پسِ آئینہ: سہیل انجم
گزشتہ دنوں ایک ایسی خبر پر نظر پڑی جس نے دل کو خو ش بھی کیا اور اداس بھی۔ خبر ہی ایسی تھی۔ وہ محض خبر نہیں تھی بلکہ ایک قدیم تہذیبی روایت کے مٹتے جانے کا نوحہ بھی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اس زریں روایت کا طوطی بولتا تھا۔ مگر اب وہ روایت ہندوستان میں بھی دم توڑ رہی ہے اور دوسرے ملکو ںمیں بھی۔ ہماری نسل اس روایت کے زیر سایہ پروان چڑھی ہے اور اب اسے اس کا جنازہ نکلتے ہوئے بھی دیکھنا پڑ رہا ہے۔ آئیے پہلے اس خبر کے مسرت آمیز پہلو پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کا نام علی اکبر ہے۔ یہ 75 سال کے ہیں اور گزشتہ پچاس سال سے مسلسل آواز لگا لگا کر اخبار فروشی کرتے ہیں۔ یعنی ہاکر ہیں اور اخبار بیچنا ان کا ذریعہ معاش بھی ہے اور شوق و جذبہ بھی۔ یہ ہندوستان یا پاکستان کے کسی گلی کوچے میں نہیں بلکہ فرانس کے انتہائی ترقی یافتہ دارالحکومت پیرس میں اخبار بیچتے ہیں۔ فرانس کے موجودہ صدر ایمانوئل میکراں جب طالب علم تھے تو انہی سے اخبار خریدا کرتے تھے۔ قسمت کا کھیل دیکھیے وہ اپنے ملک کے صدر بن گئے اور علی اکبر ہاکر کے ہاکر ہی رہے۔ لیکن اسے مغربی تہذیب کی اچھائی سمجھیں یا میکراں کا حسن سلوک کہ انھوں نے علی اکبر کو فراموش نہیں کیا۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ماہ علی اکبر کو ملک کے انتہائی باوقار ایوارڈ ’آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازیں گے۔ علی اکبر کا کہنا ہے کہ میں یہ جو کام کر رہا ہوں اس میں مجھ پر کوئی پابندی نہیں ہے، میں آزاد ہوں۔ آزادی کا یہی جذبہ ہے جو مجھ سے یہ کام کراتا ہے۔ وہ پیرس میں جہاں رہتے ہیں لوگوں میں بہت معروف ہیں۔ وہ بھی ہر کسی کو جانتے ہیں اور بہت دلچسپ انسان ہیں۔ ان کا آبائی وطن پاکستان کا شہر کراچی ہے۔ وہ 1960 میں پیرس چلے گئے تھے اور اسی وقت سے یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن اب خبروں کے مطابق وہ پیرس کے اور ممکن ہے پورے یوروپ کے آخری ہاکر ثابت ہوں۔ ان کے بعد اخبار بیچنے والا کوئی نہیں ملے گا۔ اس خبر کو پڑھ کر بہت سی باتیں یاد آگئیں، بہت سے قصے تازہ ہو گئے۔ تاہم میں یہ سوچنے لگا کہ کیا ہندوستان میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ کیا ایک روز صدر جمہوریہ یا وزیر اعظم کسی پرانے اور سینئر اخبار فروش کو راشٹر پتی بھون یا پی ایم او میں مدعو کریں اور اسے ملک کا اعلیٰ ترین سول اعزاز تفویض کریں۔ اس کی امید کم ہے۔ کیونکہ یہاں وہ تہذیبی روایت نہیں ہے جو علم اور معلومات کے فروغ کا ذریعہ بننے والے کی حوصلہ افزائی یا اس کی پذیرائی کرے۔
اس خبر سے دکھ اور افسوس اس لیے ہوا کہ اب اخبار فروشی کی روایت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ علی اکبر بھی اس صورت حال سے بہت مایوس ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے لوگ اخبار لینے کے لیے میرے ارد گرد کھڑے رہتے تھے اب مجھے ان کے پاس جانا پڑتا ہے۔ جب میں صبح کو لوگوں سے کہتا ہوں کہ اخبار لے لو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک گھنٹہ پہلے ہی انٹرنیٹ پر اخبار پڑھ لیا ہے۔ انٹرنیٹ کی آمد سے قبل وہ نہ صرف صبح کا بلکہ سہ پہر کا بھی اخبار فروخت کرتے تھے۔ اگر وہ واقعی پیرس یا یوروپ کے آخری اخبار فروش ثابت ہوتے ہیں تو یہ ان کا ایک ریکارڈ ہوگا۔ اس کے باوجود وہ موجودہ صورت حال سے بہت رنجیدہ ہیں۔ یہ رنج صرف علی اکبر کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام ہاکروں یا اخبار فروشوں کا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اخبار بیں حضرات صبح کے اخبار کے دیوانے ہوتے تھے۔ ان دنوں کوئی بڑا واقعہ ہو جاتا تو نہ صرف روزناموں کی اشاعت بڑھ جاتی بلکہ سہ پہر کا بھی ایڈیشن نکلتا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ اخبار صبح کو چھپا، سہ پہر کو بھی اور غروب آفتاب سے قبل ایک اور ایڈیشن بھی۔ یعنی ایک ایک دن میں تین تین ایڈیشن۔ تمام زبانوں کے اخبارات کا یہی حال تھا۔ کوئی بڑی خبر متوقع ہوتی تو اخبار کا عملہ آخری کاپی روک لیتا اور صبح صادق سے قبل اسے تیار کرکے پریس بھیجتا۔ ایسا بھی ہوتا کہ ایڈیٹر یا شفٹ انچارج رسک لے لیتا اور متوقع خبر کو وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی چھاپ دیتا۔ عموماً ایسے تکے جنھیں صحافتی دور اندیشی کہا جاتا ہے کامیاب ہوجاتے۔ بعض اوقات داو الٹا بھی پڑ جاتا۔ ان خو ش گوار دنوں میں شام کا اخبار بھی نکلتا۔ ابھی زیادہ دنوں کی نہیں محض پندرہ بیس برس پہلے کی بات ہے کہ دہلی کے آئی ٹی او سے شام نامے نکلتے تھے۔ ہاکر انھیں گھوم گھوم کر اور خاص سرخی کو خاص اور چٹپٹے انداز میں بہ آواز بلند بول بول کر اخبار کے دیوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے۔ اس سلسلے میں دہلی کے ’ویر ارجن‘ اور ممبئی کے ’مڈ ڈے‘ کا حوالہ بطور خاص دیا جا سکتا ہے۔ اردو اخبارات بھی لاکھوں میں چھپتے تھے۔ اخبار ’نشیمن‘ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ناخواندہ لوگ خرید کر دوسروں سے پڑھوا کر سنتے۔ دہلی آنے سے قبل جب ہم اپنے وطن میں تھے تو لکھنو کا روزنامہ ’قومی آواز‘ اگلے روز ملتا اور وہ ہم لوگوں کے لیے تازہ رہتا۔ جب روزنامہ ’انقلاب‘ دہلی سے شروع نہیں ہوا تھا تو یہاں کے باذوق افراد ممبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ کا بے صبری سے انتظار کرتے۔ عام طور پر اس کا سنڈے ایڈیشن آتا جو تھوڑی ہی دیر میں ختم ہو جاتا۔ ہم خود اس کا شدت سے انتظار کرتے۔
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اس خبر نے بہت سے قصے یاد دلا دیے۔ یہاں ہم ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہیں گے۔ یہ 1980 کے آس پاس کی بات ہے۔ ہمارے آبائی وطن میں بھی دوسرے مقامات کی مانند مسلم چائے خانوں پر اردو اور ہندی اخبارات آتے تھے۔ ہمارا گاوں اردو کا مرکز ہے۔وہاں سبھی بالخصوص نئی نسل کے لوگ اردوداں اور اردو خواں ہیں۔ البتہ پرانی نسل میں کچھ ناخواندہ یا نیم خواندہ تھے۔ خواندہ حضرات تو خود اخبار پڑھ لیتے۔ لیکن ناخواندہ حضرات کسی ایسے نوجوان کی تلاش میں رہتے جو اخبار پڑھنے میں اچھا ہو اور پڑھ کر سنانے سے گھبراتا نہ ہو۔ ہم گھر پر ہوتے تو یہ فریضہ ہمیں ہی انجام دینا پڑتا۔ ہماری موجودگی میں یہ قرعہ فال کسی اور کے نام نہیں نکلتا۔ ہم پہلے پورے اخبار کی سرخیاں پڑھتے اور پھر جس مضمون یا خبر کی فرمائش ہوتی اسے پڑھتے۔ رفتہ رفتہ ایک ہی نشست میں پورا اخبار پڑھ اور سن لیا جاتا۔ ہم درمیان میں ہوتے اور سامعین ہمارے اردگرد حلقہ باندھے رہتے۔ لیکن وہ دن اب خواب و خیال ہو گئے۔ اب تو گھروں میں بھی چائے کے وقت اخبار کا انتظار نہیں رہتا۔ دہلی بھی جو کہ اردو کا مرکز تھی، اب اردو اخبارات و رسائل سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ جامعہ نگر جیسے اردو داں طبقے کے علاقے نے بھی اردو سے منہ موڑ لیا ہے۔ یہاں بھی اب اردو اخبارات بہت کم فروخت ہوتے ہیں۔ مقصود احمد گزشتہ کئی عشروں سے بٹلہ ہاوس میں اخبار فروشی کر رہے ہیں۔ جب ہم نے ان کو علی اکبر کی خبر سنائی اور ان کی تصویر دکھائی تو جہاں ایک طرف ان کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی وہیں دوسرے ہی لمحے غم کی پرچھائیاں بھی نمودار ہو گئیں۔ ہم نے پوچھا کیا ہندوستان میں بھی کسی اخبار فروش کو اعزاز سے نوازا جا سکتا ہے تو انھو ںنے سخت لہجے مگر مایوس کن انداز میں کہا کہ ’کوئی سوال ہی نہیں ہے‘۔ وہ بھی علی اکبر کی مانند اخبار کی فروخت میں بے تحاشہ کمی پر اظہار افسوس کرتے ہیں۔ ان کے پاس اردو کے پانچ چھ اخبارات آتے ہیں جن میں سے روز کوئی نہ کوئی ناغہ ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق ایک دو اخبار ہی ایسے ہیں جو بکتے ہیں ورنہ بیشتر محض شو پیس ہیں۔ ان کو اس لیے رکھنا پڑتا ہے کہ کبھی کوئی مانگ لے تو اسے مایوسی نہ ہو۔ وہ قارئین کی ممکنہ مایوسی سے تو رنجیدہ ہیں لیکن اس مایوسی کا کیا جائے جو اس خوبصورت روایت کے مٹنے سے پیدا ہو گئی ہے۔
موبائل: 9818195929