چور کی سزا
Punishment of Thief
5-سُوۡرَةُ المَائدة-38
وَٱلسَّارِقُ وَٱلسَّارِقَةُ فَٱقۡطَعُوٓاْ أَيۡدِيَهُمَا جَزَآءَۢ بِمَا كَسَبَا نَكَـٰلاً۬ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۬ (٣٨)
چور چاہے مرد ہوں یا عورت (دونوں کو ان کی چوری کی قطع ید، یعنی طاقت کاٹنے کی سزا دی جانی چاہئے) کا مطلب ہے انہیں قید کرنا۔ یہ سزا دینے والا حکم اللہ کے ید سے ہے یْد قْطَعُ جرم کے مطابق ہے۔ کیونکہ اللہ عزیز اور حکیم عَزِيزٌ حَكِيم ہے۔ 5/38
اگر ان میں سے کوئی یہ جرم (چوری) کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے تو بلاشبہ اللہ غلط کاموں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور وہ رحیم ہے۔
5-سُوۡرَةُ المَائدة-39
فَمَن تَابَ مِنۢ بَعۡدِ ظُلۡمِهِۦ وَأَصۡلَحَ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَتُوبُ عَلَيۡهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ۬ رَّحِيمٌ (٣٩)
تمثیل:- 29-سورۃ عنکبوت-29
ئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
آپ کا یہ حال ہے کہ آپ مردوں کے پاس جنسی اطمینان کے لئے جاتے ہیں نہ کہ خواتین۔ اس طرح آپ نے اس راستے کو کاٹ دیا جو قدرت نے پروجیکشن کے لئے فراہم کیا ہے۔
وضاحت: - اس کٹ کا مطلب چاقو یا کوڑے سے کاٹنا نہیں ہے۔
مثال:- 5-سُورَةُ المَائدة-33
إِنَّمَا جَزَٲٓؤُاْ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥ وَيَسۡعَوۡنَ فِى ٱلۡأَرۡضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوٓاْ أَوۡ يُصَلَّبُوٓاْ أَوۡ تُقَطَّعَ أَيۡدِيهِمۡ وَأَرۡجُلُهُم مِّنۡ خِلَـٰفٍ أَوۡ يُنفَوۡاْ مِنَ ٱلۡأَرۡضِۚ ذَٲلِكَ لَهُمۡ خِزۡىٌ۬ فِى ٱلدُّنۡيَاۖ وَلَهُمۡ فِى ٱلۡأَخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٣٣)
یہاں َْوْ تُقَطَّعَ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زندہ افراد کے ہاتھوں کاٹ دیں اور انہیں پوری زندگی کیلیے بے کار کردیں۔ لیکن اس کا مطلب انھیں قید کرنا ہے ناکہ ساری عمر کیلیے ناکارہ کر دینا۔
تو 5/ 38—39 میں چور کے ہاتھ کاٹنے کے معنی کے خلاف ہے۔
جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ اس کا مطلب ہے جرم کی مقدار کے حساب سے سزا۔ (نہ کم اور نہ ہی زیادہ)۔
برائے کرم غور کریں کہ آیا اس شخص کے ہاتھ کاٹنے چاہیں جس نے ایک ہزار روپے چوری کر لئے ہوں۔ 1000 اور اس شخص کا بھی ہے جس نے or 100،000 یا دو لاکھ یا دس لاکھ کی چوری کی ہے۔ اگر سزا کچھ انچ اوپر اور کم ہوجائے تو ہاتھوں کی لمبائی کاٹنا مزاحیہ یا خوش گوار ہوجاتا ہے۔ اس سے خدائی حکم کی ضرورت پوری نہیں ہوتی ہے۔ لہذا قطع ید یْد قْطَع ہاتھ کاٹنے کے لئے نہیں بلکہ چوری کی طاقت کو اور طریقہ کار کو روکنا ہے۔ اس کا اطلاق جرم کی مقدار کے تحت سزا دینے کے لئے ہوگا۔ اگر چوری 500 یا 5000 ہے۔ کہو سزا 3 ماہ کی ہے۔ اگر چوری ایک لاکھ ہے تو اسی کے مطابق اس کا اندازہ لگایا جانا چاہئے۔
وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اللہ غالب اور حکیم ہے۔
اگر چور کے ہاتھ کاٹنے اور چور کے بچوں کو روزہ رکھنے یا بھوک سے رکھنا اور معاشرے پر بھکاری اور ذمہ داری بنانا حکم دیا گیا ہے تو یہ حکمت نہیں ہے۔ حکمت کا مطلب ہے ضائع کرنے کے علاوہ مسائل کو حل کرنے کا ہے۔
جرمنی میں چور کو ریفارم ہاؤس (جس کو ہم جیل کہتے ہیں) میں تربیتی کورس سے تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ جیل میں جاری کردہ سرٹیفکیٹ مرکزی حکومت کی طرف سے ہے جس کے بعد اسے قابل احترام ملازمت مل سکتی ہے اور کوئی ادارہ اسے چور نہیں کہتا ہے۔ اس ہی کو توبہ کہتے ہیں۔
چور کی تربیت کے دوران اس کے بچوں کی مالی مدد مرکزی حکومت کرتی ہے۔
بحث / وضاحت: -
عربی میں (ید) YAD کا مطلب ہے ہاتھ اور طاقت بھی ہے۔
مثال:- 38-سُوۡرَةُ صٓ-17
صۡبِرۡ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱذۡكُرۡ عَبۡدَنَا دَاوُ َدَ ذَا ٱلۡأَيۡدِۖ ِّنَّهُ ۥَۤوَّابٌ (١٧)
صبر کریں یا اپنے پروگرام کو ثابت قدم رکھنے/مستحکم کرنے کے لئے جو کہتے ہیں اس کے بارے میں پریشانیوں کا سامنا کریں۔ ہمارے نبی داؤدؑ کا واقعہ یاد رکھیں، ہم نے اسے بہت ساری طاقت عطا کی تھی۔ وہ ہمارے قوانین کو پیش کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے میں پیش پیش تھے۔
تبادلہ خیال: - کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس (داؤدؑ) کے بہت سے ہاتھ تھے۔
اس آیت کے آخر میں آتا ہے:-
جب کوئی چور توبہ کرے گا تو اللہ اس پر دوبارہ رحم کرے گا۔
معاشرے میں، جب عام آدمی معمولی سی چیز چوری کرتا ہے تو اسے چور کہا جاتا ہے لیکن جب کوئی اعلی شخص یا افراد بینک فراڈ کرتے ہیں یا جعلسازی کرتے ہیں تو ہائی کورٹ کے بہت سے وکیل اس کو بچانے کے لئے حمایت میں آتے ہیں۔ دن کی روشنی میں سرمایہ دارانہ نظام، حقوق انسانی کے بنیادی حقوق کی چوری کررہا ہے لیکن کوئی بھی اسے چوری کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔
تحریر: انجینئر/ محمدؐ طفیل شاد
ترجمہ: ڈاکٹر/ شہزاد شمیم