شاہ نامہ اسلام۔ حفیظ جالندھری۔ سیزدہم۔ حضرت ہاجرہ وحضرت اسماعیل

599 views
Skip to first unread message

Aapka Mukhlis

unread,
Jul 30, 2014, 1:02:19 AM7/30/14
to bazm qalam

 

حضرت ابراہیمؑ کا عقد ثانی فرعون کی بیٹی حضرت ہاجرہؓ سے

 

دیارِ  مصر پر اس عہد میں رقیون حاکم تھا

تکلف برطرف شیطان کا قانون حاکم تھا

 

یہاں‌ رقیون نے حضرت کی زوجہ چھیننا چاہی

مگر دے دی اسے اللہ نے فی الفور آگاہی

 

کہ یہ ساراؓ ہے ابراہیمؑ حق آگاہ کی بیوی

خدا کے پاک پیغمبر خلیلؑ اللہ کی بیوی

 

اگر نیت میں فرق آیا ترے حق میں برا ہو گا

نشاں‌ دنیا میں تیرا  اور نہ تیری نسل کا ہو گا

 

ہوا فرعون خائف ایک پیغمبرؑ کے آنے سے

خُدائی کر رہا تھا مصر میں وہ اک زمانے سے

 

تھی اس کے گھر میں اک دختر وہ کر دی ساتھ سارہؓ کے

پیغمبرؑ کے لئے یوں‌ نذر بھیجی ہاتھ سارہؓ کے

 

پلٹ آیا پیغمبرؑ پھر یہاں سے جانب کنعاں

یہ لڑکی ہاجرہؓ بھی ساتھ تھی وابستہ داماں

 

یہ لڑکی ہر طرح مانند سارہؓ پاک طینت تھی

تقدس اس کا زیور تھا شرافت اس کی زینت تھی

 

اسے ساراؓ نے پیغمبرؓ کی زوجیت میں دے ڈالا

کہ ہونے والا تھا دنیا میں اس کا مرتبہ بالا

 

حضرت اسمٰعیلؑ کی ولادت، ماں بیٹے کی ہجرت

 

جنابِ  ہاجرہؓ تھیں زوجۂ ثانی پیمبرؓ کی

ملا فرزند اسمٰعیلؑ  انہیں خوبی مقدر کی

 

ہوا ساراؓ کو رشک اس امر سے دل میں ملال آیا

نکل جائے یہاں‌ سے ہاجرہؓ بس یہ خیال آیا

 

مشیت کو ادھر کچھ اور ہی منظورِ خاطر تھا

کہ نورِ  احمدیؐ  بچے کی پیشانی سے ظاہر تھا

 

ہوا ارشاد دونوں کو عرب کی سمت لے جاؤ

خدا کے آسرے پر وادی بطحا میں چھوڑ آؤ

 

خدا کے حکم سے مرسل نے جب رخت سفر باندھا

جناب ہاجرہؓ نے دوش پر لخت جگر باندھا

 

پیمبرؑ  اپنا بیٹا اور بیوی ہمعناں لے کر

چلا سوئے عرب پیری میں بختِ  نوجواں لے کر

 

خدا کا قافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر

معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر

 

چلا جاتا تھا اس تپتے ہوئے صحرا کے سینے پر

جہاں دیتا ہے انساں موت کو ترجیح جینے پر

 

وہ صحرا جس کا سینہ آتشیں کرنوں کی بستی ہے

وہ مٹی جو سدا پانی کی صورت کو ترستی ہے

 

وہ صحرا جس کی وسعت دیکھنے سے ہول آتا ہے

وہ نقشہ جس کی صورت سے فلک بھی کانپ جاتا ہے

 

جہاں اک اک قدم پر سو طرح جانوں پر آفت تھی

یہ چھوٹی سی جماعت بس وہیں گرمِ  مسافت تھی

 

پیمبرؑ زوجہ و فرزند یوں‌ قطعِ  سفر کرتے

خدا کے حکم پر لبیک کہتے اور دکھ بھرتے

 

بالآخر چلتے چلتے آخری منزل پر آ ٹھہرے

پئے آرام زیر دامنِ  کوہ صفا ٹھہرے

 

یہ وادی جس میں وحشت بھی قدم دھرتی تھی ڈر ڈر کے

جہاں پھرتے تھے آوارہ تھپیڑے بادِ  صر صر کے

 

یہ وادی جو بظاہر ساری دنیا سے نرالی تھی

یہی اک روز دین حق کا مرکز بننے والی تھی

 

یہ وادی جس میں سبزہ تھا نہ پانی تھانہ سایا تھا

اسے آباد کردینے کو ابراہیمؑ   آیا تھا

 

یہیں ننھے سے اسمٰعیلؑ کو لا کر بسانا تھا

یہیں پر نور سجدوں سے خدا کا گھر بسانا تھا

 

 

حضرت ابراہیمؑ کی دعا

 

سحر کے وقت ابراہیمؑ نے اٹھ کر دعا مانگی 7

سکون قلب مانگا خوئے تسلیم و رضا مانگی

 

کہ اے مالک عمل کو تابعِ ارشاد کرتا ہوں

میں بیوی اور بچے کو یہاں آباد کرتا ہوں

 

اسی سنسان وادی میں انہیں روزی کا ساماں دے

اسی بے برگ و سامانی میں شانِ  صد بہاراں دے

 

الٰہی نسل اسمٰعیلؑ بڑھ کر قوم ہو جائے

یہ قوم اک روز پابندِصلوۃ و صوم ہو جائے

 

اسی وادی میں تیرا ہادیؐ موعود ہو   پیدا

کرے جو فطرتِ  انسان کو تیرے نام پر شیدا

 

بشارت تیری سچی ہے ترا وعدہ بھی سچا ہے

بس اب تو ہی محافظ لے یہ بیوی اور بچہ ہے

Zubair H Shaikh

unread,
Jul 30, 2014, 3:02:34 AM7/30/14
to BAZMe...@googlegroups.com
سبحان الله سبحان الله ، روح و ایمان کو سرشار کردینے والا کلام ہے.... سمجھ نہیں آتا کون کون سے مصرع کی داد دی جائے، ہر ایک مصرع اپنے آپ میں ایک ماہ پارہ ہے اور جامع تشریح و تفسیر ہے، بلکہ چند مقام پر واقعات کی تصحیح کی گئی ہے جن میں ابہام پایا جاتا تھا....

الله تعالی صاحب کلام کو کروٹ کروٹ فردوس بریں عطا کرے ... اللہ تعالی آپ جناب کو بھی جزائے خیر دے اس انتخاب پرجو قند مکرر بلکہ قند مسلسل کہلانے لائق ہے .... اہل بزم کی تفنن طبع کا کیا خوب سامان کیا آپ نے.....
خاکسار 
زبیر
 




Aapka Mukhlis

unread,
Jul 31, 2014, 1:49:28 AM7/31/14
to bazm qalam
حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ جب تک اللہ نے چاہا
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages