیت کو بغیر کسی نص کے طلاق کی بعض صورتوں کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت سے بھی جمہور فقہاء اسلام کا استدلال ہے ’ اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃِِ تَعْتَدّْوْنَہَا‘‘ (سورہ احزاب :۴۹)
جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو مقاربت سے پہلے طلاق دے دو توان پر تمہارے لیے کوئی عدت نہیں جس کو تم گنو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا ذکر فرمایا ہے اورطلاق دینے کو اس سے عام رکھا ہے کہ بیک وقت اکٹھی تین طلاق دی جائے یا الگ الگ طلاق دی جائیں اورجس چیزکو اللہ تعالیٰ نے مطلق اور عام رکھاہو اس کو اخبار، آحاد اور احادیث صحیحہ سے بھی مقید اورخاص نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ ماوشما کی غیر معصوم آراء اورغیر مستند اقوال سے اس کو مقید کیا جا سکے۔
قرآن مجید سے استدلال پراعتراض کے جوابات:پیرمحمد کرم شاہ الازہری نے اس استدلال کے جواب میں لکھا ہے:دوسری آیت اورسنت نبوی نے ان کے اطلاق کو مقید کردیا ہے، اوران کے احکام اورشرائط کو بیان کردیا ہے، نیز ان آیات میں ایک ساتھ طلاق دینے کی بھی تو کہیںتصریح نہیں-
(دعوت فکرونظر مع ایک مجلس کی تین طلاقیں، ص:224،مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور،1979)
قرآن مجید کی کسی آیت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ بیک وقت اجتماعی طور پر دی گئی تین طلاق ایک ہو گی جس کو اس آیت کے عموم کی تخصیص پر قرینہ بنایا جا سکے، نہ کسی حدیث صحیح میں یہ تصریح ہے۔ ہاں یہ ضرورہے کہ بیک وقت تین طلاق دینا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناراضگی کا موجب ہے اوربدعت اور گناہ ہے اور یہی احناف کا مسلک ہے اورسنت طریقہ الگ الگ طہروں میں تین طلاق دینا ہے، لیکن اس میں گفتگو نہیں ہے۔ گفتگو اس میں ہے کہ اگر کسی شخص نے خلاف سنت طریقہ سے بیک وقت تین طلاق دے دی تووہ نافذ ہوں گی یا نہیں۔ البتہ بکثرت احادیث اورآثار سے یہ ثابت ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق نافذ ہوجائیں گی۔ جیسا کہ عنقریب واضح ہوجائے گا۔ غیر مقلدوں کے امام ثانی شیخ ابومحمد علی بن احمد بن سعید بن حزم اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں’’ثم طلقتموھن الاٰیۃ عموم لا باحۃ الثلاث ولاثنین والو ا حد ۃ ‘‘ (المحلی جلد:۱۰ص:۱۷۰مطبوعہ ادارہ الطباعۃ المنیریہ مصر)
اس آیت میں عموم ہے اورتین ، دواورایک طلاق دینے کی اباحت ثابت ہوتی ہے۔
جمہور فقہاء اسلام نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے:’’وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ (سورہ بقرہ: ۲۴۱)
مطقہ عورتوں کو رواج کے مطابق متعہ(کپڑوں کا جوڑا)دینا چاہیے۔
شیخ ابن حزم اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’فلا یخص تعالی مطلقۃ واحدۃ من مطلقۃ اثنین ومن مطلقۃ ثلاثا‘‘
((المحلی جلد:۱۰صفحہ:۱۷۰مطبوعہ ادارہ الطباعۃ المنیریہ مصر، ۱۳۵۲ھ))
 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ کو عام رکھا ہے خواہ وہ ایک طلاق سے مطلقہ ہویا دوسے یا تین  سے اوران میں سے کسی کے ساتھ اس کو خاص نہیں کیا ۔
اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو متعہ( کپڑوں کا جوڑا)دینے کی ہدایت کی ہے خواہ وہ عورتیں تین طلاقوں سے مطلقہ ہوں یا دو طلاقوں سے مطلقہ ہوں یا ایک سے اورکسی ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مطلقہ کی تخصیص نہیں فرمائی، یہی چیز شیح بن حزم نے بیان کی ہے ۔ قرآن مجید میں طلاق کے عموم اوراطلاق کی اوربھی آیات ہیں، لیکن ہم  بغرض اختصار انہی آیات پر اکتفا کرتے ہیں۔
جمہور فقہار اسلام کے احادیث سے دلائل:۔ امام ابوعبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری (متوفی ۲۵۶ھ)روایت کرتے ہیں ’’حدث سہل بن سعد اخی بنی ساعدہ ان رجلا من الانصار جاء الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ ارایت رجلاوجد مع امراتہ رجلا ایقتلہ اوکیف یفعل فانزل اللّٰہ فی شانہ ما ذکر فی القرآن من امرالتلاعن فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقد قضی اللّٰہ فیک وفی امراتک قال فتلا عنا فی المسجد وانا شاہد فلما فرغا قال کذبت علیہا یا رسول اللّٰہ ان امسکتہا فطلقہاثلثاقبل ان یا مرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین فرغامن التلاعن ففارقہا عندالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال ذاک تفریق بین کل من المتلاعنین قال ابن شہاب فکانت السنۃ بعدھما ان یفرق بین کل المتلاعنین‘‘(صحیح البخاری جلد:۲صفحہ:۸۰۰)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نبی کریم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا یا رسول اللہ! یہ بتلائیے کہ ایک شخص اپنی عورت کے ساتھ کسی مرد کو دیکھ لے تواس کو قتل کردے یا کیا کرے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں قرآن مجید میں لعان کا مسئلہ ذکر فرمایا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے اورتیری بیوی کے درمیان اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا۔ حضرت سہل کہتے ہیں کہ ان دونوںنے میرے سامنے مسجد میںلعان کیا جب وہ لعان سے فارغ ہوگئے تواس شخص نے کہا ،اب اگرمیں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو خود جھوٹا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے لعان سے فارغ ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق د یدی۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی سے علیٰحدگی اختیارکرلی۔ آپ نے فرمایا سب لعان کرنے والوں کے درمیان یہ تفریق ہے۔ ابن شہاب کہتے ہیں، اس کے بعد یہ طریقہ مقرر ہوگیا کہ سب لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کردی جائے ۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۲ھ) اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی کی شرح مسلم کے حوالے سے لکھتے ہیں’’وذٰلک لانہ ظن ان اللعان لا یحرمھا علیہ فارادتحریمہا بالطلاق فقال ھی طالق ثلٰثا‘‘
(فتح الباری جلد: ۹صفحہ:۴۵۱، مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور۱۴۰۱ھ)
  اس نے اس لیے تین طلاق دی تھی کہ اس کا گمان یہ تھا کہ اس کی بیوی حرام نہیں ہوئی تو اس نے کہا’’ اس کو تین طلاق ہے۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ صحابہ کرام کے درمیان یہ بات معروف اورمقرر تھی کہ ایک مجلس  میں تین طلاق دینے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس شخص نے اپنی بیوی سے تفریق اورتحریم کے لیے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے اس کو تین طلاق دی۔ اگر ایک مجلس میں تین طلاق رجعی واقع ہوتی تواس صحابی کا یہ فعل عبث ہوتااور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسے فرماتے بیک وقت تین طلاقوں سے تمہاری مفارقت نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں امام بخاری نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے’’قال سہل فتلاعنا وانا مع الناس عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما فرغا من تلا عنہا قال عویمرکذبت علیہا یا رسول اللّٰہ ان امسکتھا فطلقہا ثلثا قبل ان یا مرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘
( صحیح البخاری جلد:۲ص:۸۰۰، مطبوعہ نور محمد اصح المطالع کراچی،۱۳۸۱ھ) 
 حضرت سہل کہتے ہیں کہ ان دونوں نے مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے لعان کیا درآں حالانکہ میں بھی لوگوں کے ساتھ تھا حضرت عویمر نے کہا یا رسول اللہ! اب اگرمیں نے اس کو اپنے پاس رکھا تومیں جھوٹا ہوں۔ پھر حضرت عویمر نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی۔اس حدیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے
(صحیح مسلم جلد:۱صفحہ:۴۸۹ مطبوعہ نور محمد اصح المطالع کراچی، ۱۳۷۵ھ)
 امام نسائی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔
 ( سنن نسائی ج: 2ص:181، مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی) 
اورابوداؤد میں بھی ہے۔ علامہ یحیٰ بن شرف نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک نفس لعان سے تفریق ہوجاتی ہے اورمحمدبن ابی صفرہ مالکی نے کہا ہے کہ نفس لعان سے تفریق نہیں ہوتی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگرنفس لعان سے تفریق ہوتی تو حضرت عویمر اس کو تین طلاق نہ دیتے ، اورشوافع نے ا س حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا مباح ہے ۔   ( شرح صحیح مسلم شریف جلد:۱ صفحہ:۴۸۹) 
بخاری اورمسلم کی اس حدیث سے یہ بات بہرحال واضح ہوگئی کہ صحابہ کرام کے درمیان یہ بات معروف اورمتفق علیہ تھی کہ تین طلاق سے تفریق اورتحریم ہوجاتی ہے اوراس کے بعد رجوع جائز نہیں ہے۔ ورنہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے تفریق کے قصد سے اپنی بیوی کو لفظ واحد سے تین طلاق نہ دیتے ۔
اس واقعہ میں سنن ابوداؤد کی درج ذیل حدیث نے مسئلہ بالکل واضح کردیا ہے’’ عن سہل بن سعد فی ھٰذ الخبر قال فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم  فانفذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم‘‘(جلد:۱صفحہ:۳۰۶، مطبع مجتبائی لاہور،۱۴۰۵ھ)
 حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ اس واقعہ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عویمر نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے تین طلاق دی اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان طلاقوں کو نافذکردیا۔
اس حدیث میں اس بات کی صاف تصریح ہے کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے ان تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔
 صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی اورسنن ابوداؤد میں حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کو پڑھنے کے بعدکسی انصاف پسندشخص کے لیے اس مسئلہ میں تردّد کی گنجائش نہیںرہنی چاہیے کہ بیک وقت د ی گئی تین طلاق نافذ ہوجاتی ہے۔
 آثار صحابہ اوراقوال تابعین سے استدلال: امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں’’ عن سالم عن ابن عمر قال: من طلق امرأتہ ثلثا طلقت وعصی ربہ‘‘ (جلد:۶صفحہ:۳۹۵، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ۱۳۹۲ھ) 
سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی وہ واقع ہوجائیں گی اوراس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے ۔(صحیح مسلم جلد:۱صفحہ:۴۷۶، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی،  )
’’قال مجاہد عن ابن عباس قال:قال لہ رجل یا ابا عباس! طلقت امرأتی ثلاثا فقال ابن عباس ، یا ابا عباس ! یطلق احدکم فیستحمق، ثم یقول، یا ابا عباس !عصیت ربک وفا رقت امرأتک‘‘( ایضاً)
مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ ان سے ایک شخص نے کہا: اے ابوعباس! میں نے اپنی عورت کو تین طلاق دے دی ہے۔ حضرت ابن عباس نے (طنزاً) فرمایایاابا عباس، پھر فرمایا تم میں سے کوئی شخص حماقت سے طلاق دیتا ہے ۔ پھرکہتا ہے اے ابوعباس! تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اورتمہاری بیوی تم سے علیٰحدہ ہوگئی۔
امام ابوبکر بن ابی شبیہ (متوفی ۲۳۵)روایت کرتے ہیں: ’’عن واقع بن سحبان قال سئل عمران بن حصین عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس،قال: اثم بربہ وحرمت علیہ امرأتہ‘‘( المصنف جلد:۵صفحہ:۱۱، مطبوعہ ارادرۃ القرآن کراچی، )
 واقع بن سحبان بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیاکہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی؟ حضرت عمران بن حصین نے کہا اس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی اوراس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔’’عن انس قال: کان عمر اذااتی برجل قد طلق امراتہ ثلاثا فی مجلس اوجعہ ضربا وفرق بینہما‘‘   ( ایضا)
 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہوں توآپ اس کو مارتے تھے اوران کے درمیان تفریق کردیتے تھے۔
’’عن الزھری فی رجل طلق امرأتہ ثلاثا جمیعا قال ان من فعل فقد عصی ربہ وبانت منہ امراتہ‘‘ ( ایضا)
زہری کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے دی اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اوراس کی بیوی اس سے علیٰحدہ ہوگئی۔’’عن الشعبی فی رجل اراد ان تبین منہ امرأتہ قال یطلقہا ثلاثا‘‘ (ایضا)
 شعبی سے پوچھا گیا کہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی سے علیٰحدہ ہونا چاہے توانہوں نے کہا اس کو تین طلاق دے دے۔
’’عن علقمۃ عن عبداللّٰہ انہ سئل عن رجل طلق امراتہ مائۃ تطلیقۃ قال، حرمہا ثلاث وسبعۃ وتسعون عدوان‘‘
 علقمہ کہتے ہیںکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضـی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سوطلاق دے دی۔ آپ نے فرمایا تین طلاقوں سے اس کی بیوی حرام ہوگئی اورباقی ستانوے(۹۷) طلاق حد سے تجاوز ہیں۔
’’عن حبیب قال: جاء رجل الی علی فقال، انی طلقت امراتی الفا قال: بانت منک بثلاث واقسم سائرھا بین نسائک‘‘ )ایضاً( 
حبیب کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ایک شخص کہنے لگا، میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دی ہے۔ آپ نے فرمایا تمہاری بیوی تین طلاقوں سے علیٰحدہ ہوگئی، باقی طلاق اپنی بیویوں میں تقسیم کردو۔
’’عن معاویۃ بن ابی یحی قال جآء رجل الی عثمان فقال،انی طلقت امراتی مائۃ فقال ثلاث تحرمہا علیک وسبعۃ وتسعون عدوان‘‘    (ایضاً)
معاویہ بن ابی یحیٰ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کے پاس ایک شخص نے آکرکہاکہ میں نے اپنی بیوی کو سوطلاق دی ہے۔آپ نے فرمایا تین طلاقوں سے تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی اورباقی ستانوے (۹۷) طلاق حد سے تجاوز ہے۔
’’عن المغیرۃ بن شعبۃ انہ سئل عن رجل طلق امرأتہ مائۃ فقال ثلاث تحرمنہا علیہ وسبعۃ وتسعون فضل‘‘ (ایضاً)
 حضرت مغیرہ  بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سوطلاق دے دی ہے۔ آپ نے فرمایا تین طلاقوں نے ا س پر اس کی بیوی کو حرام کردیا اورستانوے(۹۷) طلاق زائد ہے۔
’’عن الشعبی عن شریح قال رجل انی طلقتہا مائۃ، قال،بانت منک بثلاث وسائرھن اسراف ومعصیۃ‘‘ (ایضاً) 
شعبی کہتے ہیں کہ شریح سے کسی نے پوچھا میں نے اپنی بیوی کو سوطلاق دے دی ہے۔ انہوں نے کہا تمہاری بیو ی تین طلاق سے علیٰحدہ ہوگئی اورباقی طلاق اسراف اور معصیت ہیں۔
’’جاء رجل الی الحسن فقال انی طلقت امرأتی الفا قال: بانت منک العجوز‘‘(ایضاً) 
حسن بصری سے ایک شخص نے کہا میں نے اپنی بیوی کوہزار طلاق دے دی ہیں۔ آپ نے فرمایا تمہاری بیوی تم سے علیٰحدہ ہوگئی۔
’’عن جابر قال: سمعت ام سلمۃ سئلت عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا قبل ان یدخل بہا فقالت لا تحل لہ حتی یطأ زوجہا‘‘ (ایضاً)
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے مقاربت سے پہلے اپنی بیوی کوتین طلاق دے دی، آپ نے فرمایا اس کی بیوی اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک دوسرا شوہر اس سے مقاربت نہ کرلے۔
’’عن ابی ھریرۃ وابن عباس وعائشۃ فی الرجل یطلق امرأتہ ثلاثا قبل ان یدخل بہاقالوا َلاَ تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہ‘ (ایضاً)
حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابن عباس اورحضرت عائشہ تینوں یہ فتویٰ دیتے تھے کہ جس شخص نے مقاربت سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔ 
’’عن ابراہیم قال اذا طلقہا ثلاثا قبل ان یدخل بہا لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ ‘‘ (ایضاً)
 ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب کسی شخص نے مقاربت سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو وہ اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے۔
مذکورالصدر تینوںروایات میں غیر مدخولہ پرجن تین طلاق کے واقع کرنے کا حکم کیا گیا ہے ،اس سے مراد بیک وقت دی گئی لفظ واحد سے تین طلاقیں ہیںکیوں کہ اگر الفاظ متعددہ سے تین طلاق دی جائے توپہلی سے غیر مدخولہ عورت بائنہ ہوجاتی ہے اوربقیہ طلاقوں کا محل نہیں رہتی اوروہ طلاقیں لغوہوجاتی ہیں ۔ حسب ذیل حدیث سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے’’عن ابن عباس اذا طلقہا ثلاثا قبل ان یدخل بہالہ تحل لاحتی تنکح زوجا غیرہ ولو قالہا تتری بانت بالاولٰی‘‘( ایضاً)
 حضرت ابن عباس رـضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب کوئی شخص دخول سے پہلے تین طلاق دے تو وہ عورت اس پراس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اوراگر اس نے متفرق الفاظ سے یہ طلاقیں دیں تو عورت پہلی طلاق سے بائنہ ہوجائے گی۔
ہم نے مذکورالصدر روایات میں حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عمران بن حصین، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ام سلمہ، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدرفقہاء اورامہات المؤمنین کے فتاوے اورتصریحات پیش کی ہیں کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہے اورفقہاء تابعین میں سے ابن شہاب زہری، شعبی، شریح،حسن بصری اورابراہیم نخعی کے فتاوے پیش کیے ہیں۔ قرآن مجید اوراحادیث صحیحہ کی صراحت کے بعد جمہور فقہاء اسلام کا موقف انہی نفوس قدسیہ کی اتباع پرمبنی ہے۔


