پسِ آئینہ: سہیل انجم
میڈیا میں کئی روز سے یہ خبر گشت کر رہی تھی کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات نے اردو الفاظ کے زیادہ استعمال پر بعض ہندی نیوز چینلوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس پر انصاف پسند طبقات اور محبان اردو کی جانب سے ردعمل کا آنا فطری تھا۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر حکومت کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی گئی اور بعض حلقوں کی جانب سے اسے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے تعبیر کیا گیا۔ جب ردعمل کا سلسلہ بڑھتا ہی گیا تو حکومت کو اپنی پوزیشن صاف کرنے کا خیال آیا اور اس نے 21 ستمبر کو ایک بیان جاری کرکے اس خبر کو گمراہ کن قرار دیا۔ سرکاری ادارے ’پریس انفارمیشن بیورو‘ (پی آئی بی) کے فیکٹ چیک یونٹ نے ایکس پر ایک پوسٹ ڈالی اور لکھا کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ایک ناظر (ٹی وی دیکھنے والے ایک شخص) کی شکایت نیوز چینلوں کو ’کیبل ٹی وی نیٹ ورک ایکٹ‘ کے تحت فارورڈ کی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایکٹ کے مطابق ایک مخصوص فیصد تک کی عوامی شکایات متعلقہ افراد کو بھیجی جاتی ہیں۔ یہ کوئی ہدایت نہیں ہے بلکہ شکایت کو ان تک پہنچانا ہے۔ فیکٹ چیک یونٹ نے مزید کہا کہ وزارت نے چینلوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ شکایت کنندہ کو ایکشن ٹیکن رپورٹ ارسال کریں اور ریگولیشن ایکٹ کے تحت وزارت کو باضابطہ طور پر اطلاع دیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات میں انڈر سکریٹری نونیت کما رنے 18 ستمبر کو مذکورہ چینلوں کو انفرادی خطوط ارسال کیے تھے۔ جن میں نیوز چینلوں کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک ایکٹ کے تحت کارروائی کی بات کہی گئی تھی۔ انھیں پندرہ دن کے اندر جواب دینے کو کہا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ شکایت یا ہدایت ٹی وی نائن بھارت، آج تک، اے بی پی نیوز، زی نیوز اور ٹی وی 18 جیسے ہندی چینلوں کو بھیجی گئی تھی۔
دراصل تھانے مہاراشٹر کے ایک وکیل ایس کے سری واستو نے 9 ستمبر کو شکایت اور حل سے متعلق حکومت کے ایک ادارے ’سی پی جی آر اے ایم ایس‘کے پورٹل پر شکایت درج کرائی تھی کہ مذکورہ ہندی نیوز چینل اپنی نشریات میں تقریباً تیس فیصد اردو کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے اسے عوام کے ساتھ فراڈ، دھوکہ اور ایک مجرمانہ فعل قرار دیا۔ انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ چینلوں کو ہدایت دی جائے کہ وہ اپنے یہاں زبان کے ایک ماہر کا تقرر کریں اور اس کے تصدیق نامہ کو اپنی ویب سائٹ پر دکھائیں۔ انھوں نے ایک میڈیا ادارے ’دی وائر‘ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ہندی چینل ’بیٹھئے کی جگہ پر تشریف رکھیئے اور فلڈ کی جگہ پر سیلاب‘ بولتے ہیں۔ ادھر وزارت اطلاعات و نشریات نے اپنی وضاحت میں یہ جتانے کی کوشش کی کہ اس معاملے میں اس کا دامن صاف ہے اور اس نے تو صرف ایک شکایت کو فارورڈ کیا ہے۔ لیکن اگر اس کا مقصد صرف فارورڈ کرنا تھا تو اس نے یہ کیوں ہدایت دی کہ ایکشن ٹیکن رپورٹ شکایت کنندہ اور وزارت کو باضابطہ طور پر بھیجی جائے۔ اس کا مطلب وہ چاہتی ہے کہ اس شکایت پر کارروائی ہو اور اردو کے الفاظ کا استعمال کم کیا جائے۔ تاہم اس کے دعوے کے باوجود مذکورہ فیکٹ چیک سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وزارت نے اردو الفاظ کے استعمال پر نیوز چینلوں سے وضاحت طلب کی ہے۔
بعض ریاستیں بھی اردو کے خلاف ہدایات جاری کرتی رہتی ہیں۔ 14 جون کو راجستھان کے وزیر مملکت جواہر سنگھ بیدھام نے ریاست کے پولیس محکمے کو سرکاری دستاویزات میں اردو اور فارسی کے الفاظ کی جگہ پر ہندی اور انگریزی الفاظ کے استعمال کی ہدایت دی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ پولیس محکمہ، شکایت کنندگان اور عوام میں اردو زبان سے لاعلمی کی وجہ سے اردو الفاظ کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے اور ان کا غلط مطلب نکالا جاتا ہے جس کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے۔ اسی طرح چھتیس گڑھ کی حکومت نے سرکاری دستاویزات میں اردو اور فارسی کے الفاظ استعمال نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس نے حلف نامہ کی جگہ شپتھ پتر، دفعہ کی جگہ دھارا، فریادی کی جگہ شکایت کرتا اور چشم دید کی جگہ پرتیکش درشی جیسے الفاظ کے استعمال پر زور دیا ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اردو کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ چند سال قبل دہلی ہائی کورٹ نے بھی پولیس تھانوں میں استعمال ہونے والی زبان کی جگہ پر آسان زبان کے استعمال کی ہدایت دی تھی۔ اس نے جن الفاظ کی مثال دی تھی ان میں سے کچھ یوں ہیں: استغاثہ، اندراج، عدم تعمیل، انسداد جرائم، مشتبہ، مسماة، سرزد، عدم پتہ، قابلِ دست درازی، آتش گیر اشیا، اقبالِ جرم، اعترافِ جرم، ازالہ حیثیتِ عرفی، زنا بالجبر، تحقیر اختیار جائز، تصرفِ بیجا، حبسِ دوام، مجمع خلافِ قانون، مستثنیاتِ عامہ اور نشانِ صرفہ وغیرہ۔ مشکل الفاظ کو ہٹانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن آسان الفاظ کا ہٹانا کیا ہو سکتا ہے۔
پولیس تھانوں، عدالتوں اور سرکاری دستاویزات میں آسان زبان کے استعمال اور اردو الفاظ کو ہٹانے کے سلسلے میں گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن نیوز چینلوں کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہے۔ وہ آسانی سے عوام کی سمجھ میں آجانے والے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں خواہ وہ ہندی کے ہوں یا اردو کے۔ بلکہ بہت سے ہندی والے تو اردو کے متعدد الفاظ کو ہندی بتاتے ہیں تاکہ ان کے استعمال کا جواز پیدا ہو سکے۔ اگر نیوز چینل آسان اردو لفظ کی جگہ پر مشکل ہندی لفظ کا استعمال کریں گے تو کون سمجھے گا۔ یہ بات درست ہے کہ ہندی چینل اردو کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں لیکن وہی جو عوام کی سمجھ میں آجائیں۔ اب بتائیے تشریف رکھیئے کتنا خوبصورت اور مہذب لفظ ہے اور آسان بھی۔ اسی طرح باڑھ کے مقابلے میں سیلاب ایک خوبصورت لفظ ہے۔ ’چشم دید‘ کی جگہ پر ’پرتیکش درشی‘ اور ’حلف نامہ‘ کی جگہ پر ’شپتھ پتر‘ کتنے فیصد لوگ سمجھیں گے۔ یہ دونوں لفظ مشکل بھی ہیں۔ جبکہ چشم دید اور حلف نامہ جیسے لفظ کتنے آسان ہیں۔ دراصل اردو الفاظ کا استعمال ہندی چینلوں کی مجبوری ہے۔ ہم نے چند سال قبل این ڈی ٹی وی، آج تک، دور درشن، آل انڈیا ریڈیو اور دینک جاگرن وغیرہ میڈیا اداروں میں ایک نمائندہ سروے سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ان کی رپورٹوں میں بیس سے پچیس فیصد تک اردو کے الفاظ ہوتے ہیں۔ لیکن ان الفاظ کے استعمال کی مخالفت کرنا دراصل اردو دشمنی کی ایک اور مثال ہے۔ اب تو جشن روشنی جیسا خوبصورت لفظ بھی پسند نہیں۔ اس تنازعے کو مذہبی رنگ بھی دیا جاتا ہے۔ اردو دشمنی میں نجی افراد ہی نہیں بلکہ سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے نوٹس کی روشنی میں اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر اردو الفاظ کی مخالفت کرنے والوں سے کہا جائے کہ اردو کا کوئی بھی لفظ استعمال کیے بغیر صرف پانچ منٹ بول کر دکھا دیں تو ان کی ساری چرب زبانی ہوا ہو جائے گی۔ ہندی فلمیں اردو الفاظ کے استعمال کے بغیر نہیں بن سکتیں۔ نغمہ نگار حضرات صرف ہندی میں گانے لکھ کر مقبول بنائیں تو جانیں۔ دراصل اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب بھی ہے جو کہ ہندوستانی معاشرے میں رچی بسی ہے۔ اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے چند ماہ پیشتر اردو کے سلسلے میں جو تاریخی فیصلہ سنایا تھا اس میں اس نے کہا تھا کہ ’آج بھی عوام جو زبان بولتے ہیں اس میں اردو الفاظ کی بھرمار ہے۔ یہاں تک کہ جو اردو نہیں جانتے وہ بھی اردو کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کوئی بھی شخص اردو کے الفاظ یا اردو سے اخذ کیے گئے الفاظ کے استعمال کے بغیر روزمرہ تبادلہ خیالات نہیں کر سکتا‘۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اردو دشمنی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
موبائل: 9818195929