”مولانا محمد عثمان فارقلیت صحافی، مناظر مفکر“

17 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
May 14, 2024, 2:22:35 AMMay 14
to bazme qalam
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو
اسعد علوی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ
آج کل میں بے انتہا اہم اور ضخیم کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اس کتاب کے ذکر سے پہلے اس کے مصنف سہل انجم صاحب کا ذکر بہت ضروری ہے۔ سہل انجم دور حاضر کے ان چند صحافیوں میں ہیں جنھوں نے صحافت کی اعلیٰ قدروں اور ایمانداری، بیباکی اور صاف گوئی کا دامن نہ ایمرجنسی کے زمانے میں چھوڑا اور نہ آج۔ جبکہ غیر جانبدار صحافت ارباب حکومت کے خوف سے دم توڑ چکی ہے۔ سہل انجم صحافت کے ستون بن کے اقتدار اور حاکم وقت کی آنکھوں میں آنکھیں  ڈال کر کبھی وائس آف امریکہ سے، کبھی روزنامہ انقلاب سے اور کبھی قومی آواز سے اور اس کے علاوہ اردو کے کئی اور اخبارات سے ملک اور ملّت کے حق میں آواز بلند کر تے رہتے ہیں۔ آج گودی  میڈیا  کی اصطلاح صحافت کے منھ پر ایک بدنما داغ  بن گئی ہے۔ صحافت کے اس سیاہ دور میں اگر کوئی سچ کا دامن نہ چھوڑے تو یقیناً وہ مجاہد ہے۔
سہل انجم متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ ان کی مرتب کردہ کتاب کا نام جس کا میں مطالعہ کر رہا ہوں ”مولانا محمد عثمان فارقلیت صحافی، مناظر مفکر“ ہے۔ یہ کتاب۲۱۵/ صفحات، نو ابواب اور کم و بیش دو سو بتیس مضامین پر مشتمل۔ باب اول حرف اعتراف ہے جس میں ہندوستان کے مایہئ ناز صحافیوں نے مولانا فارقلیط کی صحافت کے بارے میں مضامین لکھے ہیں۔ پروفیسر اخترالواسع نے مولانا کو قلم کی حرمت کے امانتدار کا لقب دیا ہے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے مولانا کو ایک انمول ہیرا کہا ہے۔ مولانا امداد صابری نے ایک منفرد صحافی اور منفرد انسان کہا ہے۔ الغرض کسی نے مجاہد، مفکراور ممتاز صحافی تو کسی نے بیباک صحافی اور کسی نے عجب آزاد مرد کہا۔ خود صاحب کتاب سہل انجم نے مولانا فارقلیط کو امن و اتحاد اور فرقہ وارانہ یکجہتی کا مبلغ تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ مولانا ایک کثیر المطالعہ  اور علمی  سرگرمیوں سے شغف رکھنے والے انسان تھے۔
مولانا کے صاحبزادے محمد فاروق صاحب نے کچھ ایسے ذاتی واقعات کا ذکر کیا جو شائد کسی اور کے علم میں نہ ہوں۔ ان کے مضمون سے ہی علم ہوا کہ آزادی سے قبل مولانا لاہور میں اخبار زم زم کے مدیر تھے اور انھیں جن حالات میں لاہور سے ہجرت کرنی پڑی اس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا تقسیم ملک کے قطعی حامی نہیں تھے۔ باب دوم بھی کافی اہم ہے۔ یہ مولانا کی خود نوشت ہے۔ اس باب میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد عنوان سے مولانا نے اپنی زندگی کے کچھ اوراق دنیا کی نذر کر دیے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ۵۳۹۱ء یعنی آزادی سے پہلے ضروری اشیاء کے کیا دام تھے۔ مولانا لکھتے ہیں اس وقت تمام اشیاء کی ارزانی اور بہتات کا حال یہ ہے کہ گھر کے چھ افراد پر روز بارہ آنے صرف ہوتے تھے۔ ایک روپیہ کے ۵۲/ سیر گندم۔ باجرہ چنا اور مکئی اور بھی سستی۔ لکڑی کا کوئلہ آٹھ آنے میں پندرہ  سیر (ڈلیوری ایٹ ڈور سٹیپ) Delivery at Door Step  چاول باسمتی آٹھ سیر  فی روپیہ،  خالص گھی سوا سیر فی روپیہ، سبزیاں بے حد سستی۔ آج کے تناظر میں اگر دیکھیں تو مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس وقت ضروری اشیاء کی قیمت اتنی کم تھی کہ آج مفت جیسا تصوّر ہوتا ہے۔
باب سوم میں مولانا کے منتخب مضامین میں مولانا فارقلیط کا ایک مضمون آپس میں بات چیت کے آداب قابل ذکر ہے۔ یہ مضمون ہی نہیں بلکہ اس بیمار قوم کے لیے ایک نسخہ ہے۔ مولانا نے قرآن پاک کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حسن سلوک اور رواداری سے پیش آنا چاہیے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ تم دشمن کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آؤ گے تو یہ بھی تمھارا گاڑھا اور سچا دوست بن جائے گا۔ حضرت شیخ سعدی نے فرمایا ہے:
شنیدم کہ مردان  ر اہ خدا، دل دشمناں ہم نہ کر دند تنگ
ترا کے میسر شود ایں مقام، کہ بادو ستانت خلاف است و جنگ
باب چہارم مو لانا کے منتخب اداریے ہیں۔ اس باب میں لگ بھگ ۷۶۱/ اداریے ہیں۔ سہل انجم نے ان اداریوں کی مزید ذیلی درجہ بندی کر دی ہے۔ پہلے باب کا نام ”مسلمانوں سے خطاب“ ہے۔ مولانا کے ان اداریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا صرف صحافی یا مدیر ہی نہیں مسلمانوں کے رہنما بھی تھے جو قوم کی اصلاح کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ اس سلسلے میں اس کتاب سے الگ مولانا کا ایک اصلاحی قدم میرے علم میں بھی ہے۔ اکثر لوگ محنت کش لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ انھیں ان کے پیشوں کے نام سے پکارتے ہیں۔ لکڑی کے کام کرنے والے کو بڑھئی۔ لوہے کے کاریگر کو لوہار و غیرہ۔ مولانا نے تمام ایسے محنت کشوں کو منظم کرکے ایک جماعت سیفی کی تشکیل کی اور ایسے سب محنت کش حضرات اپنا سر نیم ”سیفی“ لکھنے لگے۔
بہر حال اس باب کا دوسرا حصہ ”عالم اسلام“ ہے۔ اس میں خلائی سفر اور مسلمان۔ مسجد اقصٰی۔ معراج عروج آدم کی نوید وغیر اداریے شامل ہیں۔ پھر فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے لگ بھگ پچاس اداریے اس کتاب میں شامل ہیں۔فرقہ وارانہ فساد کے حوالے سے ۸۲/ فروری ۱۶۹۱ء کا ایک اداریہ بہت اہم ہے ”حملے منظم تھے“۔ یعنی ۱۶۹۱ء میں بھی  جب کانگریس کی حکومت تھی، مسلمانوں پر حملے منظم طریقے سے ہوتے تھے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت  کے وزیر اعلیٰ جو یقیناً کانگریس کے رہے ہوں گے، انھوں نے اپنی  خفیہ رپورٹ اور اسمبلی کے بیان میں مرکزی حکومت کا یہ ذہن بنایا کہ حملہ آور مسلمان تھے۔ جبکہ غیر جانبدار تنظیموں نے کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کی۔ ایک دوسرے اداریہ میں مولانا نے اس و قت کے وزیر داخلہ کو مسٹر نندا کہہ کر خطاب کیا ہے۔ مسٹر نندا سے مراد گلزاری  لال نندا ہوں گے۔ انھوں نے مسٹر نندا کی تعریف بھی کی کہ انھوں نے تمام پارٹیوں کی میٹنگ بلائی۔ مولانا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پیروکار تھے لہٰذا ان کے فسادات سے متعلق اداریوں میں حکومت کی تنقید اور فسادات روکنے کی تدبیر دونوں شامل ہیں۔
ان اداریوں سے ایک بات صاف ہوتی ہے کہ کانگریس کے دور میں اظہار خیال کی آزادی پر حکومت کی پابندی نہیں تھی اور صحافی حضرات دل کھول کر تنقید کرتے تھے۔ ایک اردو اخبار کے مدیر اور اردو صحافی کے لیے اردو سے محبت اور اردو کی بقا کے لیے فکر ایک فطری بات ہے لہٰذا مولانا محمد عثمان فارقلیط نے اردو کے حوالے سے بھی کثیر تعداد میں اداریے لکھے ہیں۔ مولانا نے اردو دشمنی کو حقیقت میں مسلم دشمنی کے مترادف مانا ہے۔
آج کے دور میں فرقہ پرستی اور اردو دشمنی کا ٹھیکرہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے سر پھوڑا جاتا ہے لیکن ۱۳/ اگست ۲۷۹۱ء کا اداریہ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت  کے وزرائے اعلیٰ شری چرن سنگھ، شری سمپورنا نند، شری گپتا اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ ۲۷۹۱ء میں (یوپی) کے جو وزیر اعلیٰ تھے ان کے نام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اداریہ میں ان کا نام نہیں ہے۔ ان کے مطابق اردو کو دوسری سر کاری زبان بنانے سے ریاست ذو لسانی بن جائے گی۔ لہٰذا انھوں نے اردو کو سرکاری زبان نہیں بنایا۔ روزنامہ اخبارات کے اداریوں اور مضامین کی زندگی بظاہر ایک سے دو دن کی ہوتی ہے، پھر وہ اخبارات کباڑیے وزن کرکے خرید لے جاتے ہیں۔ لیکن دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ ہی ادارے ایک تاریخی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔
بہرحال یہ ایک بہت ہی عمدہ اور قابل مطالعہ کتاب ہے۔ اسے مکتبہ ”ضیاء الکتب“ خیرآباد، ضلع مؤ، اترپردیش نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۰۵۷/ روپے ہے۔

Title Farqaleet.jpg
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages