ہند پاک میڈیا: ’ہم کسی سے کم نہیں‘

14 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
May 1, 2025, 9:05:14 AMMay 1
to bazme qalam
ہند پاک میڈیا: ’ہم کسی سے کم نہیں‘
پسِ آئینہ: سہیل انجم
جب سے پہلگام حملے کی وحشت ناک خبریں اور ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پہلے ہی کہاں تعلقات معمول پر تھے مگر اب تو وہی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جو پلوامہ حملے کے بعد ہوئی تھی۔ اُس واردات کے بعد ہندوستان نے بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائک کرکے دہشت گردوں کے ایک مرکز کو تباہ کر دیا تھا۔ لیکن ہندوستان کے ایک پائلٹ ابھینندن پکڑے گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ متعدد ممالک نے دباو ڈال کر ان کی واپسی کروائی اور جنگ کے بادل چھٹ گئے تھے۔ لیکن اس بار کیا کچھ ہونے والا ہے کہا نہیں جا سکتا۔ ممکن ہے کہ ہندوستان کی جانب سے پھر سرجیکل اسٹرائک جیسی کارروائی ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی چھوٹی موٹی جنگ ہی ہو جائے۔ ہندوستان نے فوری طور پر پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا اور پاکستان نے بھی جوابی اعلانات کیے ہیں۔ تاہم آگے کیا ہوگا، حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ جنگ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ لیکن دونوں ملکوں کے میڈیا میں ضرور جنگ ہو رہی ہے۔ ہندوستان کا قومی میڈیا دہاڑ رہا ہے اور پاکستان کے نیوز چینل ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں۔ چینلوں پر بیٹھی تجزیہ کاروں کی اکثریت طبلِ جنگ بجا رہی ہے۔ یہ دیکھ کر جسم میں سنسنی دوڑ گئی کہ ایک چینل پر پاکستان کا ایک یو ٹیوبر جس کا نام باسط علی ہے، اینکر کو بڑا سا چاقو دکھا کر کہہ رہا ہے کہ وہیں دہلی آکر تمھیں ذبح کروں گا۔ ادھر ہندوستان کے کچھ دفاعی تجزیہ کار بھی نیوز چینلوں پر اپنے شعلہ بار بیانات سے ماحول کو سنگین بنا رہے ہیں۔ اینکروں کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کو مدعو کرکے ماحول کو اور کشیدہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔ البتہ اس دوران کچھ سنجیدہ آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن وہ آوازیں نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے ایک سینئر صحافی نجم سیٹھی نے ایک پاکستانی نیوز چینل پر ہونے والی گفتگو میں بتایا کہ دریائے سندھ کا پانی بند کرنے میں ہندوستان کو کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر جنگ ہوئی تو پاکستان کو کن کن مسائل کا سامنا ہوگا۔ ان کے مطابق اس وقت ہندوستان امریکہ اور مغربی ملکوں کا محبوب بنا ہوا ہے لہٰذا جنگ کی صورت میں عالمی سطح پر ہندوستان کی پوزیشن مضبوط ہوگی اور پاکستان کی کمزور۔
قارئین چونکہ ہندوستانی میڈیا کی رپورٹنگ سے پوری طرح واقف ہیں اس لیے ہم اس کے بجائے پاکستانی میڈیا کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں۔ جس طرح یہاں کے ہندی اخبارات عوامی جذبات سے کھیل رہے ہیں اسی طرح وہاں کے اردو اخبارات بھی کھیل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان اخباروں کی یہ دلی خواہش ہے کہ جنگ ہو جائے۔ البتہ دونوں ملکوں کے انگریزی اخبارات کی زبان قدرے نرم اور قابومیں ہے۔ روزنامہ ’جنگ‘ پاکستان کا سب سے بڑا اردو اخبار ہے۔ اس میں یومیہ نصف درجن سے زائد کالم شائع ہوتے ہیں۔ اس وقت جو کالم چھپ رہے ہیں ان میں ہند مخالف اور جنگ حامی کالم بھی ہیں۔ ہم کچھ اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔ مرحوم جنرل حمید گل کی صاحبزادی عظمیٰ گل ایک مصنف، انسانی حقوق کی کارکن اور تجزیہ کار ہیں۔ جنگ کے 27 اپریل کے شمارے میں ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے زیر عنوان اپنے کالم میں انکشاف کرتی ہیں ’امریکی عسکری جہاز اسلحہ بھر بھر کر قطر سے ہندوستان پہنچ رہے ہیں۔ جبکہ ہندوستان (کی جانب سے) کشمیر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان سے جنگ چھیڑ کر کشمیر میں غزہ کی طرز پر کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے گی اور الزام پاکستان پر لگایا جائے گا‘۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انھیں اسلحے کی آمد اور کشمیری اسپتالوں میں ایمرجنسی کے نفاذ کی خبر کہاں سے ملی۔ سینئر صحافی، تجزیہ کار اور شاعر منصور آفاق نے 27 اپریل کے شمارے میں ’جنگ دستک دے رہی ہے‘ کے عنوان سے لکھا ہے ’بھارت اگر سمجھتا ہے کہ یہ جنگ صرف کشمیر کے اندر محدود رہے گی تو یہ اس کی سنگین خام خیالی ہے۔ اور اگر یہ سمجھتا ہے کہ یہ روایتی جنگ ہو گی تو یہ بھی ایک فریبِ نظر ہے .... ہم نے کچھ خاص نوعیت کے ایسے ایٹمی ہتھیار تیار کیے ہیں جو ایک مخصوص دائرے میں مکمل تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘۔ عبد اللہ طارق سہیل 26 اپریل کے شمارے میں وزیر اعظم مودی کو ڈرا ہوا بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں ’یہ معلوم کر کے کہ پاکستان کے پاس ممکنہ ’بھارتی جارحیت‘ کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے بلکہ پاکستان نے کیا کیا انتظام کر رکھا ہے، بھارت پریشان ہے بلکہ ڈرا ہوا ہے۔ اسے پتہ چل گیا ہے کہ میزائل اور ڈرون حملے کی صورت میں پاکستان کے پاس بہت اچھی فضائی شیلڈ ہے جو بھارت کے پاس نہیں ہے۔ اسے یہ بھی ڈر ہے کہ بات ٹارگیٹڈ حملوں سے بڑھ کر بڑی جنگ تک چلی گئی تو پھر کیا ہو گا۔ ’شائننگ انڈیا‘ ’ڈراﺅننگ انڈیا‘ نہ بن جائے‘۔ محمد اکرم چودھری ’ پرانی بھارتی فلم نیا پرنٹ، مکار کردار، جھوٹا بیانیہ‘ کے عنوان سے ہندوستانی میڈیا پر تنقید کرتے ہیں اور پاکستان کی فوجی برتری کی بات کرنے کے بعد امن کی اپیل بھی کرتے ہیں ’بین الاقوامی برادری دونوں ممالک کے درمیان امن اور بات چیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ سفارتی کوششوں اور مذاکرات کی حوصلہ افزائی سے تناو کو کم کرنے اور مزید بڑھنے کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ان خطرات کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے لیے تعمیری بات چیت میں مشغول ہونا اور بین الاقوامی برادری کے لیے کشیدگی میں کمی کی کوششوں کی حمایت کرنا ضروری ہے‘۔ سینئر صحافی محمود شام نے بھی اپنے قلم کو نرم رکھا ہے۔ وہ پاکستان، روس، چین اور ایران کے درمیان اتحاد کے امکان کی بات کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہمیں سفارتی طور پر فعال ہونا ہوگا۔ ایرانی قیادت سے ملاقات ضروری ہے۔ اسی طرح چینی قیادت سے بھی مشاورت کی جائے۔ ’ا سے صرف بھارت کی گیدڑ بھبکی نہ سمجھا جائے۔ یہ کسی عالمی سازش یا نیو گریٹ گیم کا حصہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اس کا مقابلہ سفارتی سطح پر کرنا ہوگا‘۔ روزنامہ جنگ کے مانند نوائے وقت، دنیا اور دیگر اردو اخبارات میں بھی ہند مخالف کالم شائع ہو رہے ہیں۔
روزنامہ ’ڈان‘ پاکستان کا ایک کثیر الاشاعت انگریزی اخبار ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے ’ایک بار پھر دہانے پر‘ کے زیر عنوان 28 اپریل کے شمارے میں لکھا ہے کہ دونوں ملک ایک بار پھر خطرناک تصادم کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان نے پہلگام حملے میں بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام عاید کیا ہے۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہندوستانی خارجہ سکریٹری نے اپنے بیان میں دہشت گردانہ حملے کے حوالے سے صرف ’کراس بارڈر تعلق‘ کی بات کہی ہے۔ لیکن ہندوستانی میڈیا ایک منظم مہم کے تحت پاکستان پر انگشت نمائی کر رہا ہے۔ وہ آخر میں مشورہ دیتی ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں چھیڑی جانے والی محدود جنگ کا تصور بے شمار خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ اس سے بہرصورت گریز کیا جانا چاہیے۔ اخبار ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر صورت حال کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد آخر میں کہتے ہیں ’ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی فوجی اور سویلین قیادت نے اقتصادی بحالی اور استحکام کو اولین ترجیح دی ہے پہلگام قتل عام جیسا واقعہ اس کے ترجیحی مقاصد کے لیے سراسر نقصان دہ ہوگا۔ ایسے کسی بھی واقعے کا نتیجہ بھارت سے زیادہ پاکستان کو بھگتنا ہوگا‘۔ وہ ثالثی کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کی ثالثی کی کوششیں پرامن حل کی امید پیدا کرتی ہیں جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح سینئر دفاعی تجزیہ کار محمد عامر رانا ’امن لابی کی تلاش میں‘ کے عنوان سے مختلف پہلووں اور خطرات کا جائزہ لینے کے بعد کہتے ہیں کہ اس صورت حال کو ٹالنے کے لیے امن لابی کیا کر سکتی ہے۔ قیام امن ے لیے قلیل مدتی کے بجائے طویل مدتی حکمت عملی اپنانی ہوگی اور امن کو امید بنانا ہوگا پالیسی نہیں۔
موبائل: 9818195929
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages