”یادیں باتیں چہرے لوگ“

8 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Aug 31, 2025, 1:29:17 AM (6 days ago) Aug 31
to bazme qalam, Qindeel क़िंदील قندیل‎
”یادیں باتیں چہرے لوگ“
محمد اویس سنبھلی نے پھر چونکا دیا
سہیل انجم
میں نے جواں سال قلم کار محمد اویس سنبھلی کی تصنیفی، تالیفی اور تحقیقی صلاحیتوں کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ اسی لیے میں نے ان پر ایک خاکہ نما مضمون قلم بند کرکے ان کی قلمی سرگرمیوں کو سراہا تھا۔ وہ مضمون مختلف شخصیات پر 2021 میں شائع ہونے والی میری کتاب ”نقش بر سنگ“ میں شامل ہے۔ حالانکہ اس وقت تک ان سے میری شناسائی کا عرصہ زیادہ نہیں ہوا تھا۔ یہی کوئی پانچ چھ سال۔ ان سے میری ملاقاتیں بھی کم ہی رہی ہیں۔ کبھی لکھنو میں ملاقات ہوئی تو کبھی دہلی میں۔ لیکن ان کی قلمی سنجیدگی کے پیش نظر اس وقت میں نے ان سے جو توقع باندھی تھی وہ غلط ثابت نہیں ہوئی۔ اگرچہ ان کا براہ راست تعلق نہ تو کسی دانش گاہ سے ہے اور نہ ہی کسی اخبار سے۔ اس کے باوجود ان کے اندر جو ادبی ذوق ہے اور سہل، سلیس اور رواں انداز میں اپنی بات کہنے کا جو فن ہے وہ قابل ستائش بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ میں نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ جن لوگوں کا ذریعہ معاش ہی لکھنا پڑھنا ہو ان کی تصنیفی خدمات کی میرے نزدیک اتنی اہمیت نہیں جتنی کہ ان لوگوں کی تصنیفی خدمات کی ہے جو شوق اور دلچسپی کی وجہ سے یہ کام کرتے ہوں۔ علمی دنیا میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد ہے جن کی پیشہ ورانہ مشغولیات غیر ادبی و غیر صحافتی ہونے کے باوجود وہ نہ صرف یہ کہ اچھے مضمون نگار ہیں بلکہ اچھے ادیب اور نقاد بھی ہیں۔ ایسے لوگوں میں اعلیٰ پائے کے متعدد ادیب و نقاد گزرے ہیں اور ان کی ادبی خدمات دوسروں سے کم نہیں۔ سرزمین سنبھل پر پیدا ہونے والے اور سرزمین لکھنو کو اپنا میدان عمل بنانے والے نوجوان ادیب، مصنف، مولف اور مرتب اویس سنبھلی کو میں اسی قطار میں رکھتا ہوں۔ وہ ایک معیاری ادبی ذوق رکھتے ہیں اور اس ذوق کی آبیاری کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل بھی رہتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کی وہ نصف درجن سے زائد کتابیں ہیں جو شائع ہو کر ارباب علم و دانش سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ (اب ان کی تعداد ایک درجن ہو گئی ہے)۔
 اگر میں یہ بات کہوں تو شاید غلط نہیں ہوگی کہ محمد اویس سنبھلی اپنی تحریروں اور کتابوں کی اشاعت سے ہمیشہ چونکاتے رہے ہیں۔ انھوں نے ایک بار پھر چونکایا ہے۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں میں ”یادیں باتیں چہرے لوگ“ لے کر اہل علم و ذوق کی دہلیز پر دستک دی ہے۔ یہ ان کی تازہ ترین کتاب ہے جو متوفی اور موجود شخصیات پر مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں پندرہ متوفین اور دس موجودین پر خراج عقیدت و تحسین کے نمونے ہیں۔ ان میں کچھ مضامین سوانحی ہیں تو کچھ خاکہ نما اور کچھ خاکے ہیں۔ یہ مضامین اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اویس سنبھلی کے پاس ایک مشاہداتی نظر ہے جو اپنے ممدوح کی شخصیت کو پرکھنا جانتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے پاس ایک ایسا قلم ہے جو ان مشاہدات کو بے کم و کاست صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اویس ایک سنجیدہ قلم کار ہیں۔ مثبت زاویہ نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ ممدوح کی خوبیوں کو تلاش کرنے اور ان سے دوسروں کو آشنا کرنا جانتے ہیں۔ تاہم ان کی مشاہداتی نظر شخصیت کے اندر موجود بدنمائیوں کو بھی دیکھ لیتی ہے۔ لیکن اویس ان بدنمائیوں کا ذکر منفی انداز میں کرنے کے بجائے مثبت انداز میں کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے قلم سے کسی کی دلآزاری یا ہتک ہو۔ وہ کج ادائیوں کو ہنس ہنس کر اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
مذکورہ کتاب کے مضامین اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ اویس سنبھلی صرف قلم کار ہی نہیں بلکہ مصور بھی ہیں۔ وہ اپنے قلم کے برش سے ممدوح کی ایسی تصویر بناتے ہیں جو دیکھنے میں دلکش ہو۔ ان کا قلم شخصیت کے ناگوار پہلووں کو بھی اس انداز میں پینٹ کرتا ہے کہ ان میں بھی ایک جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عرفان عباسی، انور ندیم اور احمد ابراہیم علوی پر لکھے گئے مضامین اور دوسرے کئی مضامین کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ عرفان عباسی کی شخصیت کے مثبت پہلو کا ذکر یوں کرتے ہیں:
”عرفان عباسی کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں اور ہنرمندیاں تھیں۔ ہر کسی سے شفقت و شائستگی سے پیش آنا ان کا خاص وصف تھا۔ کم گو تھے اور انتہائی شائستہ انداز سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے بیمار دل کے ساتھ اترپردیش کے شاعروں کے احوال اور آثار صفحہ قرطاس پر پوری توانائی کے ساتھ اکیرتے اور سجاتے رہے۔ دماغ تو آخری وقت تک حاضر رہا لیکن دل نے ساتھ چھوڑ دیا“۔
اسی مضمون میں انھوں نے مخمور کاکوروی کے حوالے سے لکھا ہے:
”اردو اکادمی کے شعبہ نشر و اشاعت کی ذمہ داری چونکہ ان کے (مخمور کاکوروی کے) سپرد تھی اس لیے پریس والوں سے ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ انھوں نے عرفان عباسی کی کئی کتابیں الگ الگ پریسوں میں چھپوائیں۔ کچھ دن تک تو عرفان عباسی ان کی محنت، لگن اور کتابوں کی طباعت میں ان کی دلچسپی کے گن گاتے رہے لیکن بہت جلد ان کی یہ رائے تبدیل ہوگئی اور پھر تو وہ ان کے تعلق سے ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے تھے کہ بات ذاتیات تک پہنچ جاتی تھی“۔
اسی طرح وہ انور ندیم کے بارے میں لکھتے ہیں:
”انور ندیم کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد نہ یہ کہ صرف لکھنو اپنے ایک قابل قدر فرزند سے محروم ہو گیا بلکہ اچھے اخلاق او ر اچھے کردار کا مالک ایک فرد، تہذیب و شائستگی کی ایک نشانی اور ایک علامت بھی ختم ہو گئی۔میں نے ان کو ہمیشہ مشفق و مہربان پایا۔ ہر مرحلے میں حوصلہ افزائی اور ان کی سرپرستی مجھے حاصل رہی۔ خود مطالعہ کا شوق تھا اسی لیے بار بار نہ صرف مطالعے کی تاکید کرتے بلکہ کتابوں کی نشاندہی بھی کرتے“۔
لیکن اویس ان کی شخصیت کے دوسرے پہلو کو بھی بیان کرنے سے نہیں چوکتے:
”لکھنو کی ادبی محفلوں میں وہ کم ہی بلائے جاتے تھے۔ سب کو یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ نہ جانے کب انور ندیم کچھ محسوس کر لیں اور اسے اپنی تحریر کا حصہ بنا کر اپنے البیلے انداز میں سب کے سامنے پیش کر دیں۔ جو ایک مرتبہ انھیں بلا لیتا وہ شاید ہی کبھی دوبارہ اس کی ہمت کر سکا ہو“۔
بزرگ صحافی احمد ابراہیم علوی کا خاکہ بڑا دلچسپ ہے۔ اویس سنبھلی نے ان کی شخصیت کے بھی دونوں پہلووں کو اجاگر کیا ہے لیکن اپنے خاص انداز میں۔ انھوں نے ان کے خاندانی حالا ت بھی بیان کیے ہیں اور ان کے ذاتی حالات بھی۔ ان کی اد بی سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کی صحافتی خدمات کا بھی۔ اس حوالے سے پندرہ روزہ آگ کا ذکر، جو کہ بعد میں روزنامہ ہو گیا، لازمی تھا۔ لہٰذا اس حوالے سے بھی گفتگو کی گئی ہے۔ ان کے انوکھے اور روایتی بود و باش پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کی مہمان نوازی پر بھی۔ میں نے بھی ایک بار ان کی مہمان نوازی کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ اس سے فیض یاب بھی ہوا ہوں۔ اویس نے ان کی محفل آرائی اور لچھے دار گفتگو کو بھی روشنی میں لانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”علوی صاحب جب تک روزنامہ آگ سے وابستہ رہے اس کا دفتر ایک دانش کدہ بنا رہا۔ پورے ملک سے علمی و ادبی شخصیات کا اگر لکھنو آنا ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ اس دفتر میں حاضری دیے بغیر لکھنو سے واپس ہو جائیں۔ آنے والے کو وہاں ادبی غذا ملتی تھی۔ کم و بیش قومی آواز کا سا ماحول لوگ وہاں محسوس کرتے تھے۔ شفاعت علی صدیقی صاحب تو گھنٹوں ان کے آفس میں بیٹھتے اور پرانی باتوں اور یادوں کو دوہراتے رہتے“۔
وہ ان کی شخصیت کے دوسرے پہلو کو بھی بیان کرتے ہیں لیکن ذرا دلچسپ انداز میں:
”احمد ابراہیم علوی سے ملاقات کیجیے، دلچسپ واقعات سنیے، گزشتہ لکھنو ¿ کو جانیے، کچھ ان کی کہانی ان کی ہی زبانی سنیے، پھر جب آپ واپس آنے لگیں تو ان سے ہونے والی گفتگو چھلنی میں چھان لیں۔ جو چھن کر نیچے آجائے وہ ساتھ لے آئیں اور جو باقی رہ جائے اسے وہیں چھوڑ آئیں۔ جو کچھ آپ ساتھ لائیں گے وہ زندگی بھر آپ کے کام آئے گا اور جو چھوڑ آئیں گے وہ یوں بھی کسی کے کام کا نہیں تھا“۔
انھوں نے ان کے کچھ ایسے واقعات پر بھی روشنی ڈالی ہے جنھیں پڑھ کر برجستہ ہنسی آجاتی ہے۔
ملک کے جید صحافی حفیظ نعمانی کا خاکہ بڑا دلآویز ہے۔ کیوں نہ ہو کہ اویس سنبھلی آج خدمتِ قلم و قرطاس کے میدان میں جو بھی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ان کو وہ ان کی صحبت کا فیض سمجھتے ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ حفیظ نعمانی نے، جو کہ ان کے ماموں تھے ان کی قلمی تربیت کی ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اویس سنبھلی کی وضعداری اور قلم کاری میں ان کے والدین کی تربیت کا بھی حصہ ہے۔ دراصل اویس ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس خانوادے کی دین و ادب کی نمایاں خدمات کی ایک زریں تاریخ ہے۔ لہٰذا ان کے اند رجو خوبیاں ہیں وہ موروثی بھی ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے حفیظ صاحب سے کسب فیض کیا ہے۔ اویس سنبھلی نے ان کے خاکے میں دو ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جن سے ہم بھی ناواقف تھے۔ دونوں ان کے مضامین سے متعلق ہیں۔ ایک بار اویس کا کوئی مضمون اخبار میں چھپا جس میں انھوں نے مختلف اہل قلم کے اقتباسات شامل کیے تھے۔ اس پر حفیظ صاحب نے یہ کہہ کر ان کی فہمائش کی کہ اس میں تو دوسروں کی آراءہیں تمھاری اپنی رائے کہاں ہے۔ دوسروں کی آراءکے پیچھے مت بھاگو۔ دوسرا واقعہ حفیظ صاحب کے ایک مضمون سے متعلق ہے جس میں انھوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ پر نکتہ چینی کی تھی۔ اویس نے اس مضمون پر ایک جوابی مراسلہ اخبار میں چھپوایا او ران کی نکتہ چینیوں پر تنقید کی۔ حفیظ صاحب نے انھیں بلایا اور اس حق گوئی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اان کی پیٹھ تھپتھپائی۔
اس کتاب میں صرف یہی چار مضامین ہی قابل مطالعہ نہیں ہیں بلکہ تقریباً تمام مضامین دعوت مطالعہ دیتے ہیں۔ کس کس مضمون کا ذکر کیا جائے۔ قاری خود کتاب پڑھے اور اس سے لطف اندوز ہو۔ شارب ردولوی، مقصود الٰہی شیخ، منور رانا، مشرف عالم ذوقی، وقار رضوی، ڈاکٹر رضیہ حامد، عصمت ملیح آبادی، ڈاکٹر صبیحہ انور، حکیم وسیم اعظمی، معصوم مرادآبادی، رضوان فاروقی اور ڈاکٹر عمیر منظر پر مضامین بھی دلچسپ اور پرلطف ہیں۔ یہ ان کی محبت ہے کہ چند مضامین میں اس ناچیز کا بھی سرسری ذکر آگیا ہے۔ ویسے برائے اطلاع یہ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مجھ پر وہ پہلے ہی ایک مضمون لکھ چکے ہیں جو ان کی مرتب کردہ کتاب ”سہیل انجم کی صحافتی خدمات“ میں عرض مرتب کے عنوان سے شامل ہے۔ زیر تذکرہ کتاب میں محمد او یس سنبھلی کا انداز تحریر ممدوحین کی شخصیت کے اعتبار سے اپنا رنگ بدلتا رہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب شخصیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ میں اس کتاب کی اشاعت کے لیے اویس سنبھلی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کتاب کے عنوان میں شعریت ہے۔ لہٰذا میں اسے ایک مصرع سمجھتے ہوئے اس پر گرہ لگا کر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
یادیں باتیں چہرے لوگ
ہیں یہ کتنے اچھے لوگ۔
 کتاب کے صفحات: 240، قیمت: 400 روپے
ناشر: محمد اویس، نعمانی کیئر فاونڈیشن، 157\171، بارود خانہ، گولا گنج، لکھنو
رابطہ: 7905636448-9794593055


Title Yaaden Baaten.jpg
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages