پروفیسر محمد حسن کی خودنوشت ایک عہد کی دستاویزی تاریخ

16 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Oct 7, 2025, 4:17:09 AM (2 days ago) Oct 7
to bazme qalam

پروفیسر محمد حسن کی خودنوشت
ایک عہد کی دستاویزی تاریخ
سہیل انجم
موبائل: 9818195929
پروفیسر محمد حسن کی ہنگامہ خیز خودنوشت ”سر بازار می رقصم“ منظر عام پر آنے کے بعد ہی موضوع گفتگو بن گئی۔ لیکن جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ سنسنی خیزی کو زیادہ شہرت ملتی ہے اور سنجیدہ باتوں کو کم۔ اس کتاب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس پہلو پر ذرا آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ البتہ اس کے مطالعے کے بعد یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ یہ محض خودنوشت نہیں ہے بلکہ ایک عہد کی دستاویزی تاریخ ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس میں ترقی پسند تحریک پر بھی کھل کر گفتگو کی گئی ہے اور ملکی سیاست پر بھی۔ فرقہ وارانہ فسادات پر بھی اور سماجی رویوں پر بھی۔ اپنے علمی منصوبوں پر بھی اور غیر ملکی اسفار پر بھی۔ اپنے ازدواجی معاملات پر بھی اور اپنی خانگی زندگی کی پیچیدگیوں اور ناہمواریوں پر بھی۔ سب سے دلچسپ تو وہ تفصیلات ہیں جو یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی ”سازشوں“ سے متعلق ہیں۔ غرضیکہ یہ کتاب دلچسپ واقعات کا ایک نگار خانہ ہے۔
پروفیسر محمد حسن کی زندگی لڑکپن سے ہی ناہمواریوں کی شکار رہی ہے۔ چونکہ وہ زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے اس لیے بچوں سے گھلنے ملنے کے مواقع نہیں ملے۔ وہ لکھتے ہیں: ”پرانے طرز معاشرت میں آنکھ کھولی، حویلی کی اونچی اونچی دیواریں، سہ دریاں، محل سرا، شیش محل۔ دس سال تک میں اپنے والدین کا اکیلا لڑکا تھا۔ اس لیے زیادہ لاڈ پیار سے پرورش ہوئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہاکی، کرکٹ، فٹبال وغیرہ کھیل سکا نہ سائیکل پر چڑھنا سیکھ سکا۔ شاید اسی وقت سے مجھے مامتا اور لاڈ پیار سے شدید نفرت ہے“۔
اس کا بدل ان کے ذہن نے دوسری سمت میں تلاش کیا۔ انھیں مطالعے کا چسکا لگ گیا۔ اخبار بینی شروع ہو گئی۔ زمیندار، احسان اور مدینہ پڑھنے لگے۔ انگریز دشمنی اور وطن دوستی کا جذبہ پیدا ہوا۔ شروع میں مسلم لیگی ہوئے بعد میں مطالعے کے سبب کمیونسٹ ہو گئے۔ سیاست، ادب اور بوہیمین ازم سے شناسائی ہوئی۔ مارکسزم کی بنیادی کتابیں پوری توجہ سے پڑھیں۔ ان کے مطابق 1947 کے بحرانی دور میں تنہا روشنی اشتراکیت کی تھی۔ انھوں نے لکھنو میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران کمیون میں بھی رہائش اختیار کی۔ غرضیکہ وہ پکے کمیونسٹ ہو گئے۔
اسی زمانے میں انھوں نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اخبار پانیر میں سب ایڈیٹر کی نوکری کر لی۔ ریڈیو کے لیے ڈرامے اور فیچر لکھنے لگے۔ بعد میں پانیر کی ملازمت ختم ہو گئی تو انہی کے مشورے پر پانیر کے ذمہ داروں نے ان کی ادارت میں ’فلم میل‘ نام سے ایک پندرہ روزہ فلمی میگزین شروع کیا۔ وہ ایک عرصے تک ترقی پسند تحریک میں کافی سرگرم رہے۔ لیکن ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’اردو کی ترقی پسند تحریک پر نظر ڈالی تو ایک یہ خرابی نظر آئی کہ اس کا رشتہ ہماری ادبی روایت سے استوار نہیں کیا گیا۔ دراصل ترقی پسندی بھی اسی جذباتیت کی ایک شکل تھی جس نے رومانی تحریک کو جنم دیا تھا‘۔
لکھنو یونیورسٹی کے بعد علی گڑھ چلے گئے۔ انھوں نے علی گڑھ کے ماحول کی بہت تعریف کی ہے۔ لیکن پھر وہاں کے حالات سے وہ خود کو ہم آہنگ نہیں کر سکے۔ لکھتے ہیں کہ ’پھر تو یوں ہوا کہ میں علی گڑھ میں دن بدن زیادہ سے زیادہ اجنبی ہوتا گیا۔ نقوش کے شخصیات نمبر کے لیے خلیل الرحمن اعظمی نے میرے بارے میں ایک نوٹ لکھا اور غلط نہیں لکھا کہ میری حیثیت ایک ایسے پودے کی ہے جو باہر سے لا کر لگایا گیا ہو اور دھیرے دھیرے جڑ پکڑ رہا ہوں۔ لیکن میں جڑ نہیں پکڑ سکا۔ مجھے اس سماجی بیگانگی سے زیادہ وحشت ہوتی تھی ان دلچسپیوں کے نہ ہونے سے جو مجھے لکھنو میں میسر تھیں۔ نہ یہاں جرنلزم کا چرچا، نہ علمی مباحث کا‘۔
 سعودی عرب کے شاہ سعود نے 1955 میں مسلم یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا۔ اس کی بڑی دلچسپ تفصیل انھوں نے پیش کی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر ذاکر حسین وائس چانسلر تھے۔ محمد حسن لکھتے ہیں ”وہ اسپیشل ٹرین سے اپنے تین سو آدمیوں کے اسٹاف کے ساتھ علی گڑھ آئے۔ ا س موقع پر ذاکر صاحب نے بڑے شاندار استقبال کا انتظام کیا تھا۔ اسپیشل کنووکیشن منعقد ہوا۔ یونیورسٹی کی طرف سے بڑا ایٹ ہوم کرکٹ لان میں منعقد ہوا۔ دونوں طرف شاہ کے استقبال کے لیے یونیورسٹی یونیفارم سیاہ شیروانی اور پاجاموں میں ملبوس سکھ طلبا قطار باندھے کھڑے تھے کہ داڑھی والے مسلمان طلبا کی کمی تھی۔ شاہ داڑھیوں اور شیروانیوں سے اتنے خوش ہوئے کہ انھوں نے اپنے پورے اسٹاف کے لیے شیروانیاں سلوانے کا آرڈر علی گڑھ کے درزی البرٹ اینڈ کمپنی کو دے دیا‘۔
میں نے بہت پہلے مجاز پر ان کا ایک ناول ’غم دل وحشت دل‘ پڑھا تھا۔ مجھے ان کا انداز تحریر بہت پسند آیا تھا۔ اس خودنوشت میں بھی انھوں نے بڑی محبت سے مجاز کا ذکر کیا ہے۔ ان کے کچھ لطائف بھی لکھے ہیں اور ان کا ایک بڑا مزےد ار جملہ لکھا ہے کہ جب علاج کرانے اور شراب چھوڑنے کے بعد گھر آئے تو اس وقت بھی ان کے دوست احباب ان کو دیر رات تک جگاتے۔ ان کی والدہ ان کے باہر کے کمرے میں ان کا کھانا رکھ دیتیں۔ مجاز نے محمد حسن کو بتایا کہ اگر بلی پہلے آجاتی تو وہ کھانا کھانا کھا لیتی میں پہلے آجاتا تو میں کھا لیتا۔
وہ لکھنو سے علی گڑھ، وہاں سے کشمیر، پھر دہلی یونیورسٹی اور پھر جے این یو پہنچے۔ ان کا علمی سفر بہت لمبا ہے اور اس میں بہت نشیب و فراز بھی ہیں۔ لکھنو یونیورسٹی میں تقرر کا معاملہ ہو یا اے ایم یو میں، یا دہلی یونیورسٹی میں یا جے این یو میں، انھوں نے ہر جگہ سیاست دیکھی۔ ایک دوسرے کے خلاف منصوبے دیکھے۔ کیسے کس کا تقرر کروانا ہے اور کس کا رکوانا ہے یہ تماشے دیکھے۔ حالانکہ ان کا تقرر بھی سفارشوں کا مرہون منت رہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں خواجہ احمد فاروقی صدر شعبہ تھے۔ انھوں نے خواجہ صاحب کی ’رنگین مزاجی‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ جب دہلی یونیورسٹی میں انٹرویو دینے آئے تو حیدرآباد کی ایک خاتون بھی امیدوار تھیں جو پی ایچ ڈی کر رہی تھیں اور خواجہ صاحب کے قریب تھیں۔ خواجہ صاحب انہی کا تقرر چاہتے تھے لیکن وائس چانسلر نے پی ایچ ڈی ہونے کی وجہ سے محمد حسن کا تقرر کیا۔ محمد حسن نے خواجہ احمد فاروقی کے ساتھ بہت سے علمی کام کیے۔ خواجہ صاحب ان کے کام سے اتنے مطمئن ہوئے کہ ان پر ان کا التفات بڑھتا چلا گیا۔ انھوں نے خواجہ صاحب کے دور میں شعبہ اردو میں برپا ہونے والی علمی سرگرمیوں کی جو تفصیلات پیش کی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب بہرحال باکمال شخصیت کے مالک تھے اور کام کرنے والوں پر اعتماد کرتے تھے۔ البتہ ایک بار حیدرآباد میں غالباً پروفیسر شپ کے لیے محمد حسن بھی امیدوار تھے لیکن خواجہ صاحب نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ کچھ ہی مدت بعد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ امریکہ سے واپس آگئے اور اس کے چند ماہ کے بعد قمر رئیس بھی تاشقند سے دہلی واپس آگئے۔ اس کے بعد جوڑ توڑ اور سیاسی بازی گری کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
پروفیسر محمد حسن اپنی علمیت کی وجہ سے متعدد سیاست دانوں کے کافی قریب رہے۔ جن میں صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے غالب صدی تقریب اور ایوان غالب کی تعمیر کی بھی تفصیلات پیش کی ہیں۔ جے این یو میں اپنے تقرر کے سلسلے میں وہ لکھتے ہیں ’یہ عقدہ کہیں اب جا کر کھلا کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں میرا تقرر نہ تو مونس رضا کی سفارش کا مرہون منت تھا نہ ڈاکٹر نور الحسن کی خیرسگالی کا۔حالانکہ میں مدتوں اسی غلط فہمی کا شکار رہا اور اسی وجہ سے تقرر سے وہ مراتب حاصل نہ کر سکا جو میری دسترس میں تھے۔ میں تو ریٹائر ہونے کے بعد تک یہی سمجھتا رہا۔ مگر اصل حقیقت کا پتہ مجھے ریٹائر ہونے کے بعد چلا کہ یہ عنایت میرے اوپر فخر الدین علی احمد صاحب، صدر جمہوریہ ہند کی تھی جن تک میں نے سفارش ان کے سابق ہم جماعت اور قریب ترین دوست قاضی عبد الودود صاحب کے ذریعے پہنچوائی تھی‘۔
بہرحال یونیورسٹیوں کی سرگرمیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ اس کو اب یہیں چھوڑے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن نے ماقبل و مابعد تقسیم ہند کے دلدوز حالات بھی لکھے ہیں۔ سیاست کی عیاریوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سیاست میں مذہب کی آمیزش کو بھی عیاں کیا ہے۔ بقول ان کے سیاست میں مذہب اور دھرم کی دخل اندازی کے یہ نہایت ہی خطرناک موڑ تھے جس کے شاہد جواہر لعل نہرو بھی رہے۔ وہ رجعت قہقری کو روک نہ سکے، اس کے آگے سر کو خم کر دیا۔ انھوں نے لال بہادر شاستری کے زمانے میں کانگریس اور فرقہ پرست پارٹیوں میں ملی بھگت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ایمرجنسی میں ایک طرف عوام کو سہولتوں کی فراوانی اور دوسری طرف اذیتوں کی کہانی بھی بیان کی ہے۔ سنجے گاندھی نے ایمرجنسی میں دہلی کے ترکمان گیٹ پر مسلم گھروں پر بلڈوزر چلا کر انہیں بے گھر بار کرنے کی جو وحشیانہ کارروائی کی تھی اس پر آنسو بہائے ہیں اور سنجے گاندھی کی محبوبہ رخسانہ کی بے تاج بادشاہی کی افسوس کے ساتھ گواہی دی ہے۔ اندرا گاندھی کی سیاست اور جبریہ نس بندی سے پیدا ہونے والے پریشان کن حالات کو بھی بیان کیا ہے۔
یہ بات عام طور پر سبھی جانتے ہیں کہ پروفیسر محمد حسن اپنی اہلیہ روشن آرا کی زیادتیوں کے شکار رہے ہیں۔ روزانہ لڑائی بھڑائی اور ان کے اہم کاغذات اور مضامین کے مسودات پھاڑ کر پھینک دینا عام بات رہی ہے۔ ایک بار تو علی گڑھ میں صرف اس بات پر ناراض ہو کر کہ محمد حسن نے انڈے کی تھیلی اپنے ہاتھ میں کیوں نہیں لی سڑک پر لڑنے لگیں۔ ان کے منع کرنے پر انھوں نے شور مچا دیا کہ یہ آدمی مجھے چھیڑ رہا ہے۔ راہ گیروں نے ان کو گھیر لیا۔ وہ بڑی مشکل سے بچ کر نکلے۔ بات بات پر ان پر حملے کرنا روز کا معمول تھا۔ ان میں انتقامی جذبہ بہت تھا۔ یہاں تک کہ ایک بار کشمیر سے واپسی پر ٹرین میں ایک خاتون سے محض چند جملے بات کرنے پر وہ اتنی ناراض ہوئیں کہ جموں سے دہلی تک ایک اجنبی مرد کی برتھ پر ایک رات اور نصف دن اس کے ساتھ رہیں۔ انھوں نے آگے چل کر یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ دراصل ذہنی بیمار تھیں اور رانچی کے دماغی اسپتال میں ان کا علاج بھی ہوا تھا۔ ان کی اہلیہ کی انہی حرکتوں اور محمد حسن کے اہل خانہ کے ساتھ ان کے ناروا سلوکوں کی وجہ سے ان میں اور محمد حسن کے والدین کے درمیان مقدمہ بازی تک ہوئی۔ محمد حسن کے والدین نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔
کتاب کے صفحہ 120 پر انھوں نے سینئر صحافی مودود صدیقی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’آخری تین کتابوں کی اشاعت اور کاغذ کے لیے میں نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے وسیم بریلوی کی معرفت بیسویں صدی دہلی کے ایک کارکن مودود صدیقی کی مدد لی جنھوں نے وہ سب رقم وصول کر لی اور کتابیں جلد بند کرکے وہاں ڈال کر خاموش ہو رہے‘۔ چونکہ میرا تعلق مودود صدیقی سے ہے اور وہ بقید حیات ہیں لہٰذا میں نے ان سے استفسار کیا۔ اس پر انھوں نے میرے پاس ایک طویل تحریر ارسال کی ہے جس کے کچھ حصے یہاں پیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’محمد حسن نے بیس فیصد سچ اور اسی فیصد جھوٹ بولا ہے۔ میرا محمد حسن سے تعلق وسیم بریلوی (ان کے بھتیجے) نے کرایا تھا۔ اسی دوران ڈاکٹر حسن نے اپنی دو کتابیں تذکروں کا تذکرہ اور کلیات میر کی اشاعت کے لیے تعاون مانگا اور شرط رکھی کہ چونکہ یہ کتابیں وزارت داخلہ کی کسی اسکیم کے تحت منظور کی گئی ہیں لہٰذا ان کی ادائیگی اشاعت کے بعد ہوگی۔ میرے پاس اشاعت کے لیے رقم نہیں ہے اس لیے تعاون مانگ رہا ہوں۔ میں نے متعلقہ پریس اور جلد سازوں کو ادھار کام کرنے کے لیے آمادہ کر لیا۔ دونوں کتابیں وقت مقررہ پر چھپ گئیں اور ڈاکٹر حسن کو پچاس پچاس جلدیں بلوں کے لیے دے دیں اور بقیہ 450 روک لیں کیونکہ معاہدے کے مطابق یہ کتابیں ادائیگی ہونے کے بعد ہی دینا طے ہوا تھا۔ کچھ رقم میں نے اپنی جیب سے پریس اور جلد سازوں کو دی۔ اس دوران میری شادی طے ہو گئی۔ مجھے رقم کی ضرورت تھی۔ میں نے ڈاکٹر حسن سے مطالبہ کیا۔ انھوں نے معذرت کر لی۔ بہرحال پانچ ماہ بعد وزارت سے (رقم) مل گئی۔ ان سے میرا تقاضہ جاری رہا۔ لیکن انھوں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ بہت تھک ہار کر میں بیٹھ گیا۔ اس دوران ڈاکٹر حسن نے کتابوں کے لیے دیگر افراد کو بھیجا لیکن میں نے منع کر دیا۔ انھوں نے عظیم الشان نامی ایک طالب علم کو بھیجا جو ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ .... بعد میں وہ جامعہ ملیہ میں اردو شعبے سے منسلک ہو گئے۔ انھوں نے ڈاکٹر حسن سے باقی رقم دلانے کا وعدہ کیا۔ میں نے اخلاقی طور پر ساری کتابیں دے دیں اور رقم کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن رقم نہ ملنی تھی نہ ملی۔ میں ثبوت میں ڈاکٹر عظیم الشان کا بیان پیش کرتا مگر افسوس تین سال پہلے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ڈاکٹر حسن کی موت کے بعد میں نے یہ رقم معاف کر دی۔ ان کے الزام نے مجھے سچائی لانے پر مجبور کر دیا۔ خدا مجھے معاف کرے۔ میرے پاس ڈاکٹر حسن کے تعلق سے بہت سے خطوط اور معذرت نامے وغیرہ تھے۔ لیکن رہائش کی جگہ بار بار بدلنے سے خربرد ہو گئے‘۔
کتاب کے آخر میں 34 صفحات پر مشتمل ان کی جنسی بداعمالیوں اور عیاشیوں کی داستان ہے جس کو انھوں نے ’زخم تمنا کی بہار‘ عنوان دیا ہے۔ لیکن ان کی عیاشیاں اس کے علاوہ بھی پوری کتاب میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ لڑکپن ہی میں وہ بگڑ گئے تھے اور جنسیات کی طرف مائل ہو گئے تھے اس میں ان جنسی کتابوں اور ناولوں کا بھی دخل تھا جن کو انھوں نے بچپن ہی میں پڑھ لیا تھا۔ ان کے بگڑنے میں گھر میں خادماوں اور ان کی کم سن بیٹیوں کی آمد و رفت اور ان کو حاصل آزادی کا بھی رول رہا تھا۔ اہلیہ کی زیادتیاں بھی اس میں معاون بنی ہوں گی۔ ان کے بعض شاگردوں کا خیال ہے کہ یہ آخری باب ان کا نہیں کسی اور کا لکھا ہوا ہے۔ حالانکہ زبان و بیان سے اور کتاب میں بکھرے واقعات کی تفصیل سے ایسا نہیں لگتا۔ بہرحال اگر خودنوشت میں یہ تفصیلات نہ ہو تیں تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔ ان تفصیلات نے کتاب کی وقعت تو کم کی ہی محمد حسن کو واقعی بھرے بازار میں نچوا بھی دیا ہے۔ جہاں تک شعبہ ہائے اردو میں چلنے والی سیاست کا تعلق ہے تو ان کے بعض شاگردوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں انھوں نے ان سے یہ سب لکھوا لیا۔ لیکن انھوں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ جو زیادتیاں اور ناانصافیاں کیں ان کا ذکر انھوں نے نہیں کیا۔
بہرحال کتاب کی ایک خوبی جہاں خوبصورت زبان، اردو اور فارسی کے اشعار کا برجستہ استعمال اور دلنشین انداز تحریر ہے وہیں اس کے حاشیے بھی بڑے علمی ہیں۔ لیکن حاشیے محمد حسن کے لگائے ہوئے نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو وہ خود ہی اپنی تاریخ وفات نہیں لکھتے۔ کتاب کی ضخامت 420صفحات ہے لیکن اس میں حاشیے مجموعی طور پر 87 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں جو کہ کتاب کی اہمیت و وقعت میں اضافہ کرتے ہیں۔ البتہ اس میں پروفنگ کی بہت اغلاط ہیں۔ متعدد مقامات پر لفظوں اور جملوں کی تکرار ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابل مطالعہ کتاب تو ہے ہی خودنوشت کے ذخیرے میں ایک اہم اضافہ بھی ہے۔
اشاعت: نامک پبلی کیشنز، دہلی۔ رابطہ: 7428107307, 7428042155

Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages