موجودہ حالات اور تین بڑے صحافیوں کا تذکرہ

11 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Oct 9, 2025, 5:18:33 AM (7 days ago) Oct 9
to bazme qalam
موجودہ حالات اور تین بڑے صحافیوں کا تذکرہ
سہیل انجم
آج میں اپنے نوآموز صحافی دوستوں کی خدمت میں حاضری دینا چاہتا ہوں۔ کبھی کبھی ان سے مخاطب ہونے کو جی چاہتا ہے۔ چونکہ اس وقت دہلی میں صحافیوں کی ایسی کوئی فعال تنظیم نہیں ہے جس کے پلیٹ فارم پر سینئر اور نوآموز صحافی یکجا ہوتے ہوں، تبادلہ خیال کرتے ہوں، ایک دوسرے کے مسائل سنتے ہوں اور مختلف موضوعات پر اپنی تخلیقات بھی پیش کرتے ہوں۔ حالانکہ یہ سلسلہ ہونا چاہیے۔ اس سے صحافیوں کی دونوں نسلوں کو ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کا موقع ملتا۔ لیکن چونکہ ایسا کوئی پلیٹ فارم نہیں اس لیے یہ کالم ہی ان سے ہم کلام ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت مسلمانوں اور اردو زبان کے تعلق سے جو حالات ہیں وہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔ بلکہ کچھ افراد کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اس وقت کے حالات تقسیم ملک کے حالات سے بھی بدتر ہیں۔ اسے ان کی مایوسی بھی سمجھ سکتے ہیں اور ان کا تجربہ بھی۔ لیکن حالات جیسے بھی ہوں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اردو کے ایک بڑے صحافی گزرے ہیں مولانا محمد عثمان فارقلیط۔ ان کی صحافت کا آغاز 1926 میں کراچی کے سندھی اخبار ’الوحید‘ سے ہوا تھا۔ وہ آزادی کے بعد پچیس سال تک جمعیة علما کے اخبار ’الجمعیة‘ کے ایڈیٹر رہے۔ 1973 میں ریٹائر ہوئے اور 1976 میں ان کا انتقال ہوا۔ انھوں نے بٹوارے کے بعد کے پرآشوب دور میں مسلمانوں کی بڑی ڈھارس بندھائی تھی۔ انھوں نے اپنے اداریوں سے جس طرح پژمردہ مسلمانوں کے اندر ہمت و حوصلہ اور جذبہ و ولولہ پیدا کیا وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انھوں نے نامساعد حالات کے آگے سرنگوں ہو جانے والے پست ہمت مسلمانوں کو جینے کا حوصلہ دیا۔ پاکستان کی جانب رختِ سفر باندھنے والے بے شمار مسلمانوں کے بستر کھلوا دیے اور ان کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے اور سر اٹھا کر جینے کی ہمت پیدا کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اختر شیرانی کی زبان میں یہ پیغام دیا:
انہی غم کی گھٹاوں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے
جبل پور میں 1961 میں سنگین فساد ہوا جس میں مسلمانوں کو پوری طرح تباہ و برباد کر دیا گیا۔ ایک مکان میں سترہ بے قصور مسلمانوں کو زندہ جلا ڈالا گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا حفظ الرحمن اس ایک فساد سے اتنے مایوس و دل گیر ہوئے جتنے 1947 کے فسادات سے بھی نہیں ہوئے تھے اور ان کی صحت کو اسی کے بعد گھن لگ گیا۔ اس موقع پر مولانا فارقلیط نے الجمعیة میں کئی قسطوں میں ادار یہ لکھا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’سنتے سنتے کان پک گئے کہ اسلام تلوار سے پھیلا۔ لاو وہ تلوار کہاں ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو غیر اللہ کی پرستش سے نجات دلا کر خدائے واحد کا پرستار بنا دیا، ہم اس تلوار کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہیں‘۔
انھوں نے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہا ہے۔ انھوں نے ایک اداریے میں لکھا کہ ’ہم مسلمانانِ ہند کو ان کالموں میں برابر مخاطب کرتے رہے ہیں۔ آج بھی ان سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ہماری باتیں سننے کے لیے تیار نہیںاور ان کووہ ٹھوس اور تعمیری مشورہ وعظ اور سرمن معلوم ہوتا ہے تووہ تیار رہیں کہ جدید ہندوستان میں اپنی سر مستیوںکی سزا بھگتیںگے اورآنے والے حوادث سے اپنا دامن نہ بچا سکیںگے۔اب ہندوستان جس شکل میں آنے والا ہے وہ ان طبقوںکوہرگز برداشت نہیں کرے گا جنہوں نے غفلت ، سر مستی اور لااُبالیت کی شراب پی رکھی ہے اور جو یا تو خوف زدہ ہیں یا اپنے حال اور مستقبل سے غافل اور اپنی موجودہ حالت پر قانع ہیں۔ان مسلمانوں کوکوئی دوسرا برباد نہیں کرے گا خود ان کے اعمال اور ان کا جمود انہیںبرباد کر دے گا۔ دنیا کے حالات سرعت کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ ہندوستان ایک نیا قالب بدلنے والا ہے۔ پرانی قدریں ختم ہوںگی۔ قدیم روایات کی خریداری بند ہوجائے گی۔ 48 کی سیاست کو 72 میںکوئی نہ پوچھے گا۔ جمہوریت ایک نئے روپ میںآئے گی۔ پرانی لیڈر شپ کی چولیں نکل جائیںگی اور نئی لیڈر شپ کی طرحیں نمودار ہوںگی۔ اگر غافل مسلمان اپنی قدیم مسند کونہ چھوڑے گا تووہ جدید ہندوستان کے سمندر سے اس طرح نکال کر پھینک دیا جائے گا جس طرح سمندر کی لہریںکسی مردہ نعش کو ساحل پر پھینک دیتی ہیں۔ زمانہ آنے والے واقعات پر لرز رہا ہے۔ زمین وآسمان کی درمیانی فضا کا چہرہ فق ہے۔ آزمائش کی گھڑیاںسر پر کھڑی ہیں۔ مگر مسلمان شیعہ سنّی (مسلکی) اکھاڑوں میں لنگر لنگوٹ کس کر اپنی اپنی کشتیوںکا تماشہ دکھا رہے ہیں۔ کوئی گردن نہیں جو خمیدہ ہو کر سوچے کہ ملت کا انجام کیا ہوگا۔ ہم نے ہر چیز کا بے موقع استعمال کر کے اس کی روح ختم کر دی ہے۔ جہاں خون پسینہ گرانے کی ضرورت ہے وہاں انشا ءاللہ سے کام نکالا جا رہا ہے۔ مسلمانو! کیا تم کووہ چیز نظر نہیںآتی جوہمیں نظر آ رہی ہے اور جس نے ہماری روح کو پگھلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہمارے امراءاور دولت مند ارباب ثروت جو سیم و زر سے چمٹے ہوئے ہیں انہیں احساس تک نہیں کہ دولت کا یہ پھندا خود کشی کا پھندا ہے۔ وقت آئے گاکہ دولت کا کوئی انبار کام نہ دے گا اور کوئی خوشحالی وقت کا ساتھ نہ دے سکے گی۔ زمانہ کسی پر ترس نہ کھائے گا اور کسی کے ساتھ رعایت نہ کرے گا۔ مسلمانانِ ہند کا ہاتھ پکڑکر کوئی دوسرا ان کی مدد کرنے نہیں آئے گا۔ مرنے والی قوم اگر مرتی ہے تو کوئی اس پر ترس نہیںکھائے گا۔ مسلمان خود اٹھیںگے اٹھ کر چلیںگے اور چل کر دوڑ لگائیںگے تومنزل قریب آئے گی اگر ان کی سمت غلط ہوگئی تووہ جتنا چلیںگے اپنی منزل سے دور ہوتے جائیںگے اور ان کو صحیح راہ پر ڈالنے والا کوئی نہ ہوگا۔ عزم اور ارادہ کی پختگی اور مقصد کی لگن مرد کا زیور ہیں۔ ملت اسلامیہ نے اپنے ماحول پر اسی عزم کی بدولت فتح پائی ہے۔ زندگی سے عزم و ارادہ کی طاقت نکال دو، صرف ڈھانچہ رہ جائے گا جو دیمک کے کام آسکتا ہے یا خاک میںمل کر ہلاک ہو سکتا ہے۔ (19 دسمبر 1971)
آج بھی مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی باتیں ہوتی ہیں اور پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے مولانا فارقلیط نے ایک اداریے میں لکھا کہ ’ہندوستانی مسلمانوں کا دل تو پاکستان میںہے اور جسم ہندوستان میں‘ نہیں بھائی یہ خیال غلط ہے، جھوٹ ہے، بہتان ہے۔مسلمان پھیلنے کے لیے آیا ہے سکڑنے اور بلوں میں گھسنے کے لیے نہیںآیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کا پاکستان میں کیا دھرا ہے۔یہاں شاہی مسجد ہے ،تاج محل ہے، قطب مینار ہے،لال قلعہ ہے،خواجہ اجمیری ہیں،بختیار کاکی ہیں، نظام الدین اولیاءہیں، یہیں دارالعلوم دیوبند ہے، ندوة العلماءہے، مظاہر العلوم ہے،شمس الہدیٰ ہے۔ مسلمانوں کا توسب کچھ یہیں ہے اور غیر مسلم جومسلمانوںکی اصل پونجی ہیںوہ بھی یہیں بستے ہیں۔ جس کا دل پاکستان میںہواور جسم ہندوستان میں اسے کیا غرض پڑی ہے کہ ہندوستان کی فکر کرے اور ذات پات میں لت پت ہونے والوںکوہندوستانی بنائے۔ جس معاصر نے ہندی مسلمان کا دل پاکستان میںاور جسم ہندوستان میںبتایا وہ خود پاکستانی ہے ۔ وہ تقسیم کے بعدلاہور چھوڑ کر ہندوستان آیاہے اور اس کے وجود نے بہت سوںکوگمراہ کیا ہے۔ کیونکہ اس کے یہاں آنے سے بعض لوگوںمیںیہ تصور پیدا ہوا کہ کسی وقت اپنے پیارے وطن پر بھی لات ماری جا سکتی ہے اور دل تودل جسم کوبھی کسی غیر ملک میںمنتقل کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ اس کا ضمیر مجرم ہے اس لیے وہ ہندی مسلمانوں کوہندوستانی بنانے کے لیے ایسی مہم چلا رہا ہے کہ لوگ اس کی پاکستانیت کو بالکل بھلا دیںاوراسے صاف ہندوستان کا ٹھیکیدار سمجھ لیں۔ (28 جون 1961) انھوں نے یہ اداریہ غالباً روزنامہ پرتاپ کے ایڈیٹر مہاشہ کرشن کے اداریے کے جواب میں لکھا تھا جو کہ لاہور سے دہلی آئے تھے۔
(راقم الحروف نے مولانا محمد عثمان فارقلیط پر تین کتابیں ’مولانا محمد عثمان فارقلیط: حیات و خدمات 2012، مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب اداریے 2014، مولانا محمد عثمان فارقلیط صحافی مناظر مفکر2023‘ ترتیب دے کر شائع کی ہے)۔
محمد مسلم بھی ان نابغہ روزگار صحافیوں میں شامل رہے ہیں جن کے افکار و نظریات سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ وہ صرف ایک عظیم صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے اخبار ’دعوت‘ کے ذریعے قوم و ملت کی جو خدمت کی وہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ماضی قریب کے ایک بڑے صحافی کلدیپ نیر نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ ’آج جب میں صحافت میں بے ایمانی کا دور دورہ دیکھتا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ کوئی اصولوں کی لڑائی لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے تو مسلم صاحب بہت یاد آتے ہیں۔ وہ اصول پرست ہی نہیں تھے بلکہ خود بھی ایک اصول تھے۔آج اور آنے والے کل کے صحافیوں کو میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم صاحب کی کتاب زندگی میں سے ایک ورق بھی لے لیں تو نہ صرف ایک اچھے مسلمان بنیں گے بلکہ بہت اچھے ہندوستانی شہری اور صحافی بھی بنیں گے‘۔ ان کے مستقل کالم ’خبر و نظر‘ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس سے بہت روشنی ملے گی۔
انھوں نے سہ روزہ دعوت کے تین فروری 1980 کے شمارے کے اداریے میں جو باتیں لکھی ہیں ہم آج بھی ان پر غور کر کے اپنا لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔ انھوں نے لکھا تھا ’اس وقت ہندوستان کی اجتماعی زندگی میں شکست وریخت جاری ہے اور ملک جس اخلاقی بحران میں مبتلا ہے اس کا یہی تقاضا ہے کہ مسلم نو جوان ایک نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھیں اور ملک کی تعمیر نو میں موثر رول ادا کریں۔ اس طرح کے فعال کردار کے لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ ان کی سرگرمیوں کا ایک واضح رخ متعین ہو۔ ملکی اور ملی سطح پر ہماری سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم بے سمتی کا شکار رہے ہیں۔ مختلف مسائل پر ہمارا ردعمل ہی ہماری پالیسی قرار پا جاتی ہے‘۔
محمد مسلم نے دعوت اخبار کے صفحات پر جو زریں صحافت کی، اس بات کی ضرورت ہے کہ آج ہم اس کا ادراک کریں۔ وہ صرف مسلمانوں کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ انسانیت کی بات کرتے تھے۔ وہ اپنے انسانی پیغام کو عام کرنے کے لیے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔ ان کے روابط غیر مسلم شخصیات اور عام غیر مسلموں سے بھی ویسے ہی رہے ہیں جیسے کہ مسلمانوں سے۔ سیاست دانوں سے بھی ان کے بہت قریبی مراسم رہے ہیں۔ وہ چاہتے تو ان مراسم کا استعمال کرکے بہت کچھ مادی فائدہ اٹھا لیتے۔ لیکن ان کی اصول پسندی نے اسے گوارا نہیں کیا۔ انھوں نے غربت و تنگ دستی کو اپنے مشن کے آڑے نہیں آنے دیا۔ اپنے اہل خانہ کو دشواریوں میں ڈال کر مفلوک الحال انسانوں کو راحت پہنچانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنے عمل سے غیر مسلموں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی دیگر اقوام سے رسم و راہ پیدا کریں اور ان کے قریب جائیں اور انھیں اپنے قریب لائیں۔ اگر چہ موجودہ حالات میں یہ کام ذرا مشکل ہے لیکن انسان ٹھان لے تو کوئی بھی کام مشکل نہیں۔
انھوں نے اپنے ایک مضمون میں جس کا عنوان ہے ’ملی مفادات بنام جماعتی مفادات‘ میں مسلمانوں کے حالات کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ’حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ یہ بات تسلیم کی جائے کہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کا سوجھ بوجھ کے ساتھ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے وہ عناصر جو سیاسی سطح پر ان کی قیادت کے مدعی ہیں غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی باہمی کشمکش اور انتشار نے مختلف سیاسی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے بغیر بھی ان کی تائید و حمایت حاصل کر لیں۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے اتحاد اور اس کے دانشمندانہ استعمال سے ہی تبدیل کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں میں ملک گیر پیمانے پر جو جذباتی یک جہتی پائی جاتی ہے اس کے پیش نظر ان کا اتحاد اور اس کا ایسا استعمال جو ان کے مسائل کے حل کا وسیلہ بن جائے بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس کے لئے مسلم جماعتوں اور ان کے مختلف عناصر میں باہمی رواداری، فراخدلی، وسعت نظر اور مسلمانوں کے بارے میں ترجیحات پر عمومی اتفاق رائے اولین شرط ہے۔ اگر مسلم جماعتیں اپنے خول سے نکل سکیں، کسی تحفظ ذہنی کے بغیر مسلمانوں کے مسائل پر تبادلہ خیال کے ذریعہ عمومی اتفاق رائے پر پہنچ سکیں اور اپنے اندر باہمی رواداری کے ایسے جذبات کو پروان چڑھا سکیں جو جماعتی مفادات کو ملی مفادات کے تابع کر دیں تو سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے بغیر کبھی بھی ان کی تائید وحمایت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس کے لئے مسلم جماعتوں کو اپنی انفرادیت اور تشخص ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ مطلوب‘۔ (ہفت روزہ دعوت 17 فروری 1980)
سینئر صحافی اور عالمی میڈیا ادارے ڈی ڈبلیو میں اردو ایڈیٹر جاوید اختر نے مسلم صاحب پر ایک کتاب ’محمد مسلم عظیم انسان بیباک صحافی‘ کی ترتیب و اشاعت کرکے صحافتی برادری کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔
میں آخر میں ایک اور صحافی کا ذکر کرنا چاہوں گا جنھیںمذکورہ دونوں صحافیوں سے عقیدت رہی ہے۔ انھوں نے اول الذکر صحافی کے ساتھ کم مگر ثانی الذکر صحافی کے ساتھ زیادہ وقت گزارا تھا۔ ان کا نام ہے محفوظ الرحمن۔ وہ ان دونوں صحافیوں کا تذکرہ والہانہ اور عقیدت مندانہ انداز میں کرتے تھے۔ ان کے بقول یہ دونوں حضرات نہ صرف بڑے صحافی تھے بلکہ بڑے انسان بھی تھے۔ محفوظ الرحمن نے ملت کے بہی خواہ اور دردمند انسان ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے اخبار ’قائد‘ کی ادارت کی تھی۔ وہ دعوت کے بھی ایڈیٹر رہے اور دیگر کئی اخبارات کے بھی۔ وہ بھی ایک اصول پسند انسان تھے۔ سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ اور سابق نائب وزیر اعظم چودھری دیوی لال اور اپنے عہد کے بڑے سیاست دانوں سے ان کے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے بھی ان تعلقات کو اپنی اصول پسندی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ وہ بھی چاہتے تو مادی فوائد کے ڈھیر لگا دیتے۔ لیکن انھوں نے اپنی صحافت کو ترجیح دی سیاسی و مادی مفادات کو نہیں۔ انھوں نے سوویت روس سمیت کئی سفارت خانوں میں بھی کام کیا تھا۔ لیکن جب سوویت روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا تو انھوں نے بطو راحتجاج استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے ایک بار گفتگو کے دوران کہا تھا کہ انھوں نے روسی سفارت خانے میں ملازمت کا کفارہ روس کے حملے کے خلاف احتجاج اور افغان مجاہدین کی حمایت میں ’سرخ یلغار‘ نامی کتاب تصنیف کرکے ادا کر دیا تھا۔
انھو ںنے اپنے ایک مضمون میں جس کا عنوان ہے ’یہ رونا دھونا ، یہ سینہ کوبی کب تک‘میں مسلمانوں کے حالات کے سلسلے میں لکھا تھا کہ ’مسلمانو ں کو شکایت ہے کہ ان کی بے وقعتی میں دن بدن اضافہ ہوتا جار ہا ہے او ر ان کی یہ شکایت بڑی حدتک درست ہے۔مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ ایوان اقتدار کے گلیاروں میں ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے، قانون سازاداروں میں،سرکاری، غیر سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں انھیں وہ حصہ نہیں مل پایا ہے جو ازروئے انصاف انھیں ملنا چاہیے تھا۔ ان کی اس شکایت کو بھی کسی زاویے سے بے وزن نہیں کہا جا سکتا۔ مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ ان کے دکھوں کے مداوا، ان کے مصائب کے ازالہ کے وعدے تو انتہائی فرا خ دلی کے ساتھ کیے جاتے ہیں، خاص کر انتخابات کے دنوں میں،لیکن عمل کا خانہ اکثر خالی رہتا ہے۔وعد وں کی کشت زار بے حسی کی گرم ہواﺅں میں جھلس جاتی ہے۔ امیدوں کی نرم رو آبجو وعدہ فرامو شی اور بے ضمیری کے ریگ زاروں میں سرپٹک پٹک کر دم توڑ دیتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ان کے مسائل و مصائب کا حل خود ان کے سوا کوئی اور تلاش نہیں کرسکتا ۔زندگی کی رزم گاہ میں جو لوگ بیساکھیوں کے سہارے داخل ہوتے ہیں اور دوسروں کی انگلی پکڑ کر چلتے رہنے کو ہی سیاسی تدبر کی معراج قرار دے لیتے ہیں وہ کبھی بھی کامیابی وکامرانی کی منزل مراد سے ہم آغوش نہیں ہو سکتے۔ بیشتر حالات میں گریہ وزاری اور سینہ کوبی ہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں کہ ان کی بے وقعتی میں دن بدن اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے۔ کیا اس کا سبب یہی اور صرف یہی نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی اجتماعی قوت کو خود اپنے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ وہ اب تک صرف دوسروں کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ جو لوگ اپنے مصائب ومسائل کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے اور دست طلب دراز کرتے رہنے کو ہی اپنا شعار بنا لیتے ہیں ان کے حصے میں محرومی ومایوسی ہی آتی ہے۔ چشم گریاں لوگوں سے بھیک کے ٹکڑے وصول کرنے میں مددگار توبن سکتی ہے اس کے سہارے نہ تو عزت و احترام کی فضا بنائی جا سکتی ہے، نہ حقوق کی جنگ لڑی جا سکتی ہے۔جب تک مسلمان اپنے آپ کو سیاسی سطح پر منظم نہیں کر یں گے، جب تک قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی کرنے والے لوگ معقول تعداد میں موجود نہیں ہوں گے، جب تک وہ وعدہ شکن اور نا انصافی پر مصر عناصر کو سبق سکھانے، انھیں اقتدار کے گلیاروں سے بے دخل کر دینے کا ماحول بنا دینے کی اہلیت اپنے اندر پیدا نہیں کریں گے اور اس سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ جب تک وہ رونے دھونے، شکوہ شکایت اور سینہ کوبی کی روش پر گامزن رہیں گے نہ ان کی حرماں نصیبی ختم ہوگی، نہ ان کے مسائل ومصائب کے انبار میں کمی واقع ہوگی‘۔ (25 اپریل2008)
میں نے محفوظ الرحمن پر ایک کتاب ’محفوظ الرحمن: صحافت کا نشان امتیاز‘ 2015 میں شائع کیا تھا)۔
کیا آج ہم لوگوں کو نہیں چاہیے کہ ایسے صحافیوں کی کتاب زندگی کے اور ان کے افکار و نظریات کے اوراق پلٹیں اور ان میں پوشیدہ صدف ریزے اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔
موبائل: 9818195929

Farqaleet 1.jpg
Farqaleet 2.jpg
Mahfuz.jpg
Muslim.jpg
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages