75 سالہ جماعت اسلامی اور چند معروضات

13 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Mar 18, 2023, 1:45:08 AM3/18/23
to bazme qalam
75 سالہ جماعت اسلامی اور چند معروضات
سہیل انجم
ہندوستان میں مسلم تنظیموں اور جماعتوں کی کمی نہیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی تنظیم یا جماعت مل جائے گی۔ ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو اپنی عمر کی ایک صدی پوری کر چکی ہیں۔ متعدد نصف صدی سے سرگرم ہیں اور متعدد پون صدی سے۔ کچھ ابھی عنفوان شباب میں ہیں کچھ عہد طفلی میں ہیں۔ بہت سی ایسی بھی ہیں جو ادھر پیدا ہوئیں ادھر دم توڑ گئیں۔ یعنی بن کھلے مرجھا گئیں۔ قدیم جماعتوں میں جمعیت اہلحدیث ہند کا قیام 1906 میں ہوا تو آل انڈیا مومن کانفرنس کا 1911 میں، جمعیۃ علماء ہند کا قیام 1919 میں ہوا تو جماعت اسلامی ہند کا 1948 میں اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا قیام 1964 میں۔ (ہم اہل تشیع کی تنظیموں کا ذکر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں ہماری معلومات انتہائی محدود ہیں)۔ کچھ تنظیمیں مفادات کے ٹکراؤ کے سبب تقسیم درتقسیم کے عمل سے دوچار ہوئیں اور فنا ہو گئیں تو کچھ بالکل ہی بے عمل اور غیر مؤثر ہو کر رہ گئیں۔ بہت سی جیبی تنظیمیں ہیں تو بہت سی خاندانی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سب خود کو قومی بلکہ بین الاقوامی تنظیم ہونے اور ملک و ملت کے لیے وقف رہنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا عمل اس کی نفی کرتا ہے۔ ہم اس وقت ایک ایسی تنظیم یا جماعت کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جس کا قیام تقسیم ہند سے ذرا قبل یعنی 1941 میں ہوا لیکن تقسیم کے بعد اس نے ہندوستان میں اپنی آزاد شناخت قائم کی اور اس کے لیے اس نے اپریل 1948 میں دوبارہ اپنے آپ کو وجود بخشا۔ اس کا نام ’جماعت اسلامی ہند‘ ہے۔ اس کے قیام کو 75 سال ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے قیام کی 75 ویں سالگرہ منا رہی ہے۔
جماعت اسلامی ہند کی جانب سے گزشتہ دنوں ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی میں واقع اپنے مرکز کے میڈیا سینٹر میں صحافیوں کے ساتھ ایک مشاورتی میٹنگ رکھی گئی۔ اس میں جماعت اسلامی ہند کے امیر جواں سال سید سعاد ت اللہ حسینی کی جانب سے اختصار کے ساتھ جماعت کا تعارف پیش کیا گیا۔ اس کے بعد یہ اعلان ہوا کہ آج کی یہ مجلس پریس کانفرنس یا بریفنگ نہیں ہے بلکہ مشاورتی ہے۔ صحافیوں کو اس لیے مدعو کیا گیا ہے تاکہ وہ ہمیں مشورہ دیں کہ ہم خود کو مزید منظم اور فعال بنانے اور موجودہ ملکی ماحول میں اپنا کردار ادا کرنے میں مزید کون کون سے قدم اٹھائیں۔ انگریزی، اردو، ہندی اور بعض دیگر زبانوں کے صحافی بھی تھے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ہم نے کم از کم دہلی میں ایسی کوئی مسلم تنظیم یا جماعت نہیں دیکھی جو صحافیوں سے کہے کہ یہ میٹنگ کوریج کے لیے نہیں بلکہ مشورے کے لیے ہے۔ ورنہ بیشتر تنظیمیں بغیر کچھ کیے بہت زیادہ میڈیا کوریج کی متمنی ہوتی ہیں۔ اس موقع پر صحافیوں نے جماعت اسلامی کے ارباب بست و کشاد کو کیا مشورے دیے اس پر ذرا رک کر گفتگو کریں گے۔ پہلے تھوڑا سا جماعت کے بارے میں گفتگو ہو جائے۔
اس میٹنگ میں صحافیوں کو ایک بروشر اور ایک کتابچہ پیش کیا گیا۔ 48 صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ جماعت اسلامی ہند کے قیام سے لے کر اب تک کی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ تفصیلات اس کے تشکیل جدید کے حوالے سے ہیں جن میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں الہ آباد میں 1948 میں 16 تا 18 اپریل منعقد ہونے والے اجتماع میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کو اس کا پہلا امیر مقرر کیا گیا جو ایک طویل عرصے تک اس کی امارت کا بار اٹھائے رہے۔ کتابچے میں ’تشکیل جماعت اسلامی ہند کیوں اور کیسے؟ مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی‘ کے اقتباسات جگہ جگہ پیش کیے گئے ہیں۔ ایک اقتباس کے یہ جملے قابل ذکر ہیں: ’تقسیم کے بعد ہندوستان کی جماعت اسلامی کو اپنے مرکز قدیم سے جو کچھ ملا تھا وہ کچھ کم نہ تھا، اچھا خاصہ سرمایہ تھا۔ لیکن اس میں کچھ بڑی بڑی رقمیں تو وہ تھیں جو مرکز یا مکتبہ قدیم کے قرضوں کی شکل میں یہاں کے رہنے والوں یا اداروں کے ذمہ واجب تھیں اور وہ سب ہمارے حساب میں محسوب کرکے ہماری طرف منتقل کر دی گئی تھیں۔ جہاں تک نقد رقم کا تعلق ہے تو اس نام سے ہمارا کھاتا بالکل ناآشنا رہا۔ نقد چند ٹکے بھی نہیں ملے۔ اس لیے اس انکشاف پر آپ کو مطلق حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بحیثیت امیر جماعت جب مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے میں نے جماعت کے کام کا آغاز کیا تو شروع میں کام چلانے کے لیے مجھے ایک قریبی بستی سیدھا سلطانپور کے مقبول احمد نام کے ایک نہایت مخلص رکن جماعت سے پچاس روپے بطور قرض لینے پڑے‘۔
کتابچے میں جماعت کی سرگرمیوں اور اس کے بتدریج ارتقا کا داستان بیان کی گئی ہے۔ اس کے مطابق 1952 میں اس کے ارکان کی تعداد 401 تھی جو 2022 میں بڑھ کر 13869 ہو گئی۔ 1952 میں اس کی کل چھ اشاعتیں تھیں۔ پانچ اردو اور ایک ملیالم میں۔ 1980 میں اس کے ہم خیال اخبارات و رسائل کی تعداد سولہ ہو گئی جو آسامی، بنگلہ، گجراتی، مراٹھی، تیلگو، کنڑ، تمل، ملیالم، اردو، ہندی، عربی اور انگریزی زبانوں میں ہیں۔ ان کے علاوہ پندرہ اخبارات و رسائل اور تھے جو متوسلین جماعت کی نگرانی میں شائع ہو رہے تھے۔ 2022 تک پہنچتے پہنچتے جماعت کی کارکردگی کا تنوع مختلف ہم خیال اداروں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے 24 اداروں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ایک اطلاع یہ دی گئی ہے کہ ’برادران وطن کا مسلمانوں پر حق ہے کہ وہ انھیں اللہ کے دین سے بخوبی واقف کریں۔ اس ذمہ داری کا احساس جماعت کو پہلے دن سے رہا ہے۔ اس کے لیے کوششیں بھی ہمیشہ کی جاتی رہی ہیں‘۔ چنانچہ کتابچے کے مطابق ’دو سال کے اندر اللہ کے پیغام کو دو لاکھ دس ہزار 173 افراد تک راست پہنچانے کا ہدف حاصل کیا گیا‘۔ (اب اس راست کی وضاحت نہیں ہے۔ یہ پیغام انفرادی طور پر پہنچایا گیا یا اجتماعی طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے)۔ آخر میں جماعت کے چند اہم پلیٹ فارموں کی ویب سائٹوں کے لنک دیے گئے ہیں جن کی تعداد 31 ہے۔ چونکہ ہم نے ان ویب سائٹوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی لہٰذا ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ تمام ویب سائٹیں فعال ہیں، نیم فعال ہیں یا غیر فعال ہیں۔
تابچے میں جماعت کے ساتھ سابقہ حکومتوں کے رویے اور جماعت کے ذمہ داروں کے عمل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ 1962 کی ہند چین جنگ اور 1965 کی ہند پاک جنگ کے بارے میں جماعت اسلامی کا موقف بیان کیا گیا ہے۔ اس پر عاید کی جانے والی پابندیوں اور ان ایام میں جماعت کی سرگرمیوں کا بھی ذکر موجود ہے۔ لیکن عہد حاضر کے سیاسی ماحول یا مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے بارے میں حکومت کی پالیسیوں کے تعلق سے جماعت کا کیا موقف ہے اس بارے میں خاموشی ہے۔ اس حوالے سے اگر کچھ باتیں ہیں بھی تو عمومی انداز کی ہیں۔ 2014 کے بعد ملک و ملت کے سامنے جو مسائل درپیش ہیں جیسے سی اے اے، طلاق ثلاثہ، سپریم کورٹ سے بابری مسجد کی ملکیت کے بارے میں فیصلہ، ماب لنچنگ، اسکارف تنازع، لاؤڈ اسپیکر سے اذان، ہند چین تنازع، مسئلہئ کشمیر، ہندوستان کی خارجہ پالیسی، جمہوریت کو لاحق خطرات، ہندو آمریت کی جانب بڑھتے قدم، آئینی اداروں کی کمزوری یا ان جیسے دیگر معاملات کے بارے میں خاموشی ہے۔ ممکن ہے کہ ان امور پر کسی دوسرے کتابچے یا بروشر میں تفصیلات ہوں جس تک ہماری رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
لیکن بہرحال یہ باتیں اپنی جگہ پر اور جماعت اسلامی کی سرگرمیاں اپنی جگہ پر۔ اس کے مسلکی عقیدے، نظریہئ حکومتِ الٰہیہ اور اس میں لچک، سیاست کو پہلے شجر ممنوعہ قرار دینے اور پھر بتدریج سیاست سے قربت اور سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت سے متعلق بدلتے فیصلے، غیر مسلم اقوام سے ربط ضبط کے اصول اور دیگر بہت سی باتوں سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جماعت اسلامی ہند ملک کی ایک ایسی جماعت ہے جو منظم اور شورائی (یا جمہوری) انداز میں کام کر رہی ہے۔ خواہ ارکان اور عہدے داران کا انتخاب ہو یا ملازمین کا تقرر سب کچھ ایک نظم کے ساتھ چل رہا ہے۔ یہ ایک کیڈر بیسڈ جماعت ہے اور اس میں عہدے داران نہ تو تھوپے جاتے ہیں اور نہ ہی غاصبانہ طور پر قابض ہوتے ہیں۔
اب تک جو تفصیلات بیان کی گئیں وہ بڑی خوش کن ہیں لیکن کیا آج کے سوشل میڈیا کے عہد میں جماعت اسلامی عصری تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ صحافیوں کے ساتھ منعقد کی جانے والی مشاورتی میٹنگ میں یہ بات تو سامنے آئی کہ جماعت اسلامی کا میڈیا شعبہ سرگرم ہے لیکن یہ بات بھی واضح ہوئی کہ یہ سرگرمی تقاضائے وقت سے میل نہیں کھاتی۔ اس کے سوشل میڈیا پیجز اس طرح فعال نہیں ہیں جس طرح ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی شخص رونما ہونے والے کسی اہم واقعہ پر جماعت کا موقف جاننے کے لیے اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک رسائی حاصل کرے تو اسے مایوسی ہوگی۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ جماعت کے قیام کو 75 سال ہو گئے لیکن یہ عوامی جماعت کیوں نہیں بن سکی۔ (اس حوالے سے راقم کا خیال ہے کہ یہ ایک دینی پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ ایک علمی پلیٹ فارم بھی ہے اور ایسے پلیٹ فارموں پر عوامی رسائی کم ہی ہوتی ہے اور پھر جماعت اسلامی کے بارے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے بعض حلقوں میں ایسی رائے پائی جاتی ہے جسے بہرحال مثبت نہیں کہا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ ان وجوہ سے بھی جماعت اسلامی مسلمانوں کا عوامی پلیٹ فارم نہیں بن سکی۔ حالانکہ امیر جماعت نے اس تاثر کو یہ کہہ کر ختم کرنے کی کوشش کی کہ جماعت کی افرادی قوت کے سلسلے میں جغرافیائی عدم توازن ہے۔ یہ شمال میں کم اور جنوب اور مغرب میں زیادہ سرگرم ہے)۔ لیکن بہرحال امیر جماعت اسلامی ہند نے اٹھنے والے متعدد سوالوں کے اختصار کے ساتھ جواب دیے اور صحافیوں کی جانب سے نشان زد کی گئی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کا وعدہ کیا۔
 یہاں صحافیوں کی جانب سے پیش کیے گئے مشوروں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر ان مشوروں کو عملی جامہ پہنایا جائے تو اس کی اثراندازی میں اضافہ ہوگا۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مسلم تنظیموں اور اداروں کے پاس میڈیا تک رسائی کا کوئی میکینزم نہیں ہوتا۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے پاس مختلف امور میں ماہرین کی ٹیم ہو۔ اخباروں کی مانند ان کے یہاں بھی بیٹ سسٹم ہو تاکہ اگر کوئی ایشو اٹھے تو متعلقہ ذمہ دار کی جانب سے اپنا موقف پیش کر دیا جائے۔ اگر کسی میڈیا ادارے کی جانب سے کوئی ردعمل معلوم کیا جائے تو فوری طور پر جواب دینے والے موجود ہوں۔ ویب سائٹوں پر بھی انگریزی، ہندی اور اردو میں فوری طور پر اپنا موقف پیش کر دیا جائے۔ تمام میڈیا اداروں کے ایڈیٹروں، رپورٹروں اور دوسرے ذمہ داروں کے رابطہ نمبر ہوں تاکہ بوقت ضرورت ان سے رابطہ قائم کیا جائے۔ اخبارات میں بھی ضروری امور پر اپنا موقف ارسال کیا جائے اور جس زبان کا اخبار ہو اسی زبان میں ارسال کیا جائے۔ انتہائی مختصر مگر جامع انداز میں اپنی بات کہی جائے۔ یہ اور ایسے بہت سے امور ہیں جن کا لحاظ اور خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر مسلم تنظیمیں، جماعتیں اور ادارے ان باتوں کو سنجیدگی سے لیں تو س کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
موبائل: 9818195929
  
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages