راہل اکھلیش کیوں نہیں بولتے, کیا اپوزیشن کو ووٹ دینے کا یہ انعام ہے؟

5 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Jul 11, 2024, 3:58:59 AM (7 days ago) Jul 11
to bazme qalam
راہل اکھلیش کیوں نہیں بولتے
کیا اپوزیشن کو ووٹ دینے کا یہ انعام ہے؟
سہیل انجم
سینئر کانگرس رہنما اور رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں ایک سال سے بھی زائد عرصے سے تشدد زدہ منی پور کا دورہ کیا۔ انھوں نے وہاں ایک پناہ گزیں کیمپ میں لوگوں کی درد بھری داستانیں سنیں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی اور وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ منی پور کا دورہ کریں۔ جب سے منی پور میں نسلی فساد شروع ہوا ہے راہل گاندھی اس معاملے پر مسلسل بولتے آئے ہیں۔ ایوان کے اندر بھی اور ایوان کے باہر بھی۔ اس میں اگر ان کی سیاست کو دخل ہو جب بھی ان کے اس قدم کی حمایت و ستائش کی جانی چاہیے اور لوگ کر بھی رہے ہیں۔ یقینی طور پر یہ سیاست دانوں کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالموں کے خلاف نہ صرف آواز بلند کریں بلکہ ان کو ان کی کارستانیوں کی سزا دلانے کی بھی کوشش کریں۔ لہٰذا منی پور کے بارے میں راہل گاندھی کا جو درد ہے ہم اس کی ستائش کرتے ہیں۔ اسی درمیان اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک ست سنگ کے دوران بہت بڑا حادثہ ہو گیا جس میں تقریباً سوا سو عقیدت مند ہلاک ہو گئے۔ یہ لوگ ایک خود ساختہ بابا کے درشن کرنے اور ان کا پروچن (وعظ) سننے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں اکٹھا ہوئے تھے۔ حالانکہ یہ بابا حقیقتاً ایک فرضی بابا ہیں۔ بابا کا اوتار لینے سے قبل وہ ایک جنسی استحصال کے کیس میں جیل میں تھے۔ اس سے قبل وہ پولیس میں تھے۔ لیکن جب جیل سے باہر آئے تو بابا بن گئے۔ اب ان کے بڑے بڑے آشرم ہیں اور لاکھوں عقیدت مند ہیں۔ راہل گاندھی نے وہاں کا بھی دورہ کیا اور متاثرین سے مل کر ان کی داد رسی کی۔ انھوں نے ہلاک شدگان کے اہل خانہ کی اشک شوئی کی اور حکومت سے قصورواروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ہم اس کی بھی ستائش کرتے ہیں اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی کرنے پر ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
لیکن ہم کئی دنوں سے ایسی خبروں کی تلاش میں تھے جن سے ہمیں یہ معلوم ہو کہ وہ انتخابات کے بعد ملک بھر میں رونما ہونے والے ہجومی تشدد کے شکار مسلمانوں کے گھروں کو بھی جا کر ان کی دادرسی کر رہے ہیں، لیکن معاف فرمائیں ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں ملی۔ ممکن ہے کہ وہ کسی مسلمان کے اہل خانہ سے ملے ہوں اور ہمیں اس کی خبر نہ ہو پائی ہو۔ لیکن ہم بہرحال ایسی خبروں سے محروم ہی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ اگر منی پور میں ہندوؤں اور عیسائیوں کے مابین نسلی فساد کے بجائے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین نسلی فساد ہوا ہوتا تو کیا اس وقت بھی وہ اسی سنجیدگی اور دردمندی کے ساتھ اس معاملے کو اٹھاتے۔ ممکن ہے اٹھاتے ممکن ہے نہ اٹھاتے۔ ہمیں حالیہ ہجومی واقعات کے سلسلے میں ان کی سردمہری دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی بیان دے دیتے تو دے دیتے لیکن اتنی تندہی کے ساتھ اس معاملے کو نہیں اٹھاتے جتنی تندہی کے ساتھ منی پور کے معاملے کو اٹھا رہے ہیں۔ یہ صرف راہل گاندھی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ تمام اپوزیشن رہنماؤں کا معاملہ ہے۔ البتہ آزاد سماجی پارٹی کے صدر اور نگینہ سے نو منتخب رکن پارلیمنٹ چندر شیکھر آزاد نے علیگڑھ کا دورہ کرکے محمد فرید عرف اورنگزیب کے گھر جا کر ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اورنگزیب کو اٹھارہ جون یعنی عید الاضحیٰ کے دوسرے روز ماب لنچنگ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اورنگزیب پر الزام ہے کہ انھوں نے چوری کی تھی۔ چندر شیکھر آزاد نے کہا کہ ان کی ہلاکت ایک سازش کے تحت ہوئی ہے۔ اگر انھوں نے چوری کی تھی تو انھیں پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا۔ بہرحال چندر شیکھر آزاد کی مثال ہم نے اس لیے دی تاکہ دیگر اپوزیشن رہنماؤں کا چہرہ بے نقاب ہو سکے۔
انتخابات کے بعد مسلمانوں کی ماب لنچنگ، ان کے ساتھ تشدد، مار پیٹ، گھروں کو نذر آتش کرنے اور سرکار کی جانب سے ان کے مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ ایسے واقعات کی فہرست انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور دیگر شخصیات کی تنظیم ’ایسو سی ایشن فار پروٹکشن آف سول رائٹس‘ (اے پی سی آر) اور صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹکٹ جرنلسٹس‘ (سی پی جے) نے تیار کی ہے۔ دونوں نے الگ الگ فہرست سازی کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح مابعد انتخابات مسلمانوں سے انتقام لیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ چار جون کو نتائج آنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور اس میں عید الاضحیٰ کے بعد تیزی آگئی۔  بقرعید کے موقع پر مسلم دشمن شرپسندوں کو بیف کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سنہرا موقع مل گیا۔ اے پی سی آر کا کہنا ہے کہ چار جون سے جون کے اواخر تک ماب لنچنگ کی آٹھ، ہجومی تشدد کی چھ اور پولیس کی جانب سے مسلمانوں کے مکانوں کو مسمار کیے جانے کی تین وراداتیں پیش آئی ہیں۔
سی پی جے نے ایک طویل فہرست تیار کی ہے جس میں 14معاملات کا اندراج ہے۔ اس کے مطابق 22 جون کو گجرات کے 23 سالہ سلمان ووہرہ کو کرکٹ میچ کے د وران پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ چھتیس گڑھ کے رائے پورمیں سات جون کو تین مسلمانوں کو ہندوتووادیوں نے ظلم و جور کا نشانہ بنایا۔ متاثرین کے نام صدام قریشی، چاند میاں خان اور گڈو خان ہیں۔ ان کا تعلق اترپردیش کے سہارنپور ضلع سے ہے۔ 28 مئی سے جون کے آخر تک مبینہ طور پر گائے کی حفاظت کے نام پر دس واقعات ہوئے جن میں ہجوم نے مویشی لے جانے والے لوگوں پر حملہ کیا۔ایسے واقعات کئی ریاستوں میں ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے بلند شہر میں دو مسلمان بھائیوں کو ہجوم نے اس وقت بے دردی سے پیٹا جب وہ ایک دکان پر اشیاء کا تبادلہ کرنے گئے تھے۔ مرادآبادمیں 25 سالہ ڈاکٹر پر 30 جون کو ہجوم نے وحشیانہ حملہ کیا۔ حملہ اس وقت ہوا جب ڈاکٹر افتخار اپنے کلینک سے گھر لوٹ رہے تھے اور ایک پیٹرول پمپ پر پیٹرول لینے کے لیے رکے تھے۔ بارہ جون کی اولین ساعتوں میں مولانا اکرم نامی امام کو مراد آباد کے بھینسیا گاؤں میں نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ نو جون کو میرٹھ کے محمد عمر قریشی پر ہماچل پردیش کے بنگانہ قصبے میں ایک ہجوم نے حملہ کیا۔ بجرنگ دل، شیو سینا اور بی جے پی کے ارکان نے مبینہ طور پر اسے مارا پیٹا، اس کے پیسے چرائے، اور اسے جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ قریشی کے مطابق حملہ اس لیے ہوا کہ وہ مسلمان ہے۔ مزید برآں، جب اس نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو پولیس نے انکار کردیا۔ اناؤ میں ایک ہندوتوا وادی ہجوم نے سات جون کو ایک کنٹینر پر بھینس کا گوشت مغربی بنگال سے ممبئی لے جانے پر زبردست ہنگامہ کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔ ہنگامہ آرائی کے بعد گوشت کا نمونہ جانچ کے لیے لیباریٹری بھجوایا گیا جس سے تصدیق ہوئی کہ یہ بھینس کا گوشت ہے۔ صحافی میر فیصل کے مطابق مولانا شہاب الدین نامی ایک امام کو یکم جولائی کو جھارکھنڈ کے کوڈرما ضلع میں ایک ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ خوردھا، اڑیسہ میں عید الضحیٰ کو ایک ہجوم زبردستی ایک مسلمان کے گھر میں گھس گیا اور گھر کے فریج سے گوشت چھین کر اس پر قبضہ کر لیا۔ ہجوم جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے گھر میں داخل ہوا تھا۔ مغربی بنگال کے بیر بھوم کے نواپارہ میں عید کے بعد ایک اور معاملہ پیش آیا جہاں طوفان شیخ نامی ایک مسلمان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔ اسے ایک ہجوم نے گھیر لیا اور اس پر ایک مندر کے قریب گوشت پھینکنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد اس پر ہجوم نے حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اسے ایک گھنٹے تک کھمبے سے بھی باندھا گیا جس کے بعد مقامی پولیس نے اسے بچا لیا اور اس کا طبی علاج کرایا۔ میدک میں بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب منہاج العلوم مدرسہ کی انتظامیہ نے بقر عید سے قبل قربانی کے لیے مویشی خریدے اور ایک ہجوم نے آکر مدرسہ پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ ہجوم نے اس اسپتال پر بھی حملہ کیا جہاں زخمیوں کا علاج کیا جا رہا تھا۔ حراست میں لیے گئے افراد میں بی جے پی میدک کے ضلع صدر گڈم سرینواس، بی جے پی میدک ٹاؤن کے صدر ایم نیام پرساد، بی جے وائی ایم کے صدر اور سات شامل ہیں۔ یہ تو چند واقعات ہیں جن کا ذکر سی پی جے کی رپورٹ کے حوالے سے کیا گیا ہے ورنہ یہ فہرست بہت طویل ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اپوزیشن لیڈران خاموش کیوں ہیں۔ جبکہ انتخابات میں مسلمانوں نے یکمشت اپوزیشن کو ووٹ دیا جس کے نتیجے میں متعدد سیٹیں اپوزیشن کے انڈیا بلاک کی جھولی میں آگئیں۔ راہل گاندھی نے تو پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں لنچنگ کا حوالہ دیا اور ایک بار اقلیتوں اور مسلمانوں کا نام بھی لیا لیکن اکھلیش یادو اور دیگر رہنماؤں نے ان معاملا ت کو کیوں نہیں اٹھایا۔ جبکہ یہ سب صرف اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دینے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں کو ووٹ دیا۔ کیا اپوزیشن کو ووٹ دینے کا یہ انعام ہے جو ان کو دیا جا رہا ہے یا مسلمان ان پارٹیوں کے بندھوا مزدور ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں شاید یہ سمجھتی ہیں کہ مسلمانوں کے لیے تو اور کوئی جگہ ہے نہیں، وہ جائیں گے کہاں۔ بی جے پی کو تو ووٹ دینے سے رہے، دیں گے انہی کو۔ یہاں تک کہ جب ایک بی جے پی ایم پی نے کہا کہ اس کو مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیا ہے وہ مسلمانوں کا کام نہیں کرے گا تو کسی اپوزیشن لیڈر نے اس کی مذمت نہیں کی اور یہ نہیں کہا کہ تم نہیں کروگے کوئی بات نہیں ہم کریں گے۔ کیا اپوزیشن جماعتوں کے اس رویے کو جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے اور کیا ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے۔
موبائل: 9818195929  
ReplyForward

Mirza Muhammad Nawab

unread,
Jul 11, 2024, 4:18:02 AM (7 days ago) Jul 11
to bazme...@googlegroups.com
Yahi slaw Abhisar Sharma ne bhi uthaya. 

From: bazme...@googlegroups.com <bazme...@googlegroups.com> on behalf of Suhail Anjum <sanju...@gmail.com>
Sent: Thursday, July 11, 2024 10:58 AM
To: bazme qalam <bazme...@googlegroups.com>
Subject: [بزم قلم:62706] راہل اکھلیش کیوں نہیں بولتے, کیا اپوزیشن کو ووٹ دینے کا یہ انعام ہے؟
 
--
عالمی انعامی مقابلہ غزل کی تفصیل درجہ ذیل لنک میں
 
 
https://mail.google.com/mail/u/4/#sent/QgrcJHsNjCMDktBfcrqXBctvVwqJPbdTpql
 
 
 
 
www.bhatkallys.com
-------------------------------------------------
To post in this group send email to bazme...@googlegroups.com
To can read all the material in this group https://groups.google.com/forum/#!forum/bazmeqalam
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to BAZMeQALAM+...@googlegroups.com.
To view this discussion on the web visit https://groups.google.com/d/msgid/BAZMeQALAM/CAJOpirva2Mw7hAjv13Oj%3Dhx7EFom04%2Bz8-QkENKQJe74fL_-YA%40mail.gmail.com.
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages