اشتعال انگیزی کی نئی لہر سپریم کورٹ کی پھٹکار بھی بے اثر

2 zobrazení
Přeskočit na první nepřečtenou zprávu

Suhail Anjum

nepřečteno,
9. 2. 2023 3:02:4909.02.23
komu: bazme qalam
اشتعال انگیزی کی نئی لہر
سپریم کورٹ کی پھٹکار بھی بے اثر
سہیل انجم
بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ لوگوں کو اب عدالت کا بھی کوئی خوف نہیں رہ گیا ہے۔ ان کا جب جی چاہتا ہے نفرت انگیز تقریر کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو چاہیں بولیں، جس کے خلاف چاہیں اشتعال انگیزی کریں ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ہے۔ اگر واقعی وہ ایسا سمجھتے ہیں تووہ بظاہر اس میں حق بجانب ہیں۔ دسمبر 2021 میں ہریدوار میں ہونے والے دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کال کے بعد، جس پر ہندوستان سے لے کر دوسرے ملکوں تک کافی ہنگامہ ہوا تھا، جانے کتنے پروگرام ہوئے اور مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف جانے کتنی نفرت انگیزی کی گئی لیکن کسی کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں ہوئی۔ایسے لوگوں کو کھلی چھوٹ دیے جانے پر عوام تو عوام اب عدات بھی جھنجلانے لگی ہے۔ سپریم کورٹ نے تین فروری کو ہیٹ اسپیچ کے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے آرڈر کے باوجود نفرت انگیز تقریروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اگر عدالت سے بار بار یہ کہا جائے کہ وہ ایسے بیانات کو روکنے کے لیے کچھ کرے تو عدالت کی بار بار سبکی ہوگی۔ دراصل پانچ فروری کو ممبئی میں ہندو جن آکروش مورچہ نکلنے والا تھا جس کے بارے میں عرضی گزار کو اندیشہ تھا کہ اس میں نفرت انگیزی کی جائے گی، لہٰذا اس نے اسے روکنے کی اپیل کی تھی۔ عدالت عرضی گزار کی باتوں سے متفق تھی۔ تاہم اس نے یہ بھی کہا کہ وہ ہر ریلی کے بارے میں حکم نہیں سنا سکتی۔ اس نے پہلے ہی اس بارے میں ایک فیصلہ سنا دیا ہے جو کافی ہے۔ خیال رہے کہ چند روز قبل ممبئی میں تقریباً دس ہزار افراد پر مشتمل ایک ریلی نکلی تھی جس میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائکاٹ کی کال دی گئی تھی۔ اس سے قبل 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے دہلی، اترپردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ نفرت انگیز تقریروں کے خلاف شکایت کا انتظار کیے بغیر کارراوئی کریں۔ سپریم کورٹ نے چار جنوری کو نفرت انگیزی کے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز جرائم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور اگر حکومت ہیٹ اسپیچ کو مسئلہ سمجھے جبھی اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق یہ اسٹیٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ہیٹ اسپیچ سے ہر شہری کا تحفظ کرے۔ جب نفرت انگیزی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تو ایک خطرناک ماحول پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہماری زندگیوں سے نفرت انگیزی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ عدالت نے یوپی حکومت سے کہا کہ اگر کوئی شخص پولیس میں جا کر شکایت کرتا ہے کہ میں ٹوپی پہنے ہوئے تھا اور میری داڑھی کھینچی گئی اور مجھے مذہب کی بنیاد پر گالیاں دی گئی اور پھر بھی پولیس اس کی شکایت درج نہیں کرتی تو یہ ایک مسئلہ ہے۔ عدالت نے اس سے قبل بھی ہیٹ اسپیچ کے خلاف اپنی ناراضگی جتائی ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی پر زور دیا ہے۔
ایک طرف ایسے معاملات پر عدالت کا رخ بہت سخت ہے تو دوسری طرف پولیس ایسے لوگوں کے ساتھ نرمی برتتی ہے۔ ابھی دو فروری کو رام دیو نے راجستھان کے باڑمیر میں ایک پروگرام میں بولتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی۔ انھوں نے جس طرح نماز کو ہدف بنایا اور پھر مسلمانوں کو ہندو لڑکیوں کے اغوا اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کی بات کہی وہ میڈیا میں وائرل ہے۔ اب ان کے خلاف باڑمیر ہی میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ لیکن ان کے خلاف مزید کسی کارروائی کا امکان معدوم ہے۔ ابھی ان کی اشتعال انگیزی پر اٹھنے والی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ اتوار کو دہلی کے جنتر منتر پر ایک پروگرام میں مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کی کال دی گئی۔ اس پروگرام میں جس کا انعقاد متعدد ہندو تنظیموں نے کیا تھا، ہندووں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کا قتل کرنے پر اکسانے کی کوشش کی گئی۔ ایک ویڈیو میں جو کہ سوشل میڈیا میں وائرل ہے ایک معمر سادھو مہا منڈلیشور سوامی بھکت ہری سنگھ ہندوو ¿ں سے کہتے ہیں کہ وہ کب مسلمانوں اور عیسائیوں کا قتل کریں گے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں انگریزوں، کانگریسیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں پر الزام لگایا کہ انھوں نے کہا تھا کہ مارو کاٹو اور راج کرو۔ پھر وہ ہندووں پوچھتے ہیں کہ ارے بھائی تم عیسائیوں اور مسلمانوں کو کب کاٹو گے مارو گے۔ وہ انھیں ہتھیار رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک ہاتھ میں شستر اور دوسرے میں شاستر ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایک دوسرے پروگرام میں ہریانہ بی جے پی کے میڈیا کوآرڈینیٹر اور کرنی سینا کے صدر امو سنگھ بھی اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔ اس پروگرام کا انعقاد سدرشن چینل کے بدنام زمانہ مالک سریش چوانکے کے حامیوں نے کیا تھا۔ یاد رہے کہ 19 دسمبر 2021 کو دہلی میں ہونے والے ایک پروگرام میں چوانکے نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کی تھی۔ اس معاملے میں پولیس میں شکایت درج کرائی گئی۔ پولیس ابھی تک اس کی جانچ ہی کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے دسمبر میں دہلی پولیس کے رویے پر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ ابھی تک اس جانچ میں کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہو سکی۔ اتوار کو جنتر منتر پر جو اشتعال انگیزی کی گئی تادم تحریر اس کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ یہ بھی ہریدوار دھرم سنسد میں کی جانے والی اشتعال انگیزی جیسی اشتعال انگیزی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس قسم کی اشتعال انگیزی کرنے والوں کو حکومت کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ حکومت کے کسی بھی ذمہ دار نے ایسی نفرت انگیز تقریروں کے خلاف کبھی کوئی قابل ذکر بیان نہیں دیا۔ واضح رہے کہ جب بھی ملک میں کوئی بڑا الیکشن آنے والا ہوتا ہے تو ایسی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں یا بڑھا دی جاتی ہیں۔ رواں سال میں ملک کی نو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جنھیں سیمی فائنل کہا جا رہا ہے۔ اگلے سال پارلیمانی انتخابات ہوں گے جو کہ فائنل ہوں گے۔ مبصرین کے خیال میں حکومت تمام محاذوں پر ناکام ہے اور ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔گوتم اڈانی کا معاملہ الگ اچھلا ہوا ہے۔ حکومت اس معاملے میں بری طرح پھنس گئی ہے۔ وہ اس جنجال سے باہر نکلنا چاہ رہی ہے۔لیکن اسے کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا ہے۔ لہٰذا شدت پسندوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کے سلسلے کو تیز کر دیا گیا ہے۔ حکومت کے لیے اس کا فوری فائدہ یہ ہے کہ عوام کی توجہ اڈانی معاملے سے ہٹ جائے گی اور طویل مدتی فائدہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر عوام کو پولرائز یا گول بند کرکے ان کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امن پسند طبقات میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کو ایسا خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ان اشتعال انگیزیوں سے کام بنتا نظر نہیں آیا تو اس سے آگے بھی جانے کی کوشش کی جائے گی۔ یوں تو عدالتوں میں بھی اب ایسے فیصلے ہونے لگے ہیں جو حکومت کو سوٹ کرتے ہیں۔ حکومت نے عدلیہ کو بھی اپنے زیر اثر لینے کا پلان پہلے ہی بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کالجیم کے خلاف ہے اور چاہتی ہے کہ وہ خود ججوں کا تقرر کرے۔ اسی درمیان مدورائی کی ایک ایسی وکیل کو مدراس ہائی کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا ہے جو بی جے پی کی سابق رکن ہیں اور جنھوں نے ماضی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہتک آمیز بیانات دیے ہیں۔ ان کا نام لکشمنا چندر وکٹوریہ گوری ہے۔ سپریم کورٹ کے کالجیم نے ان کے نام کی سفارش کی اور حکومت نے فوراً اس پر اپنی رضامندی کی مہر ثبط کر دی۔ منگل کو ان کی حلف برداری بھی ہو گئی۔ ان کے تقرر پر قانون دانوں نے تنقید کی ہے۔ بہرحال یہ الگ معاملہ ہے لیکن اسے ملک کے موجودہ ماحول سے علیحدہ کرکے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقریروں کے معاملے میں حکومت اور پولیس کو جانے کتنی بار پھٹکارا ہے اور کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے لیکن اس کا کوئی اثر پڑتا دکھائی نہیں دے رہا۔ نفرت انگیز نقریروں کا سلسلہ جاری ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات تک جاری رہے گا۔

Odpovědět všem
Odpověď autorovi
Přeposlat
0 nových zpráv