بہار نتائج: مجھ کو الزام نہ دو حال تم اپنا دیکھو
از: ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
۱۹۹۶ میں اٹل بہاری باجپائی کی 13 دن کی سرکار کو جب اعتماد کا وہ حاصل نہیں ہو سکا تو اسی وقت انہوں نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ وہ اب نیا سیاسی اتحاد قائم کر کے اپنی حکومت بنائیں گے نتیجے میں 1998 میں انہوں نے قومی جمہوری محاذ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھرے ۱۹۹۹ میں تیرہ ماہ بعد دوبارہ ان کی سرکار گری تو تیسری مرتبہ پھر وہ سب سے مضبوط محاذ کے قائد کی حیثیت سے کامیابب ہوئےاور وزیراعظم بنے ۔اور اس طرح تقریبا چھ سال وہ ملک کے وزیراعظم رہے۔ 1998 میں قائم شدہ قومی جمہوری محاذ تب سے لے کے آج تک لگاتار ایک مضبوط سیاسی محاذ کی حیثیت سے نہ صرف برقرار رہا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں 2004 اور 2009 کے علاوہ ہر مرتبہ بھارتی جنتاپارٹی لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی اور سب سے بڑے محاذکی حیثیت سے سرکار بنانے میں کامیاب ہوتی رہی ۔یہ محاذ ملک کے مختلف چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں پر مشتمل رہا ہے حتی کہ وہ پارٹیاں جن کا لوک سبھا یا صوبائی اسمبلیوں میں ایک بھی ممبر نہیں ہے وہ بھی اس محاذ میں شامل ہیں۔ بی جے پی کو لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل ہو جانے کے باوجود بھی ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو محاذنےنظر انداز نہیں کیا اور اقتدار میں برابر کی شراکت داری بھی تھی نیز صوبائی سطح پر بھی جو پارٹیاں مضبوط تھیں ان کی صوبائی سرکاریں بنانے میں بھی بھارتی جنتاپارٹی مدد کرتی رہی ۔جس کے نتیجے میں محاذمیں شامل پارٹیوں کو ہمیشہ بی جے پی پراعتماد برقرار رہا ۔مزید برآں دوسری سیاسی جماعتوں میں بدعنوانی کے الزامات میں ملوث بڑے لیڈران بھی اپنی پارٹی چھوڑ کے بی جے پی میں شامل ہونے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو پارٹی توڑ کے اپنا دھڑا لے کر محاذ میں شامل ہو کر اسے بھی طاقت عطا کرتے ہیں خود بھی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ لوک سبھا اور صوبائی اسمبلیوں سے لے کر پنچایت تک ساٹھ فیصد سے زیادہ اقتدار پر خود بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں قابض ہیں۔ حالانکہ ووٹ کے اعتبار سے اس محاذ کا مشترکہ ووٹ ۴۰ فیصد سے بھی کم ہے۔
اس کے برعکس حزب اختلاٖ ف کی سب سے بڑی کانگریس پارٹی ایسے کسی اتحاد کی حامی نہیں رہی۔ بلکہ ۱۹۸۹۔۱۹۹۱میں چرن سنگھ اور چندر شیکھر کو حمایت دے کر خود ہی ان کی حکومت کو گرا کےملک کو سیاسی اور اقتصادی بحران میں جھونک دیا۔ نیز۱۹۹۸ ۔۱۹۹۶ میں ایچ ڈی دیو گوڑا اور اندر کمار گجرال کی حکومت کے دوران بھی کانگریس کا یہی رویہ رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی بکھرتی ہوئی ، خاندان و ذات برادری کی سطح پر ابھرتی ہوئی سیاست اور ۱۹۹۸ میں قومی جمہوری محاذ کے قیام کے ذریعے مضبوط ہوتی ہوئی بی جے پی و غیر کانگریسی جماعتوں کی سیاسی زمین کے باوجود کانگریس نے ستمبر 1998 میں مدھیہ پردیش کے پنچ مڑھی میں ارجن سنگھ کے اصرار پر یہ تجویز پاس کر دی کہ وہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے کوئی الحاق کیے بغیر’’ ایکلاچالو رے‘‘کی پالیسی پر گامزن رہے گی۔ اور 2004 تک دیگر سیاسی جماعتوں کے اصرار کے باوجود اسی پالیسی پر قائم رہی۔
2004 میں جب واجپئی نے ایک غلط اندازے کی بنیاد پر چھ ماہ قبل ہی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اور پرمود مہاجن کے مشورے پر انڈیا شائننگ کا نعرہ دے کر ملک کا پہلا ہائی ٹیک الیکشن لڑا تو ان کی انتخابی مہم گاؤں تک پہنچنے میں ناکام ہو گئی، اور بی جے پی کو شکست کا سامنا ہوا۔ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہو سکا کہ واجپئی الیکشن ہار رہے ہیں حتی کہ بہت سے مسلمان رہنما بھی اسی بھرم میں تھے کہ وہ جیت جائیں گے، جس کے نتیجے میں بدنام زمانہ اٹل بہاری حمایت کمیٹی بنی تھی ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ دلی جامع مسجد کے امام صاحب بھی واجپئی جی کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس وقت فروری کے مہینے میں گزشتہ دو انتخابات کے تجزیے کی بنیاد پر 16 صفحات پر مشتمل ایک خط میں نے احمد پٹیل کے ذریعے سونیا گاندھی کو بھجوایا تھا۔ جس میں تمام 543 سیٹوں کا تجزیہ صاف بتا رہا تھا کہ کانگریس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے والی ہے۔ اور 19 پارٹیوں کا اتحاد قائم کر لیا جائے تو کانگرس 330 سیٹوں کے ساتھ ایک مضبوط حکومت چلا سکتی ہے معلوم نہیں میرے خط کا کوئی اثر ہوا یا نہیں لیکن اس سال انتخابی نتائج آنے کے بعد 16 مئی 2004 کو متحدہ ترقی پسند محاذ یو ۔پی۔ اے قائم ہو گیا۔ اور اگلے 10 سال تک منموہن سنگھ کی قیادت میں یہ اتحاد حکمرا ں رہا اس تناظر میں 1998 میں قائم این ڈی اے اور 2004 میں قائم یو۔ پی۔ اے کے مابین فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔
حالیہ حکمراں محاذ کی عمر 27 سال ہو گئی ہے۔ اس دوران یہ محاذ 17 سال سے ابھی تک حکمراں ہے۔ 2014 اور 2019 میں واضح اکثریت حاصل ہو جانے کے باوجود بھی اپنے حلیفوں کو اقتدار میں بھرپور ساجھے داری دی۔ اس کے برعکس سونیا گاندھی کی قیادت میں یوپی اے کی عمر 21سال ہے ۔اس عرصے میں محض 10 سال وہ اقتدار میں رہی ہے۔ لیکن اسی دوران ریاستی سطح پر اتحاد کے باوجود کانگریس زمینی سطح پر کمزور ہوتی چلی گئی اس کے حلیف بھی مستقل بنیادوں پر بدلتے چلے گئے ۔حتی کہ 2023 میں اس اتحاد کو توڑنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس نے 2004 میں انتہائی مجبوری کے عالم میں یہ اتحاد قائم کیا تھا ورنہ اس کی اصل منشا تو پنچ مڑھی کی ایکلا چالو رےکی پالیسی ہی رہی۔ اپنے اتحادی ہونے کے باوجود کانگریس اپنے حلیفوں کو کبھی بھی اعتماد میں نہیں رکھ سکی۔ اتحادی پارٹیوں کو کانگریس کا ووٹ بھی مشکل سے ہی ملتا ہے جن ریاستوں میں کانگرس کا وجود تقریبا ختم ہو چکا ہے مثلا شمال مشرقی ریاستیں بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال وغیرہ میں بھی کانگریس اپنے حلیفوں سے زیادہ سیٹیں لینا چاہتی ہے۔ اور جہاں کانگریس مضبوط ہے۔ وہاں حلیفوں کو کچھ دینا بھی نہیں چاہتی مثلا ہریانہ مہاراشٹر ،گوا ،گجرات وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یو پی اے یا موجودہ انڈیا اتحاد میں شامل تقریبا تمام ہی پارٹیاں کسی نہ کسی وجہ سے کانگریس سے ٹوٹ کر ہی بنی ہیں یا اس کی مخالفت کے لیے وجود میں آئی ہیں۔کانگریس چاہتی ہے کہ ان پارٹیوں میں بکھرا ہوا اس کا ووٹ واگزار ہوجائے۔ اس طرح پارٹیاں بھی جانتی ہیں کہ اپنی ریاستوں میں وہ ذرابھی کمزور ہوئیں تو کانگریس ان کو مٹا دے گی ۔کانگریس کی سیاسی تاریخ کو بہرحال سبھی جانتے ہیں۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر جہاں پر اس محاذکے امیدوار ہوتے ہیں وہاں کانگریس کا ووٹ بی جے پی کو شفٹ ہو جاتا ہے ۔اور جہاں کانگریس کے امیدوار ہوتے ہیں وہاں ان پارٹیوں کے ووٹ بی جے پی کو چلے جاتے ہیں ۔اتر پردیش میں 2022 کے انتخاب میں سماج وادی پارٹی کانگریس کی اتحاد کے دوران یہ ٹرینڈ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جہاں کانگریس یا اتحادی پارٹیوں کے مسلم امیدوار ہوتے ہیں وہاں بھی ان پارٹیوں کا غیر مسلم ووٹ ٹرانسفر نہیں ہوتا ۔ 2023 میں جب انڈیا اتحاد بن کر سامنے آیا تو اس میں شامل بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین رسہ کشی کی اصل وجہ یہی تھی۔ جس کے نتیجے میں مشکوک نتیش کمار نے انڈیا محاذ کو چھوڑ کر اپنے سیاسی مستقبل کی بقا کے لیے پھر ایک بار پی جے پی کا دامن تھام لیا ۔اور ہزار اختلاف کے باوجود بی جے پی نے بھی انہیں دوبارہ قبول کر لیا ۔اسی طرح ممتا بنرجی اور اروند کیجریوال نے بھی کانگرس پہ بھروسہ نہیں کیا۔ اور نتیجے میں مہاراشٹر، ہریانہ کی شکست کی صورت سامنے آگئی۔ اس تمام سیاسی کشاکش کے بیچ بوتھ کی سطح پر تقریبا تمام ہی سیاسی جماعتوں کا زمینی ورکر بھی اپنا پالا بدلتا رہتا ہے ۔گویا اب کوئی مستقل سیاسی نظریاتی نیٹورک بی جے پی کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس باقی نہیں بچا۔ ان حالات میں کسی بھی سیاسی محاذکی قیادت اگر کانگر یس کے پاس رہتی ہے تو مستقبل میں کسی بھی سیاسی تبدیلی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
اس پر طرہ یہ کہ ۱۹۹۸ کے بعد سےملک کی سیاست لگاتار مبنی بر شناخت ہوتی جارہی ہے ۔ خود بی جے پی ہندو مذہبی شناخت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے وہیں دیگر پارٹیاں بھی صوبائی، برادری اور خاندانی بنیادوں پر سیاست کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ لیکن جہاں ایک طرف دونوں محاذ کسی بھی قسم کی شناخت پر مبنی سیاسی جماعت کو اپنے محاذ میں حصہ دینے کے لیے تیار رہتے ہیں وہیں دوسری طرف مسلمانوں کی شناخت پر مبنی سیاسی جماعتوں کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر آسام میں کانگریس نے بی جے پی کی حکومت کو تو گوارا کر لیا، لیکن بدر الدین اجمل کے ساتھ انتخابی مفاہمت کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح بہار میں تیجسوی یادو کی راجد نے اپنی شرمناک شکست کو تو قبول کر لیا لیکن اویسی کے ساتھ کوئی اتحاد کرنا پسند نہیں کیا ۔ گو کہ شناخت پر مبنی سیاست سے جمہوریت کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ملک کی ہمہ جہت ترقی ۔ یکجہتی اور سالمیت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اگر ملک کی سیاست یہی رخ اختیار کرچکی ہے تو پھر مسلم شناخت والی پارٹیوں کو قبول کرنے میں بھی کیا تامل ہے۔ ہندوتو ا کی توسیاسی پالیسی ہی یہ ہے کہ اقلیتی شناخت کو ہر سطح پر ختم کردیا جائے پھر سیکولر محاذ اس پالیسی پہ کیوں عمل کرتی ہیں۔ کیا نرم ہندوتوا نہیں ہے۔
۔ بہار کے موجودہ انتخابی نتائج کاپس منظر دراصل یہی ہے۔ اس لئے راہل گاندھی کا ووٹ چوری کا دعوی شکست کے زمینی اسباب کے غلط تجزیے کا نتیجہ ہے یا پھروہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش۔ پارٹی کی اندرونی کمزوریاں ،پارٹی میں اہم عہدوں پر فائز آرایس ایس کے کیڈر اور سیکولر خیمے کے مابین رسہ کشی، اتحادیوں کا عدم اعتماد اور عوامی سروکار کے اصل معاملات سے کنارہ کشی اور اتحادیوں کو اپنا ووٹ شفٹ کرانے میں ناکامی، زمینی انتخابی حکمت عملی کی کمزوری اصل وجہ ہے۔وگرنہ 1952 سے اب تک 18 پارلیمانی انتخابات میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس میں بدعنوانی نہ ہوئی ہو، خود 1975 میں ملک کی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے اوپر سرکاری مشینری کو استعمال کر کے بدعنوانی کرنے کا الزام الہ آباد ہائی کورٹ میں 12 جون 1975 کو ثابت ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی غلطی ماننے کے بجائے 21 جون 1975 میں ایمرجنسی کی صورت میں ملک کو سزا دی۔ عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کے بجائے انتخابی بدعنوانی کی مرتکب وزیراعظم نے ملک سے جمہوریت کو ہی چھین لیا تھا۔
بہار کے نتائج کا قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ گزشتہ 35 سال سے مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ فیصد میں کوئی نمایاں فرق نہیں آیاہے۔ہر محاذ کو اس کا اپنا طے شدہ ووٹ ہی ملتا ہے ۔ اس بار بھی برادری کی بناد پر ہی ووٹ پڑا ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جب ووٹ فیصد نہیں بڑھتا تو سیٹوں کی تعداد میں اتنا نمایاں فرق کیسے آجاتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے دیگرامیدواروںکو ملنے والے ووٹ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ دیگر پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو کل ملا کر 14 فیصد ووٹ حاصل ہوا ہے ۔ اس میں 3.4 فیصد ووٹ پرشانت کشور کا کو ملا ہے۔ بی جے پی کی پرانی حکمت عملی ہے کہ وہ مبینہ سیکولر جماعتوں سے دلبرداشتہ مگر سیکولرووٹر جو کسی قیمت پہ بھاجپا کو ووٹ نہیں دینا چاہتا اسے ایک راہداری دے دیتی ہے ۔ چنانچہ 2013 میں عام آدمی پارٹی کا قیام بھی اسی لیے عمل میں آیا تھا کہ کانگریس سے مایوس سیکولر ووٹ کو ایک نئے سیکولر لگنے والے سیاسی گروپ کی طرف موڑ کے اسے ضائع کر دیا جائے۔ اسی طرح اس بار بہار میں پرشانت کشور سے یہی کام لیا گیا ۔یہ کام پورے ملک میں بی ایس پی بھی کرتی رہتی ہے۔ اسی عمل سے مہا راشٹر اور ہریانہ جیتنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کا امکان آئیندہ بھی موجودہے۔
ان حالات میں مبینہ سیکولر محاذکی شرمناک شکست سے مایوس مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں ہونے سے قبل اسی انتخابی حکمت کو سمجھناچاہیے ۔یہ بالکل غلط الزام ہے کہ مسلمان اپنا ووٹ تقسیم کر دیتے ہیں ۔سچ یہ ہے کہ نام نہاد سیکولر جماعتیں خود اپنا ووٹ متحد نہیں کر پاتیں۔ خود ایک دوسرے کو ووٹ ٹرانسفر نہیں کروا پاتیں ۔اور مسلمان مفت کا چارہ بن کر انتشار کا الزام اپنے سر لے لیتے ہیں۔ مثلاً 2024 کے لوک سبھا انتخاب سے حالیہ بہار اسمبلی انتخابات تک بحیثیت مجموعی مسلم ووٹ انڈیا اتحاد اور مہاگٹھبندھن کے سوا کس کو ملا ہے۔ ہر انتخاب میں 80 سے 90 فیصد مسلم ووٹ ایسی ہی کسی مبینہ سیکولر پارٹی یا محاذ کو ملتا رہا ہے اس سے زیادہ متحد ہو کر ملک کا کوئی بھی دیگر طبقہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ نہیں دیتا ۔ مسلم رہنماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کی طرف سنگ دشنام اچھالنے سے قبل انتخابی نتائج کا تجزیہ کر لیا کریں تاکہ امت کو مایوسی کے قعر مذلت میں جھونکنے کے جرم سے بچ سکیں ۔
