مالیوال مظلوم یا مُہرہ؟

12 views
Skip to first unread message

Suhail Anjum

unread,
May 22, 2024, 5:37:02 AMMay 22
to bazme qalam
مالیوال مظلوم یا مُہرہ؟
پسِ آئینہ: سہیل انجم
اس وقت دہلی کی سیاست میں گھمسان مچا ہوا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما اور وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کی معتمد اور عام آدمی پارٹی کی رکن راجیہ سبھا سواتی مالیوال نے ہی ان کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ بظاہر ان کی لڑائی کیجری وال کے پی ایس ببھَو کمار سے ہے لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اصل نشانہ کیجری وال ہیں۔ سب سے پہلے ہم مالیوال کے بیان پر یقین کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہونے والی مبینہ بدسلوکی اور مار پیٹ کی مذمت کرتے ہیں۔ اگر واقعی ببھو کمار نے وہ سب کچھ کیا ہے جس کا دعویٰ وہ کر رہی ہیں تو یہ بات انتہائی قابل مذمت ہے۔ کسی خاتون کے ساتھ خواہ اس نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدیں پامال ہی کیوں نہ کر دی ہو، مار پیٹ کرنا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اور ایسے میں جبکہ انھوں نے بتایا کہ وہ ایام حیض سے گزر رہی ہیں، ان کے سینے اور پیٹ پر ضرب لگانا انتہائی غیر انسانی حرکت ہے۔ اب یہ تو مالیوال کو ہی معلوم ہوگا کہ ان کا دعویٰ کتنا سچا ہے یا پھر ببھو کو یا جائے واقعہ پر موجود افراد کو۔ گوکہ ویڈیوز میں وہ جس طرح نظر آرہی ہیں اس کے پیش نظر ان کا بیان مشکوک لگتا ہے تاہم ان کی میڈیکل رپورٹ میں ان کے جسم پر چار مقامات پر چوٹ کے نشان کا انکشاف ہوا ہے۔ مالیوال کے مطابق ببھو نے ان کے پیٹ اور سینے پر سات آٹھ بار مارا اور ان کو دھکہ دیا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس دوران وہ زمین پر گر گئی تھیں، ان کو کئی بار ضرب لگائی گئی جس کی وجہ سے ان کو، ران اور گردن اور دوسرے اعضا میں درد ہے۔ لیکن رپورٹ میں زخم کی صورت حال کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ہے۔ مالیوال نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی تھی جس پر ببھو کمار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ببھو نے بھی جوابی رپورٹ درج کرائی ہے لیکن اس پر پولیس نے کیا کارروائی کی، واضح نہیں ہے۔
جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ یہ واقعہ دہلی کے سول لائنز علاقے میں واقع وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر پیش آیا۔ واردات کے وقت وہاں سیکورٹی جوان موجود تھے۔ مالیوال کیجری وال سے ملنے کی ضد کر رہی تھیں لیکن ببھو اور سیکورٹی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ وہ بغیر وقت لیے آئی ہیں لہٰذا ابھی نہیں مل سکتیں۔ وہ ان کے مکان میں اندر پہنچ گئیں۔ اہلکار ان کو باہر چلنے کو کہہ رہے تھے۔ اس دوران توتو میں میں ہوئی اور مالیوال کے مطابق ان پر حملہ کیا گیا۔ اگلے روز عام آدمی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ نے مالیوال کی حمایت کی اور کہا کہ ببھو نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ اس کی جانچ کی جائے گی اور مناسب کارروائی ہوگی۔ لیکن بہرحال پارٹی کے طرف سے باضابطہ کوئی بیان نہیں دیا جا رہا تھا۔ تاہم بعد میں حکومت میں وزیر آتشی اور سورو بھاردواج سمیت کئی رہنماؤں نے مالیوال کے خلاف بیان دیا اور الزام عاید کیا کہ وہ بی جے پی کی آلہئ کار ہیں۔ نرملا سیتا رمن سمیت بی جے پی کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے مالیوال کی حمایت کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں کے الزامات درست محسوس ہوتے ہیں۔ ورنہ اس معاملے میں بی جے پی کو ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن جس طرح بی جے پی لیڈران کیجری وال کی مذمت اور مالیوال کی حمایت کر رہے ہیں اس سے شکوک و شبہات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ادھر جب ببھو کو پولیس نے گرفتار کر لیا تب جا کر کیجری وال نے اپنی خاموشی توڑی۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر ’آپریشن جھاڑو‘ چلانے کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ پارٹی کے تمام رہنماؤں کو جیل بھیج دینا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں انھوں نے بی جے پی دفتر کے باہر مظاہرہ بھی کیا۔ ادھر مالیوال نے پارٹی کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ جس پارٹی نے نربھیا معاملے میں تحریک چلائی تھی اب وہی پارٹی ایک ملزم کو بچا رہی ہے۔ انھوں نے منیش سسودیا کی حمایت کرکے پارٹی کے اندر تفریق پیدا کرنے کی کوشش بھی کی۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ تادم تحریر نہ تو مالیوال نے کیجری وال کے خلاف کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی کیجری وال نے مالیوال کے خلاف۔ آگے ایسے بیانات آتے ہیں یا نہیں کہا نہیں جا سکتا۔
بہرحال اب تک جو کچھ عرض کیا گیا وہ معاملے کا ایک رخ تھا۔ اب دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان جو لڑائی چل رہی ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ منسوخ شدہ دہلی شراب پالیسی میں مبینہ رشوت ستانی کے الزام میں نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ سنجے سنگھ کو بھی بھیجا گیا تھا، وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ اروند کیجری وال کو بھی ای ڈی نے گرفتار کیا تھا جس پر زائد از ایک ماہ کے بعد سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے انھیں یکم جون تک رہا کیا ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کو عدالت عظمیٰ کا یہ قدم بہت ناگوار گزرا اور انھوں نے اور بی جے پی کے دوسرے رہنماؤں نے اشاروں کنایوں میں سپریم کورٹ پر کیجری وال کی حمایت کا الزام لگایا۔ ادھر کیجری وال رہا ہونے کے بعد بی جے پی کے خلاف دھواں دھار انتخابی مہم چلانے لگے۔ ان کے جلسوں نے اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ کی مہم کی دھار تیز کر دی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے بی جے پی پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور اس نے کیجری وال کو انتخابی مہم سے ہٹا کر دوسرے معاملات میں الجھانے کی کوشش کی۔ اس سے قبل عام آدمی پارٹی کے رہنما بار بار یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ مودی حکومت کیجری وال حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔ حکومت کے ایک وزیر راج کمار آنند حکومت اور پارٹی سے مستعفی ہو کر بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کیجری وال کو الجھانے کے لیے بی جے پی کو عام آدمی پارٹی میں کسی مہرے کی تلاش تھی اور مالیوال کی شکل میں وہ مہرہ مل گیا۔ دہلی کی وزیر آتشی نے کہا ہے کہ سواتی مالیوال بی جے پی کی بلیک میلنگ کی ساز ش کی آلہئ کار بن گئی ہیں۔ ان کے مطابق دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن کی حیثیت سے انھوں نے کنٹریکٹ کی بنیاد پر بہت سے کارکنوں کا تقرر کیا تھا۔ اب اس معاملے میں اینٹی کرپشن بیورو کی جانب سے ان کے اوپر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی تھی۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ کئی برس پرانا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے خلاف جانچ چل رہی ہے۔ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے گزشتہ دنوں ان کے دور میں ہونے والے 223 ملازمین کے تقرر کو رد کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کیس کی جانچ کی آنچ مالیوال کو پریشان کر رہی تھی۔ ان کی گرفتاری بھی ہو سکتی تھی۔ حالانکہ سواتی مالیوال نے ایل جی کے اس قدم کی ’تغلقی فرمان‘ قرار دے کر مخالفت کی تھی۔ بہرحال یہ بات یقین سے تو نہیں کہی جا سکتی لیکن ممکن ہے کہ مالیوال کو اس معاملے میں گرفتاری کا ڈر رہا ہو جس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کے بقول ’انھوں نے بی جے پی کے اشارے پر یہ سب کچھ کیا‘۔  ویسے یہ بات حیر ت انگیز ہے کہ مالیوال جیسی کیجری وال کی معتمد پارٹی کے خلاف بغاوت کر دے۔ مبصرین کے مطابق مالیوال کو اس معاملے کو پولیس میں لے جانے کے بجائے پارٹی فورم پر اٹھانا چاہیے تھا۔ وہ عام آدمی پارٹی کے قیام سے قبل اس وقت سے کیجری وال کے حلقے میں شامل رہی ہیں جب وہ لوگ این جی او چلاتے تھے اور اس کے پلیٹ فارم سے راشن تحریک، آر ٹی آئی تحریک اور بجلی تحریک چلاتے رہے ہیں۔ وہ انا تحریک میں بھی شامل رہی ہیں۔ کیجری وال نے ان کو آگے بڑھایا اور شاذیہ علمی کی مخالفت کے باوجود انھیں دہلی خواتین کمیشن کا چیئرپرسن بنا دیا۔ اس فیصلے سے ناراض ہو کر شاذیہ علمی نے بی جے پی جوائن کر لی۔ جب مالیوال کو شہرت حاصل ہو گئی تو کیجری وال نے یہ سوچ کر کہ ان کو ہریانہ میں پارٹی کے ایک خاتون چہرے کے طور پر استعمال کیا جائے گا، ان کو راجیہ سبھا کا رکن بنا دیا۔ اب شاید وہ ان کوآگے بڑھانے پر کفِ افسوس مل رہے ہوں گے۔ مالیوال کے اس قدم کو دیکھ کر جانے کیوں ایک مشہور فلمی نغمے کا یہ مصرع یاد آگیا کہ: اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔
موبائل: 9818195929
  
ReplyForward
Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages