You do not have permission to delete messages in this group
Copy link
Report message
Show original message
Either email addresses are anonymous for this group or you need the view member email addresses permission to view the original message
to nrin...@googlegroups.com, bazmeqalam
جہاد، دہشت گردی، مزاحمت اور اسلاموفوبیا ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی بھارت کے قلب دلی اور دلی کے قلب لال قلعہ کے بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں 10 نومبر 2025 کو ایک خودکش بمبار نے درجنوں بے قصور لوگوں کی جان لے لی اور درجنوں کو ہی زخمی کر دیا غریب لوگوں کے آشیانے اور کاروبار اجڑ گئے بہت سے خاندان بے سہارا ہو گئے ،یہ اور اس قسم کے تمام ہی واقعات ہر حیثیت سے قابل مذمت ہیں ، ہر جانب سے اس کی مذمت بھی کی گئی ۔سوال جہاں ان خود کش بمباروں کی مذموم حرکتوں پر اٹھتے ہیں وہیں ملک کی سراغ رسا ں ایجنسیوں کی لاپرواہی پر بھی اٹھے ہیں۔ لیکن اس واقعے نے کئی نئی بحثوں کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ پہلا واقعہ تھا کہ جس میں ابتدائی تحقیقات کے مطابق اکثر ڈاکٹر ملوث پائے گئے ایک ڈاکٹر بننے کے لیے خاندان کے کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ یہ کون سی ذہنیت ہے کہ جس میں غریب اور متوسط خاندانوں کے خون پسینے کی گاڑی کمائی کو یوں ضائع کرنے پر ان گمراہ نوجوانوں کو ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی، بلکہ اس کو شہادت اور کار ثواب سمجھا جاتا ہے، جبکہ اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ پوری اسلامی تاریخ اور شریعت کا مطالعہ اس قسم کی خودکشی کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتا ۔دوسرا سوال تعلیمی اداروں پر بھی قائم ہو گیا کہ کہیں یہ تعلیمی ادارے تو یہ ذہنیت دینے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے ۔ایسے ہر بدقسمت واقع کے بعد جس انداز میں ہماری خضہ ایجنسیاں یکطرفہ انداز میں تحقیق کرتی ہیں وہی اس بار بھی ہوا کہ ساری توجہ صرف مسلمانوں اور ان کے ذریعے قائم کردہ تعلیمی اداروں کی طرف موڑ دی گئی۔ میڈیا نے بھی اپنا دیرینہ رویہ ہی اختیار کیا اور یکطرفہ طور پر کسی عدالتی تحقیق کے بغیر مسلمانوں کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ اس ماحول نے جہاں ایک طرف مسلم پیشہ ورانہ ماہرین کو قومی سطح پر مشکوک بنا دیا وہیں تعلیمی اداروں کو بھی مشکوک قرار دے دیا ۔پہلے جو بات غیر مصدقہ طور پر مدارس کے بارے میں کہی جاتی تھی وہی بات اب جدید تعلیمی اداروں پر بھی چسپاں کی جا رہی ہے۔ محض ایک الفلاح یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ مہاراشٹر میں اکل کوا کے معروف ادارے جامعہ اشاعت العلوم پر بھی شکنجہ کسا گیا ۔بہت سے میڈیکل کالج بھی زد میں آگئے لیکن برآمد کہیں سے کچھ نہیں ہوا۔اس سے جو نیا بیانیہ قائم ہوا وہ یہ ہے کہ مدارس اور اس کے علماء کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ ماہرین اور ادارے بھی اس قسم کےجرم میں شریک ہیں۔ گویا اب سوال پوری امت پہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ جب کہ خود سرکاری اعدادو شمار اور عدالتی کاروائیاں اور اس کے فیصلے چیخ چیخ کے گواہی دے رہے ہیں کہ اس قسم کے بیشتر واقعات میں پولیس کی تفتیش بالآخر غلط ثابت ہوئی اور جن کو ابتداپولیس نے ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا 20 ۔25 سال جیل میں گزارنے اور مقدمہ سہنے کے بعد وہ باعزت بری ہو گئے ۔لیکن پھر یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اس دہشت گردی کے اصل مجرم کون تھے گویا مجرمین صاف بچ گئے اور قصوروارٹھہرائے گئے ملزمین کو کوئی معاوضہ بھی نہیں ملا نہ ہی ان واقعات میں شہید یا زخمی ہونے والوں کو انصاف مل سکا۔
ممکن ہے یہ محض اتفاق ہو مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی ملک میں جہاد کو لے کر ایک بحث چھیر دی گئی ۔جو بلا شبہ قران میں مذکور ایک مقدس اسلامی اصطلاح ہے ۔ عالمی سطح پر گزشتہ 40 سال سے جہاد کو دہشت گردی کے معنوں میں استعمال کیا جارہا خود ملک میں بھی میڈیا نے اس اصطلاح کو ایک گالی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اسی طرح دیگر اسلامی اصطلاحات مثلا فتوی ،شریعہ ،خلافت وغیرہ کو بھی انتہائی منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر 2001 کے بعد سے اب تک ان اصطلاحات کو لے کر خود مسلمان اہل علم نادمانہ اور معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے ان کی قرار واقعی تشریح و تفہیم سے صرف نظر کرتے رہے ہیں ۔جبکہ قران حکیم کو اللہ کا کلام اور اس کےہر ہر لفظ کو وحی اور مقدس ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ قران میں مذکور ہر لفظ کی وضاحت کریں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔
جہاد کا مفہوم ،طریقہ کار اور غرض و غایت 1400 سال سے متعین ہے۔ مسلم یا غیر مسلم ہر ایک پر ہونے والے ظلم کا مقابلہ جب کسی اور طریقے سے ممکن نہ ہو تب ہتھیار اٹھانے کا حکم ہے ۔قران واضح طور پر فرماتا ہے کہ جن کی اولادوں کو قتل کر دیا جائے، گھروں سے باہر نکال دیا جائے مال و اسباب لوٹ لیے جائیں ان کی حرمت و آبرو بچانے اور ان کو تحفظ دینے کا کوئی دیگر طریقہ نہ بچے تو بزور طاقت ظلم کو روکا جائے ۔عربی لفظ جہاد کا سنسکرت متبادل’’ دھرم یدھ‘‘ اور انگریزی لفظ’’ کروسیڈ ‘‘کا استعمال بھی انہی معنوں میں ہوتا ہے۔ لیکن جہاد ایک باقاعدہ ریاست اور اس کے رہنما کی قیادت میں ہوتا ہے۔ ہر ہما شما کو ایک تنظیم کھڑا کر کے ہتھیار اکٹھا کر کے دوسروں پر حملہ کرنے کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ جہاد صرف اللہ کی خاطر انسانی سماج میں امن و امان کی خاطر باضابطہ طریقے سے کیا جاتا ہے، بے قصوروں پر ظلم یاکسی ذاتی یاسیاسی غرض کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔چنانچہ القاعدہ، داعش، بوکو حرام، الشباب ، حرکت جہاد،اور پڑوسی ملک میں اسلام اور جہاد کےنام سے قائم کسی بھی ہتھیار بند تنظیم کا جہاد سے مطلقا کوئی تعلق نہیں۔بدقسمتی سے افغانستان میں روسی تسلط کے خاتمے کے خاطر۱۹۸۰ کے بعد قائم ’’ القاعدہ اور طالبان ‘‘تحریک نے پہلی بار یہ لفظ استعمال کر کے عالمی سطح پر اس کی غلط تشریح کی۔ نیز 2001 میں امریکی ٹاور پر جہاز مارنے کے واقعے کے بعد جب صدر جارج بش نے بھی کروسیڈکا لفظ غلط طور پر استعمال کیاتو اس کے بالمقابل لفظ جہاد استعمال کیا جانے لگا۔ اور اسے دہشت گردی کے معنوں میں بولا جانے لگا۔جبکہ دہشت گردی بالکل الگ ایک اصطلاح ہے۔
دہشت گردی کا لفظ پہلی بار 1875 میں فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کے انگریزی اخبار ’’دی ٹائمز‘‘ نے استعمال کیا تھا ۔تب سے لے کر آج تک لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ سینکڑوں گھنٹے کی بحث کے بعد بھی دہشت گردی کی عالمی طور پر متفقہ تعریف متعین نہیں کر پائے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کسی گمراہ مسلمان فرد یا تنظیم کی طرف سے کوئی بھی پر تشدد واقعہ انجام دیا جائے تو وہ دہشت گردی کہلاتا ہے۔ عالمی سطح پر اب اسے جہادقرار دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اب سے چند سال قبل تک صرف مسلمانوں سے متعلق واقعات کو ہی دہشت گردی کہا جاتا تھا۔۱۹۶۹ سے جاری نیکسلائٹ موومنٹ کو’’نکسل واد‘‘ ، شمال مشرقی ریاستوں کے تشدد کو’’انسرجنسی ‘‘پنجاب کے تشدد کو ’’ملٹینسیی ‘‘اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں تمل تحریک کو ’’ایتھنک وائلنس ‘‘کہا جاتا رہا ہے ۔ اس دوران تنہاکشمیر کی مزاحمت کو ’’ٹیررازم ‘‘ کہا گیا۔ اس اصطلاحی تفریق کا کیا مطلب ہے اس کی وضاحت کبھی نہیں کی گئی۔ جبکہ بلا تفریق ہر قسم کے تشدد کو بروقت روکنا اور امن و انصاف قائم کرنا تمام حکومتوں ،سماج اور انسانیت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
دنیا میں ایک عرصے سے تشدد کا ایک اور طریقہ بھی رائج ہے جسے مزاحمت یا ’’ ریزسٹنس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ تشدد ہوتا ہے جو کسی حکومت کے جبر و استبداد کے خلاف بپا ہوتاہے ۔یہ تحریک بھی انفرادی نہیں ہوتی بلکہ عوامی طور پر منظم تحریک ہوتی ہے۔ عموما اس کا انداز جمہوری ہی ہوتا ہے لیکن جب سرکاری پولیس اور فوج کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ متشدد ہو جاتی ہے۔ خود ہمارے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک حق خود راویت کی ہی جنگ تھی جسے غلط طور پر’’ جہاد آزادی‘‘ کا نام دے دیا گیا ۔ ہندی میں اس تحریک کو کبھی دھرم ید ھ نہیں بلکہ ’’سوتنتترتا سنگرام‘‘ کہا گیا، اردو میں تحریک آزادی اور انگریزی میں ’’فریڈم موومنٹ‘‘ کہا گیا ،مگر انگریز اسے دہشت گردی ہی کہتے تھے۔ ایسی ہی آزادی کی تحریکات آج بھی دنیا میں کئی مقامات پر جاری ہیں۔ فلسطین کی تحریک آزادی اس کی سب سے نمایاں مثال ہے، جو حق خودارادیت کے لیے مزاحمت کی تحریک ہے۔ یہ نا دہشت گردی ہے اور نہ ہی جہاد ۔یہی وجہ ہے کہ چند متعلقہ ملکوں کے سوا بھارت سمیت کسی بھی عالمی فورم نے فلسطینی تحریک آزادی کو کبھی دہشتگردی قرار نہیں دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں جہاد کی اصطلاح کو دانستہ طور پر اسلامو فوبیا کے فروغ کے لیے مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے وہیں مسلم علماء و دانشور اس پر مطلع صاف کرنے میں جھجھکتے ہیں۔ دہشت گردی اور مزاحمت کے مابین بہت باریک سا فرق پایا جاتا ہے ۔عموما مزاحمت کو متعلقہ سرکاریں دہشت گردی قرار دے دیتی ہیں۔ خود مزاحمت کار بھی اکثرحد پار کر جاتے ہیں تو دہشت گردی کے زمرے میں ا ٓجاتے ہیں۔ مثلا ملک میں کشمیر کی تحریک کا آغاز ایک زمانے میں تحریک مزاحمت کے طور پر ہی ہوا تھا ،اس پر حریت جیسے مزاحمت کار گروہوں سے گفت و شنید بھی ہوتی رہی جو عموما ناکام رہی، لیکن 1990 کے بعد مملکت خداداد کے نام پر وجود میں آئےپڑوسی ملک نے اپنے سیاسی مفاد کے خاطر ان مزاحمت کاروں کے ہاتھوں میں پیسہ اور ہتھیار تھما کر ان کو دہشت گردی کی طرف مائل کر دیا اور گفتگو کے عمل کو ناکام بنا دیا۔ سیاسی، سماجی ، اقتصادی طور پر ناکام اس ملک کے پاس اپنے عوام کو بہلانے کے لیے بھارت میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے سوا کوئی دوسرا ہتھیار نہیں بچا ہے۔ چنانچہ ایک باضابطہ حق خود ارادیت کی تحریک کو پہلے دہشت گردی میں بدلا اور اب اسے جہاد کا نام دیا جا رہا ہے ۔اس نام پر معصوم نوجوانوں کی ذہن سازی کر کے ان کو گمراہ اور ان کے خاندانوں کو برباد کیا جا رہا ہے ۔نیزاسلام کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے۔ اور اس کا خمیازہ کشمیر کے ایک کروڑ مسلمان اور ملک بھر کے بے قصور لوگ بھگت رہے ہیں ۔چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ملت کے ارباب حل و عقد ان مسائل پر عمیق مطالعہ اورپوری جرات کے ساتھ سامنے آئیں اور دو اور دو چار کی طرح حقیقی صورتحال کو عوامی طور پر واضح کریں۔