آصف جیلانی صاحب دخل در معقولات کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکں آپ تو اس ملک کے رہائشی ہیں،جھاں پر محنت کی عزت اور قدر کی جاتی ہے اور ہر پیشہ واجب الاحترام سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اپنی تخلیقی صلاحئیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی محنت سے رزق حلال کماتا ہے تو ایسا شاعر اور ادیب قابل عزت و صد احترام ہونا چاہئے نہ کہ ہم ان پر ترس کھائیں اور شرمندہ ہوں اسوقت پاکستان میں جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام چل رہا ہےاسنے تولوگوں کو خیرات خوری اور بھیک منگے پن کا عادی بنا دیا ہے Abida Rahmani --- On Mon, 7/9/12, Mirza Muhammad Nawab Mirza <mirza_...@hotmail.com> wrote: |
محترم آصف صاحب، محترم عامر صاحب، جناب مرزا صاحب، جناب شمس الدین آغا صاحب، محترمہ عابدہ رحمانی صاحبہ، محترمہ شاذیہ عندلیپ!
محشر لکھنوی کی داسنان الم پڑھ کر آپ کے تبصروں کا شکریہ۔ مجھے تو تو اپنے کرم فرما جناب سید معراج جامی صاحب کے تبصرے کا انتظار ہے کہ وطن عزیز میں روز بروز بڑھتی بے حسی کو وہ ایک عرصے سے محسوس کررہے ہیں اور راقم کو اکثر ان کی ہم نشینی میں اسے قسم کے واقعات سے آگاہی کا موقع ملتا رہتا ہے۔
برطانیہ سے ایک کرم فرما نے نجی پیغام میں راقم سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مدد کا ارادہ رکھتے ہیں، طریقہ کار وضع کیا جائے۔
خاکسار کے پیش نظر حضرت علی کا قول رہتا ہے کہ خوشی (یا جذبات کی کیفیت) میں کسی سے کوئی وعدہ نہ کرو اور غصے کی حالت میں کوئی فیصلہ مت کرو کہ دونوں میں انسان بعد میں پچھتاتا دیکھا گیا ہے۔ سو ان سے بھی عرض کیا کہ جن صاحب نے یہ انٹرویو کیا ہے، ان سے رابطے میں رہتا ہوں، ذرا وقت گزر جانے دیجیے، ان سے دریافت کروں گا کہ اس معاملے میں کیا پیش رفت ہوئی۔ ضرورت پڑی تو خود جاکر محشر صاحب سے ملاقات کرنے کا ارادہ بھی ہے۔ یہ معاملے خاکسار کے لیے نئے نہیں ہیں، لیکن مکمل تصدیق و تسلی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ تعاون پر مائل کسی بھی ہمدرد کو بعد میں مایوسی نہ ہو۔
مجھے اس بات کی قومی امید ہے کہ متعلقہ اخبار کے قارئین یقیننا اس میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ اس سے قبل بھی کراچی کے علاقے رابعہ سٹی میں میاں بیوی اور دو ننھے بچوں پر مشتمل گھرانے کے سر سے 80 ہزار روپوں کے لیے چھینی جانے والی چھت ان ہی لوگوں نے واپس دلوائی تھی۔
لوگ مدد کرتے ہیں صاحب! بس اعتماد ہونا چاہیے۔ صحافی سہیل وڑائچ "ایک دن جیو کے ساتھ" نامی پروگرام کئی برسوں سے کررہے ہیں۔ سہیل وڑائج نے سینکڑوں پروگرام کیے لیکن ان کا سب سے پسندیدہ انٹروہو پنجاب کے غربت زدہ علاقے کا ایک مسیحی بھٹہ مزدور کا تھا جس کے ساتھ انہوں نے تمام دن گزارا تھا۔ پروگرام دنیا بھر میں دیکھا گیا۔ پانچ بچوں کا باپ وہ بھٹہ مزدور ٹی بی اور ذیا بطیس کا مریض تھا، دن بھر کڑی محنت کرتا تھا، رات کے کھانے کی سبیل نہ تھی، دوائیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا کہ وہاں تو کھانے کے لالے پڑے تھے۔ لیکن ایسے عالم میں بھی اس کی بذلہ سنجی قائم تھی۔ آخر میں مہدی حسن مرحوم کی ایک غزل گا کر سنتا رہا اور اسی گانے پر پروگرام ختم ہوا تھا۔ سہیل وڑائچ نے اس کے ساتھ کھانا بھی کھایا جو سوکھی روٹی اور چائے کی ایک پیالی پر مشتمل تھا۔
پروگرام نشر ہوا، اگلے ہی روز سہیل وڑائچ کے پاس ڈنمارک سے ایک خاتون کا فون آیا جنہوں نے ماہانہ آٹھ ہزار کی دواؤں کی ذمہ داری اٹھائی۔ لاہور کے ایک صاحب نے مزدور کے بچوں کی تعلیم کا بیڑہ اٹھایا، ایک دوسرے صاحب نے گھر پکا کرادیا۔
لوگ مدد کرنے کو آج بھی راضی ہیں، بس اک اعتماد کی بات ہے!
خیر اندیش
راشد
بہت شکریہ جناب والا
تقریب کی روداد آپ سے سننے کو مل جائے گی۔ امریکہ سے امین ترمذی صاحب نے اس کی اطلاع دی تھی۔
کتاب کی قیمت کیا رکھی گئی ہے جناب ? اردو بازار میں دستیابی کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔
راشد
راشد صاحب آپ نے دل و دماغ میںمحشر بپا کر دیا ہےعامر
From: Rashid Ashraf <zest...@gmail.com>
To: 5BAZMeQALAM <bazme...@googlegroups.com>
Sent: Monday, July 9, 2012 12:22 PM
Subject: {12782} ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا - ایک شاعر رکشہ چلانے پر مجبور ہوا
ہے ابھی گردشِ حالات سے جینا دو بھر
وقت یکساں نہیں رہتا ہے گُذر جائے گاشاعر نے یہ شعر شاید ان لوگوں کے لیے کہا ہوگا جو اوائل عمری میں حالات کی سختی کا شکار ہوتے ہیں۔ وقت یکساں نہیں رہتا، گزر جاتا ہے، غم کے بعد خوشی، مصائب و آلام کے بعد راحت بھی ملتی ہے۔ لیکن 68 برس کی عمر میں کسی کے حالات خراب ہوجائیں تو اچھے وقت کے انتظار میں وہ حرماں نصیب بھلا کتنا جیے گا ?یہ قصہ ہے کراچی میں مقیم سید محسن رضا نقوی المعروف محشر لکھنوی کا جن کا انٹرویو 8جولائی 2012 کو ایک مقامی روزنامے میں شائع ہوا۔ محشر لکھنؤی غزل کے شاعر ہیں، اس کے علاوہ منقبت، نوحے اور قطہ نگاری کے فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔شورش کاشمیری کے روزنامہ چٹان میں ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے محشر لکھنوی ان دنوںشہر کراچی میں گردش حالات کا شکار ہو کر رات کی تاریکی میں رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔ 1957 میں شورش کاشمیری یہ جان کر کہ محشر کے جد امجد مولانا سید دلدار علی غفران تھے، آبدیدہ ہوگئے تھے، پھر جو بن پڑا، شورش نے ان کے لیے کیا۔ آغا شورش کاشمیری کی بات پرانی ہوئی، اب محشر ایک "شورش زدہ" شہر میں مقیم ہیں جہاں امن و امان کی درگوں صورتحال کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی گزر اوقات روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ محشر کے والد مولانا حکیم سید محمد یوسف علیم لکھنؤ کے کئی مدارس میں معلم رہے۔تقسیم کے بعد محشر لکھنؤی نے کراچی میں بیرا گیری کی، ٹرینوں میں لیمن سوڈا کی بوتلیں فروخت کیں، بندر روڈ پر مونگ پھلیاں بیچتے رہے۔ ساحل سمندر پر میٹھا پانی فروخت کرتے رہے، برسوں مکانوں پر رنگ روغن کا کام بھی کرتے رہے۔ کئی دہائیں گزریں جب محشر لکھنؤی عباس ٹاؤن کراچی کے ایک شکستہ مکان میں مقیم تھے، ان کا ننھا سا بیٹا ایک موذی مرض کا شکار ہوا، جو کچھ کماتے، اس کے علاج پر اٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک روز اس معصوم نے دم دے دیا۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں تھا، ایک دوست سے ادھار لیا اور بیٹے کی لاش کو چھاتی سے لگا کر سہراب گوٹھ میں اس زمانے میں واقع بچوں کے ایک قبرسان پہنچ گئے۔ خود قبر کھودی اور بیٹے کو سپرد خاک کیا۔ آج اس قبرستان کی جگہ ایک پیٹرول پمپ بن چکا ہے۔ محشر جب بھی وہاں سے گزرتے ہیں تو وہ ننھی سی قبر ان کے سینے میں شق ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک احوال احسان دانش نے بھی اپنی خودنوشت میں "دو لاشیں" کے باب میں بیان کیا ہے جب ان کے ایک انتہائی غریب مزدور دوست کے دونوں بچوں کا انتقال ہوگیا تھا اور وہ ان کے لاشے سائکل کے کیریئر پر باندھ کر قبرستان پہنچا تھا۔گردش حالات کے سبب محشر لکھنؤی کا دل بھی تباہ ہے ہمت بھی پست ہے لیکن خوداری کا عالم یہ ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے روا دار نہیں ہیں۔ محشر، فیڈرل بی ایریا میں واقع کیفے پیالہ کے سامنے ایک غریب پرور بستی میں مقیم ہیں۔ انٹرویو لینے والے صاحب کہ محمد احمد انصاری کہلاتے ہیں، راقم الحروف کے دوستوں میں سے ہیں اور محشر صاحب کی قیام گاہ سے واقف ہیں۔محشر لکھنؤی کی اہلیہ کے دل کے تین آپریشن ہوچکےہیں، کچھ عرصہ قبل ان کے داماد سید مختار عباس کو قتل کردیا گیا تھا، بیوہ بیٹی کہ کینسر کی مریضہ ہے، پانچ بچوں کو ساتھ لیے انہی کےگھر آگئی تھی۔ اس ہوشربا مہنگائی کے زمانے میں دو کنبوں کی کفالت کا بوجھ اٹھائے محشر لکھنوی کیسے جیتے ہیں، کس طرح جیے جاتے ہیں، ان کی بسر اوقات کا احوال جان کر اہل دل یقننا دل گرفتہ ہوجائیں گے۔ لکھنؤ کے ایک معزز سادات گھرانے سے تعلق رکھنے والا خودار انسان آج شہر میں میں محض اس لیے "بھیس" بدل کر رکشہ چلانے پر مجبور پے کہ کہیں ان کے شناسا انہیں اس حال میں دیکھ کر ملول نہ ہوں۔ غم حسین میں نوحے پڑھنے والا ایک بوڑھا انسان آج اپنی تقدیر پر نوحہ کناں ہے۔ اس کی ہر شام، اب شام غریباں ہے۔ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتامیرے وطن عزیز کا حال ہی میں معزول قرار پانے والا، اسی لاکھ کے سوٹ پہنے والا شخص، دو روز قبل اس شان سے اپنے آبائی شہر ٹرین میں بیٹھ کر چلا تھا کہ اس کے لیے چئرمین ریلوے کا "سیلون" مخصوص کیا گیا جس میں عملی طور پر فائیو اسٹار کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔کسی کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی، رستے میں کئی چھوٹے شہروں کی ٹرینیں روکی گئیں جہاں گرمی سے کئی مسافر جاں بلب ہوئے۔خیر اندیش--
راشد اشرف
کراچی سے
زبان اور ادب کی بے لوث خدمت میں مصروف چند ادارے
کسوٹی جد http://www.kasautijadeed.com/cms/
اردو آڈیو اور ویڈیوکا دنیا میں سب سے بڑا ذخیرہ http://www.urduaudio.com/
سہ ماہی اثباتhttp://www.esbaatpublications.com/
کمپیوٹرانٹرنیٹ پر مائکروسوفٹ ورڈ میں اور ای میل میں اردو تحریر کے لیےhttp://www.urdu.ca/ - http://www.mbilalm.com/
http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-1/
راشد اشرف کی تحریروں کے لیے
http://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=4760
To read the archives https://groups.google.com/group/BAZMeQALAM/topics
To receive an invitation to JOIN send mail to bazme...@gmail.com
To invite your friends to Bazm e Qalam group http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM/members_invite
To UNSUBSCRIBE please send a blank mail to bazme...@googlegroups.com with subject "UNSUBSCRIBE"
اردو آڈیو اور ویڈیوکا دنیا میں سب سے بڑا ذخیرہ http://www.urduaudio.com/
سہ ماہی اثباتhttp://www.esbaatpublications.com/
کمپیوٹرانٹرنیٹ پر مائکروسوفٹ ورڈ میں اور ای میل میں اردو تحریر کے لیےhttp://www.urdu.ca/ - http://www.mbilalm.com/
http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-1/
راشد اشرف کی تحریروں کے لیے
http://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=4760
To read the archives https://groups.google.com/group/BAZMeQALAM/topics
To receive an invitation to JOIN send mail to bazme...@gmail.com
To invite your friends to Bazm e Qalam group http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM/members_invite
To UNSUBSCRIBE please send a blank mail to bazme...@googlegroups.com with subject "UNSUBSCRIBE"
آصف جیلانی صاحب دخل در معقولات کے لئے معذرت خواہ ہوں لیکں آپ تو اس ملک کے رہائشی ہیں،جھاں پر محنت کی عزت اور قدر کی جاتی ہے اور ہر پیشہ واجب الاحترام سمجھا جاتا ہے اگر کوئی اپنی تخلیقی صلاحئیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی محنت سے رزق حلال کماتا ہے تو ایسا شاعر اور ادیب قابل عزت و صد احترام ہونا چاہئے نہ کہ ہم ان پر ترس کھائیں اور شرمندہ ہوں اسوقت پاکستان میں جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام چل رہا ہےاسنے تولوگوں کو خیرات خوری اور بھیک منگے پن کا عادی بنا دیا ہے Abida Rahmani --- On Mon, 7/9/12, Mirza Muhammad Nawab Mirza <mirza_...@hotmail.com> wrote: |
|
|
|
|
On 7/10/12, Rashid Ashraf <zest...@gmail.com> wrote:
> بہت شکریہ جناب والا
>
> تقریب کی روداد آپ سے سننے کو مل جائے گی۔ امریکہ سے امین ترمذی صاحب نے اس کی
> اطلاع دی تھی۔
>
> کتاب کی قیمت کیا رکھی گئی ہے جناب ? اردو بازار میں دستیابی کے بارے میں آگاہ
> فرمائیے۔
>
> راشد
>
> 2012/7/10 syed maeraj jami <maer...@yahoo.co.uk>
>
>> شکریہ راشد میں نے باقی تبصرے تو پڑھ لیے اور وہ بھی ابھی ابھی کل میں
>> خواجہ رضی حیدر کی کتاب سلیم احمد مشاہدے مطالعے اور تاثرات کی روشنی میں کی
>> تقریب میں کل تاخیر سے واپسی ہوئی کل نیٹ نہیں دیکھ سکا آج اس واقعے کو پڑھو
>> گا مگر راشد بس ایک بات نوٹ کر لو کہ یہ امیری اور یہ غریبی اس دنیا کے لیے
>> لازمی ہیں تخلیق بشر کا مقصد ہی یہی ہے کہ تم اپنے دوسروں بھائیوں کے لیے کیا
>> کرسکتے ہو یا دوسرے معنوں میں اللہ کے بندوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ سکتے
>> ہو
>> ذرا سوچو کیا اللہ تعالی کے لیے سب کو خوشحال رکھنا کوئی امر محال ہے انسان
>> کئ
>> تخلئق کا مقصد ایک دوسرے کی خیر گواہی ہے اور الحمد للہ صاحب ثروت اس امتحان
>> میں پورا اترتے ہیں مگر وہ جن کو مقصد بشر کا سبق یاد ہے
>> جامی
>>
>>
>> ------------------------------
>> *From:* Rashid Ashraf <zest...@gmail.com>
>> *To:* bazme...@googlegroups.com
>> *Cc:* asafj...@yahoo.co.uk; mirza_...@hotmail.com;
>> amiral...@yahoo.com; mahta...@gmail.com; shamsud...@hotmail.com;
>> abidar...@yahoo.com; andle...@gmail.com
>> *Sent:* Tuesday, 10 July 2012, 9:34
>> *Subject:* Re: {12809} ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا - ایک شاعر رکشہ
>> ------------------------------
>> *From:* Rashid Ashraf <zest...@gmail.com>
>> *To:* 5BAZMeQALAM <bazme...@googlegroups.com>
>> *Sent:* Monday, 9 July 2012, 8:22
>> *Subject:* {12782} ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا - ایک شاعر رکشہ چلانے
--
Regards,
Mr. Rafeeq Sultan Khan
Mobile : 0091 - 9335234016
Email : rafee...@gmail.com
جناب خواجہ صاحب
جزاک اللہ۔ بہت شکریہ آپ کا۔ کچھ اور لوگوں نے بھی یہ پیشکش کی ہے۔
جیسا میں نے اپنےگزشتہ جواب میں عرض کای تھا کہ کچھ وقت دیجیے کہ میں اس سلسلے میں انٹرویو لینے والے دوست سے معلومات اکھٹی کرلوں، یہ جان لوں کہ انٹرویو کی اشاعت کے بعد ان سے کتنے لوگوں نے رابطہ کیا ہے اور مالی مدد کے سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
پھر یقیننا یہ ہوسکتا ہے کہ مجھ تک جو بھی پہنچے گا، اسے محشر صاحب تک اس طرح پہنچایا جائے گا کہ اس کا ثبوت بھی دے سکوں۔ تصویر کی شکل میں ہو یا کوئی اور طریقہ لیکن یہ اس لیے ضروری ہے کہ ان معاملوں میں خاکسار بیحد محتاط رہتا ہے۔ ان معاملوں میں "ذرا سی بات سے برسوں کے یارانے" جاتے دیکھے ہیں جناب۔
پیشکش ایک سے زیادہ آنے کی صورت میں یہ بھی کرسکتا ہوں کہ انٹرویو لینے والے دوست کا، جو کہ معاملات میں کھرے ہیں، فون نمبر احباب کو دے دیا جائے کہ براہ راست رابطہ کریں کہ درمیان سے اس "مڈل مین" کی حاجت نہ رہے۔
خیر اندیش
راشد
Subject: {12782} ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا - ایک شاعر رکشہ چلانے
پر مجبور ہوا
ہے ابھی گردشِ حالات سے جینا دو بھر
وقت یکساں نہیں رہتا ہے گُذر جائے گا
شاعر نے یہ شعر شاید ان لوگوں کے لیے کہا ہوگا جو اوائل عمری میں حالات کی سختی کا شکار ہوتے ہیں۔ وقت یکساں نہیں رہتا، گزر جاتا ہے، غم کے بعد خوشی، مصائب و آلام کے بعد راحت بھی ملتی ہے۔ لیکن 68 برس کی عمر میں کسی کے حالات خراب ہوجائیں تو اچھے وقت کے انتظار میں وہ حرماں نصیب بھلا کتنا جیے گا ?
یہ قصہ ہے کراچی میں مقیم سید محسن رضا نقوی المعروف محشر لکھنوی کا جن کا انٹرویو 8
جولائی 2012 کو ایک مقامی روزنامے میں شائع ہوا۔ محشر لکھنؤی غزل کے شاعر ہیں، اس کے علاوہ منقبت، نوحے اور قطہ نگاری کے فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
شورش کاشمیری کے روزنامہ چٹان میں ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے محشر لکھنوی ان دنوں
شہر کراچی میں گردش حالات کا شکار ہو کر رات کی تاریکی میں رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔ 1957 میں شورش کاشمیری یہ جان کر کہ محشر کے جد امجد مولانا سید دلدار علی غفران تھے، آبدیدہ ہوگئے تھے، پھر جو بن پڑا، شورش نے ان کے لیے کیا۔ آغا شورش کاشمیری کی بات پرانی ہوئی، اب محشر ایک "شورش زدہ" شہر میں مقیم ہیں جہاں امن و امان کی دگرگوں صورتحال کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی گزر اوقات روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ محشر کے والد مولانا حکیم سید محمد یوسف علیم لکھنؤ کے کئی مدارس میں معلم رہے۔
تقسیم کے بعد محشر لکھنؤی نے کراچی میں بیرا گیری کی، ٹرینوں میں لیمن سوڈا کی بوتلیں فروخت کیں، بندر روڈ پر مونگ پھلیاں بیچتے رہے۔ ساحل سمندر پر میٹھا پانی فروخت کرتے رہے، برسوں مکانوں پر رنگ روغن کا کام بھی کرتے رہے۔ کئی دہائیں گزریں جب محشر لکھنؤی عباس ٹاؤن کراچی کے ایک شکستہ مکان میں مقیم تھے، ان کا ننھا سا بیٹا ایک موذی مرض کا شکار ہوا، جو کچھ کماتے، اس کے علاج پر اٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک روز اس معصوم نے دم دے دیا۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں تھا، ایک دوست سے ادھار لیا اور بیٹے کی لاش کو چھاتی سے لگا کر سہراب گوٹھ میں اس زمانے میں واقع بچوں کے ایک قبرسان پہنچ گئے۔ خود قبر کھودی اور بیٹے کو سپرد خاک کیا۔ آج اس قبرستان کی جگہ ایک پیٹرول پمپ بن چکا ہے۔ محشر جب بھی وہاں سے گزرتے ہیں تو وہ ننھی سی قبر ان کے سینے میں شق ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک احوال احسان دانش نے بھی اپنی خودنوشت میں "دو لاشیں" کے باب میں بیان کیا ہے جب ان کے ایک انتہائی غریب مزدور دوست کے دونوں بچوں کا انتقال ہوگیا تھا اور وہ ان کے لاشے سائکل کے کیریئر پر باندھ کر قبرستان پہنچا تھا۔
گردش حالات کے سبب محشر لکھنؤی کا دل بھی تباہ ہے ہمت بھی پست ہے لیکن خوداری کا عالم یہ ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے روا دار نہیں ہیں۔ محشر، فیڈرل بی ایریا میں واقع کیفے پیالہ کے سامنے ایک غریب پرور بستی میں مقیم ہیں۔ انٹرویو لینے والے صاحب کہ محمد احمد انصاری کہلاتے ہیں، راقم الحروف کے دوستوں میں سے ہیں اور محشر صاحب کی قیام گاہ سے واقف ہیں۔
محشر لکھنؤی کی اہلیہ کے دل کے تین آپریشن ہوچکےہیں، کچھ عرصہ قبل ان کے داماد سید مختار عباس کو قتل کردیا گیا تھا، بیوہ بیٹی کہ کینسر کی مریضہ ہے، پانچ بچوں کو ساتھ لیے انہی کےگھر آگئی تھی۔ اس ہوشربا مہنگائی کے زمانے میں دو کنبوں کی کفالت کا بوجھ اٹھائے محشر لکھنوی کیسے جیتے ہیں، کس طرح جیے جاتے ہیں، ان کی بسر اوقات کا احوال جان کر اہل دل یقننا دل گرفتہ ہوجائیں گے۔ لکھنؤ کے ایک معزز سادات گھرانے سے تعلق رکھنے والا خودار انسان آج شہر میں میں محض اس لیے "بھیس" بدل کر رکشہ چلانے پر مجبور ہے کہ کہیں ان کے شناسا انہیں اس حال میں دیکھ کر ملول نہ ہوں۔ غم حسین میں نوحے پڑھنے والا ایک بوڑھا انسان آج اپنی تقدیر پر نوحہ کناں ہے۔ اس کی ہر شام، اب شام غریباں ہے۔
ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
میرے وطن عزیز کا حال ہی میں معزول قرار پانے والا، اسی لاکھ کے سوٹ پہنے والا شخص، دو روز قبل اس شان سے اپنے آبائی شہر ٹرین میں بیٹھ کر چلا تھا کہ اس کے لیے چئرمین ریلوے کا "سیلون" مخصوص کیا گیا جس میں عملی طور پر فائیو اسٹار کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔کسی کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی، رستے میں کئی چھوٹے شہروں کی ٹرینیں روکی گئیں جہاں گرمی سے کئی مسافر جاں بلب ہوئے۔
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
بشکریہ محترم راشد اشرف اور ادبی فورم بزمِ قلم اور
اور جناب محشر لکھنوی سے معذرت کے ساتھ
مخلص
احمد علی برقی اعظمی
ایک شاعر رہ گیا رکشہ چلانے کے لئے
احمد علی برقی اعظمی
یہ خبر کافی ہے میرا دل جلانے کے لئے
ایک شاعر رہ گیا رکشہ چلانے کے لئے
ایک گوشے میں سواری کا ہے اپنی منتظر
دیکھتا ہے راہ سب کی آنے جانے کے لئے
تلخ ہے اپنے لئے یہ زندگی کا تجربہ
کیا سے کیا کرنا پرا روٹی کمانے کے لئے
کہنے کو یوں تو ہزاروں لوگ ہونگے خیر خواہ
رسمِ الفت اب نہیں کوئی نبھانے کے لئے
زندگی میں پُرسشِ احوال جو کرتے نہیں
جشن ہونگے اگلی صف میں وہ منانے کے لئے
کھارہے ہیں نام پر اقبال اور غالب کے لوگ
یہ ادارے ہیں زمانے کو دکھانے کے لئے
رات میں رکشہ چلا کر سب کا کرتے ہیں گذر
آج ہیں مجبور محشر منھ چھپانے کے لئے
عیش و عشرت میں بسر کرتا ہے کوئی زندگی
کوئی ہے مجبور برقی دانے دانے کے لئے
شاید کہ اُتر جائے کسی دل میں مری بات
غمگسار
احمد علی برقی اعظمی
جناب حماد صاحب!
خاکسار نے اپنا فون نمبر نجی پیغام میں ارسال کردیا ہے
محشر صاحب سے آپ کی ملاقات میں کوئی دقت نہیں ہے جناب، اس کا بندوبست بہ آسانی کرسکوں گا۔
راشد