الحمد للہ والصلوۃ والسلام علٰی رسولہ اما بعد،
باطل گروہ مسلمانوں کے ہر معاملے کو مشکوک کر کے فائدہ اُٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے، ایسا ہی ایک مسئلہ ہے کسی بھی معبود کو لفظِ اللہ سے پکارنا۔ اس فتنے کے فورا بعد ناچیز نے مشہور سائٹس پر دیکھا' عیسائیوں' یہودیوں اور مسلمانوں کے بارے میں' مثلا؛
اگر لفظِ اللہ مِلا تو صرف اسلام میں' دوسروں میں کہیں نہیں ملا۔ اب آپ جتنا مرضی کہ لیں کی اس لفظ کا یہ مطلب ہے یا وہ' دو سو سال یا چار سو سال قبل یہ لفظ اُنکے ھاں استعمال ہوا یا کچھ بھی کہ لیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ لفظِ اللہ کا مکمل معنی اور مفہوم صرف اور صرف اسلام میں ہے، یہ دوسرے گروہ بهی مانتے ہیں اور مانتے آئے ہیں۔ باقی مذاھب خود بهی اپنے الٰہ کا نام رکھتے ہیں، اگر کوئی مذھب بانجھ ہے نام مستعار لینا چاہتا ہے تو علیحدہ مسئلہ ہے۔ اگر پہلے سے نام موجود ہے تو اس وقت یہ خلط ملط کرنے سے سوائے فتنہ پیدا کرنے کے اور کیا مطلب ہے؟
کفار کے پیچهے بے سمجهے بوجهے چلنا
ہمارے معاشرے میں خصوصا پڑھے لکھے لوگوں میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ غیر مسلموں سے اظہار یکجہتی کا کوئی موقع ھاتھ سے نہیں جاتے دیتے' گویا یہ دنیا و آخرت کی کامیابی ہے' حالانکہ اللہ تعالٰی سورۃ توبۃ آیت 8 میں فرماتے ہیں؛كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ کیونکر' کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا۔ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل قبول نہیں کرتے۔ اور ان میں اکثر نافرمان ہیں۔ سورۃ بقرۃ 120 میں فرمایا؛ وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔ پس جب کافروں کا کام ہی مسلمانوں سے زبانی جمع خرچ کرنا ہے اور تب تک خوش نہیں ہوں گے کہ جب تک کہ اُن کے رستے کی پیروی نہ شروع کر دیں تو پھر کیوں اُنکی باتوں کی طرف التفات کیا جائے؟
لفظِ اللہ اسم علم ہے نکرہ نہیں
چلتے چلتے ایک مغالطے کا ازالہ کر لیں' کہ لفظِ اللہ اور باری تعالٰی کے دوسرے اسماء میں فرق یہ ہے کہ اِسے اسم عَلَم مانا گیا ہے. امام مالک رحمہ اللہ الرحمٰن کو بھی اسم علم مانتے ہیں' لیکن بہرحال لفظِ اللہ تو بغیر کسی اختلاف کے اسم علم ہے سوائے اس کے کہ کوئی فلسفی اس میں کلام کرے۔ اس کی صَرَفی بناوٹ کی بناء کس پر ہے یہ لغت کی بحث ہے اور اس کے اسم علم ہونے سے مانع نہیں۔ اسی ضمن میں واضح رہے کہ بات الٰہ، خدا' پرمیشور' معبود، بهگوان یا گاڈ وغیرہ کی نہیں ہو رہی بلکہ اللہ، وشنو' ہری اور جیزز وغیرہ کی ہو رہی ہے. اسم معرفہ اور نکرہ کے فرق کو ملحوظ رکهیں کیونکہ لوگ یہاں بهی دهوکہ کهاتے ہیں۔
کیا تمام الہ ایک ہیں
کلام پاک میں الٰہوں میں فرق مانا گیا ہے؛ اللہ تعالٰی سورۃ الانعام 108 میں فرماتے ہیں؛ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بے سمجھے برا کہہ بیٹھیں پس اللہ تعالٰی نے نہیں فرمایا کہ جنہیں یہ پکارتے ہیں اُنہیں مت برا کہو کہ وہ بھی تو مجھے ہی پکارتے ہیں کیونکہ تمام جہانوں کا رب ایک میں ہی ہوں۔ بلکہ فرمایا کہ جب جواب میں وہ برا کہیں گے تو بات غلط ہو جائے گی۔ پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے کلام میں بھی دونوں طرح کے خداوندوں میں فرق کیا ہے' ایک دوسرا نہیں ہے۔ سورہ مریم آیت 81 میں فرمایا؛ وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا اور ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں اس سے اگلی آیت دیکھئے؛ كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا ہرگز نہیں وہ (معبودان باطل) ان کی پرستش سے انکار کریں گے اور ان کے دشمن (ومخالف) ہوں گے۔ آپ کسی بھی مذھب پر غور کر لیجئے' جسکو وہ الٰہ بتاتے ہیں وہ تاریخ میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے' خواہ ہندوؤں کا اوتار ہو یا عیسائیوں کا تین میں سے ایک۔ پس قیامت کے دن کیسے یہ معبود انکار کرے گا؟ موجود ہو گا تو کرے گا۔ پس شخصیت ہی اور ہے تو اسے اللہ کیونکر کہنے کی اجازت دی جائے؟ جو نام ہے وہی استعمال کریں۔
نام مفہوم سے تعبیر کیا جاتا ہے
ہر اسم کا ایک مفہوم ہے، جس پر صادق آجائے۔ آئیے قرآن میں دیکھیں کہ لفظ اللہ کس پر صادق آتا ہے' اگر کسی اور مذھب میں بھی الٰہ پر یہ اسم صادق آئے تو استعمال کرے' اگر نہ آئے تو اتنی سمجھ تو طفل مکتب کو بھی ہے کہ کس مفہوم کیلئے کونسا لفظ استعمال ہونا چاہئے۔
- قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ۔ اللہ ایک ہے' شان تو یہ ہے کہ اللہ ایک ہی ہے۔
- اللَّـهُ الصَّمَدُ۔ سب سے بے نیاز ہے' کسی کا محتاج نہیں۔
- لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔ نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کسی کا باپ ہے۔
- وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔ کوئی کسی طرح بھی اسکے برابر نہیں۔
- اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ۔ کوئی اسکے علاوہ کسی قسم کی عبادت کا حقدار نہیں۔
- مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ۔ جزا کے دن کا مکمل مالک ہے۔
اس کے علاوہ بھی اللہ تعالٰی کی وہ خصوصیات مثلا ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا، جسے چاہے دے جس سے چاہے روک لے، زندگی اور موت دیتا ہے، وغیرہ ذھن میں رکھیں جو قرآن میں بیان ہوئیں۔ پس کسی بھی مذھب میں الٰہ کا مفہوم یہی ہے تو وہ لفظِ اللہ استعمال کرے' اگر مفہوم یہ نہیں ہے تو وہ جان بوجھ کر خلط ملط کرنا چاہتا ہے جس سے اُسے روکا جائے گا' کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں؛ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ صحیح کو غلط سے خلط ملط مت کرو۔
پڑتال کا طریقہ
اگر آپ دیکهنا چاہتے ہیں کہ کیا دوسرے مذاهب اپنے الٰہ کیلئے لفظِ اللہ استعمال کر سکتے ہیں تو دیکهئے کہ کیا جو نام الٰہ کیلئے اُنکے هاں مستعمل ہے وہ ہم استعمال کر سکتے ہیں قرآن و سنت کی تعبیرات کو سامنے رکهتے ہوئے یا نہیں؟ اگر کر سکتے ہیں' تو بسم اللہ کر کے پہلے خود یہ فریضہ سر انجام دیجئے، معلوم ہو جائے گا جب لوگ آپکی زبان سے لفظ سنیں گے، غرض یہ کہ اس کا غلط ہونا بدیہی ہے۔ اور اگر نہیں کر سکتے، تو ظاہر ہے دو وجہوں میں سے ایک ہو گی، یا تو اس نام کے استعمال سے قرآن و سنت کی تعبیرات میں مزید اضافہ کرنا پڑ رها ہے یا کمی، پس دونوں صورتوں میں لفظِ اللہ نقل کرنے میں اسکا عکس ہو رها ہے۔ جب نقل نہیں ہو سکتا، تو یہی تو ہم کہ رہے ہیں کہ سب مذاهب میں جو نام استعمال ہو رہے ہیں وہی رکهیں فتنہ مت پهیلائیں۔
کیا انکی فریاد اللہ نہیں سنتا
یہ بهی ایک مغالطہ ہے. بات یہ تو ہو ہی نہیں رہی کہ سنتا کون ہے، سنے گا تو الحی القیوم ہی، بات تو یہ ہو رہی ہے کہ کس نام سے موسوم کیا جائے. ایک بے عقل بچه کسی سے کچه مانگے تو پدرانہ شفقت بھی گوارا نہیں کرتی اور عطاء کرتی ہے، تو یہ تو رحمٰن ہے کیوں نہ عطاء کرے؟ پس عطاء رحمن نے کیا تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ شریک کا نام بهی اللہ رکه لے؟ فتدبر۔
لفط اللہ تو پہلے سے متعارف تھا
یہ بھی مغالطہ ہے۔ اول تو یہ بتائیے کہ کیا اسلام سے بھی پہلے کا کوئی لفظ ہے؟ لفظِ اللہ کے متعارف ہونے کا تو سوال ہی نہیں۔ بات تو یہ ہے کہ یہ اسم کس کا عَلَم ہے؟ کیا نماز روزہ وغیرہ کے الفاظ پہلے سے متعارف نہیں تھے؟ اسلام نے آکر تمام قاموسات و لغات نئی نہیں بنا دیں' بلکہ جہاں کمی تھی تکمیل کر دی' جہاں کجی تھی اصلاح کر دی۔ اسی طرح اللہ تعالٰی کے مفہوم میں لوگوں کے علم میں کمی تھی' پس وہ قرآن اور سنت میں بیان کر دی۔ اس کے بعد مسلمان جہاں بھی گئے رب العالمین کا نام اللہ بتایا اور صفات بیان کِیں تو کسی کا الٰہ ان صفات کا حامل نہیں ملا۔ پس تب سے اب تک یہ نام ایک مفہوم کے ساتھ جانا جاتا ہے' جس میں خلط سے ہم روک رہے ہیں۔
آخری بات یہ کہ اس بات کو سمجھئے کہ آخر ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ دوسرے مذاھب یہ نام بھی چرانے پر آگئے ہیں؟ ابھی نہ سہی لیکن وقت دور نہیں جب یہ خلط آنے والی نسلوں کو حق ہی نظر آنے لگے گا۔ اگر دوسرے مذاھب مسلمانوں کے الٰہ کے مفہوم سے متفق ہیں تو پہلے اپنے ھاں مفہوم ٹھیک کریں بعد میں شوق سے یہ نام استعمال کریں۔ زمین پر مخلوق بن کر آنے والے کو "اللہ" پکارنے کی اجازت مسلمان نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تمام اپنے ناموں سے پہلے ہی معروف و مفہوم ہیں۔
مع السلام' ہمایوں رشید۔