پسِ آئینہ: سہیل انجم
حالیہ دنوں میں سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کئی انٹرویوز دیے ہیں۔ جن میں سب سے طویل انٹرویو انڈیا ٹوڈے گروپ کے ادارے للّن ٹاپ کے ایڈیٹر سوربھ دویدی کو دیا جانے والا انٹرویو تھا جو کہ تین گھنٹہ 23 منٹ پر مشتمل تھا۔ ہم نے اس انٹرویو میں کہی گئی ان کی باتوں پر اظہار خیال کرنے کو سوچا تھا۔ لیکن اسی درمیان ایک میڈیا ادارے ’نیوز لانڈری‘ کے لیے این ڈی ٹی وی کے سابق سینئر رپورٹر سری نواسن جین نے ان کا انٹرویو کیا جس نے تہلکہ مچا دیا۔ اس دھماکہ خیز انٹرویو میں جسٹس چندرچوڑ اپنا دفاع کرنے کے چکر میں بے نقاب ہو گئے۔ ہم نے دونوں انٹرویوز دیکھے۔ سوربھ دویدی کا لیا گیا طویل انٹرویو بہت پھسپھسا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ان کا مقصد سابق چیف جسٹس کی امیج، کو جو کہ بابری مسجد کیس میں سنائے گئے فیصلے سے داغدار ہو گئی ہے، چمکانا تھا۔ جبکہ سری نواسن جین نے بالکل صحافیانہ چابک دستی سے سوالات پوچھے جن میں وہ پھنستے چلے گئے۔ ایسے انٹرویوز پہلے ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب سے گودی میڈیا کو عروج حاصل ہوا ہے ایسے شاندار انٹرویو کے لیے ترس جانا پڑتا ہے۔
سری نواسن جین کا انٹرویو بنیادی طور پر ایودھیا فیصلے پر مرکوز تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جسٹس چندرچوڑ نے جو کچھ کہا وہ بالکل آر ایس ایس کی لائن پر تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایودھیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد کی جگہ پر پہلے کوئی مندر تھا یا کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد بنائی گئی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1949 میں بابری مسجد کے اندر غلط طریقے سے مورتیاں رکھی گئیں اور 1992 میں بابری مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ محکمہ ¿ آثار قدیمہ کی کھدائی میں بھی رام مندر یا کسی ڈھانچے کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن جب سری نواسن جین نے سوالات کیے تو انھوں نے حیرت انگیز طور پر یہ استدلال کیا کہ ’جس جگہ کو ہندو رام کی جائے پیدائش مانتے ہیں اس جگہ پر بابری مسجد کی تعمیر ہی دراصل بے حرمتی کا بنیادی عمل تھا‘۔ ان کی باتوں سے یہ تاثر ملا کہ ایودھیا فیصلہ آستھا کی بنیاد پر تھا شواہد کی بنیاد پر نہیں۔ ادھر سوربھ دویدی نے انٹرویو کے دوران ایودھیا فیصلے سے متعلق اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مرلی دھر کا بیان نقل کیا جس میں انھوں نے فیصلے پر تنقید کی ہے اور اسے ’بے مصنف‘ فیصلہ قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس معاملے کا فیصلہ پانچ ججوں کی بینچ نے دیا تھا لیکن اس پر کسی جج کا نام نہیں تھا۔ اس پر جسٹس چندرچوڑ نے جو بات کہی وہ ایک سابق چیف جسٹس کے شایانِ شان نہیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی مصلح بن جاتے ہیں۔ شاید وہ سماجی مصلح بننا چاہتے ہیں۔ میں ان کی بات سے متفق نہیں ہوں۔ سوربھ دویدی نے فیصلہ لکھنے سے قبل بھگوان کے سامنے بیٹھنے کے ان کے بیان کی جانب اشارہ کیا۔ اس پر انھوں نے کہا کہ اس تنازعے کو سو سال سے بھی زیادہ وقت بیت چکا تھا۔ تمام ججوں نے تبادلہ ¿ خیال کیا اور ہم نے طے کیا کہ ہم یہ نہیں لکھیں گے کہ فیصلہ کس نے لکھا۔ یہ کوئی عام مسئلہ نہیں تھا۔ اس لیے ہم لوگوں نے سوچا کہ اس کا فیصلہ کر دیا جائے۔ تاہم انھوں نے بھگوان کے پاس بیٹھنے سے متعلق، سوا اس کے کچھ نہیں کہا کہ ان کے گاوں کے لوگوں نے پوچھا تھا کہ آپ لوگ دماغی توازن کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ آستھا کی بنیاد پر فیصلہ دینے کے الزام کے بارے میں انھوں نے صرف اتنا کہا کہ سب کچھ فیصلے میں لکھا ہوا ہے۔ اس طول طویل انٹرویو میں وہ بات نہیں تھی جو سری نواسن جین کے انٹرویو میں تھی۔ البتہ اس میں بابری مسجد کے علاوہ عمر خالد کیس، جسٹس لویا کی موت، جسٹس یشونت ورما کی رہائش گاہ پر سوختہ نوٹوں کی بوریوں کی دستیابی، الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کی متنازع تقریر، دفعہ 370 اور ان کی رہائش گاہ پر وزیر اعظم نریندر مودی کی پوجا پر سوالات ضرور پوچھے گئے۔ لیکن کوئی بھی سوال چبھتا ہوا نہیں تھا۔
ان سے پوچھا گیا کہ عمر خالد پانچ سال سے جیل میں ہیں ان کو ابھی تک ضمانت کیوں نہیں ملی۔ جسٹس بیلا ترویدی کی بینچ میں یہ معاملہ کیوں بھیجا گیا جبکہ وہ اس وقت جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، وہاں لا سکریٹری تھیں۔ آپ نے کہا ہے کہ عمر خالد کے وکلا نے سات بار التوا مانگا۔ یعنی یہ کہا کہ ہمیں اگلی تاریخ دے دی جائے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔ سابق چیف جسٹس نے جو وضاحت پیش کی وہ نہ تو مکمل تھی اور نہ ہی مدلل۔ انھوں نے براہ راست کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ ایک طرح سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ عمر خالد کے وکلا اپنی پسند کے جج کے سامنے اس معاملے کی سماعت چاہتے تھے۔ انھوں نے کہا ’دیکھیے یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وکلا .... یا.... پولیٹیکل اسٹیبلشمنٹ کے حصہ ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم اپنا کیس اِس جج کے سامنے چلانا چاہیں گے اُس جج کے سامنے نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ ہمارے نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اگر ہم یہ فیصلہ کرنے کی طاقت کسی ایک شخص، وکیل یا کسی ایک پولیٹیکل اسٹیبلشمنٹ کے کسی حصے کو یا کسی سیاسی پارٹی کو دے دیں گے کہ ہم فلاں جج کے سامنے ہی کیس چلائیں گے تو یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ آپ عمر خالد اور شرجیل امام کی بات کر رہے ہیں۔ کل اگر کوئی صنعت کار کہے کہ میں اپنا کیس اس جج کے پاس لے جاوں گا، اس جج کے پاس نہیں کیونکہ وہ جج مزدوروں کے تئیں زیادہ نرم ہیں، مجھے مزدور حامی نہیں بلکہ صنعت حامی جج چاہیے تو اس میں ہمارے نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے‘۔ گویا انھوں نے بالواسطہ طور پر یہ کہنے کی کوشش کی کہ عمر خالد کے وکلا نے اپنی پسند کے جج کے سامنے اپنا کیس رکھنا چاہا۔ لیکن جب اس سلسلے میں ہم نے عمر خالد کے والد ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس سے وضاحت چاہی تو انھوں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ’اپنی پسند کا جج کبھی مانگا ہی نہیں گیا‘۔ واضح رہے کہ جہاں تک سات بار التوا مانگنے کا سوال ہے تو عمر خالد کے وکیل کپل سبل نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسا صرف دو بار ہوا تھا۔ ایک بار دفعہ 370 کے معاملے کی سماعت میں وہ مصروف تھے اور دوسری بار طبیعت ناساز تھی۔ لیکن جسٹس چندرچوڑ نے کپل سبل کی تردید کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ گویا یہ سوال بے جواب رہ گیا کہ عمر خالد وغیرہ کو پانچ سال جیل میں رہنے کے باوجود ضمانت کیوں نہیں دی گئی۔ یہ معاملہ عمداً جسٹس بیلا ترویدی کی بینچ کے حوالے کرنے کے بارے میں جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ عمداً ان کے پاس دینے کی بات غلط ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک نظام ہے اور اس کے تحت مقدمات ججوں کی بینچ کے سامنے جاتے ہیں۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی معاملہ جج نمبر دو اور جج نمبر پانچ کے پاس ہے اور جج نمبر دو ریٹائر ہو جاتے ہیں تو ان کی جگہ پر جج نمبر تین کے پاس معاملہ چلا جاتا ہے۔ بہرحال اتنے اہم معاملے سے متعلق سوال کا وہ کوئی واضح جواب نہیں دے سکے۔ یاد رہے کہ بہت پہلے انھوں نے اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ انھوں نے اے ٹو زیڈ کو ضمانت دی ہے۔ لیکن جب ان کو یاد دلایا گیا کہ اے ٹو زیڈ کے درمیان عمر خالد کا نام بھی آتا ہے، ان کو ضمانت کیوں نہیں دی گئی تو ان کی جانب سے خاموشی برتی گئی۔ بہرحال بہت سے معاملات میں ان کے جواب واضح اور قائل کن نہیں تھے۔ انھیں کھل کر اپنی بات رکھنی چاہیے تھی۔
موبائل: 9818195929