بچوں کا ادب اور اس کے تقاضے (۱) ... تحریر عبد المتین منیری

84 views
Skip to first unread message

Abdul Mateen Muniri

unread,
Feb 1, 2023, 6:55:57 AM2/1/23
to Abdul Mateen Muniri

 بچوں کا ادب اور اس کے تقاضے (۱) 

 تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل۔ کرناٹکا 

 

 (جامعہ اسلامیہ، جامعہ اسلامیہ  بھٹکل میں سنہ ۲۰۰۰ء رابطہ ادب اسلامی کا ایک سیمنیار بچوں کے ادب کے موضوع پر منعقد ہوا تھا،  جس میں ہندوستان بھر کے دارالعلوموں اور جامعات سے چنندہ اہل قلم اور دانشور شریک ہوئے تھے،اس موقعہ پر جامعہ آباد میں کتب اطفال کی ایک خوبصورت نمائش بھی سجائی گئی تھی، اس سیمینار کے کچھ عرصہ بعد جامعہ کے بطن سے فارغین کی ایک نسل اٹھی جسے ادب اطفال کی ایک تازہ دم تحریک اٹھانے کا شرف حاصل ہوا، جو بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت بن گئی ہے، اور جس کے ثمرات سے وطن عزیز مستفید ہورہا ہے، ۳ فروری ۲۰۲۳ء سے ادارہ ادب اطفال بھٹکل کا شروع ہونے والا کتاب میلہ اپنی نوعیت کا پہلا اور سنہرا قدم ہے، رابطہ کے سیمینار کے موقعہ پر اس ناچیز نے ایک برجستہ تحریر پیش کی تھی، افادہ عام کے لئے اسے دو قسطوں میں پیش کیا جارہا ہے، اللہ تعالی نے توفیق دی تو آئندہ ان شاء اللہ اس پر نظر ثانی اور ترمیم اضافہ کی کوشش کی جائے گی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

زندگی کے مراحل میں بچپن زرخیز زمین کی حیثیت رکھتا ہے، اس مرحلہ میں اچھے اخلاق و اوصاف حمیدہ کی جب کاشت ہوتی ہے تو آئندہ زندگی باغ و بہار بن کر ابھرتی ہے۔ بچپن میں بوئی ہوئی اعلیٰ قدریں جب پھل پھول دینے لگتی ہیں تو معاشرہ ان کی دل آویز خوشبوؤں سے مہک اٹھتا ہے۔ ہر مرد و عورت، جوان و بوڑھا بچپن سے گزر کر ہی زندگی کی آئندہ دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔ بچپن کی اہمیت زندگی میں کلید کی ہے اور یہی اہمیت ادیبوں کو مجبور کرتی ہے کہ اس نوخیز عمر کی مناسبت سے ادب کی تخلیق کریں، کیونکہ ادب کا تربیت و ثقافت، اخلاق کے سنوار و بگاڑ، جذبوں کے نشو ونما و وسعت خیال کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ادب زندگی پر ایسے دیرپا اثرات چھوڑتا ہے جو نفسیات، عقیدے، افکار و جذبات کو پروان چڑھانے میں ممد و معاون بنتے ہیں، یہ قوت مشاہدہ کو تیز کرتا ہے، علم و معرفت کے در کھولتا ہے، بچوں کی جسمانی و اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہوئے شخصیت کے نشوونما میں شریک ہوتا ہے۔

امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ نے ادب کی اسی اہمیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خلافت اسلامیہ کے زیرنگیں علاقوں کے گورنروں کو فرمان جاری کیا تھا کہ اپنے بچوں کو تیر اندازی اور گھڑسواری سکھائیں، انہیں رائج الوقت مثالیں اور اچھے اشعار یاد کرائیں۔

ادب اخلاقی تربیت، یگانگت و امداد باہمی کے جذبات کے فروغ کا اہم ذریعہ ہے۔ حسن عبارت و جمال فن کا ذوق پیدا کرتا ہے، یہ معلومات بڑھاتا ہے اور مؤثر انداز میں اپنی بات کے ابلاغ کا ڈھنگ سکھاتا ہے، یہ دوسروں کی بات سمجھنے اور رد عمل میں اپنے جذبات کے اظہار کا شعور بخشتا ہے، یہ فکر کو بالیدگی دے کر پریشانی فکر کے مقابلہ کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

ادب کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اس تعلق سے ناقدین نے الگ الگ تعبیریں کی ہیں جس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں ہے، لیکن اسلامی نقطۂ نظر کو دیکھا جائے تو ایک عظیم مفکر کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ :

’’ادب فنون جمیلہ میں سے ایک فن ہے، جو اپنے قاری و سامع پر بہجت و سرور کی کیفیت طاری کرتا ہے، اسلامی تطورات کی حدوں میں رہ کر لذت وراحت عطا کرتا ہے‘‘۔ یہ فرد کی اپنی ذات و چاروں طرف پھیلے ماحول کے سمجھنے میں مدد کرتا ہے، زندگی کی گزرگاہوں میں درپیش دباؤ و الجھنوں کے کم کرنے کا فطری علاج ہے، یہ بولنے اور لکھنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے، زبان کو الفاظ کے ذخیروں سے مالا مال کرتا ہے، افکار و خیالات کے افق کو وسیع کرتا ہے، اس کا مطالعہ ثقافت کو بڑھاتا ہے اور انسانی روابط کو استوار کرتا ہے۔

جہاں تک زندگی پر ادب کے اثر کا تعلق ہے مایہ ناز ادیب محمود العقاد نے بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ "کسی باغ میں ہوتے وقت آپ منقبض ہوتے ہیں، لیکن باغ میں کچھ وقت گزار کر نکلتے ہیں تو آپ کا دل منشرح ہوتا ہے، عجیب قسم کی خوشی و مسرت کا آپ کو احساس ہوتا ہے، حالانکہ باغ کے سبزہ زار، پھول پتیوں اور درختوں نے اپنی زبان سے ایک لفظ آپ سے نہیں کہا"۔

ادب نے پہلے پہل مصر کے عبادت خانوں میں ایزویس اور اوزیریس کے خیالی قصوں میں جنم لیا، پھر یہ تقسیم در تقسیم ہوتا گیا، کبھی یہ زبانوں سے منسوب ہوکر عربی، انگریزی اور فرانسیسی ادب کہلایا اور تقسیم مزید کے بعد برطانوی انگریزی ادب، امریکی انگریزی ادب و ہندوستانی انگریزی ادب کہلایا۔

زمانوں سے منسوب ہوکر یہ ادب جاہلی، ادب عباسی، اٹھاروین صدی کا ادب، انیسویں صدی کا ادب، جنگ عظیم دوم کے بعد کا ادب، ۱۹۴۷ء کے بعد کا ادب سے موسوم کیا گیا، اسے نسلوں کی طرف بھی نسبت دی گئی اور کالے امریکیوں کے ادب کے نام سے مستقل اس کی ایک صنف بنی۔

لکھنے والوں نے جب پڑھنے والوں کے معیار کا خیال رکھا تو عورتوں اور بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب کے نام سے ایک مستقل صنف نے جنم لیا، اور اس صنف نے اتنی ترقی کی کہ جرمنی کے شہر میونخ کے عالمی کتب خانہ میں بچوں کے ادب پر مشتمل سات کلو میٹر طویل الماریوں کی قطار بنی، جن میں ایک سو دس زبانوں میں لکھی  گئی اندازاً پانچ لاکھ کتابیں محفوظ ہیں، لہذا اب بچوں کے ادب کے مستقل ادب ہونے کا انکار چلچلاتی دھوپ میں روشن سورج کے وجود کا انکار کرنا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ اسلامی دور میں کلیلہ و دمنہ و الف لیلہ و لیلہ جیسی بچوں کے ادب کی مایہ ناز کتابیں منظر عام پر آئیں، حدیث و تاریخ کے ذخیرے میں بچوں کے ادب میں شمار کیے جانے کے قابل قیمتی مواد محفوظ رہا، لیکن اس ادب کو مستقل صنف کا درجہ دور حاضر میں اس وقت ملا جب سترہویں صدی میں فرانس کے تشارلز بیرو نے ’’میری ماں نہیں کی کہانیوں‘‘ کا مجموعہ شائع کیا، اور اس ڈر سے کہ کہیں اس کی ادبی شخصیت مجروح نہ ہوجائے، کتاب پر اس نے اپنا نام درج نہیں کیا، لیکن خلاف توقع جب اس کتاب کو بے پناہ شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی تو اس نے اپنا دوسرا مجموعہ ’’گزشتہ زمانے کے قصے کہانیاں‘‘ اپنے نام سے شائع کی، لیکن اس کی مزید تقسیم و تخصیص بچوں کے اسلامی ادب کے نام سے کرنی کیا روا ہوگی، تو اس سلسلے میں طہ حسین کا قول پیش کرنا کافی ہوگا کہ "دنیا کی تمام زبانوں کا ادب نظم و نثر پر منقسم ہوتا ہے سوائے عربی زبان کے، اس میں ایک تیسری قسم قرآن پاک زیادہ ہے، یہ تیسرا ادب انسان کی طاقت و بساط سے بالاتر ہے، اب کوئی قبول کرے یا نہ کرے، جب تک اس دھرتی پر کلام اللہ موجود ہے اسلامی ادب کے وجود کا انکار ناممکن ہے"۔

جب بچوں کے اسلامی ادب کی بات ہو تو یہ نکتہ فراموش نہیں ہونا چاہئے کہ یہ پند و نصائح اور سوانح عمری کا نام نہیں ہے، ادب تخلیق کا متقاضی ہے، بچوں کے لیے آسان کتابیں لکھنا اور ادب تخلیق کرنا دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، لہذا یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ حضرت خالد بن الولیدؓ کے کارناموں پر لکھی گئی کتاب تاریخ میں شمار ہوگی، جب انہیں ڈرامہ و قصہ کہانی اور خوبصورت انشاء کی شکل میں ڈھالا جائے گا تو یہ ادب میں شمار ہوگی۔ جزیرہ نمائے عرب کا جغرافیہ ادب میں شمار نہیں ہوسکتا، لیکن سفرنامہ تو ادب کی مستقل صنف ہے، بچوں کی کتابوں کی تقسیم کے تعلق سے خلط مبحث عام بات ہے، لوگوں پر زیادہ تر یہ باریک فرق واضح نہیں ہوپاتا، لہذا درسی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہر کتاب کا شمار ادب میں ہونے لگا ہے۔ نظم و شعر ادب کا ایک اٹوٹ انگ ہے، الفیہ بن مالک اور متن الزبد کو تعلیمی ادب کی قید کے ساتھ شمار کیا جائے ایک الگ بات ہے، مطلقاً ادب میں ان کا شمار نہیں ہوگا۔

WhatsApp:00971555636151

 

https://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/



Abdul Mateen Muniri
Bhatkal- Karnataka

Reply all
Reply to author
Forward
0 new messages