سہیل انجم کا صحافتی اور ادبی منطقہ

27 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
May 21, 2024, 6:27:49 AMMay 21
to bazme qalam
خاکسار (سہیل انجم) پر معروف ادیب و نقاد جناب حقانی القاسمی کا مضمون
سہیل انجم کا صحافتی اور ادبی منطقہ
حقانی القاسمی
علی گڑھ کی شامِ مصر اور شبِ شیراز سے رشتہ ٹوٹا تو دلی کی ”بھیڑ بھری تنہائی“ سے واسطہ پڑا۔ ایسی تنہائی کہ وحشت سی ہونے لگتی اور مجھے بے اختیار علی گڑھ کی یاد آجاتی۔ خاص طور پر حبیب ہال کا میرا الف لیلوی کمرہ 69 — بہت یاد آتا اور اپنے کمرے کی تنہائی کی وہ انجمن، جہاں میرے ساتھ صرف کتابیں،اخبار ات اور رسائل ہوتے تھے اور یہی میری تنہائی اور وحشتِ دل کا علاج تھے۔ کوئے جاناں کا طواف تو نصیب میں نہیں تھا مگر ہر شام شمشاد مارکیٹ کا چکر لگانا لازمی سا ہوگیا تھا۔ وہاں کبیر کے ڈھابے کے ساتھ ساتھ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ اور ایجوکیشنل بک ہاؤس پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بھی معمول میں شامل تھا۔ اخبارات اور رسائل کے صفحات پلٹتے ہوئے ایک نام پر تواتر اور تسلسل کے ساتھ نظر پڑتی تھی وہ نام تھا سہیل انجم۔ انہی کی صحافتی تحریریں اور رپورٹس پڑھ کر دشتِ صحافت میں آوارگی کا خیال آیا  اور شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھنے کی غلطی یہیں سے سرزد ہوئی اور یہی ہماری تباہی و بربادی کا نقطہئ آغاز ثابت ہوا۔ اس میں قصور اس زمانے کے ٹرینڈ کا بھی تھا کہ صحافت کا بہت گلیمر تھا اور صحافی حضرات ہمارے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ پتہ نہیں وہ کون سی ساعت تھی جب میں نے شوقِ صحافت میں دلی کی راہ لی  اور یہاں کی پتھریلی راہوں میں پاؤں کے ساتھ ذہن کو بھی لہولہان کرتا رہا۔ علی گڑھ کا حوصلہ دلی میں دم توڑنے لگا، ہمت جواب دینے لگی مگر لاتقنطوا کی عبارت ذہن سے کبھی محو نہیں ہوئی۔ سو منزل کی تلاش میں بھٹکتا رہا۔ محبتوں کے کئی دروازوں پر دستک دی مگر شاید تقدیر میں کچھ اور تاخیر لکھی تھی۔ ہاں اتنا یقین ضرور تھا کہ درِ رحمت کبھی نہ کبھی ضرور وا ہوگا۔محرومیوں اور مایوسیو ں کے اندھیرو ں میں کچھ چہرے روشن ہونے لگتے اور امید کے دیے جگمگانے لگتے۔ انہی میں ایک چہرہ سہیل انجم کا بھی تھا۔ ان کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ انٹرنیشنل ملی ٹائمز سے وابستہ ہیں جس کے مدیر اور مالک ڈاکٹر راشد شاز تھے جو تھے تو انگریزی شعبے کے مگر ہمارے عربی اور اسلامک اسٹڈیز کی لائبریری میں اکثر وہ آتے رہتے تھے اور میرے حبیب ہال سے بھی ان کا گہرا رشتہ تھا۔ میں سہیل انجم صاحب سے اسی حوالے سے ملنے ان کے دفتر گیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ بہت خلوص اور محبت سے ملے۔میں ان کی تحریروں کا مداح تو پہلے ہی سے تھا، اس لیے مجھے ان سے مل کر اور بھی اچھا لگا۔ ان کی محبت کا نقش میرے دل پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگیا۔ واقعی جیسا میں نے سوچا تھا سہیل انجم کو ویسا ہی پایا۔ کسی طرح کی عیاری یا مکاری مجھے ان کی ذات کے اندر نظر نہیں ا ٓئی۔ وہ صاف ستھرے اور سلیقہ مند آدمی لگے۔ ان سے مل کر مجھے حوصلہ ملا اور ایک نئی ہمت میرے اندر پیدا ہوئی جس سے مجھے تلاشِ منزل میں آسانی ہوئی۔ ہفت روزہ ”سچ بالکل سچ“ کی شکل میں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ملا۔ وہاں کچھ دنوں کام کرنے کے بعد جب م افضل کے ہفت روزہ ”اخبارِ نو“ سے وابستہ ہوا توعافیت کی سانس لی۔ علی گڑھ کے زمانے میں یہ میرا پسندیدہ اخبار تھا۔ خاص طور پر شاہ بانو والے کیس کی وجہ سے یہ اخبار بہت ہی مقبول ہوگیا تھا اور اس کا ہر طرف شہرہ تھا۔ وہیں میں نے ایک دن سہیل انجم صاحب کو دیکھا۔ مودود صدیقی صاحب ان کا اکثر ذکر کرتے رہتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ سہیل انجم ”اخبار نو“ کے لیے بھی کچھ کام کرتے ہیں۔ وہ کچھ دیر کے لیے آتے اور اپنا کام نمٹا کر چلے جاتے۔
پہلی بار میں نے کسی صحافی کو دیکھا کہ پیشانی پر نہ کوئی شکن ہے اور نہ ہی ذہن پر کسی طرح کا بار۔ وہ ہنستے کھیلتے مضمون اور رپورٹس لکھ کر چلے جاتے تھے۔ شاید وہ کہیں اور بھی کام کرتے تھے اسی لیے اخبار نو میں زیادہ وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ دراصل سہیل انجم صحافت میں اتنے مشاق ہوچکے تھے کہ کوئی بھی رپورٹ یا مضمون لکھتے ہوئے انھیں کسی طرح کی کوئی دقت نہیں پیش آتی تھی اور اس وقت وہ صحافتی حلقے میں خاصے معروف اور مشہور بھی ہوگئے تھے  اور اسی کی وجہ سے ان کے کام کا دائرہ بھی پھیلا ہوا تھا۔ وہ مختلف اخبارات میں اپنے صحافتی جوہر دکھلا رہے تھے۔
سہیل انجم (پ: یکم جولائی 1958، ضلع سنت کبیر نگر)کا صحافی سفر آرکے کرنجیا کے مشہور اخبار  ہفت روزہ ”بلٹز“ ممبئی اور م افضل کے اخبار ہفت روزہ ”اخبار نو“ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ہفت روزہ ”ہماراقدم“، ”اپنا ہفت روزہ“، ”نئی دہلی“، ”جریدہ ٹائمز“ نئی دہلی سے ان کی صحافتی وابستگی رہی اور اس کے بعد ”قومی آواز“ جیسے اخبار سے وہ منسلک ہوگئے۔ یہ اس وقت معیاری اردو صحافت کا ایک سنگِ نشاں تھا۔ اس اخبار کی وجہ سے ان کے صحافتی جوہر اور بھی کھلتے گئے۔ اس اثنا میں شاہد صدیقی کے اخبار ہفت روزہ ”نئی دنیا“ سے میں وابستہ ہوا تو پتہ چلا کہ سہیل انجم بھی اس اخبار میں کام کرچکے ہیں۔ ”نئی دنیا“ کے بعد اخباری صحافت سے میرا رشتہ ٹوٹ سا گیا اور میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ فکشن نگار اور نظم کے معروف شاعر صلاح الدین پرویز کے آواں گارد سہ ماہی مجلہ ”استعارہ“ سے منسلک ہوا تو سیاسیات سے میری دنیا الگ ہوگئی اور میں ادبیات پر مرکوز ہوگیا تو سہیل انجم کے ادبی کمالات بھی میری نگاہ میں آنے لگے۔ پتہ چلا کہ سہیل انجم صرف صحافت نہیں بلکہ ادب کا بھی شستہ اور شائستہ ذوق رکھتے ہیں اور ایک ایسے علمی اور ادبی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں جہاں شعر و ادب کا بہت اچھا ماحول ہے۔ ان کے والد ڈاکٹر مولانا حامدالانصاری انجم نہ صرف ایک عالم دین بلکہ شاعر اور صحافی بھی تھے۔ ان کے بڑے بھائی حماد انجم (ایڈووکیٹ) عمدہ ادیب و شاعر اور چھوٹے بھائی شمس کمال انجم عربی ادبیات کے ماہر اور اچھے شاعر و ادیب ہیں۔ اتفا ق کی بات یہ ہے کہ ان کے دونوں بھائیوں سے بھی میرے گہرے مراسم رہے ہیں اور ان دونوں بھائیوں کی محبتوں میں ہمیشہ شامل رہا ہوں۔ وہی محبت مجھے سہیل انجم سے بھی ملی اور جب ڈاکٹر حنیف ترین (عر عر) سے رابطہ ہوا تو سہیل انجم سے قربت کی ایک ا ور صورت نکل آئی۔ حنیف ترین صاحب سہیل انجم سے بہت محبت کرتے تھے اور اکثر ان کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ سہیل انجم نے بھی آخری سانس تک ان کی محبت کا حق ادا کیا اور ان کے اوپر ”کتاب نما“ کا ایک خصوصی شمارہ مرتب کیا جس کی ادبی حلقوں میں خاطرخواہ پذیرائی ہوئی۔
سہیل انجم کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ متحرک اور فعال رہے۔ ان کا قلم کبھی رکا نہیں اور انھوں نے ہر اس موضوع پر لکھا جس کی قوم و ملت کو واقعی ضرورت تھی۔ وہ  چونکہ بنیادی طو رپر صحافی ہیں اس لیے صحافت کے موضوعات  پر ان کی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں اور بیشتر کتابیں صحافت کے باب میں حوالہ جاتی حیثیت کی حامل ہیں۔ صحافت میں انھوں نے کچھ نئے زاویے اور جہات کی جستجو کی۔ انھوں نے کچھ ایسے پہلوؤں پر بھی لکھا جس پر پہلے شاید کم یا نہیں کے برابر لکھا گیا ہے۔  ”میڈیا روپ اور بہروپ‘‘، ”میڈیا اردو اور جدید رجحانات“،”مغربی میڈیا اور اسلام“، ”احوال صحافت“، ”دہلی کے ممتاز صحافی“، ”اردو صحافت اور علما“،”دینی رسائل کی صحافتی خدمات“، ”موہن چراغی اور قومی آواز“، ”باتیں اخبار نویسوں کی“، ”جدید اردو صحافت کا معمار: قومی آواز“،”جی ڈی چندن کی نادر صحافتی تحریریں“،”مولانا محمد عثمان فارقلیط صحافی مناظر مفکر“، ”محفوظ الرحمن: اردو صحافت کا نشان امتیاز“،”مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب اداریے“ اردو صحافت اور صحافیوں سے حوالے سے بہت وقیع کتابیں ہیں۔ انھوں نے صحافت کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جسے تشنہ چھوڑا ہو۔
 میڈیا کے ما لہ وما علیہ پر ان کی نظر گہری ہے۔ انھوں نے دور حاضر کے اہم مسائل میڈیا مدارس اور دہشت گردی کے حوالے سے چشم کشا تحریریں لکھی ہیں اور اس منفی زرد صحافت کی مثالیں پیش کی ہیں جس کی وجہ سے سچائی کا قتل ہوا ہے یا جس نے معصوم بستیوں کو مقتل میں تبدیل کر دیا۔ اس تعلق سے ان کی کتاب میڈیا روپ اور بہروپ ایک ایسی کتاب ہے جس میں جہاں انھوں نے میڈیا کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی بیخ کنی کی ہے،  وہیں صحافت کی سیکولر سوچ کو سلام بھی کیا ہے۔ دونوں طرح کی ذہنیت کا تجزیہ نہایت منطقی انداز میں کیا ہے۔ انھوں نے صحافت ]الیکٹرانک، پرنٹ[ کے ایجابی، سلبی پہلوؤں پر لکھتے ہوئے بعض ایسے حقائق کا انکشاف کیا ہے کہ آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں۔ انھوں نے کچھ صحافیو ں کی زعفرانی ذہنیت کو جہاں بے نقاب کیا ہے وہیں پربھاش جوشی، بی رمن، مینا کنڈ اسوامی،ارویندرپنڈیا، تیستا سیتل واڈ، راج دیب سردیسائی، پرفل بدوائی، راجندر شرما، ہرش مندر جیسے صاف ستھرے ذہن رکھنے والے دانشوروں کے بارے میں کلمات تحسین و ستائش لکھے ہیں جنھوں نے مسلمانوں کے دفاع میں اپنا سارا زور قلم صرف کیا اور حق گوئی کی سزا بھگتی۔ ان لوگوں نے جس بے خطری اور جرأت مندی کے ساتھ اقلیتوں پر مظالم اوردہشت گردی کے الزامات کے بارے میں لکھا اس سے صحافت کاانسانی چہرہ سامنے آتا ہے۔ جبکہ مسلم مسائل پر ہندی، انگریزی پریس سے وابستہ مسلمان بھی اپنے چہرے کی چمک بر قرار رکھنے کے لیے مہر بلب رہتے ہیں یا پھر اتنی دھیمی آواز میں بولتے ہیں کہ کسی کو سنائی نہ دے۔ جانے ایسے موقعوں پر ان کے قلم کی قوت کہاں کھو جاتی ہے۔
سہیل انجم نے مدارس اور میڈیا پر نہایت معروضی انداز میں لکھا ہے اور سارے الزامات کا بطلان کیا ہے اور مسلم دانشوروں کے حوالوں کے بجائے غیر مسلم سیکو لر دانشوروں کے مضامین اور بیانات درج کیے ہیں۔  یہ حقیقت ہے کہ مدارس دہشت گردی کے مراکز نہیں ہیں۔ انہیں توکنز، قدوری، فصول اکبری سے ہی  فرصت نہیں ملتی۔ انہیں دہشت گردی کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی کہاں میسر ہے۔ مدارس سے غوری و غزنوی نہیں بلکہ فقیر غیور پیداہوتے ہیں۔
سہیل انجم نے اسلامی دہشت گردی کے حوالے سے بھی بہت سارے حقائق کو طشت ازبام کیا ہے اور زعفرانی ذہن رکھنے والے اعصابی نفسیاتی اختلال کے شکار صحافیوں کی خوب خبر لی ہے۔خاص طور پر انگریزی اور ہندی ذرائع ابلاغ سے وابستہ ان صحافیوں کی خبر لی ہے جو بغیر سوچے سمجھے مسلمانوں کی ”خلافت“ کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا روپ بہروپ کے علاوہ انھوں نے میڈیا کے اور بھی موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ نیوکلیا ئی بم سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کہ زرد صحافت کے تنگ ذہن سے ہوا ہے۔انھوں نے غیر مشروط ذہن کے ساتھ میڈیا کے مسائل پر لکھا ہے اس لیے ان کی تحریریں وقعت اور اعتبار کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
سہیل انجم کا معاصر اردو صحافت کی زبونی اور زوال کا  شدت سے احساس رہا ہے۔ غیرتربیت یافتہ صحافیوں کی وجہ سے جو المیے اردو صحافت سے جڑتے جارہے ہیں اس کا انھیں ادراک بھی ہے۔ انھیں یہ پتہ ہے کہ آج کی صحافتی زبان مجروح اور مسخ ہوتی جارہی ہے۔ اس کا شکوہ شفیع مشہدی جیسے معتبر افسانہ نگا ر کو بھی ہے کہ ”زبان و بیان کی اس قدر غلطیاں ہوتی ہیں کہ طبیعت الجھ جاتی ہے۔“ (بحوالہ سید احمد قادری: اردو صحافت بہار میں) اور زبان و بیان کی انہی غلطیوں کی وجہ سے اردو اخبارات کا معیار اتنا ابتر ہوتا گیا کہ اردو تنقید کے شمس بازغہ شمس الرحمن الرحمن فاروقی کو یہ بیان دینا پڑا کہ ”اردو اخبارات کا معیار اتنا ابتر ہوگیا ہے کہ انھیں دیکھ کر متلی آتی ہے۔ میں نہ خود اردو اخبار پڑھتا ہوں نہ کسی کو پڑھنے کی رائے دیتا ہوں۔“ اس بیان سے مکمل اتفاق نہ سہی مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کی اردو صحافت جہاں Crisis of vision  کا شکار ہے وہیں زبان و بیان کی سطح پر غلطیاں اس طرح عام ہوگئی ہیں کہ پہلے جو لوگ زبان سیکھنے کے لیے اردو اخبارات پڑھنے کی صلاح دیتے تھے اب وہی لوگ زبان اور ذہن کو بگاڑ سے بچانے کے لیے اخبار نہ پڑھنے کا مشورہ دینے لگے ہیں۔ سہیل انجم کو اردو صحافت کی لسانی صورت حال کا بخوبی اندازہ ہے۔ انھوں نے بھی اپنے ایک مضمون ”ہمعصر اردو صحافت کا جائزہ: زبان و بیان کے حوالے سے“ میں یہ لکھا ہے کہ:
”بعض اوقات اخباروں کی زبان دیکھ کر بہت کوفت ہوتی ہے۔ ہندی کے اخبار یا نیوز چینل غلط اردو استعمال کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اردو کے صحافی جب غلط زبان لکھتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے— آج کل بعض اخباروں میں رحم مادر کو مادر رحم لکھا جاتا ہے— ایک روزنامے میں صفحہ اول پر کسی اہم شخصیت کے انتقال کی خبر شائع ہوئی۔ خبر میں لکھا گیا کہ ”انھیں مختلف بیماریو ں کے امراض کے تحت اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، یہ تو بالکل ایسا ہی جیسے لب دریا کے کنارے کا ساحل۔ اضافت لگانے کا سلسلہ اگر یونہی دراز ہوتا گیا تو شب برات کی رات اور آب زمزم کا پانی جیسی اضافتیں بھی شرم سے پانی پانی ہوجائیں گی۔“
سہیل انجم نے اردو صحافت میں ہونے والی زبان و بیان کی غلطیوں کے حوالے سے جو مضامین تحریر کیے ہیں ان سے واقعی یہ احساس ہوتا ہے کہ صحافت کے لیے زبان و بیان پر عبور اور ادبی لسانی شعور کتنا ناگزیر ہے۔ پرانے زمانے میں بیشتر صحافی ادیب و شاعر ہوا کرتے تھے، اس لیے ان اخبارات کی زبان نہایت معیاری ہوا کرتی تھی۔ مگر جب سے ادب ناآشنا نسل کا صحافت میں تداخل ہوا ہے تب سے اردو کی صحافتی زبان بگڑتی ہی جارہی ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ سہیل انجم کو مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار بہت خوبصورت سادہ اور سلیس زبان میں کرتے ہیں۔ انھوں نے آج کے اس عہد زوال میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ کی اس روایت کو زندہ رکھا ہے اور ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس انحطاط پذیر دور میں صحافتی اخلاقیات اور اقدار کا بھی پاس رکھا ہے۔ جب کہ آج کل صحافت مشن نہیں مادّیت کی مشین بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو صحافت سے بھی لوگوں کا اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔
صحافت کے خارزار میں سہیل انجم کے پاؤں ضرور لہولہان ہوئے ہیں مگر اسی صحافت کی آبلہ پائی نے انھیں سرخروئی بھی عطا کی ہے۔ اس لیے عصری صحافت کے منظرنامے پر سہیل انجم کا نام اعتبار ووقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر ان کا دائرہ کار صرف صحافت تک محدود نہیں رہا بلکہ ادب و صحافت کے انسلاکات اور تلازمات پربھی ان کی گہری نظر رہی۔ وہ ادبی مضامین اور شخصی خاکے بھی لکھتے رہے ہیں اور کتابوں پر تبصرے بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے خاکوں کے دو مجموعے ”نقش برآب“ اور ”نقش برسنگ“ کو بہت مقبولیت ملی۔ انھوں نے ”پھر سوئے حرم چل“ کے عنوان سے ایک سفرنامہ بھی لکھا۔ ایک اور سفرنامہ ”بازدیدحرم“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ”زیارت حرمین شریفین“ کے نام سے بھی ان کے سفرنامے کی اشاعت ہوئی۔ سہیل انجم صرف صحافتی حلقے میں نہیں بلکہ ادبی حلقے میں بھی اپنی شناخت کا نقش قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی صحافتی تحریروں میں ادبی چاشنی ملتی ہے تو تبصروں میں ارتکاز فکر اور امعان نظر کا عکس نظر آتا ہے۔
ادبیات کے ذیل میں ”بازیافت“، ”عکس مطالعہ“، ”مطالعات“، ”حنیف ترین: فن اور شخصیت“ کا ذکرکیا جاسکتا ہے۔ صحافت میں جس طرح انھوں نے لسانی لطافت اور فصاحت کا خیال رکھا ہے اسی طرح ادب میں بھی انھوں نے اپنے گہرے انتقادی شعور کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ انھوں نے کتابو ں پر جو تبصرے لکھے وہ ان کی مطالعاتی وسعت کا ثبوت ہیں۔ اس تعلق سے ان کی ایک کتاب ”مطالعات“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس سے ان کے ذہنی توسع اور مختلف علوم و فنون اور لسانیات سے آگہی اور استحضار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔  ان کے پاس قوت ممیزہ ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے رطب و یابس میں تفریق کی صورت پیدا کی ہے اور وہ ”آتم درشٹی‘‘ ہے جس سے فن پارے کو اس کی کلیت کے آئینے میں پرکھا ہے۔ مقتدر رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے تبصروں  کے مطالعے سے ان کی علمیت کے علاوہ لسانی تنقیدی شعور کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان کے تبصروں میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بڑے ناموں سے متاثر تو نظر آتے ہیں‘ مرعوب نہیں ہوتے۔ اپنے مدرکات کے اظہار میں کسی خوف و خطر کو راہ نہیں دیتے۔ یہ طرز عمل یا سلیقہ انہیں صحافت نے سکھایا ہے جو ان کی بنیادی شناخت ہے۔
سہیل انجم نے مختلف موضوعات پر مبنی کتابوں پر تبصرے کیے ہیں۔ ان کا ذوق انتخاب عمدہ ہے کہ انہوں نے اہم اور مفید مطلب کتابوں پر ہی اپنی قرات کو مرکوز رکھا۔ ان کے تبصرے مختصر ہوتے ہیں اس لیے کہ تصنع آمیز مصروفیت کے عہد میں بھی وقت نکالنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
سہیل انجم نے تبصروں میں ذاتی تعصبات اور ترجیحات سے گریز کیا ہے اور کتابوں کے بین السطور سے جو علمی اور جمالیاتی صفات ان کے دائرہ ادراک یا جدید ترین تکنیکی اصطلاح میں کہیں تو cognitive radar میں آئے‘ انہیں بعینہ قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ تبصرہ کا پورا سلسلہ عمل اسی راڈار سے جڑا ہوا ہے اور یہی تکنیکی اصطلاح تبصرے کی پوری ماہیت اور معنویت کو مترشح کرتی ہے کہ تبصرہ بھی دراصل تخلیق کی لہروں اور ارتعاشات کو گرفت میں لینے کا عمل ہے۔ یہ ایک طرح سے detection systemہے جس میں اشیا کے بجائے تخلیق کی سمت و رفتار، وسعت و معنویت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
 مصنف کے منشا، مرکزی خیال، خصوصی نکات اور مواد کی معنویت سے مکمل طور پر آگاہ کرنے کی کوشش میں وہ کامیاب ہیں۔ یہ تبصرے ایسے ہیں جو مطالعہ کتب  کے لیے مہمیز کرتے ہیں۔  
آخر میں بلا لیت و لعل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سہیل انجم کی صحافت اس عہدِ زریں کی یاد تازہ کردیتی ہے جب ادب اور صحافت کا نہایت گہرا رشتہ تھا اور سلسلہ صحافت سے جڑے ہوئے بیشتر افراد شعر و ادب کا اعلیٰ اور معیاری ذوق رکھتے تھے۔
 ٭٭٭
Cell.: 9891726444
ReplyForward

Mirza Muhammad Nawab

unread,
May 21, 2024, 7:25:45 AMMay 21
to bazme...@googlegroups.com
Suljhi huee umda tahree hai. 
Mirza

From: bazme...@googlegroups.com <bazme...@googlegroups.com> on behalf of Suhail Anjum <sanju...@gmail.com>
Sent: Tuesday, May 21, 2024 1:27 PM
To: bazme qalam <bazme...@googlegroups.com>
Subject: [بزم قلم:62679] سہیل انجم کا صحافتی اور ادبی منطقہ
 
--
عالمی انعامی مقابلہ غزل کی تفصیل درجہ ذیل لنک میں
 
 
https://mail.google.com/mail/u/4/#sent/QgrcJHsNjCMDktBfcrqXBctvVwqJPbdTpql
 
 
 
 
www.bhatkallys.com
-------------------------------------------------
To post in this group send email to bazme...@googlegroups.com
To can read all the material in this group https://groups.google.com/forum/#!forum/bazmeqalam
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to BAZMeQALAM+...@googlegroups.com.
To view this discussion on the web visit https://groups.google.com/d/msgid/BAZMeQALAM/CAJOpirvFp1cgqc_RFfZSDYa3pGhZO-_NTdgUWUd8ePWqm7zyPg%40mail.gmail.com.
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages