کیا یہ مخلص ہیں؟

5 views
Skip to first unread message

Nehal Sagheer

unread,
Mar 16, 2023, 11:01:16 PM3/16/23
to
کیا یہ مخلص ہیں؟

ممتاز میر

   آئندہ سال الیکشن ہے مگر اپوزیشن پارٹیوں میں گھبراہٹ کا دور دورہ ہے۔حالانکہ الیکشن کو ابھی ایک سال باقی ہے مگر اپوزیشن پارٹیوں کی ہلچل سے لگتا ہے کہ جیسے  الیکشن کل ہو ۔حزب مخالف نے وطن عزیز میں کئی بار دوسرا اور تیسرا محاذ بنایا ہے ۔اس محاذ کو عوام نے تو ہر بار کامیاب کیا مگر اس محاذ میں اس اتحاد میں شامل لیڈران نے کبھی اس اتحاد کو کامیاب نہ ہونے دیا ۔جلد یا بدیر سر پھٹول ہوتی رہی ہے۔اور لیڈران قطبین پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔بلکہ یہ تک کرتے ہیں کہ جس کے خلاف الیکشن لڑا تھا اسی کی گود میںجا بیٹھتے ہیںاور اپنے ہی انتخابی ساتھی کے خلاف حکمراں جماعت کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔اور ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ وطن عزیز کی سیاست میں نہ اخلاق کا گزر ہے نہ کسی اصول کا ۔یہاں کے تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کا اصول یہ ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر اصول کو طاق پر رکھ دو۔اسلئے ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ عوام کو اس حکومت سے پہونچنے والی تکالیف کی بنا پر اس حکومت کے خلاف سرگرم ہوئے ہیں یا خود پر ED & CBI کے چھاپوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں ۔
   تقسیم وطن کے بعد یہاں پر کانگریس نے ۶ دہائی حکومت کی ہے ۔۱۹۸۴ میں تو بی جے پی صرف دو سیٹ ہی جیت سکی تھی۔یہاں تک کہ بی جے پی کے سب سے بڑے مہارتھی اٹل بہاری باجپئی بھی اپنی سیٹ بچا نا پائے تھے۔پھر شاید وطنی مقتدرہ کے حکم پر راجیو گاندھی نے اٹل جی کے پارلیمنٹ میں پہونچنے کا انتظام کیا تھا۔پھر اس کے بعد بی جے پی نے رفتار پکڑی۔۱۹۸۹ میں ۸۵ نشستیں ۔اس کے بعد ۱۹۹۱ میں ۱۲۰۔پھر ۱۹۹۶ میں ۱۶۱۔اب پہلی بار بی جے پی نہ صرف پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستوں والی پارٹی بن کر ابھری بلکہ ۱۳ دنوں کے لئے حکومت کا مزہ بھی چکھا۔۱۳ دنوں کے بعد دوسری اتحادی حکومت وجود میں آئی مگر وہ بھی ڈیڑھ دو سال میں چلتی بنی ۔ پھر ۱۹۹۸ میں بی جے پی پہلے سے بھی زیادہ یعنی ۱۸۲سیٹیں لے کر جیتی مگر یہ اتحادی حکومت بھی ۱۳ ماہ بعد گر گئی۔اور دوسری اتحادی حکومت وجود میں آئی۔ یہ اتحادی حکومت ۲۰۱۴ تک چلتی رہی ۔اتنے لمبے عرصے تک کانگریس اور اتحادیوں کا راج رہا مگر مجال ہے جو حکومت نے کبھی ہندتو کے چیمپینوںکے کرپشن کے کسی معاملے کو اچھالا ہو۔ای ڈی اور سی بی آئی کو کبھی تکلیف دی ہو ۔بلڈوزر کو کبھی حرکت دی ہو ۔ہندتو والوں کو کبھی قومی سطح پر بدنام کیا ہو یا حاصل شدہ موقع کو کبھی بھنایا ہو ۔ایسا اسلئے نا ہوسکا کہ سنگھی مقتدرہ بی جے پی کو نمبرون پارٹی بنانا چاہتی تھی ۔اب سنگھ کانگریس سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی یا ہے۔کیونکہ کانگریس ہی وہ اڈہ تھی جہاں مسلم طفیلی پل رہے تھے ۔ اب مسلم سیاست کا خاتمہ سنگھ کا ٹارگٹ تھا اور وہ بڑی آسانی سے حاصل کر لیا گیا ۔آج خود مسلمانوں کو اس کا احساس نہیں کہ قومی سیاست سے ان کا خاتمہ ہو چکا ہے ٓاور سب سے زیادہ بے شعور کانگریس کے طفیلی مسلمان ہیں۔وہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کانگریس کے دم پر دوبارہ قومی سیاست میں نمایاں ہوسکیں گے ۔جبکہ کانگریس کے کرتا دھرتاؤں کا حال یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد کی حد تک تو مسلمانوں کا نام لیتے ہیں مگر مسلمانوں کے مفاد میں یا ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف منہ کھولنے کے لئے تیار نہیں ۔دہلی فسادات کی مثال لے لیں۔رامپور کی جوہر یونیورسٹی دیکھ لیں ۔اتنے بڑے مظالم پر بھی کسی کا منہ نہیں کھلا۔کیونکہ انھیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کا وہ ہندو ووٹر ان سے ناراض نا ہو جائے جو آزادیء وطن سے لے کر آج تک کبھی ان کا تھا ہی نہیں۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر کانگریس بھی ایک فرقہ پرست پارٹی ہے ۔ مگر،ایسی کہ مسلمانوں کو کیا سمجھ میں آتی ان کے ہندو ووٹروں کے بھی سمجھ میں نہ آئی۔مسلم دشمنی میں اس نے ایک خاص کردار نبھایا ہے۔اب اس کردار کے خاتمے کا وقت آچکا ہے اور سنگھ اس کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ عام آدمی پارٹی کو دینا چاہتا ہے ۔یہ سب ہوگا مگر وقت لگے گا۔پھر میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوگا۔
   اب ایک بار پھر بی جے پی کے خلاف اتحاد کی کوششیں تیز ہیں۔ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد کامیاب ہوجائے تو یہ حکمراں گٹھ جوڑ کے خلاف وہی کچھ کر سکے گا جو بی جے پی آج حزب اختلاف کے خلاف کر رہی ہے ۔کیا ای ڈی ،سی بی آئی اور بلڈوزر کا ویسا ہی استعمال یہ حکمراں اتحاد کر سکے گا جیسے آج بی جے پی حزب اختلاف کے سیاستدانوں کو توڑنے کے لئے کر رہی ہے ۔ہمیں اس میں شک ہے ۔پچھلی نو دہائیوں میں کانگریس کی مدد سے سنگھ نے بیوروکریسی کا صفایا کردیا ہے ۔اب تو فوج اور عدالتیں بھی اس کی آستھا کے زیر سایہ آچکی ہیں۔
   یہ اپوزیشن کی نااہلی ہے کہ اس کے پاس اپنا کوئی میڈیا نہیں۔وطن عزیز میں میڈیا جوبھی ہے جتنا کچھ بھی ہے حکومت کی مٹھی میں ہے۔اسلئے میڈیا آجکل حکومت سے سوال کرنے کے بجائے اپوزیشن سے سوال کرتا ہے۔میڈیا نے حکومت کو نہیں اپوزیشن کو چور بنا رکھا ہے۔وہ حکومت کی نا اہلی پر نہیں اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ حزب مخالف حکومت کی نا اہلی کو کیوں اجاگر کرتا ہے۔حکومت ملک کو اپوزیشن فری بنا نا چاہتی ہے اور میڈیا حکومت کا بھرپور طریقے سے ساتھ دے رہا ہے۔مسئلہ صرف اتنا نہیں کہ میڈیا اپوزیشن کے خلاف جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کر رہا ہے بلکہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن بھی حکومت کے خلاف اپنی پوری طاقت کا استعمال نہیں کر رہا ہے ورنہ عدالت کو کرناٹک کے اس ممبر اسمبلی کو ضمانت دینے کی جرأ ت نہ ہوتی جس کے بیٹے کو کسی ٹھکیدار سے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا ۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ لالو پرساد یادو جو سخت بیمار ہیں اور جن کاایک گردہ بھی بدلا گیا ہے مگر ان بنیادوں پر بھی عدالتیں انھیں کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں ۔یہاںتک کہ انھیں حاضری سے بھی استثنیٰ حاصل نہیں ۔ایسا کیوں ہے ؟ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بابری مسجد کا ’’شراپ‘‘ ہے۔سیاستداں خود سوچیں کہ جب نظام انصاف کو بچانے کی ضرورت تھی تو وہ کیا کر رہے تھے؟پھر یہ تو ہوگا ہی کہ جو بی جے پی کی چھتر چھایا میں آجائے گا وہ دودھ سے دھل جائے گا۔اسے ہر طرح کی بدعنوانی کے باوجود کلین چٹ مل جائے گی۔ اسی بنیاد پر بی جے پی کئی اپوزیشن ریاستوں کی حکومتوں کا تختہ الٹ کر اپنی حکومت بنا چکی ہے۔اس لئے وہ اپنے اس ترپ کے پتے سے کسی حال ہاتھ دھونا نا چاہے گی۔
   یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وطن عزیز میں ایسا اکثر ہوتارہتا ہے۔اس سے مسلمانوں کو نہ کوئی فائدہ ہے نا نقصان۔اسلئے اس پر مسلمان صحافیوں کا نوحہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا انھوں نے سیمی کی مظلومیت کا بھی اسی طرح رونا رویا ہے؟کیا اپوزیشن پارٹیوں میں سے کسی نے بھی سیمی کی مظلومیت پر ایک آنسو بھی بہایا ہے؟سیمی کو تو خود کانگریس حکومت کے ٹریبیونل نے کلین چٹ دی تھی اور خود اپنے قائم کردہ ٹریبیونل کے فیصلے کے خلاف کانگریس حکومت ہی اسٹے لائی تھی ،کیا کانگریس نے کسی ہندو تنظیم کے خلاف بھی کبھی ایسا رویہ اپنایا ہے ۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کانگریس ہو یا بی جے پی دونوں ہندتو وادی ہیں بس طریقہء کار کا فرق ہے۔خیر آج تک کوئی حکومت سیمی کے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکی ۔ہمارے معصوم صحافی جن سیاستدانوں کی مظلومیت کا نوحہ کر رہے ہیںبہت ممکن ہے ان کے جرائم تو عدالت میں ثابت ہو جائیںمگر سیمی تو گزشتہ ۲۳ سالوں سے اپنے آپ کو معصوم ثابت کر رہی ہے اور جس کی گواہی ٹریبیونل بھی دے چکی ہے مگر اس کے لئے ہمارے اپنے رونے کو تیار نہیں۔
   ہونا یہ چاہئے کہ ہمارے صحافی قوم کی رہنمائی کریں۔آسمان سے گر کر کھجور میں نہ اٹکیں۔قوم کو تیار کریں کہ وہ منتشر ووٹنگ نہ کرے۔اپوزیشن پارٹیوں سے اپنی شرائط منوائیں اور تب ہی ان کی حمایت کریںورنہ جو ہو رہا ہے وہ نہیں بلکہ مزید برا ہوگا۔

--
Kya Yeh Mukhlis Hain.inp

Firoz IFTA0005

unread,
Mar 17, 2023, 9:50:38 PM3/17/23
to BAZMe...@googlegroups.com
مخلص تو ہمارے یہاں بھی لوگ نہیں رہے۔

--
عالمی انعامی مقابلہ غزل کی تفصیل درجہ ذیل لنک میں
 
 
https://mail.google.com/mail/u/4/#sent/QgrcJHsNjCMDktBfcrqXBctvVwqJPbdTpql
 
 
 
 
www.bhatkallys.com
-------------------------------------------------
To post in this group send email to bazme...@googlegroups.com
To can read all the material in this group https://groups.google.com/forum/#!forum/bazmeqalam
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "بزمِ قلم" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to BAZMeQALAM+...@googlegroups.com.
To view this discussion on the web visit https://groups.google.com/d/msgid/BAZMeQALAM/CAENsaUuo9KtYueBkiirym3F1m6NB7%2BFfQ2-a8X-55M7NmbQKsw%40mail.gmail.com.


--
Mohammad Firoz Alam 
Diabetes Educator & N.I.C.E
Health & Nutrition Consultant
......................................................
Resi.  Shanti Vihar, Mangal Bazar, 
          Chipiyana Khurd Urf Tigri, 
          Gautam Budh Nagar (UP) 201307 INDIA

Mobile: 91-98117 42537
Google Talk : firoz...@gmail.com
WebSite       : https://foreverliving.com/
                    : www.inpage.com




Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages