سہیل انجم
بہت دنوں سے یہ خبر آرہی تھی کہ سینئر صحافی عالم نقوی کی طبیعت زیادہ ناساز ہے۔ وہ کسی سے فون پر بھی گفتگو نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ ان کے بارے میں راقم الحروف سے بھی پوچھتے۔ لیکن راقم کا بھی کافی دنوں سے ان سے رابطہ نہیں تھا۔ بالآخر وہ خبر آگئی جس کا اندیشہ کافی دنوں سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔ جمعے کو فجر بعد سوشل میڈیا سے یہ اطلاع ملی کہ عالم نقوی راہی ملک عدم ہو گئے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ یہ سال 2022 کی بات ہے۔ میں روزنامہ قومی آواز اور اس سے وابستہ صحافیوں پر کام کر رہا تھا اور بہت سے صحافیوں کے بارے میں مضامین لکھ چکا تھا۔ میری خواہش تھی کہ عالم نقوی صاحب پر بھی ایک مضمون کتاب میں آنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ان سے بارہا گفتگو ہوئی۔ ان کی بھی شدید خواہش تھی کہ میں ان پر مضمون لکھوں اور کتاب میں شامل کروں۔ بہرحال میں نے ان پر ایک مضمون لکھا اور دیکھنے کے لیے ان کے پاس ارسال کر دیا۔ تھوڑی دیر میں ان کا فون آیا۔ گفتگو کرتے وقت وہ جذباتی ہو گئے۔ وہ گلوگیر بھی ہو گئے۔ کہنے لگے سہیل انجم میری کتابوں پر تو لوگوں نے مضامین لکھے اور تبصرے کیے لیکن میری شخصیت اور صحافت پر آج تک کسی نے نہیں لکھا جس کا مجھے افسوس ہے۔ انھوں نے مضمون لکھنے پر میرا شکریہ بھی ادا کیا۔ یہ سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ میرے لکھے مضمون سے مطمئن ہیں تو انھوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ بالکل اس کو کتاب میں شامل کر دیجیے۔ بہرحال وہ مضمون میری کتاب ”جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز“ میں شامل ہے۔ جب یہ کتاب چھپنے کے بعد ان کے پاس پہنچی تو مطالعے کے بعد ان کا فون آیا اور انھوں نے کتاب کے مشمولات کی بہت تعریف کی۔ عالم نقوی پر لکھا ہوا وہ مضمون یہاں نذر قارئین کیا جاتا ہے۔ الگ سے ایک دوسرا مضمون پھر لکھا جائے گا جس میں وہ باتیں بھی درج ہوں گی جو اس مضمون میں نہیں ہیں۔ مضمون ملاحظہ فرمائیں:
عالم نقوی اردو صحافت کا ایک بڑا نام ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اسم با مسمیٰ ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ان کا وسیع مطالعہ اور ان کی غیر معمولی ذہانت انھیں دوسرے صحافیوں سے ممتاز بناتی ہے۔ جن لوگوں نے روزنامہ عزائم، روزنامہ قومی آواز، روزنامہ انقلاب، روزنامہ اردو ٹائمز اور روزنامہ اودھ نامہ میں ان کے اداریے اور مضامین پڑھے ہیں وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ ان کی تحریروں میں علم کا دریا رواں رہتا ہے۔ وہ جس موضوع پر گفتگو کرتے ہیں اس کے تمام پہلووں پر عالمانہ انداز میں روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انھوں نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ان میں سرفہرست کلام اللہ یعنی قرآن مجید ہے۔ وہ اسی کتاب سے خوشہ چینی کرتے اور اسی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی مسئلے کو قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا دل عالم انسانیت کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے لیے بھی دھڑکتا ہے۔ بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے زیادہ شدت سے دھڑکتا ہے۔
بقول سرکردہ صحافی محمد مجاہد سید عالم نقوی کی علمی اور پیشہ ورانہ حیثیت اور مسلمانان ہند اور ملت اسلامیہ سے ان کی بے لوث محبت اور امت کے مفادات کی حفاظت کے لیے پوری جرات مندی کے ساتھ حقائق کو اجاگر کرنے کی جد و جہد نے انھیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں پہنچنے کے لیے ہتھیلی پر سر رکھنا پڑتا ہے۔ عالم نقوی برصغیر، عالم اسلام اور بین الاقوامی معاملات میں گہری معلومات کے حامل ہیں اور روزمرہ رونما ہونے والی قومی اور بین الاقوامی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں پر ان کی گہری نظر ہے۔
عالم نقوی نے اپنی صحافت کا آغاز لکھنو ¿ کے روزنامہ عزائم سے کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے قومی آواز، انقلاب، اردو ٹائمز اور اودھ نامہ میں خدمات انجام دیں۔ وہ ایک عرصے تک اردو ٹائمز کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور اودھ نامہ کے گروپ ایڈیٹر رہے۔ وہ طبعی طور پر انتہائی شریف النفس انسان ہیں۔ ان کی طبیعت میں خاکساری و انکساری اور اسی کے ساتھ خودداری بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کے کردار کی تشکیل میں جہاں لکھنو کے علمی ماحول کی کارفرمائی رہی ہے وہیں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے علمی و تہذیبی شب و روز کا بھی دخل ہے۔ وہ ایک ذہین طالب علم رہے ہیں۔ 2018 میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ”عذاب دانش“ میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جو انھوں نے فرزانہ اعجاز، شکاگو امریکہ کو دیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے عہد طفلی سے لے کر تعلیمی مراحل اور پھر صحافت کے پیشے سے منسلک ہونے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
انھوں نے نفسیات آنرز سے ایم اے کیا ہے۔ انھوں نے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ ساتھ فرسٹ پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے فیکلٹی میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ پی ایچ ڈی کریں اور وہیں یعنی مسلم یونیورسٹی میں نفسیات کے استاد ہو جائیں۔ لیکن قدرت نے انھیں صحافت کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ لہٰذا فرسٹ ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود پی ایچ ڈی میں انھیں داخلہ نہیں ملا۔ ایم اے کرنے کے بعد پانچ سال تک وہ تقریباً بے روزگار رہے۔ بالآخر ان کے لیے اس وقت صحافت کا دروازہ کھلا جب ان کے انٹر کے ایک کلاس فیلو اور دوست طاہر عباس نے، جو کہ روزنامہ صحافت کے ایڈیٹر اور مالک امان عباس کے بڑے بھائی ہیں، ان سے پوچھا کہ کیا وہ اخبار میں کام کرنا پسند کریں گے۔ طاہر عباس ان دنوں انگریزی روزنامہ پانیر کے ادارے سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ سوتنتر بھارت میں رپورٹر تھے۔ بہرحال انھوں نے اپنے عہد کے جلیل القدر صحافی جمیل مہدی سے ملاقات کروائی جو کہ روزنامہ ”عزائم“ کے ایڈیٹر تھے۔
آگے کی کہانی خود انہی کی زبانی سنیے:
اواخر 1978 کے اس دن سے آج تک صحافت ہی ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ ہم نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ عزائم سے قومی آواز دہلی، وہاں سے انقلاب دہلی اور ممبئی اور پھر اردو ٹائمز ممبئی سے ہوتے ہوئے آج اودھ نامہ لکھنو ¿ سے وابستہ ہیں اور قلم کے زیر بارِ احسان ہیں کہ اس نے روزی روٹی کے مسائل بھی حل کیے اور عزت تو اتنی دی کہ بس۔ (یہ انٹرویو 2013 میں لیا گیا تھا)۔
عالم نقوی مزید کہتے ہیں کہ عزائم میں جمیل مہدی اور حفیظ نعمانی نے لومة و لائم سے بے خوف ہو کر سچ کہنے کا سلیقہ سکھایا۔ عرفان صدیقی، عقیل ہاشمی، حسن واصف عثمانی، مشتاق پردیسی اور شوکت عمر سے آسان اور خوبصورت ترجمہ کرنے کا ہنر سیکھا۔ حفیظ نعمانی، عرفان صدیقی اور مشتاق پردیسی نے سرخی لگانے کے فن میں طاق کر دیا۔ حفیظ نعمانی او رجمیل مہدی کے اسلوب کا فرق یہ ہے کہ ”ایک سب آگ ایک سب پانی“۔
وہ دہلی میں روزگار سماچار سے بھی وابستہ رہے۔ اس کی تفصیل وہ یوں بتاتے ہیں کہ یہ اعتراف نہ کرنا بددیانتی ہوگی کہ 1974 سے 1977 کے درمیان جب ہم قریب ایک سال اپنے بچپن کے دوست سلیم شیرازی کی مدد سے دہلی میں روزگار سماچار سے بطور پروف ریڈر وابستہ رہے، محفوظ الرحمن (سابق ایڈیٹر دعوت و سوویت دیس اردو)،بہار برنی (سابق ایڈیٹر الجمعیة دہلی) اور افسانہ نگار شاہنواز صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ شاہنواز صاحب نے تو اپنے ایک افسانے کا ترجمہ بھی مجھ سے کرایا اور محفوظ بھائی نے ماہنامہ تحریک کے پریم گوپال متل سے ملاقات کروائی۔ انگریزی سے اردو میں محفوظ بھائی کی طرح اتنا تیز اور اتنا اچھا ترجمہ کرنے والا ہم نے نہیں دیکھا۔ یوں تو عرفان صدیقی اور عقیل ہاشمی بھی بہت اچھا ترجمہ کرتے تھے لیکن تیز رفتاری میں محفوظ بھائی کا مقابل کوئی نہیں ملا۔
قومی آواز دہلی میں من موہن تلخ، کامریڈ اندر دت، دیوان تصور، محمد کاظم، رضوان صدیقی، سلیمان صابر، نورجہاں ثروت، ظفر زاہدی اور جلال الدین اسلم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ قومی آواز دہلی کے ابتدائی ایام میں عشرت علی صدیقی، محمد عثمان غنی ہاشمی بھی برابر لکھنو سے وہاں آتے رہے۔ لیکن دھیرے دھیرے ساری ذمہ داریاں ریزیڈنٹ ایڈیٹر موہن چراغی اور اسسٹنٹ ایڈیٹر نورجہاں ثروت کے سپرد کر دی گئیں۔ دیوان تصور اور کامریڈ اندر دت بھی سال بھر سے زیادہ نہیں رہے۔ من موہن تلخ ایک ناخوشگوار واقعے کا شکار ہو کر قومی آواز سے رخصت کر دیے گئے۔ سعید سےروردی، م افضل اور خلیل زاہد سے وہیں آشنائی ہوئی۔ آخر الذکر ممبئی سے اور کلکتے کے ایک پرائمری اسکول ٹیچر جو طنز و مزاح نگار بھی تھے، ایک ساتھ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں منتخب ہو کر آئے تھے۔ خلیل زاہد نے رات کی شفٹ میں قومی آواز میں پارٹ ٹائم ترجمے کا کام شروع کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام پروڈیوسر کی مستقل سرکاری نوکری چھوڑ کر قومی آواز ممبئی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے ممبئی واپس چلے گئے۔ قومی آواز بند ہونے کے بعد انھوں نے خود اپنے ویکلی اور روزنامہ اخبار بھی نکالے۔ لیکن وہ بوجوہ جاری نہیں رہ سکے۔
ممبئی کا روزنامہ انقلاب جب دہلی سے نکلنے والا تھا تو قومی آواز میں پہلا لاک آوٹ چل رہا تھا۔ خالد انصاری اور طارق انصاری صاحبان نے نور جہاں ثروت سے رابطہ قائم کیا اور انھوں نے موہن چراغی کو چھوڑ کر قومی آواز کے کاتبوں، سب ایڈیٹروں اور پروف ریڈروں کی پوری تیس رکنی ٹیم کو انقلاب کے دفتر واقع جھنڈے والان میں لے جا کر بٹھا دیا۔ مارچ 1987 میں ہولی کے دوسرے دن انقلاب دہلی کا پہلا شمارہ بازار میں آیا۔ اس وقت ریاض احمد خان ایڈیٹر تھے۔ اداریہ وہی ممبئی سے لکھ کر بھیجتے تھے۔ قریب آٹھ ماہ بعد اکتوبر میں دیوالی کے روز انقلاب دہلی کا آخری شمارہ منصہ شہود پر آیا جس میں نور جہاں ثروت کے تحریر کردہ اداریے کا عنوان تھا ”ہولی سے دیوالی تک“۔ جولائی 1987 میں اچانک قومی آواز کا لاک آوٹ ختم ہو گیا اور نورجہاں ثروت اور ہمارے سوا اٹھائیس اراکین پر مشتمل پورا اسٹاف قومی آواز واپس ہو گیا۔ خالد انصاری اور طارق انصاری (مالکان اخبار) نے نورجہاں ثروت سے کہا کہ اخبار بند نہیں ہونا چاہیے خواہ کچھ بھی کیجیے۔ اس آئرن لیڈی نے چیلنج قبول کر لیا اور کاتبو ںاور مترجموں کی ایک بالکل نئی ٹیم کو اسی روز دفتر میں لا کر بٹھا دیا جسے اخبار کے کام کا قطعاً کوئی تجربہ نہ تھا اور ہم سے کہا کہ عالم بھائی اب ان سب سے کام لینا اور ہماری عزت رکھنا آپ کا کام ہے۔
عالم نقوی مزید بتاتے ہیں کہ کاتبوں اور مترجم لڑکوں کی یہ ٹیم اخبار کے کام سے بالکل ناواقف تھی لیکن دوسری صبح انقلاب دہلی کے تمام نیوز پیپر سینٹروں پر موجود تھا۔بس اتنا ہوا کہ ہماری ڈیوٹی آٹھ گھنٹے سے بڑھ کر اٹھارہ گھنٹے کی ہو گئی۔ کئی ہفتوں تک سبھی آٹھ صفحات کی کاپی پیسٹنگ بھی ہمیں کو کرنا پڑی کہ نئے لوگوں میں اس کام کا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ پہلے اور آخری صفحے کی پیسٹنگ آخری دن تک ہمارے ہی ذمہ رہی۔ صبح دس بجے سے رات کے دس بجے تک خبروں کا انتخاب، ترجمہ کروانا، ان کی تصحیح کرنا، سرخیاں لگانا اور اہم خبروں بالخصوص لیڈ اسٹوری کا ترجمہ کرنا ا س کے بعد چھ صفحات کی پیسٹنگ کروانا ہماری ذمہ داری تھی۔
اسی درمیان دہلی اور میرٹھ میں مسلم مخالف فسادات رونما ہوئے تھے۔ اس موقع پر انقلاب میں شائع دو تصاویر پر دہلی پولیس نے مقدمہ کر دیا۔ مالکان اخبار نے صفحہ اول پر معافی نامہ چھاپ کر اپنی اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر نورجہاں ثروت کی گردن بچا لی۔ اس کے بعد اچانک مالکان نے اخبار بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے نور جہاں ثروت اور عالم نقوی کو مطلع کیا گیا تاہم انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کی ملازمتیں برقرار رہیں گی۔ ان کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو ممبئی چلے آئیں اور چاہیں تو دہلی اور لکھنو سے انقلاب اخبار کے لیے کام کریں۔ بقیہ پورے اسٹاف کا حساب اسی روز بے باق کر دیا گیا۔
عالم نقوی جون 1989 تک دو سال لکھنو سے انقلاب کی نمائندگی کرتے رہے۔ ایک روز نورجہاں ثروت نے لکھنو ¿ پہنچ کر انھیں بتایا کہ ہم دونوں کی ممبئی طلبی ہوئی ہے۔ دونوں ممبئی گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ ریاض احمد خان کے استعفیٰ دینے کے بعد فضیل جعفری کا بحیثیت ایڈیٹر تقرر ہو چکا ہے۔ وہ اس وقت انقلاب کے سنڈے ایڈیشن کے لیے کام کر رہے تھے۔ انھوں نے ان دونوں کو میگزین کے لیے لکھنے کی پیشکش کی۔ عالم نقوی نے پنجاب کی دہشت گردی پر ایک مضمون لکھا جو فضیل جعفری کو بہت پسند آیا۔ بقول عالم نقوی جب تک ہم انقلاب میں رہے سنڈے میگزین کا پہلا یعنی لیڈ آرٹیکل ”نقطہ ¿ نظر“ کے نام سے ہمارے ہی ذمہ رہا۔ بعد میں نورجہاں دہلی واپس آگئیں اور تادم آخر انقلاب کے لیے ہفتہ واری کالم لکھتی رہیں۔عالم نقوی کا کہنا ہے کہ انقلاب میں ندیم صدیقی، محمد رفیع خان، جہاں گیر کاظمی، جاوید جمال الدین، شحیم خان، مشتاق صاحب، شاہد لطیف اور اردو ٹائمز میں سعید حمید، شکیل رشید، اختر احسن، وصیل خان اور عبد الرحمن صدیقی کے ساتھ کام کیا اور زندگی کے متعدد تلخ و شیریں نئے سبق سیکھے۔
عالم نقوی کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کے اندر علمیت کا غرور نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کا بھی تذکرہ ایسے کرتے ہیں جیسے کہ وہ ان کے بڑے ہوں۔ وہ خرد نواز بھی ہیں اور صحافت کا انتہائی کم تجربہ رکھنے والوں کی تحریروں کی بھی ستائش کرتے ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ثبوت کے طور پر ان کی یہ گفتگو پیش کی جا سکتی ہے:
”جہاں تک کسی تحریر سے متاثر ہونے کا معاملہ ہے تو جمیل مہدی، حفیظ نعمانی، خرم مراد، شاہنواز فاروقی، جاوید چودھری، اوریا مقبول جان اور سلیم خان کی طرح سے اور کوئی ہمیں متاثر نہیں کر سکا۔ اگر کوئی ہم سے گزشتہ تیس برسوں کے دوران ہماری صحافتی زندگی پر اثرانداز ہونے والے دس بڑے صحافیوں کی ایک فہرست بنانے کو کہے تو ہم اس میں محمد مجاہد سید، معصوم مرادآبادی اور سہیل انجم کا اضافہ کر دیں گے۔ اور اگر ہم سے کہا جائے کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران سرگرم اردو صحافیوں میں سے اپنی پسند کے دس صحافیوں کے نام منتخب کریں تو وہ فہرست شورش کاشمیری، ظ۔ انصاری، محمد عثمان فارقلیط، جمیل مہدی، حفیظ نعمانی، شاہنواز فاروقی، جاوید چودھری، محمد مجاہد سید، معصوم مراد آبادی اور سہیل انجم پر مشتمل ہوگی .... ہاں اس فہرست کو اور آگے بڑھانا ہو تو اس میں مولانا آزاد، سرسید اور دیوان سنگھ مفتون کے نام قدما میں سے اور حسن کمال، شمیم طارق اور سید منصور آغا ہمعصروں میں سے ہم اور شامل کریں گے۔ بہرحال یہ ذاتی پسند ہے“۔ (ماخوذ: عذاب دانش)۔
عالم نقوی نے اپنی زندگی میں ہزاروں مضامین قلمبند کیے ہیں۔ ان کے اندر بسیار نویسی کی خصوصیت ہونے کے باوجود ان کی تحریریں رطب و یابس سے پاک ہوتی ہیں۔ ان کی تقریباً ہر تحریر موضوع اور زبان و بیان کے اعتبار سے معیاری ہوتی ہے۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہو کر اہل علم و دانش سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی قابل ذکر کتابوں میں عذاب دانش، لہو چراغ، مستقبل، بیسویں صدی کا مرثیہ، اذان، زمین کا نوحہ، ولاتفرّقو، بازار، امید، اتحاد اور ہم نہ کہتے تھے شامل ہیں۔
میں یہاں عالم نقوی کی تحریر کے کچھ نمونے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ عذاب دانش میں ان کا ایک مضمون ”شرم کی واپسی“ کے زیر عنوان شامل ہے جس میں وہ مغربی معاشرے کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”اباحیت یعنی جنس پرستی، فحاشی اور بے شرمی کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد اب مغرب میں ”شرم“ واپس آرہی ہے۔ جبکہ مشرق میں بے حیائی کا بول بالا ہے اور شرم رخصت ہو رہی ہے“۔
انھوں نے انتہائی مختصر جملوں میں مغرب و مشرق کے معاشرے کی ایسی مبنی بر حقیقت عکاسی کی ہے کہ تحریری صلاحیتوں سے عاری قلمکار یہی بات کہنے کے لیے جانے کتنے صفحے سیاہ کر دیں گے۔ وہ آگے چل کر ان جملوں کی تشریح بھی کرتے ہیں:
”رواداری بے شک اچھی چیز ہے لیکن جب کسی معاشرے میں اخلاقی اور سماجی جرائم کے تئیں رواداری پیدا ہو جائے تو وہ عذاب بن جاتی ہے۔ چھوٹے موٹے جرائم کو نظرانداز کر دینے، اخلاقی جرائم کی طرف سے چشم پوشی کرنے اور مجرموں کے ساتھ رواداری برتنے کے نتائج سامنے آجانے کے بعد اب ان کی سمجھ میں آگیا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہیے جس پر عمل کرکے سماجی تانے بانے کو مزید بکھرنے سے بچایا جا سکے۔ مغربی معاشرہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں ہونے والی ”مادی ترقی“ کے نتیجے میں اخلاقی پستی کی جن گہرائیوں میں پہنچ چکا ہے ہم مشرق والے وہیں پہنچنے کے لیے پوری قوت سے دوڑ رہے ہیں“۔
اسی کتاب میں ایک مضمون کا عنوان ہے ”کون ہے اردو کا اصلی دشمن“۔ یہ مضمون انھوں نے جریدہ اردو بک ریویو میں شائع پٹنہ کے استاد محمد شمس الحق کے ایک مضمون ”فروغ اردو زبان: مسائل اور حل“ کے حوالے سے قلمبند کیا ہے۔ انھو ںنے اردو زبان کے تعلق سے اہل اردو کی بے حسی و بے غیرتی پر اظہار افسوس کیا ہے اور اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ اردو کے اصل دشمن کون ہیں۔ میں یہاں اس مضمون کا ایک اقتباس اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ ہم اردو والوں کو شاید تھوڑی بہت غیرت آجائے۔ وہ لکھتے ہیں:
”یہ واقعہ 1990 کا ہے۔ عید قرباں کا دوگانہ ادا کرکے غلام عباس رضوی صاحب (جو اُن دنوں روزنامہ انقلاب ممبئی کے سرکولیشن منیجر تھے) یعقوب گلی، بھنڈی بازار میں اپنے کسی عزیز قریب سے ملانے کے لیے ہمیں ان کے گھر لے گئے۔ وہاں صرف ٹائمز آف انڈیا رکھا ہوا تھا۔ پوچھا کہ آپ کوئی اردو اخبار نہیں منگاتے۔ جواب ملا کہ اس میں ہوتا کیا ہے۔ چھ سال بعد 1996 میں عید الفطر کے دن ہم اپنے دوست اور سابق رفیق کار جہاں گیر کاظمی کے یہاں بیٹھے ہوئے تھے جو آجکل راشٹریہ سہارا کولکاتہ کے ایڈیٹر ہیں۔ وہاں بھاگلپور سے ان کے بھائی آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے اردو اخباروں کے ہجو میں تقریر شروع کر دی۔ پوچھا کوئی اردو اخبار پڑھتے ہیں؟ بولے وہ اس لائق ہی نہیں ہوتے، ہم صرف انگریزی اخبار پڑھتے ہیں۔ ان ہی دنوں علی جواد زیدی مرحوم کے یہاں جانا ہوا۔ وہ اپنے بیٹے کے یہاں اندھیری (ایسٹ) میں قیام پذیر تھے۔ وہاں اردو زبان تو درکنار اردو تہذیب بھی ناپید تھی۔ پوتے پوتیاں انگریزی بول رہے تھے۔ جب میں پہنچا تو گھر کے ایک کمرے سے مغربی موسیقی کی پر شور لہریں اٹھ رہی تھیں۔ جسے فہمائش (بلکہ فرمائش) کے ذریعے کم کرایا گیا۔ پتہ چلا گھر میں زیدی صاحب کے علاوہ سب انگریزی بولتے ہیں۔ اردو کا اخبار بیچارہ وہاں بھی نہیں تھا۔ دہلی کے ایک جلسے میں شبانہ اعظمی تقریر کرنے کھڑی ہوئیں، مجمع میں سے کسی نے فرمائش کی اردو میں بولیے وہ خفا ہو گئیں۔ لیکن اردو میں دو بول نہیں بول سکیں۔ اس لیے کہ کیفی اعظمی اور شوکت کیفی نے اپنے بچوں کو اردو سکھائی ہی نہیں تھی۔ یہی حال علی سردار جعفری اور ظ۔ انصاری کا بھی تھا اور یہی حال کم و بیش ہر اس شخص کا ہے جو اردو کی روٹی کھاتا ہے اور اردو کی دی ہوئی شہرت کا تاج اپنے سر پر سجائے گھومتا ہے۔ شاعر، ادیب، ڈرامہ نویس، ناول نگار، افسانہ نگار حتیٰ کہ پروفیسر حضرات جو بیچارے محض کالجوں میں لیکچرر ہوتے ہیں لیکن کہلاتے خود کو پروفیسر ہیں او رابتدائی و ثانوی سطح پر اردو پڑھانے والے اساتذہ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ اردو میڈیم میں پڑھانا تو درکنار اپنے بچوں کو اردو زبان بھی نہیں پڑھاتے۔ کوئی اردو اخبار نہیں خریدتے۔ اردو رسائل اور اردو کتابیں نہیں خریدتے“۔
ان اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ عالم نقوی کی نظر ملکی و غیر ملکی حالات پر تو ہے ہی اپنی تہذیب و ثقافت پر بھی ہے۔ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب بھی ہے۔ انھوں نے اس مضمون میں اس تہذیب کے پروردہ افراد اور طبقات کی جانب سے ہی اس تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کے بڑھتے رجحان پر جس دلسوزی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مجموعی طور پر عالم نقوی جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا ہے اسم با مسمیٰ ہیں۔
موبائل: 98181959929