”جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز“

2 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
Jul 10, 2024, 6:48:21 AM (7 days ago) Jul 10
to bazme qalam
 معروف صحافی سہیل انجم کی مرتب کردہ کتاب
”جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز“
کا ایک جائزہ
ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی
اردو میں صحافتی تاریخ نگاری کی تاریخ ایک قدیم روایت ہے اور یہ سلسلہ انیسویں صدی کے آخر سے جاری ہے۔ 1887 میں سید محمد اشرف نے ”اختر شاہنشاہی“ جیسی اہم کتاب تصنیف کی جس میں مصنف نے انیسویں صدی کے اردو اخبارات و رسائل کے بارے میں حروف تہجی کے حساب سے مختصر لیکن اہم معلومات درج کی تھیں۔ اردو صحافت کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ا ختر شاہنشاہی کے بعد بیسویں صدی کے نصف اول میں اردو صحافت کی تاریخ نگاری  کے مو ضوع پر کوئی خاص سنجیدہ کام نہیں ہوا۔ اس موضو ع پر اصل تحقیقی کام آزادی کے بعد شروع ہوا۔ اور ہندو پاک کے جن لوگوں نے اہم تحقیقی کام انجام دیا ان میں امداد صابری، نادر علی خاں، عتیق صدیقی، عبدالسلام خورشید، گربچن چندن وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے جنہوں نے مختلف دور کی اردوصحافت کی تاریخ نگاری کے موضوع پر اہم کام کیا۔ لیکن ان کاموں میں چند ایک کے علاوہ کوئی بھی سائنسی پیمانے پر کھرا نہیں اترا اور اس سلسلہ میں تحقیق کی بہت گنجائش ابھی باقی ہے۔
گو کہ گزشتہ دو دہائیوں میں اردو صحافت کی مختلف جہتوں پر تحقیق اورمطالعات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور اردو صحافت سے متعلق مختلف جدید موضوعات پر مطالعات وتحقیق کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ان میں اردو کی علا قائی صحافت، موضوعی صحافت، خواتین کی صحافت، صحافت کی زبان نیز قدیم اخبارت کے مواد کو بھی چندصحافتی محققین اور مصنفین نے اپنی تحقیق کا حدف بنایا  ہے۔ مطالعات صحافت کے سلسلہ میں ایک اہم موضوع انیسویں اور بیسویں کے کسی اہم اخبار اور رسالہ پر تحقیق سے متعلق بھی ہے۔ اس موضوع پر اب تک کئی اردو اخبارات و رسائل کا احاطہ کیا جاچکا ہے نیز انگریزی اور اردو میں کئی تحقیقات منظر عام پر آچکی ہیں۔ چند اہم اخبارات جن پر اب تک کتابیں اور تحقیق شائع ہو ئیں ان میں جام جہاں نما، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، تہذیب الاخلاق، اخبار مدینہ اور الہلال وغیرہ شامل ہے۔ اس سلسلہ میں حال کے دور میں ڈاکٹر طاہر مسعود،  پروفیسرشافع قدوائی، معصوم مرادآبادی وغیرہ کے تاریخ صحافت کی تحقیق کو بھی استناد کی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔
قومی آواز جس کا اجراء آزادی سے قبل  1945  میں جواہر لال نہرو ک کے ایماء پر اور معروف کانگریسی رہنما اور مجاہد آزادی حیات اللہ انصاری کی ادارت میں عمل میں آیا۔ قومی آوازصرف ایک اخبار ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک صحافتی تربیت گاہ بھی تھا جس نے آزادی کے بعد انگنت اردوصحافی پیدا کئے۔جہاں اس اخبار نے آزادی سے قبل مسلم لیگ کے سحر کو توڑنے کی کوشش کی اور ایک نئے آزاداور جدید ہندوستان کا خواب دیکھا وہیں آزادی کے بعد قومی اتحاد کو بیدار کرنے، شعور و آگہی کے فروغ نیز اردو زبان و ادب کی ترسیل میں اس کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اردو روزنامہ اخبارات کی زبان و بیان کے حوالے سے سہیل وحید نے ایک اچھا جامع تحقیقی کام کیا ہے جس میں انہوں نے قومی آواز پر بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے جو ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے اور یہ ”صحافتی زبان“ کے عنوان سے کتابی شکل میں 1996  میں شائع ہوچکا ہے۔ اسی طرح قومی آواز کے اداریوں پر پروفیسرشافع قدوائی کا بھی ایک اہم مقالہ ہے جو حیات اللہ انصاری کی خدمات پر اترپردیش اردو اکیڈمی سے شائع شدہ تصنیف میں شامل ہے۔
حال ہی میں اردو کی دو سو سالہ تقریبات کے موقع پر معروف اردو صحافی اور صحافت کے محقق جناب سہیل انجم نے بیسویں صدی کے نصف آخر کے مقبول عام قومی اردو اخبار’قومی آواز‘  پر ایک اہم کتاب بعنوان”جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز“ مرتب کی ہے۔ یہ تصنیف قومی آواز سے متعلق مواد کی معروضی تحقیق تو نہیں ہے لیکن یہ تاریخی نوعیت کی ایک اہم کتاب ضرور ہے جس سے اردو صحافت کی تاریخ میں قومی آواز کے حوالے سے کئی باب وا ہوتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب اس معنی میں اہم کاوش ہے کہ اس کے مصنف صحافی سہیل انجم ہیں جو خود بھی تیرہ سال کے ایک طویل عرصہ تک قومی آواز کے دہلی ایڈیشن سے منسلک رہے۔ اس سے قبل وہ آٹھ برسوں تک مختلف ہفت روزہ اخباروں میں کام کر چکے تھے۔ لیکن قومی آواز میں انھوں نے روزنامہ صحافت کی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے اس کتاب میں کچھ اپنی زبانی اور قومی آواز سے وابستہ چند دیگر حضرات کے قلم سے اخبارکے آغاز سے اس کے 2008 میں بند ہونے تک کی کہانی کو قلم بندکرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف انھوں نے بڑی عرق ریزی سے قومی آواز سے متعلق اپنے تجربات اور اپنی یادوں کوقلم بند کیا ہے بلکہ دیگر لوگوں کے قومی آواز سے متعلق تجربات کو بھی ان کی اصل اور قیمتی تحریروں کی شکل میں پیش کیا ہے۔
مذکورہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ اولین تین ابواب میں انھوں نے قومی آواز کے دہلی، لکھنؤ، اور پٹنہ و سری نگر کے ایڈیشن کے بارے میں تفصیلات درج کی ہیں۔ اور آخری باب میں روزنامہ قومی آواز کے مختلف ایڈیشنوں سے منسلک اہم مدیروں و صحافیوں کے بارے میں بھی اہم معلومات کو قلم بند کیا ہے۔ مستقبل میں جب بھی اردو صحافت کی تاریخ نئے سرے سے لکھی جائے گی اس قت اس کتاب میں شامل معروف صحافیوں کے ان مضامین کو قومی آواز اور اردو صحافت کی خدمات کے مستند حوالے کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔
مذکورہ کتاب کا باب اول جو کہ”قومی آواز نی دہلی ایڈیشن“ کے عنوان سے ہے، اس باب میں سب سے پہلے سہیل انجم نے قومی آواز کے تعلق سے اپنے منسلک ہونے سے لے کر قومی آواز کے بند ہونے تک کی اپنی یاد داشتوں کو بڑی خوبصورتی سے قلم بند کیا ہے جس میں انہوں نے قومی آواز کے اتار چڑھاؤ اور اس کے عروج و زوال کی پوری داستان درج کی ہے۔ اس مذکورہ باب اول کا دوسرا حصہ ”تذکرہ شعبہئ ادارت کے احباب کا“کے ذیلی عنوان سے ہے جو کہ انہی کے قلم سے ہی صفحہ قرطاس کی زینت بناہے جس میں انہوں نے قومی آوازدہلی ایڈیشن سے منسلک معروف ومقبول صحافیوں و مدیروں بشمول موہن چراغی، شاہد پرویز، فرحت احساس، مولانا رحمت اللہ فاروقی، ظفر عدیم، سید اجمل حسین، انور یوسف، چندر بھان خیال،سید منصو ر آغا، نصرت ظہیر سمیت بیس اہم صحافتی اوردیگر شخصیات کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی زندگی کے اہم واقعات اور حالات کو مختصراً بیان کیا ہے۔ سہیل انجم نے ان چند شخصی مضامین میں بغیر کسی لاگ لپیٹ اور مرعوبیت کے ان اشخاص کے بارے میں  نیزان کی صحافتی تحریروں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے ان شخصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے صرف ان کی اچھی باتوں یا واقعات کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ ان کے غلط طریقہ کار کو بھی ضبط تحریر لائے ہیں اور ان امور کو بھی بیان کیا ہے جن سے قومی آواز کی ساکھ کو ضرب لگی اور اس کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ ان مضامین کو پڑھ کر قاری کے سامنے ان شخصیات کی مثبت اور منفی پہلووؤں کے تناظر میں اصل شبیہ سامنے آجاتی ہے۔
اسی باب میں انھوں نے موہن چراغی کا قومی آواز سے متعلق قیمتی مضمون ”قومی آواز نئی دہلی کی کہانی موہن چراغی کی زبانی“ اور اشہر ہاشمی کا تفصیلی مضمون”قومی آواز میں خبر چھپتی تو معتبر ہو جاتی“بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے شامل کردیا ہے۔ موہن چراغی نے اپنے مضمون میں قومی آواز کی ملازمت کے دوران ان کو کن کن تجربات سے گزرنا پڑا اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے قومی آواز کے اندر کی سیاست نیزان نکات پر بھی روشنی ڈالی ہے جن سے قومی آواز کو بند کرنا پڑا۔ دراصل یہ مضمون ا ن کی قومی آواز کی یاداداشتوں پرمبنی ہے۔
کتاب کا دوسرا باب قومی آواز لکھنؤ ایڈیشن کے عنوان سے ہے۔جس میں سہیل انجم نے قومی آواز لکھنؤ سے منسلک چار اہم صحافیوں عشرت علی صدیقی، عابد سہیل، قیصر تمکین اور قطب اللہ کی نادر تحریریں شامل کی ہیں۔عشرت علی صدیقی جنہوں نے قومی آواز کو کامیاب اردو اخبار بنانے میں اہم کردار کیا حیات اللہ انصاری کے بعد قومی آواز کے ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کا مضمون ”قومی آواز نے صحافتی اصول متعارف کرائے“ اس معنیٰ میں اہم ہے کہ انہوں نے قومی آوازکی اہمیت و افادیت کے لئے زبان و بیان اور دیگر معاملات میں جو تبدیلیاں کی گئیں اس پر بڑی دقت نظری سے روشنی ڈالی ہے۔اسی طرح عابدسہیل کا مضمون”قومی آواز اخبار نہیں ایک خاندان تھا“ جو ان کی آپ بیتی ”جو یاد رہا“سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے قومی آواز کی ملازمت کے دوران کئی اہم واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔ قیصر تمکین جنہوں نے آزادی کے بعد مئی 1951  میں قومی آواز لکھنؤکے ساتھ پروف ریڈر کی حیثیت کے کام کرنا شرو ع کیا بعد میں سب ایڈیٹر ہوئے اورمارچ  1960 تک یہ خدمت انجام دی۔ ان کامضمون ”قومی آواز یعنی قومی(و ادبی) آواز“ ایک اہم تحریر ہے۔اس میں انہوں نے قومی آواز سے منسلک لکھنؤ کی چند اہم ادبی شخصیات احسن کلیم، منظر سلیم،حبیب الرحمن، مسیح الحسن وغیرہ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون قیصر تمکین کی خود نوشت ”خبرگیر“ سے متسعار ہے۔ اس سلسلہ کا آخری مضمون”قومی آواز صحافت کی یونیورسٹی تھا“ معروف صحافی قطب اللہ کا تحریرکردہ ہے جو کہ لکھنؤ کے اہم ادبی رسالہ”نیا دور“ کے اردو صحافت نمبر سے ماخوذ ہے۔ اس مضمون میں قطب اللہ نے اپنے تجربے کی بنیاد پر قومی آواز کے ان اصولوں کے بارے میں درج کیا ہے جنھوں نے اخبار کی زبان کو آسان اورمقبول عام بنانے میں اہم کردار کیا۔ عشرت علی صدیقی کا مضمون بھی نیا دور کے صحافت نمبر سے لیا گیا ہے۔
کتاب کے تیسرے باب میں بمبئی، پٹنہ اور سری نگر ایڈیشنوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں تین مضامین شامل ہیں۔ اس میں معروف صحافی سعید حمید کا مضمون ”ممبئی کی صحافت میں قومی آواز ایک نیا تجربہ تھا“، بہار کے معروف صحافی ریحان غنی کا قومی آواز سے منسلک ان کی یادداشتوں پر مبنی مضمون ”پٹنہ ایڈیشن کی چند باتیں،چند یادیں“ اور موہن چراغی کا مضمون ”سری نگر ایڈیشن سے صحافت میں صحت مند تبدیلی آئی“شامل ہے۔ ان تینوں تحریروں میں قومی آواز نے کس طرح علا قائی صحافت کو متاثر کیا اس کا اندازہ ان صحافیوں کے قومی آواز میں کیے گئے تجربات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
کتاب کا چوتھا باب ”قومی آواز کے کچھ مدیر و صحافی“کے عنوان سے ہے۔ اس میں سہیل انجم نے حیات اللہ انصاری، عشرت علی صدیقی، عثمان غنی ہاشمی، عالم نقوی، موہن چراغی، نور جہاں ثروت، ظفر زاہدی، محمد سلیمان صابر، حسین امین، محمد کاظم کے خاکے نما مضامین بھی شامل کردیے ہیں۔ اس میں عشرت علی صدیقی پر عابد سہیل کا مضمون، محمد عثمان غنی پر عبدالنافع قدوائی کا مضمون اور حسین امین پر معصوم مرادآبادی کا مضمون جوان کی تصانیف سے مستعار لئے گئے ہیں، کے علاوہ دیگر تمام مضامین خود سہیل انجم کے تحریر کردہ ہیں۔
 اس کتاب کی ابتداء میں سہیل انجم کے تحریر کردہ پیش لفظ کے علاوہ ”تقدیم“ کے عنوان سے پروفیسر اختر الواسع کا مضمون، جلال الدین اسلم کا مضمون ”مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے“اور سہیل وحید کا مضمون ”جدید اردو صحافت اور قومی آواز“ بھی شامل ہیں۔ معروف اردواسکالر و ماہر اسلامیات پروفیسر اخترالواسع کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہمیں اس کتاب کی تصنیف و تالیف کے سلسلے میں، جو کہ قومی آواز کی شاید ہمارے بہت سے اخباروں کے بارے میں لکھی گئی پہلی کتابوں میں سے ہے، سہیل انجم کا شکر گزار ہونا چاہئے اور امید کرنی چاہئے کہ چھپے ہوئے لفظ کی حرمت اور بقا کے بارے میں آج جب کچھ لوگ تشکیک کا شکار ہیں یہ ایک ایسی دستاویزی شہادت ہوگی جو ایک اخبار کی، جو محض خبر نہیں دیتا بلکہ نظریہ ساز بھی تھا اور ادب نواز بھی، تا دیر یاد دلاتی رہے گی۔“
کتاب کے آخر میں قومی آواز کی ویب سائٹ کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں مرتب نے معروف صحافی ظفر آغا کی ادارت میں قومی آواز کے آن لائن خبری ویب سائٹ کے بارے میں درج کیا ہے جو آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سہیل انجم صاحب نے قومی آواز کی خدمات کو اس کتاب کے وسیلے سے نہ صرف نئی نسل سے متعارف کیا ہے، بلکہ اردو صحافت کے ایک درخشندہ دور کو قارئین کے سامنے لاکر ایک اہم کام انجام دیا ہے۔ جس کو بنیاد بناکر اردو صحافت کی تاریخ نویسی میں جدید تحقیق کام انجام دی جا سکتا ہے۔ اس معنیٰ میں یہ کتاب ایک حوالے کی چیز ہوگی۔ اس اہم کام کے لیے وہ بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔  288 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی طباعت بہترین اور عمدہ ہے نیز غلطیوں سے پاک ہے۔ سرورق دیدہ زیب ہے جس کو قلم اور دوات سے نیز قومی کے سرنامہ سے سجایا گیا ہے۔ کتاب کی قیمت چار سو روپے ہے اور اس کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہا ؤس، دہلی نے شائع کیا ہے۔

ReplyForward
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages