پسِ آئینہ: سہیل انجم
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بی آر گوئی کے اس اعلان کو کہ میں اور جسٹس ابھے ایس اوکا اپنے عہدوں سے سبکدوشی کے بعد کوئی بھی منصب قبول نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کے تقدس اور غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کی سمت میں ایک اہم اور قابل قدر قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہ اعلان جسٹس اوکا کی سبکدوشی کے موقع پر منعقدہ روایتی الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے جسٹس اوکا کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے کہا کہ میں سپریم کورٹ میں ان کی بہت کمی محسوس کروں گا۔ لیکن میں خوش ہوں کہ ٹھیک چھ ماہ کے بعد میں بھی ان کے نقش قدم پر چلوں گا۔ (یعنی میں بھی سبکدوش ہو جاوں گا)۔ ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم مابعد سبکدوشی کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ البتہ ہم دونوں مل کر کام کریں گے۔ انھوں نے جسٹس اوکا کی قانونی سمجھ اور آئین و قانون کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلے سنانے کی اہلیت کی ستائش کی۔جبکہ جسٹس اوکا نے کہا کہ آج میں کم از کم ایک اور اننگ کھیلنے کے بارے میں نہیں سوچ رہا۔ میں خود کے لیے کچھ وقت نکالوں گا۔ جسٹس گوئی نے اس سے قبل بھی جب وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال رہے تھے، میڈیا سے بات کرتے ہوئے سبکدوشی کے بعد کوئی بھی عہدہ نہ لینے کی بات کہی تھی۔ 23 مئی کو انھوں نے دوبارہ اس کا اعلان کیا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے بھی سبکدوشی کے بعد کوئی عہدہ قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں قانون سے متعلق ہی کچھ کام کروں گا۔ ماضی میں بھی سپریم کورٹ کے بعض ججوں کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ نہ لینے کے عہد کا اعلان کیا گیا تھا۔ جن میں جسٹس جستی چیلامیشور، سابق چیف جسٹس جے ایس کھیہر، جسٹس آر ایم لوڈھا اور جسٹس ایس ایچ کپاڈیہ شامل ہیں۔
ماضی میں سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے مابعد سبکدوشی سرکاری عہدے قبول کرنے کی روایت رہی ہے۔ جسے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے آگے بڑھایا۔ لیکن انھوں نے جس طرح ایودھیا معاملے میں رام مندر کے حق میں فیصلہ لکھوایا اور اس کے بعد ہی راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کر لی اسے نہ تو قانون دانوں نے اچھی نظروں سے دیکھا اور نہ ہی عوام نے۔ اسی طرح ایک اور سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اپنے گھر پر وزیر اعظم کے ساتھ پوجا میں شریک ہو کر اور بعد میں یہ اعلان کرکے کہ انھوں نے ایودھیا معاملے کا فیصلہ لکھنے سے قبل بھگوان سے مشورہ کیا تھا، اپنی بنی بنائی ساکھ کو ملیا میٹ کر دیا۔ ایودھیا فیصلے میں شامل رہنے والے جسٹس عبد النذیر کا فوراً گورنر کا منصب سنبھال لینا بھی ان کے فیصلوں پر شکوک و شبہات کے سائے ڈالتا ہے۔ ان مثالوں کے تناظر میں تین ججوں کا یہ اعلان کہ وہ کوئی عہدہ نہیں لیں گے، عدلیہ کے تقدس میں یقین رکھنے والوں کے لیے باعث اطمینان ثابت ہوا۔ سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے اپنے دور میں کئی نئی روایتیں شروع کیں جن میں ججوں کی جانب سے اثاثوں کا اعلان بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ججوں نے اپنے اثاثوں کا اعلان کیا۔ ان کے اعلان کردہ اثاثوں کی تفصیل سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اس کے مطابق جسٹس گوئی کے پاس سوا پانچ لاکھ کے سونے اور زیورات ہیں۔ جبکہ ان کی اہلیہ کے پاس 29 لاکھ 70 ہزار کے زیورات ہیں۔ اگلے چیف جسٹس ہونے والے جسٹس سوریہ کانت کے پاس چنڈی گڑھ میں ایک رہائش، پنچ کولہ میں زرعی زمین، گوڑگاوں میں ایک پلاٹ اور چار کروڑ گیارہ لاکھ کی فکسڈ ڈپازٹ ہے۔ جسٹس ابھے ایس اوکا کے پاس تھانے مہاراشٹر میں ایک رہائشی اپارٹمنٹ اور اسی علاقے میں غیر منقسم زرعی زمین ہے۔ اس کے علاوہ 21 لاکھ 76 ہزار کی فکسڈ ڈیپازٹ اور نو لاکھ دس ہزار کی بچت ہے۔ البتہ سنجیو کھنہ کا اثاثہ ان ججوں سے زیادہ ہے۔ لیکن ان کے پاس زیادہ اثاثے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے عداتی کارروائی میں بدعنوانی سے کام لیا ہوگا۔ کچھ لوگ خاندانی امیر ہوتے ہیں۔
جہاں تک ججوں کے سرکاری منصب قبول کرنے کا معاملہ ہے تو عدالتی معاملات کی رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ ’بار اینڈ بینچ‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں سپریم کورٹ کے سبکدوش ججوں میں سے 21 فیصد نے عہدے قبول کیے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سبکدوشی کے بعد عہدے حاصل کرنے کے لالچ میں بہت سے جج حضرات ایسے فیصلے صادر کرتے ہیں جو حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہوں یا جو حکومت کے حق میں جاتے ہوں۔ ویسے یہ معاملہ برسوں سے زیر بحث ہے کہ ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ لینا چاہیے یا نہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی مدت ہونی چاہیے جس کے گزرنے کے بعد ہی انھیں کوئی منصب قبول کرنا چاہیے۔ ویسے عہدہ حاصل کرنے کی روایت کانگریس کے زمانے سے ہی چلی آرہی ہے۔ البتہ موجودہ حکومت میں یہ روایت ناپسندیدہ انداز میں آگے بڑھی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں 28 جج ریٹائر ہوئے۔ جن میں سے چھ ججوں کو آئینی عہدے دیے گئے۔ جسٹس آدیش کمار گوئل چھ جولائی 2018 کو ریٹائر ہوئے اور انھیں اسی روز نیشنل گرین ٹریبیونل کا چیئرپرسن نامزد کر دیا گیا۔ جسٹس ارون مشرا دو دستمبر 2020 کو ریٹائر ہوئے اور انھیں دو جون2021 کو قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیئرپرسن نامزد کر دیا گیا۔ جسٹس اشوک بھوشن چار جولائی 2021 کو ریٹائر ہوئے اور انھیں آٹھ نومبر 2021 کو نیشنل کمپنی لا اپیلیٹ ٹریبیونل کا چیئرپرسن نامزد کیا گیا۔ جسٹس ہیمنت گپتا 16 اکتوبر 2022 کو ریٹائر ہوئے اور انھیں 22 دسمبر 2022 کو نیو دلہی انٹرنیشنل آربٹریشن سینٹر کا چیئرپرسن نامزد کیا گیا۔ جسٹس ایس عبد النذیر چار جنوری 2023 کو ریٹائر ہوئے اور انھیں 12 فروری 2023 کو آندھرا پردیش کا گورنر بنا دیا گیا۔ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی 17 نومبر 2019 کو ریٹائر ہوئے اور انھیں 19 مارچ 2020 کو راجیہ سبھا کا رکن نامزد کر دیا گیا۔ جسٹس عبد النذیر اور جسٹس گوگوئی ایودھیا معاملے کا فیصلہ سنانے والی بینچ میں شامل رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کی جانب سے سرکاری عہدے قبول کرنے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ’لا ایڈوائس‘ نامی ویب سائٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جسٹس ایس فضل علی 18 ستمبر 1951 کو ریٹائر ہوئے اور حکومت نے انھیں سات جون 1952 کو آسام کا گورنر نامزد کیا۔ جسٹس فاطمہ بی بی 29 اپریل 1992 کو ریٹائر ہوئیں اور انھیں 1997 میں تمل ناڈو کا گورنر نامزد کیا گیا۔ جسٹس رام ناتھ مشرا 1992 میں چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور انھیں 1993 میں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیئرپرسن نامزد کیا گیا۔ کانگریس نے 1998 میں اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں انھیں راجیہ سبھا کا رکن بھی بنایا تھا۔ چیف جسٹس پی ستھا سیوم 26 اپریل 2014 کو ریٹائر ہوئے اور انھیں اسی سال پانچ ستمبر کو کیرالہ کا گورنر بنا یا گیا۔ یو پی اے ایک اور یو پی اے دو کے دوران 14 ریٹائرڈ ججوں کو سرکاری عہدے دیے گئے۔ جبکہ مودی حکومت کی پہلی مدت میں ہی 12 ججوں کو عہدے دیے گئے۔ ویسے دیکھا جائے تو ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو ججوں کے سرکاری عہدہ لینے سے روکتا ہو یا یہ بتاتا ہو کہ سپریم کورٹ کے جج ریٹائرمنٹ کے کتنے دنوں کے بعد سرکاری عہدہ لے سکتے ہیں۔ لیکن لا کمیشن کے سابق چیئرمین جسٹس اے پی شاہ نے سفارش کی تھی کہ ججوں کو ریٹائرمنٹ کے تین سال بعد کوئی عہدہ لینا چاہیے۔ لیکن مرکزی حکومت نے 2019 میں پارلیمنٹ میں یہ واضح کیا تھا کہ اس سلسلے میں قانون وضع کرنے کی اس کی کوئی منشا نہیں ہے۔ بہرحال اس پر ماہرین قانون کی الگ الگ آراءہیں کہ ججوں کو مابعد سبکدوشی کوئی سرکاری عہدہ لینا چاہیے یا نہیں لیکن ایک بڑا طبقہ اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا۔
موبائل: 9818195929