طویل نظم صاد ۔ اعجاز عبید حصہ اولّ

43 views
Skip to first unread message

aijaz...@gmail.com

unread,
Oct 3, 2005, 5:50:07 AM10/3/05
to Sher-o-Adab
صاد

اعجاز عبید

صاد
دیباچہ
تمھیں تو یادہوگا
میں نے یہ وعدہ کیا ہے
اپنے سارے
کچےّ پکےّ
نیلے پیلے
کھٹےّ میٹھے شعر
سارے بھول جاؤں گا
٭
سنو
یہ پہلی (شایدآخری بھی) نظم ہوگی
تمھارے نام سے منسوب ہے جو
اگر فرصت ملے تم کو
تو یہ بھی دیکھ لینا
(کیا میں اس وعدہ خلافی کی
معافی مانگ لوں)
مگر یہ یاد رکھوّ
آج کے بعد
جو مجھ میں ایک شاعر تھا
وہ مر جاۓگا
بس اک انساں بچے گا
جس کے دل میں
ننھے ننھے دیپ روشن ہیں
۔۔۔۔۔۔
صاد

٭
مری جتنی حِسیں ہیں
ان میں حسِ باصرہ ہی کیوں قوی ہے
کہ جو آکاش پر بکھرے ستاروں میں،
مثلثّ ۔ دایرے۔ مکعب۔ مربعّ
دیکھتی ہے
جو
ان بنجر زمینوں میں
سنہری بالیوں کے سبز پتےّ
دیکھ لیتی ہے
کہ جن کے بیج
ابھی ڈالے گۓ ہیں
یہ میری کیسی حسِّ باصرہ ہے!!
چلو
جب اک اجانی رہگزر کی جستجو ہو گی
زبانیں اپنی
ساری اجنبی ہو جاٗ ئیں گی سب
اس دم
زبانِ باصرہ میں گفتگو ہوگی
٭
سنو
میں دیر سے
لیٹا ہوا ہوں
ستارے
مجھ کو چاروں سمت
اتر کر
گھیر لیتے ہیں
ستارے۔۔۔
میری آنکھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں کے قلم میں
ستارے۔۔۔
میرے سارے ہی بدن میں ناچتے ہیں
نہ جانے کون سی دھن ہے
مسلسل بج رہی ہے
مسلسل رقص میں ہیں
یہ ستارے
میں بستر سے الگ ہٹتا ہوں
تب سارے ستارے
مرے بستر پہ
میری ہی طرح سے
لیٹ جاتے ہیں
٭

aijaz...@gmail.com

unread,
Oct 7, 2005, 1:54:45 AM10/7/05
to Sher-o-Adab
یہ راتیں رو رہی ہیں
یہ راتیں
کیسی ننھی بچیاّں ہیں
سب کو سوتی جاگتی
ایک ایک گڑیا دو
تو شاید
مسکرا دیں
ستارے ان کے نازک پیر
سہلا دیں
تو شاید
ننھے منےّ قہقہے بکھریں
٭

میں بستر سے الگ ہٹتا ہوں
اور سارے ستاروں کو
پکڑنا چاہتا ہوں
(ذرا دیکھو تو۔۔۔
میرے ہاتھ میں
یہ ننھے ننھے داغ
کیسے ہیں؟
ستاروں نے
ہتھیلی پر
تمھارا نام تو لکھاّ نہیں شاید۔۔۔!!!
قریب آؤ۔۔۔۔
تو میں مٹھیّ میں جکڑے
ہر ستارے سے
تمھیں ملواؤں
یہ سارے میرے ساتھی ہیں
مرے بچپن کے
میرے ساتھ کھیلے ہیں
مرے ہی ساتھ
پیدا بھی ہوۓ تھے
سنا تھا
دوسرے تارے
اذانِ فجر سنتے ہی
چلے جاتے ہیں سونے
لیکن یہ ستارے
اذاں سنتے ہی
میرے جسم میں اترے ہیں
میرے اندروں،
ہر طرف بکھرے ہوے ہیں
چلو
میں ان ستاروں سے
تمھیں ملواؤں
٭

aijaz...@gmail.com

unread,
Oct 11, 2005, 2:35:06 AM10/11/05
to Sher-o-Adab
مرے اجداد کیسے تھے
کہاں سے آۓ تھے
میں نے کسی سے
آج تک پوچھا
نہ پوچھوں گا
بس
اتنا یاد ہے مجھ کو
وہ ان میں سے ہی کوئی تھے
اٹھاّرہ سو ستاّون نے
جن کے پاؤں میں
سیسہ اتارا تھا
انھیں
برفاب انسانوں سے نفرت تھی
٭
وہ کتنی سیدھی سادی عورتیں تھیں
جن کے اجلے آنچلوں میں
روز
چمپا اور چمیلی
کھلتی رہتی تھی
وہ ساری خوشبوئیں
اب کون جانے
کون دنیا
کس سمندر میں
بسی ہیں
(سنو!
تم کو سمندر سے
کہیں ڈر تو نہیں لگتا؟
ڈرو مت
ہماری چار باہیں
چار پتواریں ہیں
سمندر
کچھ نہ اپنا کر سکے گا)
٭
یہ کیسا اک ستارہ ہے
جسے چھوتے ہی
میرے جسم کی
رگ رگ میں
جیسے
پھول کھل اٹھتے ہیں
سنہری تتلیوں کے
بکھرے بکھرے رنگ
رہ جاتے ہیں
٭
یہ بچےّ کون ہیں؟
جو تتلیاں چھونے کی خواہش میں
بڑے جوتوں کی جوڑیں
پہنے پہنے
دوڑتے۔۔
گرتے ہیں
تتلی مسکراتی ہے۔
کہ اس کی سمت
ننھے ہاتھ پھیلے ہیں
انھہیں ہاتھوں میں ہیں
کتنے ستارے
کتنے سورج ہیں
٭
وہ بچہّ کھو گیا ہے
ذرا ڈھونڈھو
کہیں وہ تیلیوں کے تخت پر
راجا بنا بیٹھا ہو۔۔
روپہلے تاش کے پتوّںّ کے گھر میں
بس گیا ہو
ننھے ننھے کاغذوں پر
ہولڈر کی روشنا ئی سے
کتابیں چھاپتا ہو
نہ جانے اب کہاں
اس کے انوکھے سے کھلونے ہیں
کہاں وہ خوبصورت ڈایری ہے
جس میں اس نے
پیارے پیارے گیت لکھےّ تھے
وہ بچہّ کھو گیا ہے
اس کو ڈھونڈھو
ّمگر وہ بچہّ اب کافی بڑا ہوگا
٭

aijaz...@gmail.com

unread,
Oct 17, 2005, 4:22:03 AM10/17/05
to Sher-o-Adab
مرے چاروں طرف کردار ہیں
میں ان میں
اس بچےّ کو ڈھونڈھوں گا
مرے چاروں طرف
کردار مجھ کو گھیرتے ہی جا رہے ہیں
اٗترتے آ رہے ہیں
موہنی سرگم سے۔۔۔۔
ایزل سے۔۔۔۔
کتابوں کے صفحوں سے۔۔۔۔۔
بِمل راۓ،
گرو دت،
رے کی فلموں سے
وہ ان میں ہی کہیں ہوگا
٭
بہت کردار ہیں۔۔۔
سنو یہ کون ہے؟
سارنگ کی دھن
گا رہا ہے
تال روپک پر
یہ سارنگی پہ کس کا زمزمہ ہے
پہاڑی راگ گاتی بانسری
کس کی ہے
یہ موسیقار تینوں۔۔
کس کی ایزل سے
اٗتر کر آ گۓ ہیں۔
پکاسو
ونسی
اور گجرال
کس کی بھیرویں میں بہہ رہے ہیں
٭
ارے یہ قرۃالحیدر کے افسانوں کا سناّٹا
یہاں
اس شہرِ ممنوعہ میں کیسے آ گیا ہے؟
یہاں تو ایک برگِ نے ابھی تک تھا
یہ جنگل میں دھنک کیسی ہے؟
یہ ننھےجگنؤوں کی کیسی دنیا ہے
جہاں میرے صنم خانے ملیں گے
جہاں مش رومس میں
پریوں کی بستی ہے
وہیں آ نگن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ
اک آگ کے دریا کے بیچوں بیچ گمٗ صم ٗ ہے
دوسری جانب
کو ئی بوڑھا
سمندر کے مقابل ہے
اور ادھر
دوسری جانب
خدا کی بستیوں میں
پا بجولاں کتنی نسلوں کی اداسی ہے
٭
یہ لڑکی کون ہے
دیکھو
کسی کرپان نے
معصوم چہرہ
یہ کہہ کر غرب سے
مشرق کو موڑا ہے
’ادھر کیا دیکھتی ہے۔۔۔
کون ہے تیرا؟‘
یہ کس کا دل سویرے کا
سنہرا جام ہوتا ہے
یہ چاروں سمت میرے
چیونٹیوں کی ننھی ننھی فوج کیسی ہے
یہ راتیں درد کا کیسا شجر ہیں؟
مدھو شالا میں کیسے آ گیا یہ رات کا تنہا
مسافر
(رکو سولینسٹن!
میں دیکھ لوں صورت تمھاری)
وہ لڑکا کھو گیا ہے
کہیں
یہ وہ معصوم لڑکا تو نہیں
جو کہتا ہے
’میں زندہ ہوں‘
اور اس جنگل سے اس کا کچھ نہیں رشتہ
جہاں ماؤں کی گودوں میں کبھی بچےٓ نہیں
ہنستے
٭
یہ سب کردار تو
اک اجلے بادل کے مسافر ہیں
نگر اس کے تو دونوں پیر
دھرتی پر تھے
وہ ان میں نہ ہوگا
٭

aijaz...@gmail.com

unread,
Oct 21, 2005, 6:06:38 AM10/21/05
to Sher-o-Adab
یہاں چوبیس دروازے ہیں
تم
ہر ایک دروازے پہ دستک دو
کہیں کو ئی نہیں ہے
ارے! لیکن یہاں یہ آخری دروازہ وا کہوں
ہے؟
ارے!
اس میں یہ اتنے سارے
نیلے پیلے غباّرے
کہاں سے
کس نے لا کر رکھ دۓ ہیں؟
٭
ارے!
یہ میرے چاروں سمت
پیتل کی سنہری تھالیاں کیوں ناچتی ہیں
کس کی پوجا ہے
جو اتنی لڑکیاں
ہزاروں پھول گیندے کے
دۓ
سیندور
تھامے جا رہی ہیں
یہ پیپل ایسے کتنے منظروں کا
آشنا ہے
مجھے بتلاؤ
وہ بچہّ
دۓکی طرح
کس تھالی میں جلتا ہے
دۓ کی یہ لویں ہیں
یا صلیبیں
عبادت گاہ میں
جو سرنگوں ہوں گی
یہ سجدے
سب کے ماتھے پر
ہمیشہ کے لۓ
ایک اک نشانی چھوڑ جا ئیں گے
پھر اس کے بعد
سب سورج
ہزاروں سال جیسی
ایک لمبی رات کےآتے ہی
اپنی ہر کہانی چھوڑ جا ئیں گے
(اٗسے بھی شوق تھا
ہر رات
ماں سے اک کہانی روز سننے کا)
یہ ماں بھی
کتنا میٹھا شبد ہے
جیسے حلاوت کا سمندر ہے
(سنو
تم کو
سمندر سے کہیں ڈر تو نہیں لگتا؟)
یہ ماں
بیوی
بہن
کتنے رسیلے شبد ہیں
ان کے رنگیں آنچلوں میں
اپنے
دوجے
آنسؤوں کا عطر ہے
٭
یہ ماں ہے
جس کی دو آنکھیں سمندر
کہ جس میں
ننھی ننھی کشتیاں
اکثر ابھرتی ڈوبتی ہیں
بہن ہے
ایک پل لڑتی ہے
اگلے پل میں من جاتی ہے
سہانی بانسری کی دھن پہ اکثر گیت گاتی ہے
تمھارے
اور میرے
پیار کے نغمے
’کلی بن کے
صبا بن کے
وفا کے باغ میں
مہکا کریں گے‘
یہ تم ہو
جس سے میرا
اک سہانے شبد کا
اگلا تعلقّ ہے
یہ ماں بیوی بہن کتنے رسیلے شبد ہیں!!
٭
ہماری ما ئیں بھی
کتنی پیاری ہیں
مہرباں ہیں
جو چاہتی ہیں
کہ کو ئی دیوار
درمیاں میں نہ آۓ اپنے
چلو
کہ ہم
اپنی اپنی ماؤں کے آنچلوں کو
نہ ہو بہار اں
خزاں کے پھولوں سے ہی سجا دیں
چلو
کہ ہم
ان کے پاک دامن
ہزار ہا جگنؤوں سے بھر دیں
چلو
کہ ہم
ان کے
اجلے ہاتھوں کو
چوم لیں
جو کہ پاک ہیں
مثلِ سنگِ اسود
٭
تمھاری میری بہنیں
کتنی پیاری
مہرباں ہیں
تمھاری بہنیں
مرے خطوں کی
سدا ہی رہتی ہیں منتظر
دل چسپی سے پڑھتی ہیں
مری بہنیں
جو لڑتی ہیں
کہ تم سے آج تک وہ مل نہیں پا ئیں
یہ بہنیں کتنی بھولی ہیں
ان آنکھوں کے جگنو بھی
ہمارے پیار سے روشن ہیں
ان کے آنچلوں میں
کتنی کلیاں ہیں
جو اس جذبے کی خوشبو سے
مہکتی ہیں
یہ جذبہ سارے جذبوں سے بڑا ہے
خدا کے نام کے بعد۔
٭

aijaz...@gmail.com

unread,
Nov 8, 2005, 1:33:53 AM11/8/05
to Sher-o-Adab
خدا
جو مہرباں ہے
نوری کرنوں سےبنے دھاگے میں
کچھ گڑیاں پروۓ
اندھیرے کی سیہ چادر کے پیچھے
کالے دھاگوں کو
عجب انداز سے
حرکت دیا کرتا ہے
یہ کس کی انگلیاں ہیں
بوڑھی
اور چمکیلی
تورانی
رحیم
٭
ایسے ہی دن تھے، کچھ ایسی شام تھی
وہ مگر کچھ اور ہنستی شام تھی
بہہ رہا تھا زرد سورج کا جہاز
مانجھیوں کے گیت گاتی شام تھی
صبح سے تھیں ٹھنڈی ٹھنڈی بارشیں
وہ مگر کیسی سلگتی شام تھی
گرم الاؤ میں سلگتی سردیاں
دھیمے دھیمے ہیر گاتی شام تھی
گھیر لیتے تھے طلا ئی دایرے
پانیوں میں بہتی بہتی شام تھی
عرشے پر ہلتے ہوۓ دو ہاتھ تھے
ساحلوں کی بھیگی بھیگی شام تھی
کتنی راتوں تک ہمیں یاد آۓ گی
اپنی وہ پہلی سہانی شام تھی
چاندی چاندی رات کو یاد آۓ گی
سونا سونا سی رنگیلی شام تھی
مندروں میں جاوداں سی ہو گئی
دویہّ پیتل کی سنہری شام تھی
اک طرف راتوں کا لشکر تھا عظیم
اک طرف تنہا نہتیّ شام تھی
شاخ سے ہر سرخ پتیّ گر گئی
پھر سہی بوجھل سی پیلی شام تھی
سولھویں زینے پہ سورج تھا عبید
جنوری کی اک سلونی شام تھی
٭
ایسی اک بستی ہے اس ندی کے پار
اس ندی کے پار
ٹھنڈا پانی انگلیاں دیکھیں بہاؤ
بہکے بہکے پانی میں ڈولے گی ناؤ
لہروں کے بھنور، دریا کا منجھدار
اس ندی کے پار
تاروں بھرے آنگن میں کو ئی مسکاۓ
سانوری سی رنگت دیوار اجراۓ
رنگوں کے دھبوّں سے سجی دیوار
اس ندی کے پار
اجلے اجلے کاغذ کو کالا کروں
یوں ہی کویتا ئیں میں کب تک بنوٗں
جانے کون کوِتا کا دیکھوں میں دوار
اس ندی کے پار
نیلا نیلا آکاش چپ چاپ ہے
جانے کون سیتا کا یہ شراپ ہے
دھانی کھنکتے ہاتھوں میں تلوار
اس ندی کے ہار
کیسی یہ پتنگ جس کی ڈور یہ نہیں
کیسی یہ ڈور جس کا چھور ہی نہیں
پیار ایسی ناؤ کہ نہیں ہے پتوار
اس ندی کے پار
برف کی سی سڑکیں، سنہری مکان
نیلے نیلے سورج، گلابی آسمان
سپنوں کی ڈولی، نین کے کہار
اس ندی کے پار
٭

aijaz...@gmail.com

unread,
Nov 10, 2005, 12:24:16 AM11/10/05
to Sher-o-Adab
اداس پھول کی خوشبو
سنہری دھوپ کا گھاؤ
اداس آنکھیں سمندر
ملول سانسیں ہوا
فضا میں نیلا سمندر
ہوا میں سرخ شراب
سلگتے پھول پہ
شبنم کے گیت جیسا بہاؤ
ہتھیلیوں پہ مہکتا ہو
جیسے سرخ رچاؤ
سفید کشتی
لہکتی بہکتے پانی میں
اداس دل میں سمندر کی گہری خاموشی
کنارِ آب پہ
راتوں کو
مانجھیوں کے الاؤ
بجھا دو مشعلیں
اور خواب ناک اندھیرے میں
مرے اجانے سے مانجھی
وہ لوک گیت سناؤ
جو ایسے وقت مٰیں
سورج کی یاد میں راتیں
چمکتے پیالوں میں
پانی بجا کے گاتی ہیں؎
٭
اپنے ملنے کے آخری لمحے
جیسے جنتّ بھی تھے
جہنمّ بھی
اپنے ملنے کے آخری لمحے
پھول جیسے خزاں میں کھل جا ئیں
دھوپ میں جیسے بارشیں ہو جا ئیں
٭
عجب تماشہ تھے اپنے ملنے کے آخری پل
ہمارے ملنے کی تھی خوشی بھی
غمِ جدا ئی بھی
ریل کی پٹریوں کے پیچھے
چھپا ہوا تھا
عجیب یہ سانحہ ہوا تھا
٭
سنہری جنتیں
اور جنتوں میں ہم
اپنے دل میں
گنگناتی چاہتیں
چاہتوں کے رنگ سے رنگیں فضا
اور فضاؤں میں کئی سرگوشیاں
سرگوشیوں میں پیار
۔۔۔۔۔
اور پھر۔۔۔۔
پھر جانے کیا۔۔۔۔
چاہتوں کو روندتے
ریل کے انجن کی
بھاری گڑگڑاہٹ
اور پھر
لب پر جدا ئی گیت
اور پھر
لب پر جد ائی گیت۔۔۔۔
٭
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages