سہیل انجم
اسٹینڈ اپ کامیڈین رحمان خان نے کیا غضب کا تبصرہ کیا۔ اس کو سن کر ہر صاحب دل سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہ محض تبصرہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی سوچ اور ان کے رویے پر ایک بلیغ طنز بھی ہے۔ انھوں نے اپنے ایک کامیڈی شو میں کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ پچھڑا ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ ان پڑھ ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ بے روزگار ہے۔ لیکن جس طرح مسلم علاقوں میں ہوٹل پر ہوٹل کھلتے جا رہے ہیں اور لوگ دبا کر کھا رہے ہیں اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ’مسلمان سب سے زیادہ بھوکا ہے‘۔
یہ محض ایک مزاحیہ جملہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے رویے پر ایک بھرپور وار ہے۔ ان کا یہ جملہ سن کر میں کافی دیر تک خاموش بیٹھا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی مسلمان سب سے زیادہ بھوکا ہے۔ جب میں نے دہلی کے مسلم علاقوں میں روزانہ کھلنے والے نئے نئے ہوٹلوں اور ان میں آنے والی بھیڑ پر غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر چہ مسلمان بھوکا نہیں ہے لیکن خورد و نوش میں اس کی بے انتہا دلچسپی دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ہاں مسلمان سب سے زیادہ بھوکا ہے۔ ایک بار میں اپنے محلے کی مسجد سے نماز ادا کرکے لوٹ رہا تھا تو بیس سے پچیس سال کے دو نوجوانوں کی آپسی گفتگو سنی۔ یہ گفتگو راستے بھر کھانے کے بارے میں ہوتی رہی کہ کہاں کے ہوٹل کا کھانا اچھا ہوتا ہے اور کہاں کے ہوٹل کا نہیں۔ ایک نوجوان بتا رہا تھا کہ حاجی کالونی میں ایک ایسا ہوٹل کھلا ہے جو بہت لذیذ کباب بناتا ہے۔ اس نے حساب لگا کر بتایا کہ ایک آدمی کے کھانے پر اتنا اور یہاں سے وہاں تک جانے کے لیے رکشہ پر اتنا خرچ آئے گا۔ دوسرا نوجوان کہتا ہے ہاں کوئی بات نہیں جو بھی خرچ آئے میں ادا کروں گا۔ لیکن ہمیں وہاں چلنا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ ان نوجوانوں نے اس پر گفتگو کیوں نہیں کی کہ فلاں اسکول یا فلاں کالج میں اچھی تعلیم ہوتی ہے۔ فلاں جگہ اتنی فیس لگتی ہے اور فلاں جگہ اتنی۔ فلاں کورس کرنے پر ملازمت کے اتنے مواقع ہیں اور فلاں کورس کرنے پر اتنے۔
جامعہ نگر کے شاہین باغ علاقہ کو سی اے اے کے خلاف خواتین کے مثالی احتجاج کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ پوری دنیا میں یہ تاثر گیا کہ مسلم خواتین دقیانوسی نہیں ہیں۔ وہ گھرو ںکی چہار دیواری میں قید رہنے کو ہی زندگی نہیں سمجھتیں۔ وہ اپنے حقوق کے لیے میدان میں آنا بھی جانتی ہیں۔ انھیں ملکی و غیر ملکی حالات کا علم ہے اور عالمی سیاست بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ اس غیر معمولی احتجاج اور دھرنے نے شاہین باغ کو دنیا کے نقشے پر ایک باعزت مقام پر لاکر کھڑا کر دیا۔ سی اے اے کے خلاف خواتین کا احتجاج شاہین باغ کا شناخت نامہ بن گیا۔ لیکن اب یہ شناخت نامہ دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس کی جگہ ایک دوسری چیز لیتی جا رہی ہے۔ یعنی اب شاہین باغ کی شناخت ہوٹلوں سے ہوتی جا رہی ہے۔ بالکل وہیں دھرنا گاہ کے ایک دم قریب اتنے ہوٹل کھل گئے ہیں کہ اب اس سڑک کا نام ’فوڈ اسٹریٹ‘ پڑ گیا ہے۔ نوجوانوں سے بات کیجیے یا ادھیڑ عمر لوگوں سے سب ایک ایک ہوٹل کی خاصیت بتائیں گے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ عوامی نمائندو ںکی بے حسی اور ناکارکردگی کی وجہ سے وہ اور دیگر سڑکیں از سر نو بنانے کے لیے سالوں سے کھدی پڑی رہتی ہیں۔ جس سڑک کو فوڈ اسٹریٹ کا نام دیا گیا ہے وہ چالیس فٹ چوڑی ہے اور اسی وجہ سے اس کا چالیس فٹا روڈ ہے۔ پہلے وہاں کاریں، رکشائیں اور دوسری سواریاں چلتی تھیں لیکن اب پیدل چلنا دشوار ہے۔ اس کی وجہ ایک تو سڑک کی خستہ حالت اور دوسری کھانے والوں کا زبردست رش۔ وہ کھانے جو فصیل بند شہر دہلی میں مشہور تھے اب وہی کھانے بلکہ کھانے والوں کے مطابق اس سے بھی اچھے کھانے اس فوڈ اسٹریٹ پر مل جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ پرانی دہلی کے نام سے ہوٹل کھل رہے ہیں بلکہ مغربی یوپی کے لوگوں کو لبھانے کے لیے ’مرادآباد بریانی‘ اور ’فلاں بریانی‘ اور ’ڈھمکاں گوشت‘ کی دکانیں دھڑا دھڑ کھل رہی ہیں۔ اہل بہار کو راغب کرنے کے لیے بہاری کبابوں کی دکانیں بھی خوب ہو گئی ہیں۔ غروب آفتاب کے بعد ان ہوٹلوں میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔ پہلے صرف ہوٹلوں کے اندر لوگ کھاتے پیتے تھے رفتہ رفتہ سڑک کے باہر بھی ٹیبل لگائی جانے لگیں۔
ہم 2017 میں مع اہل و عیال عمرہ کرنے گئے تھے۔ واپسی میں ہماری بس جدہ ایئرپورٹ سے کچھ پہلے شام کے کھانے پینے کے لیے کچھ دیر کے لیے رکی۔ ہم لوگ نیچے اترے۔ ایک جگہ بیٹھ گئے۔ بس کا ڈرائیور بھی آکر وہیں بیٹھ گیا۔ اس نے گفتگو شروع کر دی۔ ا س نے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ دہلی کے شاہین باغ سے۔ ڈرائیور کے چہرے پر چمک آگئی۔ اس نے بڑے پرجوش انداز میں کہا کہ ارے شاہین باغ سے، جہاں جاوید نہاری ملتی ہے؟ ہم لوگ حیران کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ وہا ںجاوید نہاری ملتی ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو تو اس نے کہا کہ راجستھان کا۔ اس نے بتایا کہ وہ جاوید نہاری کے ہوٹل پر نہاری کھا چکا ہے۔ جاوید نہاری کا ہوٹل سب سے پہلے ذاکر نگر میں کھلا تھا جو اب بھی ہے۔ اس کی مقبولیت کے پیش نظر اس کے مالک جاوید نے شاہین باغ میں بھی کھول لیا۔ آپ مغرب کے بعد وہاں سے گزریں تو دور سے ہی آپ کو زبردست شور سنائی دے گا۔ پہلی بار وہاں سے گزرنے والا سمجھے گا کہ کوئی دنگا فساد ہو گیا ہے۔ لیکن ہوٹل کے سامنے پہنچنے پر معلوم ہوگا کہ لوگ نہاری کے لیے مارا ماری کر رہے ہیں۔ کرونا کے وقت لاک ڈاون میں سب کا کاروبار بند ہو گیا۔ لیکن جاوید نہاری کا کاروبار ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اس کا تندور گرم ہی رہا۔ وہاں سے نہاری کی آن لائن سپلائی ہوتی تھی۔
اتنے زیادہ ہوٹل کھلنے کی وجہ سے گندگی بھی بہت ہوتی ہے۔ لوگ ہوٹلوں کے سامنے کوڑا کچرا ڈال دیتے ہیں۔ جب شاہین باغ کی فوڈ اسٹریٹ کے سامنے گندگی میں روز بروز اضافہ ہونے لگا تو میونسپل کارپوریشن کے عملہ نے پولیس کے تعاون سے اس پر روک لگانے کی کوشش کی۔ پہلے تو انھو ںنے سڑک پر لگائی جانے والی ٹیبلیں ہٹوائیں اور پھر کچھ ہوٹلوں کو بند کر دیا۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ پھر کھل گئے۔ بے انتہا بھیڑ اور بد احتیاطی کی وجہ سے آگ لگنے کے بھی واقعات ہو چکے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے جیسے نہ سدھرنے کی قسم کھا رکھی ہو۔ اس فوڈ اسٹریٹ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ شاہین باغ کی دھرنا گاہ والی شاہراہ کی دوسری طرف سریتا وہار، فریدآباد، نوئڈا اور دیگر غیر مسلم کالونیاں اور آبادیاں ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ان ہوٹلوں پر غیر مسلموں کی بھی خاصی آمد ہوتی ہے اور وہ بھی وہاں لذت کام و دہن حاصل کرتے ہیں۔
عام طور پر یہ دیکھاگیا ہے کہ اگر مسلمان کسی خاص میدان میں آگے بڑھتے ہیں اور نیک نامی حاصل کرتے ہیں تو مسلم دشمن قوتیں سرگرم ہو جاتی ہیں اور وہ کوئی نہ کوئی ایسا حربہ چلتی ہیں جس سے مسلمان بدنام ہو جائیں یا ان کی توجہ دوسری غیر ضروری مصروفیات کی جانب مبذول ہو جائے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ شاہین باغ کی نیک نامی کو بدنامی میں بدلنے کے لیے کچھ لوگوں نے چال چلی ہو۔ جان بوجھ کر مسلمانوں کو کھانے پینے میں لگانے کی ترکیبیں اختیار کی گئی ہوں اور ان کی توجہ ضروری امور سے ہٹا کر غیر ضروری امور کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ ایسی کوشش کی گئی ہو کہ مسلمان کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے بجائے صرف کھانے پینے میں مگن رہے۔ اگر ایسا ہے بھی تب بھی سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمان ان چالوں میں کیوں پھنس رہے ہیں۔ انھیں کیوں اس کا احساس نہیں کہ وہ دنیا میں صرف کھانے پینے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے آئے ہیں۔ انھیں کوئی بڑا کام کرنا ہے۔ لہٰذا ان فضولیات میں پڑنے سے انھیں گریز کرنا چاہیے۔
 ہوٹلوں کے سامنے اور گلی محلوں میں گندگی کا معاملہ صرف شاہین باغ تک محدود نہیں ہے بلکہ ایسے مناظر تمام مسلم علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مساجد کے ائمہ کرام صفائی ستھرائی اختیار کرنے پر نصیحتیں کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ لیکن ان نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لوگ اس کان سے سن کر اس کان سے نکال دیتے ہیں۔ اب تو ہر علاقے میں مکانات کی جگہ فلیٹوں نے لے لی ہے۔ ان فلیٹوں کی وجہ سے بھی گندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم اپنے علاقے میں دیکھتے ہیں کہ کوئی گلی میں جا رہا ہے کہ کسی فلیٹ سے کوڑے والی پلاسٹک کی تھیلی پٹ سے نیچے گرتی ہے۔ راہ گیر اوپر دیکھتا ہے لیکن کوئی نظر نہیں آتا۔ اب وہ کہے تو کس سے کہے، شکایت کرے تو کس سے کرے۔ بہت سے لوگ اپنے گھروں سے کوڑے کی تھیلی لے کر نکلتے ہیں۔ بڑی شرافت سے چلتے ہیں اور کسی گلی کے نکڑ پر یا کسی کے دروازے پر جہاں ایک دو تھیلی پڑی ہو چپکے سے گرا دیتے ہیں۔
اس صورت حال سے صرف سنجیدہ عوام ہی پریشان نہیں بلکہ پولیس محکمہ بھی پریشان ہے۔ چند روز قبل جامعہ نگر کے ایس ایچ او اور مقامی اے سی پی اور ڈی سی پی نے ذاکر نگر کی سرسید روڈ پر واقع مسجد اصلاح کے امام قاری عارف جمال صاحب سے مشورے پر مقامی باشندو ںکی ایک نشست کے اہتمام کا پلان بنایا تاکہ لوگوں کو سمجھایا جا سکے کہ وہ وہ اپنے گلی محلے کو صاف رکھیں۔ امام صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دوسری اقوام کو صفائی کی تلقین کریں لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ دوسری اقوام مسلمانوں کو صفائی کی تلقین کر رہی ہیں۔ کیا مسلمان اس صورت حال کو بدلنے لے لیے تیار ہیں؟
موبائل: 9818195929