قرآن مخالفین ہمیشہ منہ کی کھاتے رہے ہیں

14 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Jan 28, 2023, 11:41:26 PM1/28/23
to bazme qalam
قرآن مخالفین ہمیشہ منہ کی کھاتے رہے ہیں
سہیل انجم
ایک بار پھر تاریخ کو دوہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یعنی مسلمانوں کے مقدس آسمانی صحیفے قرآن مجید کے خلاف لوگوں کو ورغلایا جا رہا ہے۔ تازہ واقعہ یوروپی ملک سویڈن کے دار الحکومت اسٹاک ہوم میں قرآن سوزی کا ہے۔ اس اشتعال انگیز اقدام کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ اسلامی تنظیمیں بھی احتجاج کر رہی ہیں اور انسانی حقوق کے ادارے بھی۔ دراصل سویڈن 28 یوروپی اور دو نارتھ امریکی ملکوں کے ایک فوجی اتحاد ناٹو میں شمولیت چاہتا ہے۔ لیکن ناٹو کا ایک رکن ملک ترکی اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ ناٹو کا رکن ہونے کے ناطے ترکی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اس اتحاد میں شامل ہونے کو ویٹو کر دے۔ روس یوکرین جنگ کے بعد سویڈن اور فن لینڈ نے ناٹو میں مشولیت کی درخواست دی تھی۔ لیکن جب ترکی نے مخالفت کی تو سویڈن کی دائیں بازو کی اسٹرام کرس پارٹی تلملا اٹھی اور اس نے اسٹاک ہوم میں ترکی کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ ترک سفارت خانے کے باہر احتجاج کے دوران ایک گھناونی سازش کے تحت مذکورہ پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے قرآن کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا۔ پالوڈان نے گزشتہ سال بھی ریلی نکالی تھی جس میں اس نے قرآن جلانے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ اس سے قبل بھی قرآن مجید کے خلاف ماحول سازی کی کوششیں کی گئیں اور کہیں اس کی بے حرمتی کی گئی تو کہیں اسے جلانے کی ناپاک حرکت ہوئی۔ اس سے قبل نیدر لینڈ کے اسلام دشمن ممبر پارلیمنٹ گیرٹ وائلڈرس نے فتنہ کے نام سے قرآن مخالف فلم بنائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن دشمنی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا قدیم خود قرآن کریم ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی قرآن کی مخالفت کی جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ شاعری ہے، جادو ہے۔ قرآن دشمنی میں پیش پیش رہنے والے اپنے لوگوں کو قرآن سننے سے بھی منع کرتے تھے۔ لیکن جب ان کو چیلنج کیا گیا کہ اگر یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو وہ اس کی طرح کی ایک آیت بنا کر دکھا دیں۔ بالآخر وہ ایک بھی آیت تخلیق نہیں کر سکے اور قرآن مخالفوں کو بھی کہنا پڑا کہ واقعی یہ کسی بشر کا کلام نہیں۔
ان قرآن دشمنوں کی نسلیں آج بھی موجود ہیں۔ گیرٹ وائلڈرس اور راسموس پالوڈان قرآن مخالف سازشیوں کے آلہ ¿ کار ہیں۔ خود ہندوستان میں بھی قرآن دشمنوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ فاشسٹ تنظیموں میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو قرآن پر قتل و خون کی تعلیم دینے والی کتاب ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ایک نام نہاد مسلمان نے جو کہ اب مرتد ہو چکا ہے، قرآن کی متعدد آیات کو حذف کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی اور منہ کی کھائی تھی۔ گیرٹ وائلڈرس کی مانند آر ایس ایس کے ایلچیوں اور نمائندوں نے بھی متعدد آیات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک فہرست بنا رکھی ہے اور جب بھی دل کرتا ہے وہ فہرست میڈیا کے سامنے پیش کرکے یہ پروپیگنڈہ کرنے لگتے ہیں کہ قرآن جنگ و جدال اور قتل عام کا درس دیتا ہے۔ وہ کافروں کو تہہ تیغ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ دراصل ایک سازش کے تحت قرآنی آیات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ قرآن کی تعلیمات سے بیگانہ افراد کو گمراہ کر سکیں۔ اس گمراہ کن پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر کلکتہ کے ایک قرآن دشمن شخص چاند مل چوپڑہ نے بھی قرآن مقدس پر ایسے ہی الزامات عائد کئے تھے اور اس پر پاپندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اس مثل کے مصداق کہ چاند پر تھوکنے والے کا خود اپنا ہی چہرہ گندا ہو جاتا ہے، چاند مل چوپڑہ سمیت تمام قرآن دشمنوں کی صورتیں مسخ ہوگئیں اور ان کا انجام بہت ہی بھیانک ہوا۔ کفار قریش سے لے کر چاند مل چوپڑہ، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، راسموس پالوڈان اور گیرٹ وائلڈرس تک ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کو قرآن دشمنی کی سزا بھگتنی پڑی ہے۔ گیرٹ وائلڈرس اگرچہ اسلام مخالفین کا ہیرو تھا لیکن فلم فتنہ بنانے کے بعد وہ ایک عالم کا معتوب ہوگیا۔
جب بھی اس قسم کی کوئی چیز سامنے آتی ہے تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جاتی ہے اور اسلام دشمن عناصر آزادی ¿ اظہار خیال کے نام پر اس کی حمایت کرتے ہیں۔ میڈیا بھی میدان میں کود پڑتا ہے اور مسلمانوں کی مخالفت میں اسلام دشمن عناصر کی تائید و حمایت کرنے لگتا ہے۔ وہ اسلام دشمنوں کے دفاع میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے لگتا ہے۔ جب ڈنمارک کے اخباروں میں اہانت رسول کے کارٹونوں کی اشاعت ہوئی تو اس وقت بھی میڈیا نے آزادی ¿ اظہار خیال کے نام پر کارٹونوں کی حمایت کی اور جب ڈچ ممبر پارلیمنٹ نے قرآن دشمن فلم بنائی تو اس وقت بھی اس پر پابندی کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا گیا۔ میڈیا ایسے مواقع پر یکسر بے نقاب ہوجاتا ہے اور اس کی نام نہاد غیر جانبداری پتہ نہیں کہاں گم ہو جاتی ہے۔ گیرٹ وائلڈرس نے فتنہ نام سے جو فلم بنائی تھی اس میں بھی قرآن مجید کی متعدد آیات کو سیاق و سباق سے کام کر پیش کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرآن مجید قتل و خونریزی کی دعوت دیتا ہے۔ اس فلم پر مختلف ملکوں میں احتجاج کی آواز بلند ہوئی تھی اور 26 اسلامی ممالک نے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ حالانکہ اس پر پابندی نہیں لگائی گئی تاہم اقوام متحدہ کے اس وقت کے سکریٹری جنرل بان کی مون سمیت متعدد عالمی رہنماﺅں نے اس کی مذمت کی تھی۔ وائلڈرس نے قرآن کی متعدد آیات کو فتنہ قرار دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وائلڈرس اور اس کی یہ فلم دونوں بذات خود فتنہ ہیں اور نہ صرف اس فلم پر بلکہ وائلڈرس پر بھی اس طرح کی باتیں کرنے پر پابندی لگادی جانی چاہیے۔ جب وائلڈرس نے یہ پندرہ منٹ کی فلم بنائی اور اسے دکھانے کی کوشش کی تو کوئی بھی چینل اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔ اس نے اسے ویب سائٹ پرپیش کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی ناکام رہا۔ لیکن بہر حال اسے ویب سائٹ پر پیش کردیا گیا اور دعویٰ یہ کیا گیا کہ ڈنمارک کے اخباروں میں شائع کارٹونوں کو فلم سے حذف کردیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں توہین آمیز کارٹون موجود ہےں۔
فلم فتنہ کا آغاز سورہ ¿ انفال سے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی گیارہ ستمبر کو امریکہ کے ٹوین ٹاور پر دہشت گردانہ حملے کی تصویر دکھائی جاتی ہے۔ آغاز میں ایک وارننگ دی جاتی ہے کہ اس میں انتہائی دلخراش مناظر بھی ہیں۔ اشارہ دہشت گردانہ واقعات کی طرف ہے۔ اس کے بعد حضور اکرم کا ایک کیری کیچر دکھایا جاتا ہے جو کہ ڈینش اخباروں میں شائع ہوا تھا۔ اس شر انگیز کیری کیچر میں دستار میں بم رکھا ہوا ہے اور ایک ٹائم بم ٹک ٹک کی آواز کرتا ہے۔ ایک نا معلوم امام کو اسلام کی تبلیغ کرتے دکھایا گیا ہے اور دہشت پسندانہ واقعات سمیت ”اسلام کے نام پر“ تشدد اور اشتعال انگیزی دکھائی جاتی ہے۔ اس میں گیارہ ستمبر کے حملے کی تصاویر کے علاوہ میڈرڈ ٹرین دھماکہ ، لندن بم دھماکہ اور القاعدہ اور طالبان کے ہاتھوں دوسروں کا قتل اور سر قلم کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ میڈرڈ ٹرین دھماکہ کے بعد دھوئیں کے غبار سے ایک امام نکلتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ”جب غیر مسلموں کا قتل ہو جاتا ہے تو اللہ خوش ہوتا ہے۔“ اس کے ساتھ ہی سات جولائی 2005 کے لندن دھماکہ کے مناظر اور ایک انڈر گراو ¿نڈ ٹرین اور بس میں دھماکے دکھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سورہ ¿ نساءکی تلاوت ہوتی ہے اور شیخ بکر السمرائی کو ایک تلوار اٹھاتے اور یہ اعلان کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے کہ ”جب اللہ اجازت دے گا تو اے سرزمین محمد، یہاں تک کہ پتھر بھی کہے گا کہ اے مسلمان میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے آﺅ اور اس کا سر قلم کردو اور میں اس کا سر قلم کردوں گا۔ اللہ اکبر اللہ کے لیے جہاد۔“ اس کے بعد ایک تین سال کی بچی کہتی ہے کہ یہودی خنزیر ہیں۔ فلم میں ایسے دہشت گردوں کو دکھایا جاتا ہے جو بقول فلم کے عیسائیوں اور یہودیوں کے دشمن ہیں۔ آخر میں کمنٹری ہوتی ہے کہ اسلام ہماری مغربی تہذیب کو تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے۔ لہٰذا مغرب کے اسلامائزیشن کو روکنا ہوگا۔ جو بم شروع میں ٹک ٹک کرتا دکھایا گیا تھا وہ آخر میں پھٹ جاتا ہے اور ایک زبردست شور اٹھتا ہے۔
جب اس فلم پر مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تو اس کو آزادی اظہار کے نام پر جائز ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ عالمی میڈیا سے وابستہ صحافیوں نے مسلمانوں کے احتجاج کی شدید مذمت کی اور ڈچ حکومت نے مسلم ممالک کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مسلمانوں کی صرف اور صرف دلآزاری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا اس لیے اس پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر اس فلم کی حمایت میں مضامین شائع کئے جانے لگے۔ اس کے حوالے سے مسلمانوں اور اسلام کے مزاج کا تجزیہ کیا جانے لگا اور بڑھ چڑھ کر یہ بتانے کی کوشش کی جانے لگی کہ اسلام اور قرآن امن و انسانیت کے دشمن ہیں اور مسلمان تشدد پسند اور قتل و خونریزی کے حامی ہیں۔
بہرحال اس معاملے پر روزنامہ ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید نے اپنے مضمون میں بہت اہم بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس رویے کے خلاف احتجاج تو کریں ہی ساتھ ہی قرآن کو اور مضبوطی سے پکڑ لیں اور سنتِ رسول کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں۔ مسلم تنظیمیں احتجاج کے ساتھ لوگوں کو قرآن کی طرف بلائیں اور قرآن کی تلاوت کی تاکید کریں۔ جس قدر زیادہ قرآن کی تلاوت ہو گی اسی قدر قرآن دشمنوں کی سازشیں اور منصوبے خاک میں ملیں گے۔مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ سویڈن، ڈنمارک اور ناروے سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیں اور قرآ ن سوزی کے مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی کے لیے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔
موبائل: 9818195929
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages