Arzdasht for Publication

7 views
Skip to first unread message

safdar imam Quadri

unread,
Jun 30, 2024, 2:38:24 AMJun 30
to tasdeeq...@gmail.com, syedrai...@gmail.com, pindar2010, pindar2010, Anwarul hoda, The Siasat Daily, editor.as...@gmail.com, Qindeel Online, qtd1patna, qtdlu...@gmail.com, anwar....@gmail.com, Qamar Azam, qaumisah...@gmail.com, qmr...@gmail.com, abdul wahab, Wahdat-e-Nau Fortnightly, Delhi, uniurduservice <uniurduservice@gmail.com>, rsahara <rsahara@rediffmail.com>, salimsiddiqui1962@gmail.com, izhar1975@gmail.com, hamarasamaj <hamarasamaj@gmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@rediffmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@gmail.com>, urdusahafat <urdusahafat@gmail.com>, mashriq786 <mashriq786@rediffmail.com>, mashriq92@gmail.com, Anjum Jafri <anjumjafri786@gmail.com>, shakeelshamsiinquilab@gmail.com, mashriquiawaz <mashriquiawaz@yahoo.com>, urdunetdaily@yahoo.com, khurramammar@yahoo.co.in, Shahnawaz Khurram <ncpulsaleunit@gmail.com>, Meri Manzil <manzil.meri@gmail.com>, zia.haq@hindustantimes.com, ziasalam@gmail.com, sadae watan <sadaewatan583@gmail.com>, imranjnu3@gmail.com, Jadid Khabar <jadidkhabar@gmail.com>, khabardaar@yahoo.com, P.Kareemullah Khan, waraquet...@gmail.com, wasiullah husaini, Mahmood Shahid, edi...@urdutimes.net, Akhbar Mashriq, Etemaad Urdu Daily, Hyderabad, Subah Kashmir, ekqaum.u...@gmail.com, edi...@millat.com, Ahmad Rashid, Roznama Awam, Jamshed Rahmani, Jawaid Rahmani, Alwatan Times, Md.Taiyab Numani, Farooqui Tanzeem, Star News Today, Millat Times, aziz tanzim, yaqeen sadiq, Pyari Urdu, Musalman Urdu Daily, Chennai, ROZNAMA KHABREIN,NEW DELHI, Aag Urdu Daily, Lucknow, Salar Urdu Daily, Bangalore, Naqueeb Imarat shariah, Ishtiraak Com, inquilab urdu daily, Ovais Sambhli, uniurduservice <uniurduservice@gmail.com>, rsahara <rsahara@rediffmail.com>, salimsiddiqui1962@gmail.com, izhar1975@gmail.com, hamarasamaj <hamarasamaj@gmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@rediffmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@gmail.com>, urdusahafat <urdusahafat@gmail.com>, mashriq786 <mashriq786@rediffmail.com>, mashriq92@gmail.com, Anjum Jafri <anjumjafri786@gmail.com>, shakeelshamsiinquilab@gmail.com, mashriquiawaz <mashriquiawaz@yahoo.com>, urdunetdaily@yahoo.com, khurramammar@yahoo.co.in, Shahnawaz Khurram <ncpulsaleunit@gmail.com>, Meri Manzil <manzil.meri@gmail.com>, zia.haq@hindustantimes.com, ziasalam@gmail.com, sadae watan <sadaewatan583@gmail.com>, imranjnu3@gmail.com, Jadid Khabar <jadidkhabar@gmail.com>, khabardaar@yahoo.com, P.Kareemullah Khan, Pens Lens, Sangam Patna, Jadid Life Urdu Daily, Delhi, lazawa...@gmail.com, labbo...@gmail.com, aabshar Urdu Daily, Kolkata, Aaj ki khabar, Kashmir Uzma Urdu Daily, Srinagar, Siyasat Jadid, jasaratb...@gmail.com, jasara...@gmail.com, jasara...@gmail.com, Hale Watan, Hamara Samaj, Hamara Nara, Athar Hussain Ansari, M Gauhar, Shahid Habib Falahi, ftanzeem, farooqitanzeem, farooquit...@gmail.com, AWADHNAMA Newspaper, awaze bihar, baseera...@gmail.com, bazmeqalam, viqare...@yahoo.com, VIQAR-E- DECCAN, Zafar Siddiqui

عرض داشت

کرکٹ کی بادشاہت حتمی طور پرسیاہ فام دنیاکے ہاتھوں میں

رواں عالمی کپ ٢٠٢٤ء میں انگلینڈ ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈجیسے کرکٹ کے روایتی مالک و مختار ممالک

کا وقار خاک میں مل گیا اور نئے ممالک ابھر کرسامنے آنے لگے۔

صفدر امام قادری

 شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ

                کرکٹ کوساٹھ ستّر برس تک گوروں کاکھیل کہاجاتاتھا اور انگلینڈ ، آسٹریلیاکے ساتھ کرکٹ کے رکارڈ بُک میں ابتدائی سارے اعداد و شماراِنھی کے نام ہیں۔ ان کے پیچھے پیچھے نیوزی لینڈ بھی سفید فام دنیاکے اس کھیل کا حصّہ بنا۔کوئی مُلک اپنے کھیل میںاِن گوروں سے مقابلہ نہیں کر پاتا تھا۔ بلّے بازی ، تیز گیند بازی اور اِسپن گویا سارے جہانوں کے ماہرین انگلینڈ اور آسٹریلیا میں ہی بستے تھے۔رفتہ رفتہ دوسرے ممالک ٹسٹ کھیلنے کے لیے میدان میں ضرور آئے مگر وہ ہارنے کے لیے آتے تھے اور آسٹریلیا انگلینڈ اپنی سہولت یا موقعے کے اعتبار سے اپنی سرفرازی میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ ہندستان ، مشرقی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور پاکستان جیسے ممالک کے داخل ہونے کے باوجودآسٹریلیا اور انگلینڈاپنی بادشاہت کو بچانے میں کامیاب رہے۔

                یہ تو محض٦٥ـ١٩٦٠ء کے دوران کرکٹ میں ایک ایسی کالی آندھی اُٹھی جس کی چپیٹ میںگورے دیشوں کا کھیل اور ان کے رکارڈ بُک کے صفحات اُلٹ پلٹ گئے۔ویسٹ انڈیز، پچھلی صدی کی ساتویں دہائی میں اپنے تیز گیند بازوں کی بہ دولت کچھ اس طرح سے کرکٹ کے میدان میں آیا جسے یہ معلوم تھا کہ اس آندھی کا مقابلہ کوئی نہیںکر سکے گا۔ہال، گارنر، ہولڈنگ، مارشل، کولن کرافٹ جیسے گیند بازوں کی بہ دولت کرکٹ کی یہ دنیااچانک بدل گئی۔ روہن کنھائی،گیری سوبرس اور ان کے بعد وِوِین رجرڈس، کلائیو لائیڈ اور کالی چرن نے عالمی سطح کی بلّے بازی کی اور کامیابیاں حاصل کیں مگرویسٹ انڈیز کی جانب سے جو کالی آندھی اُٹھی تھی وہ ان خطرناک گیند بازوں کی وجہ سے تھی جس کا خوف ایک عالم کو تھا اور کہا جاتا تھا کہ ٹسٹ میں دو سو رَن ویسٹ انڈیز کے بلّے باز بنا لیں تواُن کے گیند باز مخالف ٹیم کو سو رنوں پہ گِرا دیں گے۔اس دور میں ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے شامل تمام ممالک کو اپنے قہر سے خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ گوروں کی کرکٹ میں بادشاہت پر یہ پہلی قدغن تھی۔

                اِسی دوران ١٩٧٥ء میں کرکٹ کی ایک نئی مقبول دنیا ہمارے سامنے آئی اور محدود اُووروں پر مشتمل یک روزہ مقابلوں کا عالمی کپ شروع ہوا۔ پہلا اور دوسرا کپ کلائیو لائیڈ کی سربراہی میں ویسٹ انڈیزکی کالی آندھی والی ٹیم نے ہی جیتا اوردنیا نے دیکھا کہ وہ مقابلے انگلینڈ میں ہو رہے تھے مگراُس کے ہیروسیاہ فام ویسٹ انڈین کھلاڑی تھے۔ان دونوں عالمی کپ میں ہندستان شکست در شکست کی ذلت میں مبتلا رہااور سُنیل گاوسکر کی وہ تاریخی اِننگ لوگوں کو از راہِ مذاق یاد ہے جب انھوں نے ساٹھ اُوور کی غیر مفتوح بلّے بازی میں کل ٣٦ رنز بنائے تھے۔ سمجھنا یہ ہے کہ اُس دور کے ہندستانی کرکٹ میںیک روزہ کھیل کے مزاج کو سمجھنے والے ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔

                ١٩٨٣ء کے عالمی کپ میں ویسٹ انڈیز کا کھلا دعوا تھا کہ ورلڈ کپ وہ تیسری بار جیتیں گے۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ وہ سیمی فائنل تک پہنچیں اور پچھلے دو ورلڈ کپ کی طرح ویسٹ انڈیز سے فائنل میں ہار کر کلائیو لائیڈ کو تاج پہنا دیں۔اسی بیچ ویسٹ انڈیز سے بالکل دوسرے خطّے مشرق سے ایک سیاہ فام نوجوان کی قیادت میں ہندستا ن کی ٹیم انگلینڈ پہنچی تھی۔ کرکٹ کے مہا پنڈتوں کا اعلان تھا کہ یہ ٹیم خانہ پوری کے لیے پہنچی ہے اور جس کا کھُلا اعلا ن ہے: لو ہم آ گئے، ہمیں ہرائو۔

                اس بار کچھ نئے ارکان بھی ورلڈ کپ میں شامل ہوئے تھے جس میں زمبابوے کی کم زور ٹیم بھی شامل تھی مگر لیگ کے ایک میچ میں زمبابوے نے ١٧ رنز پر ہندستان کے پانچ وکٹ گرا دیے اور ہر آدمی اس بات کے لیے تیار ہو گیا کہ ٹیم کا مجموعہ اسکور اگر پچاس رنز بھی ہو جائے تو ٹیم کے لیے بڑی بات ہے۔ ابھی تک ورلڈ کپ میں سیاہ فام ٹیموں میں سے کلائیو لائیڈ، ووین رچرڈس کو لمبی پاری کھیلتے اور بلّے سے آگ برساتے دیکھا گیا تھا مگر انگلینڈ کے اُس گرم دن میں کپِل دیو نے وہ طوفان پیدا کیا کہ یک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں انفرادی اسکور کا ایک نیا رکارڈ لکھا گیا اور جس ملک سے کسی بلے باز نے سنچری نہیں بنائی تھی، اس مُلک سے ایک ہریانوی جاٹ کپل دیو نے ١٧٥ رنز بنائے اور یہ واضح کر دیا کہ نوجوانوں کی یہ ٹیم تجربے میں کم ضرور ہے مگراپنے جوش اور جذبے سے کچھ کرکے جائے گی۔سب کو یاد ہے ٢٦ جون ١٩٧٥ء کو لارڈس میں کپل دیو نے تیسرا عالمی کپ اپنے ہاتھ میں نہیں اُٹھایا بل کہ کرکٹ میں سیاہ فام اقوام کی طاقت کی نئی راہیں کھولنے کا اعلان کیا۔اب تک کرکٹ میں جو ممالک آگے آگے نظر آ رہے تھے ، وہ چھوٹے مُلک تھے اور ان کی آبادیاں کم تھیں ۔اب یہ موقع ملا تھا کہ بڑی آبادی کا مُلک کرکٹ کی سر براہی حاصل کر رہا تھا۔

                ہندستان میں اس کھیل کی مقبولیت نے بڑے لوگوں کے ڈرائینگ روم سے نکال کر گانو دیہات تک اسے پہنچا دیا۔ دیکھتے دیکھتے سیاہ فام ممالک سے سری لنکااور بنگلا دیش کی ٹیمیںداخل ہوئیں۔ زمبابوے کے بعد کینیا کو جگہ ملی اور پھر جنوبی افریقہ کی نئی حکومت کے قیام کے ساتھ وہاں کی سیاہ فام آبادی کو کھیلنے کا موقع ملا۔یہ دھیان رہے کہ ہندستان کی تقسیم کے ساتھ ہی پاکستان کی ٹیم بھی کرکٹ میں چلی آئی تھی۔آج افغانستان کو بھی کرکٹ کے ایلیٹ پینل کا حصّہ بننے کا موقع ملا ہے۔خلیج کے ممالک کی بہت ساری ٹیمیںاور امریکا ،کینیڈاجیسے ممالک میں بھی سیاہ فام افراد کی شرکت سے گوروں کا یہ کھیل یا تو سب کا کھیل بن گیا ہے یا سیاہ فام تفوّق کی نئی تاریخ لکھنے کے لیے تیار ہے۔

                اس بار عالمی کپ میں لیگ کی سطح پر نیوزی لینڈ کے ساتھ پاکستان کو بھی رخصت ہونا پڑا۔ سری لنکا کی ٹیم کا بھی یہی حشر ہوا۔ ٹسٹ کھیلنے والی ان تینوں ٹیموں کو میدان میں اُن سے دیکھنے میں کم زور ٹیموں نے دھول چٹائی۔امریکا کی ٹیم نے جس سلیقے سے اپنا پہلا عالمی کپ کھیلا ، وہ یاد گار مانا گیا اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کرکٹ نئے جہانوں تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔کوارٹر فائنل کے دور میں ویسٹ انڈیز اور بنگلا دیش تو ہارے ہی ، سب سے کمال آسٹریلیا کا باہر ہونا نظر آیا جسے ہندستان ہی نے نہیں بل کہ افغانستان نے بھی اس کی موجودہ حیثیت دکھا دی۔سیمی فائنل میں ہندستان نے انگلینڈ کی ٹیم کو جس طرح سے ہرایا، اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بلّے بازی اور گیند بازی دونوں میں ہندستان کی ٹیم اس سے مضبوط تھی۔اس ورلڈ کپ میں مشرقی خطے سے اُبھر کر افغانستان کی ٹیم نے جس طرح پُر وقار انداز میں سیمی فائنل تک کا سفر طَے کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب وہ بڑی ٹیموں سے ہر موقعے پر دو ہاتھ کرنے کے لیے تیّار ہے۔ مشکل سیاسی اور سماجی حالات کے باوجود افغانستان نے اپنے کھلاڑیوں کو بڑے مقابلوں کے لیے جس طرح تیّار کیا، وہ بتاتا ہے کہ اس کھیل کا مرکز آسٹریلیا اور انگلینڈ سے نکل کر ہندستان اور تیسری دنیا کے ممالک میں آ گیا ہے۔

                پچھلی دو دہائیوں سے ہندستان کا کرکٹ بورڈ دنیا کا سب سے دولت مند بورڈ قرار دیا جاتا ہے اور کرکٹ کے عالمی فیصلوں میں ہندستان کا دخل ویٹو کے درجے تک ہے۔اب سے ٣٧ سے ٤٠ پہلے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کرکٹ بورڈوں کی تھی۔ رفتہ رفتہ ہندستان کے آس پاس کی جو ٹیمیں آگے بڑھ رہی ہیں، کہیں نہ کہیںہندستان میں کرکٹ کی مقبولیت اور اس کھیل میں عوامی دولت کی شمولیت ہی اصل سبب ہے۔کرکٹ کے کھلاڑیوں پر پیسوں کی برسات اگر ہندستان میں ہوتی ہے تو اس کے آس پاس پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا اور افغانستان میں بھی اس کی دیکھا دیکھی ہوگی اور وہاں بھی کرکٹ کو فروغ دینے کے اُسی انداز اور طریقے کو آزمانے کی کوشش ہوگی۔ ہندستان کا آئی پی ایل اپنے آپ میں عالمی کرکٹ کی وہ تجربہ گاہ ہے جہاں چند آزمائشوں میں مبتلا ہوئے بغیر انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کا بھی بھلا نہیں ہو سکتا۔اُن کے ممالک میں اُن کو اتنی میچ فیس نہیں مل سکتی جو انھیں چند مہینوں کی کوششوں سے ہندستان میں حاصل ہو جاتی ہے۔موجودہ ورلڈ کپ میں آئی پی ایل کے تجربے بہت سارے مُلکوں کے کھلاڑیوں کے کام آئے۔ پاکستان کے پچھڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کی گھریلو ٹیمیں اس معیار کی نہیں ہیںجس طور پر ہندستان میں گھریلوکرکٹ اور پھر آئی پی ایل کے مقابلے ہو رہے ہیں۔

                ٢٠٢٤ء کے عالمی کپ میں سیاہ فام ہندستان اور جنوبی افریقہ کو تاج چاہیے۔ ہمارے لیے خوشی کی یہ بات ہے کہ اس تاج کی جنگ میں آسٹریلیا ، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسے سفید فام موجود نہیں اور سیاہ فام ممالک نے انھیں بار بار ہرا کر اپنے دیشوں میں واپس بھیج دیا ہے۔ یہاں سے کرکٹ کی مقبولیت کے نئے دریچے وَا  ہوں گے اور تیسری دنیاکے مُلکوں میں اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔

 

]مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں[

safdarim...@gmail.com




Arzdasht 29 June 2024 pt.pdf
Arzdasht 29 June 2024 pt.inp
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages