اٹھارویں لوک سبھا اور مسلم نمائندگی کا مسئلہ

10 views
Skip to first unread message

Nehal Sagheer

unread,
Jun 12, 2024, 7:40:04 AMJun 12
to
اٹھارویں لوک سبھا اور مسلم نمائندگی کا مسئلہ

نہال صغیر

عام انتخابات کا شور ختم ہوچکا ہے اورجھوٹ کی گرم بازاری تھوڑی سست ہوئی ہے ۔ اس لوک سبھا کے نتائج کا تاریک پہلو یہ ہے کہ مہاراشٹر سے مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہوگئی نیز پورے ملک سے چوبیس یا ستائیس ارکان مسلمان ہیں۔ اس کا مسلمانوں کو کوئی احساس نہیں ہے اور جب مسلمانوں کو ہی احساس نہیں ہے تو دوسروں کو اس سے کیا سروکار ہوسکتاہے ۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان جمہوریت بچانے اور سیکولرزم کے قیام کیلئے اس کے مردہ گھوڑے کی جگہ پر رتھ کو اپنی پوری قوت سے کھینچ رہے ہیں ۔ بہر حال چار سو پار کا دعویٰ کرنے والے منھ کے بل گر چکے ہیں اور انہیں یہ سبق ملا کہ زیادہ کامیابی سے مغرور نہیں ہونا چاہیے ، کامیابی اور ناکامی دائمی نہیں ہے ۔ جسے عروج حاصل ہوتا ہے اس کو زوال کے دور سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔ لیکِن جو لوگ کامیابی سے بے قابو نہیں ہوتے اور اپنے رویہ میں توازن رکھتے ہیں انہیں زوال سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی اس کے برعکس  جو لوگ وقتی کامیابی کو دائمی سمجھ کر کمزوروں پر اپنی طاقت آزمائی کرتے ہیں انہیں زوال یا وقت کے الٹ پھیر سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور وہ بری طرح ذلیل بھی ہوتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ اس مرتبہ کے الیکشن ریزلٹ کے بعد دیکھنے میں آیا ۔
 بی جے پی اور اس کے دو سربراہوں نے تکبر کی انتہا کر دی لیکن وقت کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے پر کتر دیئے گئے اب کئی معاملے جو ان کیلئے الیکشن کا گرماگرم موضوع تھے فی الحال ٹھنڈے بستے میں ڈال دیئے گئے ۔ بلاشبہ یہ  ریزلٹ مسلمانوں کی بڑی قربانیوں اور محنتوں کے سبب آیا ہے ۔ جیسا کہ ان کی عادت بن چکی ہے بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ ۔ سب سے بڑی قربانی تو مہاراشٹر کے مسلمانوں نے صفر نمائندگی کے ذریعہ دی ہے ۔ سیکولر لیڈروں اور سماجی کارکنوں کی ایک گفتگو سن رہا تھا اس میں بھی مسلمانوں کی کم ہوتی نمائندگی زیرِ بحث آئی ۔ ایک سماجی کارکن نےجواب میں کہا کہ اسے ہم بعد میں دیکھ لیں گے ، ابھی تو الیکشن کا موضوع دستور اور جمہوریت کی حفاظت ہے ۔ چلئے جناب چار سو پار کے دعویدار کے پرکتر کر ان کی منفی پرواز پر قدغن تو لگادیا گیا اور اس طرح دستور کو تبدیل کرنے اور جمہوریت کے خاتمے کی کوششوں کو مسلمانوں نے اپنی بھرپور جد وجہد سے ناکام بنادیا ۔ اب تو مسلمانوں کی نمائندگی پر گفتگو ہو سکتی ہے اور کم ہوتی تعداد پر قابو پانے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔
جن لوگوں نے الیکشن کے ماحول میں اسمبلی و پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد پر سوال اٹھائے تھے اور اس کی جد وجہد کے لئے ایک عدد کل ہند تنظیم (مسلم ووٹرس کائونسل آف انڈیا)بھی بنائی تھی لیکِن سیکولر فورسس نے ووٹوں کی تقسیم کے خدشہ کے پیشِ نظر اسے مسترد کردیا تھا ۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اس سے مسلمانوں کا ووٹ منتشر ہوگا اور اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا ۔ لیکن عبد الباری خان اور ان کے ساتھیوں نے اس سے بے پروا ہو کر تحریک جاری رکھی ۔ اس سے اتنا فائدہ ہوا کہ نا م نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں میں بے چینی پھیلی ، اسی بے چینی کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ آخر مسلمان کب تک سیاسی پارٹیوں کیلئے نرم چارہ رہیں گے ۔ کب تک انہیں بی جے پی کا خوف دکھا کر ووٹ تو لئے جاتے رہیں گے مگر ان کی سیاسی بے وزنی کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوگی ۔ اب    مسلم ووٹرس کائونسل آف انڈیااور اس کے سربراہ و ارکان کو میدان میں آ جانا چاہیے اور آئندہ اسمبلی الیکشن کیلئے کوشش کی جائے کہ اس میں آبادی کی  مناسبت مسلمانوں کو نمائندگی ملے ۔ لیکن مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بھی ان کا حق ان کی جھولی میں نہیں ڈالے گا ۔ مسلمانوں کو اپنے حقوقِ کی بازیابی کیلئے تدبر و غور و فکر کے ساتھ جہد و جہد کا آغاز کرنا ہوگا  اورہر قدم پھونک پھونک کر دانشمندی سے آگے قدم بڑھانا ہوگا ۔
 دوسری بات یہ ہے کہ مسلم تنظیموں کو بھی مسلمانوں کو مشورہ دینے اور انہیں یہ بتانا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے والی روش سے باز آجانا چاہیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان موجودہ سیاسی تناظر میں بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس لئے انہیں سیاسی طور پر گائیڈ کرنے کی بجائے اور اسی میں اپنی ساری قوت صرف کرنے مسلمانوں کے دوسرے مسائل جیسے تعلیمی اور معاشی حالات پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے ۔ کم از کم ایک الیکشن میں تو آزما کے دیکھ لیں کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور ہے کہ نہیں ۔تیسری بات یہ ہے کہ  اپنی قیادت اور اپنی سیاسی پارٹیوں کو قوت بخشنے کیلئے کام کریں۔ یہاں حال یہ ہے کہ جس جماعت نے برسوں کے غور و تدبر کے بعد جس سیاسی پارٹی کی بنا رکھی ،وہی جماعت اپنی اسی سیاسی جماعت سے دوری بنا کر رکھتی ہے ۔ اسی جماعت کے ذریعہ ایک عدد فورم نے حالیہ الیکشن میں بہت ہی شاندار مہم چلائی اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب رہی ۔ اس کی محنتوں سے فرقہ پرست پارٹی کو اقتدار میں آنے سے تو نہیں روکا جاسکا لیکن اس کی طاقت کو کمزور کرنے میں ضرور کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونے والے ، دوسروں کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر شکار کھیلنے سے کبھی بھی آپ شکار نہیں کرسکتے بلکہ خود ہی شکار ہوتے رہیں گے جیسا کہ گذشتہ ستر پچھہتر سالوں سے ہورہے ہیں ۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر سیاسی جماعتوں کیلئے بہت کام کر لیا اب اپنی سیاسی طاقت کے لیے کام کریں ۔ یہ بات بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سیکولر پارٹیاں آپ کا صرف ووٹ چاہتی ہیں آپ کی نمائندگی نہیں ۔اس لئے خود میدان عمل میں آئیے اور انہیں مجبور کیجئے کہ وہ خود آگے بڑھ کر آپ کی نمائندگی کو عملی جامہ پہنائیں ۔ اس کیلئے ضروری ہوگا کہ دوسروں کی چاکری چھوڑ کر مسلمانوں میں سیاسی طور پر کوئی تبلیغ کرنی ہی ہو تو اپنی قیادت اپنی سیاست کی کریں ۔ انہیں کم از کم سیاسی طور سے ہی ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کریں ۔ یہ کام خوف دکھا کر نہیں بلکہ ان کی عزم و ہمت کی قوت سے کریں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسلم عوام میں آج بھی کوئی خوف نہیں ہے اور ان میں ایسے ایسے نوجوان ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر پوری ایک تنظیم کی طرح کام کرتے ہیں ۔ بس ان کو کوئی اچھا پلیٹ فارم مل جائے اور کوئی ان کی دل و جان سے سرپرستی کرے تو آپ دھروو راٹھی اور رویش کمار کو بھول جائیں گے مگر مسئلہ ہے گھر کی مرغی دال برابر کا ۔ امید ہے کہ مسلمانوں کا باشعور طبقہ اس جانب توجہ دے گا ۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں کام کرنے والے لوگوں یا تبدیلی لانی والی تنظیموں کی کمی ہے ۔ اوپرمیں دو تنظیموں کا ذکر کیا ایک مسلم ووٹرس کائونسل آف انڈیا جو سیاست میں نمائندگی کیلئے کام کرسکتی ہے اور دوسرے کا نام نہیں لیا بس اشاروں میں بتایا کہ اس نے اٹھارویں لوک سبھا کیلئے فرقہ پرست اور فاشسٹ پارٹی کیخلاف کامیاب مہم چلائی ۔آپ نظر اٹھائیں قدم بڑھائیں کارواں بننے میں وقت نہیں لگے گا ۔بس سمت سفر کا تعین ضروری ہے کہ ہماری منزل کہاں ہے اور راستہ کونسا ہے ۔

--
LokSabha Election Result and Muslim.inp
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages