ہندوستانی سیاست کا نیا چہرہ

12 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Jun 29, 2024, 1:58:47 AMJun 29
to bazme qalam
ہندوستانی سیاست کا نیا چہرہ
سہیل انجم
اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا کہ پرینکا گاندھی ہندوستانی سیاست کا نیا چہرہ ہیں۔ یہ چہرہ بڑا ہی جاذب نظر اور پرکشش ہے۔ ان سے بہت توقعات وابستہ ہیں اور ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ اگر وہ اپنی جھجک ترک کرکے خود کو سیاست کے خارزار کے لیے پوری طرح وقف کر دیں تو اپنی دادی اندرا گاندھی کی سیاسی روایت کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو ان میں اندرا گاندھی کی شبیہ نظر آتی ہے تو کچھ کو ان کی آواز اور ان کے انداز سے ان کی دادی کی یاد آجاتی ہے۔ حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا موازنہ درست نہیں۔ ان میں اگر کسی کی شبیہ نظر آتی ہے تو یہ بات ان کے حق میں نہیں جاتی۔ اگر ایسا ہے تو انھیں اس شبیہ کے سائے سے باہر آنا اور اپنی ایک شناخت بنانی ہوگی۔ یوں تو وہ کافی دنوں سے سیاست میں متحرک ہیں۔ وہ سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی جنرل سکریٹری رہ چکی ہیں۔ متعدد انتخابی مہموں میں سرگرم حصہ لے چکی ہیں۔ لیکن یہ پہلی بار ہے کہ وہ انتخابی سیاست میں داخل ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے بھائی اور سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کی خالی کی ہوئی وایناڈ کی پارلیمانی سیٹ سے الیکشن لڑنے جا رہی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ راہل گاندھی نے دو حلقوں سے الیکشن لڑا تھا۔ ایک وائناڈ سے اور دوسرے رائے بریلی سے جسے ان کی والدہ سونیا گاندھی نے خرابی صحت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ یعنی انتخابی سیاست سے الگ ہو گئیں۔ اور وہ دونوں حلقوں سے کافی ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ قانون کے مطابق ان کو ایک سیٹ خالی کرنی تھی سو انھوں نے بہت غور و فکر کے بعد وائناڈ کی سیٹ خالی کی اور رائے بریلی کو اپنے پاس رکھا۔ یہ انھوں نے اچھا ہی کیا کہ اس حلقے سے اس خاندان کی دیرینہ یادیں وابستہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پرینکا گاندھی الیکشن لڑنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ان کے انتخابی میدان میں آنے کی قیاس آرائیاں لوک سبھا انتخابات کے دوران ہی کی جاتی رہی ہیں اور ایسا سمجھا جاتا رہا ہے کہ وہ امیٹھی یا رائے بریلی سے الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ لیکن امیٹھی سے کانگریس پارٹی کے ایک پرانے اور وفادار سپاہی کے ایل شرما کو لڑایا گیا اور رائے بریلی سے راہل گاندھی کو۔ یہ دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ پرینکا نے امیٹھی میں کافی محنت کی جس کے نتیجے میں کے ایل شرما نے اسمرتی ایرانی کو حیرت انگیز انداز میں شکست دے دی۔ جبکہ یہی اسمرتی ہیں جنھو ں نے راہل گاندھی کو ہرایا تھا۔ حالانکہ راہل کی ہار اور اسمرتی کی جیت کے بارے میں کافی افو اہیں اڑی تھیں۔ بہرحال اب پرینکا گاندھی انتخابی سیاست میں آرہی ہیں۔ وائناڈ سے ان کی جیت پکی ہے۔ اس طرح سمجھا جا رہا ہے کہ نہرو گاندھی خاندان میں ایک اور سیاسی قوت پیدا ہو رہی ہے۔ سردست یہ قوت کوئی بہت طاقتور نہیں ہے لیکن آگے چل کر وہ طاقت کا مرکز بن جائیں تو حیرت نہیں ہوگی۔
پرینکا گاندھی میں متعدد خوبیاں ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں ختم ہوئے لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی اہلیت و لیاقت کا ثبوت دے دیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران راہل گاندھی جہاں ملک کو درپیش مسائل اٹھاتے رہے اور ان مسائل کی بنیاد پر وزیر اعظم نریندر مودی کو گھیرتے رہے تو وہیں پرینکا نے مودی کے الزامات کے جواب دینے کامحاذ سنبھال رکھا تھا۔ انھوں نے و زیر اعظم کے ہر الزام کا جواب دیا۔ خو اہ خاندانی سیاست کا طعنہ ہو یا دوسرے الزامات ہوں۔ انھوں نے ایک تقریر میں انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ انھوں نے اپنے والد کو ٹکڑوں میں حاصل کیا تھا تو وہ موقع بہت ہی پرسوز اور دلدوز ہو گیا تھا۔ خاندانی سیاست کے طعنے کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کی دادی اور والد نے ملک کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے دی۔ وہ وزیر اعظم سے سوال کرتیں کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز پر بولنے کے بجائے ادھر ادھر کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کی ایک انتخابی مہم کے دوران جب نریندر مودی نے کہا کہ کانگریس بوڑھی ہو گئی ہے تو انھوں نے ایک عوامی تقریر کے دوران مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ کیا میں آپ لوگوں کو بوڑھی لگتی ہوں۔ اسی طرح انھوں نے اور بھی جواب دیے۔
لیکن اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ سونیا گاندھی ہوں یا راہل گاندھی یا پھر پرینکا گاندھی ان میں سے کسی نے بھی مخالفین کے لیے غیر معیاری زبان کا استعمال کبھی نہیں کیا۔ پرینکا گاندھی نے حالیہ انتخابات کے دوران درجنوں ریلیوں سے خطاب کیا اور متعدد روڈ شوز کیے لیکن انھوں نے کسی بھی موقع پر کوئی غلط زبان استعمال نہیں کی۔ انھوں نے سونیا اور راہل کے مانند ہمیشہ تہذیب کا دامن تھامے رکھا۔ مخالفین کی جانب سے ان لوگوں کو مشتعل کرنے اور ورغلانے کی جانے کتنی کوششیں کی گئیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی شائستگی کو خیرباد نہیں کہا۔ ایک بار سونیا گاندھی نے گجرات فسادات کے تناظر میں نریندر مودی کو موت کا سوداگر کہہ دیا تھا جس کو سیاسی طور پر خوب استعمال کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے کبھی بھی تہذیب سے گری ہوئی زبان استعمال نہیں کی۔ یہی حال پرینکا گاندھی کا بھی ہے۔ وہ بھی شرافت کو اپنا شیوہ بنائے ہوئے ہیں۔
پرینکا نے انتخابی مہم کے دوران یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے بھائی راہل گاندھی کا دایاں بازو بن کر کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ اب جبکہ وہ وائناڈ سے الیکشن لڑنے جارہی ہیں اور ان کی جیت کے امکانات قوی ہیں تو ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ وہ  لوک سبھا میں اپنے بھائی کے لیے ڈھال بنی رہیں گی۔ لوک سبھا میں ان کی موجودگی جہاں کانگریس کے لیے حوصلہ بخش ثابت ہوگی وہیں اپوزیشن کے لیے بھی مفید ہوگی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لوک سبھا میں اپوزیشن کی آواز طاقتور ان داز میں بلند کریں گی اور اب حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ وہ اپوزیشن کو اس طرح کمزور کر دے جس طرح اس نے سترہویں لوک سبھا میں کیا تھا۔ پرینکا کے اندر تقریر کرنے کی زبردست صلاحیت ہے۔ وہ غیر جذباتی اور غیر مشتعل انداز میں اپنی بات رکھتی ہیں اور سلیقے کے ساتھ رکھتی ہیں۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خود کو عوام سے بڑی آسانی کے ساتھ جوڑ لیتی ہیں۔ ان کے درمیان جا کر بیٹھ جائیں گی اور ان کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرنے لگی گی۔ ایسی خو بیاں ایک سیاست داں کو کامیاب سیاست داں بناتی ہیں۔ پرینکا جہاں انتخابی مہم چلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں وہیں وہ ایک بہترین منتظم بھی ہیں جس کا ثبوت انھوں نے امیٹھی میں دے دیا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب پرینکا گاندھی ایک عرصے سے سیاست میں سرگرم ہیں تو پھر وہ پہلے ہی انتخابی سیاست میں کیوں نہیں آگئیں۔ اس بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ پارٹی مضبوط نہیں تھی بہت کمزور ہو گئی تھی اس لیے کانگریس ان کو انتخابی میدان میں اتار کر پہلے ہی ان کی امیج کو خراب کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اب جبکہ راہل گاندھی کی دونوں یاتراؤں اور پارٹی کے احیا کی وجہ سے کانگریسی لیڈروں میں جوش ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی کا احیا شروع ہو گیا ہے لہٰذا یہ مناسب موقع تھا کہ ان کو الیکشن لڑایا جائے اور راہل گاندھی کے ساتھ ساتھ پارٹی کو بھی پروقار انداز میں مضبوط بنایا جائے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ سونیا بیمار رہتی ہیں لہٰذا ان کی جگہ لینے کے لیے کسی کو تو آگے آنا تھا۔ لہٰذا بہتر سمجھا گیا کہ وہ جو جگہ چھوڑ رہی ہیں اس کو پرینکا ہی پُر کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ راہل گاندھی نے اب سیاست میں اپنا ایک مقام بنا لیا ہے۔ ان کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ جبکہ پرینکا کو جو کہ انتخا بی سیاست میں ابھی نئی نئی ہیں، ایک سہارے کی ضرورت تھی اور وہ سہارا سونیا کی خالی کی ہوئی جگہ ہو سکتی ہے۔ بہرحال کانگریس کا یہ فیصلہ کہ پرینکا کو وائناڈ سے الیکشن لڑایا جائے بہت ہی سمجھداری بھرا قدم ہے اور یقینی طور پر اس سے کانگریس کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ محموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پرینکا گاندھی ہندوستان کی نئی سیاست کا نیا چہرہ ہیں۔ ایک ایسا چہرہ جو پرکشش اور جاذب نظر ہے اور جو خود کو عوام سے جوڑنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔
موبائل:9818195929 
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages