My new column Arzdasht for publication

10 views
Skip to first unread message

safdar imam Quadri

unread,
Jun 2, 2024, 3:15:45 AMJun 2
to pindar2010, TAASIR PATNA, pindar2010, Musalman Urdu Daily, Chennai, Anwarul hoda, The Siasat Daily, editor.as...@gmail.com, syedrai...@gmail.com, tasdeeq...@gmail.com, anwar....@gmail.com, Qamar Azam, qaumisah...@gmail.com, Qindeel Online, qmr...@gmail.com, uniurduservice <uniurduservice@gmail.com>, rsahara <rsahara@rediffmail.com>, salimsiddiqui1962@gmail.com, izhar1975@gmail.com, hamarasamaj <hamarasamaj@gmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@rediffmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@gmail.com>, urdusahafat <urdusahafat@gmail.com>, mashriq786 <mashriq786@rediffmail.com>, mashriq92@gmail.com, Anjum Jafri <anjumjafri786@gmail.com>, shakeelshamsiinquilab@gmail.com, mashriquiawaz <mashriquiawaz@yahoo.com>, urdunetdaily@yahoo.com, khurramammar@yahoo.co.in, Shahnawaz Khurram <ncpulsaleunit@gmail.com>, Meri Manzil <manzil.meri@gmail.com>, zia.haq@hindustantimes.com, ziasalam@gmail.com, sadae watan <sadaewatan583@gmail.com>, imranjnu3@gmail.com, Jadid Khabar <jadidkhabar@gmail.com>, khabardaar@yahoo.com, P.Kareemullah Khan, uniurduservice <uniurduservice@gmail.com>, rsahara <rsahara@rediffmail.com>, salimsiddiqui1962@gmail.com, izhar1975@gmail.com, hamarasamaj <hamarasamaj@gmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@rediffmail.com>, hindustanexpressdaily <hindustanexpressdaily@gmail.com>, urdusahafat <urdusahafat@gmail.com>, mashriq786 <mashriq786@rediffmail.com>, mashriq92@gmail.com, Anjum Jafri <anjumjafri786@gmail.com>, shakeelshamsiinquilab@gmail.com, mashriquiawaz <mashriquiawaz@yahoo.com>, urdunetdaily@yahoo.com, khurramammar@yahoo.co.in, Shahnawaz Khurram <ncpulsaleunit@gmail.com>, Meri Manzil <manzil.meri@gmail.com>, zia.haq@hindustantimes.com, ziasalam@gmail.com, sadae watan <sadaewatan583@gmail.com>, imranjnu3@gmail.com, Jadid Khabar <jadidkhabar@gmail.com>, khabardaar@yahoo.com, P.Kareemullah Khan, abdul wahab, Hale Watan, Wahdat-e-Nau Fortnightly, Delhi, waraquet...@gmail.com, WhatsApp Support, Mahmood Shahid, wasiullah husaini, Akhbar Mashriq, ekqaum.u...@gmail.com, edi...@urdutimes.net, Etemaad Urdu Daily, Hyderabad, edi...@millat.com, Subah Kashmir, Ahmad Rashid, Roznama Awam, Jawaid Rahmani, Jamshed Rahmani, Md.Taiyab Numani, Star News Today, Farooqui Tanzeem, Alwatan Times, Millat Times, yaqeen sadiq, Pyari Urdu, Aag Urdu Daily, Lucknow, Salar Urdu Daily, Bangalore, aabshar Urdu Daily, Kolkata, Jadid Life Urdu Daily, Delhi, Naqueeb Imarat shariah, Ishtiraak Com, inquilab urdu daily, Ovais Sambhli, Pens Lens, Sangam Patna, Alfurq...@yahoo.com, lazawa...@gmail.com, labbo...@gmail.com, Aaj ki khabar, ROZNAMA KHABREIN,NEW DELHI, Kashmir Uzma Urdu Daily, Srinagar, Siyasat Jadid, jasaratb...@gmail.com, jasara...@gmail.com, jasara...@gmail.com, Hamara Samaj, Shahid Habib Falahi, Hamara Nara, Athar Hussain Ansari, ftanzeem, fikrokha...@gmail.com, aalmi darpan, aalami...@gmail.com, aawamine...@gmail.com, aawaminewspatna, aawam...@gmail.com, AWADHNAMA Newspaper, baseera...@gmail.com, bazmeqalam, awaze bihar, Zafar Siddiqui, aurangab...@rediffmail.com, auranga...@gmail.com


عرض داشت
الیکشن کمیشن کی نا اہلی کے باوجود گرم موسم میں۶۵؍ فی صد سے زیادہ ووٹنگ: ایک حیرت انگیز کارنامہ
سات مراحل کے اختتام پر لوگ ای۔ وی۔ ایم۔ کی طرف ٹکٹکی باندھے منتظر ہیںکہ ان کے ملک کا رکھوالا کیسا ہوگا؟
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

خدا خدا کرکے تھکا دینے والے پارلیمانی انتخابات کے ساتوں مراحل انجام کو پہنچے۔ اس دَوران چند اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہوئے اور نتیجے کے طور پر دلّی ہی نہیں کئی صوبوں کی حکومتیں بھی نئے رنگ و روغن کے ساتھ سامنے آئیں گی۔ اس بار کے انتخابات میں الیکشن میں شامل انتخابی عملے اور پولیس کے انتظام کاروں کے لیے سخت موسم نے مشکلات پیدا کر دیں۔ جگہ جگہ سے جو  رپورٹیں آ رہی ہیں، ان کے مطابق سیکڑوں کی تعداد میں الیکشن کرانے کے دَوران لوگ جاں بہ حق ہوئے۔ عام دستور کے مطابق انتظامیہ ان ناشدنی معاملات کو اوّلاً پوشیدہ رکھتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے اسے اقرار کی منزلوں تک لاتی ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کی خواہش کے مطابق انتخابی عمل کی انجام دہی میںہزاروں سرکاری خدمت گاروں کی جانیں گئیں اور نہ جانے کتنے افراد بیمار پڑے۔ اس معاملے میں عوام کی مشکلات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ان دشواریوں میں پھنسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہو جائے گی اور یہ صرف الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹوں کی تاریخ متعیّن کرنے میں کوتاہی اور عاقبت نا اندیشی کا نتیجہ ہے۔
مرکزی حکومت نے عام انتخابات جیسے سب سے ضروری سوال کو اپنی توجّہ میں نہیں رکھا۔ اس سال مارچ مہینے کے آغاز کو یاد رکھیے۔ چیف الیکشن کمشنر کی جگہ خالی تھی اور ایک الیکشن کمشنر نے حکومت کے رویّے سے ناراض ہو کر استعفیٰ دے دیا تھا۔ پورا ملک جب نئے انتخابات کی تاریخوں کا انتظار کر رہا تھا،اس وقت الیکشن کمیشن میں ایک ہی کمشنر موجود تھا۔حکومت نے کافی دیر سے چیف الیکشن کمشنراور کمشنرکی تقرری کی اور ایک دن  بعد۱۶؍ مارچ کو سات مرحلوں میں انتخابات کے لیے اعلانات ہو گئے۔ اسی وقت لوگوں نے اس بات پر طنز کیا تھاکہ انتخابات کی نئی تاریخوں کے تعیّن کے لیے الیکشن کمیشن کو زیادہ وقت نہیں ملا ہوگا اور یقینی طور پر یہ سارے کام پی ایم او سے تیّار ہو کر آئے ہوں گے جس پر نئے پرانے الیکشن کمشنروں کو صرف مہر لگا دینی تھی۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۴ء میں ۱۲؍ مئی کو انتخابی عمل مکمّل ہو چکا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں اسے ایک ہفتہ آگے بڑھا کر ۱۹؍ مئی تک کھینچا گیا اور ۲۰۲۴ء میں یہ سلسلہ یکم جون تک چلا آیا۔
جس ملک میں عام انتخابات ہوں اورجہاں کروڑوں افراد کو اپنے حقِ راے دہندگی کے لیے گھروں سے نکل کر دور دراز کے علاقوں میں جانا ہو، جہاں ووٹ کرانے کے لیے چالیس پچاس لاکھ کی تعداد میں سرکاری عملوں کو دور دراز کا سفر کرنا ہو، وہاں آخر انتخابات کی تاریخ کے تعیّن میں عام لوگوں کی سہولت کا خیال کیوں کر نہ رکھاجانا چاہیے۔ یہ انتخابات سات مرحلوں کی جگہ پر تین یا چار مرحلوں میں ہوتے اور تین چار دنوں کے وقفے سے یہ مراحل انجام تک پہنچتے تو پندرہ بیس دنوں میں ان کی تکمیل ممکن ہو سکتی تھی۔ اگر مارچ کے اواخر سے انتخاب کا عمل شروع ہوتا اور نصف اپریل تک اسے مکمّل کر دیا جاتا تو جو عوامی طور پر ہاہاکار مچی ہے، اس سے بچا جا سکتا تھا اور ہزاروں لوگوں کی جا ن مال کی حفاظت کی جا سکتی تھی۔ بچّوں کے اسکول کے امتحانات بھی پانچ دس دن پہلے کرانے میں کوئی پریشانی نہیں تھی مگر الیکشن کمیشن کے لیے یہ سب کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر وہ غور کرے اور اپنی تاریخوں کے تعیّن کے مرحلے میں عوامی سہولیات کا خیال رکھے۔
اس انتخاب میں الیکشن کمیشن کی نا اہلیوں کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے اور ابھی تو حقیقی نتیجہ آنا باقی ہے۔۴؍ جون کو کہیں اس کی نا اہلیاں ہمارے لیے کلنک کا ٹیکا نہ بن جائیں۔ پہلے مرحلے سے ہی ووٹ کے فی صد میں جو تبدیلی در تبدیلی سامنے آئی، اس سے شبہات پیدا ہونے لگے۔ سپریم کورٹ کو بھی رسمی طور پر ہی سہی مداخلت کرنی پڑی کیوں کہ الیکشن کمیشن نے دو دو ہفتے بعد ووٹنگ فی صد میں اضافہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ جدید تکنیکی اور مواصلاتی نظام میں آخر ایسی سستی کیوں برتی کہ تمام ضلعی اور صوبائی اکائیوں سے الیکشن کمیشن کو بر وقت اطّلاعات نہیں مل پائیں۔ پھر ایک ہی ڈیٹا کو تین تین  بار بدلنے کی وہ کون سی مجبوری تھی۔ کمال یہ ہے کہ ہر بار چند فی صد کا اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ابتدائی چار مراحل میں جہاں دوتہائی سے زیادہ سیٹیں شامل تھیں، وہاں ۶؍ فی صد سے زیادہ ووٹوں کے بڑھنے پر شبہات از خود پیدا ہو جاتے ہیں کہ کہیں ناپ تول کر ضرورت کے مطابق ای وی ایم سے جن نکالنے کی تیّاری تو نہیں ہے۔ یہ خدشات اس لیے بھی قابلِ غور ہیں کیوں کہ دلّی سے لے کر ضلعوں تک، تمام مراکز کے عملے سیدھے الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ اب اگر کسی منظّم سازش کی انجام دہی کا الیکشن کمیشن نے تہیّہ کر لیا ہے تو یہ صرف افسوس ناک نہیں ہے بلکہ ایک آزاد جمہوریہ کے انتخابی نظام پر سیاہ دھبّا ہے۔
ایک بڑے حلقے میںپہلے دن سے ہی الیکشن کمیشن پر حکومت کے لیے کام کرنے والی ایجنسی ہونے کا شبہہ ہونے لگا تھا۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اس بار کا انتخابی دورانیہ تقریباً ۸۰؍دنوں کا رکھا گیا۔ ۱۶؍ مارچ سے ۴؍ جون تک جو یہ گہما گہمی کا ماحول ہے، اس میں الیکشن کمیشن نے وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کے لیے سہولت کا خیال رکھا کہ وہ ملک کے ہر حلقۂ انتخاب تک پہنچ سکیں اور ووٹروں کے سامنے اپنے لبھاونے پیغامات بھیج سکیں۔ پورے ملک نے یہ دیکھا بھی کہ کس طرح وزیرِ اعظم نہ صرف یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے تمام اہم امید واروں کے حلقۂ انتخاب میں گئے بلکہ بڑے پیمانے پر حلیف جماعتوں کے امید واروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کے حلقے میں پہنچے اور ان کی فتح یابی کے لیے اپنی جوشیلی تقریروں سے انھیں سرفراز کیا۔ الیکشن کمیشن کو یہ معلوم ہے کہ حزبِ اختلاف کے قائدین کے پاس اتنی سہولیات نہیں ہیںکہ وہ الیکشن کے دَوران پانچ سو اور چھے سو انتخابی جلسوں سے خطاب کر سکیں اور دور دراز کے انتخابی حلقوں تک لازمی طور پر پہنچ سکیں۔
الیکشن کمیشن کے سات مراحل میں انتخابی عمل کو مکمّل کرنے اور ۱۶؍ مارچ سے لے کر ۴؍ جون تک کے شڈول جاری کرنے کے پیچھے حکومتِ وقت کی سہولیات بھی عین وجہ رہی۔ یہی الیکشن کمیشن کی آزادی پر حرف آنے والی بات ہے۔ اس انتخاب میں پانچ مراحل کے ختم ہو جانے کے بعد یک روز تنبیہی نوٹس کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدور کے لیے آئی۔ ایسا لگتا تھا کہ گہری نیند میں سوئے ہوئے کسی شخص کو جھنجھوڑکر اٹھا دیا گیا ہے اور اٹھتے ہی اس نے ایک بیان جاری کر دیا۔ یہ بیان اس وقت آیا جب انتخاب کا ۸۰؍ فی صد حصّہ انجام تک پہنچ چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مذہبی پہچان کے سلسلے پر بولنے سے منع کیا تھا اور اسی کے ساتھ کانگریس کو تنبیہ کی تھی کہ آئین کا تذکرہ وہ نہ کرے۔ اب یہ ایک پُر لطف حقیقت ہے کہ انتخاب کے آخری مراحل میں پہنچنے تک اور وزیرِ اعظم کے کنیا کماری میں مون وَرت رکھنے سے پہلے تک کوئی ایسا جلسہ نہ ہوا جس میں انھو ں نے ہندو اور مسلمان نہ کیا ہو۔ جس انداز سے انھوں نے مذہبی تعصّب کے احوال ننگے لفظوں میں بیان کیا، وہ ہندستانی جمہوریت کی تاریخ پرلگا ہوا سیاہ دھبّا ہے مگر الیکشن کمیشن کو اپنے مکتوب کے مطابق مزید جانچ پرکھ کرنے اور تادیبی کار روائی کرنے کی مہلت کہاں؟ خاص طور سے جب وزیرِ عظم ہی ملزم ہو تو الیکشن کمیشن کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ ایک عام سرکاری دفتر بن کر رہ جائے۔ اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن نے کانگریس کو منع کیاکہ وہ لوگ ہندستانی آئین کا تذکرہ نہ کریں۔ کانگریس نے آئین کی حفاظت کے سوال پر یہ انتخاب لڑا ہے۔ پوری جمہوریت اور انتخابی عمل ہی اس آئینِ ہند کی بنیاد پر اور اس کی حفاظت کے لیے جب سرگرمِ عمل ہو، اس میں الیکشن کمیشن کا آئین کا نام نہ لینے کا کہنا یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی نیوٹرل حیثیت کو چھوڑ کر حکمراں جماعت کی کھلی طرف داری پر اتر آیا ہے۔
ٹی۔ این۔ سیشن نے بڑی مشقّت کے بعد الیکشن کمیشن کو آزاد اور با وقار ادارے کے طور پر پیش کیاتھا مگر رفتہ رفتہ یہ ایک کلکٹریٹ یا عام سرکاری دفتر کی طرح سے ہوتا چلا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دَور میں یہ سرکاری آفس سے بڑھ کر  پارٹی آفس بن گیا۔ ایسی حالت میں پورے ملک کے جمہوریت پسند افراد کے حقِ راے دہندگی کے اعداد و شمار میں کوئی بڑی گڑبڑی ۴؍ جون کو کر دی جائے تو عوام کے پاس ہاتھ ملنے کے علاوہ کیا رہے گا؟ اس حکومت نے سی۔ بی۔ آئی اور ای۔ ڈی جیسے اداروں کو پہلے سے ہی اپنا ما تحت ادارہ بنا کر چھوڑا ہے، اب الیکشن کمیشن بھی اسی راستے پر ہے۔ عوام شبہات کے ساتھ ان معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ الیکشن کمیشن اپنی آزادنہ حیثیت کو سمجھتے ہوئے عوامی راے میں چھیڑ چھاڑ کرنے کا گھناونا کام نہیں کرے گا۔ ۴؍ جون کو ملک کے لیے نیا اور تاریخی دن سامنے آئے گا۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
safdarim...@gmail.com

--
SAFDAR IMAM QUADRI
Deptt. of Urdu
College of Commerce, Arts & Science
Patna - 800020 (Bihar)


---------- Forwarded message ---------
From: safdar imam Quadri <safdarim...@gmail.com>
Date: Sat, Jun 1, 2024, 5:55 PM
Subject: Resending of the file
To: <sh...@inquilab.com>




--
SAFDAR IMAM QUADRI
Deptt. of Urdu
College of Commerce, Arts & Science
Patna - 800020 (Bihar)
Arzdasht 02 June, 2024.inp
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages