From: Mirza Muhammad Nawab <mirza_...@hotmail.com>
Date: 11 June 2025 at 3:50:44 PM GMT+3
To: masoom moradabadi <masoom.m...@gmail.com>, "Nadeem Siddiqui, Urdu Times" <nade...@gmail.com>, Owais Jafrey <jafr...@gmail.com>, "Israrul Haque, Jeddah" <isra...@gmail.com>, A G Danish <Dani...@gmail.com>, "Asad Latif Khan, Canada" <alati...@yahoo.ca>
Subject: Fw: [NRIndians] The beautiful article by Madam Hamida Banu
From: nrin...@googlegroups.com <nrin...@googlegroups.com> on behalf of Mirza Muhammad Nawab <mirza_...@hotmail.com>
Sent: Wednesday, June 11, 2025 2:56 PM
To: nrin...@googlegroups.com <nrin...@googlegroups.com>
Subject: Re: [NRIndians] The beautiful article by Madam Hamida Banuدرست فرمایا کہ بھارت میں باقائدہ اردو کی کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ اور یہ اردو کی زندگی اور اس کے زندہ رہنے کا ثبوت ہے۔ ایک بات کہہ دوں کہ بھارت سے ہی پڑوسی ملک کے ایک سابق سفارتکار و مصنف جناب کرامت اللہ غوری صاحب کے بار شناسائی بھی شائع ہوئی۔ اس کتاب کو شروع میں پاکستان کے پبلشرز نے شائع کرنے سے انکار کردیا تھا۔
برسوں قبل یہاں جدہ میں اردو گلبن کے صدر مہتاب قدر صاحب نے مجھ سے جدہ میں اردو اور سعودی عرب میں اردو صحافت کے تعلق سے دو سوال پوچھے تھے۔ وہ نقل کررہا ہوں۔ پہلا جواب قدرے طویل ہے ۔
اردو جدہ میں میرے آنے سے پہلے بولی، سمجھی و لکھی جاتی تھی اور مشاعرے بھی عام تھے۔ اس سلسلے میں پاکستانی ادبی شخصیات اور اہل شمال و دکن پیش پیش تھے۔ بنگلہ دیش دور دراز کا جزیرہ تھا۔ اہل شمال محدود محفلیں آراستہ کرتے ۔ دکن البتہ سدا زرخیز رہا اور اس کی زرخیزی حاوی بھی تھی۔ ہر ہفتہ جمعرات کی رات کلو خمسہ پر شابی مکانوں میں مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے لیکن کچھ نئے شعرا نے دو تین مشاعرے پڑھنے کے بعد اپنے آپ کو جب استاد سمجھنا شروع کیا تو محفلیں درہم برہم ہوگئیں۔ بیکس نواز صاحب اور دیگر حضرات نے کوشش کی کہ بات بن جائے لیکن کلو خمسہ کی نششتیں خواب ہو کر رہ گئیں۔
لیکن صاحب اردو بڑی جاندار زبان ہے۔اس میں جوش ہے، ولولہ ہے۔اس میں کہا دل و دماغ و جسم کا ہوتا ہے۔
اردو کا مزاج سیلانی ہے اور مہاجرانہ بھی۔ گھومتی رہتی ہے دنیا بھر میں، ہجرت پر ہجرت کرتی رہی ہے۔ اجڑی دلی تنگ ہوئ تو آباد لکھنؤ نے پذیرائ کی اور جب لکھنؤ بیگانہ ہوا تو حیدرآباد دکن نے پاسداری نبھائ۔ حیدرآباد سے چلی تو مہارشٹرا اور گجرات کے کچھ شہروں کی بہار بنی۔ جائے پیدائش برصغیر میں جب التفات کم ہوا تو اس سے سمندر پار عرب کے ریگستانوں، مغرب کے نخلستانوں نے عہدو پیمان کیا۔ حتی کہ مشرق میں چینیوں نے بھی اس سے اقرار وفا اس حد تک کیا آج بھی بیجنگ یونیورسٹی میں اردو پڑھانے والے چینی باشندہ ہیں۔ مصر کی عین الشمش یو نیورسٹی میں اردو پڑھانے والی اسوشیٹ پروفیسر محترمہ ڈاکٹر والا جمال مصری ہیں اور شاعرہ بھی۔
تو بات ہو رہی تھی کلو خمسہ کی خواب ہوئ نششتوں کی۔یہاں ڈوبے وہاں نکلے کے مصداق اردو عزیزیہ میں قدم رنجہ ہوئ اورعزیزیہ نے دل سے اسے خوش آمدید بھی کہا۔عزیزیہ کا علاقہ یوں بھی سرسبز و شاداب ہے۔ اس علاقے میں دو کلیدی تعلیمی ادارے اور دیگر مدارس و کام و دہن کے رسیاؤں کی خوب خوب مدارت کرنے والے ہوٹلوں نے الگ گل کھلائے۔ ایک طرف ہند و پاک مدارس کے آڈیٹورم میں مشاعرے ہونے لگے تو دوسری جانب آئے دن نششتیں ان ہوٹلوں کے ہال میں منعقد ہونے لگیں۔ بس بہانہ چاہئیے تھا۔ ادبی وسیاسی شخصیات ، ماہر تعلیم، علمائے کرام اور فنکاروں وغیرہ کے آتے ہی استقبالئے منعقد ہوتے، سپاس نامے پیش کئے جاتے۔ کوئ وطن عزیز لوٹ رہا ہے تو اس کے لئے الوداعی تقریب کا اہتمام اور ان تمام میں مختصر سی شعری نششت کا خصوصی اہتمام ہوتا۔
ادھر برادران پاکستان بھی باقاعدگی سے بزم ادب آراستہ کرتے جو شاعری تک محدود نہیں ہوتیں۔ مقالے بھی پڑھے جاتے۔ علامہ اقبال جی عموما چھائے رہتے۔
ادب نے ہر ملک کے با ذوق افراد کو ایک لڑی پرونا شروع کیا۔ کل کے بچھڑے جن کی تہذیب و تمدن مشترک تھا جب ملے تو اردو شعر و نثر میں ایک نیا حسن و بانکپن آیا۔ اور کسی نے جب کہا کہ
بچھڑے ہوئے مل جائیں تمنا تو یہی ہےہو جایئں سبھی ایک تقاضا تو یہی ہے
تو حقیقتا ایک انقلاب آگیا۔ کل تک جو نششتیں علاقائی و ملکی ہوتی تھیں وہ برصغیری ہوگئیں اور شعر و نثر میں نئے موضوعات آئے اور نئے تجربات کیے گئے۔ ہند و پاک شعرا و ادبا کے علاوہ برصغیر کے وہ اہل ادب جو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر یوروپی ممالک میں جا بسے تھے مملکت آنے جانے لگے دعوت پر اور حج وعمرہ کی ادائیگی کے لئے۔ خوب خوب محفلیں سجتیں سننے سنانے کی، خوب خوب پرخلوص ضیافتیں اور مہمان نوازیاں ہوتیں اور وہ ادبی ماحول جو بچھڑ گیا تھا وہ لوٹ آتا۔
میزبانی کرنے والوں میں راشد صدیقی صاحب، محمد لقمان صاحب اور عزیزیہ کے لطیف منی مارکیٹ کی کالونی کے دو تین ساکنان تو مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے۔
یہ تھی ابتدایہی تھا آغاز۔
اس ابتدا و آغاز نے ایسے با ذوق خواتین و حضرات سے بھی روشناس کرایا جو شاعر و ادیب تو نہیں تھےلیکن سینکڑوں اردو و فارسی اشعار انھیں ازبر تھے اور وہ ایسے ادب شناس تھے/تھیں کہ موقع و محل کی مناسبت سے شعر سناتے اور اہل علم کی تحریروں سے /کے حوالے بھی دیتے۔ فضاء الرحمان صاحب جو کینیڈا چلے گئے انھیں باکمالوں شمار ہوتے ہیں۔
ایسے میں کچھ سفارتکار بھی آئے جو ادب نواز تھے۔ اساتذہ اور عصر حاضرکے شعرا کے کلام پر دسترس تھی انھیں ۔سابق ہندستانی کونسل جنرل سید محمد یاسین ندیم صاحب، سابق افسران سفارتخانہ ہند ذکرالرحمان و ڈاکٹر حفظ الرحمان صاحبان اور سابق پاکستانی سفارتکار عبداللطیف الفت صاحب قابل ذکر ہیں۔ ایک اور پاکستانی سفارتکار آفریدی صاحب تھے جو پشتو شاعری کو اردو کے قلب میں ڈھالتے تھے۔
ڈاکٹر حفظ الرحمان صاحب نے ۲۰۰۷ میں انڈین قنصیلیٹ کے زیر اہتمام ہوئے مشاعرے کے موقع پر شعراء کا ایک انتخاب بھی مرتب کیا تھا۔
شہر جدہ میں اردو کی ڈھیر ساری تنظیمیں تھیں ۔ کئ آج بھی ہیں اور زبان و ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ اردو مرکز، اردو گلبن و اردو اکیڈیمی کے علاوہ خاک طیبہ اور بزم عثمانیہ ان فعال تنظیموں سے کچھ نام ہیں۔ ان تنظیموں نے اپنے اپنے علاقوں کے فعال حضرات کی خدمات کا اعتراف بھی کیا۔۲۰۱۰ میں فرزندان دکن، مقیم جدہ نے جشن شریف اسلم کا اہتمام کیااور ان کی صحافت و ظرافت میں پچاس سالہ خدمات کا اعتراف کیا۔ اردو کی ترویج سےایک نہایت تعمیری کام یہ بھی ہوا کہ جنوبی ہند کے اہل ادب نےبھی انکی زبان کی ترویج و اشاعت پر کامیاب توجہ دی اور انکے اہل ادب و فن کی پزیرائ بھی کی۔
جدہ میں اردو صرف شعر و نثر تک محدود نہیں رہی۔ اس سے خط یا خطاطی کو بھی جلا ملی۔
ذکرالرحمان صاحب، جو قونصیلیٹ جنرل آف انڈیا کے زیر اہتمام ہوئے جشن آزادئ ہند ۱۹۸۸ کے ناظم مشاعرہ تھے، دعوت نامہ خط دیوانی میں لکھوا کر طبع کروایا۔ دیوانی خط وہی خط ہے جس میں مغل بادشاہوں کے فرامین ملتے ہیں اور یہی خط کم و بیش تین سو سال تک درباری خط بھی رہا۔
سابق پاکستانی سفارتکار عمران صدیقی صاحب نے سید ابو احمد عاکف صاحب کے ساتھ مل کر “علمہ بالقلم” کے عنوان سے پاکستانی خطاط کی خطاطی مرتب کی جو دارلسلام نے شائع کی۔
سابق کونسل جنرل ھند جناب سید اکبرالدین صاحب نے پاکستان کے قنصل جنرل کو سالانہ مشاعرے میں مہمان خصوصی مدعو کیا۔اکبرالدین صاحب کی قیادت میں قنصیلٹ کے احاطے میں ہوئے ایک شام غزل کے پروگراممیں علامہ اقبال کے پوتے آزاد اقبال نے دیر تک سامعین کو سر میں علامہ کے کلام سے محظوظ کیا۔جہاں ادب ہوگا وہاں سُر کا ہونا لازمی ہے۔ جگر اور خمار تحت میں نہیں پڑھتے تھے اور ان کے ترنم آج بھی زندہ ہیں- ہر کوئی مشاعروں اور نثری نشستوں کا شوقین نہیں ہوتا۔ البتہ موسیقی بیشتر کو مدعو و مسحورکرتی ہے۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت کا سہرا صرف مشاعروں اور نثری نششتوں کو نہیں جاتا۔ سنگیت کی محفلوں نےبھی اس میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان میوزیکل نائٹس میں منجھے مغنی ہر زمانے کے شعرا و شاعرات کی غزلیں راگوں کے سفر میں پیش کرتے اور سامعین ان گائی غزلوں کو یاد کرکے گنگناتے بھی تھے۔ شاعری اس طرح بھی لوگوں تک پہنچتی۔ جدہ کے اردو غزل سراء میں افسر صدیقی، نظام علی خان وغیرہ معروف نام تھے۔
پرانے ہندی فلمی گانوں اور زیادہ تر پاکستانی غزل سنگرز اور قوالوں کے آڈیو کیسیٹس نے بھی اردو کی بھر پور ترویج و اشاعت کی۔
ان دنوں پرانی ہندوستانی فلموں کے گانے اور پاکستانی غزل گانے والوں میں مہدی حسن، غلام علی اور خواتین میں منی بیگم، اقبال بانو وغیرہ بے حد مقبول تھے۔ صنعت کار سنگر حبیب ولی محمد کا آج جانے کی ضد نہ کرو ہر محفل میں کم و بیش گایا جاتا تھا۔ بلد میںبن محفوظ مشہور کیسیٹس فروخت تھے۔ قرآءت بھی سنی جاتی تھی اور قاری عبدالباسط صاحب کا طوطی بولتا تھا۔
جب ویڈیو آیا تو بالخصوص پاکستانی اردو ڈراموں نے ہنگامہ مچا دیا۔
مائل پرواز وقت نے ایک اور تحفہ دیا اردو ادب کو۔ جدہ سے پہلی مرتبہ، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سعودی عرب سے پہلی مرتبہ ۱۹۸۷ میں محمد طارق غازی صاحب اور ان کے رفقاء کی مساعئ جمیلہ سے نعیم حامد علی صاحب کا شعری مجموعہ بعنوان “پیکر نغمہ” شائع ہوا اور رسم اجراء سعودی عرب کے ممتاز و مشہور شاعر عالی جناب محمد حسن فقیہ صاحب نے کی۔ رسم اجراء میں دو قدآور ادبی و صحافی سعودی شخصیات عزت مآب ایاد مدنی صاحب و عزت مآب مرحوم رضا محمد لاری صاحب نے شرکت فرمائ اور اردو کا اعتراف کیا۔ مدنی صاحب اس وقت عکاظ آرگینائزیشن فور پریس اینڈ پبلیکیشن کے ڈائرکٹر جنرل تھے اور بعد میں شوری کونسل کے رکن و وزیر حج و وزیر اطلاعات اور بعد میں منظمہ الموتمر السلامی (OIC) کے سکریٹری جنرل بھی رہے۔ مرحوم لاری صاحب سعودی عرب سے انگریزی زبان میں نکلنے والے جریدہ سعودی گزٹ کے مدیر (چیف ایڈیٹر ) تھے۔
جدہ ہی میں پاکستان سے امریکہ ہجرت کرنے والے شاعر ظفر رضوی ظفر صاحب کے شعری مجموعے “آگ کے پیوند” کا اجراء ۱۹۸۸ میں ہوا۔
نجی اور مخصوص بیٹھکوں نے بھی گلریز ی کی اور مرحوم ماہر اقتصادیات و شاعر ڈاکٹر اوصاف احمد صاحب نے ۲۰۰۱ میں ایک انتخاب “بیسویں صدی کی اردو شاعری” مرتب کی۔
میں ایک بات پوری دیانتداری اور ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ اردو کی اشاعت و ترویج میں جریدہ سعودی گزٹ نے لازوال کردار ادا کیا۔ جب بھی اردو ادب کی نئی تاریخ لکھی جائے گی تو وہ سعودی گزٹ کی اردو خدمات کے ذکر کے بغیر یقیناً ادھوری رہے گی۔
سعودی گزٹ میں مرحوم طارق غازی صاحب مشاعروں کی تفصیل قلمبند کرتے۔ ہر شاعرکے نام کے ساتھ اس کا ایک چنندہ شعر اور اس شعر کا انگریزی میں ترجمہ۔ یہ وقت طلب کرتا تھا۔ ایسی تفصیلی رپورٹ مع شعرا کی تصویر تو ہند و پاک کے کسی اردو اخبار میں بھی نہیں چھپتی ہوگی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سہوا کسی شاعر کا نام چھوٹ جاتا تو وہ دوسرے دن شکایت تو دور، الزام لگا دیتا کہ اس کا نام دانستہ رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک شاعر صاحب کے ساتھ مجھے بڑے لطیف انداز سے پیش آنا پڑا تھا۔ اور اس کے بعد ہم لوگوں نے جریدہ سعودی گزٹ میں مشاعروں کی رپورٹ لکھنا بند کردیا۔
کبھی کبھی میر ایوب علی خاں صاحب بھی مشاعرے کی رپورٹ لکھ دیا کرتے تھے اور میں میوزیکل نائٹس کی۔
سعودی گزٹ ہی میں طارق غازی صاحب کی نگرانی میں علامہ اقبال کے یوم ولادت پر مضمون شائع ہوتے، بڑے اہتمام کے ساتھ علامہ کا جاذب نظر خاکہ بنوایا جاتا اور مضمون آدھے سے زیادہ صفحے کی زینت بنتا۔ اردو کی شخصیات، رامپور کی رضا لائبریری، اردو خطاطی ومخطوطات اور پردہ سیمیں کی ممتاز اردو نواز شخصیات پر بھی وقتا فوقتا مضامین لکھے گئے۔ خطوط کے کالم میں جدہ میں اردو کی سرگرمیوں کو سراہا جاتا اور خامیوں/کمزوریوں کی جانب توجہ مبذول کرائ جاتی۔
سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض سے ۱۹۹۳ میں مشرق وسطی میں اردو کے نام سے ۔۔۔۔ (نامکمل) کتاب میں مملکت میں موجود اردو شعراء و شاعرات کا پہلا انتخاب بھی شائع ہوا۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے۔ ۱۹۸۶ میں جدہ میں مشاعروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ہر ہفتہ دو دو تین تین مشاعرے اور ادبی نششتیں منعقد ہونے لگیں۔ اس سے شعر و ادب کا معیار گرنے لگا اور سنجیدہ حضرات ادبی نششتوں سے اجتناب کرنے لگے۔ سعودی گزٹ نے اس حقیقت کی طرف مبذول کروائی اور اردو والوں کو متنبہ بھی کیا۔
سابق کونسل جنرل ڈااکٹر اوصاف سعید کا منعقدہ اردو ویک و ۲۱ روزہ انڈیا فیسٹول کی اختتامی تقریب میں سفیر ھند عالیجناب محمد فاروق کا اپنی تقریر کا یہ کہتے ہوئے کرنا:Today I am a proud Indian
ایک دقّت اردو والوں کے ساتھ یہ ہے کہ جب بھی حکومت کی طرف سے کچھ کیا جاتا ہے تو اردو والے اس کی پذیرائی نہیں کرتے۔ اگر پذیرائی ہو تو دوسروں کے لیے دروازے کھلنے کے امکان ہو جاتے ہیں۔ اردو کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا یہ ایک عام رائے بنا دی گئی ہے لیکن جب کوئی کچھ کرتا ہے تو اسے سراہا نہیں جاتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مجاز پر ڈاک ٹکٹ جاری ہوا تھا تب کسی بھی اردو اخبار میں کوئی تفصیلی خبر نہیں چھپی سوائے اس کے مجاز کی یاد ڈاک ٹکٹ جاری ہوا۔ مجاز کی شاعری پر شاید ہی کوئی تفصیل آئ ہو۔ میں نے یہاں سعودی گزٹ میں انگریزی اور سعودی گزٹ کے ضمیمہ “آواز” میں مضامین لکھے تھے مجاز پر ڈاک ٹکٹ کے اجرا کے بعد۔ یہ اردو والوں کا حال جو دہائیوں سے یہ کہتے نہیں چوکتے کہ اردو مر رہی ہے۔ اردو بڑی جاندار زبان ہے۔ اس میں جوش ہے، ولولہ ہے۔اس میں کہا دل و دماغ و جسم کا ہوتا ہے۔ یہ سیلانی بھی ہے اور مہاجر بھی۔
جواب طول کھینچ گیا ہے۔ میں دوسرے سوال کا جواب تحریر کردوں۔
جدہ میں اردو صحافت و نشریات برصغیر سے بہت بہتر ہے۔ یہاں باقاعدگی سے اردو اخبارات، مجلے، ہفتہ وار و ماہانہ آتے ہیں اور لوگ انھیں خرید کر پڑھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک اخبار دس بیس حضرات پڑھتے ہوں جیسا کہ برصغیر میں ہوتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ کئ نہیں تو کچھ پڑھنے والے آج بھی ڈیجیٹل انقلاب کے باوجود تراشے سنبھال کر رکھتے ہیں۔
علاوہ ادبی کتابیں ، خاص نمبر اورلغات بھی ملتی ہیں جو برصغیر کے کتب فروشوں کی دکانوں میں بآسانی نہیں ملتیں۔
“اردو نیوز” سعودی عرب سے شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار ہے جو جنگ کے طرز پر ہے۔ سعودی گزٹ نے ۲۰۰۸ میں ہفتہ وار “آواز” جاری کیا تھا پر اس کی زندگی پستہ قد رہی۔ اردو پڑھنے والوں کی تعداد چونکہ زیادہ تر برصغیر کے افراد کی ہے اس لئے لازمی طور پر برصغیر کی علاقائی ، سیاسی ، اقتصادی و ثقافتی خبریں و تجزیئے زیادہ ہوتے ہیں۔
سعودی حکومت کی جانب سے موسم حج میں مختلف زبانوں میں ، بشمول اردو، محدود صفحات کے اخبار شائع ہوتے رہے ہیں۔
جدہ میں مقیم ھندوستانی و پاکستانی صحافی اپنے اپنے وطن کے موقر جرائد کے کے لئے رپورٹس لکھتے رہے ہیں۔ مرحوم شریف اسلم صاحب و عارف قریشی صاحب، شاہد نعیم صاحب ، مسرت خلیل صاحب وُ فوزیہ خانُ کا ھندُو پاک جرائد کے لئے جدہ کی ادبی و ثقافتی خبریں لکھنا اردو والوں کو بھولا نہیں۔
سمیرہ عزیز کی اردو کے لئے کوشش بھی قابل ستائش رہی ہے۔
مجموعی طور اردو صحافت سعودی عرب میں اپاہج یا مجبور نہیں ہے۔
From: nrin...@googlegroups.com <nrin...@googlegroups.com> on behalf of Pasha Patel <pashap...@gmail.com>
Sent: Tuesday, June 10, 2025 8:49 PM
To: NRIn...@googlegroups.com <NRIn...@googlegroups.com>
Subject: [NRIndians] The beautiful article by Madam Hamida Banu----Dear Mr. Mirza Muhammad Nawab and All Respected Members of Our NRI Forum
As Salam o Alaikum
Here is the beautiful "mazmoon" that we extracted from Madam Hamida Banu's attachment. Plus the photos.
We want to thank Madam Hamida Banu from the deepest recesses of our heart for sharing this article and these wonderful photos with us. May Allah bless her and her husband Mr. Anil Chopra and all her loved ones. Aameen.
Best wishes
Pasha PatelOwner and ModeratorNRIn...@GoogleGroups.com
یہ افواہ نادانوں نے اُڑائی ہے، اپنوں نے پھیلائی ہے
حمیدہ بانو
!یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں
جی سچ کہہ رہی ہوں۔ یہ حقیقت ہے۔ پہلے تو یہ افواہ اُڑائی گئی کہ وطن سے نکال دی گئی ہے۔ کسی نے کہا نہیں، ہم نے تواُسے فلاں جگہ دیکھا، دوسرے نے کہا، ہاں میں نے بھی فلاں شہر میں دیکھا، تب کسی نے کہا نکال دی گئی تھی مگر گئی نہیں, یہیں در پردہ رہی۔ اب باہر نکل آئی ہے، مگر !حالت اُس کی خستہ ہے، بیمار و لاغِر ہے بس گئی کہ گئی۔ پھر کسی اخبار نے جلی حروف میں لکھا کہ ’’اُردو مر گئی افسوس, اُردو مر گئ"
کرنے والوں نے یقین کر لیا مگر جو جانتے تھے، وہ جانتے تھے کہ یہ شیریں سُخں، یہ خوش لحن، یہ نازُک اَندام، روزمرّہ کی زبان، بزرگوں کی شان، فلموں کی جان, ہزاروں کے دل میں بسنے والی بھلا یوں کیسے مر سکتی ہے۔ یہ افواہ ہے, یہ پھیلائی گئی ہے۔
حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میں ماشا اللہ زندہ ہوں اور صحتمند ہوں۔ آپ دیکھیں بھارت میں با قائدہ اُردوکی کتابیں شائع ہو رہی ہیں، کتنے ہی رسالے اور اخباراُردو کے نکل رہے ہیں۔ محفلیں اورمشاعرے مُنعقد ہو رہے ہیں۔ میرے نام سے "جشن ِ ریختہ" منایا جاتا ہے۔ اور بڑے اہتمام سے۔ جہاں میں بن سنور کر جاتی ہوں۔ ہزاروں میرے وجود کے گواہ ہیں۔ پھر یہ کہنا کہ اُردو مر گئی افواہ نہیں تو کیا ہے؟ یہ تو ایک بات ہوئی ۔ پھر باقائدہ کتنے اسکول اور مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہوں۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو کرنے والوں نے آئی آئی ٹی گاندھی نگر احمد آباد میں اُردو کے لیے"مولانا ابوالکلام آزاد چیر" قائم کی ہے۔
جہاں ۴۴ یونِٹ کے دو کورس پڑھائے جاتے ہیں ایک اُردو لکھنے پڑھنے کا ایک نثروشاعری کا۔بچّےاتنے شوق سے پڑھ رہے تھے کہ ایک ایک کلاس میں۷۰, ۷۰طلبا کا داخلہ ہونے لگا تو دانشگاہ کو روک لگانی پڑی کہ ۴۵ سے زیادہ طلبا نہ لیے جائیں۔
آپ ہی بتائیں یہ میر ے زندہ رہنے کی نشانی ہے یا نہیں۔
پھر بیرونِ وطن نگاہ دوڑائیے ۔جاپان میں پڑھائی جاتی ہوں، جرمنی میں ٹرکی میں امریکہ کی تو کتنی ہی دانشگاہ میں، میں پڑھائی جاتی ہوں چین میں بھی۔ کن کن ملکوں کا نام لوں۔ پڑھتے ہی نہیں ہیں بلکہ بولنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور شعر و شاعری پر بھی (قلم آزما ں ہیں) چینی شاعرجو اِنتخاب عالم تخلّص کرتے ہیں اُن کی کتاب ہے ’ گلبانگ ِ وفا ‘ ٹرکی کےحلیل ٹوکر شُستہ اُردو بولتے ہیں استانبُل دانشگاہ کے اُردو شعبہ کے صدر ہیں اُنہوں نے بھی کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔اور بھی بہت لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔
رہی بات افواہ کے پھیلانے کی تو میرے وہ دوست میرے وہ اپنےجو زبان سے واقف تھے ۔جانتے تھے کہ ہماری تہذیب اسی سے جُڑی ہوئی ہے مجھے عزیز تو رکھتے تھے مگر وہ نسل انگریزی اسکولوں میں پڑھنے لگی سو زبان کے رسمُ الخط سے نا بلد رہی اور نتیجہ میں، آنے والی دو نسلیں مجھ سے نا آشنا رہی۔
اُن کا کوئی قُصور نہیں۔ ادھر اُدھر سے جو کچھ اُن کے کانوں میں پڑا وہی اُن کی میراث رہی۔ میرے اپنوں کے ضمیرجب اُنہیں ملامت کرنے لگے۔ وہ خود سے شرمندہ ہیں کہ اپنا فرض پورا نہیں کیا۔ اپنے بچّوں کو، نئی نسل کو اُردوورثہ میں نہیں دی۔ اب اپنی شرمندگی چھُپانے کے لیے مجھے کفن اُڑھا رہے ہیں۔ اور یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ وہ تو ہمارے زمانے سے ہی ختم ہونے لگی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ وہ جو اُردو کا رونا رو تے ہیں وہ بھی انگریزی میں۔
ہاں یہ بھی کہتی چلوں کہ میرے پاس تو ادب کے خزانے ہیں، خزانے، قارون کا خزانہ کہیں جسے۔جواہرات سے بھرا ہوا۔ ایک ایک سے بڑھ کرادب پارے ہیں۔ دل و دماغ کو روشن کرنے والے۔ میرے پاس تو حمد بھی ہے قصیدہ بھی، غزل کے ساتھ نظم بھی ہے، مرثیہ اور مثنوی بھی اور رباعیات ایک ایک سے بڑھ کر۔ میرانیسؔ کیا خوب کہہ گئے:
دُنیاعجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
اِس کے علاوہ میری جھولی میں نثر کے کیسے لا جواب شہ پارے ہیں۔ صرف شاعری ہی تو میری مال و متاع نہیں ہے۔
کتابیں اُٹھا کر زرا دیکھیں تو ۔پریم چند، کرشن چند، عصمت چغتائی، قُرّت ُالعین، راجیندر سینگھ بیدی، مولانا محمد حسین آزادؔ
مولانا حالی ؔ کس کس کا نام لیں ۔پھر مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر جس پر نظم قربان
بقول مولانا حسرت ؔ موہانی
جب سے دیکھی ہے آزادؔ کی نثر
حسرتؔ اپنی نظم میں کچھ مزہ نہ رہا
بات یہ ہے کہ جب اُردو رسم الخط میں لکھنا پڑھنا سیکھینگے پھر اِن خزانوں تک پہنچینگے ۔ کچھ لوگ مجھے دیوناگری اور رومن لباس پہنانے کی کوشش کرتے ہیں جو مجھے زرا زیب نہیں دیتا ۔ اُن کے پاس وہ زیور ہی نہیں جس سے میرے حُسن میں نِکھارآتا ہے ۔شکر اللہ کا کرنے والے کوشش کر رہے ہیں ۔ کئی ویب سائٹس ہیں۔ اُن میں سے ایک
چراغ ِ اُردو‘ بھی ہے ۔
chiragh-e-Urdu.org
آپ اُسے دیکھیں۔ اُس میں اُردو کے سبق بھی ہیں۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے محفلیں بھی، مضمون بھی ہیں اور اشعار بھی۔
میں ماشا اللہ زندہ ہی نہیں صحت یاب ہوں۔ آپ نے میری بات غور سے سُنی اِس کے لیے شکر گزار ہوں۔
یہ کہہ کر اجازت لیتی ہوں کہ ’’ہے میرے پاؤں میں پایل کی جھنکار ،میرا لہجہ گویا ستار کےچھیڑ دیےہیں تار۔’‘
خدا حافظ
اُردو کی خدمت گُزار
حمیدہ بانو
On Tue, Jun 10, 2025 at 3:02 PM Mirza Muhammad Nawab <mirza_...@hotmail.com> wrote:
MohtarmaSalam wa RahmatMazmoon padhne k liye access chahiyeMirza
From: nrin...@googlegroups.com <nrin...@googlegroups.com> on behalf of Hamida Chopra <hamid...@gmail.com>
Sent: Tuesday, June 10, 2025 8:26 AM
To: nrin...@googlegroups.com <nrin...@googlegroups.com>
Subject: Re: [NRIndians] Urdu Mitao Abhiyanآداباُردوکے سلسلے میں آپ سب کے برقی خط پڑھے۔پروفیسرمحمد محمود صاحب نےجو کچھ کہا وہ اپنی جگہ صحیح ہے مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تقسیم ہند کے بعد سے ہی ایسی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ یہ مسلمانوں کی زبان ہےپاکستان کی زبان ہے وغیرہ وغیرہ ممکن ہے اس وقت زیادہ زور لگایا جا رہا ہوگا۔لیکن اُس سے کیا اُردو اپنے اورصرف اپنے بوتے پر زندہ ہے اور انشا اللہ زندہ رہیگی۔اس کی شیرینی ، اس کی مٹھاس اس کے نازک لب و لحجہ کی وجہ سے لوگ خود بخود اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔مزے کی بات یہ کہ جو اسے مٹانے کی کوشش میں ہیں وہ انگنت اُردو کے الفاظ بول رہے ہیں اور اُنہیں معلوم بھی نہیں۔ اب ایسے نادانوں کو کیا کہا جائے۔ابھی گذشتہ ہفتے ہی اُردو ادب اور شاعری کا ایک کورس تمام کیا۔۴۰ طلبا نے داخلہ لیا۔ہ۳ باقئدہ آتے تھے باقی اپنی مجبوریوں کے باعث کبھی آتے کبھی نہیں۔ٰآئی آئی ٹی (IIT)گاندھی نگر احمدآباد میں مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے اُردو چیر ( Urdu chair )قائم کی گئی ہے۔دو کورس پڑھائے جاتے ہیں لکھنے پڑھنے کا ،اور ادب و شاعری کا ۔کووِڈ سے پہلے میرے پاس ۱۱۹ طلبا تھے ابھی جو پڑھا رہے ہیں اُن کے پاس ماشا اللہ ایک ایک کلاس میں ۷۵ ۷۵ طلبا ہیں سو اُردو زندہ ہے، زندہ رہیگی۔مرزا محمد نواب صاحب کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ " جب تک اُردو بولی جائیگی اُردو زندہ رہیگی " نہیں خالی بولنے،مشاعرے اور محفلیں کرنے سے اُردو زندہ نہیں رہ سکتی اس کا رسم الخط جاننا نہایت ضروری ہے۔اس کے بغیر چارہ نہیں۔ابھی جو بھارت میں اُس کی حالت ہے اُس کے زمیدار غیر نہیں اپنے ہیں جو اُس سے محبت کرتے ہیں چاہے وہ سردار ہوں ہندو ہوں یا مسلمان۔ جنہوں نے اپنے بچّوں کو اُردو نہیں سکھائی۔ابھی بھی کچھ نہیں گیا کیوں نہ ہم سب مل کر اُردو کے فروغ کی مہم چلائیں۔رکاوٹیں تو ڈالی جائینگی مگر اُس سے کیا۔ ہم اپنا کام کرتے رہینگے۔ آپ لوگ تجویز پیش کیجیے پھر آگے بڑھتے ہیں۔ خط طویل ہوگیا اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ایک مضمون اس کے ساتھ بھیج رہی ہوں۔ پڑھنےکی زحمت گوارا کریں۔اور کر سکیں تہ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔شکریہخدا حافظحمیدہ
On Thu, Jun 5, 2025 at 1:29 AM Mohammed Mahmood <m.mah...@gmail.com> wrote:
I was shocked today by reading BBC Hindi's report about the suspension of a lady teacher in Bijore, UP, who wrote the name of her school in Urdu.On statute Urdu is still the second official language of UP. Use of Urdu for specified purposes is mandatory. However, the rustic head of the racist regime has declared the policy of One Culture, One Language in the State. Accordingly, all Urdu inscriptions on sarkari buildings and roads have vanished. Urdu version of the UP Gazette ceased publication long ago.
m. mahmood
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "NRIndians Group" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to nrindians+...@googlegroups.com.
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "NRIndians Group" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to nrindians+...@googlegroups.com.