نظم ۔ الفت
ہم کیسے عاشۡق ہیں کہ اپنی کوئ چلی نہیں
جیسے کرنوں سے پھر کلی کوئ پھولی نہیں
جیسے گل و بلبل کے بیچ کوئ بولی نہیں
جیسے مجنوں کو لیلہ کوئ ملی نہیں
کئ بار چاہا ان سے اقرار کرتے
دل سے چند لفظ بیقرار کرتے
اپنی عاشقی سے انکو آشقار کرتے
اور زندگی نبہانے کا اظہار کرتے
مگر اب یہ عالم ہے کہ سب بیسود ہے
خوشی میں اب صرف غم موجود ہے
بن لیلہ یہ زندگی بیوجود ہے
کیا یہی تقدیر کو مقصود ہے
ان سے بچھڑ کہ ہم کچھ بدل سے گے
جیسے شجر سے پتے کچھ نکل سے گے
جیسے طوفاں میں کھیت مچل سے گے
جیسے دیوانے اپنے جان و دل سے گے
نہ کوئ راہ، نہ منظل، نہ چاہت ہے
نہ کوئ بہار، خوشی، نہ فرحت ہے
اب زندگی میں نہ کوئ محبت ہے
عجب عاطف تیری یہ الفت ہے
عاطف ممتاز عاطف ۲۰۰۱