دعوت دین اور احتساب عمل محبت رسولؐ کے دو اہم تقاضے

8 views
Skip to first unread message

Nehal Sagheer

unread,
Oct 8, 2025, 7:02:21 AM (20 hours ago) Oct 8
to
  دعوت دین اور احتساب عمل محبت رسولؐ کے دو اہم تقاضے
                        
                                     محمد نصیر اصلاحی (ممبرا)

حضرت محمد مصطفی کی ذات گرامی اہل ایمان کے لئے سرچشمہ ہدایت اور مرکز ِعشق و محبت ہے۔ مسلم معاشرہ کا سارا نظام آپؐ کے اسوہ ٔ مبارکہ پر قائم ہے اور عمل کی دنیا آپؐؐؐ  کی تعلیمات پر استوار ہے۔آپؐ کا لایا ہوا پیغام،پیغامِ حق ہےاورآپؐ کی سنت و شریعت میزان عمل ہے۔ اللہ رب العالمین نے قیامت تک ساری دنیا  کے لئےآپؐکو آخری رسول اور کامل اسوہ حسنہ بنا کر بھیجا ہے۔
آپ  ﷺ  سے محبت مومن کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اس محبت کا اصل لطف تو آپ ﷺ سے شعوری تعلق میں ہے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس نے بھی ایک بار کلمہ  اَشْهَدُ اَنْ لّآ اِلهَ اِلَّا اللّٰهُ واَشْهَدُاَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللہِ کا زبان سے اظہار اور دل سے اقرار کر لیا، گرچہ اس نے اس کلمہ کے مطالبات اور تقاضے پر بہت غور نہ بھی کیا ہو، تب بھی وہ اپنے قائدو محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو زندگی کے آخری لمحہ تک اپنےدل کی ہر دھڑکن میں محسوس کرتا ہے۔وہ خواب و خیال میں بھی نہیںسوچتا کہ آپؐکی ذات و شخصیت کو ایک ذرہ کے برابر بھی تکلیف پہنچے۔
دنیا کی ہر چیز سے زیادہ رسول اللہ ﷺ  سے محبت کرنا صرف ہمارے ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ تکمیلِ ایمان کے لئے لازمی ہے ۔عبد اللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔آپؐ عمرؓ بن خطاب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ عمر ؓنے آپ سے کہا:  یا رسول اللہ !آپؐ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا : نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک تم کو میں اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز نہ ہو جاؤں تم مومن نہیں ہو سکتے۔ عمر ؓنے کہا: اب تو بخدا آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو گئے ۔ آپ ؐنے فرمایا : اب اے عمر ! تم مومن ہو۔(صحیح البخاری: 6632)
رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ آدی صحیح معنوں میں سچا اور مکمل مومن اسی وقت ہوسکتا ہے جب رسول اللہ ﷺ کی محبت اس کی تمام محبتوں پر غالب ہو جائے ۔وہ رسول ؐ کی محبت پر ہر چیز کوقربان کردے۔ والدین ، اولاد اور معاشرہ کے لوگ کسی راستہ پر چلانا چاہیں اور اللہ کے رسول کسی اور راہ پر بلائیں تو مومن کا فرض ہے کہ سب کے مطالبات کو ٹھکرادے اور اپنے محبوب پیغمبر کی پکار پر لبیک کہے۔ یہاںتک کہ اگر اپنی جان قربان کرنے کا موقع آئے تو وہ اس سے بھی گریز نہ کرے۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت کا صرف زبانی اظہار اور اقرارکافی نہیں ہے ۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس محبت کے تقاضے پورے کئے جائیں۔رسول اللہ ﷺ سے محبت کا تقاضا صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ آپؐ کی شان میں نعتیں کہہ دی جائیں اور مضامین و مقالے لکھ دیئے جائیں۔ یا سیرت النبی کے عنوان سے جلسوں ،کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کر لیا جائے۔یاایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کرکچھ نعرہ لگا لئے جائیں اور کچھ سلوگن تیار کر لئے جائیں۔ یا کچھ بینرس آویزاں کرکےآپؐ سے محبت کا اظہار کر دیا جائے۔
آ پ ؐ سےمحبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ آپؐ  کی اطاعت کی جائے۔ یہ اطاعت بھی چندعبادات اور زندگی کےچند جزوی امور میں نبی کریم ﷺ  کی تعلیمات سے احکام اخذ کرلینے تک محدود نہیں ہےبلکہ یہ اطاعت ایک مومن کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ زندگی کے ہر معاملہ میں اطاعت مطلوب ہے ۔ بڑی اور مرکزی اطاعت یہ ہے کہ جس پیغام حق کو آپؐ لے کر آئے ،اس پیغام کی تبلیغ اور اشاعت کی جائے۔ جس دین کی طرف آپ ؐ نے بلایا آج لوگوں کو اس دین کی دعوت دی جائے ۔ آپؐ نےجس طرح کا نظامِ حیات قائم فرمایا،اس طرح کا نظام حیات قائم کرنے کی کوشش کی جائے ۔آپؐ نے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے جس طرح کی انقلابی تحریک چلائی ویسی ہی تحریک چلائی جائے۔یہ بھی حضور ﷺ کی سنتیں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے یہاں چھوٹی سے چھوٹی سنتوں پر تو بہت زور اور تاکیدہے مگراِن بڑی سنتوں سے ہماری اکثریت غافل ہیں ۔
دعوت دین مسلمانوں کا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کی اہمیت صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ آخرت کی ابدی زندگی کے انجام کے اعتبارسے بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کے وجود و بقا کاانحصار،امن و امان کا قیام ،عدل و انصاف کا حصول ، ان کی مادی خوشحالی اور ترقی کا دارومدار اسی فر یضۂ دعوت کی ادائیگی پر ہے ۔مسلمانوں کے لئےاپنی جان و مال کے تحفظ ، اپنی سربلندی ،عزت اور عظمت کے لئے اس فریضہ کی ادائیگی نا گزیر ہے۔ مسلمان جب اس فریضہ کی ادائیگی سے غافل ہو گئے اور انہوں نے دنیا کو اسلام کی نعمت سے محروم رکھا ،تو قدرت نے ان کو عبرتناک سزا دی،ان کی حکومتوں کو ایسا زوال آیا کہ دوبارہ عروج ایک خواب بن گیا۔رسول اکرم ﷺ  کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے اپنی 23؍ سالہ پیغمبرانہ جدو جہد میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزارا، جب آپؐ کی توجہ دعوت اسلام کے مشن سے ہٹی ہو۔
اس فریضہ کے متعلق حشر کے میدان میں بھی ہم مسلمانوں کو جواب دینا ہوگا کہ اپنے ہم وطنوں کے سامنے ہم نے اسلام کی دعوت  پیش کی تھی یا نہیں؟ اس کام میںہم سے کوئی کوتاہی اور غفلت تو نہیں ہوئی؟سوچئے ! اس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا۔ دعوت سےغفلت کے لئےہم اللہ کے سامنے کیا عذر پیش کریں گے؟ اس زمین پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت اسلام ہے۔ اسلام پوری انسانیت کے لئےہے۔ یہ نعمت آج ہمارے پاس ہے اس پرہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ اورجو لوگ اس سے محروم ہیں ان تک یہ پہنچا نا چاہئیے۔یہی انسانوں کی سب سے بڑی خدمت اور خیر خواہی ہو گی۔
بھارت جیسے تکثیری سماج میں ہماری ذمہ داریاں تو اورکئی گنا بڑھ جاتی ہیں ۔ یہاں ہم طویل مدت سے رہ رہے ہیں ،اس ملک کی اپنی ایک ہزار سالہ تاریخ پر ہمیں فخر بھی ہے، لیکن افسوس ہے کہ ہم اپنے ہم وطنوں کو اسلام کےنظام رحمت سے کما حقہ واقف نہیں کر اسکے ۔ اسلام کی بنیادی باتوں سے واقف ہونا تو دور کی بات ہے ، آج ہمارےبرادران وطن اسلام ، قرآن ، پیغمبراسلام اور مسلمانوں کے متعلق متعدد غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ اگر ہم نے یہاں دعوت دین کا کام انجام دیا ہوتا توآج اس ملک کا منظرنامہ دوسرا ہوتا ۔ہمارے اور برادران وطن کے درمیان دوریوں کے بجائے قربتیں اور غلط فہمیوں کے بجائے خوش گمانیاں ہوتیں۔ لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے۔ دعوت دین کے کام سے مسلمانوں کی عمومی غفلت نے آج اس ملک میں اسلام ،قرآن ،رسول پاکؐ کی شخصیت اور سیرت کو اجنبی بنادیا ہے۔ اسلام دشمن عناصراسلام کو ایک جارح ، دہشت پسند، غیر روادار،انسانی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے والااور مذہب بنا کر پیش کرتے ہیںاور مسلمانوں کو باہر سے آئے ہوئے حملہ آور اور یہاں کے وسائل پرقبضہ کرنے والی قوم قرار دیتے ہیں ۔ میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں بالخصوص سوشل میڈیا پر اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف پوری شدت مہم چلائی جا رہی ہے۔اب اس ملک کا عمومی رویہ ا ور مزاج مسلمانوں کے سلسلے میں بتدریج بدلتا جا رہا ہے۔ آج مسلمان برادران وطن کی نظروں میں ایک حریف ، رقیب اور ناپسندیدہ اقلیت بنتے جا رہے ہیں۔ان کے شہری ،جمہوری اور آئینی حقوق پامال کئے جا رہے ہیں ،مسلمانوں کی حمایت میں اٹھنے والے ہاتھ اب دن بہ دن کم اوربلند ہونے والی آوازیں کمزورہو تی جا رہی ہیں ۔
یہ صور ت حال یقیناًتشویش ناک ہے ۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اس فضا کو تبدیل کرنےپر بھی غور کیا ہے؟ فریضۂ دعوت کی موثر ادائیگی سے ہی حالات میں تبدیلی آئے گی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور بزرگان دین نے اپنی دعوتی جد و جہد کے نتیجے میںناسازگار حالات کےرخ کو موڑا ہےاور بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
حالات کی تمام تر شدت، مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود آج بھی ہمارےوطن عزیز میں دعوت دین کے بے شمار امکانات مو جود ہیں ۔ اس ملک میں رہنے والے اکثر لوگ آج بھی مذہب کے قائل ہیں۔ان کی عام زندگی میں مذہب کا خاصا عمل دخل ہے ۔مذہب کی باتوں پر وہ سنجیدگی سے غور کرتے ہیں ۔ رقبہ کے لحاظ سے یہ ایک وسیع و عریض ملک ہے ،یہاں مختلف طبقات اورمختلف زبانیں بولنے والے لوگ ہیں،مختلف علاقوں کے رہنے والوں کے رسم و رواج الگ الگ ہیں ،تمام تراسلام مخالف کوششوں کے باوجود یہاں کا ایک بڑا طبقہ ابھی بھی غیر جانب دار ہے ،اس کا ذہن مسلم مخالف نہیں بن سکا ہے ۔ اگر انفرادی و اجتماعی شکل میں دعوت دین کے لئے موثر منصوبہ بندی کرکے کوششیں کی جائیںتو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں ہو گا جب حالات ہمارے لئے سازگار ہوںگے۔
باشعور اور زندہ قو میں مسائل سے نہیں گھبراتیں، بلکہ مسائل ان کے لئے مواقع ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے آج جتنے ایشوز کھڑے کئے جا رہے ہیں ،اگر ہم جذباتی رد عمل کے بجائے سنجیدگی سے غور کریںتو معلوم ہوگا کہ ہر ایشو ہمیں ایک وسیع دعوتی موقع فراہم کرتا ہے ۔ مثال
کے طور پر حال ہی میں جب کچھ مسلمانوں نے’’I Love Mohammad (s)  ‘‘ کے ذریعہ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا تو ملک کے بعض شدت پسند عناصر نے اسے ایک ایشو بنا دیا اور ملکی سطح پر اس سے مسلم مخالف بیانیہ کھڑا کیا گیا۔اگر ہم دعوتی نقطۂ نظر سے غور کریںتو یہ برادران وطن کے سامنے رسول اکرم ﷺ کی شخصیت ، آپؐ کی سیرت اور آپؐ کی تعلیمات پیش کرنے کا بہترین اور سنہری مو قع ہے ۔ ان حالات میں لاکھوںغیر جانبدار اور مثبت سوچ رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں آپؐ کی شخصیت اورسیرت کے متعلق تجسس پیدا ہونا فطری ہے ، وہ آپؐ کی تعلیمات اور پیغام کو جاننا چاہتے ہوںگے ۔ ایسے وقت ہماری دعوتی کوشش پیاسے کو پانی فراہم کرنے کی مصداق ہوگی ۔ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئیےکہ جو شر پسند افراد ہیںان میں بھی بہت کم ایسے ہوں گےجو حضور ﷺ کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے ہوں ۔ ہماری دعوتی کوششوں کے نتیجہ میں عین ممکن ہے کہ انہیں بھی حضور ﷺ کے متعلق پڑھنے اور جاننے کا موقع ملے اور ان کا ذہن و فکر بدل جائے ۔ برادران وطن قرآن کے بعد سب سے زیادہ رسول اللہ کی شخصیت اور سیرت سے متاثر ہوتے ہیں ۔
محبت رسول کا دعویٰ ہمیں اپنے عمل کے جائزہ اور احتساب کی بھی دعوت دیتا ہے۔ افسوس! کہ آج ہم مسلمان صرف گفتار کے غازی ہیں ،سارا انقلاب الفاظ اور جملوںسے لانا چاہتے ہیں ۔ اسلام کی جن تعلیمات کو ہم دوسروں کے سامنے پیش کرکے ، ان پر ان سے عمل کا مطالبہ اور خواہش کرتے ہیں ، ہم خود ان پر عمل نہیں کرتے۔ رسول اکرم ﷺ  کے جن اخلاق کریمانہ سے دنیا کو واقف کرانا چاہتے ہیں ، خود ہمارے اخلاق میں اخلاقِ نبوی کا وہ عکس نظر نہیں آتا ۔اسلام کی بنیاد پر بننے والے جس مثالی معاشرہ کی تصویر دوسروں کو دکھاتے ہیں ،عملاً وہ مثالی معاشرہ ہماری آبادیوں میں کہیں نظر نہیں آتا ۔ دعوت کے موثر ہونے کے ضروری ہے کہ داعی کا عمل ، سیرت اورکردار اس کی دعوت کے مطابق ہو ۔ حضور ﷺ  نے کسی ایسی بات کی تبلیغ نہیں کی ،جس پر آپ ؐ نے عمل نہ کیا ہو ۔ آپ ؐ نے جن نیکیوں کی تبلیغ کی ان پر سب سے پہلے آپؐ نے عمل کیا، جن برائیوں سے لوگوں کو بچنے کی تلقین کی،آپؐ ان سے کوسوں دور رہے ۔ جس قرآن کی طرف بلا یا  حضرت عائشہ نے کان خلقہ القرآن کہہ کر بتایا کہ آپؐ  خود چلتا پھرتا قرآن بن گئے ۔
قرآن کریم میں علمائے یہود کے بارے میں فرمایا گیاہے کہ کہ تم دوسروں کو تو نیکی کا درس دیتے ہو لیکن خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ اسی طرح اہل سیاست جن کاموں سے خود توکوسوں دور ہوتے ہیں، ان کی دعوت وہ اپنی تحریر اور تقریر میں دیتےپھرتے ہیں، وہ اپنی زبانوں سے جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں،ان پرعمل کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتے ، اپنے قول ہی کو وہ عمل کا قائم مقام سمجھتے ہیں اور محض زبان کے پھاگ سے وہ ثمرات و  نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں جو نتائج عمل اور خون پسینہ ایک کر دینے سے حاصل ہوتے ہیں ۔
مسلمان داعی امت ہیں۔ ہم جن اصولوںکو حق کہتے ہیں،اپنی زندگی میں عملاً اُن کامظاہرہ کریں ۔ دنیا صرف ہماری زبان ہی سے دین اسلام کی صداقت کا ذکر نہ سنے، بلکہ خود اپنی آنکھوں سے، ہماری زندگی میں اُس کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کر لے ۔ وہ ہمارے برتائو میں اُس شیرینی کا ذائقہ چکھ لے، جو ایمان کی حلاوت سے انسان کے اخلاق و معاملات میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ خود دیکھ لے کہ اس دین پر عمل کے نتیجہ میں کیسے اچھے انسان بنتے ہیں، کیسا مثالی خاندان وجود میں آتا اورکیسا مثالی معاشرہ تیار ہوتاہے۔اس دین پر عمل کے نتیجہ میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر پہلو کس طرح سدھر جاتا ہے، سنور جاتا ہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہو جاتا ہے۔اِس دعوت کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے اپنے دین کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں۔اگر ایسا ہو جائے تو آپ  یدخلون فی دین اللہ افواجاً کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ آج مخالفت اسلام کی نہیں ،مسلمانوں کی جا رہی ہے کیوں کہ اسلام اپنی عملی شکل میں برادران وطن کے سامنےآیا ہی کہاں ہے؟
Mazmoon Dawat -E- Deen aur Ehtesab -E- Amal...inp
Mazmoon Dawat -E- Deen aur Ehtesab -E- Amal Mohabbat -E- Rsool ke Do Aham Taqaze.pdf
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages