دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؟

7 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
May 29, 2024, 7:41:12 AMMay 29
to bazme qalam
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؟
پسِ آئینہ: سہیل انجم
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں ڈیڑھ ماہ سے بھی زائد عرصے سے جاری رہنے والی انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے۔ یکم جون کو ساتویں اور آخری مرحلے کی پولنگ ہوگی اور چار جون کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ہوگا۔ قارئین جب اگلے ہفتے ہمارا کالم پڑھ رہے ہوں گے تو قوی امکان ہے کہ تصویر بڑی حد تک صاف ہو چکی ہوگی۔ یہ واضح ہو چکا ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بن کر پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ریکارڈ کی برابری کر لیں گے یا پھر ان کی قسمت میں کفِ افسوس ملنا آئے گا۔ فی الحال جو غیر یقینی صورت حال ہے اس میں کوئی بھی بات دعوے سے نہیں کہی جا سکتی۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سمندر منتھن سے وِش نکلے گا یا امرت اور اگر دونوں نکلے تو وِش کس کے حصے میں آئے گا اور امرت کس کے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ پارلیمانی الیکشن اب تک کے تمام الیکشنوں سے بالکل مختلف ثابت ہوا ہے اور اس کے نتائج بھی الگ نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ یہ نتائج اس بات کی جانب اشارہ کریں گے کہ یہ ملک ایک سیکولر اور جمہوری ملک بنا رہے گا یا پھر آمریت یا ڈکٹیٹر شپ کی راہ پر چل پڑے گا۔ اگر دعوؤں کی بات کریں تو حکمراں محاذ این ڈی اے بالخصوص بی جے پی اور اپوزیشن کے محاذ ’انڈیا‘ اور بالخصوص کانگریس، سماجوادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کی جانب سے اپنی اپنی جیت کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ پانچ مرحلوں میں ہی بی جے پی کو اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔ امت شاہ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں ان میں بھی بی جے پی کی حکومت قائم ہوگی اور مرکز میں تو قائم ہو ہی رہی ہے۔ جبکہ راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور اروند کیجری وال کا دعویٰ ہے کہ چار جون کو بی جے پی چاروں شانے چت ہو جائے گی اور مرکز میں انڈیا اتحاد کی حکومت بنے گی۔ جہاں تک تجزیہ کاروں کا تعلق ہے تو یقین کے ساتھ دعویٰ کرنے والے کم ہیں اور مختلف انداز کی قیاس آرائی کرنے والے زیادہ۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو مبصر یا تجزیہ کار انتخابات کے جو نتائج چاہتا ہے وہ اسی کے تحت یعنی اپنی خواہش کے مطابق قیاس آرائی کر رہا ہے۔ جہاں کچھ لوگ یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ بی جے پی ہار رہی ہے وہیں کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آرہے ہیں کہ اسے پونے چار سو سے زائد سیٹیں مل رہی ہیں۔ ایسا دعویٰ کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی اور خاص طور پر مودی کے حق میں ایک خاموش لہر ہے جو نظر تو آ نہیں رہی لیکن چار جون کو اس کا نتیجہ دکھائی دے جائے گا۔
ویسے اس وقت ملک کے دو اہم سیاسی تجزیہ کاروں پرشانت کشور اور یوگیندر یادو کے تجزیے اور دعوے سیاسی و صحافتی حلقوں میں موضوع گفتگو ہیں۔ پرشانت کشور کا جہاں تک معاملہ ہے تو انھیں ایک ایسا تجزیہ کا ریا انتخابی حکمت عملی کا ماہر سمجھا جا رہا ہے جو ذاتی مفادات کے تحت رائے زنی کرتے ہیں۔ انھوں نے 2014 میں نریندر مودی کے لیے انتخابی حکمت عملی بنائی تھی۔ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے لیے انھوں نے کام کیا تھا۔ وہ ممتا بنرجی اور نتیش کمار کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔ انتخابات سے قبل انھوں نے کانگریس جوائن کرنے کی جد و جہد کی تھی اور جن دنوں یہ بات چل رہی تھی انہی دنوں جے این یو کے سابق طلبہ لیڈر کنہیا کمار کی بھی بات چل رہی تھی۔ پرشانت کشور کانگریس میں اچھی پوزیشن اور فیصلہ سازی میں بھی اپنی مداخلت چاہتے تھے۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ راہل گاندھی اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انھوں نے کنہیا کو ان پر ترجیح دی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسی وقت سے وہ کانگریس سے ایک قسم کا بغض پالے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ بی جے پی کو 300 سے بھی زیادہ سیٹیں مل سکتی ہیں۔ ان کے بعد یوگیندر یادو کا تجزیہ آیا۔ وہ کانگریس کے قریب ہیں۔ راہل گاندھی کی دونوں یاتراؤں میں انھوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ ہر مرحلے کی پولنگ کے بعد اپنا تجزیہ پیش کرتے رہے ہیں۔ انھو ں نے وزیر اعظم مودی کے چار سو پار کے نعرے کو غیر عملی اور غیر حقیقی قرار دیا تھا۔ وہ شروع سے یہ کہتے رہے ہیں کہ بی جے پی کو کافی نقصان ہو رہا ہے اور اسے ڈھائی سو سے نیچے لایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے وہ مختلف ریاستوں میں بی جے پی کو ہونے والے نقصان کی تفصیل پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن پرشانت کشور کے تجزیہ کے بعد انھوں نے بھی کہہ دیا کہ بی جے پی کو 240 سے 260 اور ا س کے حلیفوں کو 35 سے 45 تک سیٹیں مل سکتی ہیں۔ جب کہ کانگریس کو 50 سے 100 کے درمیان اور اس کی حلیف جماعتوں کو 120 سے 135 کے درمیان نشستیں ملیں گی۔ اسی درمیان نیوز چینلوں پر بیٹھنے والے تجزیہ کاروں نے الگ الگ آراء کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کے حامی سمجھے جانے والے ایک سینئر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی اور خاص طور پر مودی کے حق میں خاموش لہر ہے اور بی جے پی کو پونے چار سو سے چار سو تک نشستیں ملیں گی۔ ایک اور تجزیہ کار کا، جو ماضی میں کانگریس کے لیے انتخابی حکمت عملی ترتیب دے چکے ہیں اور اب اس کے ساتھ نہیں ہیں، دعویٰ ہے کہ حکومت بی جے پی کی بن رہی ہے اور کانگریس کو زیادہ سے زیادہ ساٹھ پینسٹھ سیٹیں ملیں گی۔ لیکن سروے کرنے والی ایجنسیوں سے وابستہ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ الیکشن 2019 کے الیکشن سے مختلف ہے۔ بی جے پی نے رام مندر اور دفعہ 370 کے خاتمے کو انتخابی ایشو بنانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں چل سکے۔ اس کے بعد بی جے پی کا ایجنڈہ بدلتا رہا۔ جبکہ اپوزیشن ایک ہی ایجنڈے پر قائم رہا۔ اس نے مہنگائی، بے روزگاری اور دوسرے جو انتخابی ایشوز اٹھائے ان سے عوام سے اس کا رابطہ قائم ہوا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت بی جے پی کی ہی بنتی نظر آرہی ہے۔ ہاں اس کو پہلے جیسی سیٹیں نہیں ملیں گی۔ اسی درمیان بعض ایسے تجزیہ کار بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی کو 225 تک سیٹیں ملتی ہیں تو پھر اسے حکومت سازی سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ ہاں اس صورت میں مودی کے بجائے کوئی معتدل رہنما وزیر اعظم ہوگا۔ وہ نتن گٹکری، راج ناتھ سنگھ یا شیو راج سنگھ چوہان کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر سیٹیں 250 تک چلی جاتی ہیں تو پھر بی جے پی کی حکومت بھی بنے گی اور وزیر اعظم بھی نریندر مودی ہی ہوں گے۔ اس صورت میں مودی اور امت شاہ کے لیے 22 ارکان کو اپنے ساتھ ملا لینا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی تو پھر حکومت سازی میں ان مقامی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہو جائے گا جو کسی بھی اتحاد کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس صورت میں وہ سودے بازی کریں گی اور اندر یا باہر سے حمایت دینے کی پوری پوری قیمت وصول کریں گی۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر یہ نوبت آئی تو وزیر اعظم مودی تھوڑا سا جھک کر ان کی بات مان لیں گے اور حکومت بنا لیں گے۔ لیکن جب ایک بار وہ حلف لے لیں گے تو پھر اسی انداز میں کام کریں گے جس انداز میں اب تک کرتے آئے ہیں۔بہرحال چار جون کو ای وی ایم سے نکلنے والے نتائج کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بتا پانا مشکل ہے۔ وہ نتائج بی جے پی کے لیے پر کشش بھی ہو سکتے ہیں اور ڈراونے بھی۔ یہی بات اپوزیشن کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے۔ بہرحال اس وقت کی جو صورت حال ہے وہ انتہائی غیر یقینی ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ جو مبصر اور تجزیہ کار جیسا نتیجہ چاہتا ہے وہ ویسی ہی بھوشیہ وانی کر رہا ہے۔ سردست ہم علامہ اقبال کے اس شعر پر اپنا کالم ختم کرتے ہیں کہ:
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟
موبائل: 9818195929 
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages