محبت کی دکان پر رش بڑھ رہا ہے

5 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
2:27 AM (16 hours ago) 2:27 AM
to bazme qalam
محبت کی دکان پر رش بڑھ رہا ہے
پسِ آئینہ: سہیل انجم
ایسا لگتا ہے کہ اب واقعی بی جے پی کی مذہبی سیاست کی دکان بند ہونے اور راہل گاندھی کی محبت کی دکان پورے ملک میں کھل جانے والی ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس مذہبی سیاست نے انسان کو انسان کا دشمن بنا دیا۔ دو بڑے مذاہب کے پیروؤں کے درمیان منافرت کی ایسی لکیر کھینچ دی جیسی تقسیم ہند کے وقت بھی نہیں تھی۔ منافرت کی دکان بند ہونے کے اشارے پارلیمانی انتخابات سے ہی ملنے شروع ہو گئے تھے۔ ان انتخابات میں اس نے اپنی سیاست کے مرکز ایودھیا کو گنوادیا اور اب ہندو مذہب کے ایک اورمتبرک مقام اور چار دھام میں سے ایک بدری ناتھ کو بھی گنوا دیا۔ یعنی پہلے ایودھیا کے عوام نے اس کی دکان بند کی اور اب بدری ناتھ کے عوام نے بند کر دی۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک اور مرکز کیدار ناتھ بھی گنوانے والی ہے۔ وزیر اعظم کے چار سو پار کے نعرے کو یقینی بنانے کے لیے بی جے پی نے کیا کیا جتن نہ کیے تھے۔ شنکرآچاریوں کی مخالفت اور رام مندر کی نامکمل تعمیر کے باوجود اس کی پران پرتشٹھا کی گئی اور وزیر اعظم نے ایک پجاری کی حیثیت سے پوجا کی۔ اس کو ایک سرکاری پروگرام کے طور پر منایا گیا اور نہ صرف ہندوستان کے تمام نیوز چینلوں نے بلکہ غیر ملکی چینلوں نے بھی اسے لائیو دکھایا۔ لیکن ہوا یوں کہ وہ ایودھیا ہی کی سیٹ نہیں بچا سکی۔ وہاں سے اس کے امیدوار سماجوادی پارٹی کے امیدوار سے بری طرح شکست کھا گئے۔ اس کے بعد بھکتوں نے ایودھیا واسیوں کو پانی پی پی کر گالیاں دیں اور عقید تمندوں سے ان کے بائیکاٹ کی اپیل کی۔
قارئین ان خبروں سے واقف ہوں گے کہ کس طرح عجلت میں رام مند رکی تعمیر شروع کی گئی، رام پتھ بنایا گیا اور دیگر ترقیاتی کام کیے گئے۔ اب ان کی پول ایک ہی بارش میں کھل گئی۔ رام پتھ تو بیٹھ ہی گیا، اس پر جگہ جگہ بڑے بڑے گڈھے بن گئے۔ خود رام مندر کی چھپ چونے (ٹپکنے) لگی۔ چونے اور ٹپکنے میں بڑا فرق ہے۔ ٹپکنا یعنی ایک ایک بوند کرکے ٹپکنا ہوتا ہے لیکن چونے کا مطلب ہوا تار بندھ جانا۔ جب رام مند رکی چھت سے پانی اس طرح ٹپکنے لگے کہ تار بندھ جائے اور اس کی نکاسی کا بھی کوئی انتظام نہ ہو تو پھر اس کی تعمیر میں ہونے والے کرپشن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہاں کرپشن تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اب انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے رام نام کی لوٹ کی قلعی کھول دی ہے۔ اس نے ایک تفتیشی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فیصلے کے بعد کس طرح سرکاری افسران اور نیتاؤں کی جانب سے زمینیں خریدی گئیں۔ بہرحال یہ الگ قصہ ہے۔ ہم بات کر رہے تھے ایودھیا قلعے کے منہدم ہو جانے کی۔ ایودھیا کے مقامی باشندے بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کے سخت مخالف ہیں۔ اس کا اظہار وہ بار بار کرتے رہے ہیں اور انتخابات میں انھوں نے بی جے پی کے امیدوار کو ہراکر اس کا عملی اظہار کر دیا۔ صرف ایودھیا ہی نہیں بلکہ اطراف کی سیٹیں بھی ا س نے گنواد دیں اور رام کے نام کے جو جو مراکز تھے وہاں بھی اسے منہ کی کھنی پڑی۔ اسی طرح اتراکھنڈ کے بدری ناتھ کے عوام نے بھی بی جے پی کی ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی کو سختی سے مسترد کر دیا۔
بدری ناتھ کی سیٹ پہلے کانگریس ہی کے پاس تھی۔ لیکن کانگریسی رکن اسمبلی کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی میں چلے جانے کی وجہ سے وہاں ضمنی انتخاب کرانا پڑا۔ بی جے پی نے اسے ہی امیدوار بنا دیا۔ لیکن اس کی ساکھ ایک دل بدلو کی بن گئی۔ لہٰذا اس کو بھی منہ کی کھانی پڑی۔ بی جے پی کو منگلور سیٹ پر بھی شکست ہوئی۔ وہاں سے بھی کانگریس کی جیت ہوئی۔ دراصل جس طرح بی جے پی ہندو مذہبی مقامات کا سیاسی مفاد کے لیے استحصال کر رہی ہے وہ لوگوں سے اور یہاں تک کہ ہندو مذہبی رہنماؤں سے بھی ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ ایودھیا میں بھی یہی ہوا تھا اور بدری ناتھ میں بھی یہی ہوا ہے۔ وہ اس سے قبل وارانسی میں بھی یہی سب کر چکی ہے۔ صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ایودھیا میں لاتعداد مندر توڑ دیے گئے۔ غریب عوام کے گھر بہت کم قیمت پر تحویل میں لے لیے گئے اور پتہ نہیں سب کو معاوضہ ملا بھی یا نہیں۔ اسی طرح وارانسی میں سیکڑوں مندروں کو منہدم کر کے کاشی وشوناتھ کاریڈور بنایا گیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ وارانسی میں تو بہت سے سادھو سنت ہی بے روزگار ہو گئے۔ کاشی اور ایودھیا کی طرح بدری ناتھ میں بھی عوام میں زبردست بے چینی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں وی آئی پی درشن کے انتظامات کیے جا رہے ہیں جس سے درشن کرنے والے عام لوگوں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر فطرت کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ بدری ناتھ کا وجود بڑی بڑی پتھریلی چٹاوں پر منحصر ہے۔ اب ان چٹانوں کو ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ کے نام پر ہٹایا اور ان کی جگہ پر کنکریٹ کی دیوار بنائی جا رہی ہے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ دیوار چٹانوں کی جگہ نہیں لے سکتی۔ مستقبل میں اگر سیلاب آیا تو یہ دیواریں ریت کی دیوار ثابت ہو ں گی۔ مانسون کی پہلی بارش ہی میں وہاں سیلاب آگیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ دریائے الکنندا میں پانی کی سطح میں غیر معمولی اضافہ عوام کی بے چینی کا سبب ہے۔ ان ترقیاتی کاموں سے وہاں کے پروہتوں میں بھی ناراضگی تھی۔
بہرحال اگر ہم ضمنی انتخابات پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ ان میں بی جے پی کے لیے اطمینان کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ دس اگست کو سات ریاستوں میں تیرہ اسمبلی حلقوں میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو محض دو ہی سیٹیں مل پائیں جبکہ اس نے گیارہ سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا۔ ادھر انڈیا اتحاد نے دس سیٹیں جیت لیں۔ پارلیمانی الیکنش میں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں کانگریس کو شکست ہوئی تھی لیکن ان انتخابات میں اس نے ان دونوں ریاستوں میں دو دو سیٹیں جیت لیں۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے جن سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی موجودہ الیکشن میں ان سے تین گنوا دیں۔ ہماچل پردیش میں آزاد ارکان اسمبلی نے بی جے میں شمولیت اختیار کر لی تھی وہ بھی ہار گئے۔ حالانکہ یہ اسمبلی انتخابات تھے جو کہ عام طور پر مقامی ایشوز پر لڑے جاتے ہیں۔ لیکن ان انتخابات کے نتائج قومی انتخابات کا اشارہ بھی دیتے ہیں۔ یہ نتائج اس بات کا شارہ دے رہے ہیں کہ جس طرح پارلیمانی انتخابات میں انڈیا اتحاد کو کامیابی ملی تھی اسی طرح آگے بھی ملنے والی ہے۔ انڈیا اتحاد کی شاندار کارکردگی سے اپوزیشن کے حوصلے بلند ہیں۔ اسی درمیان یہ خبر آئی ہے کہ راجیہ سبھا میں اب بی جے پی کے ارکان کی تعداد میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ اس کے چار ارکان راکیش سنہا، رام شکل، سونل مان سنگھ اور مہیش جیٹھ ملانی کی مدت پوری ہو گئی اور وہ سبکدوش ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی راجیہ سبھا میں بی جے پی ارکان کی تعداد کم ہو کر 86 رہ گئی۔ البتہ این ڈی اے کی 101 ہے جو کہ اکثریت کے لیے ضروری 113 سے کم ہے۔ یاد رہے کہ راجیہ سبھا میں کل 245 ارکان ہوتے ہیں۔ جبکہ کانگریس کی زیر قیادت انڈیا بلاک کے ارکان کی تعداد 87 ہے جن میں کانگریس کے 26، ٹی ایم سی کے 13 اور عام آدمی پارٹی اور ڈی ایم کے کے دس ارکان ہیں۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی کے ارکان کی تعداد میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ اب بی جے پی کو اہم بلوں کی منظوری میں اے آئی اے ڈی ایم کے اور وائی ایس آر کانگریس اور دیگر غیر این ڈی اے جماعتوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ البتہ جب وہ ان خالی ہونے والی چار سیٹوں کو پُر کر دے گی اور گیارہ خالی نشستوں میں سے کچھ پر کامیابی حاصل کر لے گی تب کہیں جا کر اس کے لیے آسانی ہوگی۔ فی الحال کسی بل کو منظور کرانے کے لیے بی جے پی کو این ڈی اے جماعتو ں کے پندرہ اور دیگر پارٹیوں کے بارہ ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ اس تمام صور تحال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راہل کی محبت کی دکان پر رش بڑھنے والا ہے۔
موبائل: 98181959229
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages