اعجاز عبید
صاد
دیباچہ
تمھیں تو یادہوگا
میں نے یہ وعدہ کیا ہے
اپنے سارے
کچےّ پکےّ
نیلے پیلے
کھٹےّ میٹھے شعر
سارے بھول جاؤں گا
٭
سنو
یہ پہلی (شایدآخری بھی) نظم ہوگی
تمھارے نام سے منسوب ہے جو
اگر فرصت ملے تم کو
تو یہ بھی دیکھ لینا
(کیا میں اس وعدہ خلافی کی
معافی مانگ لوں)
مگر یہ یاد رکھوّ
آج کے بعد
جو مجھ میں ایک شاعر تھا
وہ مر جاۓگا
بس اک انساں بچے گا
جس کے دل میں
ننھے ننھے دیپ روشن ہیں
۔۔۔۔۔۔
صاد
٭
مری جتنی حِسیں ہیں
ان میں حسِ باصرہ ہی کیوں قوی ہے
کہ جو آکاش پر بکھرے ستاروں میں،
مثلثّ ۔ دایرے۔ مکعب۔ مربعّ
دیکھتی ہے
جو
ان بنجر زمینوں میں
سنہری بالیوں کے سبز پتےّ
دیکھ لیتی ہے
کہ جن کے بیج
ابھی ڈالے گۓ ہیں
یہ میری کیسی حسِّ باصرہ ہے!!
چلو
جب اک اجانی رہگزر کی جستجو ہو گی
زبانیں اپنی
ساری اجنبی ہو جاٗ ئیں گی سب
اس دم
زبانِ باصرہ میں گفتگو ہوگی
٭
سنو
میں دیر سے
لیٹا ہوا ہوں
ستارے
مجھ کو چاروں سمت
اتر کر
گھیر لیتے ہیں
ستارے۔۔۔
میری آنکھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں کے قلم میں
ستارے۔۔۔
میرے سارے ہی بدن میں ناچتے ہیں
نہ جانے کون سی دھن ہے
مسلسل بج رہی ہے
مسلسل رقص میں ہیں
یہ ستارے
میں بستر سے الگ ہٹتا ہوں
تب سارے ستارے
مرے بستر پہ
میری ہی طرح سے
لیٹ جاتے ہیں
٭