Aapka Mukhlis

unread,
Jul 24, 2014, 2:28:27 PM7/24/14
to bazm qalam

ایک مجلس کی تین طلاقوں کاشرعی حکم کتاب وسنت کی روشنی میں

 

ابوالحسن علوی


طلاق دینے کا صحیح طریق کار:
شریعت اسلامیہ میں طلاق دینے کا صحیح شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ

1۔ بیوی کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔
2
۔ اور یہ طلاق بھی حالت طہر میں ہو۔
2
۔ اور اس طہر میں ہو کہ جس میں بیوی سے مباشرت یا تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو۔

پس ایسے طہر میں کہ جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، ایک طلاق دیناطلاق سنی کہلاتا ہے جبکہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا یا حیض و نفاس کی حالت میں طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے تعلق قائم کیا ہو، اس میں طلاق دینا ، طلاق بدعی ہے یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے اور بدعت ہے۔
جب عورت کو حالت طہر میں ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تویہ طلاق، طلاق رجعی کہلاتی ہے اور اس کی عدت تین حیض ہے۔(البقرۃ : ۲۲۸) اگر اس عد ت میں خاوند رجوع کر لے توعورت اس کے نکاح میں باقی رہے گی ۔ اور اگر خاوند حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے خاوند سے جدا ہو جاتی ہے لیکن اس صورت میں عورت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں

1۔ چاہے تواپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر لے۔
2
۔ اگر چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر لے۔

طلاق کی یہ صورت طلاق احسن کہلاتی ہے کہ جس میں ایک طلاق کے ذریعے دوران عدت رجوع نہ کر کے بیوی کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس میں آپس میں دوبارہ نکاح کا آپشن بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں جہالت کے سبب سے عوام، بلکہ عرضی نویس اور وکلاء تک بھی اپنے کلائنٹ (client) ذریعے ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کے تحریری نوٹس بھجوا دیتے ہیں حالانکہ یہ طرزعمل سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

محمود بن لبید قال : أخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال : أیلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال : یا رسول اللہ ألاأقتلہ۔(سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعۃومافیہ من التغلیظ)
’’ محمود بن لبید� سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کو ایک شخص کے بارے خبر دی گئی کہ جس نے ایک ہی ساتھ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپﷺ (یہ سن کر ) غصے سے کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے فرمایا : کیا کتاب اللہ کو کھیل تماشہ بنا لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اللہ کے رسول ﷺ کو اس قدر شدید غصے میں دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے) ایک شخص نے کہا: کیا میں اسے (یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والے کو) قتل کر دوں؟‘‘

Click to expand...

اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :

الطلاق مرتان (البقرۃ : ۲۲۹)
’’
طلاق دو مرتبہ ہے۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ میں’طلقتان‘ یعنی دو طلاقیں نہیں کہا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے یعنی ایک بار ایک طلاق ہے اور پھر دوسری بار کسی دوسرے وقت میں دوسری طلاق ہو گی۔ پس ایک وقت میں ایک ہی طلاق جائز ہے ۔(تفسیر احسن البیان : ص ۹۴، مولانا صلاح الدین یوسف، مطبع شاہ فہد کمپلیکس، مدینہ منورہ، مملکت سعودی عرب)

 

ایک وقت کی تین طلاقوں کاشرعی حکم:
ایک وقت کی تین طلاقوں کے بارے اہل علم میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور پاکستان میں عام طور حنفی علما کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا ،طلاق بدعی ہے اور ایسا کرنے والا گنا گار ہے لیکن تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی جبکہ اہل علم کی ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں ، طلاق بدعی ہیں اوراس کا مرتکب گناہ گار ہو گا لیکن یہ تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔ پاکستان میں بعض حنفی علما اور عام طور اہل حدیث علما کا یہی موقف ہے۔ ہماری رائے میں دوسرا موقف ہی راجح ، کتاب وسنت اور مقاصد شریعت کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بن مطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا، قال : فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیف طلقتھا ؟ قال : طلقتھا ثلاثا، قال : فقال : فی مجلس واحد ؟ قال : نعم ، قال : فانما تلک واحدۃ، فارجعھا ان شئت، قال : فرجعھا، فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر ۔(مسند احمد : ۴؍۲۱۵، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
’’
حضرت عبد اللہ بن عبا س� سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید � نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر شدید غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان صحابی سے دریافت فرمایا : تم نے اپنی بیوی کو کیسے طلاق دی ہے؟ حضرت رکانہ � نے عرض کیا : میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : کیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں ؟ رکانہ� نے عرض کی : جی ہاں ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : یہ صرف ایک ہی طلاق ہے۔ پس اگر تو چاہتا ہے تو اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پس رکانہ ﷺنے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ ابن عباس � کا کہنا تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق ہو گی۔ (یعنی خاوند نے اگر تین طلاقیں دینی ہو تو ایک ساتھ دینے کی بجائے ہر طہر میں ایک طلاق دے گا یعنی ایک ایک مہینے کے وقفے کے ساتھ دوسری اور تیسری طلاق دے گا)۔‘‘

Click to expand...

اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں ،حضرت ابو بکر � کی خلافت اور حضرت عمر � کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر � کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر� نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جبکہ شریعت نے سختی سے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہؓ کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایاکہ ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال کان الطلاق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر، طلاق الثلاث واحدۃ۔ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لھم فیہ أناۃ فلوأمضیناھ علیہ فأمضاہ علیھم۔(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
’’
حضرت عبد اللہ بن عباس � سے روایت سے اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ، حضرت ابو بکر � کے دور خلافت اور حضرت عمر � کے دورخلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پس حضرت عمر � نے کہا کہ لوگوں نے طلاق کے معاملے میں جلدی کی ہے(یعنی ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں) حالانکہ انہیں اس بارے مہلت دی گئی تھی( کہ وہ تین طہر یا تین مہینوں میں تین طلاقیں دیں)۔ پس اگر ہم ایسے لوگوں پر تین طلاقیں جاری کر دیں۔ پس حضرت عمر � نے انہیں تین طلاقوں کے طور جاری کر دیا۔‘‘

Click to expand...

پس اس وقت سے اہل علم میں یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی یا تین۔ حنفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ (judgement) اگرچہ سیاسی اور قانونی نوعیت کا تھا لیکن چونکہ اس میں صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا ہمارے لیے حضرت عمر � کا فیصلہ حجت (binding)ہے جبکہ اہل علم کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر � کا یہ فیصلہ سیاست و قضا سے تعلق رکھتا ہے جو اس وقت کے لوگوں کے لیے تو بطور قانون، لازمی امر(binding) کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بعد میں آنے والے علما، مفتیان کرام اور جج حضرات کے لیے اس فیصلے کی حیثیت ایک عدالتی نظیر (precedent)سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور جب یہ عدالتی فیصلہ اصل قانون (primary source of islamic law)سے ٹکرا رہا ہو گا تو اس صورت میں اصل قانون کو ترجیح دی جائے گی یعنی حدیث رکانہ � کو ترجیح ہو گی۔ اور اس فیصلہ(judgement) کی یہ توجیح کی جائے گی کہ یہ فیصلہ ضرورت کے نظریہ کے تحت عبوری اور وقت دور کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس (ordinance) کی حیثیت رکھتا تھا۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہؓ میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، زبیر بن عوامؓ، عبد الرحمن بن عوفؓ، ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کابھی یہی فتویٰ ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت عکرمہ، طاؤس اور تبع تابعین میں محمدبن اسحاق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی اور بعض اہل ظاہر، بعض مالکیہ، بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ کا بھی یہی موقف رہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔(اعلام الموقعین : ۳؍۴۴، اغاثۃ اللھفان : ۱؍۳۳۹۔۳۴۱)

یہ بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ 1929ء میں مصر میں حنفی، مالکی، شافعی او رحنبلی اہل علم کی ایک جماعت کی سفارشات پر وضع کیے جانے والے ایک قانون کے ذریعے ایک وقت کی متعدد طلاقوں کو قانوناً ایک ہی طلاق شمار کیاجاتا ہے۔ اسی قسم کا قانون سوڈان میں 1935ء میں، اردن میں 1951ء میں، شام میں 1953 ء میں، مراکش میں 1958ء میں، عراق میں 1909ء میں اور پاکستا ن میں 1961ء میں نافذ کیا گیا۔(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص ۲۱۹، مطبع دار السلام، لاہور)
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمارکرنے والوں میں معاصر حنفی علما میں معروف دیوبندی عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی (انڈیا)،مولانا عبد الحلیم قاسمی (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور) اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل بریلوی حنفی عالم دین مولانا پیر کرم شاہ (سابق جج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ معاصر علمائے عرب میں شیخ ازہر شیخ محمود شلتوت حنفی (جامعہ ازہر، مصر) ، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی شافعی (دمشق، شام) ، شیخ جمال الدین قاسمی ،شیخ سید رشید رضا مصری اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ ان اہل اعلم کے تفصیلی فتاویٰ جات کے لیے درج ذیل کتاب کی طرف رجوع کریں

(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل ، حافظ صلاح الدین یوسف، مشیر وفاقی شرعی عدالت، پاکستان، مطبع دار السلام، لاہور)

 

·         Description: شکریہ شکریہ5 

 



Tanwir Phool

unread,
Jul 24, 2014, 3:40:47 PM7/24/14
to Aijaz Shaheen
جزاک اللہ خیر بھائی مخلص صاحب
آپ کی جامع تحریر لائقِ صد تحسین ہے
موقع ملے تو یہ دو لنکس بھی دیکھئے:
http://urdunetjpn.com/ur/2013/10/03/tanwir-phooltalaq/

https://www.youtube.com/watch?v=WEEOSmobuvM&NR=1&feature=fvwp
   والسلام ، تنویرپھولؔ

Zubair H Shaikh

unread,
Jul 24, 2014, 5:01:03 PM7/24/14
to BAZMe...@googlegroups.com
سبحان الله، آپ تمام محترم و موقر حضرات نے اخلاص اور مستند حوالوں کے ساتھ طلاق کے مسایل پر مدلل بحث کی ہے ... الله تعالی سب کو جزائے خیر دے.... جو کچھ بھی مسلکی اختلافات واقع ہوئے ہیں وہ جب تک الله سبحان تعالی چاہے رہے یا نہ رہے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ تمام ایمہ کرام اور علمائے کرام نے اپنی تمام زندگی تقوی کے ساتھ دینی خدمات میں عرق ریزی کرتے ہوئے گزاردی اور انکا اجر الله کے پاس محفوظ ہے، اور سب کا بڑا اجر ہی ہوگا انشا الله ، اس لئے اس کے آگے انکی تاویلوں اور دلیلوں پر بحث انہیں کے قائم مقام کر سکتے ہیں....مسلکی بحث و مباحث اور قران و حدیث کی تاویلوں اور دلیلوں کا ماشاالله کافی ذخیرہ موجود ہے اور اسے صرف دین سے قربت رکھنے والے پڑھتے ہیں اور انہیں کے درمیان یہ بحث بھی ہوتی رہتی ہے جو بلکل ضروری بھی ہے، لیکن اسکے ساتھ ساتھ مسلمان الناس کی کثیر تعداد کے مسئلہ کا قابل نفاذ حل بھی ضروری ہے..اور طلاق کے مسئلہ میں .. Preventive Measures   کے تحت ضروری ہے...

الله تعالی اس خاکسار کا مدعا اہل علم و نظر تک پہنچائے اور ان کے ذریعہ علمائے دین تک.. اس طالب علم کا یہاں موقف مسلکی بحث اور دلیل و تاویل کے بجائے یہ ہے کہ دین کے دائرے میں وہ حل پیش کیا جائے جس سے عام مسلمانوں میں غیر ضروری اور غیر اصولی طلاق کا رحجان کم ہو.... ایک خلا ہے جسے پرکرنا بے حد ضروری ہے اور جو فی الحقیقت مسلمان الناس اور علمائے کرام کے درمیان پایا جاتا ہے اور جس کا سبب ایک کثیر تعداد کی دین سے دوری ہے... جہاں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دین کو صرف طلاق اور نماز جنازہ تک محدود کر کے رکھتا ہے اور پیدائیش سے لے کر بقیہ تمام عمر غیر دینی اصولوں کی پیروی میں گزارتا ہے... انہیں قرآن واحادیث کی ان دلیلوں اور تاویلوں کی نہ ہی سوجھ بوجھ ہے اور نہ ہی وہ اسے سمجھنا چاہتے ہیں .... لیکن نہ ہی دین نے اور جید ایمہ کرام اور علمائے کرام نے انکی اس کوتاہی کا یہ مطلب لیا ہے کہ انکے دینی مسائل کے حل پیش کرنے سے پہلو تہی کی جائے..... بلکہ انکی تو یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایسے دین سے دور مسلمانوں تک پہنچنا چاہتے ہیں... اب کسی نہ کسی کو یہ خلا پر کرنا ہوگا اور پل کا کام کرنا ہوگا اور زمینی حقائق علمائے کرام اور مفتیان کرام تک پہنچانے ہونگے تاکہ طلاق کے مسائل کا حل بطور 'حفظ ما تقدم'  حاصل کیا جائے...   Preventive Measures لیتے ہوئے اور    pro-active ہوتے ہوئے.... اور دور جدید میں اس پل کی ذمہ داری اہل علم و نظر و خبر بہتر طور سے انجام دے سکتے ہیں، خاصکر وہ جو دور جدید کے عوام الناس کے بھی قریب ہیں اور دین اور علمائے دین کے بھی....

زمینی حقائق وہی ہیں جس کا تذکرہ بارہا اہل فکر و نظر کرتے ہیں....  اول تو نکاح اور طلاق کے ضمن میں جو دلیلیں اور تاویلیں ہیں انہیں دور جدید کے مسلمانوں کی اکثریت نہ ہی سمجھتی ہے اور نہ سمجھنا چا ہتی ہے.... انکی کی دینی تربیت ایک الگ مو ضوع ہے جس پر یہاں بحث بے جا ہے .... اس لئے نکاح نامہ کے ساتھ ایک قانونی قرار داد ہوسکتی ہے جس میں عام فہم زبان میں، بلکہ انکی اپنی اپنی مادری زبان میں اختصار کے ساتھ نکاح و طلاق کے معاملات کو پیش کیا جاسکتا ہے، مسلکی ترجیحات کے ساتھ لیکن بغیر مسلکی بحث کے ساتھ کہ عام مسلمان کو اس بحث سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی وہ رکھنا چاہتا ہے، بھلے یہ اسکی نا اہلی ہے...... لیکن وہ نکاح کو ایک دینی فریضہ سمجھ کر انجام دینا ضرور چاہتا ہے، اور یہ نکتہ بے حد اہم ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں دین سے جڑا ہے اور مستقبل میں قوی امکانات ہیں کہ وہ دین سے اور بھی قریب ہوجائے ..... الغرض نکاح اور طلاق کے ضمن میں ایک مختصر عام فہم قانونی قرارداد اور ممکن ہوسکے تو دس منٹ کا مختصر تربیتی پروگرام اگر نکاح سے قبل یا عین نکاح خوانی کے وقت دونوں فریق کے لئے لازم کر دیا جائے تو اس خاکسار کے خیال میں دین میں اسکی کوئی مماںعت نہیں ہوگی.... دور جدید کے اکثر نکاح یا نکاح ناموں کی حیثیت دین سے دور رہنے والوں کے نزد قانونی قراردار کی نہیں ہے .. عام بول چال کی زبان میں اسے نکاح کے دو بول ہی کہا جاتا ہے... نکاح کو آسان کرنے کے احکام کا اس قدر غلط مطلب اخذ کیا گیا ہے کہ اس کی اہمیت اب شادی کی طویل رسموں میں اتنی ہی رہ گئی ہے جتنی ہوائی جہاز میں چڑھنے کے لئے بے قرار مسافر کو بورڈنگ پاس کے حصول کی ہوتی ہے... دنیا کے اکثر مسلم ممالک کے قانون دنیوی اور دینی نظام کا مجموعہ وا قع ہوئے ہیں اور خالص اسلامی نہیں ہیں اس لئے بھی نکاح نامہ کی مسلم حیثیت تبھی تک قائم رہتی ہے جب تک طلاق در پیش نہیں ہوتی...
واللہ ہو عالم بالصواب ....
خاکسار 
زبیر       







...

[Message clipped]  

Humayun Rasheed

unread,
Jul 28, 2014, 10:57:00 AM7/28/14
to bazmeqalam
جناب مکرم نیاز صاحب، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بعض اختلافات صحابہ رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمھم اللہ سے چلتا آ رھا ہے، مثلا رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام وغیرہ۔ ان کے اختلاف سے کوئی بھی انکارنہیں کرتا۔ لیکن جس مسئلے میں اختلاف ہی نہ رھا ہو اس میں اختلاف کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ آپ کو معلوم ہو گا کہ کفار مکہ نے کہا تھا کہ ایک دن ہم آپکے خدا کی عبادت کرتے ہیں ایک دن آپ ہمارے کی کریں۔ بظاہر یہ وسیع نظری ہی تھی لیکن اسلام نے اسے مسترد کر دیا۔ جناب محترم، مثال تھوڑی سخت ہے لیکن وسیع نظری اور حد سے گزرنے میں فرق ہے۔ وسیع نظری ہمیں قبول ہے لیکن حد سے گزرنا نہیں۔

اگر آپ ایک محفل کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کو مسلک مانتے ہیں تو برائے مہربانی اُن سلف صالحین یعنی صحابہ رضی اللہ عنھم،  تابعین آئمہ اور محدثین رحمھم اللہ کا نام بتائیے جو اسکے قائل تھے اور فتوی دیتے تھے کیونکہ قرآن اور حدیث کو میں اور آپ تو غلط سمجھ سکتے ہیں صحابہ نہیں۔ جبکہ ایک جملے کی تین طلاق کے تین ہونے کا صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنھم کا فتوی اسی گفتگو میں میں پہلے مع عربی متن اور حوالے کے ذکر کر چکا ہوں دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔ یعنی پہلی صدی میں کون صحابی اور تابعی رضی اللہ عنہ تین کے ایک ہونے کا فتوی دیتا تھا۔

امید ہے نکتے کا نکتے کے ساتھ ہی جواب دیں گے۔ اور اگر سلف صالحین رحمھم اللہ کا فتوی ایک جملے کی تین کا تین ماننا ہی ہے تو اسکی مخالفت کو مسلک کیسے مانا جا سکتا ہے جبکہ دوسری صدی میں آئمہ اربعہ سیکڑوں اختلافات کے باوجود بھی اس مسئلے میں متفق ہیں۔

نوٹ: جن صاحب کی کتاب آپ نے رابط میں بھیجی ہے انہوں نے بہت جگہوں پر خیانت کی ہے جسکا پھر ذکر کریں گے کہ اس رستے پر نکلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

مع السلام،
ہمایوں رشید۔

Aapka Mukhlis

unread,
Jul 28, 2014, 11:36:56 AM7/28/14
to bazm qalam
طلاق دینا ہوتا ہے یا طلاق کہنا؟
طلاق کا مطلب چھوڑنا ہوتا ہے۔ چاہے مرد سو بار یہ الفاظ کہے عملی طورپر تو ایک ہی بار چھوڑا ہے۔
آپ یہ مثال دیتے ہیں کہ تین پتھر مار کر تین شمار کریں ایک کیوں شمار کرتے ہین
لیکن اگر ایک بارپتھر مار کر تین بار کہے کہ میں نے پتھر مارا میں نے پتھر مارا میں نے پتھر مارا۔ تو کیا اس نے تین پھر مارے؟
ایک بار کھانا کھا کر تین بار کہے کہ میں نے کھانا کھایا تو عملی طور پر کھانا تو اس نے ایک ہی بار کھایا
اسی طرح جب ایک موقع پر مرد طلاق دیتا ہے تو وہ ایک ہی موقع ہوتا ہے کیونکہ اس نے کسی ایک سبب سے عملی طور پر ایک ہی بار چھوڑا ہے۔ جب دو اور ایسے مواقع ہو جائیں تو اس کا مطلب گزارہ ممکن نہیں
ایک طلاق سوچ سمجھ کر دی جاتی ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔اس کے لیے توتین طہر والا طریقے پر آسانی سے عمل ہو سکتا ہے۔ 
ایک طلاق کسی ایک خاص موقع پر انتہائی اشتعال کے عالم میں دی جاتی ہے۔اس میں انسان اپنی جذباتی کمزوری اور وقتی اشتعال کی وجہ سے کئی بار کہہ دیتا ہے۔ آپ اس صورت میں اس کی واپسی کا راستہ ہی بند کردیتے ہیں۔ فطری طریقہ یہی نظر آتا ہے کہ ایک مجلس کی طلاق ایک ہی ہو۔ اس پر میں ایک مضمون قرآن و سنت کی روشنی میں بھیج چکا ہوں۔ شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔
مخلص

Sabir Rahbar

unread,
Jul 28, 2014, 11:45:21 AM7/28/14
to BAZMe...@googlegroups.com
مخلص صاحب اسلامی اصول عقل کسوٹی پر نہیں تولے جاتے ہیں ۔میں نے اس تعلق سے قران وحدیث کی روشنی میں کئی مضامین بھیجے ہیں ۔اپ اس کا سنجیدگی سے ساتھ مطالعہ کریں ۔عہد صحابہ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی ہے جہاں تین طلاق کوایک شمار کی گئی ہو۔ ہاں حدیث رکانہ کوسمجھنے میں کچھ لوگ فاش غلطی کربیٹھے ہیں اوراسی ایک حدیث کی بنیاد پر اسلام کے ایک مستحکم اصول سے چھیڑ کرنے کی جرات کی جارہی ہے۔ 
جناب کوئی بھی سخت قانون جرم سے باز رکھنے کیلئے بنایاجاتا ہے اورطلاق بھی اسلام میں سخت ناپسندہ مباح قراردی گئی ہے اگر کوئی اسلامی اصول کے پرواکئے بغیر طلاق دیتا ہے تواسے سزا ضرور ملنی چاہئے تاکہ دوسروںکیلئے تمثتیل بن سکے نہ کہ اس کے ساتھ ہمدردانہ سلوک اختیاربرتی جائے ۔
میں یہاں حدیث رکانہ پر ایک مضمون پوسٹ کررہاہوں۔
ملاحظہ فرمائیں 
حدیث رکانہ کا تحقیقی جائزہ
مولاناکوثر امام قادری

اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیںکہ ایک ساتھ دی جانے والی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم یا دور خلافت صدیقی و فاروقی میں بھی تین ہی شمار ہوتی رہی ہیں۔ لہٰذا یہ امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ بن گیا اور اس پر صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور علماء متقدمین ومتاخرین نے اپنے اپنے زمانے میں فتاوے صادر کیے، جنہیں فقہ اربعہ کی کتابوں میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ نیز اس کی صراحت بھی متعدد کتابوں میں مل سکتی ہے۔
امام نووی نے فرمایا:’’وقد اختلف العلماء فی من قال لامرأتہ انت طالق ثلاثا فقال الشافعی و مالک و ابو حنیفہ و احمد وجماہیر العلماء من السلف و الخلف یقع الثلاث۔‘‘    (1)
علماے کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی سے کہا :تجھے تین طلاق، تو امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمدا ور جمہور علماے سلف و خلف نے فرمایا کہ وہ تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔
امام ہمام حنفی نے فرمایا:’’ذہب جمہور من الصحابۃ والتابعین و من بعدہم من ائمۃ المسلمین الی انہ یقع الثلاث‘‘(2)
جمہور صحابہ و تابعین اور اس کے بعد کے ائمہ مسلمین اس بات کی طرف گئے ہیں کہ تین طلاقیںواقع ہو جائیں گی۔
علامہ عینی فرماتے ہیں:’’مذہب جماہیر العلماء من التابعین و من بعدہم من الاوزاعی و النخعی والثوری وابوحنیفۃ و اصحابہ و مالک واصحابہ والشافعی و اصحابہ واحمد و اصحابہ واسحاق و ابو ثور و ابو عبید واٰخرون کثیر علی ان من طلق امرأتہ ثلثا و قعن و لکنہ یأثم۔  (3)
جمہور علماء، تابعین، تبع تابعین مثلا امام اوزاعی، امام نخعی، امام ابو سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ، امام مالک اور ان کے  تلامذہ، امام شافعی اور ان کے  تلامذہ، امام احمد اور ان کے  تلامذہ، امام اسحق، ابوثور،ابوعبید اور دوسرے کثیر علماء کا مذہب یہ ہے کہ جو اپنی بیوی کو تین طلاق دے گا تو وہ تین واقع ہو جائیں گی،ہاں وہ گنہگار ہوگا۔
علامہ ابن رشد فرماتے ہیں:’’جمہور فقہاء الامصار علی ان الطلاق بلفظ الثلاث حکمہ حکم الطلقۃ الثلاثۃ۔‘‘  (4)
تمام بلاد اسلامیہ کے جمہور فقہا ء اس پر ہیں کہ ایک لفظ سے تین طلاق دینے کا وہی حکم ہے جو تیسری طلاق کاحکم ہے۔
مذکورہ عبارات سے یہ تاریخی شہادت حاصل ہوئی کہ بیک وقت دی جانے والی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی رہی ہیں، عہد رسالت سے ساتویں وآٹھویں صدی ہجری تک جمہور علماء کا یہی موقف رہا اور اس کے بعد کے علماء فقہاء نے بھی اسی پر فتویٰ جاری فرمایا۔ عقیدہ کے اعتبار سے علماء دیوبند خواہ جو کچھ بھی ہوں لیکن وہ بھی اس مسئلہ میں اہلسنت وجماعت کے مشائخ کے قول پرہی فتویٰ دیتے رہے ہیں۔
ہندوستان کے مشاہیر علماء و فقہاء مثلا مفکراسلام امام احمد رضا قادری بریلوی، صدر الشریعہ مولاناامجد علی گھوسوی، ملک العلماء مولانا ظفر الدین قادری ، صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، حافظ ملت مولانا عبد العزیز محدث مبارکپوری، تاج الشریعہ حضرت مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری ، محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی قادری گھوسوی و دیگر فضلائے اسلام کا بھی یہی نظریہ ہے اور اسی کے یہ پابند بھی ہیں۔
خو د سعودی حکومت کے سرکاری مفتیان نے بھی بحث و تحقیق ،تفتیش و تنقید کے بعد اسی موقف کی تائید کی ہے۔ علمائے سعودیہ عربیہ نے اپنے فقہی سمینار میں کچھ اسی طرح طے کیا:’’بعد الاطلاع علی البحث المقدم من الامانۃ العامۃ لہیئۃ کبار العلماء والمعد من قبل اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء فی موضوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد۔ و بعد دراسۃ المسئلۃ و تداول الرای واستقراض الاقوال التی قلت فیہا و مناقشۃ ما علی کل قول من ایراد توصل المجلس باکثریتہ الی اختیارالقول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثا‘‘۔( (5
ایک لفظ سے تین طلاق واقع ہونے کے موضوع پر مجلس علماء کبار کے سکریٹریٹ کی گذشتہ تحقیق اور مجلس قائمہ برائے تحقیقات وافتاء کے فٹ نوٹ سے مطلع ہونے کے بعد اور مسئلہ کی تحقیق، تبادلۂ خیال اور اس بارے میں کہی گئی باتوں کے جائزے اور ہر بات پر وارد ہونے والے اعتراضات پر مباحثے کے بعد مجلس اکثریت رائے کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک لفظ سے تین طلاق واقع ہونے کا قول مختار ہے اور مجلس کا یہی فیصلہ ہے۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس اجمالی مسئلہ کے خلاف ابن تیمیہ نے راہ اپنائی اور آج ان کے ماننے والوں کی ایک چھوٹی سی ٹولی اسی راہ پر گامزن ہے اور ابن تیمیہ کے مقلدین سیدھے سادھے مسلمانوں کو ضعیف روایتیں سنا کر یہ باور کرانے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں  کہ تمام مسلمان حدیث کے خلاف عمل کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں صرف اور صرف ہم ہی ہیں جو سنت صحیحہ پر کاربند ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ ان روایتوں کا معیار کیا ہے جن سے اس اہم مسئلہ میں ابن تیمیہ کے پیروکار استدلال کرتے ہیں۔
’’ عن ابن عباس قال طلق رکانہ بن عبد یزید اخو بنی مطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد فحزن علیہ حزناًشدیداً، قال، فسالہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف طلقہا قال طلقتہا ثلاثا قال فقال فی مجلس واحد قال نعم قال انما تلک واحدۃ فارجعہاان شئت قال فراجعہا‘‘۔) 6 (
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالی، پھر آپ کو سخت غم لاحق ہوا،  دربار رسول ﷺ میں حاضر ہوئے ، عرض کیا،  سرکار نے فرمایا کس طرح طلاق دیے؟ عرض گذار ہوئے: میں نے اسے تین طلاقیں دی، فرمایا: ایک ہی مجلس میں؟ عرض کیا: ہاں، فرمایا: وہ ایک ہی طلاق ہے، چاہو تو رجوع کر سکتے ہو، تو انہوں نے رجوع کر لیا‘‘۔ اس حدیث کے بارے میںعلامہ ابن جوزی فرماتے ہیں:’’ہذا حدیث لا یصح ابن اسحاق مجروح و داؤد اشد منہ ضعفاً‘‘یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کی سند کا ایک راوی ابن اسحاق مجروح ہے اور دوسرا راوی داؤد اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔
امام ابن حبا ن نے کہا:’’فیجب مجانبۃ روایتۃ‘‘7) (
  اس کی روایات سے اجتناب کرنا واجب ہے۔
   امام نسائی نے فرمایا’’محمد بن اسحاق لیس بالقوی‘‘8) (  ابن اسحاق قوی نہیں۔
داؤد بن حصین کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں:’’قال الساجی منکر الحدیث یتہم برای الخوارج‘‘  وہ فرقۂ خارجیہ کا داعی ہے۔
ابن المدینی نے کہا:’’ما روی عن عکرمۃ فمنکر‘‘  ان کی عکرمہ سے مرویات سب کے سب منکر ہیں۔
امام ابن حاتم نے کہا۔’’لو لا ان ما لکاً روی عنہ لترک حدیثہ‘‘اگر امام مالک نے ان سے روایت نہ لی ہوتی تو ان سے روایت لینا ترک کر دیا جاتا۔
ابن عیینہ کہتے ہیں:’’کنا نتقی حدیث داؤد‘‘ ہم ان کی حدیثوں سے پرہیز کرتے تھے۔
ابو زرعہ کہتے ہیں:’لین الحدیث۔‘‘  9) (حدیث میں کمزور ہے۔
سمذکورہ حدیث تو مسند امام احمد میں بھی ہے جس کی سند کی حقیقت آپ کے سامنے ہے لیکن یہی حدیث امام ابو داؤد نے بھی اپنی سنن میں لی ہے جس کی سند میں بعض بنورافع ہے چونکہ راوی کانام نہیںہے ۔اس لیے اس کی حدیث ، حدیث مجہول کے درجہ میں ائمہ نے شمار کیا ہے۔
جماعت غیر مقلدین کے بہت بڑے عالم علامہ ابن حزم فرماتے ہیں:’’ما نعلم لہ شیئا احتجوابہ غیر ہذا و ہذا لا یصح لانہ عن غیر مسمی من بنی ابی رافع ولا حجۃ فی مجہول‘‘(10)
ہمارے علم میں اس حدیث کے سوا ان لوگوں کی اور کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ ابو رافع کی اولاد میں سے جس شخص سے یہ روایت ہے اس کا نام نہیں لیا گیا۔
ہاں! بعض محدثین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ راوی مجہول نہیں، معلوم ہے اور وہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع ہے۔ اس لیے اس صورت میں یہ حدیث مجہول نہیں ہو سکتی تو اب ہم اس راوی کے بارے میں بھی معلوم کر لیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی تحریر فرماتے ہیں:’’قال البخاری منکر الحدیث‘‘ امام بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے۔
’’قال ابن معین لیس بشئی‘‘ ابن معین نے کہا یہ کوئی چیز نہیں۔
’’قال ابو حاتم ضعیف الحدیث منکر الحدیث جدا ذاہب۔‘‘
ابو حاتم نے کہا یہ ضعیف الحدیث ،منکر الحدیث اور ذاہب الحدیث ہے۔
’’قال ابن عدی ہو فی عدا شیعۃ الکوفۃ ویروی من الفضائل اشیاء لا یتابع علیہا۔‘‘(11)
ابن عدی نے کہا یہ کوفہ کے شیعہ میں سے ہے اور فضائل میں اس نے ایسی روایات بیان کی ہیں جن کا کوئی متابع نہیں ہے ۔ برقانی نے دار قطنی سے روایت کیا کہ یہ متروک ہے۔یہی وہ نقائص ہیں جن کی بناء پر حدیث رکانہ (یعنی مذکورہ حدیث) کو اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
چنانچہ امام نووی فرماتے ہیں:’’اماالروایۃ التی رواہا المخالفون ان رکانۃ طلق ثلاثا فجعلہا واحدۃ فروایۃ ضعیفۃ عن قوم مجہولین ۔‘‘(12)
رہی وہ روایت جس کو مخالفین نے روایت کیا کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو حضور نے ایک ہی نافذ فرمائی، یہ روایت ضعیف ہے جو مجہول لوگوں سے مروی ہے۔
امام ابن تیمیہ نے کہا:’’و حدیث رکانۃ ضعیف عند ائمۃ الحدیث ضعفہ احمد والبخاری و ابو عبید و ابن حزم بان رواتہ لیسوا موصوفین بالعدل والضبط۔‘‘(13)
حدیث رکانہ ائمہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ۔اس کو ضعیف کہنے والوں میں امام احمد، امام بخاری، ابو عبید، اور ابن حزم ہیں کیونکہ اس کے راوی عدل و ضبط والے نہیں تھے۔
غیر مقلدین اپنے مسلک کی تائید میں جو حدیث پیش کرتے ہیں، اس کی سند کی حقیقت سامنے آگئی۔ اب اس کے متن پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ متن میں بھی کچھ الٹ پھیر ہے۔اس لیے کہ یہی محترم رکانہ کی حدیث جو دوسری صحیح سند کے ساتھ آئی ہے۔ اس میں طلق ثلاثا کی جگہ البتہ کا لفظ آیا ہے،یعنی انہوں نے طلاق نہیں دیا تھا بلکہ طلاق ِبتہّ دی تھی۔
طلاقِ بتہّ والی حدیث متعدد سندوں سے مروی ہے۔ امام ترمذی نے اس کو ذیل کی سندوں کے ساتھ استخراج فرمایا ہے۔ سند و متن ملاحظہ کیجیے:’’حدثناہناد، ناقبیصۃ، عن جریر بن حازم، عن الزبیر بن سعد، عن عبد اللّٰہ بن یزید بن رکانۃ،عن ابیہ، عن جدہ، قال: اَتیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت یا رسول اللّٰہ! صلی اللّٰہ علیہ وسلم انی طلقت امرأتی البتۃ، فقال: ما اردت بہا؟ قلت: واحدۃ، قال: واللّٰہ؟ قلت: واللّٰہ فہو ما اردت۔‘‘(14)
اس سند کے راویوں کے بارے میں ائمہ فن کہتے ہیں:
(1)ہنادکے بارے میں حافظ ابن حجر نے لکھاہے کہ امام احمد بن حنبل نے کہا تم ہناد کو لازم رکھو ۔اما م ابو حاتم نے کہا وہ بہت سچے ہیں۔ قتیبہ نے کہا: میں نے دیکھا کہ وکیع ہناد سے زیادہ کسی کی تعظیم نہیں کرتے تھے۔ امام نسائی نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔امام ابن حبان نے بھی ان کا ثقات میں ذکر کیا ہے۔
(2) قبیصہ کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:’’سئل ابو زرعۃ عن قبیصۃ و ابی نعیم فقال کان قبیصۃ افضل الرجلین۔‘‘حافظ ابو زرعہ سے قبیصہ اور ابو نعیم کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ان دونوں میں قبیصہ افضل ہیں۔
’’قال ابن ابی حاتم سألت ابی عن قبیصۃ فقال قبیصۃ اعلی عندی وہو صدوق‘‘ابن حاتم کہتے ہیں ۔ میں نے اپنے والد سے قبیصہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ،قبیصہ بہت سچے ہیں۔
’’قال اسحاق بن سیار ،مارایت احفظ منہ من الشیوخ‘‘
اسحاق بن سیار نے کیا۔ میں نے شیوخ میں سے قبیصہ سے بڑھ کر کوئی حافظ نہیں دیکھا۔
’’قال النسائی لیس بہ بأس ‘‘امام نسائی نے کہا ان سے روایت میں کوئی حرج نہیں۔
’’ذکرہ ابن حبان فی’’الثقات ‘‘
 امام ابن حبان نے ثقات میں ان کا ذکر کیا ہے۔ (16)
(3)جریر بن حازم کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:’’قال موسیٰ ما رایت حماداً یعظم احدا تعظیمہ جریر بن حازم۔‘‘
موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حماد جتنی تعظیم جریر بن حازم کی کرتے تھے کسی اور کی نہیں کرتے تھے۔
’’قال عثمان الدارمی عن ابن معین ثقۃ‘‘
عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا کہ یہ ثقہ ہیں۔
’’قال الدوری سألت یحیٰ عن جریر بن حازم و ابی الاشہب فقال جریراحسن حدیثا منہ و اسند‘‘دوری کہتے ہیں میں نے یحیٰ سے پوچھا کہ جریر بن حازم اور ابوالاشہب میں کس کی روایت بہتر ہے، تو فرمایا کہ جریر کی روایت احسن و اسند ہے۔
  ’’قال ابو حاتم صدوق صالح ‘‘ ابو حاتم نے کہا یہ بہت سچے اور نیک ہیں۔  (17)
(4) زبیر بن سعید کے بارے میں حافظ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں:’’ قال الدوری عن ابن معین ثقۃ ،قال الدار قطنی یعتبرہ بہ، و ذکرہ ابن حبان فی ثقات‘‘(18)
دوری نے ابن معین سے نقل کیا کہ یہ ثقہ ہیں۔ دار قطنی نے کہا یہ معتبر ہیں۔ امام ابن حبان نے ثقات میں ان کا ذکر کیا۔
(5) عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ۔یہ خود حضرت رکانہ کے اہل بیت سے ہیں ،امام ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے   (19)
مذکورہ بالاتفصیل سے معلوم ہوا کہ طلاق بتہّ والی حدیث کے جملہ راوی صحیح وثقہ ہیں۔ لہذا یہ حدیث صحیح ہے۔مولانا حبیب الرحمن اعظمی اس عنوان پر نفیس بحث کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے:’’ اثبت ما روی فی قصۃ رکانۃ انہ طلقہا البتۃ  لاثلاثا ‘‘(20)
سب سے زیادہ صحیح بات روایت رکانہ کے قصے میں یہ ہے کہ انہوں نے لفظ بتہّ سے طلاق دی نہ کہ ثلاثا سے۔
اور حافظ ابن حجر نے مسند احمد کی یہی روایت ذکر کے بلوغ المرام میں لکھا ہے:’’وقد روی ابو داؤد من وجہ اٰخر احسن منہ ان رکانۃ طلق امرأتہ سہیمۃ البتۃ‘‘ (22)
امام ابوداؤد نے ایک دوسرے طریقے سے جو مسند احمد کے طریقہ سے بہتر ہے،روایت کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو لفظ بتّہ سے طلاق دی۔یہی وجہ ہے کہ ابوداؤد، ابن حبان ،حاکم، دارقطنی اور طنافسی نے بتّہ والی حدیث کی تصحیح کی ہے ۔(23)
اب آفتاب نیم روز کی طرح واضح ہو گیا کہ جمہور علماء اسلام کا موقف صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ جبکہ غیروں کے موقف کی بنیاد ضعیف حدیث پر ہے اور چونکہ یہ مسئلہ باب حلال و حرام سے متعلق ہے،اس لئے اس باب میں صحیح حدیث کی موجودگی میں ضعیف ومخالف حدیث سے استدلال جائز نہیں۔
 1؎شرح مسلم ، جلد اول ص478 
 2؎فتح القدیر جلد:3؍ ص:25
 3؎عمدۃ القاری شرح بخاری  جلد 20؍ص:33
 4؎بدایۃ المجتہد جلد: ۲؍ ص:57
 5؎ابحاث ہیئۃ کبار العلماء جلد اول ص408:
 6؎مسند امام احمد جلداول ص408:
 7؎العلل المتناہیہ، بیروت جلد دوم ص640:
 8؎الضعفاء والمتروکین ص 230:
9؎تہذیب التہذیب جلد دوم ص 349:
 10؎المحلی جلد دہم ص168:
 11؎تہذیب التہذیب جلد5:؍ ص724:
 12؎شرح مسلم نووی جلد اول  478
 13؎توضیح الاحکام شرح بلوغ المرام جلد 5:؍ ص20:
14؎ترمذی جلد :اول ص140:
 15؎تہذیب التہذیب ج11: ص 71: 
16؎تہذیب التہذیب ج5:؍ ص323,24:
 17؎تہذیب التہذیب جلد1؍ ص545: 18؎تہذیب التہذیب جلد2؍ ص 468:
 19؎کتاب الثقات جلد 7: ؍ ص 15: 
22,21,20الاعلام المرفوعۃ فی حکم الطلقات المجموعۃ ص40:
14؎ترمذی جلد :اول ص140:
 15؎تہذیب التہذیب ج11: ص 71: 
16؎تہذیب التہذیب ج5:؍ ص323,24:
 17؎تہذیب التہذیب جلد1؍ ص545: 18؎تہذیب التہذیب جلد2؍ ص 468:
 19؎کتاب الثقات جلد 7: ؍ ص 15: 
23,22,21,20الاعلام المرفوعۃ فی حکم الطلقات المجموعۃ ص40:

Humayun Rasheed

unread,
Jul 28, 2014, 11:56:59 AM7/28/14
to bazmeqalam
جناب صابر صاحب، بجا فرمایا۔
عقلی طور پر بھی اس پر بحث ہو سکتی ہے اور قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ بھی۔ لیکن اسطرح تو نہ میں تیری مانوں نہ تو میری والی بات چلتی رہے گی۔ اسی لئے میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ صحابہ، تابعین، مجتھدین اور محدثین رضی اللہ عنھم کے فتاوی پہلے ذکر کر دئیے جائیں تاکہ یہ تو معلوم ہو کہ صدر اول میں یہ مسلک تھا بھی کہ نہیں۔ اگر نہیں تھا تو مان لیا جائے صدر اول والے بھی قرآن اور سنت کو نہ سمجھ سکے اور اسکے خلاف فتوی دیتے رہے۔ حیرت تب ہوتی ہے کہ لوگ خود کو سلفی کہتے ہیں اور سلف کا فتوی پیش نہیں کر پاتے۔

بہرحال میرے خیال میں مزید کسی بات سے پہلے اگر مزعومہ مسلک کے صدر اول کے فتاوی پیش ہو جائیں تو مناسب ہے۔

مع السلام۔
ہمایوں رشید۔
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages