صاد۔ طویل نظم کا آخری حصہ۔ اعجاز عبید

6 views
Skip to first unread message

aijaz...@gmail.com

unread,
Dec 26, 2005, 3:50:52 PM12/26/05
to Sher-o-Adab
سورج کی کرنیں
روز دستک دیتی ہیں
پھر بھی شبنم کا
دروازہ نہیں کھلتا
یہ موسم بہار کا نہیں
یہ موسم خزاں کا بھی نہیں
سوکھے پتےّ
قدموں کےتلے چیخ کر
اپنی سرسبزی کی تمناّ کا
اعلان بھی نہیں کرتے
تم نے خزاں میں آنے کا وعدہ کیا تھا
لیکن مارچ میں تو بہار آ جاتی ہے
شاید
جس مارچ میہں خزاں ہوگی
تم اسی مارچ میں آؤ گی
٭
اور جب
بکھرتے زرد پتوّں سے
گزرتی کرنیں
درختوں کو چھید دالیں گی
کچھ نیزے
مجھے بھی اٹھا لیں گے
جب یہ نیزے اسی خزاں کے ہوں
تب
خدا کی ساری شاعری
اس لطف کے سامنے
پھیکی پڑ جاتی ہے
لیکن
’تم اس کی کون کون سی نعمتوں کو ٹھکراؤ
گے‘
٭
جدا ئی گیت تب تک تھا لبوں پر
تمھارے خط نہ جب تک آۓ تھے
تمھارے پیارے پیارے خط
بہاروں کی ہوا ئیں ہیں
کہ جس دن بھی تمھارا خط نہیں آتا
یہ لگتا ہے
خزاں آ ئی
(اور تم خود ہی چلی آؤ)
دعا مانگو
کہ اپنے پھولتے پھلتے جہاں میں
(باغِ وفا میں)
کبھی موسم نہ بدلے
نہ آ ئندہ خزاں نیزے چبھوۓ
چلو
ہم اس دعا کو
ان ہرے پیڑوں پہ لکھ دیں
اپنے
دو ناموں کے نیچے
٭
ذرا جنگل تک آؤ
چاندنی راتیں
یہاں کتنی سہانی ہیں
مجھے تو دھوپ میں چھاؤں کی نسبت
چاندنی راتوں کے ٹھنڈے ساۓ پیارے ہیں
چلو
ہم دونوں
اس چھاؤں میں بیٹھیں
چاندنی کی پتیاّں
ہم پر نچھاور ہوں
(کہ اپنا پیار بھی
اس چاندنی کی طرح اجلا ہے)
مجھے تم سے
بہت سی ناتیں کہنی ہیں
جو اب تک کہہ نہیں پایا
ہوں لگتا ہے
کہ جیسے
ان گنت صدیوں سے
تم سے مل نہیں پایا
سنو
یہ باتیں
ان راتوں سے
اجلی ہیں
اور ان میں
رات کی رانی سے بھی زیادہ مہک ہے
یہ باتیں
آج ہم تم کہہ سکیں
موسم بدل جاۓ
بہاروں کی ہوا آۓ
بہاروں کی ہوا آۓ
تو ہم باغِ وفا میں
کلی بن کے
صبا بن کے
مہک اٹھیّں
بہاروں کی ہوا آے
ہمارے پیار کے
غنچے کھلیں
آنکھوں میں سرگم سی اتر آۓ
بہاروں کی ہوا آۓ
سبک سرگوشیوں سے
ننھے ننھے دیپ جل اٹھیں
بہاروں کی ہوا آۓ
٭
سنو
تم کو
سمندر سے کہیں ڈر تو نہیں لگتا
ڈرو مت
ہماری چار باہیں
چار پتواریں ہیں
مگر اپنی یہ باہیں
کیوں پگھلتی جا رہی ہیں؟
ہم
سمندر میں بہے جاتے ہیں
بہتے جارہے ہیں
یہاں گہرا سمندر ہے
بہاؤ تیز ہے
طوفان ہے
ہم بہتے جاتے ہیں
بہے جاتے ہیں
بہتے جا رہے ہیں
بہے جاتے ہیں
بہتے جا رہے ہیں
٭
میں اک بستر پہ لیٹا ہوں
مجھے چاروں طرف
آکاش کے تاروں نے گھیرا ہے
(ذرا دیکھو
ہتھیلی میں مری
یہ ننھے ننھے داغ کیسے ہیں
ذرا دیکھو
ہتھیلی پر مری
یہ تتلیوں کے رنگ کیسے ہیں)
مگر یہ کیا
تمھاری آنکھ میں
تارے اترتے آ رہے ہیں
تارے
اترتے آ رہے ہیں
اترتے ہیں
٭
چلو اچھاّ ہوا
یہ صرف سپنا تھا
کہ ہم تم
اب بھی زندہ ہیں
ہماری آنکھوں کے جگنو سلامت ہیں
لو!!!
وہ پھر اٗڑ گۓ
ان جگنؤوں کو
پھر کسی سپنے کے منظر کی
تمناّ ہے
٭
عجب پیچ و خم تھے ، عجب راستے تھے کہیں
جان لیوا چٹانیں سروں کو اٹھاۓ کھڑی تھیں
کہیں آگ اگلتے ہوۓ گرم پانی کے چشمے
مرے پیر جھلسا رہے تھے کہیں راستے میں
پہاڑوں کے پتھر لڑھکتے چلے آ رہے تھے
سمندر۔ ابھی ایک لمحہ یہاں، دوسرے پل میں
میرے بدن میں ہر اک سمت پھیلا ہوا تھ۔
کہیں چند پانی کی سوتیں مجھے جیسے اندر
ہی اندر
بہانے لگی تھیں۔ کہیں ریت کے جیسے طوفان
سر سے گزرتے تھے اور میں چلا جا رہا تھا
مجھے علم تھا۔ راستے جس جگھ ختم ہوں گے
مجھے تم ملو گی
مگر یہ کیا۔۔۔!!!!
تم دھوپ کی طرح ہر صبح مجھ کو نئی
تازگی دے رہی ہو، کبھی تیز تر دھوپ
کی راہ میں چھاؤں بن کر کھڑی ہو۔ کبھی
ٹھنڈے پانی کی بوندیں بنی مجھ کو لمس
اپنا
(پہلا، اچھوتا،مہکتا ہوا)
دے رہی ہو، کبھی میٹھے پانی کی گاتی
ندی بن کے بہنے لگی ہو کہ میں اپنے
یہ پیاسے لب تم سے سیراب و سرشار کر لوں
میں سمجھا تھا یہ راستے
جس جگھ ختم ہوں گے
وہیں تم ملو گی
مجھے کیا خبر تھی
کہ تم میری منزل نہیں
خود سفر ہو
٭
وہ تیس دنوں کی
ایک شام تھی
ایسی ہی شام
جیسی وہ
پانچ گھنٹےکی شام تھی
اگر وہ شام نہ آتی
تو ایسا لگتا
جیسے کو ئی
کھڑکی کا پٹ
کھولے
اور
آندھی کا دریا
کمرے میں
گھس آۓ
اور آخری
بِن پڑھے
خط پر
سہیاہی
بکھر جاۓ
مھر یہ شام
ایسی تھی
کہ جیسے
جاڑے کی کو ئی صبح
کھڑکی کے
پردوں کو
دھیرے سے کھول دے
اور
سورج کی
پہلی
گنگناتی
کرن
باسی اور ٹھنڈے کمرے میں
در آۓ
تم آ ئیں۔۔۔۔
یہ شام
ایسی ہی تھی
جیسے
برف باری کے بعد
دھوپ نکل آۓ
۔۔۔۔۔
مگر یہ موسم
برف باری کا نہ تھا
یہ موسم گیت بننے کا تھا
٭
ایک لفظ تم ہو
ایک ہم
لفظ لفظ جڑنے کا موسم ہے یہ
شام کا عجب اکیلا پن
راکھ جم گئی پہاڑ پر
آسماں نے لکھ دۓ سوال
تارکول کے کواڑ پر
ایک لفظ تم ہو
ایک ہم
لفظ لفظ جڑنے کا موسم ہے یہ
آ ئینے کی گرد پونچھ دو
کھل اٹھیں گے کانچ کے گلاب
ریت ریت دھوپ دھوپ ہم
ریگ زار کے سراب خواب
ایک سطر تم ہو
ایک ہم
سطر سطر ملنے کا موسم ہے یہ
صبح ٹوٹتا ستارہ تھی
دوپہر سلگتی دھول ہے
شام جیسے ٹہنیوں پہ آگ
رات زخم زخم پھول ہے

ایک زخم تم ہو
ایک ہم
زخم زخم کھلے کا موسم ہے یہ
زرد زرد بیوہ ڈالیاں
سرخ سرخ پھول مر گۓ
ناؤ ناؤ ڈوبنے لگی
موج موج ہم بکھر گۓ
ایک لہر تم ہو
ایک ہم
لہر لہر بہنے کا موسم ہے یہ
اپنی جلتی بجھتی آنکھ میں
اس طرح کے بھی تھے کچھ دۓ
پوجا تھالیوں میں چپ رہے
اور افق کے پار جل اٹھے
ایک شکھا تم ہو
ایک ہم
مندروں میں جلنے کا موسم ہے یہ
ہم چلیں تو اپنے گاؤں کے
ساتھ ساتھ راستے چلیں
ڈھونڈھ لیں اجانی اک ڈگر
اور اس پہ بن رکے چلیں
ایک پاؤں تم ہو
ایک ہم
خواب خواب چلنے کا موسم ہے یہ
تیس دن کی سیک شام تھی
اک ستون سے ٹکی ہو ئی
جیسے کو ئی دوّیہ یوگنی
چھیڑتی تھی راگ سوہنی
ایک سر م ہو
ایک ہم
تال تال بجنے کا موسم ہے یہ
٭
تم سمجھنے کی کوشش تو کرو
ہوا ئیں
مہکتےہوۓ گلابوں کو
موسم کے گیت سناتی ہیں
میگھ راگ گاتی ہیں
یہ موسم
درد کا تو نہیں
تم سمجھنے کی کوشش تو کرو!!
کہیں تم
یہ تو نہیں بھول جاتیں
کہ ہمارے زا ئیچے بھی
ہمارے ہندسے بھی
ایک دوسرے کے لۓ
بنے ہیں
تم سمجھنے کی کوشش تو کرو!!
٭
کچھ ایسا لگا
جیسے
ماتھے پر ہاتھ رکھے
ہم آکاش کی طرف دیکھ رہے تھے
کی ایک ستارہ
ٹوٹ لر
افق کے پار
شفق کے پار
کھو گیا
مگر ایسا دوسروں کو لگا ہوگا
مجھے تو ایسا لگا
جیسے
وہ ستارہ
میری مٹھیّ میں آ گیا
٭
کبھی ایسا بھی ہوگا
اک ستارہ
ہتھیلی سے مری
ٹکراۓ گا
نس نس میں
کلیاں سی چٹکتی جا ئیں گی
خزاں کے موسموں کی
حکمرانی ختم ہو گی
ہر طرف ہوں گی بہاریں
سدا ہوں گی بہاریں
صدا ہوں گی بہاریں
بہاریں
شامہّ ہوں گی
بہاریں
لامسہ ہوں گی
بہاریں
ذا ئقہ ہوں گی
بہاریں
باصرہ ہوں گی
بہاریں
باصرہ ہوں گی
(ثرا دیکھو تو
حرف و صوت کا
کیسا تماشہ ہے۔
کہاں آ کر تمھارا نام بکھرا ہے)
تمھارا نام
اس جنگل کے پیڑوں کی
ہر اک ڈالی کی ہریالی ہے
کسی سونے جزیرے میں
کھجوروں کے درختوں کا سہانا پن ہے
تمھارے نام میں روشن
کئی شاموں کی سرخی ہے
(’مجھے ان نیلی آنکھوں نے بتایا
تمھارا نام پانی پر لکھا ہے‘)
٭
اور اب
جب ہم
اپنے ہی پیار کی دھوپ میں
جل بجھ رہے ہیں
خدا بھی اپنی جنتوں میں خوش ہے
اور اس کے بندے
بڑے جوتوں کی جوڑیں
پہنے پہنے
تتلیوں کے پیچھےدوڑتےہیں
مرا جی چاہتا ہے
کہ میں اس باغ کے سارے درختوں پر
سمندر کے ساحل کے
ہر پام کے پیڑ پر
ایک حرف
بس ایک ہی حرف
’صاد‘
لکھ دوں
کہ
یہ
تمھارا
نام
بھی
ہے

Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages