نور محمد خان ۔ ساکی ناکہ ۔ممبئی ۔ موبائل نمبر 9029516236
15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا اور 1950 میں آئین و قوانین نافذ ہونے کے بعد انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تاکہ عوام کی فلاح و بہبودی کے لئے اقدامات کیے جائیں اور اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ریاست بہار میں 1952 کے مارچ مہینے میں اسمبلی انتخابات عمل میں آیا تھا، 276 نشستوں کیلئے مختلف نظریات کے 16 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا جس میں ایک فرقہ پرست جماعت بھی شامل تھیں جس کے نظریات و افکار ملک و عوام کی سلامتی کے لئے مضر تھے لیکن آئیں نے انہیں بھی انتخابی عمل میں شامل ہونے کا حق دیا تھا اسی لحاظ سے نظریات و افکار کی سیاسی جنگوں نے اقتدار کے خلاف ووٹوں کو منتشر کرنے، حصول اقتدار اور مفادات کو ترجیح دی چناچہ حکومت ، سیاسی جماعتیں، عوام اور نظریات کا جائزہ لینے کے لیے ماضی تا حال کے انتخابی نتائج پر تجزیہ کرتے ہیں تاکہ موجودہ اسمبلی انتخابات میں لائحہ عمل مرتب کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکے ۔
اول ذکر یہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیکولر سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس تھی جس کا ذکر تحریک آزادی سے لیکر تادم تحریر تک روشن دلیل کی طرح عیاں ہے 1952 کے پہلے بہار اسمبلی انتخابات میں قومی سطح پر 11 ، ریاستی سطح پر 4 اور ایک غیر تسلیم شدہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں جن میں قومی پارٹیاں: انڈین نیشنل کانگریس، بھارتیہ جن سنگھ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ،فارورڈ بلاک (مارکسسٹ گروپ)، فارورڈ بلاک (روئیکر)،آکھیل بھارتیہ ہندو مہاسبھا،کسان مزدور پرجا پارٹی، اکھل بھارتیہ رام راجیہ پریشد ،ریوو لیوشنری سوشلسٹ پارٹی،شیڈول کاسٹ فیڈریشن، سوشلسٹ پارٹی۔
ریاستی سطح کی پارٹیاں: چھوٹا ناگپور سنتھال پرگنہ جنتا پارٹی، جھارکھنڈ پارٹی ،لوک سیوک سنگھ ، آل انڈیا یونائیٹڈ کسان سبھا۔ غیر تسلیم شدہ پارٹیاں: آل انڈیا گن تنتر پریشد نے بہار اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
آزادی کے بعد ملک کی تاریخ میں 30 جنوری 1948 کو ایک واقعہ پیش جب ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا اور یہ قتل سیکولرازم کے لئے چیلنج بن گیا! بلکہ
سیکولر ہندوستان میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی جن سنگھ نامی فاسسٹ تنظیم نے سیاست میں قدم رکھا، کٹّر ہندوتوا کو تقویت پہنچانے اور اقلیتوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ دیکھا جائے تو مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کی گئی تھی بلکہ ایمرجنسی اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی پابندی لگائی گئی تھی لیکن حکومت نے پابندی ہٹا دی تھی۔
چنانچہ 1952 میں بہار اسمبلی انتخابات کا دور شروع ہوا اور کانگریس نے 239 سیٹیں حاصل کی وہیں سوسلیشٹ پارٹی نے 23 ، جھار کھنڈ پارٹی 32 سیٹوں پر کامیابی کا پرچم لہرا دیا۔1957 میں کانگریس کو 210 سیٹیں حاصل ہوئی اور 19 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ پرجا سوسلیشٹ پارٹی 31 ، جھارکھنڈ پارٹی 31 ، چھوٹا ناگپور جنتا پارٹی نے 23 اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے 7 سیٹیں حاصل کی۔ اسی طرح 1962 میں کانگریس نے 185 سیٹیں حاصل کی اور 25 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا، وہیں سوتنتر پارٹی نے 50 سیٹیں جیت کر دیگر پارٹیوں کا نقصان کیا پرجا سوسلیشٹ پارٹی کی سیٹ بھی گھٹ کر 29 ہوگئی جبکہ جن سنگھ نے 3 سیٹیں جیت کر ہندوتوا کا پرچم لہرا دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس میں ایسی کون سی خامیاں پیدا ہو گئی تھی کہ کانگریس کو 1952 کے مقابلے میں اب تک کے انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑا ؟جبکہ 1967 کے انتخابات میں کانگریس کو 57 سیٹوں کا نقصان اٹھاتے ہوئے 128 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اور سمیوکت سوسلیشٹ پارٹی نے 68 سیٹیں حاصل کی اور بھارتیہ جن سنگھ نے 26 سیٹیں جیتیں۔
1972 میں انڈین نیشنل کانگریس دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی اور انڈین نیشنل کانگریس(او) نے 33 اور انڈین نیشنل کانگریس نے 167 سیٹیں حاصل کی وہیں جن سنگھ نے 25 پر کامیابی حاصل کی ،1977 میں ایک نيا انقلاب آیا اور جنتا پارٹی نے 214 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور کانگریس صرف 57 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی ۔1980 کے انتخابات میں جنتا پارٹی تبدیل ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی بن گئی اور اسے جن سنگھ کے مقابلے میں بی جے پی کے نام پر صرف 21 سیٹیں حاصل ہوئی اور کانگریس دوبارہ 169 پر کامیابی حاصل کی ۔
کانگریس کی بات کریں تو 1985 میں کانگریس کو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں 196 سیٹیں حاصل ہوئی ،جنتا دل لالو پرساد یادو کو 46، اور بی جے پی کو 16 سیٹیں حاصل ہوئی۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کو بہت زیادہ سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا کیوں کہ سیاست میں تبدیلی کے امکانات ظاہر ہونے لگے تھے نتیجتاً 1990 میں جنتا دل کو 122 ،کانگریس 71، بی جے پی 39 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی ۔1995 میں جنتا دل کو 167 ،بی جے پی کو 41 اور کانگریس کو 29 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ۔ 2000میں راشٹریہ جنتا دل 124، بی جے پی 67، کانگریس 23، سمتا پارٹی 34 اور جنتا دل یونائیٹیڈ 21 سیٹیں حاصل کر سکیں ۔2005 میں راشٹریہ جنتا دل 75، بی جے پی 37 ، جنتا دل یونائیٹیڈ 55 ، لوک جن شکتی پارٹی 29، کانگریس کو صرف 10 سیٹیں میسر ہوئی ۔2010 میں جنتا دل یونائیٹیڈ 115، بی جے پی 91،راشٹریہ جنتا دل 22، کانگریس 4 اور لوک جن شکتی پارٹی کو 3 سیٹیں ملی ۔2015 کے انتخابات میں مہا گٹھ بندھن نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے راشٹریہ جنتا دل 80 کانگریس 27جنتا دل یونائیٹیڈ 71جبکہ این ڈی اے میں بھارتیہ جنتا پارٹی 53 لوک جن شکتی پارٹی 2
راشٹریہ لوک سمتا پارٹی 2ہندوستانی عوامی مورچہ 1 سیٹ پرجیت حاصل کی بائیں بازو کی جماعتوں نے مایوس کیا۔ 2020 کے انتخابات میں راشٹریہ جنتا دل 75 ،کانگریس 19 ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم ایل)12،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسیسٹ 4،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا 6 اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے 5 سیٹیں حاصل کی ۔جبکہ این ڈی اے میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 74،جنتا دل یونائیٹیڈ 43، ہندوستانی عوامی مورچہ 4 اور وکاس شیل انسان پارٹی نے 4 سیٹیں حاصل کیں۔
مذکورہ نتائج پر اگر غور کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ ملک کی آئین و قوانین نے جہاں تمام لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا ہے وہیں موجودہ حکومت و سیاسی جماعتوں کی عوام مخالف پالیسیاں و نظریات بھی اہم وجہ رہی ہیں جس کی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتوں کا وجود عمل میں آیا (جاری)
ہندوستان کی حصول آزادی کے لئے 1857 میں تحریک آزادی کے مجاہدوں نے قربانیاں دے کر انگریزوں کے خلاف تحریک شروع کی وہیں 1885 میں ایک انگریز افسر اے او ہیوم نے کانگریس کی بنیاد رکھی تاکہ تحریک کو مساوات اور سیاسی نظریات سے حاصل کیا جائے