(ناصر کاظمی)
٭
کمرے کی جھلملیوں سے صبح کے نور کی پہلی
کرن شرماتی لجاتی اندر داخل ہو ئی۔
سامنے دیوار پر کلاک ایک سے بارہ اور پھر
بارہ سے ایک تک مسلسل سفر کر رہا تھا۔ ٹکِ
۔ٹک۔ِٹکِِ ۔ٹک
عمران صاحب کی آنکھ کھلتے ہی نظر سامنے
رکھی تصویر پر پڑی۔ ابھی جیسے کل کی ہی
بات ہے کہ شاہینہ نے کہا تھا کہ اس سال
فرحان کو اسکول میں داخل کرنا ہے۔ اور اب
یہ فرحان صدّیقی آ ئی۔سی۔ایس۔ اضلاع کے
دوروں پر گھومتا رہتا ہے۔ ابھی روحی آۓ
گی، صبح کی چاۓ ہمیشہ وہی اپنے ہاتھ سے لا
کر دیتی ہے اور کچھ فرحان کی خبر سناۓ گی
کہ پچھلی رات فرحان نے اس سے فون پر کیا
کہا۔ شاید۔ انھوں نے تھکے تھکے سے انداز
سے آرام کرسی پر بیٹھتے ہوۓ سوچا۔ شاید
وتت نہیں بیتتا، ہم بیت جاتے ہیں۔ ٹک۔
ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ کلاک مسلسل چیخ رہا تھا۔
باہر باغ میں اشوک کے درختوں پر لا تعداد
پرندے اپنی ایک ساں آواز میں چلاّۓ جا
رہے تھے۔ انھوں نے اٹھ کر کھڑکی کھول دی
۔سڑک کے پار سامنے کے بنگلے کے باورچی
خانے میں چولھا سلگا دیا گیا تھا اور
دھواں اٹھ رہا تھا۔ ماحول میں کتنی شدید
یکسانیت ہے۔ انھوں نے پھر سوچا اور پھر
اپنی آرام کرسی پر واپس ہوۓ۔ عمران صاحب
کو اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ ابھی سامنے
کے بنگلے سے کہکشاں اور دوسرے بچوں
کےقہقہوں اور مسکراہٹوں کے غباّرے فضا
میں اڑنے لگیں تو۔۔۔۔!
٭
’کشی‘
کہکشاں نے چپ چاپ کروٹ بدلی۔
’اے کشی۔۔۔۔کہکشاں!‘
کہکشاں لحاف سے منہ نکالے بغیر کچھ کہنا
ہی چاہ رہی تھی کہ ایک لمبی ’شی۔۔۔۔۔‘
کی آواز آ ئی.۔
انور اپنے بستر سے اٹھ کر لہکشاں کی طرف
آیا۔ ۔’کشی۔ وہی اپنی کو ئل۔۔۔۔۔۔۔!‘
کہکشاں جھٹ پٹ اپنے بستر سے اچھلی۔ اور
ماحول کی یخ زدگی سے بے خبے بغیر گرم
کپڑوں کے دونوں پیچھے باغ میں نکل آۓ۔
’کل بھی ایسی ہی آواز تھی نا!۔۔۔ کیوں ہے
نا کشی؟‘
’ہاں ۔یہ وہی اپنی کو ئل کی آواز لگ رہی
ہے‘
کو ئل اب بھی اسی طرح پکارے جا رہی تھی۔’
کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو
۔کو‘
’نانی جان کہہ رہی تھیں کہ یہ اللہ میاں
کو پکارتی ہے۔ تو۔۔۔تو۔۔۔ ہیں انو ّ
بھیا ّ؟‘ کہکشاں نے ’تو۔۔‘ کویل کی
آواز کی نقل کرتے ہوۓ کہا۔ انورنے کوئی
جواب نہیں دیا۔ کہ اسے یک لخت یاد آ گیا
تھا کہ اسے بھی تو کوئل کی پکار کا جواب
دینا ہے۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو
۔کو‘ کوئل چلائی۔
’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو
۔کو‘ انور کے ساتھ کہکشاں نے بھی جواب
دیا۔
’یہی ہماری کوئل ہے جو روز اس پیپل کے
پیڑ پر آ کر بولتی ہے۔ شاید یہاں ہی کہیں
رہتی ہو‘ کہکشاں بولی۔ ٹھنڈی ہوا سے اس
کی آنکھیں مچمچانے لگیں تھیں۔
’کشی! اس کوئل کا کچھ نام دیا جاۓ۔ اب یہ
ہماری تو ہو ہی گئی ہے۔ جیسے ہمارا کتاٌ
نہیں ہے سولجر‘
’ہاں ہاں۔ سوچو کوئی اچھا سا نام۔‘
دونوں سوچنے لگے۔
’کالو‘ کشی نے مشورہ دیا۔ ’کوئل کالی
ہوتی ہے نا۔۔!‘
مگر انور کے ذہن میں جمعدارنی کا لڑکا
کالو گھوم گیا۔ ’ اونہہ۔ کالو بھی کوئی
نام ہے بھلا! اور پھر کالو تو لڑکوں کے
نام ہوتے ہیں۔ پھر کیا پتہ یہ کوئل نر ہے
یا مادہ‘
کوئل پھرسےپیپل کی شاخ سے اڑ کر پورب کی
طرف چلی گئی۔ آموں کے درختوں کی طرف۔
’تو کیا کوئل نر بھی ہوسکتی ہے یا ہو
سکتا ہے‘ ۔کہکشاں گڑبڑا گئی۔ اسے کوئل
کے نر ہونے کے امکان پر سخت تعجبّ ہوا
تھا۔
’اے انور کہکشاں! وہاں باغ میں پہنچ گۓ
ہو۔ سوئیٹر کوٹ تو پہن لیتے! او چچیّ جان!
دیکھۓذرا انوّ اور کشی کو۔ باغ میں بغیر
گرم کپڑوں کے گھوم رہے ہیں۔ سردی لگ جاۓ
گی۔‘ شکیلہ باجی برامدے سے چلاّ رہی
تھیں۔ مگر انوّ اور کہکشاں بھاگ کر اپنے
کمرے میں پہنچ چکے تھے اور جلدی جلدی
سوئیٹر پہن کر خود کو بے حد محفوظ محسوس
کر رہے تھے۔ ویسے ان کو یہ بھی یقین تھا
کہ امیّ پر شکیلہ باجی کی بات کا کچھ خاص
اثر نہ ہوگا۔ اور اس وقت تو امیّ کسی کام
سے غفور کو پکار رہی تھیں جو شاید اب تک
بوا کی کوٹھری میں سو رہا تھا۔
ِِِ٭
٭
’سات سمندر گوبھی چندر، بول میری مثھلی
کتنا پانی۔۔۔۔؟‘
.اتنا پانی۔۔۔‘
صبیحہ اور کہکشاں نے محلےّ کی کئی بچیوّں
کو اکٹھاّ کر رکھا تھا اور کھیل زوروں
میں جاری تھا کہ امیّ نے آواز لگائی۔۔۔
’دونوں وقت ملِ رہے ہیں۔ اب بند بھی
کرو‘ اور مچھلی نہ جانے کتنے پانی میں آ
کر رک گئی۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ خاور اور
انور دور کھڑے آسمان پر اڑتے بگولوں کی
قطار دیکھ رہے تھے۔
’اللہ دے رسول بخش۔ بگلے بگلے پھول بخش
‘
ان کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ مستقل
گردان کیے جا رہے تھے۔ پھر انور نے دھیرے
سے آنکھیں کھولیں اور ’شگون‘ کے لیے
پہلے بگلوں کی طرف دیکھا جو مشرق کی طرف
جنگلوں میں دھیرے دھیرے گم ہوتے جا رہے
تھے اور پھر اپنےہاتھوں کی انگلیوں کے
سارے ناخنوں میں کچھ تلاش کیا۔
’دیکھو دیکھو ‘ خاور نے بائیں ہاتھ کی
بیچ کی انگلی نچائی جس کے ناخن پر خشخاش
کے دانے کے برابر داغ پڑ گیا تھا۔ انور کا
دل بجھ سا گیا۔ بگلوں نے اسے کوئی پھول
نہیں بخشا تھا۔ اس کے ہاتھ کی کسی انگلی
کے ناخن میں کوئی داغ نہیں تھا۔وہ دھیرے
دھیرے نپے تلے قدموں سے برامدے کی طرف
آیا اور وہاں پڑی چار پائی پر بیٹھ کر
اپنے ناخن پھر سے غور سے دیکھنے لگا۔
’ہماری بیچ کی انگلی پکڑو۔۔ ‘ خاور نے
دائیں ہاتھ کی انگلیاں توڑ مروڑکر بائیں
ہاتھ کے پیالے میں پیش کر دیں۔ انور سوچ
میں پڑ گیا۔ بایاں ہاتھ ہوتا تو بگلے کے
بخشے پھول سے بیچ کی انگلی پہچان بھی
لیتا۔
’شاید یہ ہے۔ نہیں۔ یہ تو انگوٹھا ہے۔
یہ چھوٹی انگلی ہے جس میں کل میرے سامنے
گلاب کے پھول توڑتے ہوۓ تمھارے کانٹا چبھ
گیا تھا۔ ہاں۔ یہ رہی۔۔۔‘
اور اب انور مسکرا رہا تھا۔ اس نے صحیح
انگلی پکڑی تھی۔ اب اس نے بھی فوراً اپنی
بیچ کی ازنگلی پکڑوانے کے لۓخاور کے
سامنے دوسرے ہاتھ میں انگلیاں اس طرح
چھپا کر پیش کر دیں کہ ان کے صرف سرِے نظر
آ رہے تھے۔
’یہ ہے۔۔۔ ہیں۔۔۔۔؟‘
مگر خاور کی آنکھوں کی چمک معدوم ہو چکی
تھی۔ یہ انور کی چھوٹی انگلی کے پاس والی
انگلی تھی، بیچ کی نہیں۔