کیا کہیں حالِ دردِ پنہانی

5 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Jul 3, 2024, 8:17:33 AMJul 3
to bazme qalam
کیا کہیں حالِ دردِ پنہانی
پسِ آئینہ: سہیل انجم
جب بھی ہمارا کوئی کالم اپوزیشن جماعتوں اور بالخصوص کانگریس کی مثبت پالیسیوں کی ستائش میں شائع ہوتا ہے یا کسی مضمون میں راہل، سونیا اور پرینکا گاندھی کی حمایت کی جاتی ہے تو قارئین کا ایک طبقہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ان رہنماؤں سے یہ بھی پوچھا جائے کہ مسلمان ان کے ساتھ ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ مسلمانوں کے مسائل پر کیوں خاموش رہتے ہیں۔ جب روزنامہ انقلاب میں گزشتہ ہفتے پرینکا گاندھی کی سیاست و شخصیت پر کالم شائع ہوا تو اس پر بھی متعدد قارئین نے اظہار خیال کیا اور وہی سوال دوہرایا جو پہلے کیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ ان رہنماؤں کی مدح سرائی کرتے وقت اس بات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ انھیں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مسائل سے کتنی دلچسپی ہے۔ یہ سوالات بجا ہیں اور یہ ہمارے دل کی بھی آواز ہے۔ بلکہ یہ درد ہر اقلیتی فرد کاد ردِ مشترک ہے کہ ہم لوگ سیکولر جماعتوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہمارے مسائل کو اٹھانے اور ان پر حکومت سے سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم اپنے کئی کالموں میں یہ سوال اٹھا چکے ہیں۔ لیکن کیا ہم اردو والوں کی باتیں ان بلند قامت سیاست دانوں کے کانوں تک پہنچتی بھی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ نہیں پہنچتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کئی قارئین نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ ہم نے پرینکا گاندھی پر جو کالم لکھا تھا اس کا ہندی یا انگریزی ترجمہ ان تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ بہرحال یہ مسئلہ الگ ہے کہ جن کو ہم سنانا چاہتے ہیں وہ سن پاتے ہیں یا نہیں، یا جنگل میں مور ناچنے والی مثال ہی صادق آتی ہے۔ تاہم یہ بات بالکل درست ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں ان سیکولر سیاست دانوں کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔ شاید اسی احساس کے تحت سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے دہلی میں ایک سمینار کیا اور اظہار رنج کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ مسلمانوں کی الگ پہنچان بنائی جائے گی، بلڈوزر چلے گا اور ہمارے بچے شہید اور گرفتار ہوں گے اور سیکولر جماعتیں دور سے دیکھتی رہیں گی۔ اس سمینار میں اس بات پر دکھ کا اظہار کیا گیا کہ سیکولر جماعتوں کو مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیے مگر وہ ان کے مسائل اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اگر آزاد ہند کی انتخابی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آئے گی کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں نے ہمیشہ سیکولر جماعتوں کی حمایت کی۔ انھوں نے کبھی بھی غیر سیکولر جماعتوں کا ساتھ نہیں دیا۔ یہاں تک کہ موجودہ سیاسی و سماجی ماحول میں بھی مسلمانوں نے انہی جماعتوں کو ووٹ دیا۔ اترپردیش میں تو صرف دو فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔ اس بات کا شکوہ بی جے پی رہنما اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ جب مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے تو وہ مسلم امیدوار کیوں اتاریں۔ انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اس بار مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہیں ہوا۔ انھوں نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے بی جے پی کی بہت سی سیٹیں انڈیا اتحاد کی جھولی میں آگئیں۔ حالانکہ اہم سیاسی جماعتوں نے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار کم مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے۔ 2019 میں 543 نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 115 مسلم امیدوار کھڑے کیے گئے جبکہ 2024 میں ان کی تعداد صرف 78 تھی۔ بہرحال ایسا نہیں ہے کہ سابقہ غیر بی جے پی حکومتوں نے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ مسلم مسائل کے سلسلے میں سنجیدہ رہی ہیں خواہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہی کیوں نہ رہی ہوں۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت میں مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی و معاشی صورت حال کا مطالعہ کرنے کے لیے سچر کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے مسلمانوں کی حقیقی صورت حال کو اجاگر کیا۔ اس کی رپورٹ کا حوالہ آج تک دیا جاتا ہے۔ ہاں کانگریسی حکومتوں نے کچھ ایسے فیصلے بھی کیے جو ہندوتو کی سیاست کے ابھار میں معاون ثابت ہوئے۔ بابری مسجد میں مورتیوں کے رکھنے، اس کو مقفل کیے جانے، پوجا کیے جانے اور اس کے انہدام کے واقعات اسی کے دور حکومت میں ہوئے۔ اندرا گاندھی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ہی نرم ہندوتو کی سیاست کا آغاز کیا۔ راجیو گاندھی نے اپنی ایک انتخابی مہم کا آغاز ایودھیا سے کیا تھا۔ بہرحال یہ تفصیل کافی طویل ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں مسلمانوں کے مسائل اٹھانے سے کیوں ڈرتی ہیں۔ حالانکہ ابھی حال ہی میں سینئر کانگریس رہنما سونیا گاندھی نے اپنے ایک مضمون میں عید الاضحی کے بعد مختلف مقامات پر مسلمانوں کی ماب لنچنگ کے واقعات پر اظہار تشویش کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور ان جیسے دیگر رہنما پارلیمنٹ میں کیوں نہیں آواز اٹھاتے۔ جب راہل گاندھی نے پیر کو پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے پہلی تقریر کی جس سے حکومت ہل گئی تو اس میں بھی انھوں نے مسلمانوں کی لنچنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ جب وہ بی جے پی کی مبینہ نفرت انگیزی کا ذکر کر رہے تھے تو انھوں نے ایک بار لفظ اقلیت اور مسلمان ادا کیا۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لنچنگ کے معاملات کو اٹھائیں گے لیکن انھوں نے نہیں اٹھایا۔ اگر وہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کا ذکر کرتے اور ماب لنچنگ اور بیف کے نام پر مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کرنے کے معاملات اٹھاتے تو کیا ہو جاتا۔ آخر انھوں نے بی جے پی کو تشدد پسند اور نفرت پھیلانے والی جماعت کہا نا۔ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ان معاملات کو اٹھانا ان کی ذمہ داری تھی۔
دراصل اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بی جے پی نے ملک میں ایک ایسی سیاست کو فروغ دے دیا ہے جس میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا ایک سیاسی جرم بن گیا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کا کوئی لیڈر مسلمانوں کے حق میں بولتا ہے تو اسے مسلم پرست اور پاکستانی کہہ دیا جاتا ہے۔ انتخابات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگی منشور قرار دے دیا تھا۔ جب بھی مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھتی ہے تو پاکستان بھیجنے کا نعرہ بلند ہو جاتا ہے۔ شاید اسی خوف سے وہ نہیں بولتے کہ مسلمانوں کے مسائل اٹھائیں گے تو ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں وہ ہندوؤں کی حمایت سے محروم ہو جائیں گے، جس کا نقصان انتخابات میں ہوگا۔ گزشتہ دس برسوں میں اس کا بارہا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ لیکن اگر اپوزیشن جماعتیں اس خوف سے مسلمانوں کے مسائل اٹھانے سے گریز کرتی ہیں تو اسے کسی بھی حال میں مناسب اور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیا محض اس لیے ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کی جائے کہ ظالموں کا ٹولہ ہمیں معتوب کر دے گا۔ کیا اس وجہ سے مظلوموں کی داد رسی نہ کی جائے کہ ہم اٹھیں گے تو بہت سے لوگ ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں گے اور ہم تنہا رہ جائیں گے۔ اگر یہ سوچ ہے تو یہ قطعاً غلط ہے۔ کیا مسلمان یا اقلیتیں اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ کیا انھوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہیں کیا۔ کیا مسلمانوں کی قربانیاں دوسروں سے کم ہیں۔ کیا اس ملک کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا کوئی رول نہیں ہے۔ کیا مسلمان غدار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک ہندوستان کے خلاف جاسوسی کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان کا نام نہیں آیا ہے۔ ملک کے خفیہ راز ملک دشمن طاقتوں کو فراہم کرنے والے تمام کے تمام غیر مسلم ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ سیکولر جماعتیں اگر سب کچھ بھول جائیں تو انھیں کم از کم حالیہ انتخابات میں مسلمانوں کے رول کو تو نہیں بھولنا چاہیے۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانوں کے خلاف کیسے کیسے محاذ کھڑے نہیں کیے گئے اور ان پر کیا کیا الزامات نہیں لگائے گئے۔ لیکن وہ مشتعل نہیں ہوئے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ اگر ردعمل کی سیاست پر چلیں گے تو اس سے فسطائی قوتوں کا فائدہ اور سیکولر جماعتوں کا نقصان ہوگا۔ لہٰذا اب تو انھیں بولنا چاہیے۔ اب تو مسلمانوں کی آواز اٹھانی چاہیے۔ کیا مسلمانوں کو ابھی مزید امتحانوں سے گزرنا ہوگا؟
ReplyForward
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages