انصاری نفیس جلیل کی تین تحریریں

9 views
Skip to first unread message

Gul Bakhshalvi

unread,
Mar 10, 2015, 12:10:38 AM3/10/15
to adab dot com, Bazmeqalam, nafi...@gmail.com
اکثرمسلم بستیوں کی شروعات گندگی سے،ذمہ دار کون؟                                                     
”پاکی نصف ایمان“فراموش کر”سوچھ بھارت ابھیان“کیلئے ہاتھ میں جھاڑو                                                        

کسی نئے علاقے میں اگر ہمیں مسلم علاقے کی تلاش کرنی ہو تو یہ کچھ مشکل نہیں۔ہمارا یہ نظریہ کہ جہاں گندگی کی شروعات نظر آجائے وہیں سے مسلم علاقے شروع ہوجاتے ہیں کچھ حد تک درست بھی ہے۔جہاں مذہب اسلام نے صفائی اور پاکی کو نصف ایمان قرار دیا ہے وہیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے فراموش کر رکھا ہے۔مسلمانوں میں اس تعلق سے جہاں بیداری میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے وہیں کچھ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔”ہم ایسے ہی جئےں گے“ کے مصداق انکی زندگی کا سفر گامزن ہے۔یہ ہیں اولین ذمہ دار،جنہیں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ہمیں کیا کہتا ہے ۔گھر کا کوڑا کرکٹ چند قدم کے فاصلے پر لے جا کر پھینکنے کے بجائے پڑوسی کے دروازے کے سامنے ڈالنے سے جو مردانگی ظاہر کریں انہیں آپ کیا کہیں گے؟ اپنے بچے کو پڑوسی کے دروازے کے پاس بیت الخلاءکیلئے بٹھانے کی روایت بھی عام ہے ۔ سڑکوں پر بکھرے کوڑا کرکٹ کواٹھانے اور اس کا مناسب نظم کرنے کیلئے انتطامیہ کا دوگلا رویہ بھی قابل شرم ہے کیونکہ اس گندگی کی اگلی اور سب سے اہم ذمہ داری انتظامیہ کے سر جاتی ہے۔اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں کھلم کھلا دشمنی کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ ہیں ۔مدد کا دکھاوا اور عمل ندارد۔یہ ہر جگہ کا رونا ہے۔صفائی انتظامیہ کا جانبدارانہ قدم،مسلم علاقوں کی صفائی میں کوتاہی اور دوسرے علاقوں میں حد سے زیادہ کام کا مظاہرہ اور چستی یہ عام بات ہے۔بھری ہوئی گٹریں،اور ان سے نکل سڑکوں پر رس رہے گندے پانی کی دھاریوں سے بچ کر نکلنے والی عوام بھلا کیا کر سکتی ہے؟ ان گندگیوں کے سبب مچھروں اور چراثیم سے ہونے والی بیماریاں ،اور ان سے متاثرہونے والے افرادکیا کرسکتے ہیں؟ کسے مورد الزام ٹھہرائیں؟
ماحول کی بھی اس تعلق سے بہت اہمیت ہے۔کئی خاندان جہاں اس گندگی کو ناپسند کرتے ہیں وہیں مجبور بھی ہیں اسی میں زندگی گذارنے پر،پھر چاہے وہ بڑا شہر ہو یا چھوٹا،گاو ¿ں ہو یا کوئی بستی۔
قابل ستائش ہیں وہ افراد جو اس گندگی کے بیچ رہ کر بھی اوروں سے الگ صفائی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ہر چیز کا سلیقہ انکے یہاں دیکھنے کو ملے گا۔گھر کا آنگن،اندرونی اور بیرونی ماحول وغیرہ
اسلام نے جس چیز پر ہمیں عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے وہ اب غیر ہمیں سکھا رہے ہیںاور ہم ہاتھ میں جھاڑو لئے”سوچھ بھارت“ کا نعرہ لگانے کو تیار ،رسائل وجریدوں میں اپنی تصاویر پیش کررہے ہیں۔
ذہنوں کی بدلتی کیفیات                                                     


ہر انسان ہمیشہ ایک ہی موڈ میں نہیںرہتا بلکہ اُس کی ذہنی کیفیات میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔اس کا دارومدار اُس کی سوچ پر منحصر نہیں بلکہ یہ تبدیلیاں طبعی ہوتی ہیں۔کبھی کبھی اچھی باتیں بھی ناگوار گذرتی ہیں اور کبھی کبھی دل کوٹھیس پہنچانے والی باتیں سن کر بھی ان سنی کردینے کی کیفیات انسانوں میں عام ہیں۔کبھی کام سے اوب جانا تو کبھی آرام سے،کبھی دینی باتوں میں دلچسپی تو کبھی تاریخی واقعات میں،کبھی کھیلوں سے اُنسیت تو کبھی یہ سوچ کہ کھیل وقت کی بربادی،کبھی مطالعہ کا شوق تو کبھی اس سے بیزاری وغیرہ وغیرہ۔اس پر غور کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ یہ ساری باتیں ہمارے اختیار میں ہی نہیں،بس ہماری فطرت سب سے اہم ہے جس کے مطابق ہر کام ہونا چاہیئے۔کچھ مرد بیویوں کی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دینے کی کیفیت اپنے اندر رکھتے ہیںجبکہ کچھ اس برعکس ہوتے ہیں،کچھ بیوی کو ماں باپ پر ترجیح دیتے ہیں تو کچھ ماں باپ کو بیوی پر،کچھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا پسند کرتے ہیں تو کچھ صرف نقص نکالنے کو،غرض انسانی زندگی میں ذہنوں کی ان کیفیات کا لامتناہی سلسلہ رواں ہے۔ان کیفیات کے بدلنے سے ہی مختلف واقعات وحادثات رونما ہوتے ہیں۔
ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے گھر کاماحول خوشگوار ہو۔اس کیلئے مدمقابل کی ذہنی کیفیت سے واقفیت ضروری ہے پھر چاہے وہ بیوی ہو یا والدین۔ویسے یہ نہایت آسان کام ہے،جس شخص سے آپ کو انسیت ہو ظاہر ہے اُس کے اچھے برے موڈ کا علم بھی ہوتا ہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی ذہنی کیفیات کا غیر معمولی خیال رکھتے ہیں لیکن شادی کے بعد اپنی ذہنی کیفیات سے متعلق چاہتوں کو سامنے والے کی چاہت پر ترجیح دیتے ہیں جس سے نا اتفاقی کی شروعات ہوتی ہے اور جنم لیتی ہے ایک چھوٹی سی ”خلش“ جو اس رشتے کو ختم کرکے ہی دم لیتی ہے۔دوسری جانب کہیں والدین کی ذہنی کیفیات کو فراموش کر اپنی خواہشات کی تکمیل کیذریعے گناہ عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں۔انسانی زندگی میں ان بدلتی کیفیات سے کوئی شخص نہیں بچ سکتا۔ہر ایک کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے،بس جیت اُس کی ہی ہوتی ہے جو اپنی بدلتی کیفیت کو برداشت کرکے دوسروں کی خوشی کا باعث بن جائے۔اللہ نے ہمیں عقل سلیم عطاءکی ہے ،اس کا فائدہ اٹھائیں اور حکمت سے ہر مسئلے کا حل تلاش کرلیں۔اگر آپ اُداس ہیں تو کسی پر یہ ظاہر نہ کریں شاید آپ کی اداسی کسی اور کو اداس کردے۔ہوسکتا ہے آپ کی بناوٹی خوشی کسی کو سچی خوشی دے دے۔

ظہرانہ                                                                                            

”تم آج پھر اپنے اس بھائی کو اسکول لے آئی؟،تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے اسے اسکول ساتھ نہ لایا کرو،تم پر میری بات کا ذرا بھی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟“۔
آج بھی دوم جماعت کی وہ بچی ثمر اپنی گود میں اپنے سہ سالہ بھائی قمر کو سنبھالے اور دوسرے کاندھے پر ایک پھٹی سی تھیلی جس میں اسکول کی جانب سے ملی ہوئی مفت ادھوری کتابوں اور بیاضوں کے ساتھ ایک دبی مڑی سی رکابی تھی لئے ہوئے کلاس روم میں داخل ہوئی تھی اور استاد نے اُسے ڈانٹنا شروع کیا تھا۔
یہ ایک سرکاری اسکول تھا۔جہاں ۶سال سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع تھا۔روز روز ڈانٹ وسزا کے باوجود ثمر اپنے بھائی کو لے آتی،اسکے پیچھے اسکی کیا مجبوری ہوسکتی ہے شایدیہ کبھی اساتذہ نے جاننے کی کوشش ہی نہ کی ہو۔وہ چپ چاپ اساتذہ کی باتیں سنتی ،کہہ بھی کیا سکتی تھی اساتذہ کا احترام و خوف کی آمیزش کہاں اس معصوم کی زبان سے کچھ کہلوانے کی طاقت رکھے؟۔اوکئی اساتذہ کے گھریلو تنازعات اور غصے کا سامنا بھی تو ان معصوموں کے حصے ہی آتا ہے۔آج تو استادنے حد ہی کردی،ثمر کو اسکے بھائی سمیت یہ کہہ کر روانہ کردیا کہ’اسے گھر چھوڑ آو ¿‘۔
ثمر نے ڈرتے ڈرتے استاد سے کہہ ہی ڈالا۔سرجی،گھر پر کوئی نہیں ہے۔ماں کھیتوں میں گئی ہے۔”مجھے اس سے مطلب نہیں،بس اسے لے جاو ¿ یہاں سے۔دوسرے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے اس سے۔
استاد نے آنکھیں نکال کر کہا۔اور ثمراپنے رخسار وں پر آنسوو ¿ں کی لکیر،سیدھے ہاتھ میں قمر اور بائیں ہاتھ میں بستہ لٹکائے اسکول کے پھاٹک سے باہر نکل گئی۔زیادہ دور جا نہ سکی۔اسکی ایکہی وجہ تھی اور وہ وجہ تھی”روزدوپہر کو اسکول کی طرف سے ملنے والے ظہرانے کی “۔دوپہر میں کھانا تقسیم ہونے کے وقت وہ بھی لائن میں لگ گئی ،اپنے ہم جماعت بچوں کی حقارت بھری نظروں سے مقابلہ کرتی اپنی نظریں جھکائے کھانا لے کر دور درخت کے نیچے بیٹھے قمر کے پاس دوڑ کر گئی اور دونوں نے اسے نعمت خداوندی سمجھ کر پیٹ بھر لیا۔
  بیوہ ماں کریمہ صبح اُٹھ کردو پتلی پتلی روٹیاں بناتی جس میں سے ایک کپڑے میں لپیٹ کر کھیتوں میں کام کرنے کیلئے چلی جاتی اور دوسری ثمر اور قمر کو ناشتہ کیلئے دیتی،قمر کو ساتھ لے جانے سے اس لئے قاصر تھی کہ کہیں زمیندار سب و ستم نہ کرے اور تنخواہ میں کٹوتی کا بھی خطرہ تھا۔یومیہ تیس روپوں کی خاطر اتنا جوکھم بھلے ہی گراں تھا پھر بھی بیچاری مجبوری میں اپنے لال کو ثمر کی گود میں چھوڑ روانہ ہوجاتی۔اسے یہ اطمینان تو تھا کہ دوپہر کا کھانا اسکول میں مل جائیگا،رہا سوال شام کا تو تنخواہ تو یومیہ ملتی تھی اس لئے شام کچھ ٹھیک ہی ہوتی تھی انکی۔ اپنی ذہین ثمر کی صلاحیتیں رائیگاں ہوجانے خدشہ تھا کریمہ کو۔لیکن وہ کیا کرسکتی تھی۔اگر مزدوری نہ کرے تو گھر کیسے چلے۔اسے پتہ تھا یہ قمر کے اسکول جانے لائق ہونے تک کا امتحان تھا۔لیکن ان تین سالوں میں ثمر پر کیا بیتے گی اس کا شاید اسے احساس نہ تھا۔ آج بھی استاد کی جانب سے کلاس روم سے نکالے جانے کی بات اس معصوم نے ماں سے چھپالی۔اسے صرف ایک بات کی خوشی تھی ”آج میرے بھائی نے دوپہر میں کھانا کھا لیا“۔

از: انصاری نفیس جلیل
۴۳،چونابھٹی،مالیگاو ¿ں،ضلع ناسک،مہاراشٹر
09021360933





Warm regards

 
Gul Bakhshalvi
Chief Editor Kharian Gazette
Cell: +92 302 589 2786
Web: www.bakhshalvi.com

Ansari Nafees

unread,
Mar 10, 2015, 12:58:57 PM3/10/15
to BAZMe...@googlegroups.com
گل صاحب سلام مسنون
آپ سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔

--
http://urducouncil.nic.in/E_Library/Urdu-Duniya-January-2015.pdf
http://www.urducouncil.nic.in/E_Library/urdu_Duniya.html
http://hudafoundation.org/
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
Visit this group at http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM.

Gul Bakhshalvi

unread,
Mar 10, 2015, 3:38:06 PM3/10/15
to BAZMe...@googlegroups.com
انصاری صاحب یہ آپ کی ادب نوازی ہے ، آپ کی تحریر اچھی لگی اس لئے فاونٹ بڑا کر کے پوسٹ کی اس لیے کہ پڑھنے والے کسی کی فائل کھولنے کی زحمت نہیں کرتے دیکھ کر آگے گزر جاتے ہیں  ۔۔ تحریر اوپن اور بڑے فاونٹ میں ہو پڑ لیا کرتے ہیں ۔۔ میں بزم قلم کا بہت پرانہ قاری ہوں ادب دوستوں کے مزاج جان گیا ہوں ۔۔۔ لکھا کریں آپ  اچھا لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ بخشالوی
--
Warm regards,

Ansari Nafees

unread,
May 26, 2025, 3:48:03 PMMay 26
to BAZMe...@googlegroups.com
گل بخشالوی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس سال کے بعد اب موقع ملا آپ سے گفتگو کرنے کا۔ معذرت
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہونگے۔
اللہ رب العزت صحت و تندرستی کے ساتھ عمر دراز فرمائے آمین یا رب العالمین
مجھے اپنے حالات سے مطلع فرمائیں۔ نوازش ہوگی
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages