وندے ماترم پر پارلیمانی بحث کا تجزیہ
ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
وندے ماترم کے 150 سال پورے ہونے پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اس موضوع پر مورخہ نو اور 10 دسمبر 2025 کو دس دس گھنٹے بحث کی گئی ۔یہ بحث کسی پارلیمانی ضابطےکے تحت نہیں کی گئی، ناہی یہ کوئی بل تھا جسے پاس کر کے کوئی قانون بنایا جاتا، نا ہی یہ قومی گیت کی حیثیت میں کسی تبدیلی کے لیے لایا گیاکوئی ترمیمی بل تھا، بلکہ بنا ووٹنگ ہونے والی بحث برائے بحث تھی ،جسے ایک سپیشل سیشن کے نام سےمنعقد کیا گیا۔ واضح رہے کہ قومی ترانہ کی حرمت کا قانون نمبر 69 جو 23 دسمبر 1971 کو لاگو ہوا تھا ،جس کے تحت قومی ترانہ گایا جانے کے وقت سب حاضرین کو مودبانہ انداز میں کھڑے ہونا لازمی ہے۔ ترجیحی طور پر اسے تمام حاضرین کو دہرانا بھی چاہیے۔ لیکن نہ گانا بے حرمتی کے زمرے میں نہیں آتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی ترانے جن گن من اور قومی ترنگے جھنڈے کے تقدس کے لئے بنائے گئے اس قانون میں قومی گیت بندے ماترم کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔لیکن غیر رسمی طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ یہی قانون و ندے ماترم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تقریبا 20 گھنٹے کی بحث جس میں ٹیکس دہندگان کےتقریبا 300 کروڑ روپے خرچ ہوئے اس کا مقصد کیا تھا ۔غالبا اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ چونکہ قومی گیت اور قومی ترانے کے حوالے سے ملک کے کسی بھی پارلیمانی ادارے میں کبھی کوئی بحث نہیں ہوئی تو ایک پارلیمانی بحث کے ذریعے ایک تاریخی دستاویز تیار کی جا سکے ۔بندے ماترم کے سلسلے میں ایک متنازع بحث 1896 سے 1937 کے درمیان عوامی سطح پر ہوتی رہی جس کے نتیجے میں کانگریس پارٹی نے 1937 کے اپنے اجلاس میں یہ طے کر لیا تھا کہ اس کے ابتدائی دو بند ہی کانگریس کے اجلاس میں پڑھے جائیں گے ،باقی چار بند حذف کر دیے جائیں گے۔ گاندھی اور ٹیگور کا بھی یہی مشورہ تھا ۔مگر یہ محض ایک سیاسی پارٹی کے اجلاس کی تجویز تھی ،کسی قانونی یا سرکاری ادارے کا حکم نہیں تھا۔ 1946 میں ملک کا دستور بنانے کے لیے منتخب ہوئی قانون ساز اسمبلی میں بھی اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی ،بلکہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد نے جنگ گن من کو قومی ترانا اور وندے ماترم کو قومی گیت قرار دے دیا ایوان نے اسے جوں کا تو ں قبول بھی کر لیا ۔ چنانچہ یہ پہلا موقع ہے کہ وند ےماترم کو لے کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس قدر طویل بحث ہوئی اور اسے پارلیمانی ریکارڈ میں محفوظ کر لیا گیا ۔ اب آئندہ جب کبھی اس معاملے پر کوئی بات ہوگی یا کسی دستاویز کی ضرورت ہوگی تو اسی پارلیمانی ریکارڈ کا حوالہ دیا جاتا رہے گا جیسا کہ بہت سے دستوری معاملات میں آج بھی دستور ساز اسمبلی کی بحث کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہونے والی بحث کے دوران حکمران جماعت اور حزب اختلاف کی جانب سے کی جانے والی تقریروں کو غور سے سنیں تو دونوں کے بیانات میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا ۔ خصوصا مسلم نمائندوں کا تقاریر بھی اپنی پارٹی لائن سے الگ دکھائی نہیں دیتیں۔ جہاں ایک طرف حکمران جماعت بی جے پی اپنی دیرینہ سخت گیر ہندوتوا پالیسی کے تحت اس ترانے کی تعریف اور تحریک آزادی میں اس کے نمایاں رول کا ذکر کرتے ہوئے اسے ’’نئے بھارت‘‘ کی تشکیل کا اولین طبل جنگ قرار دیتی رہی ، وہیں حزب اختلاف کی تقریبا تمام جماعتوں نے بھی اس گیت کی کوئی مخالفت نہیں کی، بلکہ ان کا اعتراض بس اتنا تھا کہ اس معاملے پر کسی بھی بحث کی ضرورت ہی کیا ہے۔ گویا ملک کا سیکولر خیمہ بھی یہ مانتا ہے کہ یہ گیت حب الوطنی کے اظہار کا بہترین طریقہ ہے ۔اگرچہ اس کے پڑھنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جانا چاہیے (قانونا اسے پڑھنا آج بھی لازمی نہیں ہے) موجودہ بحث بھی اسے لازمی قرار دینے کی کوئی کوشش نہیں تھی۔
اس بحث میں کل سات مسلم ممبران پارلیمنٹ نے حصہ لیا۔ ان میں سے ہر ایک کو اوسطا پانچ پانچ منٹ بولنے کا موقع ملا ۔ان میں لوک سبھا میں مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی، سماج وادی پارٹی کی اقراء حسن، مسلم لیگ کے ای ٹی محمد بشیر اور کشمیر نیشنل کانفرنس کے آغا روح اللہ شامل تھے تو راجیہ سبھا میں کانگریس کے ڈاکٹر سید ناصر حسین ،مسلم لیگ کے حارث بین اور نیشنل کانفرنس کے چودھری رمضان نے اظہار خیال کیا ۔جہاں ناصر حسین نے وندے ماترم کی مخالفت کی کوئی وجہ بیان نہیں کی بلکہ پارٹی لائن کے مطابق اسے بے وقت کی بحث کہہ کر ہی ہدف تنقید بناتے ہوئے تحریک آزادی میں اس کی اہمیت کا اعتراف کیا۔ وہیں مسلم لیگ کے بھی دونوں ارکان کانگریس کی لائن ہی اختیار کرتے ہوئے دکھائی دیئے اور گیت کے خلاف عقیدہ ہونے کے سلسلے میں کوئی دلیل پیش نہیں ،کی جبکہ آزادی سے قبل والی مسلم لیگ نے ہی اصل میں اس کی مخالفت کا آغاز عقیدے کی بنیاد پر کیا تھا۔ اسی طرح سماجوادی پارٹی کی رکن اقرا حسن تو گیت کے ابتدائی الفاظ پڑھتے ہوئے اس کی تعریف بھی کرتی رہیں اور حکومت کو متنبہ بھی کرتی رہی کہ گیت کے ابتدائی الفاظ جو انتہائی خوبصورت ہیں حکومت ان کی تائید تو کرتی ہے لیکن عمل نہیں کرتی۔ انہوں نے بھی گیت پر اپنے عقیدے کا اظہار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔تقریبا یہی حال نیشنل کانفرنس کے راجیہ سبھا رکن چودھری رمضان کا بھی تھا ۔اس سلسلے میں مسلم امت کے جذبات کی قرار واقعی ترجمانی سب سے موثر طریقے سے نیشنل کانفرنس کےسری نگر سے منتخب رکن آغا روح اللہ نے کی ، ساتھ ہی مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے بھی مسلمانوں کے موقف کی بالکل صحیح ترجمانی کی ۔ اگر یہ دونوں ارکان پارلیمنٹ میں اپنا موقف کا برملااظہار نہ کرتے تو یقینی طور پر آٓئندہ آنے والے دنوں میں دستاویزی طور پر یہ طے ہو جاتا کہ ملک کے مسلمانوں کو اس گیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔کیونکہ دونوں ایوانوں کے 35 کے قریب مسلم ارکان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی اعتراض درج ہی نہیں کرایا گیا۔ آغا روح اللہ جو قم سے فارغ ایک سند یافتہ شیعہ عالم دین ہیں نے واشگاف لفظوں میں لوک سبھا میں اعلان کیا کہ بندے ماترم کہنا اسلام کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے ،ہم وطن کو خدا مان کر اس کی عبادت نہیں کر سکتے اور کوئی ہم پر ہمارے عقیدے کے خلاف کچھ تھوپ نہیں سکتا ۔اگر یہ کوشش بھی کی گئی تو ہم اس کے مخالفت کریں گے چاہے اس کے لیے ہمیں ایک ہزار سال تک لڑنا پڑے ۔اسی طرح مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بھی بہت واضح لفظوں میں کلمہ پڑھتے ہوئے قرانی آیات کے ذریعے اور ملک کے دستور اور تاریخ کے حوالے سے ثابت کیا کہ ایک مذہبی نظم کو حب الوطنی کا معیار قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ساتھ ہی انہوں نے آنند مٹھ ناول کے مسلم اور اسلام مخالف فقروں کے بھی حوالے دیئے۔ ان دونوں ارکان کی تقاریر بھی ریکارڈ پر آگئی ہیں۔ بہتر ہوتا کہ دیگر مسلم ارکان پر بھی پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر اس سلسلے میں اپنے مذہبی عقیدے کا اسی طرح برملا اظہار کرتے اور اپنے احتجاج کو بھی ریکارڈ پر لاتے، اس سے ملک میں مسلم طبقے کی موثر ترجمانی بھی ہو جاتی اور دلیل بھی زیادہ واضح ہوتی ۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے مسلم ارکان بھی پارٹی لائن اور قائدین کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کے اصل جذبات کے نمائندگی شاذ و نادری کر پاتے ہیں ،جبکہ مسلمانوں کے بیچ ا ٓکر وہ اپنی پارٹی کی وکالت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔
اس ضمن میں راجیہ سبھاکے رکن کپل سبل کی تقریر پربھی غور کرنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا میں ان کی تقریر کی بہت تعریف کی گئی ہے ۔جبکہ سچ یہ ہے کہ اپنی پوری تقریر انہوں نے بنکم چند چٹرجی کی حمایت میں صرف کر دی نیز ان کےناول آنند مٹھ کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔ گویا بین السطور میں وہ بھی اعتراف کرتے رہے کہ اس ناول میں مسلمانوں پر لگائے گئے چٹرجی کے الزامات درست ہیں۔ ملک میں یہ عام وطیرہ بن گیا ہے کہ سیکولرزم کے نام پر لکھنے ،بولنے والوں کا ہر جرم معاف کر دیا جاتا ہے ۔چاہے وہ اسلام اور مسلمانوں کی کتنی بھی مخالفت کیوں کریں۔ حیرت ہے کہ پارلیمنٹ میں حکمران جماعت کی جانب سے تو آنند مٹھ کو بار بار مثبت انداز میں پیش کیا گیا لیکن سیکولر حزب اختلاف کے کسی رکن میں یہ جرات نہ ہو سکی کہ پوچھتا کہ کیا آنند مٹھ کے مشمولات کی بی جے پی تائید کرتی ہے؟ کیونکہ وند ےماترم کو اسکے تناظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ۔بہرحال پارلیمنٹ میں وند ماترم کی بحث کا اصل ہدف کسی ایک پارلیمانی دستاویز کی تیاری ہے، جو مستقبل میں اس گیت کو کوئی دستوری درجہ دلوانے یا اسے لازمی کرنے کی سعی کے لئے ایک موثر دلیل بن سکے ،اور اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکے کہ مسلم سیاست دانوں اور دانشوروں میں اس کی مخالفت کرنے کا اب کتنا جذبہ باقی رہ گیا ہے۔
A very objective review of the parliamentary debate on Banday Mataram.On Twitter I have reiterated 1000 times that this idolatrous song is repugnant to monotheism. Therefore, Muslims should be exempted from singing it. Muslims are not against its singing by the majority. Similarly, majority ought not to impose it on the unwilling minority.m. mahmood
+91-9068054127
----
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "NRIndians Group" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to nrindians+...@googlegroups.com.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "NRIndians Group" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to nrindians+...@googlegroups.com.