غزل
اس جہان فانی میں ہے یھ شوق تقدیر
نہیں ملتی کسی کو لیلھ نہ کسی کو ہیر
جس طرف بھی جائیں ٹھوکریں ہی کھائیں
دل ربا کی تاک میں ہوے ہم دل پذیر
سائیل کا ہر سوال ہوتا ہے رد یہاں
بکھرا ہے دامن اپنا مانند فقیر
ذائیچے کئ کھینچے ترے واستے سنم
قسمت ہماری کھوٹی کہ نہ ملی کوئ لکیر
سچ پوچھو تو دشوار ہے جینا ترے بغیر
مگر قصوں میں نہیں ملتی اس بات کی نظیر
اکھڑی ہے سانس اپنی ترے خنجروں کے سبب
بیتاب ہوں عاطف کھ نکلے کمان سے آخری تیر
عاطف ممتاز عاطف ۲۰۰۲